Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 16

سورة النساء

وَ الَّذٰنِ یَاۡتِیٰنِہَا مِنۡکُمۡ فَاٰذُوۡہُمَا ۚ فَاِنۡ تَابَا وَ اَصۡلَحَا فَاَعۡرِضُوۡا عَنۡہُمَا ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا ﴿۱۶﴾

And the two who commit it among you, dishonor them both. But if they repent and correct themselves, leave them alone. Indeed, Allah is ever Accepting of repentance and Merciful.

تم میں سے جو دو افراد ایسا کام کرلیں انہیں ایذا دو اگر وہ توبہ اور اصلاح کرلیں تو ان سے مُنہ پھیر لو ، بیشک اللہ تعالٰی توبہ قبول کرنے والا ہے اور رحم کرنے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَاللَّذَانَ يَأْتِيَانِهَا مِنكُمْ فَأذُوهُمَا ... And the two persons among you who commit illegal sexual intercourse, punish them both. Ibn Abbas and Sa`id bin Jubayr said that; this punishment includes cursing, shaming them and beating them with sandals. This was the ruling until Allah abrogated it with flogging or stoning, as we stated. Mujahid said, "It was revealed about the case of two men who do it." As if he was referring to the actions of the people of Lut, and Allah knows best. The collectors of Sunan recorded that Ibn Abbas said that the Messenger of Allah said, مَنْ رَأَيْتُمُوهُ يَعْمَلُ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ فَاقْتُلُوا الْفَاعِلَ وَالْمَفْعُولَ بِه Whoever you catch committing the act of the people of Lut (homosexuality), then kill both parties to the act. Allah said, ... فَإِن تَابَا وَأَصْلَحَا ... And if they repent and do righteous good deeds, by refraining from that evil act, and thereafter their actions become righteous. ... فَأَعْرِضُواْ عَنْهُمَا ... leave them alone, do not verbally abuse them after that, since he who truly repents is just like he who has no sin. ... إِنَّ اللّهَ كَانَ تَوَّابًا رَّحِيمًا Surely, Allah is Ever the One Who accepts repentance, Most Merciful. The following is recorded in the Two Sahihs: إِذَا زَنَتْ أَمَةُ أَحَدِكُمْ فَلْيَجْلِدْهَا الْحَدَّ وَلاَ يُثَرِّبْ عَلَيْهَا When the slave-girl of one of you commits illegal sexual intercourse, let him flog her and not chastise her afterwards. because the lashes she receives erase the sin that she has committed.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

16۔ 1 بعض نے اس میں اغلام بازی مراد لی ہے یعنی عمل لواطت۔ دو مردوں کا ہی آپس میں بدفعلی کرنا اور بعض نے اسے باکرہ مرد و عورت مراد لیئے ہیں اور اس سے قبل کی آیت کو انہوں نے محصنات یعنی شادی کے ساتھ کیا ہے اور بعض نے اس تثنیہ کے صیغے سے مراد لیا ہیں۔ قطع نظر اس سے کہ وہ باکرہ ہوں یا شادی شدہ (ابن جریر طبری) نے دوسرے مفہوم یعنی باکرہ (مرد و عورت) کو ترجیح دی ہے اور پہلی آیت میں بیان کردہ سزا کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بتلائی ہوئی سزا سزائے رجم سے اور اس آیت میں بیان کردہ سزا کو سورة نور میں بیان کردہ سو کوڑے کی سزا سے منسوخ قرار دی ہے۔ (تفسیر طبری) 16۔ 2 یعنی زبان سے زجر و توبیخ اور ملامت یا ہاتھ سے کچھ زدوکوب کرلینا۔ اب یہ منسوخ ہے، جیسا کہ گزرا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٨] اس آیت میں (والذان) کا لفظ استعمال ہوا ہے یعنی خواہ یہ زنا کرنے والے مرد اور عورت ہوں یا دونوں مرد ہوں اور لواطت کے مرتکب ہوں۔ اس لفظ میں دونوں صورتوں کی گنجائش ہے تو ایسے مردوں یا ایسے مرد اور عورت کی ابتدائی سزا یہ تھی کہ انہیں مار پیٹ کی جائے اور برا بھلا کہا جائے اور ذلیل کیا جائے۔ گویا زانی مرد اور عورت دونوں کے لیے تو یہ سزا تھی اور عورت کے لیے یہ سزا اضافی تھی کہ اسے تازیست گھر میں بند رکھا جائے۔ اور جس دوسری سزا کے تجویز کرنے کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا تھا اس سلسلے میں درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے : سزائے رجم :۔ سیدنا عبادہ بن صامت (رض) سے روایت ہے کہ ایک روز آپ پر وحی نازل ہوئی اور جب وحی کی کیفیت ختم ہوئی تو آپ نے فرمایا : مجھ سے (اللہ کا حکم) سیکھ لو۔ اللہ نے ایسی عورتوں کے لیے سزا تجویز کردی۔ شادی شدہ مرد اور شادی شدہ عورت اگر زنا کریں تو انہیں سو کوڑے مارے جائیں۔ پھر رجم کیا جائے اور اگر کنوارہ مرد اور کنواری عورت زنا کریں تو ان کے لیے سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ہے۔ (مسلم، کتاب الحدود۔ باب حد الزنا) پھر اس حکم کے بعد زانی مرد اور عورت کے لیے سورة نور میں سزا تجویز فرمائی۔ یہ بحث تفصیل سے سورة نور میں ہی آئے گی۔ مندرجہ بالا آیات میں بعض لوگوں نے والٰتی سے مراد مرد اور عورت نہیں بلکہ دونوں عورتیں ہی لی ہیں، جو آپس میں چپٹی بازی کر کے (جسے عربی میں سحق کہتے ہیں) کام چلا لیتی ہیں۔ ایسی دونوں عورتوں کے لیے سزا حبس دوام ہے۔ یعنی گھر میں ہی ایسی عورتوں کی کڑی نگہداشت رکھی جائے۔ اور یہ حد نہیں بلکہ تعزیر ہے لیکن یہ مراد کچھ درست معلوم نہیں ہوتی۔ کیونکہ بعد میں اللہ تعالیٰ نے جو سزا تجویز فرمائی وہ مرد اور عورت کے لیے سزا تھی۔ خواہ وہ کنوارے ہوں یا شادی شدہ، ہر ایک کے لیے علیحدہ سزا مقرر ہوئی، جیسا کہ مندرجہ بالا عبادہ بن صامت (رض) کی حدیث سے واضح ہے جسے مسلم نے روایت کیا ہے۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ اگر عورتیں ہی آپس میں چپٹی بازی کریں تو انہیں ان کے ولی ایسی سزا دے سکتے ہیں۔ اسی طرح والَّذَانِ سے مراد اغلام یا لواطت لی گئی ہے یعنی ایسی بدفعلی جو دو مرد آپس میں کرتے ہیں۔ اور ان پر بھی حد نہیں بلکہ تعزیر ہے اور وہ تعزیر یہ ہے کہ انہیں جوتے مارے جائیں۔ لواطت کی حد کے بارے میں ترمذی، ابو اب الحدود میں ابن عباس (رض) سے ایک روایت مرفوعاً مروی ہے کہ فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کردیا جائے لیکن یہ حدیث ضعیف ہے۔ پھر ائمہ ایسے جوڑے کے رجم کے قائل ہیں۔ اور بعض کہتے ہیں کہ ان کی سزا زانی جیسی ہے۔ اگر شادی شدہ ہے تو رجم ورنہ کوڑے پڑیں گے۔ زنا ہو یا اغلام یا چپٹی بازی ہو یا محض تہمت ہو۔ ان سب میں چار مردوں کی شہادت ضروری ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک دعویٰ میں دو دو افراد ملوث ہوتے ہیں خواہ ایک مرد اور ایک عورت ہو یا دونوں عورتیں ہوں یا دونوں مرد ہوں۔ [٢٩] یعنی اگر وہ مار پیٹ کے دوران یا اس کے بعد اپنے کیے پر فی الواقع نادم ہوں اور آئندہ کے لیے اپنی اصلاح کرلیں تو ایسے لوگوں پر مزید ملامت کرنا درست نہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Homosexuality The above discussion was based on the assumptions that both verses 15 and 16 relate to the fornication or adultery committed between men and women. However, some commentators of the Holy Qur&an, including Qadi Thanaullah Panipati, are of the view that verse 16 refers to homosexual act committed between two males. Verse 16 is translated as follows: |"And those two of you who commit it (the shameful act), torture them both|". Here the Arabic word used for &those two of you is a masculine pronoun which presumes males on both sides. On this basis, these commentators have opined that this verse relates to two males committing unnatural shameful act, i.e. homosexuality. The commen¬tators, who take both verses as referring to fornication or adultery, refute this argument on the principle that in general usage masculine expressions include feminine also. Be that as it may, the possibility of a reference to homosexuality in this verse cannot be ruled out. Therefore, it is pertinent here to give some details about the severe prohibition of homosexuality. Here are some Traditions of the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم and his noble Companions (رض) on this subject: عن ابی ہریرہ (رض) ان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال : لعن اللہ سبعۃ من خلقہ من فوق سبع سمٰوتہ وردّد اللعنۃ علی واحد منھم ثلاثاً و لعن کل واحد منھم لعنۃ تکفیہ، قال : ملعون من عمل عمل قوم لوط، ملعون من عمل عمل قوم لوط ملعون من عمل عمل قوم لوط ، (الحدیث) As narrated by Sayyidna Abu Hurairah (رض) the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: |"Allah has cursed seven types of his creatures from above the seven heavens. He has cursed one of them thrice, while has cursed the others one time which is enough for them. (About the one whom He has cursed thrice) He has said, |"Cursed is he who did what the people of لوط (علیہ السلام) Lot did. Cursed is he who did what the people of Lot did. Cursed is he who did what the people of Lot did.|" (At-Targhib wat-Tarhib) عن ابی ہریرہ (رض) ان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال : أربعۃ یصبحون فی غضب اللہ و یمسون فی سخط اللہ، قُلتُ : مَن ھم یا رسول اللہ ؟ قال : المشتبھون من الرجال بالنساء والمتشبھات من النساء بالرجال، والذی یأتی البھیمۃ ، والذی یأتی الرجال۔ Sayyidna Abu Hurairah (رض) عنہ reports that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: |"Four types of people are, when they begin their day, under the wrath of Allah and when they reach their evenings they are under the rage of Allah.|" I asked: |"Who are they, 0 Messenger of Allah?|" He said: |"Men who imitate women and women who imitate men and he who goes unto animals and he who goes unto men|". و عن انم عباس (رض) قال : قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ـ من وجدتموہ یعمل عمل قوم لوط فاقتلوا الفاعل و المفعول بہ As narrated by Sayyidna Ibn ` Abbas. (رض) the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: |"If you find someone doing what the people of Lot did, kill both the doer and the one with whom it is done. (op. cit.) In At-Targhib wat-Tarhib cited above, Hafiz Zaki& al-Din has said that four caliphs, Sayyidna Abu Bakr, Sayyidna ` Ali, Sayyidna ` Abdullah ibn Zubayr and Hisham ibn ` Abdul-Malik (رض) had condemned those guilty of sodomy to the fire. In this connection, he has also related, on the authority of Muhammad ibn Al-Munkadir, an event to the effect that Sayyidna Khalid ibn Walid (رض) wrote a letter to Sayyidna Abu Bakr (رض) reporting that there was a man in a certain Arabian locality with whom they did what is done with women. Sayyidna Abu Bakr (رض) called a meeting of the noble Companions, - Sayyidna Ali (رض) being one of them. He said that a sin like that was not committed by any human group except one, and they all knew how Allah Almighty dealt with those people. He proposed that the man be condemned to fire. Other Companions concurred and Sayyidna Abu Bakr (رض) decreed