Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 156

سورة النساء

وَّ بِکُفۡرِہِمۡ وَ قَوۡلِہِمۡ عَلٰی مَرۡیَمَ بُہۡتَانًا عَظِیۡمًا ﴿۱۵۶﴾ۙ

And [We cursed them] for their disbelief and their saying against Mary a great slander,

اور ان کے کفر کے باعث اور مریم پر بہت بڑا بہتان باندھنے کے باعث ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And because of their (Jews) disbelief and uttering against Maryam a grave false charge. Ali bin Abi Talhah said that Ibn Abbas stated that; the Jews accused Maryam of fornication. This is also the saying of As-Suddi, Juwaybir, Muhammad bin Ishaq and several others. This meaning is also apparent in the Ayah, as the Jews accused Maryam and her son of grave accusations: They accused her of fornication and claimed that `Isa was an illegitimate son. Some of them even claimed that she was menstruating while fornicating. May Allah's continued curse be upon them until the Day of Resurrection. The Jews also said,

تیسرا قول یہ ہے کہ اہل کتاب میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہو گا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی موت سے پہلے ایمان لائے گا ۔ عکرمہ یہی فرماتے ہیں ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں ان سب اقوال میں زیادہ تر صحیح قول پہلا ہے کہ حضرت عیسیٰ آسمان سے قیامت کے قریب اتریں گے ، اس وقت کوئی اہل کتاب آپ پر ایمان لائے بغیر نہ رہے گا ۔ فی الواقع امام صاحب کا یہ فیصلہ حق بجانب ہے ۔ اس لئے کہ یہاں کی آیتوں سے صاف ظاہر ہے کہ اصل مقصود یہودیوں کے اس دعوے کو غلط ثابت کرنا ہے کہ ہم نے جناب مسیح کو قتل کیا اور سولی دی اور اسی طرح جن جاہل عیسائیوں نے یہ بھی کہا ہے ان کے قول کو بھی باطل کرنا ہے ، روح اللہ نہ مقتول ہیں ، نہ مصلوب ۔ تو اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ فی الواقع نفس الامر میں نہ تو روح اللہ مقتول ہوئے ، نہ مصلوب ہوئے بلکہ ان کے لئے شبہ ڈال دیا گیا اور انہوں نے حضرت عیسیٰ جیسے ایک شخص کو قتل کیا لیکن خود انہیں اس حقیقت کا علم نہ ہو سکا ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو تو اپنے پاس چڑھا لیا ۔ وہ زندہ ہیں ، اب تک باقی ہیں ، قیامت کے قریب اتریں گے ۔ جیسے صحیح متواتر احادیث میں ہے مسیح ہر گمراہ کو قتل کریں گے ، صلیب کو توڑیں گے ، خنزیروں کو قتل کریں گے ، جزیہ قبول نہیں کریں گے ، اعلان کر دیں گے کہ یا تو اسلام کو قبول کرو یا تلوار سے مقابلہ کرو ۔ پس اس آیت میں خبر دیتا ہے کہ اس وقت تمام اہل کتاب آپ کے ہاتھ پر ایمان قبول کریں گے اور ایک بھی ایسا نہ رہے گا جو اسلام کو مانے بغیر رہ جائے یا رہ سکے ۔ پس جسے یہ گمراہ یہود اور یہ جاہل نصرانی مرا ہوا جانتے ہیں اور سولی پر چڑھایا ہوا مانتے ہیں ، یہ ان کی حقیقی موت سے پہلے ہی ان پر ایمان لائیں گے اور جو کام انہوں نے ان کی موجودگی میں کئے ہیں اور کریں گے یہ ان پر قیامت کے دن اللہ کے سامنے گواہی دیں گے یعنی آسمان پر اٹھائے جانے کے قبل زندگی کے مشاہدہ کئے ہوئے کام اور دوبارہ کی آخری زندگی جو زمین پر گذاریں گے ، اس میں ان کے سامنے جتنے کام انہوں نے کئے وہ سب آپ کی نگاہوں کے سامنے ہوں گے اور انہیں اللہ کے سامنے انہیں پیش کریں گے ۔ ہاں اس کی تفسیر میں جو دو قول اور بیان ہوئے ہیں وہ بھی واقعہ کے اعتبار سے بالکل صحیح اور درست ہیں ۔ موت کا فرشتہ آ جانے کے بعد احوال آخرت ، سچ جھوٹ کا معائنہ ہو جاتا ہے ، اس وقت ہر شخص سچائی کو سچ کہنے اور سمجھنے لگتا ہے لیکن وہ ایمان اللہ کے نزدیک معتبر نہیں ۔ اسی سورت کے شروع میں ہے آیت ( وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ السَّـيِّاٰتِ ۚ حَتّٰى اِذَا حَضَرَ اَحَدَھُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّىْ تُبْتُ الْــٰٔنَ وَلَا الَّذِيْنَ يَمُوْتُوْنَ وَھُمْ كُفَّارٌ ۭاُولٰۗىِٕكَ اَعْتَدْنَا لَھُمْ عَذَابًا اَلِـــيْمًا ) 4 ۔ النسآء:18 ) اور جگہ فرمان ہے آیت ( فَلَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَحْدَهٗ وَكَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِهٖ مُشْرِكِيْنَ ) 40 ۔ غافر:84 ) یعنی جو لوگ موت کے آ جانے تک برائیوں میں مشغول رہے ان کی توبہ قبول نہیں اور جو لوگ عذاب رب دیکھ کر ایمان لائیں ، انہیں بھی ان کا ایمان نفع نہ دے گا ۔ پس ان دونوں آیتوں کو سامنے رکھ کر ہم کہتے ہیں کہ پچھلے دو اقوال جن کی امام ابن جریر نے تردید کی ہے وہ ٹھیک نہیں ۔ اس لئے کہ امام صاحب فرماتے ہیں اگر پچھلے دونوں قولوں کو اس آیت کی تفسیر میں صحیح مانا جائے تو لازم آتا ہے کہ کسی یہودی یا نصرانی کے اقرباء اس کے وارث نہ ہوں ، اس لئے کہ وہ تو حضرت عیسیٰ پر اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا کر مرا اور اس کے وارث یہود و نصاریٰ ہیں ، مسلمان کا وارث کافر نہیں ہو سکتا ۔ لیکن ہم کہتے ہیں یہ اس وقت ہے جب ایمان ایسے وقت لائے کہ اللہ کے نزدیک معتبر ہو ، نہ ایسے وقت ایمان لانا جو بالکل بےسود ہے ۔ ابن عباس کے قول پر گہری نظر ڈالئے کہ دیوار سے گرتے ہوئے ، درندے کے جبڑوں میں ، تلوار کے چلتے ہوئے وہ ایمان لاتا ہے تو ایسی حالت کا ایمان مطلق نفع نہیں دے سکتا ۔ جیسے قرآن کی مندرجہ بالا دونوں آیتیں ظاہر کر رہی ہیں واللہ اعلم ۔ میرے خیال سے تو یہ بات بہت صاف ہے کہ اس آیت کی تفسیر کے پچھلے دونوں قول بھی معتبر مان لینے سے کوئی اشکال پیش نہیں آتی ۔ اپنی جگہ وہ بھی ٹھیک ہیں ۔ لیکن ہاں آیت سے واقعی مطلب تو یہ نکلتا ہے جو پہلا قول ہے ۔ تو اس سے مراد یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمانوں پر زندہ موجود ہیں ، قیامت کے قریب زمین پر اتریں گے اور یہودیوں و نصرانیوں دونوں کو جھوٹا بتائیں گے اور جو افراط تفریط انہوں نے کی ہے ، اسے باطل قرار دیں گے ۔ ایک طرف ملعون جماعت یہودیوں کی ہے ، جنہوں نے آپ کو آپ کی عزت سے بہت گرا دیا اور ایسی ناپاک باتیں آپ کی شان میں کہیں جن سے ایک بھلا انسان نفرت کرے ۔ دوسری جانب نصرانی ہیں جنہوں نے آپ کے مرتبے کو اس قدر بڑھایا کہ جو آپ میں نہ تھا اس کے اثبات میں اتنے بڑھے کہ مقام نبوت سے مقام ربوبیت تک پہنچا دیا جس سے اللہ کی ذات بالکل پاک ہے ۔ اب ان احادیث کو سنئے جن میں بیان ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام آخر زمانے میں قیامت کے قریب آسمان سے زمین پر اتریں گے اور اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت کی طرف سب کو بلائیں گے ۔ صحیح بخاری شریف جسے ساری امت نے قبول کیا ہے اس میں امام محمد بن اسماعیل بخاری علیہ رحمتہ و الرضوان کتاب ذکر انبیاء میں یہ حدیث لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ عنقریب تم میں ابن مریم نازل ہوں گے ۔ عادل منصف بن کر صلیب کو توڑیں گے ، خنزیر کو قتل کریں گے ۔ جزیہ ہٹا دیں گے ۔ مال اس قدر بڑھ جائے گا کہ اسے لینا کوئی منظور نہ کرے گا ، ایک سجدہ کر لینا دنیا اور دنیا کی سب چیزوں سے محبوب تر ہو گا ۔ اس حدیث کو بیان فرما کر راوی حدیث حضرت ابو ہریرہ نے بطور شہادت قرآنی کے اسی آیت ( وان من ) کی آخر تک تلاوت کی ۔ صحیح مسلم شریف میں بھی یہ حدیث ہے اور سند سے یہی روایت بخاری مسلم میں مروی ہے اس میں ہے کہ سجدہ اس وقت فقط اللہ رب العالمین کے لئے ہی ہو گا ۔ اور اس آیت کی تلاوت میں قبل موتہ کے بعد یہ فرمان بھی ہے کہ قبل موت عیسیٰ بن مریم پھر اسے حضرت ابو ہریرہ کا تین مرتبہ دوہرانا بھی ہے ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے حضرت عیسیٰ حج یا عمرے پر یا دونوں پر لبیک کہیں گے ، میدان حج میں ، روحاء میں ۔ یہ حدیث مسلم میں بھی ہے ۔ مسند کی اور حدیث میں ہے عیسیٰ بن مریم اتریں گے ، خنزیر کو قتل کریں گے ، صلیب کو مٹائیں گے ، نماز با جماعت ہو گی اور اللہ کی راہ میں مال اس قدر کثرت سے دیا جائے گا کہ کوئی قبول نہ کرنے والا نہ ملے گا ۔ خراج چھوڑ دیں گے ، روحاء میں جائیں گے اور وہاں سے حج یا عمرہ کریں گے یا دونوں ایک ساتھ کریں گے ۔ پھر ابو ہریرہ نے یہی آیت پڑھی لیکن آپ کے شاگرد حضرت حنظلہ کا خیال ہے کہ حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا حضرت عیسیٰ کے انتقال سے پہلے آپ پر ایمان لائیں گے ۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ سب حدیث کے ہی الفاظ ہیں یا حضرت ابو ہریرہ کے اپنے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

156۔ 1 اس سے مراد یوسف نجار کے ساتھ حضرت مریم (علیہ السلام) پر بدکاری کی تہمت ہے۔ آج بھی بعض نام نہاد محققین اس بہتان عظیم کو ایک ' حقیقت ثابتہ ' باور کرانے پر تلے ہوئے ہیں اور کہتے ہیں کہ یوسف نجار (نعوذ باللہ) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا باپ تھا یوں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بن باپ کے معجزانہ ولادت کا بھی انکار کرتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَّبِكُفْرِهِمْ وَقَوْلِهِمْ عَلٰي مَرْيَمَ ۔۔ : کے معنی یہ ہیں کہ انھوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات دیکھنے کے باوجود ان کی نبوت کا انکار کر کے صریح کفر کا ارتکاب کیا اور پھر مریم [ کی طرف زنا کی نسبت کر کے مزید بہتان باندھا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَّبِكُفْرِہِمْ وَقَوْلِـہِمْ عَلٰي مَرْيَمَ بُہْتَانًا عَظِيْمًا۝ ١٥٦ۙ مریم مریم : اسم أعجميّ ، اسم أمّ عيسى عليه السلام» . بهت قال اللہ عزّ وجل : فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ [ البقرة/ 258] ، أي : دهش وتحيّر، وقد بَهَتَهُ. قال عزّ وجل : هذا بُهْتانٌ عَظِيمٌ [ النور/ 16] أي : كذب يبهت سامعه لفظاعته . قال تعالی: وَلا يَأْتِينَ بِبُهْتانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ [ الممتحنة/ 12] ، كناية عن الزنا «2» ، وقیل : بل ذلک لکل فعل مستبشع يتعاطینه بالید والرّجل من تناول ما لا يجوز والمشي إلى ما يقبح، ويقال : جاء بالبَهِيتَةِ ، أي : بالکذب . ( ب ھ ت ) بھت ( س ) حیران وششدرہ جانا نا سے مبہوث کردیا : قرآن میں ہے فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ [ البقرة/ 258] یہ سن کر کافر حیران رہ گیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ هذا بُهْتانٌ عَظِيمٌ [ النور/ 16] یہ تو ( بہت ) بڑا بہتان ہے ۔ میں بہتان کے معنی ایسے الزام کے ہیں جسے سن کر انسان ششد ر و حیرانوی جائے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلا يَأْتِينَ بِبُهْتانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ [ الممتحنة/ 12] نہ اپنے ہاتھ پاؤں میں کوئی بہتان باندھ لائیں گی ۔ میں بہتان زنا سے کنایہ ہے ۔ بعض نے کہا ہے نہیں بلکہ اس سے ہر وہ عمل شنیع مراد ہے جسے ہا اور پاؤں سے سر انجام دیا جائے ۔ مثلا ہاتھ سے کسی نادا چیز کو پکڑنا یا کسی عمل شنیع کا ارتکاب کرنے کے لئے اس کی طرف چل کر جانا اس نے جھوٹ بولا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٥٦۔ ١٥٧۔ ١٥٨) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور انجیل کے انکار اور ان پر چھوٹے الزام کی وجہ سے ہم نے ان کو سور بنادیا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کے دعوے پر ان کے ساتھی قطیانوس کو ہلاک کردیا، قطیانوس کے سامنے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے مشابہ ایک شخص ہوگیا، اس نے اس کو قتل کردیا، ان کے پاس تو ان کے قتل کا شبہ بھی نہیں یقیناً انھوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل نہیں کیا، اللہ تعالیٰ اپنے دشمنوں سے انتقام لینے میں بڑے زبردست ہیں اور ساتھ ہی حکیم بھی ہیں کس طرح اپنی نبی کو حفاظت کیساتھ آسمان پر اٹھا لیا اور ان کے دشمن کو ہلاک کردیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥٦ (وَّبِکُفْرِہِمْ وَقَوْلِہِمْ عَلٰی مَرْیَمَ بُہْتَانًا عَظِیْمًا ) حضرت مریم (سلامٌ علیہا) پر یہودیوں نے بہتان لگایا کہ انہوں نے (معاذ اللہ) زنا کیا ہے اور مسیح ( علیہ السلام) دراصل یوسف نجار کا بیٹا ہے۔ ان کی روایات کے مطابق یوسف نجار کے ساتھ حضرت مریم کی نسبت ہوچکی تھی ‘ لیکن ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ ان کے مابین تعلق قائم ہوگیا ‘ جس کے نتیجے میں یہ بیٹا پیدا ہوگیا۔ اس طرح انہوں نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کو ولد الزّ نا قرار دیا۔ یہ ہے وہ اتنی بڑی بات جو یہودی کہتے ہیں اور آج بھی اس گمراہ کن نظریے پر مبنی Son of Man جیسی فلمیں بنا کر امریکہ میں چلاتے ہیں ‘ جن میں عیسائیوں کو بتایا جاتا ہے کہ جس مسیح کو تم لوگ Son of God کہتے ہو وہ حقیقت میں son of man ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

189. This marks the resumption of the main theme of the discourse. 190. The Jews had ho grounds for suspicion regarding the miraculous birth of Jesus. The day he was born God made the entire Jewish people witness that it was the birth of an extraordinary person, and that his birth had taken place miraculously rather than as the result of an act of moral corruption. When this unmarried girl, of a highly esteemed and pious Israelite family, produced a new-born infant, thousands of people of all age groups thronged to her house out of curiosity. Instead of replying to their queries verbally, Mary pointed to the baby, indicating that he would himself reply. The wonder-struck crowd inquired if they were expected to direct their questions to the infant child who lay in the cradle. To their amazement the child addressed the crowd in a clear and eloquent style: 'I am indeed a servant of God, and to me has He vouchsafed Revelation, me has He made a Prophet'. (Surah Maryam 19: 30.) Thus God demolished every basis for