Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 164

سورة النساء

وَ رُسُلًا قَدۡ قَصَصۡنٰہُمۡ عَلَیۡکَ مِنۡ قَبۡلُ وَ رُسُلًا لَّمۡ نَقۡصُصۡہُمۡ عَلَیۡکَ ؕ وَ کَلَّمَ اللّٰہُ مُوۡسٰی تَکۡلِیۡمًا ﴿۱۶۴﴾ۚ

And [We sent] messengers about whom We have related [their stories] to you before and messengers about whom We have not related to you. And Allah spoke to Moses with [direct] speech.

اور آپ سے پہلے کے بہت سے رسولوں کے واقعات ہم نے آپ سے بیان کئے ہیں اور بہت سے رسولوں کے نہیں بھی کئے اور موسیٰ ( علیہ السلام ) سے اللہ تعالٰی نے صاف طور پر کلام کیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَرُسُلً قَدْ قَصَصْنَاهُمْ عَلَيْكَ مِن قَبْلُ ... And Messengers We have mentioned to you before, and Messengers We have not mentioned to you. Before the revelation of this Ayah. The following are the names of the Prophets whom Allah named in the Qur'an. They are: Adam, Idris, Nuh (Noah), Hud, Salih, Ibrahim (Abraham), Lut, Ismail (Ishmael), Ishaq (Isaac), Yaqub (Jacob), Yusuf (Joseph), Ayub (Job), Shu`ayb, Musa (Moses), Harun (Aaron), Yunus (Jonah), Dawud (David), Suleiman (Solomon), Ilyas (Elias), Al-Yasa (Elisha), Zakariyya (Zachariya), Yahya (John) and Isa (Jesus), and their leader, Muhammad. Several scholars of Tafsir also listed Dhul-Kifl among the Prophets. Allah's statement, ... وَرُسُلً لَّمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَيْكَ ... and Messengers We have not mentioned to you, means, `there are other Prophets whom We did not mention to you in the Qur'an.' The Virtue of Musa Allah said, ... وَكَلَّمَ اللّهُ مُوسَى تَكْلِيمًا and to Musa Allah spoke directly. This is an honor to Musa, and this is why he is called the Kalim, he whom Allah spoke to directly. Al-Hafiz Abu Bakr bin Marduwyah recorded that Abdul-Jabbar bin Abdullah said, "A man came to Abu Bakr bin Ayyash and said, `I heard a man recite (this Ayah this way): وَكَلَّمَ اللّهَ مُوسَى تَكْلِيمًا "and to Allah, Musa spoke directly." Abu Bakr said, `Only a disbeliever would recite it like this.' Al-A`mash recited it with Yahya bin Withab, who recited it with Abu Abdur-Rahman As-Sulami who recited it with Ali bin Abi Talib who recited with the Messenger of Allah, وَكَلَّمَ اللّهُ مُوسَى تَكْلِيمًا (and to Musa Allah spoke directly)."' Abu Bakr bin Abi Ayyash was so angry with the man who recited the Ayah differently, because he altered its words and meanings. That person was from the group of Mutazilah who denied that Allah spoke to Musa or that He speaks to any of His creation. We were told that some of the Mutazilah once recited the Ayah that way, so one teacher present said to him, "O son of a stinking woman! What would you do concerning Allah's statement, وَلَمَّا جَأءَ مُوسَى لِمِيقَـتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ And when Musa came at the time and place appointed by Us, and his Lord spoke to him. (7:143)" The Sheikh meant that the later Ayah cannot be altered or changed. The Reason Behind Sending the Prophets is to Establish the Proof Allah said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