accordingly. In the Hadith narrations quoted above, the act of the people of Lut has been repeatedly mentioned. The reference is to the people to whom Sayyidna Lut (علیہ السلام) was sent as their prophet. Apart from their disbelief in the Divine Message and the Messenger, and their ascribing all sorts of partners to Allah, they were also addicted to this abomi¬nably unnatural practice. When the preachings and teachings of Sayy¬idna Lut (علیہ السلام) had no effect on them, the angels acted as commanded by Allah Almighty. They physically lifted the habitations of these people off the ground, then a flip upside down, and down they threw the whole thing back on the ground. Details will, Insh’ Allah, appear in the Commentary on Surah al-A` raf. The hadith narrations given above related to homosexual act. There are other narrations which carry the severest of warnings against indulging in the unnatural act (anal intercourse) with women: عن ابن عباس (رض) ان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال : لا ہنظر اللہ عَزَّ و جَلّ إلی رجل اتی رجلاً أو امرأۃ فی دبرہا Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) narrates that the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم said: |"Allah Almighty does not look (mercifully) at the person who commits anal intercourse with a man or woman.|" عن خزیمۃ بن ثابت قال : قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : اِنَ اللہ لا یستحی من الحق، ثلاث مرَّات ، لا تأتوا النساء فی أدبارھن Sayyidna Khuzaimah ibn Thabit says that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said : Allah does not get embarrassed by stating the truth. He said this thrice. Then, he said: |"Do not go unto women anally.|" عن ابوہریرہ (رض) أن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال : ملعون من أتی امرأۃ فی دبرھا Sayyidna Abu Hurairah (رض) narrates that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: |"Cursed is he who goes unto women anally.|" (At-Targhib wat-Tarhib) وعنہ أن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال : من أتی حایضاً أو امرأۃ فی دبرھا أو کاھناً فصدَّقہ ، فقد کفر بما انزل علی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) He also narrates that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: |"One who goes unto a woman in menstruation, or in her anus or goes to a soothsayer ( کاھِن kahin) and accepts his statement relating to the unknown, then, such people have rejected what was revealed to Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) |" As for a fixed punishment for this evil act, there is a difference of opinion among Muslim jurists, details of which are available in books of Fiqh. Nevertheless, the nature of such punishments reported by them is as severe as it can be, such as, burning into fire, bashing under a wall felled over, throwing down from a height, stoning and beheading with a sword.

غیر فطری طریقہ سے قضاء شہوت کا حکم : میرے نزدیک ” الذان یاتیانھا “ کا مصداق وہ لوگ ہیں جو غیر فطری طریقہ پر قضاء شہوت کرتے ہیں، یعنی مرد استلذاز بالمثل کے مرتکب ہوتے ہیں۔ “ قاضی صاحب کے علاوہ دیگر حضرات نے بھی اسی قول کو لیا ہے، الفاظ قرآن مجید میں چونکہ لفظ الذان یاتیانھا موصول اور صلہ دونوں مذکر کے الفاظ ہیں، اس لئے ان حضرات کا یہ قول بعید نہیں ہے، گو جن حضرات نے زانی اور زانیہ مراد لیا ہے، انہوں نے بطور تغلیب مذکر کا یہ صیغہ زانیہ کے لئے بھی شامل رکھا ہے، تاہم موقع کی مناسبت سے استلذاذ بالمثل کی حرمت و شدت اور اس کی جزاء و تعزیز کا ذکر اس جگہ بےجا نہ ہوگا۔ احادیث و آثار سے اس سلسلہ میں جو کچھ ثابت ہوتا ہے اس میں سے بطور نمونہ کچھ نقل کیا جاتا ہے : ” حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے سات قسم کے لوگوں پر سات آسمانوں کے اوپر سے لعنت بھیجی ہے اور ان سات میں سے ایک پر تین تین دفعہ لعنت بھیجی ہے اور باقی پر ایک دفعہ، فرمایا ملعون ہے وہ شخص جو قوم لوط والا عمل کرتا ہے ملعون ہے وہ شخص جو قوم لوط والا عمل کرتا ہے، ملعون ہے وہ شخص جو قوم لوط والا عمل کرتا ہے۔ “ ” حضرت ابوہریرة (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ چار آدمی صبح کے وقت اللہ جل شانہ کے غضب میں ہوتے ہیں اور شام کو بھی اللہ جل شانہ، ان سے ناراض ہوتے ہیں، میں نے پوچھا کہ وہ کون لوگ ہیں ؟ آپ نے فرمایا وہ مرد جو عورتوں کی طرح بنتے ہیں اور وہ عورتیں جو مردوں کی طرح بنتی ہیں اور وہ شخص جو چوپایہ کے ساتھ غیر فطری حرکت کرتا ہے اور وہ مرد جو مرد سے قضاء شہوت کرتا ہے۔ “ ” حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے، فرمایا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جس کو تم قوم لوط کی طرح غیر فطری حرکت کرتا ہوا دیکھ لو تو فاعل اور مفعول دونوں کو مار ڈالو۔ “ حافظ زکی الدین نے ترغیب ترہیب میں لکھا ہے کہ چار خلفاء حضرت ابوبکر صدیق، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن الزبیر اور ہشام بن عبدالملک نے اپنے زمانوں میں غیر فطری حرکت والوں کو آگ میں جلا ڈالا تھا۔ اس سلسلہ میں انہوں نے محمد بن المنکدر کی روایت سے ایک واقعہ بھی لکھا ہے کہ خالد بن ولید (رض) نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو خط لکھا کہ یہاں عرب کے علاقہ میں ایک مرد ہے جس کے ساتھ عورت والا کام کیا جاتا ہے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے اس سلسلہ میں صحابہ کرام کو جمع کیا اور ان میں حضرت علی بھی تشریف لائے، حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ یہ ایک ایسا گناہ ہے جس کا ارتکاب سوائے ایک قوم کے کسی نے نہیں کیا اور اللہ جل شانہ نے اس قوم کے ساتھ جو معاملہ کیا وہ آپ سب کو معلوم ہے میری رائے ہے کہ اسے آگ میں جلا دیا جائے دوسرے صحابہ کرام نے بھی اس پر اتفاق کرلیا اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے اسے آگ میں جلا دینے کا حکم دیدیا۔ مذکورہ روایات میں قوم لوط کے عمل کا حوالہ بار بار آیا ہے، حضرت لوط (علیہ السلام) جس قوم کی طرف مبعوث کئے گئے تھے وہ قوم کفر و شرک کے علاوہ اس بدترین اور غیر فطری حرکت کی بھی عادی تھی اور جب حضرت لوط (علیہ السلام) کی دعوت و تبلیغ کا ان پر اثر نہ ہوا تو اللہ جل شانہ کے حکم سے فرشتوں نے اس قوم کی بستیوں کو زمین سے اٹھا لیا اور اوندھا کر کے زمین پر پھینک دیا جس کا ذکر سورة اعراف میں آئے گا، انشاء اللہ۔ مندرجہ بالا روایات استلذاد بالجنس سے متعلق تھیں، روایات میں عورتوں کے ساتھ غیر فطری فعل کرنے پر بھی شدید ترین وعیدیں آئی ہیں۔ ” حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ جل شانہ، اس مرد کی طرف رحمت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے جو مرد یا عورت کے ساتھ غیر فطری فعل کرے۔ “ ” خزیمہ بن ثابت (رض) فرماتے ہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ جل شانہ حق بیان کرنے میں شرم نہیں کرتے، یہ الفاظ آپ نے تین دفعہ ارشاد فرمائے، (پھر فرمایا) عورتوں کے پاس غیر فطری طریقہ سے مت آیا کرو۔ “ ” حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے وہ شخص ملعون ہے جو غیر فطری طریقہ سے بیوی کے ساتھ جماع کرتا ہے۔ “ ” حضرت ابوہریرہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو مرد حیض کی حالت میں بیوی کے ساتھ جماع کرتا ہے یا غیر فطری طریقہ سے اس کے ساتھ جماع کرتا ہے، یا کسی کاہن کے پاس جاتا ہے اور غیب سے متعلق اس کی خبر کی تصدیق کرتا ہے، تو ایسے لوگ اس دین سے منکر ہوگئے جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوا۔ “ اس قبیح فعل کے لئے کسی معین حد کے مقرر کرنے میں تو فقہاء کا اختلاف ہے جس کی تفصیل کتب فقہ میں موجود ہے، تاہم اس کے لئے شدید سے شدید سزائیں منقول ہیں، مثلاً آگ میں جلا دینا، دیوار گرا کر کچل دینا، اونچی جگہ سے پھینک کر سنگسار کردینا، تلوار سے قتل کردینا وغیرہ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالَّذٰنِ يَاْتِيٰنِھَا مِنْكُمْ فَاٰذُوْھُمَا۝ ٠ ۚ فَاِنْ تَابَا وَاَصْلَحَا فَاَعْرِضُوْا عَنْہُمَا۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ تَوَّابًا رَّحِـيْمًا۝ ١٦ أذي الأذى: ما يصل إلى الحیوان من الضرر إمّا في نفسه أو جسمه أو تبعاته دنیویاً کان أو أخرویاً ، قال تعالی: لا تُبْطِلُوا صَدَقاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذى [ البقرة/ 264] ( ا ذ ی ) الاذیٰ ۔ ہرا س ضرر کو کہتے ہیں جو کسی جاندار کو پہنچتا ہے وہ ضرر جسمانی ہو یا نفسانی یا اس کے متعلقات سے ہو اور پھر وہ ضرر دینوی ہو یا اخروی چناچہ قرآن میں ہے : ۔ { لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى } ( سورة البقرة 264) اپنے صدقات ( و خیرات ) کو احسان جتا کر اور ایذا دے کر برباد نہ کرو ۔ توب التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار، فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول : فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع : ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة/ 54] ( ت و ب ) التوب ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں ۔ پہلی صورت یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ تیسری صورت یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر شرعا توبہ جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور/ 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔ صلح والصُّلْحُ يختصّ بإزالة النّفار بين الناس، يقال منه : اصْطَلَحُوا وتَصَالَحُوا، قال : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء/ 128] ( ص ل ح ) الصلاح اور الصلح کا لفظ خاص کر لوگوں سے باہمی نفرت کو دورکر کے ( امن و سلامتی پیدا کرنے پر بولا جاتا ہے ) چناچہ اصطلحوا وتصالحوا کے معنی باہم امن و سلامتی سے رہنے کے ہیں قرآن میں ہے : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء/ 128] کہ آپس میں کسی قرار داد پر صلح کرلیں اور صلح ہی بہتر ہے ۔ اعرض وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ ( ع ر ض ) العرض اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء/ 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔ تَّوَّاب والتَّوَّاب : العبد الکثير التوبة، وذلک بترکه كلّ وقت بعض الذنوب علی الترتیب حتی يصير تارکا لجمیعه، وقد يقال ذلک لله تعالیٰ لکثرة قبوله توبة العباد «2» حالا بعد حال . وقوله : وَمَنْ تابَ وَعَمِلَ صالِحاً فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مَتاباً [ الفرقان/ 71] ، أي : التوبة التامة، وهو الجمع بين ترک القبیح وتحري الجمیل . عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ مَتابِ [ الرعد/ 30] ، إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ [ البقرة/ 54] . التواب یہ بھی اللہ تعالیٰ اور بندے دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ جب بندے کی صعنت ہو تو اس کے معنی کثرت سے توبہ کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ یعنی وہ شخص جو یکے بعد دیگرے گناہ چھوڑتے چھوڑتے بالکل گناہ کو ترک کردے اور جب ثواب کا لفظ اللہ تعالیٰ کی صفت ہو تو ا س کے معنی ہوں گے وہ ذات جو کثرت سے بار بار بندوں کی تو بہ قبول فرماتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ [ البقرة/ 54] بیشک وہ بار بار توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَمَنْ تابَ وَعَمِلَ صالِحاً فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مَتاباً [ الفرقان/ 71] کے معنی یہ ہیں کہ گناہ ترک کرکے عمل صالح کا نام ہی مکمل توبہ ہے ۔ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ مَتابِ [ الرعد/ 30] میں اس پر بھروسہ رکھتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری (فاللذان یاتیانھامنکم فاذوھما) کنوارے جوڑے کے متعلق تھا۔ اب مذکورہ بالاآیت کے ذریعے یہ حکم منسوخ کرکے ان کے لیے کوڑوں کی سزامقررکردی گئی۔ تاہم ثیبہ عورتوں کے لیے حبس کا حکم رہاجورجم کے حکم کی بناپر منسوخ ہوگیا۔ بعض دوسرے حضرات کا قول ہے کہ ان دونوں حکموں کی ناسخ حضرت عبادہ بن الصامت کی وہ حدیث ہے جس کی ہمیں جعفربن محمد نے روایت کی ہے، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے انہیں ابوعبیدنے، انہیں ابوالنصرنے شعبہ سے، انہوں نے قتادہ سے، انہوں نے حسن سے، انہوں نے حطان بن عبداللہ الرقاشی سے انہوں نے حضرت عبادہ بن الصامت (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا (خذواعنی قد جعل اللہ لھن سبیلا البکربالیکروالثیب بالبکروالثیب بالثیب البکرتجلدوتتقی فالثیب تجلدوترجم۔ لوگو ! مجھ سے یہ معلوم کرلو کہ اللہ نے ان عورتوں کے لیے راہ پیداکردی ہے ، کنوارا کسی کنواری کے ساتھ منہ کالاکرے اور بیاہا کسی بیاہی کے ساتھ فعل قبیح کا مرتکب ہوتوکنواری عورت کو کوڑے لگاکر جلاوطن کردیا جائے گا اور بیاہی عورت کو کوڑے لگاکرسنگسار کردیاجائے گا۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٦) اور اگر نوجوان کنوارے مرد اور لڑکیوں کی یہ سزا سو کوڑوں کے حکم نزول سے منسوخ ہوگئی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٦ (وَالَّذٰنِ یَاْتِیٰنِہَا مِنْکُمْ فَاٰذُوْہُمَا ج) ۔ اگر بدکاری کا ارتکاب کرنے والے مرد و عورت دونوں مسلمانوں میں سے ہی ہوں تو دونوں کو اذیت دی جائے۔ یعنی ان کی توہین و تذلیل کی جائے اور مارا پیٹا جائے۔ ّ ( فَاِنْ تَابَا وَاَصْلَحَا فَاَعْرِضُوْا عَنْہُمَا ط) (اِنَّ اللّٰہَ کَانَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا ) واضح رہے کہ یہ بالکل ابتدائی احکام ہیں۔ اسی لیے ان کی وضاحت میں تفسیروں میں بہت سے اقوال مل جائیں گے۔ اس لیے کہ جب حدود نافذ ہوگئیں تو یہ عبوری اور عارضی احکام منسوخ قرار پائے۔ جیسے کہ سورة النساء میں قانون وراثت نازل ہونے کے بعد سورة البقرۃ میں وارد شدہ وصیت کا حکم ساقط ہوگیا ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

26. In these two verses (15-16) the first, preliminary directives for the punishment for unlawful sexual intercourse are stated. The first verse deals with women. The punishment laid down was to confine them until further directives were revealed. The second verse (i.e. 16) relates to both sexes. The injunction lays down that they should be punished - that is, they should be beaten and publicly reproached. Later, another injunction was revealed (see Surah al-Nur 24: 2) which laid down that both the male and female should be given a hundred lashes. These injunctions are necessarily of a preliminary nature since the people of Arabia were neither used to obeying the orders of any established government, the verdicts of any courts of law nor to following any legal code; it would therefore have been unwise to try to force acceptance of a penal code upon them so soon after the establishment of the Islamic state. In due course, the punishments for unlawful sexual intercourse, for slanderous accusations of unchastity against women, and for theft were laid down in their definitive form and served as the basis of that detailed penal code which was enforced by the Prophet (peace be on him) and the Rightly-Guided Caliphs. The apparent difference between the contents of the two verses led al-Suddi to the misconceived belief that the first verse lays down the punishment for married women, and the second that for unmarried men and women. This is a tenuous explanation unsupported by any serious evidence and argument. Even less convincing is the opinion expressed by Abu Muslim al-Isfahani that the first verse relates to lesbian relations between females, and the second to homosexual relations between males. It is strange that al-Isfahani ignored the basic fact that the Qur'an seeks merely to chart a broad code of law and morality and hence deals only with fundamental questions. It is inconsistent with the majestic style of the Qur'an to discuss secondary details which have been left to people to decide through the exercise of their legal judgement. It is for this reason that when the problem of fixing a punishment for sodomy came up for consideration after the time of the Prophet (peace be on him), none of the Companions thought that the above-mentioned verse contained any relevant injunction.

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :26 ان دونوں آیتوں میں زنا کی سزا بیان کی گئی ہے ۔ پہلی آیت صرف زانیہ عورتوں کے متعلق ہے اور ان کی سزا یہ ارشاد ہوئی ہے کہ انہیں تاحکم ثانی قید رکھا جائے ۔ دوسری آیت زانی مرد اور زانیہ عورت دونوں کے بارے میں ہے کہ دونوں کو اذیت دی جائے ، یعنی مارا پیٹا جائے ، سخت سست کہا جائے اور ان کی تذلیل کی جائے ۔ زنا کے متعلق یہ ابتدائی حکم تھا ۔ بعد میں سورہ نور کی وہ آیت نازل ہوئی جس میں مرد اور عورت دونوں کے لیے ایک ہی حکم دیا گیا کہ انہیں سو ١۰۰سو١۰۰ کوڑے لگائے جائیں ۔ اہل عرب چونکہ اس وقت تک کسی باقاعدہ حکومت کے ماتحت رہنے اور عدالت و قانون کے نظام کی اطاعت کرنے کے عادی نہ تھے ، اس لیے یہ بات حکمت کے خلاف ہوتی اگر اسلامی حکومت قائم ہوتے ہی ایک قانون تعزیرات بنا کر دفعتًہ ان پر نافذ کر دیا جاتا ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو رفتہ رفتہ تعزیری قوانین کا خوگر بنانے کے لیے پہلے زنا کے متعلق یہ سزائیں تجویز فرمائیں ، پھر بتدریج زنا ، قذف اور سرقہ کی حدیں مقرر کیں ، اور بالآخر اسی بنا پر تعزیرات کا وہ مفصل قانون بنا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کی حکومت میں نافذ تھا ۔ مفسر سدی کو ان دونوں آیتوں کے ظاہری فرق سے یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ پہلی آیت منکوحہ عورتوں کے لیے ہے اور دوسری آیت غیر شادی شدہ مرد وعورت کے لیے ۔ لیکن یہ ایک کمزور تفسیر ہے جس کی تائید میں کوئی وزنی دلیل نہیں ۔ اور اس سے زیادہ کمزور بات وہ ہے کہ جو ابو مسلم اصفہانی نے لکھی ہے کہ پہلی آیت عورت اور عورت کے ناجائز تعلق کے بارے میں ہے اور دوسری آیت مرد اور مرد کے ناجائز تعلق کے بارے میں ۔ تعجب ہے ابو مسلم جیسے ذی علم شخص کی نظر اس حقیقت کی طرف کیوں نہ گئی کہ قرآن انسانی زندگی کے لیے قانون و اخلاق کی شاہراہ بناتا ہے اور انہی مسائل سے بحث کرتا ہے جو شاہراہ پر پیش آتے ہیں ۔ رہیں گلیاں اور پگڈنڈیاں ، تو ان کی طرف توجہ کرنا اور ان پر پیش آنے والے ضمنی مسائل سے بحث کرنا کلام شاہانہ کے لیے ہرگز موزوں نہیں ہے ۔ ایسی چیزوں کو اس نے اجتہاد کے لیے چھوڑ دیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عہد نبوت کے بعد جب یہ سوال پیدا ہوا کہ مرد اور مرد کے ناجائز تعلق پر کیا سزا دی جائے تو صحابہ کرام میں سے کسی نے بھی یہ نہ سمجھا کہ سورہ نساء کی اس آیت میں اس کا حکم موجود ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

15: یہ مردوں کے خلاف فطرت ہم جنسی کے عمل کی طرف اشارہ ہے اس کی کوئی متعین سزا مقرر کرنے کے بجائے صرف یہ ہدایت دی گئی ہے کہ ایسے مردوں کو اذیت دی جائے جس کے مختلف طریقے فقہائے کرام نے تجویز کئے ہیں مگر ان میں سے کوئی لازمی نہیں، صحیح یہ ہے کہ اس کو حاکم کی صوابدید پر چھوڑدیا گیا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:16) فاذوھما۔ اذوا۔ امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ ایذاء (افعال) ھا ضمیر مفعول تثنیہ (مذکر، مؤنث دونوں کے لئے) غائب۔ ان دونوں کو ایذا دو ۔ ان دونوں کو مارو پیٹو۔ اعرضوا۔ امر جمع مذکر حاضر۔ اعراض سے تم درگزر کرو۔ تم کنارہ کشی کرو۔ تم چھوڑ دو ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ جونسے دو شخص بھی اس میں غیر منکوحہ ومنکوحہ عورت اور نکاح اور بےنکاح والا مرد سب آگئے پس چاروں کا حکم مذکور ہوگیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : معاشرتی اور معاشی استحاصل ختم کرنے کے احکامات کے بعد اخلاقی بےراہ روی کے خاتمہ کا حکم۔ نزول اسلام سے پہلے روم ‘ ایران اور دیگر ممالک کے ساتھ عرب معاشرہ میں ایک طبقہ پرلے درجے کی بےحیائی ‘ فحاشی اور بدکاری میں مبتلا تھا۔ بعض شہروں میں جن میں مدینہ بھی شامل تھا باقاعدہ فحاشی کے اڈے قائم ہوچکے تھے۔ بےحیائی کا ارتکاب کرنے والی عورتیں اپنے گھروں پر جھنڈا نما کپڑا لٹکا یا کرتی تھیں تاکہ بےحیالوگ آسانی کے ساتھ راغب ہو سکیں۔ یہ دھندہ کنواری عورتیں ہی نہیں بلکہ شادی شدہ عورتیں بھی کیا کرتی تھیں۔ اسلام نے اس بےحیائی کو روکنے اور ایسے مقدّمات کی تحقیق کے لیے ایک نظام اور طریق کار وضع فرمایا کہ جرم ثابت ہونے پر پہلے نسبتاً ہلکی سزا تجویز کی گئی کہ اگر تمہاری عورتوں میں سے کوئی عورت بد کاری کا ارتکاب کرے تو اس پر چار عادل گواہ پیش کیے جائیں جو صرف عادل مردوں سے ہونے چاہییں اگر وہ اسلامی تقاضوں کے مطابق ٹھیک ٹھیک گواہی دیتے ہیں تو پھر ایسی عورتوں کو ان کے گھروں میں اس وقت تک محصور رکھا جائے جب تک اللہ تعالیٰ کوئی اور حکم نازل نہیں فرماتے یا پھر انہیں اس حالت میں موت آجائے۔ اس سے اگلی آیت میں ہم جنسی کرنے والے دو مردوں کی سزا بیان کی ہے کہ انہیں اس جرم کے بدلے اذیّت دی جائے۔ اگر وہ تائب ہوجائیں اور اپنی اصلاح کا وعدہ کریں تو پھر انہیں چھوڑ دیا جائے یقیناً اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا نہایت مہربان ہے۔ بعد میں اس سزا میں اضافہ کیا گیا کہ شادی شدہ زانی مرد ہو یا عورت اسے سنگسار کیا جائے اور غیر شادی شدہ مرد ہو یا عورت اسے سو کوڑے مارے جائیں۔ اس کی تفسیر سورة نور میں آئے گی۔ ان شاء اللہ۔ قرآن مجید نے یہاں ” وَالَّذَانِ “ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کے اہل علم نے دو معانی کیے ہیں۔ 1 وَالَّذَان اسم موصول مذکر کے لیے استعمال ہوتا ہے مؤنث کا مذکر کے تابع ہونے کی وجہ سے یہاں مذکر اشارۃً لایا گیا ہے اس لیے بعض اہل علم نے اس کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ” وَالَّذَانِ “ کا معنیٰ ہے مرد اور عورت یعنی غیر شادی شدہ۔ 2” دو مردوں کا آپس میں ہم جنسی کرنے کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ قوم لوط کا فعل ہے جن کو اس جرم کی پاداش میں زمین سے اٹھا کر آسمان کے قریب لے جا کر الٹا پھینکا گیا پھر ان لوگوں پر آسمان سے سنگ باری کی گئی۔ “ قرآن میں ان کے جرم اور اس کی سزا الاعراف آیت ٨٠ تا ٨٤ کی تلاوت کریں۔ مسائل ١۔ بدکاری کے ثبوت کے لیے چار گواہ ہونے چاہئیں۔ ٢۔ ہم جنسی جرم ہے۔ ٣۔ اللہ توبہ قبول فرمانے اور رحم کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن ہم جنسی کرنے والوں کی سزا : ١۔ ہم جنسی کی ابتدا قوم لوط نے کی۔ (الاعراف : ٨٠) ٢۔ ہم جنسی کی سزا۔ (الاعراف : ٨٤) بدکاری کی سزا : ١۔ شادی شدہ زانی کو رجم کرنے کا حکم۔ (مسلم : کتاب الحدود) ٢۔ کنوارے زانی مرد وزن کو سو کوڑے مارنے کا حکم۔ (النور : ٢) ٣۔ تہمت لگانے والے کی سزا۔ (النور : ٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

دوسری آیت (وَ الَّذٰنِ یَاْتِیٰنِھَا مِنْکُمْ فَاٰذُوْھُمَا) میں یہ حکم دیا کو جو دو آدمی (مرد و عورت) بدکاری کریں تو ان کو ایذا دو ۔ ایذا دینے میں زبان سے عار دلانا اور زجر توبیخ کی باتیں کرنا بھی شامل ہے اور اس آیت میں مارپیٹ کی صورت میں کوئی سزا مقرر نہیں کی گئی، اس کو حکام کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا لیکن سورة نور کی آیت میں سزا مقرر کردی گئی تو اب اس پر عمل کرنا لازم ہوگیا، ایذا دینے کا حکم دے کر فرمایا کہ اگر وہ توبہ کرلیں اور اصلاح کرلیں تو ان سے اعراض کرو اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔ غیر فطری طریقے پر قضاء شہوت کرنے والوں کی سزا : (وَ الَّذٰنِ یَاْتِیٰنِھَا) کے بارے میں بعض مفسرین نے یہ بھی فرمایا ہے کہ چونکہ یہ اسم موصول تثنیہ مذکر کے لیے ہے اس لیے اس سے مراد غیر فطری طریقہ سے قضائے شہوت کا کام کرنے والے بھی ہوسکتے ہیں، یعنی اس آیت میں حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کے عمل کا تذکرہ ہے لفظوں کے اعتبار سے یہ تفسیر مستبعد نہیں ہے لیکن اس کو بھی منسوخ ہی کہا جائے گا، کیونکہ جو لوگ اس موجب لعنت عمل کو کریں ان کے لیے اب اتنی سی بھی بات نہیں ہے کہ ان کو ایذا دی جائے، بعض روایات حدیث میں فرمایا ہے کہ جو لوگ ایسا کریں فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کیا جائے۔ (مشکوٰہ المصابیح صفحہ ٤٣٢) قتل کی کیا صورت ہو اس کے بارے میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے منقول ہے کہ انہوں نے حضرت علی مرتضی (رض) اور دوسرے صحابہ کے مشورہ سے جلانے کا حکم دیا تھا، اور حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ ایسا کام کرنے والے کو سب سے اونچی جگہ پر لے جا کر اوندھے منہ کر کے گرا دیا جائے۔ (رواہ ابن ابی شیبہ کمافی فتح القدیر) حضرت امام شافعی (رح) نے ان کے لیے وہی سزا مقرر فرمائی جو زانی یا زانیہ کی ہے اور حضرت امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا ہے کہ اس کی کوئی سزا خاص مقرر نہیں ہے۔ پہلی بار ایسا کرے تو امام المسلمین مار پیٹ کی سزا دیدے اور دوسری بار کرے تو اس کو قتل کردیا جائے۔ (کما ذکرہ الشامی عن الاشباہ وغیرہ)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 اور تم میں سے جو دو شخص بھی اس مذکورہ بےحیائی کا ارتکاب کریں تو ان دونوں کو اذیت پہنچائو پھر اگر وہ اذیت پہنچانے کے بعد دونوں اپنے گناہ سے توبہ کرلیں اور آئندہ کیلئے اپنی اصلاح کرلیں اور آئندہ اس فعل فاحش کا ارتکاب نہ کریں تو ان سے درگزر کرو اور ان کا پیچھا چھوڑ دو ۔ یقین جانو ! کہ اللہ تعالیٰ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور بہت مہربانی کرنے والا ہے۔ (تیسیر) حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں اگر دو مرد فعل بد کریں ان کا حکم بھی اس وقت مجمل ایذا دینی فرمائی اور اگر توبہ کریں تو ایذا نہ دو پھر جب حد نازل ہوئی تو اس کی حد جدائی فرمائی اس میں علماء کو اختلاف رہا کہ وہی حد ہے اس کی بھی یا شمشیر سے قتل کردیا کچھ اور طور سے ۔ (موضح القرآن) مطلب یہ ہے کہ اوپر کی آیت میں منکوحہ عورتوں کو قید رکھنے کا حکم تھا اس آیت سے محض ایذا ثابت ہوئی کہ ایسے بدکاروں کو لعنت ملامت کرو اور زبان سے برا بھلا کہو۔ یا زبان سے ملامت کرو اور ایک دو جوتا بھی رسید کرو۔ اس لئے بعض مفسرین کو ان دونوں احکام کے جمع کرنے میں مشکل پیش آئی اور لوگوں نے دونوں کے جمع کرنے میں مختلف طریقے اختیار کئے۔ مثلاً (1) بعض نے کہا اذیت سب کے لئے ہے۔ منکوحہ ہو یا غیر منکوحہ، مرد ہو یا عورت، البتہ منکوحہ کو برا بھلا کہنے کے ساتھ گھروں میں قید بھی کردو۔ (2) بعض نے کہا پہلی آیت صرف منکوحہ عورتوں کے بارے میں ہے اور دوسری آیت منکوحہ عورتوں کے علاوہ سب بدکاروں کے لئے ہے خواہ وہ مرد ہوں یا ناکت خدا عورتیں ہوں۔ (3) بعض حضرات نے فرمایا پہلی آیت بعد میں نازل ہوئی ہے اور دوسری آیت پہلے نازل ہوئی ہے اگرچہ تلاوت میں عکس ہے یعنی نزول میں مقدم ہے اور تلاوت میں مؤخر ہے۔ (4) بعض نے فرمایا کہ واللذان سے مراد صرف مرد ہیں اور دوسری آیت میں فاحشہ سے مراد لواطت ہے جو حضرت لوط کی قوم کا شعار تھا۔ یہ حضرت مجاہد کا قول ہے اور اسی کو حضرت شاہ صاحب (رح) نے اختیار کیا ہے جیسا کہ موضح القرآن سے معلوم ہوتا ہے۔ مفسرین کے اس اشکال کا اصل مبنی یہ ہے کہ واللذان سے مراد زانی اور زانیہ ہیں یا فقط دو مرد ہیں۔ جو لوگ اس سے مراد زانی اور زانیہ لیتے ہیں وہ اس اشکال کی جو ہم نے عرض کیا ہے مختلف توجیہات کرتے ہیں جو لوگ اس سے صرف مرد مراد لیتے ہیں اور اس آی میں فاحشہ سے لواطت مراد لیتے ہیں نہ تو ان کی مراد پر کوئی اشکال وارد ہوتا ہے اور نہ ان کو کسی توجیہ کی ضرورت پیش آتی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ بدکاری اور فحش کی مختلف صورتیں ہیں اور بدکاری کا ارتکاب کرنے والوں کی مختلف حالتیں ہیں جس کی تفصیل انشاء اللہ سورة نور میں آجائے گی۔ یہاں اس قدر سمجھ لینا چاہئے۔ جب کسی شخص نے کسی عورت سے بدکاری کی تو وہ دونوں محصن ہوں گے یا غیر محصن ہوں گے۔ احصان کا مطلب یہ ہے کہ عاقل بالغ آزاد مسلمان۔ کسی عاقلہ بالغہ آزاد مسلمہ سے صحیح نکاح کے ساتھ مباشرت کرے اگر ایسا ہو تو یہ مرد و عورت محصنہ کہلاتے ہیں اور اگر کسی مسلمان مرد و عورت کو یہ موقعہ میسر نہ آیا ہو تو ان کو غیر محصن کہتے ہیں۔ بہرحال مرتکب بالزنا محصن ہوں گے یا غیر محصن ہوں گے یا ایک ان دونوں میں سے محصن ہوگا اور دوسرا غیر محصن ہوگا قرآن کریم سے پہلے توریت میں زانیوں کے لئے رجم کی سزا مقرر تھی۔ یعنی زانیوں کے لئے سنگسار کرنے کا حکم تھا۔ قرآن کریم نے اس مسئلے کو تدریجاً شروع کیا۔ بعض مفسرین نے قول کی بنا پر سب سے پہلے اذیت کا حکم نازل ہوا۔ یعنی زانیہ مرد اور عورت کو لعنت ملامت کرو اور غیرت دلائو۔ پھر محصنہ عورت کو قید کرنے کا حکم دیا گیا کہ محصنہ عورتوں کو گھروں میں سزا کے طور پر قید رکھو۔ پھر حضرت عبادہ بن صامت کی روایت کی بنا پر جو مسلم نے نقل کیا ہے۔ عورتوں کو قید رکھنا موقوف ہوا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ لوگو ! اس حکم کو مجھ سے حاصل کرلو اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے لئے جس راہ کا وعدہ کیا تھا وہ راہ اور وہ قانون بیان کردیا۔ دیکھو زانی اور زانیہ اگر باکرہ ہوں یعنی ناکت خدا ہوں تو ہر ایک کو سو سو کوڑے لگائو اور ایک سال کے لئے جلاوطن کرنے کی سزا دو ۔ اور اگر دونوں مجرم کت خدا یعنی ثیب ہوں تو ان کو سو سو کوڑے مارے جائیں اور سنگسار کیا جائے۔ اس کے بعد سورة نور کی آیت الزانیۃ والزانی نازل ہوئی جس میں صرف تازیانوں کا حکم تھا اس کے بعد حضرت ماعز صحابی کا واقعہ پیش آیا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو رجم یعنی سنگسار کیا اور آئندہ کے لئے یہ حکم متعین رہا کہ زانی اور زانیہ اگر غیر محصن ہوں تو ہر ایک ک سو سو تازیانے مارے جائیں اور اگر دونوں محصن ہوں تو دونوں کو رجم کیا جائے اور ایک محصن اور دوسرا غیر محصن ہو تو غیر محصن کو تازیانے اور محصن کو رجم۔ رہا لواطت کا معاملہ تو اس میں علماء کا اختلاف ہے اور بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کی سزا حاکم کی رائے پر موقوف ہے اسی طرح مساحقت کرنے والی عورتیں بھی۔ مزید انشاء اللہ سورة نور میں بشرط زندگی آجائے گی۔ یہاں ترتیب احکام کا خاکہ ذہن نشین کرلینا چاہئے اور یہ بھی ملحوظ خاطر رہنا چاہئے کہ ان مذکورہ سزائوں کے نفاذ کا حق صرف امام اور حاکم کو ہے ہر شخص کو قانون استعمال کرنے کا حق نہیں ہے اب چونکہ ان آیتوں میں توبہ کا حکم آیا تھا اس لئے آگے توبہ کی قبولیت وعدم قبولیت کا ذکر ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)