189. This marks the resumption of the main theme of the discourse.
190. The Jews had ho grounds for suspicion regarding the miraculous birth of Jesus. The day he was born God made the entire Jewish people witness that it was the birth of an extraordinary person, and that his birth had taken place miraculously rather than as the result of an act of moral corruption. When this unmarried girl, of a highly esteemed and pious Israelite family, produced a new-born infant, thousands of people of all age groups thronged to her house out of curiosity. Instead of replying to their queries verbally, Mary pointed to the baby, indicating that he would himself reply. The wonder-struck crowd inquired if they were expected to direct their questions to the infant child who lay in the cradle. To their amazement the child addressed the crowd in a clear and eloquent style: 'I am indeed a servant of God, and to me has He vouchsafed Revelation, me has He made a Prophet'. (Surah Maryam 19: 30.)
Thus God demolished every basis for casting doubt on the birth of Jesus. When Jesus was young no one accused Mary of either unchastity or Jesus of being born illegitimately. When Jesus reached the age of thirty he launched his prophetic mission, censuring the Jews for their misdeeds and reproaching the rabbis and the Pharisees for their hypocrisy. He also called attention to the moral degeneration to which they had sunk, urging people to rise up and engage in the perilous struggle to establish the hegemony of God's religion. Such a struggle called for all kinds of sacrifices and involved confrontation with Satanic forces on all fronts. Once Jesus launched this mission these criminals decided to spare no weapon, however base, in their bid to silence this fearless voice of truth. It was at this point that they flung at Mary the accusation of unchastity and at Jesus that of illegitimate birth. They made these accusations despite full knowledge that both mother and child were absolutely chaste and innocent. That is why this accusation is not characterized as either a wrong or a falsehood. It is rather branded as disbelief (kufr) since the calumny was motivated chiefly by the desire to obstruct the path of true faith and not just to bring an innocent woman into disrepute.
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :189
یہ فقرہ اصل سلسلہ تقریر سے تعلق رکھتا ہے ۔
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :190
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا معاملہ یہودی قوم میں فی الواقع ذرہ برابر بھی مشتبہ نہ تھا بلکہ جس روز وہ پیدا ہوئے تھے اسی روز اللہ تعالیٰ نے پوری قوم کو اس بات پر گواہ بنا دیا تھا کہ یہ ایک غیر معمولی شخصیت کا بچہ ہے جس کی ولادت معجزے کا نتیجہ ہے نہ کہ کسی اخلاقی جرم کا ۔ جب بنی اسرائیل کے ایک شریف ترین اور مشہور و نامور مذہبی گھرانے کی بن بیاہی لڑکی گود میں بچہ لیے ہوئے آئی ، اور قوم کے بڑے اور چھوٹے سیکڑوں ہزاروں کی تعداد میں اس کے گھر پر ہجوم کر کے آگئے ، تو اس لڑکی نے ان کے سوالات کا جواب دینے کے بجائے خاموشی کے ساتھ اس نوزائیدہ بچے کی طرف اشارہ کر دیا کہ یہ تمہیں جواب دے گا ۔ مجمع نے حیرت سے کہا کہ اس بچہ سے ہم کیا پوچھیں جو گہوارے میں لیٹا ہوا ہے ۔ مگر یکایک وہ بچہ گویا ہو گیا اور اس نے نہایت صاف اور فصیح زبان میں مجمع کو خطاب کر کے کہا کہ اِنِّیْ عَبْدُ اللہِ قف اٰتٰنِیَ الْکِتٰبَ وَ جَعَلَنِیْ نَبِیًّا ۔ ” میں اللہ کا بندہ ہوں ، اللہ نے مجھے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے ۔ “ ( سورہ مریم رکوع ۲ ) ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس شبہ کی ہمیشہ کے لیے جڑ کاٹ دی تھی جو ولادت مسیح کے بارے میں پیدا ہو سکتا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے سن شباب کو پہنچنے تک کبھی کسی نے نہ حضرت مریم علیہ السلام پر زنا کا الزام لگایا ، نہ حضرت عیسٰی کو ناجائز ولادت کا طعنہ دیا ۔ لیکن جب تیس برس کی عمر کو پہنچ کر آپ نے نبوت کے کام کی ابتدا فرمائی ، اور جب آپ نے یہودیوں کو ان کی بد اعمالیوں پر ملامت کرنی شروع کی ، ان کے علماء و فقہاء کو ان کی ریاکاریوں پر ٹوکا ، ان کے عوام اور خواص سب کو اس اخلاقی زوال پر متنبہ کیا جس میں وہ مبتلا ہو گئے تھے ، اور اس پرخطر راستے کی طرف اپنی قوم کو دعوت دی جس میں خدا کے دین کو عملاً قائم کرنے کے لیے ہر قسم کی قربانیاں برداشت کرنی پڑتی تھیں اور ہر محاذ پر شیطانی قوتوں سے لڑائی کا سامنا تھا ، تو یہ بے باک مجرم صداقت کی آواز کو دبانے کے لیے ہر ناپاک سے ناپاک ہتھیار استعمال کرنے پر اتر آئے ۔ اس وقت انہوں نے وہ بات کہی جو تیس سال تک نہ کہی تھی کہ مریم علیہا السلام معاذاللہ زانیہ ہیں اور عیسیٰ ابن مریم ولد الزنا ۔ حالانکہ یہ ظالم بالیقین جانتے تھے کہ یہ دونوں ماں بیٹے اس گندگی سے بالکل پاک ہیں ۔ پس درحقیقت ان کا یہ بہتان کسی حقیقی شبہہ کا نتیجہ نہ تھا جو واقعی ان کے دلوں میں موجود ہوتا ، بلکہ خالص بہتان تھا جو انہوں نے جان بوجھ کر محض حق کی مخالفت کے لیے گھڑا تھا ۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اسے ظلم اور جھوٹ کے بجائے کفر قرار دیا ہے کیونکہ اس الزام سے ان کا اصل مقصد خدا کے دین کا راستہ روکنا تھا نہ کہ ایک بے گناہ عورت پر الزام لگانا ۔