The Permission to Utter Evil in Public, For One Who Was Wronged
Allah says;
لااَّ يُحِبُّ اللّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوَءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلااَّ مَن ظُلِمَ وَكَانَ اللّهُ سَمِيعًا عَلِيمًا
Allah does not like that the evil should be uttered in public except by him who has been wronged. And Allah is Ever All-Hearer, All-Knower.
Ali bin Abi Talhah said that Ibn Abbas commented on the Ayah,
لااَّ يُحِبُّ اللّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوَءِ مِنَ الْقَوْلِ
(Allah does not like that the evil should be uttered in public),
"Allah does not like that any one should invoke Him against anyone else, unless one was wronged. In this case, Allah allows one to invoke Him against whoever wronged him. Hence Allah's statement,
إِلاَّ مَن ظُلِمَ
(except by him who has been wronged). Yet, it is better for one if he observes patience."
Al-Hasan Al-Basri commented,
"One should not invoke Allah (for curses) against whoever wronged him. Rather, he should supplicate, `O Allah! Help me against him and take my right from him."'
In another narration, Al-Hasan said,
"Allah has allowed one to invoke Him against whoever wronged him without transgressing the limits."
Abdul-Karim bin Malik Al-Jazari said about this Ayah;
"When a man curses you, you could curse him in retaliation. But if he lies about you, you may not lie about him.
وَلَمَنِ انتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُوْلَـيِكَ مَا عَلَيْهِمْ مِّن سَبِيلٍ
And indeed whosoever takes revenge after he has suffered wrong, for such there is no way (of blame) against them." (42:41)
Abu Dawud recorded that Abu Hurayrah said that the Messenger of Allah said,
المُسْتَبَّانِ مَا قَالاَ فَعَلَى الْبَادِي مِنْهُمَا مَا لَمْ يَعْتَدِ الْمَظْلُوم
Whatever words are uttered by those who curse each other, then he who started it will carry the burden thereof, unless the one who was wronged transgresses the limit.
Allah said,
إِن تُبْدُواْ خَيْرًا أَوْ تُخْفُوهُ أَوْ تَعْفُواْ عَن سُوَءٍ فَإِنَّ اللّهَ كَانَ عَفُوًّا قَدِيرًا
مظلوم کو فریاد کا حق ہے
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ کسی مسلمان کو دوسرے کو بد دعا دینا جائز نہیں ، ہاں جس پر ظلم کیا گیا ہو اسے اپنے ظالم کو بد دعا دینا جائز ہے اور وہ بھی اگر صبر و ضبط کر لے تو افضل یہی ہے ۔ ابو داؤد میں ہے حضرت عائشہ صدیقہ کی کوئی چیز چور چرا لے گئے تو آپ ان پر بد دعا کرنے لگیں ۔ حضور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا! کیوں اس کا بوجھ ہلکا کر رہی ہو؟ حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس پر بد دعا نہ کرنی چاہئے بلکہ یہ دعا کرنی چاہئے دعا ( اللھم اعنی علیہ واستخرج حقی منہ ) یا اللہ اس چور پر تو میری مدد کر اور اس سے میرا حق دلوا دے ، آپ سے ایک اور روایت میں مروی ہے کہ اگرچہ مظلوم کے ظالم کو کوسنے کی رخصت ہے مگر یہ خیال رہے کہ حد سے نہ بڑھ جائے ۔ عبدالکریم بن مالک جزری رحمتہ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں گالی دینے والے کو یعنی برا کہنے والے کو برا تو کہہ سکتے ہیں لیکن بہتان باندھنے والے پر بہتان نہیں باندھ سکتے ۔ ایک اور آیت میں ہے ( وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهٖ فَاُولٰۗىِٕكَ مَا عَلَيْهِمْ مِّنْ سَبِيْلٍ ) 42 ۔ الشوری:41 ) جو مظلوم اپنے ظالم سے اس کے ظلم کا انتقام لے ، اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں ۔ ابو داؤد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دو گالیاں دینے والوں کا وبال اس پر ہے ، جس نے گالیاں دینا شروع کیا ۔ ہاں اگر مظلوم حد سے بڑھ جائے تو اور بات ہے ۔ حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جو شخص کسی کے ہاں مہمان بن کر جائے اور میزبان اس کا حق مہمانی ادا نہ کرے تو اسے جائز ہے کہ لوگوں کے سامنے اپنے میزبان کی شکایت کرے ، جب تک کہ وہ حق ضیافت ادا نہ کرے ۔ ابو داؤد ، ابن ماجہ وغیرہ میں ہے صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ آپ ہمیں ادھر ادھر بھیجتے ہیں ۔ بعض مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہاں کے لوگ ہماری مہمانداری نہیں کرتے آپ نے فرمایا اگر وہ میزبانی کریں تو درست ، ورنہ تم ان سے لوازمات میزبانی خود لے لیا کرو ۔ مسند احمد کی روایت میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جو مسلمان کسی اہل قبلہ کے ہاں مہمان بن کر جائے اور ساری رات گذر جائے لیکن وہ لوگ اس کی مہمانداری نہ کریں تو ہر مسلمان پر اس مہمان کی نصرت ضروری ہے تاکہ میزبان کے مال سے اس کی کھیتی سے بقدر مہمانی دلائیں ۔ مسند کی اور حدیث میں ہے ضیافت کی رات ہر مسلمان پر واجب ہے ، اگر کوئی مسافر صبح تک محروم رہ جائے تو یہ اس میزبان کے ذمہ قرض ہے ، خواہ ادا کرے خواہ باقی رکھے ان احادیث کی وجہ سے امام احمد رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ کا مذہب ہے کہ ضیافت واجب ہے ، ابو داؤد شریف وغیرہ میں ہے ایک شخص سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہو کر عرض کرتا ہے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے میرا پڑوسی بہت ایذاء پہنچاتا ہے ، آپ نے فرمایا ایک کام کرو ، اپنا کل مال اسباب گھر سے نکال کر باہر رکھ دو ۔ اس نے ایسا ہی کیا راستے پر اسباب ڈال کر وہیں بیٹھ گیا ، اب جو گذرتا وہ پوچھتا کیا بات ہے؟ یہ کہتا میرا پڑوسی مجھے ستاتا ہے میں تنگ آ گیا ہوں ، راہ گزر اسے برا بھلا کہتا ، کوئی کہتا رب کی مار اس پڑوسی پر ۔ کوئی کہتا اللہ غارت کرے اس پڑوسی کو ، جب پڑوسی کو اپنی اس طرح کی رسوائی کا حال معلوم ہوا تو اس کے پاس آیا ، منتیں کر کے کہا اپنے گھر چلو اللہ کی قسم اب مرتے دم تک تم کو کسی طرح نہ ستاؤں گا ۔ پھر ارشاد ہے کہ اے لوگو تم کسی نیکی کو ظاہر کرو یا پوشیدہ رکھو تم پر کسی نے ظلم کیا ہو اور تم اس سے درگزر کرو تو اللہ کے پاس تمہارے لئے بڑا ثواب ، پورا اجر اور اعلیٰ درجے ہیں ۔ خود وہ بھی معاف کرنے والا ہے اور بندوں کی بھی یہ عادت اسے پسند ہے ، وہ انتقام کی قدرت کے باوجود معاف فرماتا رہتا ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ عرش کو اٹھانے والے فرشتے اللہ کی تسبیح کرتے رہتے ہیں ۔ بعض تو کہتے ہیں دعا ( سبحانک علی حلمک بعد علمک ) یا اللہ تیری ذات پاک ہے کہ تو باوجود جاننے کے پھر بھی برد باری اور چشم پوشی کرتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں دعا ( سبحانک علی عفوک بعد قدرتک اے قدرت کے باوجود درگذر کرنے والے اللہ تمام پاکیاں تیری ذات کے لئے مختص ہیں ۔ صحیح حدیث شریف میں ہے صدقے اور خیرات سے کسی کا مال گھٹتا نہیں ، عفو و درگذر کرنے اور معاف کر دینے سے اللہ تعالیٰ اور عزت بڑھاتا ہے اور جو شخص اللہ کے حکم سے تواضع ، فروتنی اور عاجزی اختیار کرے اللہ اس کا مرتبہ اور توقیر مزید بڑھا دیتا ہے ۔