164۔ 1 جن نبیوں اور رسولوں کے اسمائے گرامی اور ان کے واقعات قرآن کریم میں بیان کیے گئے ہیں ان کی تعداد 24 یا 25 ہے (1) آدم (2) ادریس (3) نوح (4) ہود (5) صالح (6) ابراہیم (7) لوط (8) اسماعیل (9) اسحاق (10) یعقوب (11) یوسف (12) ایوب (13) شعیب (14) موسیٰ (15) ہارون (16) یونس (17) داؤد (18) سلیمان (19) الیاس (20) الیسع (21) زکریا (22) یحییٰ (23) عیسیٰ (24) ذوالکفل۔ (اکثر مفسرین کے نزدیک (25) حضرت محمد صلوٰت اللہ وسلامہ وعلیہم اجمعین۔ 164۔ 2 جن انبیاء رسل کے نام اور واقعات قرآن میں بیان نہیں کئے گئے، ان کی تعداد کتنی ہے ؟ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ ایک حدیث میں جو بہت مشہور ہے ایک لاکھ 24 ہزار اور ایک حدیث میں 8 ہزار تعداد بتلائی گئی ہے۔ قرآن و حدیث سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ مختلف ادوار و حالات میں مبشرین ومنذرین انبیاء آتے رہے ہیں۔ بالآخر یہ سلسلہ نبوت حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ختم فرما دیا گیا آپ سے پہلے کتنے نبی آئے ؟ ان کی صحیح تعداد اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا تاہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد جتنے بھی دعویداران نبوت ہو کر گزرے یا ہوں گے، سب کے سب دجال اور کذاب ہیں اور ان کی جھوٹی نبوت پر ایمان لانے والے دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور امت محمدیہ سے الگ ایک متوازی امت ہیں۔ جیسے امت بابیہ، بہائیہ اور امت مرزائیہ وغیرہ اسی طرح مرزا قادیانی کو مسیح موعود ماننے والے لاہوری مرزائی بھی۔ 164۔ 3 یہ موسیٰ (علیہ السلام) کی خاص صفت ہے جس میں وہ دوسرے انبیاء سے ممتاز ہیں۔ صحیح ابن حبان کی ایک روایت کی روح سے امام ابن کثیر نے اس صفت ہم کلامی میں حضرت آدم (علیہ السلام) و حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی شریک مانا ہے (تفسیر ابن کثیر زیر آیت (تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ ) 003:253 ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢١٨] وحی کو رسول تک پہنچانے کے دو طریقے تو اوپر حدیث نمبر ٢ میں بیان ہوچکے۔ تیسرا طریق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پردے کے پیچھے سے کسی رسول سے کلام کرے اور یہ فضیلت بالخصوص سیدنا موسیٰ کو عطا ہوئی۔ اس لیے سیدنا موسیٰ کا خاص طور پر ذکر کیا گیا۔ البتہ معراج کے موقعہ پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی عطا ہوئی تھی۔ اور ان تینوں صورتوں کا ذکر قرآن کریم میں سورة شوریٰ کی آیت نمبر ٥١ میں بھی مذکور ہے۔ سیدنا موسیٰ کی نبوت و رسالت کا آغاز ہی ایسی وحی سے ہوا جس میں اللہ تعالیٰ سیدنا موسیٰ سے ہم کلام ہوئے تھے اور یہ آواز ایک درخت کے پیچھے سے آرہی تھی (تفصیل آگے سورة ق میں آئے گی) پھر اس کے بعد بھی کوہ طور پہ ہم کلامی نصیب ہوئی اسی لیے موسیٰ کو کلیم اللہ کہا جاتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنٰهُمْ عَلَيْكَ مِنْ قَبْلُ : جن رسولوں کے اسمائے گرامی اور واقعات قرآن کریم میں بیان کیے گئے ہیں ان کی تعداد چوبیس (٢٤) یا پچیس (٢٥) ہے۔ آدم، ادریس، نوح، ہود، صالح، ابراہیم، لوط، اسماعیل، اسحاق، یعقوب، یوسف، ایوب، شعیب، موسیٰ ، ہارون، یونس، داؤد، سلیمان، الیاس، یسع، زکریا، یحییٰ ، عیسیٰ ، ذوالکفل (اکثر مفسرین کے نزدیک) اور محمد صلوات اللہ وسلامہ علیہم اجمعین۔ وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنٰهُمْ عَلَيْكَ : جن انبیاء و رسل کے نام قرآن میں ذکر نہیں ہوئے ان کی تعداد کتنی ہے، اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے، جو بہت مشہور ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار اور ایک حدیث میں آٹھ ہزار بتائی گئی ہے، مگر ان احادیث میں کلام ہے۔ وَكَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِــيْمًا : یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے اپنی ہم کلامی کا شرف بخشا، جو کسی اور کو حاصل نہیں ہوا۔ مزید دیکھیے سورة بقرہ (٢٥٣) پھر اگر موسیٰ (علیہ السلام) کے اس شرف سے دوسرے انبیاء پر طعن نہیں آسکتا تو تورات کا یک بارگی نزول دوسرے انبیاء کے لیے موجب طعن کیسے ہوسکتا ہے۔ (رازی) اس آیت سے اللہ تعالیٰ کا کلام کرنا بھی ثابت ہوا، جو لوگ یونانی فلسفے سے متاثر ہو کر اللہ تعالیٰ کے کلام کا انکار کرتے ہیں وہ قیامت کے دن ان آیات و احادیث کا کیا جواب دیں گے جن میں صاف لفظوں میں اللہ تعالیٰ کے کلام کا ذکر ہے۔ اللہ کے ان بندوں نے اللہ تعالیٰ کو انسان سے بھی عاجز یعنی گونگا بنادیا اور اپنے خیال میں اسے اللہ تعالیٰ کی خوبی سمجھ رہے ہیں۔ امام احمد ابن حنبل (رح) ایسے ہی لوگوں سے مطالبہ کرتے تھے کہ قرآن یا حدیث میں کہیں دکھاؤ کہ قرآن اللہ کا کلام نہیں بلکہ مخلوق ہے مگر نہ اس وقت ان کے مخالف یہ دکھا سکے نہ اب کوئی دکھا سکتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In verse 164 which opens with the words: وَرُ‌سُلًا قَدْ قَصَصْنَاهُمْ عَلَيْكَ And, (We have sent down) some Messengers We have already told you about ...&, after a brief mention of prophets who appeared after Sayyidna Nuh (علیہ السلام) ، a special citation has been made of the greatest prophets from among them. The purpose is to tell us that they are all prophets and Wahy comes to prophets via different modes. It could be an angel with a message. It could also be a written Book. Sometimes Almighty Allah talks directly to His Messenger. In short, when Wahy comes, no matter in what mode or manner it does, acting in accordance with it becomes obligatory. Therefore, the saying of Jews that they would believe only if there comes to them a written Book like the Torah, otherwise they would not, is to say the least, being short on sense and tall on disbelief. As reported by Sayyidna Abu Dharr al-Ghifari (رض) ، the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: Almighty Allah has sent one hundred and twenty four thousand prophets out of which three hundred and thir¬teen were Shari` ah-bearing Messengers of Allah. (Qurtubi)

ورسلاً قد قصصنھم علیک حضرت نوح (علیہ السلام) کے بعد جو انبیاء ہوئے ہیں انہیں بالا جمال ذکر کر کے ان میں سے جو اولوالعزم اور جلیل القدر انبیاء ہیں ان کا بطور خاص بھی ذکر کردیا گیا، جس سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ یہ سب انبیاء ہیں انبیاء کے پاس مختلف طریقوں سے وحی آتی ہے، کبھی فرشتہ پیغام لے کر آتا ہے کبھی لکھی ہوئی کتاب مل جاتی ہے، کبھی اللہ تعالیٰ براہ راست اپنے رسولوں سے بات کرتے ہیں، غرض جس طریقہ سے بھی وحی آجائے اس پر عمل کرنا واجب ہوتا ہے، لہٰذا یہود کا یہ کہنا کہ توراة کی طرح لکھی ہوئی کتاب نازل ہو تب مانیں گے ورنہ نہیں خالص حماقت اور کفر ہے۔ حضرت ابوذر غفاری (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، اللہ تعای نے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء بھیجے ہیں جن میں سے تین سو تیرہ اصحاب شریعت رسول تھے۔ (قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنٰہُمْ عَلَيْكَ مِنْ قَبْلُ وَرُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْہُمْ عَلَيْكَ۝ ٠ۭ وَكَلَّمَ اللہُ مُوْسٰى تَكْلِــيْمًا۝ ١٦٤ۚ رسل أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] ( ر س ل ) الرسل الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ قصص الْقَصُّ : تتبّع الأثر، يقال : قَصَصْتُ أثره، والْقَصَصُ : الأثر . قال تعالی: فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف/ 64] ، وَقالَتْ لِأُخْتِهِقُصِّيهِ [ القصص/ 11] ( ق ص ص ) القص کے معنی نشان قد م پر چلنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ۔ قصصت اثرہ یعنی میں اس کے نقش قدم پر چلا اور قصص کے معنی نشان کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف/ 64] تو وہ اپنے اپنے پاؤں کے نشان دیکھتے دیکھتے لوٹ گئے ۔ وَقالَتْ لِأُخْتِهِ قُصِّيهِ [ القصص/ 11] اور اسکی بہن کہا کہ اس کے پیچھے پیچھے چلی جا ۔ كلم الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها، ( ک ل م ) الکلم ۔ یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔ موسی مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته .

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٦٤) اور ان انبیاء کرام (علیہم السلام) کے پاس بھی جن کا اس سورت سے پہلے ہم آپ کو نام بتا چکے ہیں اور ان تمام رسولوں کو ہم نے اس لیے بھیجا ہے تاکہ مومنوں کو جنت کی خوشخبری سنادیں اور کافروں کو دوزخ کے عذاب سے ڈرا دیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٦٤ (وَرُسُلاً قَدْ قَصَصْنٰہُمْ عَلَیْکَ مِنْ قَبْلُ وَرُسُلاً لَّمْ نَقْصُصْہُمْ عَلَیْکَ ط) پوری دنیا کی تاریخ بیان کرنا تو قرآن مجید کا مقصد نہیں ہے کہ تمام انبیاء و رسل (علیہ السلام) کی مکمل فہرست دے دی جاتی۔ یہ تو کتاب ہدایت ہے ‘ تاریخ کی کتاب نہیں ہے۔ (وَکَلَّمَ اللّٰہُ مُوْسٰی تَکْلِیْمًا ) یہ خاص حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی امتیازی شان بیان ہوئی ہے۔ لیکن یہ مکالمہ مِنْ وَرَآ ءِ حِجَابٍ تھا ‘ یعنی پردے کے پیچھے سے ‘ البتہ تھا دُوُ بدو کلام۔ اب اس کے بعد وہ آیت آرہی ہے جس میں نبوت کا اساسی مقصد بیان ہوا ہے کہ یہ تمام رسول ( علیہ السلام) کس لیے بھیجے گئے تھے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

206. Revelation in the case of other Prophets meant either that they heard a voice or received a message from an angel. The privileged treatment accorded to Moses was that God communicated with him directly. This communication was similar to one that takes place between two persons, as is fully illustrated by the conversation reported in (Surah Ta Ha 20: 11 ff). This unique privilege of Moses is mentioned in the Bible as well, and in much the same manner. It mentions that the Lord used to speak to Moses 'face to face, as a man speaks to his friend' (Exodus 33: 11).

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :206 دوسرے انبیاء علیہم السلام پر تو وحی اس طرح آتی تھی کہ ایک آواز آرہی ہے یا فرشتہ پیغام سنا رہا ہے اور وہ سن رہے ہیں ۔ لیکن موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ یہ خاص معاملہ برتا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے خود ان سے گفتگو کی ۔ بندے اور خدا کے درمیان اس طرح باتیں ہوتی تھیں جیسے دو شخص آپس میں بات کرتے ہیں ۔ مثال کے لیے اس گفتگو کا حوالہ کافی ہے جو سورہ طٰہ میں نقل کی گئی ہے ۔ بائیبل میں بھی حضرت موسیٰ کی اس خصوصیت کا ذکر اسی طرح کیا گیا ہے ۔ چنانچہ لکھا ہے کہ” جیسے کوئی شخص اپنے دوست سے بات کرتا ہے ویسے ہی خداوند رو برو ہو کر موسیٰ سے باتیں کرتا تھا“ ۔ ( خروج ۳۳:۱۱ )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:164) رسلا کا عطف بھی اوحینا الیک (آیۃ ماقبل) پر ہے۔ اور (جیسے وحی بھیجی ہم نے) دوسرے رسولوں پر ۔ یہی صورت رسلا لم نقصصہم کی ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 اے پیغمبر ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے آپ کے پاس ایسی ہی وحی بھیجی ہے جیسے ہم نے حضرت نوح (علیہ السلام) کے پاس بھیجی تھی اور ان نبیوں کے پاس بھیجی تھی جو نوح (علیہ السلام) کے بعد ہوئے ہیں اور جیسا کہ ہم نے ابراہیم اور اسمعیل اور اسحاق اور یعقوب اور یعقوب کی اولاد میں جو نبی ہوئے ہیں اور عیسیٰ (علیہ السلام) اور ایوب (علیہ السلام) اور یونس (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) اور سلیمان (علیہ السلام) کے پاس وحی بھیجی تھی اور اسی طرح ہم نے دائود (علیہ السلام) کو زبور عنایت کی تھی اور اسی طرح ان کے علاوہ بعض اور پیغمبروں کو بھی جن کا ذکر ہم آپ سے کرچکے ہیں صاحب وحی بنا کر بھیجا یعنی سورة انعام میں اور دوسری صورتوں میں ان کا ذکر آیا ہے اور اس طرح ہم نے بعض اور ایسے پیغمبروں کو بھی صاحب وحی بنا کر بھیجا جن کا ذکر ہم نے آپ سے اب تک نہیں کیا اور اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے خاص طور پر کلام فرمایا یعنی بلا واسطہ شرف ہمی کلامی بخشا۔ (تیسیر) وحی اور ایحا اعلام فی خفاء کو کہتے ہیں یعنی کوئی ایسی اطلاع جو پردے میں دی جائے اور سرعت کے ساتھ دی جائے، مطلب یہ ہے کہ یہ پیغمبر کوئی انوکھا پیغمبر نہیں ہے جو آسمان پر چڑھ کر تمہارے لئے کوئی کتاب یا کوئی خط لے کر آئے بلکہ جس طرح اور پیغمبروں پر وحی کے ذریعہ ہمارے فرما پہنونچتے رہے اسی طرح اس پیغمبر کی جانب بھی ہم وحی کے ذریعہ احکام بھیجتے ہیں اور جب اور انبیاء کے ساتھ ہم نے ایسا طریقہ نہیں برتا تو اس کے ساتھ یہ انوکھا طریقہ کیوں اختیار کریں اس کے بعد انبیاء کے نام لئے جن کی نبوت مسلمہ فریقین تھی، مثلاً نوح (علیہ السلام) اور نوح (علیہ السلام) کے بعد جو پیغمبر ہوئے جیسے ہود عاد اور صالح اور شعیب (علیہ السلام) وغیرہ اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور اسمعیل (علیہ السلام) اور اسحاق (علیہ السلام) اور یعقوب (علیہ السلام) اور یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد میں سے جو لوگ پیغمبر ہوئے ہیں انکا ذکر فرمایا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ایوب (علیہ السلام) اور یونس (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) اور سلیمان (علیہ السلام) کا ذکر فرمایا اور دائود (علیہ السلام) کو چونکہ مستقل کتاب دی تھی اس کا ذکر فرمایا چونکہ یہ تمام پیغمبر وہ ہیں جن کہ یہود بھی پیغمبر مانتے تھے اس لئے ان کی وحی سے استدلال فرمایا کہ جس طرح ہم نے ان لوگوں کو وحی بھیجی تھی اور یہ لوگ آسمان پر چڑھ کر کتابیں نہیں لائے تھے۔ اسی طرح ہم نے نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی وحی بھیجی ہے ان سے یہ مطالبہ کیوں کیا جاتا ہے ہ آسمان پر جا کر وہاں سے کوء یکتاب لا کردو حضرت دائود کی زبور کے متعلق قرطبی نے کہا ہے کہ اس میں ایک سو پچاس سورتیں تھیں اور ان سورتوں میں احکام نہیں تھے بلکہ پندو نصائح تھے اور دعائیں تھیں۔ حضرت دائود (علیہ السلام) اس کتاب کو نہایت خوش الحالی کے ساتھ پڑھا کترے تھے اور آپ کے ساتھ بنی اسرائیل کے علماء ہوتے تھے اور بعض موقعہ پر پرندے اور جناب وغیرہ بھی جمع ہوجاتے تھے۔ زبور مزبور کے معنی ہیں جس کے معنی ہیں مکتوب ان انبیاء کا نام ذکر فرمانے کے بعد اجمالاً تمام انبیاء کی طرف اشارہ کیا۔ جن کا ذکر اب تک آچکا ہے اور جن کا ذکر اب تک نہیں آیا اور ان کی صحیح تعداد اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے اور ان میں سے رسولوں کی تعداد تین سو تیرہ ہے اور کتابوں کی تعداد ایک سو چار ہے۔ (واللہ اعلم) اس سلسلہ میں بعض روایات ضعیف ہیں اور بعض لاباس بہ کے درجے کی ہیں اور بعض ایسی ہیں کہ ابن کثیر نے ان پر کوئی تنقید نہیں کی۔ حضرت جابر سے جو روایت بزار نے نقل کی ہے اس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ الفاظ ہیں کہ میں ہزار یا ہزار سے زیادہ انبیاء کا خاتم ہوں۔ اس روایت پر بھی ابن کثیر نے کوئی تنقید نہیں کی۔ (واللہ اعلم) بلاواسطہ حضرت حق تعالیٰ کا کلام کرنا یہ وحی کا انتہائی بلند مرتبہ ہے۔ عام قراء نے وکلم اللہ یعنی اللہ کے رفع کے ساتھ پڑھا ہے مگر بعض نے اللہ کے نصب کے ساتھ پڑھا ہے۔ بعض معتزلہ کا قصہ مشہور ہے کہ انہوں نے کسی اہل سنت کے عالم سے کہا کہ اللہ تعالیٰ کسی سے کلام نہیں کرتا اور اس آیت کو اللہ کے نصب کے ساتھ پڑھا جس کا مطلب یہ تھا کہ موسیٰ نے اللہ سے کلام کیا اس تحریف کو سن کر اس اہل سنت عالم نے فرمایا ارے کم بخت وکلم ربہ میں کیا پڑھے گا یہ سن کر وہ معتزل مبہوت ہوگیا کلام کی نوعیت خواہ کچھ ہو لیکن قرآن کریم کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کو شرف ہم کلامی سے نوازا۔ اگرچہ کلام تو سب ہی انبیاء سے ہوتا ہے لیکن حضرت موسیٰ کو یہ شرف بلا واسطہ میسر ہوا۔ اب اسی سلسلہ میں انبیاء (علیہم السلام) کے بھیجنے کا فلسفہ بیان فرماتے ہیں اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رسول ہونے کی شہادت دیتے ہیں اور ان شہادت کے بعد منکرین رسالت پر توبیخ فرماتے ہیں چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)