Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 50

سورة النساء

اُنۡظُرۡ کَیۡفَ یَفۡتَرُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ الۡکَذِبَ ؕ وَ کَفٰی بِہٖۤ اِثۡمًا مُّبِیۡنًا ﴿۵۰﴾٪  4

Look how they invent about Allah untruth, and sufficient is that as a manifest sin.

دیکھو یہ لوگ اللہ تعالٰی پر کس طرح جھوٹ باندھتے ہیں اور یہ ( حرکت ) صریح گناہ ہونے کے لئے کافی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

انظُرْ كَيفَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللّهِ الكَذِبَ ... Look, how they invent a lie against Allah, claiming purity for themselves, their claim that they are Allah's children and His loved ones, their statement; لَن يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلاَّ مَن كَانَ هُوداً أَوْ نَصَارَى (None shall enter Paradise unless he be a Jew or a Christian) (2:111), their statement; لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلاَّ أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ (The Fire shall not touch us but for a number of days) (3:24) and their reliance on the righteous deeds of their forefathers. Allah has decreed that the good actions of the fathers do not help the children, when He said, تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ (That was a nation who has passed away. They shall receive the reward of what they earned and you of what you earn). (2:134) Allah then said, ... وَكَفَى بِهِ إِثْمًا مُّبِينًا and enough is that as a manifest sin. meaning, these lies and fabrications of theirs are sufficient. Allah's statement,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

50۔ 1 یعنی مذکورہ دعوائے تزکیہ کرکے۔ 50۔ 2 یعنی ان کی یہ حرکت اپنی پاکیزگی کا ادعا ان کے جھوٹ افزا کے لئے کافی ہے۔ قرآن کریم کی اس آیت اور اس کے شان نزول کی روایات سے معلوم ہوا کہ ایک دوسرے کی مدح و توصیف بالخصوص تزکیہ نفوس کا دعویٰ کرنا صحیح اور جائز نہیں۔ اسی بات کو قرآن کریم کے دوسرے مقام پر اسی طرح فرمایا، (فَلَا تُزَكُّوْٓا اَنْفُسَكُمْ ۭ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰى) 053:032 اپنے نفسوں کی پاکیزگی اور ستائش مت کرو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے تم میں متقی کون ہے ؟ حدیث میں ہے حضرت مقداد (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں حکم دیا کہ ہم تعریف کرنے والوں کے چہروں پر مٹی ڈال دیں " ان نحثو فی وجوہ المداحین التراب (صحیح مسلم، کتاب الزھد) ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کو ایک دوسرے آدمی کی تعریف کرتے ہوئے سنا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (ویحک قطیت عنق صاحبک) افسوس ہے تجھ پر تو نے اپنے ساتھی کی گردن کاٹ دی پھر فرمایا کہ اگر تم میں سے کسی کو کسی کی لا محالہ تعریف کرنی ہے تو اس طرح کہا کرے، میں اسے اس طرح گمان کرتا ہوں۔ اللہ پر کسی کا تزکیہ بیان نہ کرے (صحیح بخاری)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٢] یعنی ان کا اپنے منہ سے ایسی باتیں کہنا بالکل جھوٹ ہے جو انہوں نے خود گھڑ کر اللہ کے ذمہ لگا دیا ہے ان کے دوسرے گناہوں کو تو چھوڑیے اکیلا یہ گناہ ہی ان کے فی الواقع گناہگار ہونے کے ثبوت کے لیے کافی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَكَفٰى بِهٖٓ اِثْمًا مُّبِيْنًا : یعنی ان کے یہ جھوٹے دعوے اور اللہ تعالیٰ پر افتراء ہی ان کے سخت گناہ گار ہونے کے لیے کافی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اُنْظُرْ كَيْفَ يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللہِ الْكَذِبَ۝ ٠ۭ وَكَفٰى بِہٖٓ اِثْمًا مُّبِيْنًا۝ ٥٠ۧ كيف كَيْفَ : لفظ يسأل به عمّا يصحّ أن يقال فيه : شبيه وغیر شبيه، كالأبيض والأسود، والصحیح والسّقيم، ولهذا لا يصحّ أن يقال في اللہ عزّ وجلّ : كيف، وقد يعبّر بِكَيْفَ عن المسئول عنه كالأسود والأبيض، فإنّا نسمّيه كيف، وكلّ ما أخبر اللہ تعالیٰ بلفظة كَيْفَ عن نفسه فهو استخبار علی طریق التنبيه للمخاطب، أو توبیخا نحو : كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] ، كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] ، كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] ، انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] ، فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] ، أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] . ( ک ی ف ) کیف ( اسم استفہام ) اس چیز کی حالت در یافت کرنے کے لئے آتا ہے جس پر کہ شیبہ اور غیر شیبہ کا لفظ بولا جاسکتا ہو جیسے ابیض ( سفید اسود ( سیاہی ) صحیح ( تندرست ) سقیم ( بیمار ) وغیرہ ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا استعمال جائز نہیں ہے اور کبھی اس چیز پر بھی کیف کا اطلاق کردیتے ہیں جس کے متعلق سوال کر نا ہو مثلا کہا جاتا ہے کہ اسود اور ابیض مقولہ کیف سے ہیں اور جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق کیف کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ تنبیہ یا قو بیخ کے طور پر مخاطب سے استخبار کے لئے لایا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] کافرو تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو ۔ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے ۔ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] بھلا مشرکوں کے لئے کیونکر قائم رہ سکتا ہے ۔ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] دیکھو انہوں نے کس کس طرح کی تمہارے بارے میں باتیں بنائیں ۔ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی مر تبہ پیدا کیا ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کسی طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا پھر کس طرح اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے ۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے مبین بَيَان والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم : البیان يكون علی ضربین : أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة . والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم/ 10] . وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] ، وسمّي الکلام بيانا لکشفه عن المعنی المقصود إظهاره نحو : هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 138] . وسمي ما يشرح به المجمل والمبهم من الکلام بيانا، نحو قوله : ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة/ 19] ، ويقال : بَيَّنْتُهُ وأَبَنْتُهُ : إذا جعلت له بيانا تکشفه، نحو : لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] ، وقال : نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص/ 70] ، وإِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات/ 106] ، وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف/ 52] ، أي : يبيّن، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] . البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر ( بھیجا تھا ۔ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] اور ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادات ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ اور کلام کو بیان کہا جاتا ہے کیونکہ انسان اس کے ذریعہ اپنے مافی الضمیر کو ظاہر کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 138] ( قرآن لوگوں کے لئے بیان صریح ہو ۔ اور مجمل مہیم کلام کی تشریح کو بھی بیان کہا جاتا ہے جیسے ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة/ 19] پھر اس ( کے معافی ) کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے ۔ بینہ وابنتہ کسی چیز کی شروع کرنا ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] تاکہ جو ارشادت لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص/ 70] کھول کر ڈرانے والا ہوں ۔إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات/ 106] شیہ یہ صریح آزمائش تھی ۔ وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف/ 52] اور صاف گفتگو بھی نہیں کرسکتا ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] . اور جهگڑے کے وقت بات نہ کرسکے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٠ (اُنْظُرْ کَیْفَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ ط) (وَکَفٰی بِہٖٓ اِثْمًا مُّبِیْنًا ) یعنی ان کی گرفت کے لیے اور ان کو عذاب دینے کے لیے یہی ایک بات کافی ہے جو انہوں نے گھڑی ‘ ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:50) وکفی بہ اثما مبینا۔ اور یہی کھلا گناہ ہے ب زائد ہے ہ ضمیر واحد مذکر غائب یہ جملہ یفترون علی اللہ الکذب کے لئے ہے جو اس جملہ میں فاعل ہے۔ نیز ملاحظہ ہو (4:45) اور یہی افتراء علی اللہ ان مفریوں کے لئے بطور ایک صریح گناہ کے کافی ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا : (اُنْطُرْ کَیْفَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ ) کہ ان کا یہ قول سراسر صریح بہتان ہونے کے لیے کافی ہے، اپنے جھوٹے دعوؤں اور آرزوؤں کو لیے بیٹھے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھ رہے ہیں کہ ہم اس کے نزدیک محبوب اور مقبول ہیں۔ تزکیہ نفس کی ضرورت اور اہمیت : اپنے نفس کو رذائل سے اور برے اخلاق سے پاک صاف کرنا چاہیے اور یہ بہت مبارک عمل ہے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کا رہائے نبوت میں (یُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَ یُزَکِیْھِمْ ) فرمایا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات کے موافق جو شخص اپنے نفس کو رذائل سے اور برے اخلاق اور برے اعمال سے پاک کرے اللہ تعالیٰ نے اس کی تعریف میں فرمایا (قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی) (کہ بیشک وہ کامیاب ہوا جو پاک ہوا) جو لوگ رذائل اور بد اخلاقی میں مبتلا ہیں ان کا اپنے کو پاکباز بتانا یہ تو دہرا جرم ہے، ہیں برے اور بنتے ہیں اچھے۔ لیکن جو لوگ سچ مچ نیک اور صالح ہیں اور رذائل سے پاک ہیں اخلاق حسنہ سے متصف ہیں، ان کو بھی اپنی تعریف اور تزکیہ کرنا زیب نہیں دیتا کیونکہ اس کا باعث عموماً تکبر ہوتا ہے۔ سورة و النجم میں ارشاد فرمایا (فَلاَ تُزَکُّوّٓا اَنْفُسَکُمْ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی) (سو تم اپنے نفسوں کی پاکیزگی بیان مت کرو اللہ کو خوب معلوم ہے کہ کون متقی ہے) ۔ اپنی تعریف کرنے کی ممانعت : اگر کوئی شخص عمومی طور پر گناہوں سے اور رذائل اور بد اخلاقی سے بچتا ہو تب بھی کچھ نہ کچھ خرابی کوتاہی تو باقی رہ ہی جاتی ہے۔ پھر انجام کا پتہ نہیں کہ خاتمہ کس حالت پر ہوگا اس لیے اپنے تزکیہ سے پرہیز کرنا لازم ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو ایسا نام رکھنا بھی پسند نہیں فرمایا جس سے اپنی تعریف کا پہلو نکلتا ہو۔ حضرت زینب بن ابی سلمہ (رض) نے بیان فرمایا کہ میرا نام برہ (نیک عورت) رکھ دیا گیا تھا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معلوم ہوا تو ارشاد فرمایا کہ اپنی جانوں کو پاکیزہ نہ بتاؤ۔ اللہ کو خوب معلوم ہے کہ تم میں نیک کون ہے اس کا نام زینب رکھ دو ۔ (رواہ مسلم صفحہ ٢٠٨: ج ٢) تحدیث بالنعمۃ کی اجازت : اللہ نے اگر کسی کو اچھے اعمال اور اچھے اخلاق کی نعمت سے نوازا ہو اور بطور تحدیث بالنعمۃ اپنی اچھی حالت بیان کر دے تو اس کی گنجائش ہے۔ لیکن بیان کرتے وقت اپنے باطن کا جائزہ لے کہ نفس کہیں دھوکہ تو نہیں دے رہا ہے، تحدیث بالنعمۃ کے پردہ میں اپنی تعریف اور تزکیہ کا کام تو نہیں ہو رہا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 اے پیغمبر ! کیا آپنے ان لوگوں کا حال نہیں دیکھا جو اپنے کو مقدس بتاتے اور بڑے پاکباز بنتے ہیں حالانکہ اپنے کہنے سے کوئی پاکیزہ اور پاکباز نہیں بنا کرتا بلکہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہے مقدس اور پاکیزہ کر دے اور ان پر ایک تاگے برابر ظلم نہیں کیا جائے گا بھلا دیکھیے تو یہ اللہ تعالیٰ پر کیسا جھوٹ افترا کرتے ہیں ان کے صریح مجرم اور گناہ گار ہونے کے لئے کافی ہے۔ (تیسیر) اس آیت میں خطاب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آیت میں خطاب عام ہو۔ مطلب یہ ہے کہ یہود کے اس خیال کو رد کرنا مقصود ہے جو انہوں نے اپنے متعلق قائم کر رکھا تھا جیسا کہ شان نزول سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت کچھ نابالغ بچوں کو لے کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاض ہوئی اور آپ سے دریافت کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا ان بچوں پر کوء گناہ ہے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نہیں اس پر کہنے لگے جناب ہماری بھی یہی حالت ہے ہم جو گناہ دن کو کرتے ہیں وہ رات کو معاف کردیئے جاتے ہیں اور جو گناہ ہم رات کو کرتے ہیں وہ دن کو معاف کردیئے جاتے ہیں بعض نے کہا یہود و نصاریٰ دونوں کا رد ہے کیونکہ وہ کہا کرتے تھے کہ جنت میں یہود و نصاریٰ کے علاوہ اور کوئی نہیں جاسکے گا۔ بہرحال ! شان نزول کوئی خاص ہو لیکن آیت سب کو شامل ہے جو لوگ اپنے آپ کو مقدس ظاہر کرتے ہوں اور اپنے کو مقبول بارگاہ کہتے ہوں ان کو اس قسم کے دعاویٰ سے روکا گیا ہے اور ان کو یہ بتایا گای ہے کہ یہ کام تو اللہ تعالیٰ کا ہے وہ جس کو چاہے مقدس و مقبول کر دے۔ جیسا کہ سورة نجم میں فرمایا ہے۔ فلاتزکوا انفسکم ھو اعلم بمن اتقی یعنی اپنے آپ کو مقدس نہ ظاہر کیا کرو اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ کون پرہیز گار ہے اور بات بھی یہی ہے کہ خاتمہ کا حال اللہ تعالیٰ دلیل ہے اس لئے اس سے بچنا چاہئے اور شریعت میں انہی خطرات کی وجہ سے اس کی ممانعت آئی ہے۔ بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگ غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور وہ کچھ کا کچھ سمجھنے لگتے ہیں ہاں اگر کسی کا تقدس بذیعہ وحی اور الہام ہو تو اس کے اظہار میں کوئی مضائقہ نہیں۔ جیسا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنے متعلق فرمانا کہ خدا کی قسم میں آسمان میں بھی امین ہوں اور زمین والوں میں بھی امین ہوں یا خدا کی قسم تم میرے بعد مجھ سے زیادہ کسی کو امین نہ پائو گے یا ابوبکر اور عمر کو جنت کے کھول کا سردار فرمانا اور حسن و حسین کو جنت کے نوجوانوں کا سردار فرمانا حضرت فاطمہ کو جنت کی عورتوں کا سردار فرمانا اور اسی طرح بعض اولیاء اللہ کا اپنے متعلق کچھ فرمانا جو بذریعہ کشف الہام ہو یا تحدیث نعمت کے طور پر اللہ تعالیٰ کی کسی نعمت کو ظاہر کرنا یہ سب چیزیں یہود کے ان دعادیٰ سے علیحدہ ہیں اور ان کی اجازت ہے ولا یظلمون فتیلا کا مطلب یہ ہے کہ یہود کو ان غلط بیانیوں اور گندم نمائی و جو فروشی کی سزا ضرور دی جائیگی مگر اس سزا میں ان پر دھاگے کے برابر بھی ظمل نہیں کیا جائے گا بلکہ ان کے جرم کے موافق ان کو سزا دی جائے گی اور یوں بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اپنے بندوں کی تطہیر اور ان کا تزکیہ فرماتا ہے اور اس تطہیر و تزکیہ میں ذرا ظلم نہیں کرتا کہ اہل کو نظر انداز کر دے اور نااہل کی تطہیر کر دے۔ (واللہ اعلم) دوسری آیت میں ان کے اس افتراء اور کذب پر پھر اپنے رسول کو خطاب کیا ہے کہ اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو دیکھئے تو کہ کیسی جرأت کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر افتراء اور جھوٹا طوفان گھڑ رہے ہیں اور ان کے تقدس کا بھانڈا تو اس ایک حرکت ہی سے پھوٹ جاتا ہے ایسے لوگ بھلا مقدس اور مقبول بارگاہ ہوسکتے ہیں جو خدا پر جھوٹ افترا کریں اور بہتان باندھیں ان کے صریح مجرم ہونے کے لئے ان کی یہی ایک حرکت کافی ہے لہٰذا یہ لوگ تو مجرم اور گناہگار ہیں مقدس اور پاکباز نہیں ہیں اور جو کچھ یہ کہہ رہے ہیں وہ غلط اور جھوٹ ہے۔ حضرت شاہ صاحب فتیلا پر فرماتے ہیں یہود کو حضرت حق سے مخالفت ہوئی تو مکہ کے مشرکوں سے منفق ہوئے ان کی خاطر سے بتوں کی تعظیم کی کہا تمہاری راہ بہتر ہے مسلمانوں سے اور یہ سب حسد تھا کہ نبوت اور ریاست ہمارے سوا اور کسی میں کیوں ہوئی اللہ پاک نے اسی پر ان کو الزام دیا ان سب آیتوں میں یہی مذکور ہے۔ (موضح القرآن) حضرت معاویہ سے مرفوعاً احمد اور ابن ماجہ نے نقل کیا ہے تم ایک دور سے کی مدح اور پاکیزگی بیان کرنے سے بچو کیونکہ ایسا کرنا ذبح کرنے کے مترادف ہے یعنی بڑھا چڑھا کر ایک دوسرے کی خوبیاں بیان کرنا یا اپنی خود تعریف کرنا ایسا ہے جیسے ایک نے دوسرے کو ذبح کردیا مطلب یہ ہے کہ اس قسم کی باتوں سے قلب پر جو اثر ہوتا ہے وہ روحانی موت کے مترادف ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اپنی تعریف خود اپنے منہ سے کرنا مذموم ہے مگر یہ کہ وحی یا الہام کے ذریعہ کسی کا تقدس معلوم ہو یا تحدیث نعمت کے طور پر کبھی کسی چیز کا اظہار کیا جائے۔ وحی کی ہم مثالیں بیان کرچکے ہیں الہام اور کشف کی مثالیں اولیاء اللہ کے کلام میں مل سکتی ہیں۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی (رح) کا مشہور قول قدمی ھذہ علے رقبۃ کل ولی اللہ ان ہی اقوال میں سے ہے۔ (واللہ اعلم) آگے یہود کی اور شرارتوں اور فتنہ انگیزیوں کا ذکر ہے۔ (تسہیل)