casting doubt on the birth of Jesus. When Jesus was young no one accused Mary of either unchastity or Jesus of being born illegitimately. When Jesus reached the age of thirty he launched his prophetic mission, censuring the Jews for their misdeeds and reproaching the rabbis and the Pharisees for their hypocrisy. He also called attention to the moral degeneration to which they had sunk, urging people to rise up and engage in the perilous struggle to establish the hegemony of God's religion. Such a struggle called for all kinds of sacrifices and involved confrontation with Satanic forces on all fronts. Once Jesus launched this mission these criminals decided to spare no weapon, however base, in their bid to silence this fearless voice of truth. It was at this point that they flung at Mary the accusation of unchastity and at Jesus that of illegitimate birth. They made these accusations despite full knowledge that both mother and child were absolutely chaste and innocent. That is why this accusation is not characterized as either a wrong or a falsehood. It is rather branded as disbelief (kufr) since the calumny was motivated chiefly by the desire to obstruct the path of true faith and not just to bring an innocent woman into disrepute.

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :189 یہ فقرہ اصل سلسلہ تقریر سے تعلق رکھتا ہے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :190 حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا معاملہ یہودی قوم میں فی الواقع ذرہ برابر بھی مشتبہ نہ تھا بلکہ جس روز وہ پیدا ہوئے تھے اسی روز اللہ تعالیٰ نے پوری قوم کو اس بات پر گواہ بنا دیا تھا کہ یہ ایک غیر معمولی شخصیت کا بچہ ہے جس کی ولادت معجزے کا نتیجہ ہے نہ کہ کسی اخلاقی جرم کا ۔ جب بنی اسرائیل کے ایک شریف ترین اور مشہور و نامور مذہبی گھرانے کی بن بیاہی لڑکی گود میں بچہ لیے ہوئے آئی ، اور قوم کے بڑے اور چھوٹے سیکڑوں ہزاروں کی تعداد میں اس کے گھر پر ہجوم کر کے آگئے ، تو اس لڑکی نے ان کے سوالات کا جواب دینے کے بجائے خاموشی کے ساتھ اس نوزائیدہ بچے کی طرف اشارہ کر دیا کہ یہ تمہیں جواب دے گا ۔ مجمع نے حیرت سے کہا کہ اس بچہ سے ہم کیا پوچھیں جو گہوارے میں لیٹا ہوا ہے ۔ مگر یکایک وہ بچہ گویا ہو گیا اور اس نے نہایت صاف اور فصیح زبان میں مجمع کو خطاب کر کے کہا کہ اِنِّیْ عَبْدُ اللہِ قف اٰتٰنِیَ الْکِتٰبَ وَ جَعَلَنِیْ نَبِیًّا ۔ ” میں اللہ کا بندہ ہوں ، اللہ نے مجھے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے ۔ “ ( سورہ مریم رکوع ۲ ) ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس شبہ کی ہمیشہ کے لیے جڑ کاٹ دی تھی جو ولادت مسیح کے بارے میں پیدا ہو سکتا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے سن شباب کو پہنچنے تک کبھی کسی نے نہ حضرت مریم علیہ السلام پر زنا کا الزام لگایا ، نہ حضرت عیسٰی کو ناجائز ولادت کا طعنہ دیا ۔ لیکن جب تیس برس کی عمر کو پہنچ کر آپ نے نبوت کے کام کی ابتدا فرمائی ، اور جب آپ نے یہودیوں کو ان کی بد اعمالیوں پر ملامت کرنی شروع کی ، ان کے علماء و فقہاء کو ان کی ریاکاریوں پر ٹوکا ، ان کے عوام اور خواص سب کو اس اخلاقی زوال پر متنبہ کیا جس میں وہ مبتلا ہو گئے تھے ، اور اس پرخطر راستے کی طرف اپنی قوم کو دعوت دی جس میں خدا کے دین کو عملاً قائم کرنے کے لیے ہر قسم کی قربانیاں برداشت کرنی پڑتی تھیں اور ہر محاذ پر شیطانی قوتوں سے لڑائی کا سامنا تھا ، تو یہ بے باک مجرم صداقت کی آواز کو دبانے کے لیے ہر ناپاک سے ناپاک ہتھیار استعمال کرنے پر اتر آئے ۔ اس وقت انہوں نے وہ بات کہی جو تیس سال تک نہ کہی تھی کہ مریم علیہا السلام معاذاللہ زانیہ ہیں اور عیسیٰ ابن مریم ولد الزنا ۔ حالانکہ یہ ظالم بالیقین جانتے تھے کہ یہ دونوں ماں بیٹے اس گندگی سے بالکل پاک ہیں ۔ پس درحقیقت ان کا یہ بہتان کسی حقیقی شبہہ کا نتیجہ نہ تھا جو واقعی ان کے دلوں میں موجود ہوتا ، بلکہ خالص بہتان تھا جو انہوں نے جان بوجھ کر محض حق کی مخالفت کے لیے گھڑا تھا ۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اسے ظلم اور جھوٹ کے بجائے کفر قرار دیا ہے کیونکہ اس الزام سے ان کا اصل مقصد خدا کے دین کا راستہ روکنا تھا نہ کہ ایک بے گناہ عورت پر الزام لگانا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

90: حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) چونکہ حضرت مریم علیہا السلام کے بطن سے بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے، اس لیے یہودیوں نے اللہ تعالیٰ کی قدرت کے اس معجزے کو تسلیم کرنے کے بجائے حضرت مریم علیہا السلام جیسی پاک نفس اور عفت مآب خاتون پر گھناؤنا الزام لگایا تھا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:156) وبکفرھم کا عطف بھی فبما نقضہم میثاقھم آیۃ ما قبل پر ہے اسی طرح وقلہم ۔۔ رسول اللہ کا عطف فیما نقضھم پر ہے۔ یعنی وہ بدیں سبب بھی مورد لعنت ہوئے کہ انہوں نے پیہم کفر کا ارتکاب کیا۔ (یعنی پہلے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا اور پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا اور ازاں بعد حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا) اور حضرت مریم پر بہتان عظیم باندھا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

بکفرھم کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے بغیر باپ کے پیدا ہونے کو محال سمجھا جس سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا انکار کر کے صریح کفر کا ارتکاب کیا اور پھر حضرت مریم ( علیہ السلام) کی طرف زنا کی نسبت کر کے مزید بہتان باند ھا (رازی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : یہودیوں کے جرائم کی فہرست جاری ہے۔ یہود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں اس قدر تعصب کا شکار ہوئے کہ انہوں نے نہ صرف عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کی سازش کی بلکہ انکی عابدہ اور عفیفہ ماں حضرت مریم [ پر بد کاری کا الزام عائد کیا حالانکہ حضرت مریم [ کی حیات طیبہ اور ان کے خاندان کا تقدس ضرب المثل اور شہرہ آفاق تھا۔ اس کیساتھ عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی والدہ ماجدہ کی برأت کی شہادت اور اپنی نبوت کی اس وقت گواہی دی جب آپ چند دنوں کے نومولود تھے۔ اس معجزانہ اور معصومانہ گواہی کے چرچے سارے عالم میں اس طرح مشہور اور گہرے اثرات کے حامل ہوئے جس سے لوگ حضرت مریم [ کی تقدیس و تکریم کے اس قدر معترف ہوئے کہ کوئی بدکار سے بدکار شخص بھی حضرت مریم کے بارے میں برے خیالات کا اظہار تو درکنار منفی سوچ کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ لیکن جونہی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے تیس سال کے بعد توحید خالص کا پرچار اور پیغمبرانہ دعوت کا آغاز کرتے ہوئے یہود کے سیاسی رہنماؤں اور مذہبی پیشواؤں کو ان کی کوتاہیوں پر ٹوکا تو یہ لوگ نہ صرف عیسیٰ (علیہ السلام) کے مخالف ہوئے بلکہ کمینگی میں اتنا آگے بڑھے کہ حضرت مریم [ پر بدکاری اور بےحیائی کا الزام لگایا تاکہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو ولد الزنا ثابت کرکے لوگوں کو ان سے متنفر کیا جائے۔ یہود کی بد زبانی اور الزام تراشی کا جواب دیتے ہوئے قرآن مجید نے نہ صرف عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ معظمہ کی برات کا اظہار فرمایا بلکہ ان کے خاندانی پس منظر 249 عظیم تقدس اور ان کے نانا حضرت عمران کی کرامات اور ان کی نانی محترمہ کی عظیم قربانی جو انہوں نے حضرت مریم کو اللہ کی عبادت کے لیے وقف کرنے کی صورت میں دی اس کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے یہ عیسائیوں پر قرآن مجید کا اتنا بڑا احسان ہے کہ جس کا وہ قیامت تک بدلہ نہیں چکا سکتے۔ مسائل ١۔ یہودیوں کے کفر اور حضرت مریم [ پر الزام لگانے کی وجہ سے ان پر اللہ تعالیٰ کی پھٹکار ہوئی۔ ٢۔ حضرت مریم [ پاکباز اور پاکدامن خاتون تھیں۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” وبکفرھم وقولھم علی مریم بھتانا عظیما (١٥٦) وقولھم انا قتلنا المسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اللہ “۔ (١٥٧) (٤ : ١٥٦۔ ١٥٧) (پھر اپنے کفر میں یہ اتنے بڑھے کہ مریم پر سخت بہتان لگایا ‘ اور خود کہا کہ ہم نے مسیح ‘ عیسیٰ (علیہ السلام) ابن مریم ‘ رسول اللہ کو قتل کردیا ہے) ۔۔۔۔ جب بھی ان کے برے افعال میں سے کسی بات کا ذکر کیا جاتا ہے قرآن کریم ان کی صفت کفر کو ضرور ساتھ لاتا ہے ۔ قتل انبیاء ذکر کے وقت بھی یہ صفت دہرائی گئی کہ انہوں نے انبیاء کو ناحق قتل کیا ‘ انبیاء کا قتل جب بھی ہوا ناحق ہی ہوا ۔ ناحق کا لفظ بطور حقیقت واقعہ لایا گیا ہے ۔ اسی طرح جہاں اس بات کا ذکر ہوا کہ انہوں نے حضرت مریم (علیہ السلام) پر عظیم بہتان باندھا وہاں بھی اس صفت کا ذکر ہوا ۔ مریم پر انہوں نے جو بہتان باندھا اس کے قائل صرف یہودی تھے ۔ انہوں نے مریم پر یوسف نجار کے ساتھ زنا کرنے کا الزام باندھا (ان پر خدا کا غضب ہو ! ) اس کے بعد انہوں نے یہ ڈینگ ماری کہ انہوں نے حضرت مسیح کو سولی پر چڑھایا اور طنز ! یہ کہا کہ ” انہوں نے مسیح ابن مریم رسول اللہ کو قتل کردیا ہے ۔ “ یہاں تک آکر سیاق کلام ایک بار پھر رک جاتا ہے اور ان کے اس دعوے کی لگے ہاتھوں تردید کردی جاتی ہے ۔ اور سچائی کو ثابت اور مستحکم کردیا جاتا ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد ان کے مزید کفر کا تذکرہ فرمایا اور وہ سیدنا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ کفر کرنا ہے۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ ان کے ساتھ کفر کیا بلکہ ان کی ماں پر بھی بری بات کی تہمت باندھی باوجودیکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ماں کی گود میں ہی اپنی ماں کی برأت ظاہر کردی، جب حضرت مریم کی گود میں بچہ دیکھ کر بنی اسرائیل نے بری بات کی تہمت لگا دی تو حضرت مریم نے بچے کی طرف اشارہ کردیا بچے نے کہا (اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰہِ اٰتٰنِیَ الْکِتَابَ وَجَعَلَنِیْ نَبِیًّا) (الآیۃ) اور قرآن نے بھی حضرت مریم (علیہ السلام) کی پاک دامنی بیان فرما دی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi