Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 148

سورة النساء

لَا یُحِبُّ اللّٰہُ الۡجَہۡرَ بِالسُّوۡٓءِ مِنَ الۡقَوۡلِ اِلَّا مَنۡ ظُلِمَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ سَمِیۡعًا عَلِیۡمًا ﴿۱۴۸﴾

Allah does not like the public mention of evil except by one who has been wronged. And ever is Allah Hearing and Knowing.

بُرائی کے ساتھ آواز بلند کرنے کو اللہ تعالٰی پسند نہیں فرماتا مگر مظلوم کو اجازت ہے اور اللہ تعالٰی خوب سنتا جانتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Permission to Utter Evil in Public, For One Who Was Wronged Allah says; لااَّ يُحِبُّ اللّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوَءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلااَّ مَن ظُلِمَ وَكَانَ اللّهُ سَمِيعًا عَلِيمًا Allah does not like that the evil should be uttered in public except by him who has been wronged. And Allah is Ever All-Hearer, All-Knower. Ali bin Abi Talhah said that Ibn Abbas commented on the Ayah, لااَّ يُحِبُّ اللّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوَءِ مِنَ الْقَوْلِ (Allah does not like that the evil should be uttered in public), "Allah does not like that any one should invoke Him against anyone else, unless one was wronged. In this case, Allah allows one to invoke Him against whoever wronged him. Hence Allah's statement, إِلاَّ مَن ظُلِمَ (except by him who has been wronged). Yet, it is better for one if he observes patience." Al-Hasan Al-Basri commented, "One should not invoke Allah (for curses) against whoever wronged him. Rather, he should supplicate, `O Allah! Help me against him and take my right from him."' In another narration, Al-Hasan said, "Allah has allowed one to invoke Him against whoever wronged him without transgressing the limits." Abdul-Karim bin Malik Al-Jazari said about this Ayah; "When a man curses you, you could curse him in retaliation. But if he lies about you, you may not lie about him. وَلَمَنِ انتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُوْلَـيِكَ مَا عَلَيْهِمْ مِّن سَبِيلٍ And indeed whosoever takes revenge after he has suffered wrong, for such there is no way (of blame) against them." (42:41) Abu Dawud recorded that Abu Hurayrah said that the Messenger of Allah said, المُسْتَبَّانِ مَا قَالاَ فَعَلَى الْبَادِي مِنْهُمَا مَا لَمْ يَعْتَدِ الْمَظْلُوم Whatever words are uttered by those who curse each other, then he who started it will carry the burden thereof, unless the one who was wronged transgresses the limit. Allah said, إِن تُبْدُواْ خَيْرًا أَوْ تُخْفُوهُ أَوْ تَعْفُواْ عَن سُوَءٍ فَإِنَّ اللّهَ كَانَ عَفُوًّا قَدِيرًا

مظلوم کو فریاد کا حق ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ کسی مسلمان کو دوسرے کو بد دعا دینا جائز نہیں ، ہاں جس پر ظلم کیا گیا ہو اسے اپنے ظالم کو بد دعا دینا جائز ہے اور وہ بھی اگر صبر و ضبط کر لے تو افضل یہی ہے ۔ ابو داؤد میں ہے حضرت عائشہ صدیقہ کی کوئی چیز چور چرا لے گئے تو آپ ان پر بد دعا کرنے لگیں ۔ حضور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا! کیوں اس کا بوجھ ہلکا کر رہی ہو؟ حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس پر بد دعا نہ کرنی چاہئے بلکہ یہ دعا کرنی چاہئے دعا ( اللھم اعنی علیہ واستخرج حقی منہ ) یا اللہ اس چور پر تو میری مدد کر اور اس سے میرا حق دلوا دے ، آپ سے ایک اور روایت میں مروی ہے کہ اگرچہ مظلوم کے ظالم کو کوسنے کی رخصت ہے مگر یہ خیال رہے کہ حد سے نہ بڑھ جائے ۔ عبدالکریم بن مالک جزری رحمتہ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں گالی دینے والے کو یعنی برا کہنے والے کو برا تو کہہ سکتے ہیں لیکن بہتان باندھنے والے پر بہتان نہیں باندھ سکتے ۔ ایک اور آیت میں ہے ( وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهٖ فَاُولٰۗىِٕكَ مَا عَلَيْهِمْ مِّنْ سَبِيْلٍ ) 42 ۔ الشوری:41 ) جو مظلوم اپنے ظالم سے اس کے ظلم کا انتقام لے ، اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں ۔ ابو داؤد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دو گالیاں دینے والوں کا وبال اس پر ہے ، جس نے گالیاں دینا شروع کیا ۔ ہاں اگر مظلوم حد سے بڑھ جائے تو اور بات ہے ۔ حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جو شخص کسی کے ہاں مہمان بن کر جائے اور میزبان اس کا حق مہمانی ادا نہ کرے تو اسے جائز ہے کہ لوگوں کے سامنے اپنے میزبان کی شکایت کرے ، جب تک کہ وہ حق ضیافت ادا نہ کرے ۔ ابو داؤد ، ابن ماجہ وغیرہ میں ہے صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ آپ ہمیں ادھر ادھر بھیجتے ہیں ۔ بعض مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہاں کے لوگ ہماری مہمانداری نہیں کرتے آپ نے فرمایا اگر وہ میزبانی کریں تو درست ، ورنہ تم ان سے لوازمات میزبانی خود لے لیا کرو ۔ مسند احمد کی روایت میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جو مسلمان کسی اہل قبلہ کے ہاں مہمان بن کر جائے اور ساری رات گذر جائے لیکن وہ لوگ اس کی مہمانداری نہ کریں تو ہر مسلمان پر اس مہمان کی نصرت ضروری ہے تاکہ میزبان کے مال سے اس کی کھیتی سے بقدر مہمانی دلائیں ۔ مسند کی اور حدیث میں ہے ضیافت کی رات ہر مسلمان پر واجب ہے ، اگر کوئی مسافر صبح تک محروم رہ جائے تو یہ اس میزبان کے ذمہ قرض ہے ، خواہ ادا کرے خواہ باقی رکھے ان احادیث کی وجہ سے امام احمد رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ کا مذہب ہے کہ ضیافت واجب ہے ، ابو داؤد شریف وغیرہ میں ہے ایک شخص سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہو کر عرض کرتا ہے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے میرا پڑوسی بہت ایذاء پہنچاتا ہے ، آپ نے فرمایا ایک کام کرو ، اپنا کل مال اسباب گھر سے نکال کر باہر رکھ دو ۔ اس نے ایسا ہی کیا راستے پر اسباب ڈال کر وہیں بیٹھ گیا ، اب جو گذرتا وہ پوچھتا کیا بات ہے؟ یہ کہتا میرا پڑوسی مجھے ستاتا ہے میں تنگ آ گیا ہوں ، راہ گزر اسے برا بھلا کہتا ، کوئی کہتا رب کی مار اس پڑوسی پر ۔ کوئی کہتا اللہ غارت کرے اس پڑوسی کو ، جب پڑوسی کو اپنی اس طرح کی رسوائی کا حال معلوم ہوا تو اس کے پاس آیا ، منتیں کر کے کہا اپنے گھر چلو اللہ کی قسم اب مرتے دم تک تم کو کسی طرح نہ ستاؤں گا ۔ پھر ارشاد ہے کہ اے لوگو تم کسی نیکی کو ظاہر کرو یا پوشیدہ رکھو تم پر کسی نے ظلم کیا ہو اور تم اس سے درگزر کرو تو اللہ کے پاس تمہارے لئے بڑا ثواب ، پورا اجر اور اعلیٰ درجے ہیں ۔ خود وہ بھی معاف کرنے والا ہے اور بندوں کی بھی یہ عادت اسے پسند ہے ، وہ انتقام کی قدرت کے باوجود معاف فرماتا رہتا ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ عرش کو اٹھانے والے فرشتے اللہ کی تسبیح کرتے رہتے ہیں ۔ بعض تو کہتے ہیں دعا ( سبحانک علی حلمک بعد علمک ) یا اللہ تیری ذات پاک ہے کہ تو باوجود جاننے کے پھر بھی برد باری اور چشم پوشی کرتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں دعا ( سبحانک علی عفوک بعد قدرتک اے قدرت کے باوجود درگذر کرنے والے اللہ تمام پاکیاں تیری ذات کے لئے مختص ہیں ۔ صحیح حدیث شریف میں ہے صدقے اور خیرات سے کسی کا مال گھٹتا نہیں ، عفو و درگذر کرنے اور معاف کر دینے سے اللہ تعالیٰ اور عزت بڑھاتا ہے اور جو شخص اللہ کے حکم سے تواضع ، فروتنی اور عاجزی اختیار کرے اللہ اس کا مرتبہ اور توقیر مزید بڑھا دیتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

148۔ 1 شریعت نے تاکید کی ہے کہ کسی کے اندر برائی دیکھو تو اس کا چرچا نہ کرو بلکہ تنہائی میں اس کو سمجھاؤ۔ اسی طرح کھلے عام اور علی الاعلان برائی کرنا بھی سخت ناپسندیدہ ہے۔ ایک تو برائی کا ارتکاب ویسے ہی ممنوع ہے، چاہے پردے کے اندر ہی کیوں نہ ہو۔ دوسرا اسے سرعام کیا جائے یہ مزید ایک جرم ہے البتہ اس سے الگ ہے کہ ظالم کے ظلم کو تم لوگوں کے سامنے بیان کرسکتے ہو۔ جس سے ایک فائدہ یہ متوقع ہے کہ شائد وہ ظلم سے باز آجائے اور اس کی تلافی کی سعی کرے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے لوگ اس سے بچ کر رہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور کہا کہ مجھے میرا پڑوسی ایذا دیتا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فرمایا تم اپنا سامان نکال کر باہر راستے میں رکھ دو ، اس نے ایسا ہی کیا۔ چناچہ جو بھی گزرتا اس سے پوچھتا، وہ پڑوسی کے ظالمانہ رویے کی وضاحت کرتا تو سن کر ہر راہ گیر اس پر لعنت ملامت کرتا۔ پڑوسی نے یہ صورتحال دیکھ کر معذرت کرلی اور آئندہ کے لیے ایذاء نہ پہنچانے کا فیصلہ کرلیا اور اس سے اپنا سامان اندر رکھنے کی التجا کی۔ (سنن ابی داؤد کتاب الادب)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٩٧] مظلوم کس کس سے شکوہ کرسکتا ہے ؟ یعنی مظلوم کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اللہ کے حضور ظالم کے لیے بددعا کرے یا حاکم کے سامنے ظالم کا ظلم بیان کر کے اس سے استغاثہ چاہے یا دوسرے لوگوں سے بیان کرے تاکہ وہ اس ظالم کا ہاتھ روکیں، یا کم از کم خود ظالم کے اس قسم کے ظلم سے بچ جائیں۔ یا مثلاً اگر کسی نے اسے گالی دی ہے تو وہ بھی ویسی ہی گالی دے دے۔ مگر زیادتی نہ کرے۔ اور ظالم کوئی بھی ہوسکتا ہے خواہ وہ مسلم ہو یا منافق، یہودی ہو یا کافر ہو۔ مظلوم کے علاوہ کسی کو یہ حق نہیں کہ کسی دوسرے کی بری بات لوگوں سے بیان کرتا پھرے اور اسی کا نام غیبت یا گلہ ہے جو گناہ کبیرہ ہے۔ جس کا مقصد محض کسی شخص کو دوسروں کی نظروں میں ذلیل بنانا ہوتا ہے اور جس شخص کی غیبت کی جائے اس کو جب معلوم ہو تو اس کے جذبات کا بھڑک اٹھنا ایک فطری بات ہے۔ مکہ میں مسلمانوں پر مظالم کی نوعیت اور تھی اور مدینہ میں اور تھی۔ مدینہ میں یہود اور منافقین مسلسل مسلمانوں کو دکھ پہنچاتے رہتے تھے، کبھی استہزاء سے، کبھی سازشوں اور مکر و فریب کی چالوں سے کبھی کج بحثیوں اور بیجا قسم کے اعتراضات اور بیہودہ قسم کی گفتگو سے۔ اور ایسے حالات میں مسلمانوں کے جذبات کا بھڑک اٹھنا معمولی بات تھی۔ ایسے ہی حالات میں مسلمانوں کو یہ ہدایت دی جا رہی ہے تاکہ کوئی بھی بات بتنگڑ بن کر کسی بڑے فتنہ کا باعث نہ بن جائے لہذا وہ اپنے جذبات کو کنٹرول میں رکھیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لَا يُحِبُّ اللّٰهُ الْجَــهْرَ بالسُّوْۗءِ ۔۔ : یعنی اگر کسی شخص میں کوئی دینی یا دنیوی عیب پایا جاتا ہے تو اسے سرعام ذلیل کرنا جائز نہیں اور نہ ہر شخص کو بتانا جائز ہے، کیونکہ یہ غیبت ہے اور غیبت قطعی حرام ہے، البتہ جب کوئی شخص ظلم پر اتر آئے تو مظلوم کو حق حاصل ہے کہ وہ اس کی زیادتی کے خلاف آواز بلند کرے، خصوصاً جہاں آواز بلند کرنے سے اس پر ظلم رک سکتا ہو، یا اس کا مداوا ہوسکتا ہو۔ اسی طرح لوگوں کو اس کے ظلم سے بچانے کے لیے اس کا عیب بیان کرنا بھی جائز ہے۔ حدیث کے راویوں پر جرح بھی اسی ضمن میں آتی ہے، کیونکہ ضعیف روایت بیان کرنا امت پر ظلم ہے۔ کوئی شخص باوجود وسعت کے دوسرے کا حق نہ دیتا ہو تو اس کو طعن و ملامت کرنا بھی جائز ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” غنی آدمی کا حق ادا کرنے میں دیر کرنا، یا ٹال مٹول کرنا اس کی سزا اور اس کی عزت کو حلال کردیتا ہے۔ “ [ بخاری، الاستقراض، باب لصاحب الحق مقال، قبل ح : ٢٤٠١ ] اسی طرح جو زیادتی میں پہل کرے اسے جواب دینا جائز ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” آپس میں گالی گلوچ کرنے والے، وہ دونوں جو کچھ بھی کہیں، سب گناہ پہل کرنے والے پر ہے، جب تک مظلوم زیادتی نہ کرے۔ “ [ مسلم، البر والصلۃ، باب النھی عن السباب : ٢٥٨٧ ] اس آیت کے تحت مفسرین نے لکھا ہے کہ ظالم کے حق میں بددعا کرنا جائز ہے۔ مزید دیکھیے سورة شوریٰ (٤١) کوئی شخص زبردستی اس کے منہ سے برا کلمہ نکلوائے تو وہ بھی اس کے تحت جائز ہے۔ (ابن کثیر، شوکانی) ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ہمسائے کی زیادتیوں کی شکایت کی، آپ نے اسے اپنا سامان گھر کے باہر راستے میں نکال کر رکھ دینے کا مشورہ دیا، اب جو گزرتا پوچھتا تو وہ ہمسائے کا ظلم بتاتا۔ ہمسائے نے یہ دیکھ کر معذرت کرلی اور آئندہ ایذا نہ پہنچانے کا وعدہ کیا اور سامان اندر رکھنے کی درخواست کی۔ [ أبو داوٗد، الأدب، باب فی حق الجوار : ٥١٥٣ ] 3 گزشتہ آیات میں منافقین کے عیوب کا بیان تھا، یہاں بات مکمل کرنے کے لیے فرمایا کہ یہ چونکہ ظالم ہیں، اس لیے ان کے عیب ظاہر کرنا جائز ہے۔ (کبیر) تاہم حتی الوسع نام لے کر بیان نہ کرے۔ (موضح) (وَكَان اللّٰهُ سَمِيْعًا عَلِـــيْمًا) یعنی اگر مظلوم زیادتی کرے گا تو اللہ تعالیٰ کو وہ بھی معلوم ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر اللہ تعالیٰ بری بات زبان پر لانے کو (کسی کے لئے) پسند نہیں کرتے بجز مظلوم کے (کہ اپنے مظالم کی نسبت کچھ حکایت شکایت کرنے لگے تو وہ گناہ نہیں) اور اللہ تعالیٰ (مظلوم کی بات) خوب سنتے ہیں (اور ظالم کے ظلم کی حالت) خوب جانتے ہیں (اس میں اشارہ ہے کہ مظلوم کو بھی خلاف واقعہ کہنے کی اجازت نہیں اور ہرچند کہ ایسی شکایت جائز تو ہے لیکن) اگر نیک کام علانیہ کردیا اس کو خفیہ کرو (جس میں معاف کرنا بھی آ گیا) یا (بالخصوص) کسی (کی) برائی کو معاف کردو تو (زیادہ افضل ہے کیونکہ) اللہ تعالیٰ (بھی) بڑے معاف کرنے والے ہیں، (باوجودیکہ) پوری قدرت والے ہیں کہ (اپنے مجرموں سے ہر طرح انتقام لے سکتے ہیں، مگر پھر بھی اکثر معاف ہی کردیتے ہیں، پس اگر تم ایسا کرو تو اول تو تخلق باخلاق الٓہیہ یعنی اللہ تعالیٰ کے اخلاق کا اتباع ہے، پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ کرنے کی امید ہوگی) جو لوگ کفر کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ (جیسا ان کے عقیدہ اور قول سے جو آگے آتا ہے صاف طور پر لازم آتا ہے) اور (کفر کرتے ہیں) اس کے رسولوں کے ساتھ (یعنی بعض کے ساتھ تو صراحتاً کیونکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے منکر تھے اور کل کے ساتھ لزوماً جیسا آگے آتا ہے) اور یوں چاہتے ہیں کہ اللہ کے اور اس کے رسولوں کے درمیان میں (باعتبار ایمان لانے کے) فرق رکھیں اور (اپنے اس عقیدہ کو زبان سے بھی) کہتے ہیں کہ ہم (پیغمبروں میں سے) بعضوں پر تو ایمان لاتے ہیں اور بعضوں کے منکر ہیں (اس قول اور اس عقیدہ سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ بھی، کفر لازم آ گیا اور سب رسولوں کے ساتھ بھی، کیونکہ اللہ تعالیٰ اور ہر رسول نے سب رسولوں کو رسول کہا ہے، جب بعض کا انکار ہوا تو اللہ تعالیٰ کی اور بقیہ رسولوں کی تکذیب ہوگئی، جو کہ ضد ہے تصدیق اور ایمان کی) اور یوں چاہتے ہیں کہ بین بین ایک راہ تجویز کریں (کہ نہ سب پر ایمان رہے جیسے مسلمان سب پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ سب کا انکار ہے جیسا کہ مشرکین کرتے تھے سو) ایسے لوگ یقیناً کافر ہیں (کیونکہ کفر بالبعض بھی کفر ہے اور ایمان اور کفر کے درمیان کوئی واسطہ نہیں، جب ایمان بالجمیع نہ ہوا تو کفر ہی ہوا) اور کافروں کے لئے ہم نے اہانت آمیز سزا تیار کر رکھی ہے، (وہی ان کے لئے بھی ہوگی) اور جو لوگ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کے سبب رسولوں پر بھی اور ان میں سے کسی میں (ایمان لانے کے اعتبار سے) فرق نہیں کرتے، ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ ضرور ان کا ثواب دیں گے اور (چونکہ اللہ تعالیٰ بڑے مغفرت والے ہیں (اس لئے ایمان لانے سے پہلے جتنے گناہ ہوچکے ہیں، سب بخش دیں گے اور چونکہ وہ) بڑے رحمت والے ہیں (اس لئے ایمان کی برکت سے ان کے حسنات کو مضاعف کر کے خوب ثواب دیں گے)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَايُحِبُّ اللہُ الْجَــہْرَ بِالسُّوْۗءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ۝ ٠ۭ وَكَانَ اللہُ سَمِيْعًا عَلِـــيْمًا۝ ١٤٨ حب والمحبَّة : إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه : - محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه : وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] . - ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] . - ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم . ( ح ب ب ) الحب والحبۃ المحبۃ کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں اور محبت تین قسم پر ہے : ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ جهر جَهْر يقال لظهور الشیء بإفراط حاسة البصر أو حاسة السمع . أمّا البصر فنحو : رأيته جِهَارا، قال اللہ تعالی: لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً [ البقرة/ 55] ، أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً [ النساء/ 153] ( ج ھ ر ) الجھر ( ف) اس کے اصل معنی کسی چیز کا حاسہ سمع یا بصر میں افراط کے سبب پوری طرح ظاہر اور نمایاں ہونے کے ہیں چناچہ حاسہ بصر یعنی نظروں کے سامنے کسی چیز کے ظاہر ہونے کے متعلق کہا جاتا ہے رایتہ جھرا کہ میں نے اسے کھلم کھلا دیکھا قرآن میں ہے :۔ لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً [ البقرة/ 55] کہ جب تک ہم خدا کو سامنے نمایاں طور پر نہ دیکھ لیں تم پر ایمان نہیں لائیں گے ۔ أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً [ النساء/ 153] ہمیں نمایاں اور ظاہر طور پر خدا دکھا دو ۔ ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] ساء اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] والقَوْلُ يستعمل علی أوجه : أظهرها أن يكون للمرکّب من الحروف المبرز بالنّطق، مفردا کان أو جملة، فالمفرد کقولک : زيد، وخرج . والمرکّب، زيد منطلق، وهل خرج عمرو، ونحو ذلك، وقد يستعمل الجزء الواحد من الأنواع الثلاثة أعني : الاسم والفعل والأداة قَوْلًا، كما قد تسمّى القصیدة والخطبة ونحوهما قَوْلًا . الثاني : يقال للمتصوّر في النّفس قبل الإبراز باللفظ : قَوْلٌ ، فيقال : في نفسي قول لم أظهره . قال تعالی: وَيَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَوْلا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ [ المجادلة/ 8] . فجعل ما في اعتقادهم قولا . الثالث : للاعتقاد نحو فلان يقول بقول أبي حنیفة . الرابع : في الإلهام نحو : قُلْنا يا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ [ الكهف/ 86] فإنّ ذلک لم يكن بخطاب ورد عليه فيما روي وذكر، بل کان ذلک إلهاما فسماه قولا . ( ق و ل ) القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ قول کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1) عام طور پر حروف کے اس مجموعہ پر قول کا لفظ بولاجاتا ہے جو بذریعہ نطق کت زبان سے ظاہر ہوتے ہیں خواہ وہ الفاظ مفرد ہوں جملہ کی صورت میں منفرد جیسے زید خرج اور مرکب جیسے زید منطق وھل خرج عمر و نحو ذالک کبھی انواع ثلاثہ یعنی اسم فعل اور حرف میں ہر ایک کو قول کہا جاتا ہے جس طرح کہ تصیدہ اور خطبہ وغیرہ ہما کو قول کہہ دیتے ہیں ۔ ( 2 ) جو بات ابھی ذہن میں ہو اور زبان تک نہ لائی گئی ہو اسے بھی قول کہتے ہیں اس بناء پر قرآن میں آیت کریمہ : ۔ وَيَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَوْلا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ [ المجادلة/ 8] اور اپنے دل میں اگتے ہیں ( اگر یہ واقعی پیغمبر ہیں تو ) جو کچھ ہم کہتے ہیں خدا ہمیں اس کی سزا کیوں نہیں دیتا ۔ یعنی دل میں خیال کرنے کو قول سے تعبیر کیا ہے ۔ ( 3 ) رائے خیال اور عقیدہ پر بھی قول کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ جیسے فلان یقول بقول ابی حنیفه ( فلان ابوحنیفہ کی رائے کا قائل ہے ) ( 4 ) الہام کرنا یعنی کسی کے دل میں کوئی بات ڈال دینا جیسے فرمایا ؛ قُلْنا يا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ [ الكهف/ 86] ہم نے کہا ذولقرنین تم ان کو تکلیف دو ۔ یہاں قول بمعنی الہام اور القا کے ہے ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، وذلک ضربان : أحدهما : إدراک ذات الشیء . والثاني : الحکم علی الشیء بوجود شيء هو موجود له، أو نفي شيء هو منفيّ عنه . فالأوّل : هو المتعدّي إلى مفعول واحد نحو : لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال/ 60] . والثاني : المتعدّي إلى مفعولین، نحو قوله : فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة/ 10] ، وقوله : يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ إلى قوله : لا عِلْمَ لَنا «3» فإشارة إلى أنّ عقولهم طاشت . والعِلْمُ من وجه ضربان : نظريّ وعمليّ. فالنّظريّ : ما إذا علم فقد کمل، نحو : العلم بموجودات العالَم . والعمليّ : ما لا يتمّ إلا بأن يعمل کالعلم بالعبادات . ومن وجه آخر ضربان : عقليّ وسمعيّ ، وأَعْلَمْتُهُ وعَلَّمْتُهُ في الأصل واحد، إلّا أنّ الإعلام اختصّ بما کان بإخبار سریع، والتَّعْلِيمُ اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] ، ( ع ل م ) العلم کسی چیش کی حقیقت کا اور راک کرنا اور یہ قسم پر ہے اول یہ کہ کسی چیز کی ذات کا ادراک کرلینا دوم ایک چیز پر کسی صفت کے ساتھ حکم لگانا جو ( فی الواقع ) اس کے لئے ثابت ہو یا ایک چیز کی دوسری چیز سے نفی کرنا جو ( فی الواقع ) اس سے منفی ہو ۔ پہلی صورت میں یہ لفظ متعدی بیک مفعول ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال/ 60] جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ۔ اور دوسری صورت میں دو مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة/ 10] اگر تم کا معلوم ہو کہ مومن ہیں ۔ اور آیت يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَاسے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے ہوش و حواس قائم نہیں رہیں گے ۔ ایک دوسری حیثیت سے علم کی دوقسمیں ہیں ( 1) نظری اور ( 2 ) عملی ۔ نظری وہ ہے جو حاصل ہونے کے ساتھ ہی مکمل ہوجائے جیسے وہ عالم جس کا تعلق موجودات عالم سے ہے اور علم عمل وہ ہے جو عمل کے بغیر تکمیل نہ پائے جسیے عبادات کا علم ایک اور حیثیت سے بھی علم کی دو قسمیں ہیں ۔ ( 1) عقلی یعنی وہ علم جو صرف عقل سے حاصل ہو سکے ( 2 ) سمعی یعنی وہ علم جو محض عقل سے حاصل نہ ہو بلکہ بذریعہ نقل وسماعت کے حاصل کیا جائے دراصل اعلمتہ وعلمتہ کے ایک معنی ہیں مگر اعلام جلدی سے بتادینے کے ساتھ مختص ہے اور تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن/ 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

مظلوم کی آہ سے بچو قول باری ہے لایحب اللہ الجھربالتوء من القول الامن ظلم، اللہ اس کو پسند نہیں کرتا کہ آدمی بدگوئی پر زبان کھولے، الا یہ کہ کسی پر ظلم کیا گیا ہو۔ حضرت ابن عباس (رض) اور قتادہ کا قول ہے ” الایہ کہ مظلوم اپنے ظالم کے لئے بددعا کرے “۔ مجاہد سے ایک روایت ہے ” الایہ کہ مظلوم ظالم کی طرف سے ڈھائے جانے والے ظلم کی لوگوں کو اطلاع دے “۔ حسن اور سدی کا قول ہے ” الایہ کہ مظلوم ظالم سے اپنا بدلہ لے لے “۔ فرات بن سلیمان نے ذکر کیا ہے کہ عبدالکریم سے اس قول باری کے معنی پوچھے گئے تو انہوں نے کہا ” یہ وہ شخص ہے جو تمہیں برا بھلا کہتا ہے اور جواب میں تم بھی اسے برا بھلا کہہ دیتے ہو لیکن اگر وہ تمہارے خلاف افتراپردازی کرے تو تم اس کے خلاف افترا پردازی نہ کرو۔ یہ آیت اس قول باری کی طرح ہے ولمن انتصوبعدظلمہ۔ اور وہ شخص جس پر ظلم ہوا ہو اور وہ اپنا بدلہ لے لے) ابن عیینہ نے ابن ابی نجیع سے انہوں نے ابراہیم بن ابی بکر سے اور انہوں نے مجاہد سے اس قول باری کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ اس کا تعلق مہمانداری سے ہے۔ تم ایک شخص کے پاس جائو اور وہ تمہاری مہمانداری نہ کرے تو تمہیں اس کے متعلق اپنی زبان کھولنے کی رخصت ہے۔ مجاہد کے اس قول پر ابوبکر حبصاص تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر آیت کی یہ تاویل ہے جس کا مجاہد نے ذکر کیا ہے تو ممکن ہے کہ اس کا تعلق اس زمانے سے ہو جب مہمانداری واجب ہوتی تھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ مروی ہے کہ الضیافۃ ثلاثہ ایام نماز ادفھوصدقۃ مہمانداری تین دنوں تک ہوتی ہے اس سے جو زائد ہو وہ صدقہ ہے) یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا تعلق اس شخص سے ہو جس کے پاس کھانے کے لئے کچھ بھی نہ ہو اور کسی اور سے اسے مہمان بنا لینے کی درخواست کرے لیکن وہ اس کی درخواست قبول نہ کرے اور اسے اپنا مہمان نہ بنائے اس شخص کا یہ رویہ قابل مذمت ہے اور اس میں اس کے خلاف شکوہ کرنے کی اجازت ہے۔ آیت میں اس پر بھی دلالت موجود ہے کہ جو شخص کسی ایسے شخص کے متعلق برے کلمات کہے جس کی ظاہری حالت میں بھلائی اور پردہ پوشی موجود ہو۔ اسے اس طرز عمل سے روکنا اور اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کرنا واجب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آیت کے ذریعے یہ خبردی ہے کہ اسے یہ بات ناپسند ہے اور جو بات اللہ کو ناپسند ہوتی ہے اللہ اس کا ارادہ نہیں کرتا۔ اس لئے ہم پر بھی واجب ہے کہ ہم اس بات کو ناپسند کریں اور اس سے روکیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے الامن ظلم۔ اس لئے جب تک کسی کا ظلم ہمارے سامنے ظاہر نہ ہوجائے اس وقت تک ہم پر یہ فرض ہے کہ اس کے متعلق برے کلمات کو ناپسند کریں اور اس سے روکیں۔ قول باری ہے فبظلم من الذین ھادواحرمنا علیھم طیبات احلت لھم۔ غرض ان یہودی بن جانے والوں کے اسی ظالمانہ رویہ کی بنا پر ہم نے بہت سی وہ پاک چیزیں ان پر حرام کردیں جو پہلے ان کے لئے حلال تھیں) ۔ قتادہ کا قول ہے کہ ان کے ظلم اور بغاوت کی انہیں یہ سزا دی گئی ہے کہ ان پر بہت سی چیزیں حرام کردی گئی ہیں اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ شرعی تحریم کے ذریعے ان کی ابتلاء اور آزمائش میں اور زیادہ سختی اور شدت پید ا کردی گئی تھی یہ سب کچھ ان کے ظلم کی سزا کے طور پر تھی اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ خبر دی کہ اس نے ان کے ظلم نیز اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکنے کی سزا کے طور پر ان پر بہت سی پاک چیزیں حرام کردیں۔ اس کی تفصیل اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان کی ہے کہ (وعلی الذین ھادوا حرمنا علیھم کل ذی ظفر ومن البقروالغنم حرمنا علیھم شحومھما الا ماحملت ظھورھما اوالحوایا اوما ختلط بعضم ذلک جزیناھم ببعیھم۔ ) جن لوگوں نے یہودیت اختیار کی ان پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کردیئے تھے اور گائے اور بکری کی چربی بھی بجز اس کے جو ان کی پیٹھ یا ان کی آنتوں سے لگی ہو یا ہڈی سے لگی رہ جائے۔ یہ ہم نے ان کی سرکشی کی سزا انہیں دی تھی۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٤٨) البتہ جس کو اس کی اجازت دی گئی جو مظلوم ہو، وہ مظلوم کی پکار کو سننے والا اور ظالم کی سزا کا جاننے والا ہے، یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے بارے میں نازل ہوئی ہے، انہوں نے ایک شخص کی زبان درازی پر اسے برا کہا تھا۔ شان نزول : (آیت) ” لا یحب اللہ الجہر “۔ (الخ) ہناد بن سری نے کتاب الزہد میں مجاہد سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت یعنی اللہ تعالیٰ بری بات زبان پر لانے کو پسند نہیں کرتے، ماسوائے مظلوم کے، ایک شخص نے دوسرے شخص کو اپنے ہاں مہمان رکھا لیکن صحیح طور پر اس کی مہمان نوازی کا حق ادا نہ کیا، اس نے وہاں سے آنے کے بعد لوگوں سے کہنا شروع کیا کہ میں فلاں صاحب کا مہمان ہوا لیکن اس نے مہمان داری کا حق ادا نہیں کیا اس طرح اس شخص نے برائی کا اظہار کیا لیکن یہ شخص مظلوم تھا اس لیے (آیت) ” الا من ظلم “۔ سے اس کے اظہار کی اجازت دی گئی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤٨ (لاَ یُحِبُّ اللّٰہُ الْجَہْرَ بالسُّوْٓءِ مِنَ الْقَوْلِ الاَّ مَنْ ظُلِمَ ط) جس کا دل دکھا ہے ‘ جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے ‘ نہ صرف یہ کہ اس کے جواب میں اس کی زبان سے نکلنے والے کلمات پر گرفت نہیں ‘ بلکہ مظلوم کی دعا کو بھی قبولیت کی سند عطا ہوتی ہے۔ کسی فارسی شاعر نے اس مضمون کو اس طرح ادا کیا ہے : ؂ بترس از آہ مظلوماں کہ ہنگام دعا کر دن اِجابت از درِ حق بہر استقبال می آید کہ مظلوم کی آہوں سے ڈرو کہ اس کی زبان سے نکلنے والی فریاد ایسی دعا بن جاتی ہے جس کی قبولیت خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا استقبال کرنے کے لیے عرش سے آتی ہے۔ (وَکَان اللّٰہُ سَمِیْعًا عَلِیْمًا ) اسے سب معلوم ہے کہ جس کے دل سے یہ آواز نکلی ہے وہ کتنا دکھی ہے۔ اس کے احساسات کتنے مجروح ہوئے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

75: یعنی کسی کی برائی بیان کرنا عام حالات میں جائز نہیں، البتہ اگر کسی پر ظلم ہوا ہو تو وہ اس ظلم کا تذکرہ لوگوں سے کرسکتا ہے، اس تذکرے میں ظالم کی جو برائی ہوگی معاف ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(148 ۔ 149) ۔ لڑائی کے وقت گالی کا منہ سے نکالنا منافقوں کی عادت ہے۔ چناچہ صحیحین میں عبد اللہ بن عمرو بن عاص (رض) کی حدیث ١ میں اس کا ذکر ہے لیکن لڑائی کے وقت پہلے پہل ایک شخص گالی منہ سے نکالے اور بعد اس کے دوسرا مظلوم شخص بغیر کسی زیادہتی کے اسی گالی کے جواب میں گالی دیوے تو وہ منافقانہ عادت میں داخل نہیں ہے اس لئے منافقوں کے ذکر میں اس طرح کی لڑائی جھگڑے کا تذکرہ فرما کر مظلوم شخص کو بری بات کے وبال سے مستثنیٰ فرما دیا مگر ساتھ ہی اس کے سمیعا علیما فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مظلوم شخص بدلہ میں کچھ زیادتی کرے گا تو اللہ اس کا سنتاجانتا ہے اور اس زیادتی کا مواخذہ مظلوم سے کرے گا۔ صحیح مسم، ابو داؤد، اور ترمذی میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ آپس کے جھگڑے میں دو شخص گالیاں بکنے لگیں تو اس کا سارا وبال اس پر ہے جس نے پہلے پہل گالی منہ سے نکالی بہ شرطی کہ مظلوم شخص جواب کی حدیث سے نہ بڑ جائے ٢۔ یہ حدث آیت کے ٹکڑے اِلَّا مَنْ ظُلِمَ کی پوری تفسیر ہے۔ جو شخص کسی کے گھر میں مہمانوں کے طور پر جائے اور صاحب خانہ اس مہمان کی پوری خاطر داری نہ کرے تو مجاہد کے قول کے موافق اس طرح کا مہمان بھی اِلاَّ مَنْ ظَلِمَ کے حکم میں داخل ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ صاحب خانہ کی واجب شکایت اس طرح کے مہمان کے منہ سے نکلے تو وہ غیبت نہ گنی جائے گی۔ صحیح بخاری و مسلم میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مہمان کی خاطر داری کا کرنا ایمان داری کی نشانی ہے ٣۔ اس اب میں اور بھی صحیح حدیثیں ہیں ان سب حدیثوں سے مجاہد کے قول کی تائید ہوتی ہے۔ اس حدیثوں کے تاکیدی لفظوں کے لحاظ سے امام احمد (رح) مہمان کی خاطر داری کے واجب ہونے کے قائل ہیں ٤۔ صحیح حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ کم سے کم ایک رات دن اور زیادہ سے زیادہ تین دن مہمانی کی ہے۔ اس سے بڑھ کر پھر اختیاری صدقہ ہے ٥۔ یہاں تک اس کا ذکر تھا کہ دو شخصوں میں سے ایک شخص دوسرے پر زیادتی کرے۔ اب آگے اس کا ذکر ہے کہ دو شخصوں میں سے ایک شخص دوسرے پر کچھ احسان کرے اس باب میں فرمایا کہ جس پر احسان کیا جائے وہ اس احسان کی شکر گزاری میں ظاہری طور پر کچھ بدلے کرے یا احسان کرنے والے کے حق میں مخفی کچھ دعائے خیر کرے تو یہ سب کچھ اللہ کو معلوم ہے۔ نسائی، ابو داؤد صحیح ابن حبان اور مستدرک حاکم میں عبد اللہ بن عمروبن عاص (رض) سے روایت ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص پر کوئی دوسرا شخص احسان کرے یا تو ظاہر اس کا کچھ بدلہ کیا جائے۔ اگر بدلہ لینا ممکن نہ ہو تو احسان کرنے والے کے حق میں دعا خیر کی جائے۔ حاکم نے اس حدیث کو شرط بخاری و مسلم پر صحیح کہا ہے ١۔ اس حدیث کا ٹکڑا آیت کے ٹکڑے ان تبدوا خیرا او تخفوہ کی تفسیر ہے۔ اور اسی تفسیر کو حافظ ابو جعفر ابن جریر نے اختیار کیا ہے ٢۔ اس سے آگے پہلی صورت کے متعلق مظلوم شخص کو دنیا میں ظلم و زیادتی کا بدلہ نہ لینے کی اور ظلم و زیادتی کے معاف کردینے کی یوں ترغیب فرمائی کہ باوجود بدلہ لینے اور انتقام کی قدرت کے اللہ کی عادت درگزر اور معافی کی ہے اس لئے جو مظلوم اللہ تعالیٰ کی اس عادت کے موافق دنیا میں ظلم و زیادتی کا بدلہ نہ لیوے گا بلکہ اس کو معاف کر دیوے گا تو اس کو عقبیٰ میں بڑا اجر ملے گا صحیح بخاری ومسلم میں عبد اللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بعض مسلمان گنہگاروں کو ان کے گناہ یاد دلائے گا جب ان گناہوں کو یاد کر کے وہ لوگ خوف زدہ ہوجائیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا جس طرح دنیا میں تمہارے ان گناہوں کو میں نے کسی پر ظاہر ہونے نہیں دیا اسی طرح آج بھی میں تمہارے ان گناہوں کو معاف کرتا ہوں ٣۔ عبد اللہ بن عمرو بن عاص (رض) کی معتبر سند سے مسند امام احمد میں حدیث ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو مظلوم شخص دنیا میں ظلم و زیادتی کو معاف کردے گا۔ اور ظالم سے بدلہ نہ لے گا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف کر دے گا ٤۔ اللہ تعالیٰ کی درگزر اور مظلوم کی معافی کا ذکر جو اس آیت میں ہے اس کی یہ حدیثیں گویا تفسیر ہیں۔ تفسیر مقاتل میں اس آیت کا شان نزول یہ بیان کی ہے کہ ایک مجلس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی تھے اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) بھی اس مجلس میں ایک شخص نے حضرت ابوبکر صدیق کو برا بھلا کہا۔ تھوڑی دیر تک تو حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے اس شخص کا کچھ جواب نہیں دیا۔ پھر کچھ جواب دیا ان کے جواب دینے کے بعد حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس مجلس سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے آپ کے اٹھ کھڑے ہونے کا سبب پوچھا تو آپ نے فرمایا جب تک تم نے اس شخص کا کچھ جواب نہیں دیا تھا اس وقت تک اللہ کا ایک فرشتہ تمہاری طرف سے اس کا جواب دے رہا تھا۔ جب تم نے بد گوئی شروع کردی تو وہ فرشتہ چلا گیا اس لئے میں بھی اس مجلس سے اٹھ کھڑا ہوا ١۔ اس تفسیر میں یہ بات بیان کی چکی ہے اور تفسیر مقاتل ایک معتبر تفسیر ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:148) لایحب اللہ الجھر۔ لایحب۔ فعل نفی مضارع۔ اللہ فاعل الجھر مفعول۔ الجھر۔ مصدر۔ زور سے کہنا۔ ظاہر کرنا۔ اصل میں دیکھنے یا سننے میں کسی چیز کے کھلم کھلا ظاہر ہونے کا نام جہر ہے جھر (فتح) جھرا وجھارا وجھرۃ۔ جھر بالامر۔ اعلان کرنا۔ جھر بالقول آواز بلند کرنا۔ جھر الصوت۔ آواز اٹھانا۔ کلمتہ جھرا و بالجھر میں نے اس سے کھلے اور صاف الفاظ میں بات کی۔ لن نؤمن لک حتی نری اللہ جھرۃ (2:55) کہ جب تک ہم خدا کو سامنے نمایاں طور پر نہ دیکھ لیں تم پر ایمان نہیں لائیں گے۔ ارنا اللہ جھرۃ (4:153) ہمیں نمایاں اور ظاہر طور پر خدا دکھا دو ۔ لا یحب اللہ کا مفعول ہے الجھر بالسوئ۔ بری چیز کا کھلم کھلا علی الاعلان اظہار۔ من القول کلام ۔ زبانی۔ یعنی اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا کہ کوئی بری بات علی الاعلان بر ملا کہی جائے۔ الا من ظلم۔ الا حرف استثناء ۔ بعض کے نزدیک الا من ظلم میں استثناء منقطع ہے اور اس صورت میں الا من ظلم کا مطلب ہوگا فلا یؤاخذ اللہ بالجھر بہ۔ البتہ مظلوم کے بری بات برملا کہنے پر اللہ تعالیٰ مؤاخذہ نہیں فرمائے گا۔ اور بعض کے نزدیک یہ استثناء متصل ہے اور اس میں مضاف محذوف ہے۔ اور آیت کی تقدیر یوں ہے۔ لایحب اللہ الجھر بالسوء من القول الاجھرمن ظلم یعنی سوائے مظلوم کے ظالم کو علانیہ برا کہنے کے اللہ تعالیٰ کسی کو پسند نہیں کرتا کہ وہ کسی کو علانیہ برا کہے سمیعا۔ مظلوم کے شکوہ کو سننے والا ہے۔ علیما۔ ظالم کے ظلم کو بخوبی جاننے والا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی اگر کسی میں کوئی دینی یا دنیو عیب پایا جاتا ہے تو اسے بر سرعام رسو انہ کیا جائے اور ہر شخص کو بتایا جائے کیونکہ یہ غیبت ہے او غیبت قطعی حرام ہے۔ البتہ جب کوئی شخص ظلم پر اتر آئے تو اس کے عیوب دوسروں کے سامنے بیان کرنے جائز ہیں حدیث اذکر وا الفاسق بما فیہ کی تحذ رہ الناس کہ فاسق کے فسق کو لوگوں کے سامنے بیان کرو تاکہ لوگ اس سے محتاط رہیں نیز کوئی شخص باوجود وسعت کے دوسرے کا حق نہ دیتا ہو تو اس کو طعن ملامت جائز ہے حدیث میں ہے لتی الو جد ظلم یحل عرضہ وعقو بتہ کہ کسی غنی آدمی کا صاحب حق کا حق ادانہ کرنا ظلم ہے جو اس کی آبرو اور عقوبت کو حلال کردیتا ہے۔ اسی طرح جو پہلے زیاتی کرے جیسے حدیث میں ہے المتساباب ماقالاہ قد لی البادی منھما ما لم یعتد المظلوم کہ دو شخص آپس میں گالم گلوچ کریں تو سارا گناہ ابتدا کرنے والے پر ہے بشر طی کہ مظلوم زیادتی نہ کرے اس آیت کے تحت علمائے تفسیر نے لکھا ہے کہ ظالم کے حق میں بد عا کرنی بھی جائز ہے ( دیکھئے شوری ٰ آیت 41) حالت اکراہ میں برا کلمہ بھی الامن ظلم مستثنیٰ متصل بحذف مضاف ای الا جھر من ظلم وان کان الجھر مبتنی المجا ھر فلا حذف ویحتمل ان یکون منقطعا ای لکن من ظلم فلہ ان یقول ظلمنی فلان۔ (قرطبی) فائدہ گذشتہ آیات میں منافقین کے عیوب کا بیان تھا۔ یہاں استدراک کے طور پر بتایا کہ چونکہ ظالم ہیں تاہم حتی الوسع نام لے کر عیب بیان نہ کرے (موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیت نمبر 148-152 لغات القرآن : لایحب اللہ، اللہ کو پسند نہیں ہے۔ الجھر بالسوء، برائی کو کھلم کھلا کہنا۔ لم یفرقوا، نہیں تفریق کرتے۔ تشریح : وہ سب پکے کافر ہیں جو (1) نہ اللہ کو مانتے ہیں نہ رسالت کو یا (2) اللہ کو مانتے ہیں۔ رسالت کو نہیں مانتے یا (3) کسی رسول کو مانتے ہیں کسی کو نہیں مانتے۔ اور جو توحید اور شرک کے درمیان کوئی ایسی راہ ڈھونڈ رہے ہیں کہ اللہ بھی مل جائے اور صنم بھی۔ ان سب کے لئے بڑی ذلت کا عذاب بھڑک رہا ہے۔ دنیا کے مذاہب کو دیکھئے بہت سے مذاہب اللہ کو بلکہ کسی معبود کو نہیں مانتے۔ بہت سے مذاہب بہت سے معبودوں کو مانتے ہیں۔ ہندو بتوں کو، بدھ کنفیوشس کو لیکن سکھ رسالت ہی کو نہیں مانتے۔ یہودی حضرت عیسیٰ کو نہیں مانتے۔ عیسائی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو نہیں مانتے۔ مسلمانوں کے سوا کوئی پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہیں مانتا۔ کچھ گم راہ لوگ آپ کے بعد بھی ایک جھوٹے شخص کو نبی مانتے ہیں۔ قرآن کی نظر میں صرف وہی مومن ہیں جو اللہ اور اس کے تمام رسولوں کو مانتے ہیں اور تفریق نہیں کرتے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا تمام پیغمبروں کی تعلیمات دنیا سے ناپید ہوچکی ہیں۔ مشرکین مکہ اور مدینہ کے یہود و نصاریٰ مومنین پر بہت ظلم کرتے تھے اور دین اسلام کو برا بھلا کہتے تھے۔ کبھی کبھی مسلمانوں میں طاقت برداشت ختم ہوجاتی اور وہ بھی تلخ کلامی کا جواب تلخ کلامی سے دیتے۔ اس کے علاوہ پرائیویٹ سطح پر بھی مظلوم ظالم کے خلاف چیخ و پکار اور آہ و فریاد کرتے ۔ آیت 148 کی رو سے گالی کا جواب گالی سے دینا منع کردیا گیا ہے۔ زبانی فساد لڑئی جھگڑے اور تو تو میں میں سے مسلمانوں کو روکا گیا ہے۔ چیخنے چلانے یا آہ فریاد کرنے کی اجازت صرف مظلوموں کو دی گئی ہے مگر اس نصیحت کے ساتھ کہ تم ظالم کے ساتھ بھی نیکی کرو یا اس کے ظلم کو پوشیدہ رکھو بلکہ معاف ہی کردو۔ دیکھو اللہ بھی تو تمام طاقت وقدرت کے باوجود اپنے بندوں کے کتنے گناہ صبح و شام معاف کرتا ہے۔ مومن بھی صبح و شام غلطیاں کرتا ہے لیکن اللہ غفور رحیم ہے۔ مظلوموں کو نالہ و فغا اور نالش و فریاد کی اجازت دے کر ایک طرف اس کے دل کے دھویں کو خارج ہونے کا موقع دیا گیا ہے دوسری طرف اسے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کی اجازت دی گئی ہے کیوں کہ ظلم کی روک تھام کے لئے عدالت ہی کا ادارہ ہے اگر عدالت ہی نہ ہوگی تو ظلم کا سلسلہ بڑھ جائے گا۔ ساتھ ہی ساتھ اللہ تعالیٰ نے مظلوم کو بھی بہترین اخلاق کی تربیت دی ہے کہ خاموش رہو۔ بلکہ معاف ہی کر دو تو بہتر ہے۔ اور سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ظالم کے ساتھ بھی نیکی کرو خواہ وہ تمہارے دین کو برا بھلا ہی کیوں نہ کہتا ہو۔ اس اخلاقی تعلیم میں ناجائز مروت اور رواداری نہیں ہے۔ اسلام اپنی سرحد ات کی پوری حفاظت کرتا ہے۔ اور صاف صاف کہتا ہے کہ وہ سب پکے کافر ہیں جو اللہ اور اس کے تمام رسولوں کو نہیں مانتے یا جو اضافہ یا تفریق کرتے ہیں۔ اور سمجھوتہ کی راہ تلاش کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی مظلوم اگر اپنے ظالم کی نسبت حکایت شکایت کریں گے تو وہ گناہ نہیں۔ 3۔ اس میں اشارہ ہے کہ مظلوم کو خلاف واقع کہنے کی اجازت نہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : سابقہ آیات میں منافقوں کی دین اور مسلمانوں کے بارے میں ہرزہ سرائی اور نماز میں جان بوجھ کر غفلت اختیار کرنے کی سزا بیان کرنے کے بعد تائب ہونے والوں کو قدر افزائی کا مژدہ سنایا۔ ہرزہ سرائی سے باز نہ آنے والوں کی ایذا رسانی کے مقابلے میں مومنوں کو ایک حدتک ان کے خلاف لب کشائی کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ بد اخلاقی کے مقابلے میں بھی بدخلقی کو پسند نہیں کرتا لیکن انسان کمزور اور کم حوصلہ واقع ہوا ہے اس لیے دشمن کی ایذا رسائی کے مقابلہ میں مظلوم اور دکھیارے مسلمانوں کو اخلاقی حدود میں رہتے ہوئے یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ ظالم کے ظلم کو آشکار اکر سکیں تاکہ مظلوم کے ردّ عمل اور معاشرے کے اخلاقی دباؤ کی وجہ سے ظالم اپنے آپ میں شرمندگی محسوس کرتے ہوئے ظلم سے باز آجائے۔ دکھی انسان کو اس لیے بھی یہ حق دیا گیا ہے کہ غم میں اس کا دم گھٹنے نہ پائے اور اظہار غم سے اس کا دکھ ہلکا اور جذبات ٹھنڈے ہوجائیں۔ مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس (رض) اور ان کے شاگرد رشید حضرت قتادہ (رض) کا قول ہے کہ اس فرمان میں مظلوم کو ظالم کے خلاف بد دعا کرنے کا مکمل حق دیا گیا ہے اور یہ بھی اجازت دی گئی ہے کہ وہ اپنی بپتادوسروں کو سنائے اور ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرسکے۔ البتہ احتجاج کرتے ہوئے کسی مظلوم کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اخلاقی حدوں سے تجاوز کرتے ہوئے ظلم کی حدود میں داخل ہوجائے کیونکہ قرآن کا طے شدہ اصول ہے۔ تاہم مظلوم کو بد زبانی کے مقابلہ میں لب کشائی کا حق دینے کے باوجود بردباری اور حوصلہ مندی کا سبق دیا ہے کہ تم اعلانیہ معاف کرو یا دل ہی دل میں اس تکلیف کی ٹیس کو برداشت کرو۔ اگر یہ نہیں ہو سکتا تو درگزر سے کام لینا چاہیے۔ اس سے برائی بڑھنے کی بجائے دب جائے گی اور یہ اس لیے بھی بہتر ہے کہ جو لوگ منافقوں اور ان کی سازشوں کو نہیں جانتے وہ یہ پروپیگنڈہ بھی نہ کرسکیں گے کہ مسلمان آپس میں دست و گریبان ہیں جس سے مسلمانوں کی ساکھ اور وقار کو دھچکا لگنے کا اندیشہ ہوسکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں ایک موقعہ پر حضرت عمر (رض) نے عبداللہ بن ابی کی شرارتوں اور سازشوں سے مسلمانوں کو محفوظ رکھنے کے لیے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت طلب کی تھی کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں عبداللہ بن ابی کا سر قلم کردوں لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ کہہ کر منع فرمایا کہ لوگ کہیں گے (اِنَّ مُحَمَّدًا یَقْتُلُ اَصْحَابَہٗ )[ رواہ مسلم : کتاب البروالصلۃ، بَاب نَصْرِ الْأَخِ ظَالِمًا ...]” کہ محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہے۔ “ معافی اور درگزر کا سبق دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے یہاں اپنی چار صفات کا ذکر فرمایا ہے کہ تمہارا رب سب کچھ سننے اور جاننے کے باوجود لوگوں کو معاف کرنے والا ہے۔ اس لیے اللہ والوں کی یہ شان ہونی چاہیے کہ وہ ظلم کا بدلہ لینے کی طاقت رکھنے کے باوجود لوگوں کو معاف کرنے کی عادت اپنائیں۔ سننے اور جاننے کی صفت بیان فرما کر ظالم اور مظلوم کو آگاہ کیا ہے کہ ظالم کا ظلم اور مظلوم کی مظلومیت اللہ سے پوشیدہ نہیں اس میں ظالم کو انتباہ اور مظلوم کو ایک گنا تسلی دی گئی ہے۔ (قِیْلَ نَزَلَتِ الْآیَۃُ فِیْ أَبِیْ بَکَرٍ (رض) ، فَإِنَّ رَجُلاً شَتَمَہٗ فَسَکَتَ مِرَاراً ، ثُمَّ رَدَّ عَلَیْہِ فَقَام النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، فَقَالَ أَبُوْ بَکْرٍ شَتَمَنِیْ وَأَنْتَ جَالِسٌ، فَلَمَّا رَدَدْتُ عَلَیْہِ قُمْتَ ، قَالَ إِنَّ مَلِکًا کَانَ یُجِیْبُ عَنْکَ ، فَلَمَّا رَدَدْتَ عَلَیْہِ ذَہَبَ ذٰلِکَ الْمَلَکُ وَجَاء الشَّیْطَانْ ، فَلَّمْ أَجْلِسُ عِنْدَ مُجِیْءِ الشَّیْطَانِ ) (تفسیر الرازی) ” ایک موقعہ پر حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے ایک شخص بد زبانی کر رہا تھا تنگ آکر جناب ابوبکر صدیق (رض) نے اس جیسی زبان استعمال کی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم صبر اور درگزر کر رہے تھے تو تمہاری طرف سے ایک فرشتہ جواب دے رہا تھا جب تم نے اس کا جواب دیاتو اس کی جگہ اب شیطان آگیا ہے۔ “ (رازی) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے : (لَیْسَ الشَّدِید بالصُّرَعَۃِ إِنَّمَا الشَّدِیدُ الَّذِی یَمْلِکُ نَفْسَہُ عِنْدَ الْغَضَبِ ) [ رواہ البخاری : کتاب الادب، باب الحذر ] ” قوی اور طاقت ور وہ نہیں جو کسی کو پچھاڑ دے بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ بری بات کو پسند نہیں کرتا۔ ٢۔ مظلوم کی زبان سے نکلی ہوئی بری بات پر کوئی مؤ ا خذہ نہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر بات کو سننے والا اور جاننے والا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ گناہ معاف کرنے پر قادر ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کس بات کو پسند نہیں کرتا : ١۔ اللہ تعالیٰ بےحیائی کو پسند نہیں کرتا۔ (النساء : ٢٢) ٢۔ اللہ تعالیٰ فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (النساء : ٣٦) ٣۔ اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (النساء : ١٠٧) ٤۔ اللہ تعالیٰ فساد کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (المائدۃ : ٦٤) ٥۔ اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (الانعام : ١٤٢) ٦۔ اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (النحل : ٢٣) ٧۔ اللہ تعالیٰ اترانے والے کو پسند نہیں کرتا۔ القصص : ٧٦) ٨۔ اللہ تعالیٰ کفر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (الروم : ٤٥) ٩۔ اللہ تعالیٰ ظلم کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (الشوریٰ : ٤٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

پارہ نمبر ٦ ایک نظر میں : پارہ ششم دو حصوں پر مشتمل ہے ۔ پہلا حصہ سورة النساء کے بقیہ حصہ پر مشتمل ہے ۔ سورة النساء کا آغاز پارہ چہارم کے آخر سے ہوا تھا پورا پارہ پنجم بھی اس پر مشتمل ہے اور پارہ ششم میں بھی اس کا کچھ آگیا ہے ۔ اس پارے کا دوسرا حصہ ‘ جو اس کا تقریبا تین چوتھائی حصہ ہے سورة مائدہ پر مشتمل ہے ۔ یہاں ہم اپنی بات کو صرف اس پارے کے حصہ اول ہی تک محدود رکھیں گے ۔ حصہ دوئم یعنی سورة مائدہ پر بحث سورة مائدہ کے موقع پر ہو گی ۔ جہاں ہم سورة مائدہ کی اہمیت اور اس کے موضوعات پر اسی طرح بحث کریں گے جس طرح ہم اس سے پہلے کی سورتوں پر کرچکے ہیں ۔ اگر اللہ کا تعاون شامل حال رہا ۔ سورة نساء پر تبصرہ کرتے ہوئے ہم نے اس سورة کے جس منہاج بحث کے سلسلے میں کچھ کہا تھا اس حصے میں بھی وہی منہاج چل رہا ہے ۔ یہاں مناسب ہے کہ نہایت ہی مختصر الفاظ میں اسے دو بار قارئین کے پیش نظر رکھ دیا جائے ۔ یہ سورة اسلامی تصور حیات سے بحث کرتی ہے اور اسے اس نوخیز اسلامی جماعت کے ذہن نشین کرنے کے درپے ہے جسے اس نے جاہلیت کی گہری اور تنگ وادیوں سے اٹھایا اور اسے بتدریج بام عروج تک پہنچا دیا ۔ انتہائی بلندیوں تک اور اس جماعت کے ضمیر کو جاہلیت کے افکار کے ڈھیروں کے نیچے سے نکالا اور اس کے ان افکار کو چھانٹ کر رکھ دیا جن کی وجہ سے اس کے ضمیر کے خدوخال دھندلے پڑگئے تھے ۔ اس صفائی کے ساتھ ساتھ جس طرح ہم نے اوپر کہا اسلامی فکر و شعور سے جاہلیت کے خدوخال مٹا کر انکی جگہ اسلامی رنگ بھرے گئے ۔ اس کے بعد اس جدید تصور حیات کی روشنی میں ‘ یہ سورة امت مسلمہ کے ضمیر اس کے اخلاق اور اس کی اجتماعی عادات کو لیتی ہے اور ان کو جاہلی اخلاق و عادات سے ایک ایک کرکے چھانٹتی چلی جاتی ہے ۔ بعینہ اسی طرح جس طرح افکار و تصورات کے اعتبار سے اس کی تطہیر کی گئی ۔ نیز فکری اور اخلاقی تطہیر کے علاوہ اس سورة نے امت کی اجتماعی زندگی اور اس کے عائلی روابط کو اسلام کے مضبوط ربانی نظام زندگی کی اساس پر استوار کیا ۔ اس تربیت اور تطہیر کے دوران ‘ اس سورة میں منحرف اور غلط عقائد کو بھی لیا گیا ہے ۔ غلط عقائد و تصورات کے حاملین پر بھی تنقید کی گئی ہے اور اصلاح کی کوشش کی گئی ہے ۔ چاہے یہ لوگ مشرکین میں سے ہوں یا یہود ونصاری یعنی اہل کتاب ہوں ۔ ان کے عقائد کی تصحیح اور اصلاح کی گئی ہے ۔ حق اور سچائی کو نکھارا گیا ہے جسے ان انحرافات نے بگاڑ دیا تھا ۔ جو ان لوگوں نے اپنی کتب میں اور عقائد میں داخل کئے ہوئے تھے ۔ اس کے بعد مضامین سورة اس معرکے میں داخل ہوجاتے ہیں جو اہل کتاب اور جماعت مسلمہ کے درمیان مسلسل برپا تھا ‘ خصوصا یہودیوں کے ساتھ ۔ اس لئے کہ جب سے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی جماعت کو لیکر مدینہ پہنچے تھے ‘ ان لوگوں نے دعوت اسلامی کا بڑی شدت کے ساتھ مقابلہ شروع کردیا تھا ‘ اس لئے کہ تحریک اسلامی کا مرکز مدینہ منتقل ہوتے ہیں یہودیوں کو یہ خطرہ لاحق ہوگیا تھا کہ اب مدینہ کے معاشرے میں ان کی سابقہ ممتاز حیثیت قائم نہیں رہ سکتی انکے ملی وجود کو خطرہ لاحق ہوگیا تھا حتی کہ ان کا یہ ادعا بھی ختم ہو رہا تھا کہ وہ واحد ممتاز لوگ ہیں جنہیں اللہ کی قربت حاصل ہے اور وہ ایسی قوم ہیں جو اللہ کے ہاں برگزیدہ ہے ۔ ان وجوہات کی بناء پر وہ تحریک اسلامی کے مقابلے میں ہر قسم کے ہتھیار لیکر اٹھ کھڑے ہوئے تھے ۔ چناچہ اس سورة نے ان کی ذہنیت ‘ ان کے وسائل حرب اور خود ان کے اپنے انبیاء کے ساتھ ان کاتاریخی رویہ تفصیل کے ساتھ بیان کیا تاکہ معلوم ہو کہ انہوں نے ہمیشہ ہر دعوت حق کے ساتھ یہی برتاؤ کیا چاہے اس کا پیش کرنے والا کوئی بھی ہو اگرچہ وہ پیش کرنے والا خود ان کا اپنا نبی ‘ ان کا اپنا قائد اور ان کا اپنا نجات دہندہ ہو۔ اس کے بعد یہ سورة خود امت مسلمہ کو بتاتی ہے کہ اس کے کاندھوں پر جو بوجھ ڈال دیا گیا ہے ‘ اس کی ذمہ داریاں کیا ہیں ۔ اس نے اس کرہ ارض پر جو کردار ادا کرنا ہے وہ کس قدر عظیم کردار ہے اور وہ حکمت عملی کیا ہے جس کے مطابق اسے جاہلیت کی تمام الائشوں سے پاک کرنا مقصود ہے ‘ اس کے ضمیر کو پاک کرنا مطلوب ہے اس کی پوری زندگی کو پاک کرنا مطلوب ہے ۔ اس غرض کیلئے کس قدر بیدار مغزی کی ضرورت ہے اور کس قدر عظیم قربانیوں کی ضرورت ہے ۔ مثلا اپنے نفس کی دنیا کے ساتھ مسلسل جہاد ‘ اور اپنے اردگرد پھیلے ہوئے پورے ماحول کے ساتھ مسلسل جہاد اور مسلسل قربانیاں ۔ یہ پوری سورة مسلسل اپنی اس راہ پر گامزن ہے گزشہ حصے میں بھی یہی مضامین ہیں اور یہ حصہ بھی اسی راستے کے نشیب وفرز پر مشتمل ہے اور وہی اسلوب ہے جو سابقہ پارے میں تھا ۔ اس پارے کا آغاز ہی تطہیر نفس اور تطہیر معاشرہ سے ہوتا ہے ‘ یہ کوشش کی گئی ہے کہ افراد جماعت کے درمیان باہم مکمل اعتماد کی فضا قائم رہے ۔ لوگ یہودیوں کے الزامات سے متاثر نہ ہوں اور مسلمان یہ حق رکھتے ہیں کہ وہ بدلہ لیں لیکن عفو و درگزر اور فراخدلی بہرحال انصاف کے ترازو سے بھی زیادہ اونچا مقام ہے ۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ غیبت اور بدگوئی کو ناپسند فرماتے ہیں۔ اگر اس نئے معاشرے میں ایک بھائی دوسرے بھائی پر ظلم کرتا ہے اور مظلوم بھائی معاف کردیتا ہے تو یہ فعل اللہ تعالیٰ کو بہت ہی پسندیدہ ہے ۔ اللہ خود بھی معاف کردیتا ہے حالانکہ وہ انتقام پر قادر ہوتا ہے ۔ اس کے بعد بتایا جاتا ہے کہ اسلامی تصورحیات یہ ہے کہ وہ اللہ کے دین کو ایک نظام زندگی قرار دیتا ہے اور یہ تصور دیتا ہے کہ انسانی تاریخ میں رسولوں کا قافلہ صرف اس ایک دین کا حامل رہا ہے ۔ اسلامی عقائد کے مطابق ان رسولوں کے درمیان فرق کرنا اور وہ جو ادیان لیکر آئے انکے درمیان فرق کرنا صریح کفر ہے ۔ یہ بیان اس لئے آتا ہے کہ اہل کتاب میں سے یہودیوں کے اس نظریے کی تردید کی جائے کہ ان کے نبی کے بعد اب کوئی نبی آنے والا نہیں ہے اور یہ نظریہ انہوں نے محض دینی اور قومی تعصب اور کینہ پروری کی وجہ سے اپنایا ہے ۔ اس حصے میں یہودیوں کے ساتھ ایک راؤنڈ شروع ہوجاتا ہے ‘ جس میں بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے نبی اور اپنے قائد اور نجات دہندہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ کیا کیا نافرمانیاں اور بدسلوکیاں کیں ۔ ان واقعات سے یہ عیاں کرنا مطلوب ہے کہ یہودی اپنی فطرت کے اعتبار سے برے لوگ ہیں ۔ سچائی اور اسلامی دعوت کے ساتھ ان کا ہمیشہ یہی رویہ رہا ہے ۔ چاہے کوئی نبی ہی یہ دعوت دے رہا ہو۔ اگرچہ وہ انکے عظیم نبی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہی کیوں نہ ہوں ۔ نیز حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ان کی والدہ کے بارے میں ان کے نازیبا الفاظ کی تردید بھی کی گئی ہے جسے اللہ تعالیٰ بہت ہی ناپسند فرماتے ہیں۔ ان واقعات کے بیان سے نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ان کا رویہ اور عناد قابل فہم ہوجاتے ہیں اور لوگوں کو معلوم ہوجاتا ہے کہ اس روئیے کے حقیقی اسباب کیا ہیں ۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے بارے میں یہودیوں کے غلط دعوؤں اور غلط الزامات کی مناسبت سے اور خصوصا اس دعوے کے حوالے سے کہ انہوں نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کو قتل کردیا ہے ‘ قرآن کریم اظہار حقیقت کردیتا ہے ۔ ان کے دعوائے قتل مسیح (علیہ السلام) کی صاف صاف تردید کردی جاتی ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کو ان کے مظالم کرنے ارادہ حق میں رکاوٹ بن جانے اور ان کی سود خوری کی وجہ سے (حالانکہ انہیں ان حرکات سے روکا گیا تھا) کیا کیا سزائیں دیں ۔ نیز ان کی حرام خوری اور لوگوں کے معاشی استحصال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان پر بطور سزا ان بعض چیزوں کو حرام قرار دے دیا جو ساری دنیا کے لئے حلال تھیں اور یہ کہ اس دنیاوی عذاب کے علاوہ انہیں وہ عذاب الیم بھی دیا جائے گا جو آخرت میں ان کا انتظار کر رہا ہے ۔ ہاں البتہ اس عذاب سے وہ لوگ مستثنی ہیں جو علم میں پختہ کار ہیں اور جو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے ہیں۔ جنہوں نے سچائی کو پہچان لیا ہے اور اس کی پیروی کرنے لگے ہیں ۔ یہودی ‘ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کے انکار پر جو اصرار کر رہے تھے ‘ انکے اس موقف کی تردید کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ رسالت تو معمول کی بات ہے ۔ یہ کوئی عجیب و غریب امر تو نہیں ہے کہ خود ان میں سے ایک رسول مبعوث ہوگیا ہے ۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے کہ لوگوں کی ہدایت کیلئے ایک انسان رسول بن کر آگیا ہے ۔ یہ تو سنت الہی ہے ۔ حضرت نوح (علیہ السلام) سے لیکر آج تک رسول آتے رہے ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ‘ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ‘ حضرت اسحاق (علیہ السلام) ‘ حضرت یعقوب (علیہ السلام) ‘ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ‘ حضرت ایوب (علیہ السلام) ‘ حضرت ہارون (علیہ السلام) حضرت سلیمان (علیہ السلام) ‘ اور حضرت داؤد (علیہ السلام) اسی سنت الہی کے مطابق بھیجے گئے ۔ نیز وہ تمام دوسرے انبیاء جن کی رسالت کے یہود قائل ہیں اور وہ جن کی رسالت کا وہ محض بغض اور حسد کی وجہ سے انکار کرتے ہیں ۔ اس لئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت اور اسکیم ہے کہ یہاں لوگوں کی ہدایت کیلئے رسول آئیں جو ڈرانے والے اور خوشخبری دینے والے ہوں ۔ (آیت) ” لئلا یکون للناس علی اللہ حجۃ بعد الرسل (٤ : ١٦٥) ” تاکہ رسولوں کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے خلاف کوئی حجت نہ ہو۔ “ نہ صرف یہ کہ یہ منطقی امر ہے بلکہ ضروری بھی ہے ۔ یہودیوں کے انکار حق کے مقابلے میں ‘ اللہ تعالیٰ اسلام کی سچائی پر خود شہادت دیتے ہیں ‘ ملائکہ کی شہادت قلم بند ہوتی ہے اور اللہ کسی بھی امر پر کافی گواہ ہے ۔ چناچہ انکار حق کی وجہ سے اور راہ حق کو مسدود کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان ظالموں اور کافروں کو سخت دھمکی دیتے ہیں ۔ یہ کہ اللہ کبھی ان کی مغفرت نہ کرے گا کبھی ان کی راہنمائی صراط مستقیم کی طرف نہ کرے گا اور اگر ان کی راہنمائی کرے گا تو وہ جہنم کی طرف ہوگی جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ اس کے بعد تمام لوگوں کو پکارا جاتا ہے کہ لوگو ! یہ رسول تمہارے پاس رب کی طرف سے سچائی لیکر آیا ہے ۔ تم اس پر ایمان لاؤ ‘ اگر تم ایسا نہ کرسکو تو جو کچھ زمین اور آسمانوں کے درمیان ہے وہ سب کچھ اللہ کا ہے ۔ مالک ارض وسما نے اس پیغمبر کی رسالت کی شہادت دے دی ہے ۔ اور وہ خود تمہیں دعوت ایمان دے رہا ہے اس لئے وہ خود اپنے لئے جو راہ متعین کر رہے ہیں وہ مالک ارض وسما کے مقابلے کی راہ ہے ۔ اہل کتاب کے ساتھ یہ راونڈ ختم ہوجاتا ہے ۔ اس میں ان کا مزاج ‘ ان کے وسائل کار ‘ اور قدیم زمانے سے ان کی بری عادتوں کا پردہ چاک کردیا جاتا ہے ۔ اس پردہ دری سے ان کے تمام مکاریاں فیل ہوجاتی ہیں اور یہ فیصلہ ہوجاتا ہے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت برحق ہے اس لئے کہ اس پر اللہ کی جانب سے شہادت دی جاچکی ہے ۔ تمام سلسلہ رسل اور سلسلہ اصحاب دعوت بھی اس پر گواہ ہیں ۔ یوں لوگوں پر اللہ کی جانب سے حجت قائم ہوتی ہے اور یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ لوگوں کی نجات کا دارومدار رسولوں کی رسالت پر پختہ ایمان پر ہے ۔ اگر وہ عذاب جہنم سے نجات چاہتے ہیں یا یہ کہ وہ بتقاضائے منطق اپنے آپ کو اس کا مستحق قرار دیتے ہیں ۔ یہ انکی مرضی ہے لیکن یہ بات ظاہر ہے کہ یہ نہایت ہی خطرناک انجام ہے ۔ یہودیوں کے ساتھ اس راؤنڈ کے اختتام ‘ انکے مقابلے میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ ماجدہ کو انصاف دینے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت مریم (علیہ السلام) کے بارے میں ان کے غلط دعوؤں کی تردید کرنے کے بعد اب خود عیسائیوں کے ساتھ ایک راؤنڈ شروع ہوتا ہے ‘ جو اپنے آپ کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا پیرو کا رکہتے ہیں ۔ ان کو ہدایت کی جاتی ہے کہ تم لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں غلو نہ کرو ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں اصل سچائی یوں ریکارڈ کی جاتی ہے کہ وہ اللہ کے بندے ہیں اور وہ خود بھی اس بات کے اقرار سے نہیں ہچکچاتے کہ وہ اللہ کے بندے ہیں ۔ اس طرح ملائکہ بھی اللہ کے بندے ہیں لہذا تم روح القدس کو خدا نہ سمجھو ‘ تثلیث کا عقیدہ غلط ہے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور اللہ کے درمیان باپ بیٹے کا تعلق نہایت ہی غلط تصور ہے ۔ تصحیح عقائد نصرانیت کے درمیان اسلام کا صحیح عقیدہ بھی بتا دیا جاتا ہے اور اس بات کو چھانٹ کر رکھ دیا جاتا ہے کہ حاکمیت صرف اللہ کے لئے ہے اور غلامی بندوں کے لئے اور اللہ کے سوا جو کچھ بھی ہے جو کوئی بھی ہے وہ اللہ کا بندہ اور غلام ہے اور یہ اسلامی تصور حیات کا اساسی عقیدہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اہل ایمان کو یہاں فلاں کی خوشخبری دی جاتی ہے اور اہل کفر کو سخت الفاظ میں ڈرایا جاتا ہے اور یہا بھی ‘ یودیوں کی بحث کے خاتمے کی طرح تمام لوگوں کے نام اعلان جہاد کیا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ لوگوں کے پاس اللہ کی جانب سے برہان آچکا ہے ‘ اس لئے اب جو لوگ اس کی قبولیت سے رہ گئے ان کے پاس کوئی دلیل نہ ہوگی ‘ کوئی شبہات وہ پیش نہ کرسکیں گے اور نہ ان کی کوئی معذرت قبول ہوگی ۔ سورة کا خاتمہ احکام میراث میں سے کلالہ کی ایک صورت کے بیان پر ہے جو پہلے احکام میں بیان نہ ہوئی تھی اس سورة میں کلالہ کی بعض صورتوں کا ذکر ہوچکا ہے یہ انہی کا بقیہ ہے ۔ اس لئے اس کو یہاں دے دیا کیونکہ یہ جماعت مسلمہ کی اقتصادی تنظیم نو کا بقیہ حصہ تھا جس پر اسلام اس جدید اسلامی سوسائٹی کو استوار کرنا چاہتا تھا ۔ اسے ایک ایسی سوسائٹی میں تبدیل کرنا چاہتا تھا جس کا اپنا نظام اقتصادیات ہو ‘ اپنے امتیازی خصائص ہوں جو مستقل ہوں تاکہ یہ جدید سوسائٹی اور یہ نئی جماعت پوری انسانیت کے حوالے سے اپنا وہ عظیم کردار ادا کرسکے جس کے لئے اللہ نے اسے برپا کیا ہے ۔ یعنی قیادت ‘ انقلاب اور تنظیم واصلاح کا کردار۔ یوں اس پوری سورة کے مطالعے اور جائزے سے اور خصوصا زیر بحث حصے کے جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام میں اجتماعی تنظیم ‘ اقتصادی اصلاحات اور سیاسی ضابطہ بندی کے ساتھ ساتھ اخلاق ‘ تہذیب ‘ تصور حیات کی اصلاح اور عقائد کی تصحیح بھی ہوتی رہتی ہے ۔ اس اخلاقی اور نظریاتی تربیت کے ساتھ ساتھ جماعت مسلمہ کے دشمنوں کے ساتھ میدان جنگ میں بھی معرکہ آرائی جاری رہتی ہے اس کے باوجود کہ اس جماعت کے کاندھوں پر ذمہ داری کا عظیم بوجھ ڈالا گیا ہے اور اس کرہ ارض پر اس کیلئے عظیم کردار ادا کرنے کی ذمہ داری عائد کی گئی ہے ۔ یہ بھی فیصلہ کردیا گیا ہے کہ قرآن کریم اس جماعت کا دستور العمل ہے ۔ یہ اس کی دعوت کا ماخذ ہے ۔ اس جماعت کا فرض ہے کہ وہ ان تمام ذمہ داریوں کو ایک ساتھ ادا کرتے ہوئے آگے چلے ‘ نہایت گہری ‘ متوازن اور عمومی صورت میں ۔ یہ ہدایات اور یہ امور ایسی صورت میں بیان کئے جاتے ہیں کہ جو شخص یا جماعت بھی اس امت کی تعمیر جدید کا بیڑا اٹھائے اس کیلئے یہ منہاج لازمی اور حتمی ہو تاکہ وہ اپنے فرائض کو پورا کرے ۔ اس قرآن کو اپنی دعوت کا منہاج بنائے ۔ اس کی تحریک کا منہاج اس قرآن سے اخذ ہو ۔ احیائے اسلام ‘ بعث جدید اور تعمیر جدید کا ہر قدم اس منہاج کے مطابق ہو ۔ اگر ان خطوط پرسوچا جائے تو یہ قرآن بعینہ وہ کردار ادا کرنے کیلئے اب بھی تیار کھڑا ہے جو اس نے پہلے ادا کیا تھا ۔ یہ قرآن پوری انسانیت کیلئے اللہ کا خطاب ہے ‘ اور وہ اس کے تمام طور واطوار کے لئے قیامت تک راہنما ہے ۔ اس کے عجائبات تو کبھی ختم نہ ہوں گے اور اس کے بار بار پڑھے جانے سے وہ پرانا نہیں ہوتا ‘ جیسا کہ اس کے بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں ۔ وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنہوں نے اس قرآن کے ذریعہ کفار اور منافقین کے خلاف جہاد کیا ۔ اس کے ساتھ منحرف اور بھٹکے ہوئے اہل کتاب کے ساتھ جہاد کیا اور اس کے ذریعے انسانیت کی تاریخ میں امت مسلمہ جیسی عظیم امت کی بنیاد رکھی ‘ اسے اٹھایا اور سربلند لیا ۔ درس نمبر ٤٣ تشریح آیات : ١٤٨۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔۔۔ ١٧٠۔ قرآن کریم کے پیش نظریہ نصب العین تھا کہ وہ اس کرہ ارض پر ایک بالکل جدید امت پیدا کرے ۔ چناچہ اس امت کو قرآن نے ان لوگوں سے تشکیل دیا جو جاہلیت کی اندھیری وادیوں میں بھٹک رہے تھے ان میں سے جو قرآن کی دعوت پر لبیک کہہ چکے ‘ ان مومنین کو قرآن کریم نے ہاتھ سے پکڑ کر آنا فانا عمودی بلندی پرچڑھا کر تہذیب و تمدن کی چوٹیوں ‘ بلند ترین چوٹیوں تک پہنچا دیا ۔ یہ کیوں ؟ اس لئے کہ اس کی تشکیل اور تربیت کے بعد اسے پوری انسانیت کی قیادت کا فریضہ سپرد کیا جاسکے اور اس دنیا کی قیادت میں اس کا عظیم رول متعین کیا جاسکے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایسا ہوا۔ اس جماعت کی تشکیل اور تعمیر کے اہم مقاصد میں سے ایک اہم مقصد اس جماعت کے ضمیر کی تطہیر بھی تھا ‘ اس ماحول کی تطہیر بھی تھا جو اس جماعت کے اردگرد پایا جاتا تھا اور اس جماعت کی اس اخلاقی اور ذہنی سطح کو بلند کرنا بھی تھا جس پر اس وقت پر جماعت تھی ۔ اور جب یہ جماعت اس مطلوبہ سطح اور معیار تک پہنچ گئی اپنے انفرادی اخلاق میں اونچی ہوگئی ‘ اپنے اجتماعی اخلاق میں معیاری ہوگئی جس قدر اپنے عقائد و تصورات میں وہ دوسرے لوگوں کے مقابلے میں برتر ہوگئی ۔ تو اس وقت پھر اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اس کرہ ارض پر وہ انقلاب برپا کیا جو اللہ کے پیش نظر تھا۔ اس کے بعد اللہ نے اس امت کو اپنے دین اور اپنے نظام زندگی کا محافظ اور چوکیدار مقرر فرمایا ۔ اس کی یہ ڈیوٹی قرار پائی کہ وہ اس پوری انسانیت کو گمراہی اور اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لائے اور مسلسل اس پوری انسانیت کی قیادت کی امانت دار رہے اور اس کی راہنمانی کرتی رہے اور فی الواقع ایسا ہی ہوا ۔ جب کوئی جماعت اس کرہ ارض کے پورے انسانوں پر ان خصوصیات کے اندر فوقیت حاصل کرلیتی ہے تو انسانیت کے لئے اس کی قیادت بالکل ایک فطری اور طبیعی امر بن جاتا ہے اور یہ امر اپنی صحیح اساسوں پر قائم ہوتا ہے ۔ اس صورت حال کے نتیجے میں ایسی جماعت پھر علم و ثقافت اور تہذیب و تمدن اور اقتصادیات اور سیاسیات میں بھی دوسری اقوام سے برتر ہوجاتی ہے اور یہ دوسری برتری اسے پہلی برتری کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے یعنی اخلاقی اور نظریاتی برتری کے نتیجے میں اور یہی ہے سنت الہی اس کرہ ارض کے تمام افراد کیلئے بھی اور تمام جماعتوں اور سوسائٹیوں کیلئے بھی ۔ اسی نفسیاتی اور اجتماعی تطہیر کے ایک پہلو کو درج ذیل دو آیات کے اندر لیا گیا ہے ۔ (آیت) ” نمبر ١٤٨ تا ١٤٩۔ معاشرہ ہمیشہ نہایت ہی حساس ہوتا ہے اس لئے اسے بعض ایسے اجتماعی آداب کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کی اس حساسیت کے مناسب حال ہوں۔ بعض اوقات ایک شخص ایک سرسری سی بات کہتا ہے لیکن معاشرے پر اس کے جو اثرات مرتب ہوتے ہیں ‘ ان کا وہ اندازہ نہیں کرسکتا ۔ اور بعض اوقات ایک عام بات ہوتی ہے لیکن اس کے قائل کی مراد صرف ایک شخص سے ہوتی ہے لیکن ان باتوں کے اثرات معاشرے کی نفسیات ‘ اس کے اخلاق اور اس کے رسوم ورواجات پر نہایت ہی مہلک ہوتے ہیں۔ اس بات سے صرف وہ ایک فرد ہی متاثر نہیں ہوتا بلکہ اس سے پوری جماعت متاثر ہوتی ہے ۔ کوئی شخص کسی کے بارے میں بدگوئی کرنا چاہے اس کی جو شکل و صورت بھی ہو ‘ اگر اس کے دل میں خدا ترسی نہ ہو اور اس کا ضمیر محتاط نہ ہو تو یہ بدگوئی انسان کیلئے بہت ہی آسان ہوتی ہے ۔ لیکن اس بدگوئی اور بدزبانی کے آثار معاشرے میں بہت ہی برے نتائج پیدا کرتے ہیں ۔ بعض اوقات اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ معاشرے سے لوگوں کا اعتماد اٹھ جاتا ہے ۔ لوگوں کا یہ خیال ہوجاتا ہے کہ اب معاشرے میں شر کو غلبہ حاصل ہوگیا ہے ۔ بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ جن لوگوں کے اندر شر کی استعداد پوشیدہ ہوتی لیکن وہ معاشرتی دباؤ کی وجہ سے شر کا ارتکاب نہیں کرتے وہ اس کا ارتکاب کرنے لگتے ہیں اب اس کا ارتکاب عام طور پر کیا جاتا ہے اس لئے وہ اس سے باک نہیں کرتے اور نہ ہی انہیں کوئی معاشرتی خوف لاحق ہوتا ہے ۔ وہ سوچتے ہیں کہ صرف وہی اس کا ارتکاب نہیں کر رہے اور لوگ بھی ایسا ہی کر رہے ہیں ۔ بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ کسی برائی کا ارتکاب دیکھتے دیکھتے انسان کے دل سے اس برائی کی کراہت میں کمی آجاتی ہے ۔ انسان پہلے پہل برائی کو بہت ہی شدت سے محسوس کرتا ہے اور جب اس کا بار بار ارتکاب ہوتا رہے یا بار بار ذکر ہوتا رہے تو اس کی نظروں میں اس کی قباحت کم ہوجاتی ہے اور اس کی جانب سے اس کراہت میں کمی آجاتی ہے لوگوں کیلئے ایسی برائی کا سننا آسان ہوجاتا ہے اور پھر وہ اسے مٹانے کیلئے فورا اٹھتے بھی نہیں ہیں۔ بدگوئی میں انسان سب سے پہلے انفرادی الزامات عائد کرتا ہے ۔ انفرادی گالی گلوچ ہوتی ہے ۔ اس کے بعد اجتماعی نقصان اور انتشار پیدا ہوجاتا ہے ۔ اخلاقی بےراہ روی پھیل جاتی ہے ۔ اس میں بعض لوگوں کے بعض دوسرے کے بارے میں اندازے بدل جاتے ہیں ‘ بعض لوگوں کا بعض دوسرے لوگوں میں اعتماد نہیں رہتا ‘ بعض جماعتوں کا دوسری جماعتوں پر اعتماد نہیں رہتا ۔ الزامات پر الزامات آتے ہیں اور زبانیں انہیں بلا کسی جھجک کے چاٹتی رہتی ہیں ۔ یہ وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت مسلمہ کیلئے ایک دوسرے کی بدگوئی کو حرام قرار دیا ہے ۔ صرف وہی شخص بدگوئی کرسکتا ہے ‘ جس پر ظلم ہوا ہو۔ وہ صرف اس قدر برے لفظ استعمال کرسکتا ہے جن سے ظالم کے حقیقی ظلم کا اظہار ہو رہا ہو ان حدود کے اندر جن کے اندر ظلم ہوا ہے ۔ (آیت) ” لا یحب اللہ الجھر بالسوء من القول الا من ظلم “۔ (٤ : ١٤٨) ” (اللہ اس کو پسند نہیں کرتا کہ آدمی بدگوئی پر زبان کھولے ‘ الا یہ کہ کسی پر ظلم کیا گیا ہو) ظلم کے حالات میں بدگوئی کے ذریعے دشمن سے بدلہ لیا جاتا ہے اور اسی طرح ظلم کے مقابلے میں مدافعت کی جاتی ہے ۔ اس بدگوئی میں وہ امور بھی شامل ہیں ‘ جنہیں قانونی اصطلاح میں سب وشتم کہا جاتا ہے ۔ اس بدگوئی کے ذریعے ایک فرد ‘ اس انفرادی بدسلوکی کو مسترد کرتا ہے جو فی الواقعہ ہوچکی ہے۔ اس طرح یہ مظلوم اس ظلم اور ظالم کے خلاف پروپیگنڈا کرتا ہے۔ جس کا اسے حق حاصل ہوتا ہے تاکہ سوسائٹی اس مظلوم شخص کے ساتھ انصاف کرسکے ۔ وہ ظالم کے ہاتھ کو روک سکے اور معاشرے کے اندر ایک ایسی فضاء قائم ہو سکے جس میں ہر ظالم ظلم سے پہلے اپنے انجام کے بارے میں اچھی طرح سوچے اور اس ظلم کے دوبارہ ارتکاب سے باز آجائے ۔ اعلانیہ بدگوئی کا حق بالکل محدود ہے اسے صرف وہی شخص استعمال کرسکتا ہے جس پر ظلم ہوا ہو۔ اس کے جواز کا سبب بھی محدود ہے ۔ یعنی صرف وہ ظلم جو کسی متعین شخص کے ساتھ کیا گیا ہو اور یہ بدگوئی صرف اس شخص کے خلاف کی جاسکتی ہے جس نے ظلم کیا ہو ۔ ان محدود حالات میں اس بدگوئی کی اجازت اس لئے دی گئی ہے کہ اس سے ایک بڑی بھلائی کو رواج دینا مقصود ہے ۔ نیز اس بدگوئی سے ظلم اور ظالم کے خلاف صرف تشہیر ہی مقصود نہیں ہے بلکہ اصل یہ کہ مظلوم کو عدل و انصاف مل سکے ۔ اسلامی قانون لوگوں کی شہرت اور عزت کی حفاظت صرف اسی حد تک کرتا ہے ‘ جب تک وہ ظلم و زیادتی نہ کریں ۔ جب وہ ظلم کا ارتکاب کریں تو پھر وہ اس بات کے مستحق نہیں ہیں کہ ان کی حیثیت عرفی کو قانونی تحفظ دیا جائے ۔ ظلم کے ارتکاب کے بعد مظلوم کو یہ قانونی حق حاصل ہوجاتا ہے کہ وہ اس ظلم کے خلاف اواز اٹھائے اور ایک حد تک بدگوئی بھی کرے ۔ یہ واحد استثناء ہے جو مظلوم کے سلسلے میں ہے ‘ ورنہ اسلام کا عام قانونی اور اخلاقی ضابطہ یہی ہے کہ کسی کے خلاف بدگوئی کی اجازت نہ ہوگی ۔ اس طرح اسلام کے ان دونوں مقاصد کے درمیان ایک قسم کا توازن قائم ہوجاتا ہے ۔ وہ ایک ایسا نظام انصاف قائم کرنا چاہتا ہے جس میں ظلم کی کوئی گنجائش نہ ہو ۔ ایک ایسا نظام اخلاق بھی رائج کرنا چاہتا ہے جس میں حیائے چشمی اور اجتماعی رواداری پر بھی خراش نہ آئے ۔ اس پر قرآن کریم یہ اختتامیہ لاتا ہے ۔ (آیت) ” وکان اللہ سمیعا علما “۔ (٤ : ١٤٨) (اور اللہ سب کچھ جاننے والا ہے) اور انتہائے کلام پر بھی بات اللہ جل شانہ کی ذات سے مربوط ہوجاتی ہے ۔ جبکہ آغاز ذکر محبت الہی سے ہوا تھا ۔ (آیت) ” لا یحب اللہ الجھر بالسوء “۔ (٤ : ١٤٨) ” (اللہ اس کو پسند نہیں کرتا کہ آدمی بدگوئی پر زبان کھولے) یہ اس لئے کہا گیا تاکہ انسان کے دل میں یہ شعور زندہ رہے کہ انسان کی نیت ‘ انسان کی جانب سے بدگوئی کے اسباب اور پھر اس کی زبان سے نکلنے والے الفاظ اور الزامات کی صحت اور انکی موزونیت کا اللہ تعالیٰ کے ہاں اچھی طرح اندازہ ہوتا ہے کیونکہ اللہ سنتا ہے اور جو بات کہی جاتی ہے اس کے تمام پس منظر سے وہ اچھی طرح آگاہ ہے جو بات بھی سینوں میں بھی عیاں ہے ۔ قرآن کریم یہاں بات کو بدگوئی کی صرف ممانعت یعنی صرف منفی حکم پر ہی ختم نہیں کردیتا بلکہ وہ مثبت بات کرکے بھلائی کا حکم دیتا ہے ۔ اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ برائی پر عفو و درگزر سے کام لینا بہرحال بہت ہی پسندیدہ ہے ۔ عفو و درگزر کو صفات الہیہ میں سے ایک اہم صفت ہے ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ ہر خطاکار سے مواخذہ کرنے پر پوری قدرت رکھتا ہے ۔ یہاں اشارہ دیا جاتا ہے کہ اہل ایمان کو اللہ کے اخلاق وصفات اپنے اندر پیدا کرنا چاہئیں ۔ جہاں تک ان میں قدرت ہو اور جہاں تک وہ ایسا کرسکیں ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ بری بات کے ظاہر کرنے کو پسند نہیں فرماتا بری بات کا بیان کرنا۔ پھیلانا اور تجھ مجھ سے کہتے ہوئے پھرنا اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے۔ ہاں اگر کسی پر کوئی ظلم ہوا ہو تو وہ اپنی مظلومیت ظاہر کرنے کے لیے ظالم کا ظلم اور زیادتی بتائے تو یہ جائز ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ظالم کے مقابلے میں مظلوم کی مدد بھی ہوجائے گی اور خود ظالم کو بھی اپنی زیادتی اور بدنامی کا احساس ہوگا جس کی وجہ سے وہ ظلم سے باز آجائے گا، مفسر ابن کثیر (رض) نے اس آیت کے ذیل میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے عرض کیا کہ میرا ایک پڑوسی ہے جو مجھے تکلیف دیتا ہے۔ آپ نے فرمایا تو اپنا سامان نکال کر راستے میں رکھ دے چناچہ اس شخص نے ایسا کیا اب ہر شخص جو وہاں سے گزرتا تھا پوچھتا تھا کہ کیا بات ہے (تم نے سامان یہاں کیوں ڈالا) وہ کہتا تھا میرا پڑوسی مجھے تکلیف دیتا ہے اس پر گزرنے والے اس کے پڑوسی پر لعنت بھیجتے تھے اور اس کی رسوائی کے لیے بد دعا کرتے تھے، نتیجہ یہ ہوا کہ اس کا پڑوسی آیا اور کہنے لگا کہ تم اپنے گھر واپس چلے جاؤ اللہ کی قسم میں تمہیں کبھی تکلیف نہ پہنچاؤں گا۔ آیت کے عموم میں یہ سب باتیں شامل ہیں کہ کسی کی غیبت کی جائے کسی پر بہتان باندھا جائے کسی کے عیب اور گناہ کو مجھ سے بیان کیا جائے یہ سب چیزیں حرام ہیں۔ اگر کسی کا عیب اور گناہ معلوم ہوجائے تو اس کی پردہ پوشی کرے نہ یہ کہ اسے اڑائے اور ادھر ادھر پہنچائے۔ بہت سے لوگوں کو غیبت کرنے اور دوسروں کی پردہ دری کرنے اور گناہوں کو مشہور کرنے اور ادھر ادھرلیے پھرنے کا ذوق ہوتا ہے ایسے لوگ اپنی بربادی کرتے ہیں اور آخرت میں اپنے لیے عذاب تیار کرتے ہیں۔ اگر کسی شخص سے کوئی زیادتی ہوجائے اول تو بہت یہ ہے کہ اسے معاف کر دے اور اگر معاف کرنے کی ہمت نہیں ہے تو بدلہ لے سکتا ہے۔ معلوم ہوا کہ مظلومیت کا بدلہ بقدر مظلومیت ہی لیا جاسکتا ہے۔ اگر بدلہ لینے والے نے زیادتی کردی تو اب وہ ظالم ہوجائے گا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ آپس میں گالی گلوچ کرنے والے جو کچھ کہیں ان سب کا گناہ اس پر ہے جس نے گالی گلوچ شروع کی تھی جب تک کہ مظلوم زیادتی نہ کرے (رواہ مسلم صفحہ ٣٢١: ج ٢) جب مظلوم نے زیادتی کردی تو وہ بھی گنہگار ہوگا جتنے بدلے کی اجازت تھی وہ اس سے آگے بڑھ گیا۔ پہلی آیت کے ختم پر فرمایا (وَ کَان اللّٰہُ سَمِیْعًا عَلِیْماً ) (اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے) جو بھی کوئی شخص بری بات کو پھیلائے گا اچھے برے کلمات کہے گا اس کی باتیں اللہ تعالیٰ سنتا ہے اور جو بھی کوئی شخص کسی پر ابتداءً یا جواباً ظلم اور زیادتی کر دے اللہ تعالیٰ شانہ کو اس کا علم ہے۔ اللہ تعالیٰ شانہ سب کے درمیان فیصلے فرما دے گا۔ ظالم کو سزا دے گا اگر مظلوم نے معاف نہ کیا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

96 یہ آیت یَا اَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَاءَ سے متعلق ہے اور اَلسُّوْء مِنَ الْقَوْلَ سے کلمہ کفر مراد ہے اور مَنْ ظُلِمَ سے جبر اور اکراہ مراد ہے مطلب یہ کہ پہلے منافقوں کو کافروں کی دوستی سے منع فرمایا جس سے مقصود یہ تھا کہ وہ خالص ایمان لے آئیں یہاں فرمایا ہاں اگر کافر تم پر جبر کریں اور زبردستی تم سے کلمہ کفر کہلوائیں تو اس وقت جان بچانے کے لیے کلمہ کفر زبان سے کہہ دو لیکن دل کی تصدیق اور خالص ایمان میں ذرہ بھر فرق نہ آنے پائے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا۔ اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَ قَلْبُہٗ مُطْمَئِنٌّ بِالْاِیْمَانِ (نحل رکوع 14) و قال المنیر معناہ الا من اکرہ علی ان یجھر بالسوء کفرا ونحوہ فذالک مباح والایۃ فی الاکراہ (بحر ج 3 ص 382)

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi