Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 58

سورة النساء

اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُکُمۡ اَنۡ تُؤَدُّوا الۡاَمٰنٰتِ اِلٰۤی اَہۡلِہَا ۙ وَ اِذَا حَکَمۡتُمۡ بَیۡنَ النَّاسِ اَنۡ تَحۡکُمُوۡا بِالۡعَدۡلِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمۡ بِہٖ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیۡعًۢا بَصِیۡرًا ﴿۵۸﴾

Indeed, Allah commands you to render trusts to whom they are due and when you judge between people to judge with justice. Excellent is that which Allah instructs you. Indeed, Allah is ever Hearing and Seeing.

اللہ تعالٰی تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی انہیں پہنچاؤ !اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل وانصاف سے فیصلہ کرو !یقیناً وہ بہتر چیز ہے جس کی نصیحت تمہیں اللہ تعالٰی کر رہا ہے بیشک اللہ تعالٰی سُنتا ہے ، دیکھتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Command to Return the Trusts to Whomever They Are Due Allah says; إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُودُّواْ الاَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا ... Verily, Allah commands that you should render back the trusts to those, to whom they are due; Allah commands that the trusts be returned to their rightful owners. Al-Hasan narrated that Samurah said that the Messenger of Allah said, أَدِّ الاَْمَانَةَ إِلى مَنِ ايْتَمَنَكَ وَلاَ تَخُنْ مَنْ خَانَك Return the trust to those who entrusted you, and do not betray those who betrayed you. Imam Ahmad and the collectors of Sunan recorded this Hadith. This command refers to all things that one is expected to look after, such as Allah's rights on His servants: praying, Zakah, fasting, penalties for sins, vows and so forth. The command also includes the rights of the servants on each other, such as what they entrust each other with, including the cases that are not recorded or documented. Allah commands that all types of trusts be fulfilled. Those who do not implement this command in this life, it will be extracted from them on the Day of Resurrection. It is recorded in the Sahih that the Messenger of Allah said, لَتُوَدَّنَّ الْحُقُوقُ إِلى أَهْلِهَا حَتَّى يُقْتَصَّ لِلشَّاةِ الْجَمَّاءِ مِنَ الْقَرْنَاء The rights will be rendered back to those to whom they are due, and even the sheep that does not have horns will take revenge from the horned sheep. Ibn Jarir recorded that Ibn Jurayj said about this Ayah, "It was revealed concerning Uthman bin Talhah from whom the Messenger of Allah took the key of the Ka`bah and entered it on the Day of the victory of Makkah. When the Prophet went out, he was reciting this Ayah, إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُودُّواْ الاَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا (Verily, Allah commands that you should render back the trusts to those, to whom they are due). He then called Uthman and gave the key back to him." Ibn Jarir also narrated that Umar bin Al-Khattab said, "When the Messenger of Allah went out of the Ka`bah, he was reciting this Ayah, إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُودُّواْ الاَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا (Verily, Allah commands that you should render back the trusts to those, to whom they are due). May I sacrifice my father and mother for him, I never heard him recite this Ayah before that." It is popular that this is the reason behind revealing the Ayah (4:58). Yet, the application of the Ayah is general, and this is why Ibn Abbas and Muhammad bin Al-Hanafiyyah said, "This Ayah is for the righteous and wicked," meaning it is a command that encompasses everyone. The Order to Be Just Allah said, ... وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُواْ بِالْعَدْلِ ... and that when you judge between men, you judge with justice. commanding justice when judging between people. Muhammad bin Ka`b, Zayd bin Aslam and Shahr bin Hawshab said; "This Ayah was revealed about those in authority", meaning those who judge between people. A Hadith states, إِنَّ اللهَ مَعَ الْحَاكِمِ مَا لَمْ يَجُرْ فَإِذَا جَارَ وَكَلَهُ اللهُ إِلى نَفْسِه Allah is with the judge as long as he does not commit injustice, for when he does, Allah will make him reliant on himself. A statement goes, "One day of justice equals forty years of worship." Allah said, ... إِنَّ اللّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُم بِهِ ... Verily, how excellent is the teaching which He (Allah) gives you! meaning, His commands to return the trusts to their owners, to judge between people with justice, and all of His complete, perfect and great commandments and laws. Allah's statement, ... إِنَّ اللّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا Truly, Allah is Ever All-Hearer, All-Seer. means, He hears your statements and knows your actions.

امانت اور عدل و انصاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں جو تیرے ساتھ امانت داری کا برتاؤ کرے تو اس کی امانت ادا کر اور جو تیرے ساتھ خیانت کرے تو اس سے خیانت مت کر ( مسند احمد و سنن ) آیت کے الفاظ وسیع المعنی ہیں ۔ ان میں اللہ تعالیٰ عزوجل کے حقوق کی ادائیگی بھی شامل ہے جیسے روزہ نماز زکوٰۃ کفارہ نذر وغیرہ ، اور بندوں کے آپس کے کل حقوق بھی شامل ہیں جیسے امانت دار کا حق اسے دلوایا جائے گا یہاں تک کہ بےسینگ والی بکری کو اگر سینگوں والی بکری نے مارا ہے تو اس کا بدلہ بھی اسے دلوایا جائے گا حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ شہادت کی وجہ سے تمام گناہ مٹ جاتے ہیں مگر امانت نہیں مٹنے لگی کوئی شخص اللہ کی راہ میں شہید بھی ہوا تو اسے بھی قیامت کے دن لایا جائے گا اور کہا جائے گا کہ اپنی امانت ادا کر وہ جواب دے گا کہ دنیا تو اب ہے نہیں میں کہاں سے اسے ادا کروں؟ فرماتے ہیں پھر وہ چیز اسے جہنم کی تہہ میں نظر آئے گی اور کہا جائے گا کہ جا اسے لے آ وہ اسے اپنے کندھے پر لاد کر لے چلے گا لیکن وہ گر پڑے گی وہ پھر اسے لینے جائے گا بس اسی عذاب میں وہ مبتلا رہے گا حضرت زاذان اس روایت کو سن کر حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آ کر بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں میرے بھائی نے سچ کہا پھر قرآن کی اس آیت کو پڑھتے ہیں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ فرماتے ہیں ہر نیک و بد کے لئے پر یہی حکم ہے ، ابو العالیہ فرماتے ہیں جس چیز کا حکم دیا گیا اور جس چیز سے منع کیا گیا وہ سب امانت ہے ۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں عورت اپنی شرم گاہ کی امانت دار ہے ، ربیع بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جو جو معاملات تیرے اور دوسرے لوگوں کے درمیان ہوں وہ سب اسی میں شامل ہے ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اس میں یہ بھی داخل ہے کہ سلطان عید والے دن عورتوں کو خطبہ سنائے ۔ اس آیت کی شان نزول میں مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ فتح کیا اور اطمینان کے ساتھ بیت اللہ شریف میں آئے تو اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر طواف کیا ۔ حجرا سود کو اپنی لکڑی سے چھوتے تھے اس کے بعد عثمان بن طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو کعبہ کی کنجی برادر تھے بلایا ان سے کنجی طلب کی انہوں نے دینا چاہی اتنے میں حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اب یہ مجھے سونپئے تاکہ میرے گھرانے میں زمزم کا پانی پلانا اور کعبہ کی کنجی رکھنا دونوں ہی باتیں رہیں یہ سنتے ہی حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا ہاتھ روک لیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوبارہ طلب کی پھر وہی واقعہ ہوا آپ نے سہ بارہ طلب کی حضرت عثمان نے یہ کہہ کر دے دی کہ اللہ کی امانت آپ کو دیتا ہوں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کعبہ کا دروازہ کھول اندر گئے وہاں جتنے بت اور تصویریں تھیں سب توڑ کر پھینک دیں حضرت ابراہیم کا بت بھی تھا جس کے ہاتھ فال کے تیر تھی آپ نے فرمایا اللہ ان مشرکین کو غارت کرے بھلا خلیل اللہ کو ان سیروں سے کیا سروکار؟ پھر ان تمام چیزوں کو برباد کر کے ان کی جگہ پانی ڈال کر ان کے نام و نشان مٹا کر آپ باہر آئے کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر آپ نے کہا کوئی معبود نہیں بجز اللہ کے وہ اکیلا ہے جس کا کوئی شریک نہیں اس نے اپنے وعدے کو سچا کیا اپنے بندے کی مدد کی اور تام لشکروں کو اسی اکیلے نے شکست دی پھر آپ نے ایک لمبا خطبہ دیا جس میں یہ بھی فرمایا کہ جاہلیت کے تمام جھگڑے اب میرے پاؤں تلے کچل دئیے گئے خواہ مالی ہوں خواہ جانی ہوں بیت اللہ کی چوکیداری کا اور حاجیوں کو پانی پلانے کا منصب جوں کا توں باقی رہے گا اس خطبہ کو پورا کر کے آپ بیٹھے ہی تھے جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آگے بڑھ کر کہا حضور چابی مجھے عنایت فرمائی جائے تاکہ بیت اللہ کی چوکیداری کا اور حاجیوں کو زمزم پلانے کا منصب دونوں یکجا ہو جائیں لیکن آپ نے انہیں نہ دی مقام ابراہیم کو کعبہ کے اندر سے نکال کر آپ نے کعبہ کی دیوار سے ملا کر رکھ دیا اور اوروں سے کہہ دیا کہ تمہارا قبلہ یہی ہے پھر آپ طواف میں مشغول ہوگئے ابھی وہ چند پھیرے ہی پھرے تھے جو حضرت جبرائیل نازل ہوئیے اور آپ نے اپنی زبان مبارک سے اس آیت کی تلاوت شروع کی ، اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میرے ماں باپ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر فدا ہوں میں نے تو اس سے پہلے آپ کو اس آیت کی تلاوت کرتے نہیں سنا اب آپ نے حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا اور انہیں کنجی سونپ دی اور فرمایا آج کا دن وفا کا نیکی اور سلوک کا دن ہے یہ وہی عثمان بن طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہی ہیں جن کی نسل میں آج تک کعبۃ اللہ کی کنجی چلی آتی ہے یہ صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے درمیان اسلام لائے جب ہی خالد بن ولید اور عمرو بن عاص بھی مسلمان ہوئے تھے ان کا چچا عثمان بن طلحہ احمد کی لڑائی میں مشرکوں کے ساتھ تھا بلکہ ان کا جھنڈا بردار تھا اور وہیں بحالت کفر مارا گیا تھا ۔ الغرض مشہور تو یہی ہے کہ یہ آیت اسی بارے میں اتری ہے اب خواہ اس بارے میں نازل ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو بہرصورت اس کا حکم عام ہے جیسے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت محمد بن حنفیہ کا قول ہے کہ ہر شخص کو دوسرے کی امانت کی ادائیگی کا حکم ہے پھر ارشاد ہے کہ فیصلے عدل کے ساتھ کرو حاکموں کو احکم الحاکمین کا حکم ہو رہا ہے کہ کسی حالت میں عدل کا دامن نہ چھوڑو ، حدیث میں ہے اللہ حاکم کے ساتھ ہوتا ہے جب تک کہ وہ ظلم نہ کرے جب ظلم کرتا ہے تو اسے اسی کا طرف سونپ دیتا ہے ، ایک اثر میں ہے ایک دن کا عدل چالیس سال کی عبادت کے برابر ہے ، پھر فرماتا ہے یہ ادائیگی امانات کا اور عدل و انصاف کا حکم اور اسی طرح شریعت کے تمام احکام اور تمام ممنوعات تمہارے لئے بہترین اور نافع چیزیں ہیں جن کا امر پروردگار نے تمہیں دیا ہے ( ابن ابی حاتم ) اور روایت میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس آیت کے آخری الفاظ پڑھتے ہوئے اپنا انگوٹھا اپنے کان میں رکھا اور شہادت کی انگلی اپنی آنکھ پر رکھی ( یعنی اشارے سے سننا دیکھنا کان اور آنکھ پر انگلی رکھ کر بتا کر ) فرمایا میں نے اسی طرح پڑھتے اور کرتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہے ، راوی حدیث حضرت ابو زکریا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ہمارے استاد مضری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی طرح پڑھ کر اشارہ کر کے ہمیں بتایا اپنے داہنے ہاتھ کا انگوٹھا اپنی دائیں آنکھ پر رکھا اور اس کے پاس کی انگلی اپنے داہنے کان پر رکھی ( ابن ابی حاتم ) یہ حدیث اسی طرح امام ابو داؤد نے بھی روایت کی ہے اور امام ابن حبان نے بھی اپنی صحیح میں اسے نقل کیا ہے ۔ اور حاکم نے مستدرک میں اور ابن مردویہ نے اپنی تفسیر میں بھی اسے وارد کیا ہے ، اس کی سند میں جو ابو یونس ہیں وہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مولی ہیں اور ان کا نام سلیم بن جیر رحمۃ اللہ علیہ ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

58۔ 1 اکثر مفسرین کے نزدیک یہ آیت حضرت عثمان بن طلحہ (رض) کی شان میں، جو خاندانی طور پر خانہ کعبہ کے دربان و کلید برادر چلے آرہے تھے، نازل ہوئی ہے مکہ فتح ہونے کے بعد جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خانہ کعبہ میں تشریف لائے تو طواف کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عثمان بن طلحہ (رض) کو جو صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمان ہوچکے تھے طلب فرمایا اور انہیں خانہ کعبہ کی چابیاں دے کر فرمایا ' یہ تمہاری چابیاں ہیں آج کا دن وفا اور نیکی کا دن ہے۔ آیت کا یہ سبب نزول اگرچہ خاص ہے لیکن اس کا حکم عام ہے اور اس کے مخاطب عوام اور حکام دونوں ہیں۔ دونوں کو تاکید ہے کہ امانتیں انہیں پہنچاؤ جو امانتوں کے اہل ہیں۔ اس میں ایک تو وہ امانتیں شامل ہیں جو کسی نہ کسی کے پاس رکھوائی ہوں۔ ان میں خیانت نہ کی جائے بلکہ باحفاظت عندالطلب لوٹا دی جائیں۔ دوسرے عہدے اور مناسب منصب اہل لوگوں کو دیئے جائیں، محض سیاسی بنیاد یا نسلی و وطنی بنیاد یا قرابت و خاندان کی بنیاد پر عہدہ منصب دینا اس آیت کے خلاف ہے۔ 58۔ 2 اس میں احکام کو بطور خاص عدل و انصاف کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک حدیث میں ہے۔ حاکم جب تک ظلم نہ کرے اللہ اس کے ساتھ ہوتا ہے اور جب وہ ظلم کا ارتکاب شروع کردیتا ہے تو اللہ اسے اس کے اپنے نفس کے حوالے کردیتا ہے (سنن ابن ماجہ کتاب الاحکام) 58۔ 3 یعنی امانتیں اہل لوگوں کے سپرد کرنا اور عدل اور انصاف مہیا کرنا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٩] اس جملہ کے بہت سے مطلب ہوسکتے ہیں۔ مثلاً ایک یہ کہ جس کسی نے تمہارے پاس کوئی امانت رکھی ہو اسی کو اس کی امانت ادا کردو۔ زید کی امانت بکر کے حوالے نہ کرو۔ امانت کا دوسرا مطلب ذمہ دارانہ مناصب ہیں۔ یعنی حکومت کے ذمہ دارانہ مناصب انہی کے حوالے کرو جو ان مناصب کے اہل ہوں۔ نااہل، بےایمان بددیانت اور راشی قسم کے لوگوں کے حوالے نہ کرو۔ اس لحاظ سے یہ مسلمانوں سے اجتماعی خطاب ہے کیونکہ بدکار لوگوں کی حکومت سے ساری قوم کی اخلاقی حالت تباہ و برباد ہوجاتی ہے۔ امانت کا تیسرا مطلب حقوق بھی ہیں یعنی تمہارے ذمہ جو حقوق ہیں خواہ اللہ کے ہوں یا بندوں کے، سب کے حقوق بجا لاؤ۔ کسی حکومت کے استحکام کی یہ پہلی بنیاد ہے اور انہی حقوق کی عدم ادائیگی سے فساد رونما ہوتا ہے۔ [٩٠] حکومت کے استحکام کی دوسری بنیاد عدل و انصاف ہے لہذا کسی قوم سے دشمنی تمہارے عدل و انصاف پر اثر انداز نہ ہونی چاہیے۔ جیسا کہ یہود نے صرف اسلام دشمنی کی بنا پر مشرکوں سے یہ کہہ دیا تھا کہ تم دینی لحاظ سے مسلمانوں سے بہتر ہو۔ حالانکہ مسلمانوں کی پاکیزہ سیرت اور مشرکوں کے کردار میں فرق اتنا واضح تھا جو دشمنوں کو بھی نظر آ رہا تھا اور خود یہود بھی اس حقیقت حال سے پوری طرح آگاہ تھے۔ انصاف سے فیصلہ کرنا اور انصاف کی بات کہنا بہت بلند درجہ کا عمل ہے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے : ١۔ آپ نے فرمایا & انصاف کرنے والے اللہ کے نزدیک ہوں گے، رحمن عزوجل کے دائیں نور کے منبروں میں ہوں گے اور رحمن کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں۔ جو اپنے فیصلہ کے وقت اپنے اہل میں اور اپنی رعایا میں انصاف سے فیصلہ کرتے ہیں۔ & (مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضیلۃ الامیر العادل) ٢۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سات قسم کے آدمیوں کو اپنے سایہ میں رکھے گا اور یہ ایسا دن ہوگا جب اور کسی جگہ کوئی سایہ نہ ہوگا۔ اس میں سرفہرست آپ نے امام عادل یعنی انصاف کرنے والے حاکم کا ذکر فرمایا۔ دوسرے وہ نوجوان جس نے جوانی میں خوشدلی سے اللہ کی عبادت کی۔ تیسرے وہ شخص جس کا دل مسجد میں ہی اٹکا رہتا ہے۔ چوتھے وہ دو شخص جنہوں نے اللہ کی خاطر دوستی کی، اسی کی خاطر اکٹھے رہے اور آخر موت نے جدا کیا۔ پانچویں وہ شخص جسے کسی مالدار اور حسن و جمال والی عورت نے بدکاری کے لیے بلایا تو اس نے کہہ دیا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ چھٹے وہ شخص جس نے اللہ کی راہ میں یوں چھپا کر صدقہ دیا کہ داہنے ہاتھ نے جو کچھ دیا، بائیں کو اس کی خبر تک نہ ہوئی۔ ساتویں وہ شخص جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا اور اس کی آنکھیں بہ نکلیں۔ (بخاری، کتاب الاذان، باب من جلس فی المسجد ینتظر الصلوۃ۔۔ )

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا ۔۔ : درمیان میں کفار کے احوال اور ان کے حق میں وعید کا ذکر آگیا تھا، اب دوبارہ سلسلۂ احکام شروع ہو رہا ہے۔ یہود امانت میں خیانت کرتے اور فیصلہ میں رشوت لے کر ظلم وجور کرتے، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان باتوں سے دور رہنے کا حکم دیا۔ یہاں امانت سے مراد گو ہر قسم کی امانت ہے، اس کا تعلق مذہب و دیانت سے ہو یا دنیاوی معاملات سے، لیکن یہود حق کو چھپا کر علمی امانت میں خیانت کے مرتکب بھی تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منافق کی تین نشانیاں بیان فرمائی ہیں جب بات کرے تو جھوٹ بولے جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس کی خلاف ورزی کرلے۔ امانت میں خیانت اتنا بڑا گناہ ہے کہ شہادت سے بھی معاف نہیں ہوتا۔ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ خیبر سے واپسی پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وادی القریٰ کی طرف روانہ ہوئے۔ جب وہاں پہنچے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا غلام ” مدعم “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اونٹنی سے پالان اتار رہا تھا کہ اسے ایک اندھا تیر لگا جس نے اسے قتل کردیا لوگوں نے کہا اسے جنت مبارک ہو تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے وہ چادر جو اس نے خیبر کے دن غنیمتوں میں سے لی تھی جو ابھی تقسیم نہیں ہوئی تھیں اس پر آگ بن کر شعلے مار رہی ہے۔ [ صحیح بخاری، المغازی، باب غزوۃ خیبر ] شہادت سے اس گناہ کے معاف نہ ہونے کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ لوگوں کے حقوق ہیں۔ عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا شہید کے لیے ہر گناہ معاف کردیا جاتا ہے سوائے قرض کے۔ [ صحیح مسلم، الامارۃ، باب من قتل فی سبیل اللہ ] البتہ ایک حدیث میں ایک بشارت ہے ابوہریرۃ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص لوگوں کے اموال لے ان کی ادائیگی کا ارادہ رکھتا ہو اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے ادا کر دے گا اور جو شخص لوگوں کے اموال لے انھیں تلف کرنے کا ارادہ رکھتا ہو اللہ تعالیٰ اسے تلف کرے گا۔ [ بخاری، الاستقراض، باب من اخذ اموال الناس ] اس سے معلوم ہوا کہ اگر شہید ہونے والے کا ارادہ ادائیگی کا تھا تو اللہ تعالیٰ اپنے پاس سے ادا کر دے گا لیکن ظاہر ہے کہ خیانت والے کا تو یہ ارادہ ہوتا ہی نہیں۔ امانت میں لوگوں سے لی ہوئی امانتیں بھی شامل ہیں اور عہدوں اور مناصب کی تقسیم بھی، جب ذمہ دار شخص کو معلوم ہو کہ فلاں صاحب اس منصب کا اہل نہیں تو پھر اپنے ذاتی تعلق یا خاندانی یا کسی دنیوی مقصد کے لیے یا کوٹہ سسٹم کی وجہ سے اہل کو چھوڑ کر نااہل شخص کو وہ منصب دیا جائے تو یہ بہت بڑی خیانت ہے۔ سورة احزاب (٧٢) سورة مومنون (٨) اور سورة بقرہ آیت (٢٨٣) میں بھی امانت داری کی تاکید فرمائی گئی ہے۔ 2ۙ وَاِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بالْعَدْلِ ۭ : قرآن مجید میں کئی مقامات پر عدل کی تاکید فرمائی، خواہ وہ اپنے خلاف ہی کیوں نہ ہو، دیکھیے سورة نساء (١٣٥) اور کسی دشمنی کی بنا پر عدل نہ کرنے سے بھی منع فرمایا۔ دیکھیے سورة مائدہ (٨) ۔ سورة نحل (٩٠) اور سورة حجرات (٩) ۔ وہ سات خوش قسمت لوگ جنھیں روز قیامت عرش کا سایہ ملے گا، ان میں پہلا شخص عادل حکمران ہوگا۔ [ بخاری : ٦٦٠ ] رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” بیشک انصاف کرنے والے جو اپنے فیصلے میں، اپنے اہل و عیال میں اور رعایا میں انصاف کرتے ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کے پاس نور کے منبروں پر ہوں گے، رحمٰن عزوجل کے دائیں طرف ہوں گے اور رحمٰن کے دونوں ہاتھ ہی دائیں ہیں۔ “ [ مسلم، الإمارۃ، باب فضیلۃ الأمیر العادل۔۔ : ١٨٢٧، عن عبداللہ بن عمرو (رض) ] اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یقیناً اللہ تعالیٰ قاضی اور حاکم کے ساتھ ہوتا ہے جب تک وہ ظلم نہ کرے اور جب وہ ظلم کرے تو اللہ تعالیٰ اسے اس کے نفس کے حوالے کردیتا ہے۔ “ [ ابن ماجہ، الأحکام، باب التغلیظ فی الحیف والرشدہ : ٢٣١٢، عن عبداللہ بن اوفٰی وصححہ الالبانی ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The background of the revelation of these verses The first of the two verses cited above was revealed in the back-ground of a particular event which related to the custodial service of the Ka&bah, an office of great honour even before the advent of Islam. Those who were appointed to serve the House of Allah in a particular area of responsibility were regarded as people of great prestige and distinction in the community. Therefore, different areas of services were distributed over different people. It was from the time of Jahilliyah that, during the days of Hajj, the service of providing drinking water to pilgrims from the well of Zamzam was entrusted to Sayyidna ` Abbas (رض) ، the revered uncle of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . This was known as Siqayah سقایہ . Some other services similar to this were in the charge of Abu Talib, another uncle of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Likewise, the custodial duty of keeping the keys to the House of Allah and of opening and closing it during fixed days had been given to ` Uthman ibn Talhah. According to a personal statement of ` Uthman ibn Talhah, the Ka&bah was opened every Monday and Thursday during the period of Jahilliyah and people would use the occasion to have the honour of entering the sacred House. Once before Hijrah, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) came with some of his Companions in order to enter the Ka&bah. ` Uthman ibn Talhah had not embraced Islam until that time. He stopped the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم from going in, displaying an attitude which was very rude. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) showed great restraint, tolerated his harsh words, then said: &O ` Uthman, a day will come when you would perhaps see this key to the Baytullah in my hands when I shall have the power and choice to give it to anyone I choose.& ` Uthman ibn Talhah said: &If this happens, the Quraysh will then be all uprooted and disgraced.& He said: &No, the Quraysh will then be all established and very honourable indeed.& Saying this, he went into the Baytullah. After that, says Talhah, when I did a little soul-searching, I became convinced that whatever he has said is bound to happen. I made up my mind that I am going to embrace Islam then and there. But, my own people around me vehemently opposed the idea and everybody joined in to chide me on my decision. So, I was unable to convert to Islam. When came the conquest of Makkah, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) called for me and asked for the key to Baytullah, which I presented to him.& In some narrations, it is said that ` Uthman ibn Talhah had climbed over the Baytullah with the key. It was Sayyidna Ali (رض) who, in deference to the order of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، had forcibly taken the key from his hand and had given it to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . So he went into the Baytullah, offered his prayers there, and when he came out, he returned the key to Talhah saying: &Here, take it. Now this key will always remain with your family right through the Last Day. Anyone who will take this key from you will be a tyrant.& (By this he meant that nobody has the right to take back this key from Talhah) He also instructed him to use whatever money or things he may get in return for this service to Baytullah in accordance with the rules set by the Shari&ah of Islam. ` Uthman ibn Talhah says: &When I, with the key in my hand, started walking off all delighted, he called me again, and said: ` Remember ` Uthman, did I not tell you, something way back? Has it come to pass, or has it not?& Now, I remembered what he had said before Hijrah when he had said: &A day will come when you will see this key in my hand.& I submitted: &Yes, there is no doubt about it. Your word has come true.& And that was the time when I recited the Kalimah and entered the fold of Islam.& (Mazhari, from Ibn Sa&d). Sayyidna ` Umar ibn Al-Khattab (رض) al says: &That day, when the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) came out of the Baytullah, he was reciting this very verse, that is, إِنَّ اللَّـهَ يَأْمُرُ‌كُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا (58). I had never heard him recite this verse before this.& Obviously, this verse was revealed to him inside the Ka&bah exactly at that time. Obeying the Divine command in the verse, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) called ` Uthman ibn Talhah again and made him the trustee of the key, because ` Uthman ibn Talhah when he had given the key to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، had said: &I hand over this article of trust to you.& Although, the remark he made was not technically correct as it was the sole right of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) to take whatever course of action he deemed fit. But, the Holy Qur&an has, in this verse, taken into consideration the nature of trust involved therein, and directed the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) to return the key to none else but ` Uthman, although, that was a time when Sayyidna ` Abbas and Sayyidna ALI (رض) had both requested that, since Baytullah&s offices of water supply and custodial services (Siqaya and Sidana) were in their respective charge, this service of the Key-Bearer of the Ka&bah may be entrusted to them. But, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) preferred to follow the instruction given in this verse, bypassed their request and returned the key to ` Uthman ibn Talhah. (Tafsir Mazhari) This was the background in which this verse was revealed. At this point let us bear in mind an important rule on which there is a consensus. The rule is that even if a Qur&anic verse is revealed in a particular background, the rule laid down by it in general terms must be taken as of universal application and must not be restricted to that particular event. Now, we can turn to the meanings and exegetic aspects of these verses. The Holy Qur&an says: إِنَّ اللَّـهَ يَأْمُرُ‌كُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا It means: &Surely, Allah commands you to fulfill trust obligations towards those entitled to them.& As to who is the addressee of this command, there are two probabilities: It could have been addressed to the general body of Muslims, or it could have been addressed particularly, to those in authority. What is more obvious here is that the verse is addressed to everyone who holds anything in trust. This includes the masses and also those in authority. The emphasis laid on fulfilling trust obligations The functional outcome of the command in the verse is that everyone who holds anything in trust with him is duty-bound to see that trust obligations are faithfully fulfilled and that the rightful recipients have in their hands what is their due. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has laid great stress on the fulfillment of trust obligations. Sayyidna Anas (رض) says: It must have been a rare sermon indeed in which the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم may not, have said the following words: لَا اِیمَان لِمن لا اَمَانَہ، ولا دین لِمَن لا عَھدَ لہ |"One who does not fulfill trust obligations has no Faith (&Iman) with him; and one who does not stand by his word of promise has no religion (Din) with him.|" (Reported by al-Baihaqi in Shu&ab al-&Iman) Breach of Trust is a Sign of Hypocrisy According to narrations from Sayyidna Abu Hurairah and Sayyidna Ibn ` Umar (رض) appearing in al-Bukhari and Muslim, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، while describing the signs of hypocrisy on a certain day, pointed out to a particular sign which was: &Give him an amanah and he will do khiyanah.& It means when an hypocrite is charged with a trust obligation, he will commit a breach of trust. Kinds of trust obligations Here, worth pondering is the Qur&anic use of the word, Amanat which is in the plural form. This is to hint that amanah (trust obliga¬tion) is not simply limited to cash or kind which someone may have entrusted to someone else for safe-keeping until demanded, which is the most prevailing and commonly understood form of amanah. The cue is that there are other kinds of amanah as well. For example, the incident mentioned earlier under the background of the revelation of this verse does not have any financial aspect to it. The key to the Baytullah was not a financial asset. Instead, this key was a symbol of the office of the serving keeper of the Baytullah. The offices of authority and government are trusts from Allah This tells us that offices and ranks of government, whatever they may be, are all handed over to the recipients as trust from Allah. Those who receive it are its amin (trustees). This covers all officials and everyone else in authority who wield the powers of appointments and dismissals. For them, it is not permissible that they give any office or job or responsibility to anyone who is not deserving of it in terms of his relevant practical expertise or intellectual capability. Instead of doing that, it is incumbent on those in authority that they must make a serious search for the most deserving person for every job, every office within the jurisdiction of the government. Cursed is he who appoints somebody undeserving to any office In case, it is not possible to find the most perfect person for an office, someone with the most desirable qualifications and capabilities, someone who combines in himself all required conditions, then, prefer¬ence may be given to the one who is superior-most in terms of his capabilities and trustworthiness from among the many of those avail-able. In a hadith, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has been reported to have said: If a person, who has been charged with some responsibility relating to the general body of Muslims, gives an office to someone simply on the basis of friendship or connection of some sort, without finding out the capability or merit of the person concerned, the curse of Allah falls on him. Not accepted from him is any act of worship which he has been obligated with (fard) nor any of that which he offers volun¬tarily (nafl.), all along till the time he enters the Hell. (Jam` ul-Fawa&id, p. 325) In some narrations it is reported that whoever entrusts a person with an office of responsibility, although he knows that there is another person more suited and more deserving for that office, then, he has committed a breach of trust against Allah, against His Messenger and against all Muslims. The chaos and corruption seen in many systems of governance these days is a sad consequence of ignoring this Qur&anic teaching, as offices are distributed on the basis of connections, recommendations and bribes. The result is that undeserving and unmerited people usurp offices they are not fit to occupy, doing nothing but harassing millions of God&s own people, and in the process, destroying the very edifice of the system. Therefore, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: اِذَا وسد الامر الی غیر اھلہ فانتظر الساعہ |"When the responsibility of affairs is placed under the charge of those who are not deserving of and fit for it, then, wait for the Day of Doom (that is, there is no solution for this chaos).|" This instruction appears in a hadith from Kitab al-` Ilm of Sahib al-Bukhari. To recapitulate, let us remember that the Holy Qur&an uses the plural form for trust obligations, that is, Amanat&, and thus gives the hint that trust obligations do not simply relate to property or other financial assets held in trust by one person on behalf of the other. Instead of that, it has many kinds, included wherein are offices of the government. There is a hadith where the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم has said: الَمَجَالِسُ بِالاَمانَۃِ (Meetings are a kind of trust). It means that anything said in a meeting is a matter of trust restricted to it. Reporting and publi¬cizing what transpired there without the permission of participants is not permissible. Similarly, another hadith say اَلمُستَشَارُ مُؤتَمِنُ . It means: The consultant is a trustee.& It is incumbent on him that the counsel he gives must be, in .his best judgment, most beneficial for the seekers of the advice. If he gives an advice which he knows is not in the best interest of the seeker of the advice, he has committed a breach of trust right there. Similarly, if someone confides you with his secret, it becomes an article of trust kept on his behalf. Disclosing it to anyone without his permission is a breach of trust. So, the present verse tells us to be very particular in fulfilling all such trust obligations as due. It was just the explanation of the first sentence of the first verse which has brought us this far. Now, we proceed with the explanation of the second sentence of the first verse (58) which reads: وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ (when you judge between people, judge with fairness). What is obvious here is that the mode of address in the verse refers to those in authority who decide cases of dispute. Taking their cue from here, some commentators have concluded that the addressee in the first sentence is the same as in the second, that is, those in authority. This does not take into consideration the leeway that exists here too, very much like it is in the first sentence, that is, the probability exists that both office-holders and masses are included in this address for the simple reason that among the common people at large the usual prac¬tice is to appoint a neutral arbitrator to judge and decide between disputing parties. However, there is no doubt that, at the first sight, the addressees of both these sentences appear to be none but those in authority. Therefore, it can be said that their addressees are, primarily, those in authority; while, secondarily, this address is also directed at all those who are keepers of trusts, and who have been appointed to arbitrate in some case. It should be noted that Allah Almighty , has said: بَینَ النَاّسِ that is, |"between people|"; and not anything like, &between Muslims& or &between believers.& Thus, the hint given is that all human beings are equal in the sight of the decider of cases in dispute. They may be Muslims or non-Muslims, friends or enemies, or they may belong to the same country, colour, language, or may be from another country, differ in colour and speak a different language. Those who have been made responsible to judge between them are duty-bound to cast aside all these connections and give their decision guided by whatever be the dictate of truth, right and just. Equity and justice guarantee world peace In a nutshell, it can be said that the first sentence of this verse carries the command to fulfill trust obligations, while equity and justice have been enjoined in the second. Between the two, the fulfillment of trust obligations has been given precedence. Perhaps, the reason for this may be that the establishment of a system that guar¬antees equity and justice all over a country is just not possible without it. It means that those who hold power in a country must, first of all, fulfill their trust obligations, a bounden duty which has to be discharged correctly and properly. Consequently they must appoint only those to the offices of the government who prove to be the best of the lot in terms of their ability to perform the required job and in terms of their trustworthiness and honesty. In this matter, no back-doors should be opened by acting on the basis of friendship, relation-ships, connections, recommendations and bribes. If this is not done, the result will be that gangs of the undeserving, and the incapable, or hosts of usurpers and tyrants will take over all offices and entrench themselves. When this happens, those at the highest level of power and authority cannot, even if they genuinely wish to usher an era of equity and justice in the country, do anything about it. The whole thing will just become impossible because these very officials of the government are supposed to be the functionaries of the government through which it acts. When these officials turn pilferers of the trust or are flatly incapable of performing the duty entrusted to them, how can equity and justice be installed in a system? Specially worth-remembering in this verse is that Allah Almighty has, by equating offices of the government with the trust obligations, made it clear at the very outset that amanah or whatever is held in trust should be handed over, properly and duly, to the person who is its rightful owner. It is not permissible to dole out what is held in trust to some beggar or someone needy just out of pity or mercy; or, it is also not correct to give out something held in trust just to fulfill the rights of some relative or friend. This is about amanah as it relates to common trust holdings. Not too different from this are trust obliga¬tions seen in broader perspective. Very similar are the offices of the government on which hinges a whole roster of things that have to be done in the best interests of the masses of men and women created by Allah Almighty. These too are trusts. They too have to be returned. But, they must be handed over to those who are its rightful, deserving recipients, those who have the ability to do what is required of them, have the qualification, the capability, and are clearly the best of those suitable and available for this office, and finally, are clearly superior to those in line in terms of their honesty and trustworthiness. If this office is given to anyone else other than these, this will be deemed as a contravention of the Divine instruction, that is, the trust obligations will not have been fulfilled as is their due. Giving offices of government on the basis of regional or provincial considerations is an error of principle Furthermore, this sentence of the Wise Qur&an has removed the common error which has be adopted as a rule of law in many countries and constitutions of the world whereby the offices of the government have been declared as the right of the people of a country. Because of this error of principle, laws had to be enacted to guarantee the distri¬bution of government offices on the basis of the ratio of the population. As such, every province or state of a country has fixed quotas. A person from another province or state cannot be appointed on the quota of one province, no matter how deserving and trustworthy he may be and no matter how undeserving and evil-doing the man from the latter may be. The Qur&an has openly proclaimed that these offices are not rights to be claimed by somebody. Instead, they are trusts which can be given only to those who deserve it. They may belong to one province or the other, one zone or the other. However, there is nothing wrong in preferring to appoint a person belonging to the area where the government has to have an office. Actually, there may be many beneficial considerations behind it, but, the condition is that the essential ability and trustworthiness of the incumbent must be checked and found satisfactory before such an appointment. State structure and some golden principles So, from within the framework of this brief verse, some basic prin¬ciples emerge. These are: 1. By beginning the first sentence of the verse with إِنَّ اللَّـهَ يَأْمُرُ‌كُمْ (Surely, Allah commands you ...), it has been clearly indicated that the real command and rule is from Allah Almighty. All rulers of the mortal world are the carriers of His command. This establishes that the supreme authority, the ultimate sovereignty belongs to none but Allah Almighty. 2. The offices of the government are not the rights of the residents of a country which could be distributed on the basis of the ratio of population. They are, trust obligations placed on our shoulders by Allah Almighty which can be given only to those who are capable and deserving of them. 3. Man&s rule on this earth can be legitimate only as a deputy or trustee. While formulating the laws of the land, he will have to be bound and guided by the principles laid down by Allah Almighty, the Absolute Sovereign, and which have been given to man through reve¬lation. 4. It is the standing duty of those in authority that they should, whenever a case comes to them, give a judgment based on equity and justice without making any discrimination on the basis of race, country of origin, colour, language, even religion and creed. After having enunciated these golden principles of state structure, it has been said towards the end of the verse that the counsel thus given to man is good counsel, good as it can be, because Allah hears everyone. He observes the state of a person who does not have the ability to speak, not even the power or means to protest. Therefore, the principles made and given by Him are such as will be practice-worthy in every country, every age, always. Principles and orders made by human minds are restricted within the parameters of their environ¬ment. They have to be inevitably changed when circumstances change. So, the way those in authority were the addressees in the first verse (58), people at large have been addressed in the second verse (59) by: &0 those who believe, obey Allah and obey the Messenger and those in authority among you.& &Those in Authority&: Lexically, أُولِي الْأَمْرِ‌ (uli&l-amr) (translated here as &those in authority& ) refers to those in whose hands lies the management and administra¬tion of something. Therefore, Sayyidna Ibn ` Abbas, Mujahid and Hasan al-Basri the earliest commentators of the Qur&an, may Allah be pleased with them, have said that uli&l-amr fittingly applies to scholars and jurists (` Ulama and Fuqaha& ) since; they are the succeeding deputies of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and the proper regulation of religion is in their hands. Then, there is a group of commentators, including Sayyidna Abn Hurairah (رض) ، which says that أُولِي الْأَمْرِ‌ uli&l-amr signifies officials and rulers who hold the reins of government in their hands. However, it appears in Tafsir Ibn Kathir and al-Tafsir al-Mazhari that this expression includes both categories, that is, the scholars and jurists as well as the officials and rulers because the system of command is inevitably connected with these two. A surface view of this verse shows three &obediences& being commanded here - of Allah, the Messenger and those in authority. But, other verses of the Holy Qur&an have made it very clear that command and obedience really belong to none but Allah - from Him the command and to Him the obedience. The Qur&an says: إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّـهِ |" &The command belongs to none but Allah.& But, the practical form of the obedience to His command is divided over four parts. Forms of obedience to Allah&s commands 1. First of all come commands about something which Allah Almighty has Himself revealed very explicitly in the Holy Qur&an and which do not need any explanation - for example, the extremely serious crime of shirk and kufr (the ascribing of partners to the divinity of Allah, and disbelief); the worship of Allah, the One; the belief in Akhirah, the life-to-come, and in Qiyamah, the Last Day; and the belief in Sayyidna Muhammd al-Mustafa (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) as the Last and True Messenger of Allah; the belief in and the practice of Salah (prayers), Sawm (fasting), Hajj (pilgrimage) and Zakah (aims) as fard (obligatory). All these are direct Divine commands. Carrying these out means a direct obedience to Allah Almighty. 2. Then, there is the second part consisting of ahkam or commands which needs to be explained. Here, the Holy Qur&an often gives a terse or unspecified command the explanation of which is left to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Now, the explanation or enlargement of the subject which the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) takes up through his ahadith is also a kind of wahy (revelation). If these explanations, based on personal judgment, miss something or fall short in any way, correc¬tion is made through wahy. Finally, the word and deed of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) as it is in the end, becomes the interpretation of the Divine command. Obedience to the Divine commands of this nature is, though, the very obedience, of the commands of Allah Almighty in reality, but, speaking formally, since these commands are not physically and expli¬citly the Qur&an as such - they have reached the community through the blessed words of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - therefore, obedi¬ence to them is academically said to be an obedience to the Messenger which, in reality, despite being in unison with obedience to the Divine, does have a status of its own if looked at outwardly. Therefore, throughout the Holy Qur&an, the command to obey Allah has the allied command to obey the Messenger as a constant feature. 3. The third category of Ahkam or commands are those which have not been explicitly mentioned in the Holy Qur&an or in the Hadith, or if they do appear in the later, the narrations about such commands found in the enormous treasure-house appear to be conflicting. In the case of such ahkam, Mujtahid ` Ulama (scholars having the highest multidimensional expertise in religious knowledge through original sources) delve into the established texts of the Qur&an and Sunnah along with a close study of precedents and parallels offered by the problem in consideration, giving their best thought and concern to arrive at the appropriate rule of conduct while staying within the parameters of the imperatives of the sacred texts. This being so, the obedience to these rules is one and the same as the obedience to the Divine because it has been, in all reality, deduced from the Qur&an and Sunnah. But, when seen formally, these are known as juristic edicts or fatawa as popularly understood and are attributed to religious scholars. Under this very third category, come the Ahkam which are free of any restrictions from the Qur&an and Sunnah. In fact, here people have the choice to act as they wish. This, in the terminology of the Shari’ ah is known as مُبَاحات Mubahat (plural of مُبَاح Mubah meaning &allowed& ). The formu¬lation, enforcement and management of orders and rules of this nature has been entrusted with rulers and their officials so that they can make laws i n the background of existing conditions and considerations and make everybody follow these. Let us take the example of Karachi, the city where I live. How many post offices should there be in this city? Fifty or hundred? How many police stations? What transit system will serve the city best? What rules to follow in order to provide shelter for a growing population? All these areas of activity come under مُبَاحات Mubahat, the allowed, the open field. None of its aspects are rated Wajib (necessary) or Haram (forbidden). In fact, this whole thing is choice-oriented. But, should this choice be given to masses, no system would work. Therefore, the responsibility of organizing and running the system has been placed on the government. Now, returning to basics it can be said that, in the present verse, the obedience to those in authority means obedience to both ` ulama& and hukkam (religious scholars and officials). According to this verse, it becomes necessary to obey Muslim jurists in matters which require juristic research, expertise and guidance as it would be equally neces¬sary to obey those in authority in matters relating to administrative affairs. This obedience too is, in reality, the obedience to the ahkam or commands of Allah Almighty. But, as seen outwardly, these commands are not there in the Qur&an or the Sunnah. Instead, they are either enunciated by religious scholars or the officials. It is for this reason that this particular call for obedience has been separated and placed at number three and given the distinct identity of &obey those in authority&. Let us keep in mind that, the way it is binding and neces¬sary to follow the Qur&an in the specified textual provisions of the Qur&an and follow the Messenger in the specified textual provisions of the Messenger, so it is necessary to follow Muslim jurists in matters relating to jurisprudence, matters which have not been textually speci¬fied, and to follow rulers and officials in matters relating to adminis¬tration. This is what &obedience to those in authority& means. Obedience to authority in anti-Shari’ ah activities is not permissible If we look at verse 58 and the command to &judge between people with fairness& along with the command to &obey those in authority& in verse 59, we can see a clear hint to the effect: If the Amir, the authority in power, sticks to عدل adl (justice), obedience to him is wajib (necessary); and should he forsake justice and promulgate laws against the Shari’ ah, the امیر amir will not be obeyed as far as those laws are concerned. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has said: لَا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ . Literally, &there is no obedience to the created in the matter of disobedience to the Creator,& which means that such obedience to the created as makes disobedience to the Creator necessary is not permis¬sible. Another point which emerges from the statement: |"And you judge between people, judge with fairness|" (verse 58), is that a person who does not have the ability and the power to maintain equity and justice should not become a قاضی Qadi (judge), because |"judging with fairness|" is amanah, the great charge of the fulfillment of a trust obligation, some-thing which cannot be guarded, defended and fulfilled by a weak and incapable person. Relevant to this is the case of Sayyidna Abu Dharr (رض) who had requested the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، that he may be appointed as the governor of some place in the Islamic state. In reply, he said: یا ابَا ذر اِنَّکَ ضَعِیف و انھا امانۃ یوم القیٰمۃ خزی و ندامۃ الا من اخذ بحقھا وادی الذی علیہ فیھا (رواہ مسلم بحوالہ مظھری) |"0 Abu Dharr, you are weak and this is an office of trust, which may, on the Day of Doom, become the cause of disgrace and remorse, except for one who has fulfilled all his trust obli-gations, fully and duly (that is, he will be spared of that disgrace).|" (Muslim, in Mazhari) The just person is the favourite servant of Allah There is a hadith in which the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has been reported to have said: &The just person is loved by Allah and he is the closest to Him, while the unjust person is cast far away from the mercy and grace of Allah.& According to another hadith, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said to his noble Companions: &Do you know who will be the first to go under the shade of Allah?& They said: &Allah and His Messenger know this best.& Then, he said: &These will be people who, when truth appears, hasten to accept it; and when asked, they spend their wealth; and when they judge (between people), they do it as fairly as they would have done for themselves.&

خلاصہ تفسیر (اے اہل حکومت خواہ تھوڑوں پر حکومت ہو خواہ بہتوں پر) بیشک تم کو اللہ تعالیٰ اس بات کا حکم دیتے ہیں کہ اہل حقوق کو ان کے حقوق (جو تمہارے ذمہ ہیں) پہنچا دیا کرو اور (تم کو) یہ (بھی حکم دیتے ہیں) کہ جب (محروم) لوگوں کا تصفیہ کیا کرو، بیشک اللہ تعالیٰ جس بات کی تم کو نصیحت کرتے ہیں وہ بات بہت اچھی ہے، دنیا کے اعتبار سے بھی کہ اس میں استحکام حکومت ہے اور آخرت کے اعتبار سے بھی کہ موجب قرب وثواب ہے) بلاشک اللہ تعالیٰ (تمہارے اقوال کو جو دوبارہ امانت و تصفیہ تم سے صادر ہوتے ہیں) خوب سنتے ہیں (اور تمہارے افعال کو جو اس باب میں تم سے واقع ہوتے ہیں) خواب دیکھتے ہیں (تو اگر کمی و کوتاہی کرو گے مطلع ہو کر تم کو سزا دیں گے، یہ خطاب تو حکام کو ہوا، آگے محکومین کو ارشاد ہے کہ) اے ایمان والو ! تم اللہ تعالیٰ کا کہنا مانو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کہنا مانو (ور یہ حکم تو تمہارے اور حکام سب کے لئے عام ہے) اور تم (مسلمانوں) میں جو لوگ اہل حکومت ہیں ان کا بھی (کہنا مارو اور یہ حکم خاص ہی تم محکومین کے ساتھ) پھر (اگر ان کے احکام کا اللہ اور رسول کے کہنے کے خلاف نہ ہونا محکوم و حاکم دونوں کے اتفاق معتبر سے ثابت ہو تو خیر اس میں تو حکام کی اطاعت کرو گے ہی اور) اگر (ان کے احکام میں سے) کسی امر میں تم باہم اختلاف کرنے لگو (کہ یہ اللہ و رسول کے کہے ہوئے کے خلاف ہے یا نہیں) تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات میں تو آپ سے پوچھ کر اور بعد آپ کی وفات کے ائمہ مجتہدین و علماء دین سے رجوع کر کے) اس امر کو (کتاب) اللہ اور (سنت) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف حوالہ کرلیا کرو (اور ان حضرات سے جیسا فتوی ملے اس پر سب محکوم و حکام عمل کرلیا کرو) اگر تم اللہ پر اور یوم قیامت پر ایمان رکھتے ہو (کیونکہ اس ایمان کا مقتضی یہی ہے کہ قوم قیامت میں اللہ تعالیٰ کی دارگیر سے جو کہ مخالفت کرنے پر ہونے والی ڈریں) یہ امور (جو مذکور ہوئے، اطاعت اللہ کی، رسول کی، اولی الامر کی، حوالہ کرنا تنازعات کا کتاب و سنت کی طرف) سب (دنیا میں بھی) بہتر ہیں اور (آخرت میں بھی) ان کا انجام خوش تر ہے (کیونکہ دنیا میں امن و راحت اور آخرت میں نجات وسعادت ہیں۔ ) معارف و مسائل آیات کا شان نزول :۔ مذکورہ آیات میں سے پہلی آیت کے نزول کا ایک خاص واقعہ ہے کہ کعبہ کی خدمت اسلام سے پہلے بھی بڑی عزت سمجھی جاتی تھی اور جو لوگ بیت اللہ کی کسی خاص خدمت کے لئے منتخب ہوتے تھے وہ پوری قوم میں معزز و ممتاز مانے جاتے تھے اسی لئے بیت اللہ کی مختلف خدمتیں مختلف لوگوں میں تقسیم کی جاتی تھیں، زمانہ جاہلیت سے ایام حج میں حجاج کو زمزم کا پانی پلانے کی خدمت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عم محترم حضرت عباس کے سپرد تھی، جس کو سقایہ کہا جاتا تھا، اسی طرح اور بعض خدمتیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دوسرے چچا ابو طالب کے سپرد تھی، اسی طرح بیت اللہ کی کنجی رکھنا اور مقررہ ایام میں کھولنا بند کرنا عثمان بن طلحہ سے متعلق تھا۔ عثمان بن طلحہ کا اپنا بیان ہے کہ زمانہ جاہلیت میں ہم پیر اور جمعرات کے روز بیت اللہ کو کھولا کرتے تھے اور لوگ اس میں داخل ہونے کی سعادت حاصل کرتے تھے، ہجرت سے پہلے ایک روز رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے کچھ صحابہ کے ساتھ بیت اللہ میں داخل ہونے کے لئے تشریف لائے (اس وقت تک عثمان بن طلحہ اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے) انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اندر جانے سے روکا اور انتہائی ترشی دکھائی، آپ نے بڑی برد باری کے ساتھ ان کے سخت کلمات کو برداشت کیا، پھر فرمایا، اے عثمان شاید تم ایک روز یہ بیت اللہ کی کنجی میرے ہاتھ میں دیکھو گے، جبکہ مجھے اختیار ہوگا کہ جس کو چاہوں سپرد کر دوں، عثمان بن طلحہ نے کہا کہ اگر ایسا ہوگیا تو قریش ہلاک اور ذلیل ہوجائیں گے، آپ نے فرمایا کہ نہیں ! اس وقت قریش آباد اور عزت والے ہوجائیں گے آپ یہ کہتے ہوئے بیت اللہ کے اندر تشریف لے گئے، اس کے بعد جب میں نے اپنے دل کو ٹٹولا تو مجھے یقین سا ہوگیا کہ آپ نے مجھے کچھ فرمایا ہے وہ ہو کر رہے گا، میں نے اسی وقت مسلمان ہونے کا ارادہ کرلیا لیکن میں نے اپنی قوم کے تیور بدلے ہوئے پائے، وہ سب کے سب مجھے سخت ملامت کرنے لگے، اس لئے میں اپنے ارادہ کو پورا نہ کرسکا، جب مکہ فتح ہوا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے بلا کر بیت اللہ کی کنجی طلب فرمائی، میں نے پیش کردی۔ بعض روایات میں ہے کہ عثمان بن طلحہ کنجی لے کر بیت اللہ کے اوپر چڑھ گئے تھے حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے آپ کے حکم کی تعمیل کے لئے زبردستی کنجی ان کے ہاتھ سے لے کر انٓحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دے دیتھی، بیت اللہ میں داخلہ اور وہاں نماز ادا کرنے کے بعد جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر تشریف لائے تو پھر کنجی مجھ کو واپس کرتے ہوئے فرمایا، کرلو اب یہ کنجی ہمیشہ تمہارے ہی خاندان کے پاس قیامت تک رہے گی، جو شخص تم سے یہ کنجی لے گا وہ ظالم ہوگا، مقصد یہ تھا کہ کسی دوسرے شخص کو اس کا حق نہیں کہ تم سے یہ کنجی لے لے، اسی کے ساتھ یہ ہدایت فرمائی کہ بیت اللہ کی اس خدمت کے صلہ میں تمہیں جو مال مل جائے اس کو شرعی قاعدہ کے موافق استعمال کرو۔ عثمان بن طلحہ کہتے ہیں کہ جب میں کنجی لے کر خوشی خوشی چلنے لگا تو آپ نے پھر مجھے آواز دی اور فرمایا ! کیوں عثمان جو بات میں نے کہی تھی وہ پوری ہوئی یا نہیں ؟ اب مجھے وہ بات یاد آگئی جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہجرت سے پہلے فرمائی تھی کہ ایک روز تم یہ کنجی میرے ہاتھ میں دیکھو گے، میں نے عرض کیا کہ بیشک آپ کا ارشاد پورا ہوا اور اس وقت میں کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا (مظہری بروایت ابن سعد) حضرت فاروق اعظم عمر بن الخطاب (رض) فرماتے ہیں کہ اس روز جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت اللہ سے باہرت شریف لائے تو یہ آیت آپ کی زبان پر تھی ان اللہ یامرکم ان تودو الامنت الی اھلھا۔ “ اس سے پہلے میں نے یہ آیت کبھی آپ سے نہ سنی تھی، ظاہر ہے کہ یہ آیت اس وقت جوف کعبہ میں نازل ہوئی تھی، اسی آیت کی تعمیل میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوبارہ عثمان بن طلحہ کو بلا کر کنجی ان کو سپرد کی، کیونکہ عثمان بن طلحہ نے جب یہ کنجی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دی تھی تو یہ کہہ کردی تھی کہ ” میں یہ امانت آپ کے سپرد کرتا ہوں “ اگرچہ ضابطہ سے ان کا یہ کہنا صحیح نہ تھا، بلکہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کو ہر طرح کا اختیار تھا کہ جو چاہیں کریں، لیکن قرآن کریم نے صورت امانت کی بھی رعایت فرمائی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی ہدایت کی کہ کنجی عثمان ہی کو واپس فرما دیں “ حالانکہ اس وقت حضرت عباس اور حضرت علی (رض) نے بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ درخواست کی خدمت بھی ہمیں عطا فرما دیجئے، مگر آیت مذکورہ کی ہدایت کے موافق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی درخواست رد کر کے کنجی عثمان بن طلحہ کو واپس فرمائی ( تفسیر مظہری) یہاں تک آیت کے شان نزول پر کلام تھا اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ آیت کا شان نزول اگرچہ کوئی خاص وقوعہ ہوا کرتا ہے لیکن حکم عام ہوتا ہے، جس کی پابندی پوری امت کے لئے ضروری ہوتی ہے۔ اب اس معنی اور مطلب ملاحظہ کیجئے۔ ارشاد ہے : ان اللہ یامرکم ان تودوالامنت الی اھلھا ” یعنی اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے مستحقین کو پہونچایا کرو۔ “ اس حکم کا مخاطب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عام مسلمان ہوں اور یہ بھی احتمال ہے کہ خاص امراء و حکام مخاطب ہوں اور زیادہ ظاہر یہ ہے کہ ہر وہ شخص مخاطب ہے جو کسی امانت کا امین ہے، اس میں عوام بھی داخل ہیں اور حکام بھی۔ ادائے امانت کی تاکید :۔ حاصل اس ارشاد کا یہ ہے کہ جس کے ہاتھ میں کوئی امانت ہے اس پر لازم ہے کہ یہ امانت اس کے اہل و مستحق کو پہونچاوے، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اداء امانت کی بڑی تاکید فرمائی ہے، حضرت انس فرماتے ہیں کہ بہت کم ایسا ہوگا کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی خطبہ دیا ہو اور اس میں یہ ارشاد نہ فرمایا ہو : ” یعنی جس میں امانت داری نہیں اس میں ایمان نہیں اور جس شخص میں معاہدہ کی پابندی نہیں اس میں دین نہیں۔ “ (یہ روایت بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کی ہے) خیانت نفاق کی علامت ہے :۔ بخاری اور مسلم میں حضرت ابوہریرہ اور ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک روز نفاق کی علامتیں بتلاتے ہوئے ایک علامت یہ بتلائی کہ جب امانت اس کے پاس رکھی جائے تو خیانت کرے۔ امانت کی قسمیں :۔ اس جگہ یہ بات غور طلب ہے کہ قرآن حکیم نے لفظ امانت بصیغہ جمع استعمال فرمایا جس میں اشارہ ہے کہ امانت صرف یہی نہیں کہ کسی کا کوئی مال کسی کے پاس رکھا ہو جس کو عام طور پر امانت کہا اور سمجھا جاتا ہے، بلکہ امانت کی کچھ اور قسمیں بھی ہیں جو واقعہ آیت کے نزول کا ابھی ذکر کیا گیا خود اس میں بھی کوئی مالی امانت نہیں، بیت اللہ کی کنجی کوئی خاص مال نہ تھا، بلکہ یہ کنجی خدمت بیت اللہ کے ایک عہدہ کی نشانی تھی۔ حکومت کے مناصیب اللہ کی امانتیں ہیں :۔ اس سے معلوم ہوا کہ حکومت کے عہدے اور منصب جتنے ہیں وہ سب اللہ کی امانتیں ہیں جس کے امین وہ حکام اور افسر ہیں جن کے ہاتھ میں عزل و نصب کے اختیارات ہیں، ان کے لئے جائز نہیں کہ کوئی عہدہ کسی ایسے شخص کے سپرد کردیں جو اپنی عملی یا علمی قابلیت کے اعتبار سے اس کا اہل نہیں ہے، بلکہ ان پر لازم ہے کہ ہر کام اور ہر عہدہ کے لئے اپنے دائرہ حکومت میں اس کے مستحق کو تلاش کریں۔ کسی منصب پر غیر اہل کو بٹھانے والا ملعون ہے :۔ پوری اہلیت والا سب شرائط کا جامع کوئی نہ ملے تو موجودہ لوگوں میں قابلیت اور امانت داری کے اعتبار سے جو سب سے زیادہ فائق ہو اس کو ترجیح دی جائے۔ ایک حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ جس شخص کو عام مسلمانوں کی کوئی ذمہ داری سپرد کی گئی ہو پھر اس نے کوئی عہدہ کسی شخص کو محض دوستی وتعلق کی مد میں بغیر اہلیت معلوم کئے ہوئے دے دیا اس پر اللہ کی لعنت ہے نہ اس کا فرض مقبول ہے نہ نفل، یہاں تک کہ وہ جہنم میں داخل ہوجائے (جمع الفوائد، ص ٥٢٣) بعض روایات میں ہے کہ جس شخص نے کوئی عہدہ کسی شخص کے سپرد کیا حالانکہ اس کے علم میں تھا کہ دوسرا آدمی اس عہدہ کے لئے اس سے زیادہ قابل اور اہل ہے تو اس نے اللہ کی خیانت کی اور رسول کی اور سب مسلمانوں کی، آج جہاں نظام حکومت کی ابتری نظر آتی ہے وہ سب اس قرآنی تعلیم کو نظر انداز کردینے کا نتیجہ ہے کہ تعلقات اور سفارشوں اور رشوتوں سے عہدے تقسیم کئے جاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نااہل اور ناقابل لوگ عہدوں پر قابض ہو کر خلق خدا کو پریشان کرتے ہیں اور سارا نظام حکومت برباد ہوجاتا ہے۔ اسی لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا : اذا وسد الامرالی غیر اھلہ فانتظر الساعة :۔ ” یعنی جب دیکھو کہ کاموں کی ذمہ داری ایسے لوگوں کے سپرد کردی گئی جو اس کام کے اہل اور قابل نہیں تو (اب اس فساد کا کوئی علاج نہیں) قیامت کا انتظار کرو۔ “ یہ ہدایت صحیح بخاری کتاب علم میں ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کریم نے لفظ امنت بصیغہ جمع لا کر اس کی طرف اشارہ کردیا کہ امانت صرف اسی کا نام نہیں کہ ایک شخص کا مال کسی دوسرے شخص کے پاس بطور امانت رکھا ہو، بلکہ امانت کی بہت سی قسمیں ہیں جن میں حکومت کے عہدے بھی داخل ہیں۔ اور ایک حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : ” یعنی مجلسیں امانتداری کے ساتھ ہونی چاہئیں۔ “ مطلب یہ ہے مجلس میں جو بات کہی جائے وہ اسی مجلس کی امانت ہے، ان کی اجازت کے بغیر اس کو دوسروں سے نقل کرنا اور پھیلانا جائز نہیں۔ اسی طرح ایک حدیث میں ہے :” المستشار مؤ تمن “” یعنی جس شخص سے کوئی مشورہ لیا جائے وہ امین ہے۔ “ اس پر لازم ہے کہ مشورہ وہی دے جو اس کے نزدیک مشورہ لینے والے کے حق میں مفید اور بہتر ہو، اگر جانتے ہوئے خلاف مشورہ دے دیاتو امانت میں خیانت کا مرتکب ہوگیا، اسی طرح کسی نے آپ سے اپنا راز کہا تو وہ اس کی امانت ہے، بغیر اس کی اجازت کے کسی سے کہہ دینا خیانت ہے آیت مذکورہ میں ان سب امانتوں کا حق ادا کرنے کی تاکید ہے۔ یہاں تک پہلی آیت کے ابتدائی جملہ کی تفسیر تھی، آگے پہلی آیت کے دوسرے جملہ کی تفسیر ہے کا فیصلہ کرنے لگو تو عدل و انصاف کے ساتھ کیا کرو۔ “ ظاہر یہ ہے کہ اس کا خطاب حکام اور امراء کو ہے جو خصومات مقدمات کا فیصلہ کیا کرتے ہیں اور اسی کے قرینہ سے بعض حضرات نے پہلے جملہ کا مخاطب بھی حکام و امراء کو قرار دیا ہے، اگرچہ پہلے جملہ کی طرح اس میں بھی گنجائش اس کی بنا کر فیصلہ کردیا کرتے ہیں، اسی طرح جھگڑوں کا فیصلہ کرنا عوام میں بھی پایا جاسکتا ہے، مگر اس میں شبہ نہیں کہ اول نظر میں ان دونوں جملوں کے مخاطب حکام و امراء ہی معلوم ہوتے ہیں، اس لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کے مخاطب ال حکام و امراء ہیں اور ثانیاً یہ خطاب ہر اس شخص کے لئے بھی ہے جس کے پاس لوگوں کی امانتیں ہوں اور جس کو کسی مقدمہ کا ثالث بنادیا جائے۔ اس جملہ میں حق تعالیٰ نے بین الناس فرمایا بین المسلمین یا بین المومنین نہیں فرمایا۔ اس میں اشارہ فرما دیا کہ مقدمات کے فیصلوں میں سب انسان مساوی ہیں، مسلم ہوں یا غیر مسلم اور دوست ہوں یا دشمن اپنے ہم وطن، ہم رنگ، ہم زبان ہوں یا غیر فیصلہ کرنے والوں کا فرض ہے کہ ان سب تعلقات سے الگ ہو کر بھی حق و انصاف کا تقاضا ہو وہ فیصلہ کریں۔ عدل و انصاف امن عالم کا ضامن ہے :۔ غرض آیت کے پہلے جملہ میں ادائے امانت کا حکم ہے اور دوسرے میں عدل و انصاف کا ان میں ادائے امانات کو مقدم کیا یا، شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ پورے ملک میں عدم و انصاف کا قیام اس کے بیر ہو ہی نہیں سکتا کہ جن کے ہاتھ میں ملک کا اقتدار ہے وہ پہلے اداء امانات کا فریضہ صحیح طور پر ادا کریں، یعنی حکومت کے عہدوں پر صرف انہی لوگوں کو مقرر کریں جو صلاحیت کار اور امانت و دیانت کی رو سے اس عہدہ کے لے سب سے زیادہ بہتر نظر آئیں، دوستی اور تعلقات یا محض سفارش یا رشوت کو اس میں راہ نہ دیں، ورنہ نتیجہ یہ ہوگا کہ نااہل ناقابل یا خائن اور ظالم لوگ عہدوں پر قابض ہوجائیں گے پھر اگر ارباب اقتدار دل سے بھی یہ چاہیں کہ ملک میں عدل و انصاف کار رواج ہو تو ان کے لئے ناممکن ہوجائے گا، کیونکہ یہ عہدہ داران حکومت ہی حکومت کے ہاتھ اور پیر ہیں، جب یہ خائن یا ناقابل ہوئے تو عدل و انصاف قائم کرنے کی کیا راہ ہے ؟ اس آیت میں یہ بات خاص طور پر یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اس میں حق جل شانہ نے حکمت کے عہدوں کو بھی امانت قرار دے کر اول تو یہ واضح فرما دیا کہ جس طرح امانت صرف اسی کو ادا کرنا چاہئے جو اس کا مالک ہو، کسی فقیر، مسکین پر رحم کھا کر کسی کی امانت اس کو دینا جائز نہیں یا کسی رشتہ دار یا دوست کا حق ادا کرنے کے لئے کسی شخص کی امانت اس کو دے دینا درست نہیں، اسی طرح حکومت کے عہدے جن کے ساتھ عام خلق اللہ تعالیٰ کا کام متعلق ہوتا ہے یہ بھی امانتیں ہیں اور ان امانتوں کے مستحق صرف وہ لوگ ہیں جو اپنی صلاحیت کار اور قابلیت و استعداد کے اعتبار سے بھی اس عہدے کے لئے مناسب اور موجودہ لوگوں میں سب سے بہتر ہوں اور دیانت اور امانت کے اعتبار سے بھی سب میں بہتر ہوں، ان کے سوا کسی دوسرے کو یہ عہدہ سپرد کردیا تو یہ امانت ادا نہ ہوئی۔ علاقائی اور صوبائی بنیادوں پر حکومت کے مناسب سپرد کرنا اصولی غلطی ہے :۔ اس کے ساتھ قرآن حکیم کے اس جملہ نے اس عام غلطی کو بھی دور کردیا جو اکثر ممالک کے دستوروں میں چل رہی ہے کہ حکومت کے عہدوں کو باشندگان ملک کے حقوق قرار دے دیا ہے۔ اور اس اصولی غلطی کی بناء پر یہ قانون بنانا پڑا کہ حکومت کے عہدے تناسب آبادی کے اصول پر تقسیم کئے جائیں، ہر صوبہ ملک کے لئے کوٹے مقرر ہیں، ایک صوبہ کے کوٹہ میں دوسرے صوبہ کا آدمی نہیں رکھا جاسکتا، خواہ وہ کتنا ہی قابل اور امین کیوں نہ ہو، اور اس صوبہ کا آدمی کتنا ہی غلط کار نااہل ہو، قرآن حکیم نے صاف اعلان فرما دیا کہ یہ عہدے کسی کا حق نہیں بلکہ امانتیں ہیں جو صرف اہل امانت ہی کو دی جاسکتی ہیں خواہ وہ کسی صوبہ اور کسی خطہ کے رہنے والے ہوں، البتہ کسی خاص علاقہ اور صوبہ پر حکمت کے لئے اسی علاقہ کے آدمی کو ترجیح دی جاسکتی ہے کہ اس میں بہت سی مصالح ہیں، مگر شرط یہ ہے کہ کام کی صلاحیت اور امانت میں اس پر پورا اطمینان ہو۔ دستور مملکت کے چند زریں اصول :۔ اسی طرح اس مختصر آیت میں دستور مملکت کے چند بنیادی اصول آگئے جو مندرجہ ذیل ہیں۔ ١۔ اول یہ کہ آیت کے پہلے جملہ کو ان اللہ یامرکم سے شروع فرما کہ اس طرف اشارہ کردیا کہ اصل امر اور حکم اللہ تعالیٰ کا ہے، سلاطین دنیا سب اس کے مامور ہیں، اس سے ثابت ہوا کہ ملک میں اقتدار اعلی صرف اللہ تعالیٰ کا ہے۔ ٢۔ دوسرے یہ کہ حکومت کے عہدے باشندگان ملک کے حقوق نہیں جن کو تناسب آبادی کے اصول پر تقسیم کیا جائے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی ہوئی امانتیں ہیں جو صرف ان کے اہل اور لائق لوگوں کو دیئے جاسکتے ہیں۔ ٣۔ تیسرے یہ کہ زمین پر انسان کی حکمرانی صرف ایک نائب و امین کی حیثیت سے ہو سکتی ہے وہ ملک کی قانون سازی میں ان اصول کا پابند رہے گا جو حاکم مطلق حق تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی بتلا دیئے گئے ہیں۔ ٤۔ چوتھے یہ کہ حکام و امراء کا فرض ہے کہ جب کوئی مقدمہ ان کے پاس آئے تو نسل و وطن اور رنگ و زبان یہاں تک کہ مذہب و مسلک کا امتیاز کئے بغیر عدل و انصاف کا فیصلہ کریں۔ اس آیت میں دستور مملکت کے زرین اصول بتلا کر آخر میں ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو جو نصیحت کی ہے وہ بہت ہی اچھی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر شخص کی سنتا ہے اور جو بولنے اور فریاد کرنے پر بھی قدرت نہ رکھتا ہو اس کے حالات کو خود دیکھنا ہے، اس لئے اس کے بتلانے اور بنائے ہوئے اصول ہی ایسے ہیں جو ہمیشہ ہر ملک میں اور ہر دور میں قابل عمل ہو سکتے ہیں، انسانی دماغوں کے بنائے اصول و دستور صرف اپنے ماحول کے اندر محدود ہوا کرتے ہیں اور تغیر حالات کے بعد ان کا بدلنا ناگزیر ہوتا ہے جس طرح پہلی آیت کے مخاطب حکام و امراء تھے دوسری آیت میں عوام کو مخاطب فرما کر ارشاد فرمایا کہ اے ایمان والو ! تم اللہ کی اور رسول کی اور اپنے اولی الامر کی اطاعت کرو۔ اولی الامر کون لوگ ہیں ؟:۔ اولی الامر لغت میں ان لوگوں کو کہا جاتا ہے، جن کے ہاتھ میں کسی چیز کا نظام و انتظام ہو، اسی لئے حضرت ابن عباس، مجاہد اور حسن بصری وغیرہ (رض) ، مفسرین قرآن نے اولی الامر کے مصداق علمئا و فقہاء کو قرار دیا ہے کہ وہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نائب ہیں اور نظام دین ان کے ہاتھ میں ہے۔ اور ایک جماعت مفسرین نے جن میں حضرت ابوہریرہ (رض) بھی شامل ہیں، فرمایا کہ اولی الامر سے مراد و حکام اور امراء ہیں جن کے ہاتھ میں نظام حکومت ہے۔ اور تفسیر ابن کثیر اور تفسیر مظہری میں ہے کہ یہ لفظ دونوں طبقوں کو شامل ہے، یعنی علماء کو بھی اور حکام و امراء کو بھی، کیونکہ نظام امرا انہیں دونوں کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس آیت میں ظاہر اً تین کی اطاعتوں کا حکم ہے، رسول، رسول، اول الامر، لیکن قرآن کی دوسری آیات نے واضح فرما دیا کہ حکم و اطاعت دراصل صرف ایک اللہ تعالیٰ کی ہے، ان الحکم الا للہ مگر اس کے حکم اور اس کی اطاعت کی عملی صورت چار حصوں میں منقسم ہے۔ حکم اور اطاعت کی تین عملی صورتیں :۔ ایک وہ جس چیز کا حکم صراحتة خود حق تعالیٰ نے قرآن میں نازل فرما دیا اور اس میں کسی تفصیل و تشریح کی حاجت نہیں، جیسے شرک و کفر کا انتہائی جرم ہونا ایک اللہ وحدہ کی عبادت کرنا اور آخرت اور قیامت پر یقین رکھنا اور محمد مصطفے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کا آخری برحق رسول ماننا، نماز، روزہ، حج، زکوة کو فرض سمجھنا، یہ وہ چیزیں ہیں جو براہ راست احکام ربانی ہیں، ان کی تعمیل بلاواسطہ حق تعالیٰ کی اطاعت ہے۔ دسرا حصہ احکام کا وہ ہے جس میں تفصیلات و تشریحات کی ضرورت ہے، ان میں قرآن کریم اکثر ایک مجمل یا مبہم حکم دیتا ہے اور اس کی تشریح و تفصیل نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے کی جاتی ہے، پھر وہ تفصیل و تشریح جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی احادیث کے ذریعہ فرماتے ہیں وہ بھی ایک قسم کی وحی ہوتی ہے، اگر اس تفصیل و تشریح میں اجتہادی طور پر کوئی کمی یا کوتاہی رہ جاتی ہے تو بذریعہ حی اس کی اصلاح فرما دی جاتی ہے اور بالاخر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول و عمل جو آخر میں ہوتا ہے وہ حکم الہی کا ترجمان ہوتا ہے۔ اس قسم کے احکام کی اطاعت بھی اگرچہ درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت ہے لیکن ظاہری اعتبار سے چونکہ یہ احکام صریح طور پر قرآن نہیں، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے امت کو پہنچنے ہیں، اس لئے ان کی اطاعت ظاہری اعتبار سے اطاعت رسول ہی کہلاتی ہے جو حقیقت میں اطاعت الہی کے ساتھ متحد ہونے کے باوجود ظاہری اعتبار سے ایک جداگانہ حیثیت رکھتی ہے، اسی لئے پورے قرآن میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا حکم دینے کے ساتھ اطاعت رسول کا حکم مستقلاً مذکور ہے۔ تیسرا درجہ احکام کا وہ ہے جو نہ قرآن میں صراحتہ مذکور ہیں نہ حدیث میں یا ذخیرہ احادیث میں اس کے متعلق متضاد روایات ملتی ہیں، ایسے احکام میں علماء مجتہدین قرآن و سنت کے منصوصات اور زیر غور مسئلہ کے نظائر میں غور و فکر کر کے ان کا حکم تلاش کرتے ہیں ان احکام کی اطاعت بھی اگرچہ حقیقت کے اعتبار سے قرآن و سنت سے مستفاد ہونے کی وجہ سے اطاعت خداوندی ہی کی ایک فرد ہیں، مگر ظاہری سطح کے اعتبار سے یہ فقہی فتاوی کہلاتے ہیں اور علماء کی طرف منسوب ہیں۔ اسی تیسری قسم میں ایسے احکام بھی ہیں جن میں کتاب و سنت کی رو سے کوئی پابندی عائد نہیں، بلکہ ان میں عمل کرنے والوں کو اختیار ہے جس طرح چاہیں کریں، جن کو اصطلاح میں مباحات کہا جاتا ہے، ایسے احکام میں عملی انتظام حکام و امراء کے سپرد ہے کہ وہ حالات اور مصالح کے پیش نظر کوئی قانون بنا کر سب کو اس پر چلائیں، مثلاً شہر کراچی میں ڈاک خانے پچاس ہوں یا سو، پولیس اسٹیشن کتنے ہوں، ریلوے کا نظام کس طرح ہو، آباد کاری کا انتظام کن قواعد پر کیا جائے یہ سب مباحات ہیں، ان کی کوئی جانب نہ واجب ہے نہ حرام بلکہ اختیاری ہے، لیکن یہ اختیار عوام کو دے دیا جائے تو کوئی نظام نہیں چل سکتا، اس لئے نظام کی ذمہ داری حکومت پر ہے۔ آیت مذکورہ میں اولوالامر کی اطاعت سے علماء اور حکام دونوں کی اطاعت مراد ہے، اس لئے اس آیت کی رو سے فقہی تحقیقات میں فقہاء کی اطاعت اور انتظامی امور میں حکام و امراء کی اطاعت واجب ہوگئی۔ یہ اطاعت بھی درحقیقت اللہ جل شانہ کے احکام ہی کی اطاعت ہے، لیکن ظاہری سطح کے اعتبار سے یہ احکام نہ قرآن میں ہیں نہ سنت میں، بلکہ ان کا بیان یا علماء کی طرف سے ہو یا حکام کی طرف سے اس لئے اس اطاعت کو تیسرا نمبر جداگانہ قرار دے کر اولی الامر کی اطاعت نام رکھا گیا اور جس طرح منصوصات قرآن میں قرآن کا اتباع اور منصوصات رسول میں رسول کا اتباع لازم واجب ہے، اسی طرح غیر منصوص فقہی چیزوں میں فقہا کا اور انتظامی امور میں حکام و امراء کا اتباع واجب ہے، یہی مفہم ہے اطاعت اولی الامر کا۔ خلاف شرع کاموں میں امیر کی اطاعت جائز نہیں :۔ واذا حکمتم بین الناس ان تحکموا بالعدل، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جس کام کو ارشاد فرمایا کہ اگر تم لوگوں کے درمیان کوئی فیصلہ کرو تو عدل و انصاف کے ساتھ کرو اور اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اولی الامر کی اطاعت کی تعلیم دی اس سے اشارہ اس بات کی طرف کردیا کہ امیر اگر عدل پر قائم رہے تو اس کی اطاعت واجب ہے اور اگر وہ عدل و انصاف کو چھوڑ کر خلاف شرع احکام صادر کرے تو ان میں امیر کی اطاعت نہیں کی جائے گی، چناچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے :” لاطاعة لمخلوق فی معصیة الخالق۔ “ ” یعنی مخلوق کی ایسی اطاعت جائز نہیں جس سے خالق کی نافرمانی لازم آتی ہو۔ “ اس آیت میں اللہ تعالیٰ ارشادفرما رہے ہیں کہ اگر تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو، اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جو آدمی عدل و انصاف کو قائم رکھنے کی طاقت اور صلاحیت نہ رکھتا ہو تو اس کو قاضی بھی نہیں بننا چاہئے، کیونکہ حکم بالعدل بھی ایک امانت ہے، جس کی حفاظت نہ رکھتا ہو تو اس کو قاضی بھی نہیں بننا چاہئے، کیونکہ حکم بالعدل بھی ایک امانت ہے، جس کی حفاظت کمزور اور نااہل آدمی نہیں کرسکتا، چناچہ جب حضرت ابوذر نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست کی کہ آپ مجھے کسی جگہ کا حاکم مقرر فرما لیں تو آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ : ” اے ابوذر آپ ضعیف آدمی ہیں اور منصب ایک امانت ہے جس کی وجہ سے قیامت کے دن انتہائی ذلت اور رسوائی ہوگی، سوائے اس شخص کے جس نے امانت کا حق پورا کردیا ہو (یعنی وہ ذلت سے بچ جائے گا۔ “ ) عادل آدمی اللہ کا محبوب ترین بندہ ہے :۔ ایک حدیث میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ عادل اللہ کا محبوب اور قریب ترین انسان ہے اور ظالم اللہ کی رحمت اور نظر کرم سے دور ہوتا ہے۔ ایک دوسری حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ سے فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ سب سے پہلے اللہ کے سایہ کے نیچے کون جائے گا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی کو اس بات کا زیادہ علم ہے، تو پھر آپ نے ارشاد فرمایا یہ وہ لوگ ہوں گے جن کے سامنے جب حق آجائے تو فوراً قبول کرلیتے ہیں اور جب ان سے سوال کیا جاتا ہے تو مال کو خرچ کرتے ہیں اور جب وہ فیصلہ کرتے ہیں تو ایسا عادلانہ کرتے ہیں جیسا کہ وہ اپنے لئے کرتے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ اللہَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا۝ ٠ۙ وَاِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ۝ ٠ۭ اِنَّ اللہَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِہٖ۝ ٠ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا۝ ٥٨ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے أمانت أصل الأَمْن : طمأنينة النفس وزوال الخوف، والأَمْنُ والأَمَانَةُ والأَمَانُ في الأصل مصادر، ويجعل الأمان تارة اسما للحالة التي يكون عليها الإنسان في الأمن، وتارة اسما لما يؤمن عليه الإنسان، نحو قوله تعالی: وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال/ 27] ، أي : ما ائتمنتم عليه، ( ا م ن ) امانت ۔ اصل میں امن کا معنی نفس کے مطمئن ہونا کے ہیں ۔ امن ، امانۃ اور امان یہ سب اصل میں مصدر ہیں اور امان کے معنی کبھی حالت امن کے آتے ہیں اور کبھی اس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی کے پاس بطور امانت رکھی جائے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ } ( سورة الأَنْفال 27) یعنی وہ چیزیں جن پر تم امین مقرر کئے گئے ہو ان میں خیانت نہ کرو ۔ إلى إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) حكم والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] ( ح ک م ) حکم الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔ بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ عدل العَدَالَةُ والمُعَادَلَةُ : لفظٌ يقتضي معنی المساواة، ويستعمل باعتبار المضایفة، والعَدْلُ والعِدْلُ يتقاربان، لکن العَدْلُ يستعمل فيما يدرک بالبصیرة كالأحكام، وعلی ذلک قوله : أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة/ 95] ، والعِدُل والعَدِيلُ فيما يدرک بالحاسّة، کالموزونات والمعدودات والمکيلات، فالعَدْلُ هو التّقسیط علی سواء، وعلی هذا روي : «بالعَدْلِ قامت السّموات والأرض» «5» تنبيها أنه لو کان رکن من الأركان الأربعة في العالم زائدا علی الآخر، أو ناقصا عنه علی مقتضی الحکمة لم يكن العالم منتظما . والعَدْلُ ضربان : مطلق : يقتضي العقل حسنه، ولا يكون في شيء من الأزمنة منسوخا، ولا يوصف بالاعتداء بوجه، نحو : الإحسان إلى من أحسن إليك، وكفّ الأذيّة عمّن كفّ أذاه عنك . وعَدْلٌ يُعرَف كونه عَدْلًا بالشّرع، ويمكن أن يكون منسوخا في بعض الأزمنة، کالقصاص وأروش الجنایات، وأصل مال المرتدّ. ولذلک قال : فَمَنِ اعْتَدى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ [ البقرة/ 194] ، وقال : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُها [ الشوری/ 40] ، فسمّي اعتداء وسيئة، وهذا النحو هو المعنيّ بقوله : إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسانِ [ النحل/ 90] ، فإنّ العَدْلَ هو المساواة في المکافأة إن خيرا فخیر، وإن شرّا فشرّ ، والإحسان أن يقابل الخیر بأكثر منه، والشرّ بأقلّ منه، ورجلٌ عَدْلٌ: عَادِلٌ ، ورجالٌ عَدْلٌ ، يقال في الواحد والجمع، قال الشاعر : 311- فهم رضا وهم عَدْلٌ«1» وأصله مصدر کقوله : وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ [ الطلاق/ 2] ، أي : عَدَالَةٍ. قال تعالی: وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ [ الشوری/ 15] ، وقوله : وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّساءِ [ النساء/ 129] ، فإشارة إلى ما عليه جبلّة النّاس من المیل، فالإنسان لا يقدر علی أن يسوّي بينهنّ في المحبّة، وقوله : فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَواحِدَةً [ النساء/ 3] ، فإشارة إلى العَدْلِ الذي هو القسم والنّفقة، وقال : لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا[ المائدة/ 8] ، وقوله : أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة/ 95] ، أي : ما يُعَادِلُ من الصّيام الطّعام، فيقال للغذاء : عَدْلٌ إذا اعتبر فيه معنی المساواة . وقولهم :«لا يقبل منه صرف ولا عَدْلٌ» «2» فالعَدْلُ قيل : هو كناية عن الفریضة، وحقیقته ما تقدّم، والصّرف : النّافلة، وهو الزّيادة علی ذلک فهما کالعَدْلِ والإحسان . ومعنی أنه لا يقبل منه أنه لا يكون له خير يقبل منه، وقوله : بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ [ الأنعام/ 1] ، أي : يجعلون له عَدِيلًا فصار کقوله : هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ [ النحل/ 100] ، وقیل : يَعْدِلُونَ بأفعاله عنه وينسبونها إلى غيره، وقیل : يَعْدِلُونَ بعبادتهم عنه تعالی، وقوله : بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ [ النمل/ 60] ، يصحّ أن يكون من قولهم : عَدَلَ عن الحقّ : إذا جار عُدُولًا، وأيّام مُعْتَدِلَاتٌ: طيّبات لِاعْتِدَالِهَا، وعَادَلَ بين الأمرین : إذا نظر أيّهما أرجح، وعَادَلَ الأمرَ : ارتبک فيه، فلا يميل برأيه إلى أحد طرفيه، وقولهم : ( وضع علی يدي عَدْلٍ ) فمثل مشهور «1» . ( ع د ل ) العدالۃ والمعادلۃ کے لفظ میں مساوات کے معنی پائے جاتے ہیں اور معنی اضافی کے اعتبار سے استعمال ہوتا ہے یعنی ایک دوسرے کے ہم وزن اور برابر ہوتا اور عدل عدل کے قریب قریب ایک ہی معنی ہیں لیکن عدل کا لفظ معنوی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے احکام شرعیہ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : ۔ أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة/ 95] او عدل ذلک صیاما یا اس کے برابر روزے رکھنا اور عدل وعدیل کے الفاظ ان چیزوں کے لئے بولے جاتے ہیں جن کا اور اک حواس ظاہرہ سے ہوتا ہے جیسے وہ چیزیں جن کا تعلق ماپ تول یا وزن سے ہوتا ہے پس عدل کے معنی دو چیزوں کا برابر ہونا کے ہیں چناچہ اسی معنی میں مروی ہے بالعدل قامت السموت والاارض کہ عدل ہی سے آسمان و زمین قائم ہیں یعنی اگر عناصر اربعہ جن کائنات نے ترکیب پائی ہے میں سے ایک عنصر میں بھی اس کی معینہ مقدار سے کمی یا بیشی ہوجائے تو نظام کائنات قائم نہیں رہ سکتا ، العدل دو قسم پر ہے عدل مطلق جو عقلا مستحن ہوتا ہے یہ نہ تو کسی زمانہ میں منسوخ ہوا ہے اور نہ ہی کسی اعتبار سے تعدی کے ساتھ متصف ہوسکتا ہے مثلا کیسی کے احسان کے بدلہ میں اس پر احسان کرنا اور جو تمہیں تکلف نہ دے اسے ایزا رسانی باز رہنا قغیرہ ۔ دوم عدل شرعی جسے شریعت نے عدل کہا ہے اور یہ منسوخ بھی ہوسکتا ہے جیسے قصاص جنایات کی دیت اور مال مرتد کی اصل وغیرہ چناچہ آیات : ۔ فَمَنِ اعْتَدى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ [ البقرة/ 194] پس اگر کوئی تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی وہ تم پر کرے ۔ واپس ہی تم اس پر کرو ۔ وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُها [ الشوری/ 40] اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے ۔ میں زیادتی اور برائی کی سزا کا کام بھی زیادتی اور برائی ہی قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسانِ [ النحل/ 90] خدا تم کو انصاف اور احسان کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ میں عدل کے یہی معنی مراد کیونکہ کسی چیز کے برابر اس کا بدلہ دینے کا نام عدل یعنی نیکی کا بدلہ نیکی سے اور برائی کا بدلہ برائی سے اور نیکی کے مقابلہ میں زیادہ نیکی اور شر کے مقابلہ میں مسامحت سے کام لینے کا نام احسان ہے اور لفظ عدل واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے رجل عدل عادل ورجال عدل شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) ( 303 ) فھم رضا وھم عدل وہ راضی رہنے والے اور عدال ہیں ۔ دراصل عدل کا لفظ مصدر ہے چناچہ آیت : ۔ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ [ الطلاق/ 2] اور اپنے میں سے دو منصب مردوں کو گواہ بنالو میں عدل کے معنی عدالہ ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ [ الشوری/ 15] اور مجھے حکم ہوا کہ تم میں انصاف کروں لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا[ المائدة/ 8] اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر امادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو ۔ انصاف کیا کرو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّساءِ [ النساء/ 129] اور تم خواہ کتنا ہی چاہو عورتوں میں ہر گز برابری نہیں کرسکو گے ۔ میں انسان کے طبعی میلان کی طرف اشارہ ہے کہ تمام بیویوں سے برابر وجہ کی محبت اس کی قدرت سے باہر ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَواحِدَةً [ النساء/ 3] اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ سب عورتوں سے یکساں سلوک نہ کرسکو گے تو ایک عورت کانی ہے ۔ میں عدل سے نان ونفقہ اور ازواجی تعلقات میں برابر ی مرادی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة/ 95] اس کے برابر روزے رکھنا ۔ میں عدل سے مراد یہ ہے کہ وہ روزے طعام سے فدیہ کے برابر ہوں کیونکہ فدیہ میں مساوت کے معنی ملحوظ ہوں تو اسے بھی عدل کہہ دیا جاتا ہے اور ( 33 ) لایقبل منہ صرف ولا عدل میں بعض نے کہا ہے کہ عدل کا لفظ فریضہ سے کنایہ ہے مگر اس کے اصل معنی وہی ہیں جو ہم بیان کرچکے ہیں اور صرف کا لفظ نافلۃ سے اور یہ اصل فرض سے بڑھ کر کام کرنے کا نام ہے لہذا یہ باہم تقابل کے اعتبار سے عدل اور احسان کے ہم مثل ہیں اور لایقبل منہ کے معنی یہ ہیں کہ اسکے پاس کسی قسم کی نیکی ہوگی جو قبول کی جائے اور یہ آیت : ۔ بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ [ الأنعام/ 1] کے معنی یہ ہیں کہ وہ دوسروں کو خدا کی مثل اور نظیر قرار دیتے ہیں ۔ لہذا یہ آیت : ۔ هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ [ النحل/ 100] کے ہم معنی ہوگی بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ وہ افعال الہیہ کو دوسروں کی طرف منسوب کرتے ہیں بعض نے اللہ تعالیٰ کی عبادت سے عدول کرنا مراد لیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ [ النمل/ 60] بلکہ یہ لوگ رستے سے الگ ہورہے ہیں ۔ بھی اسی معنی پر محمول ہوسکتی ہے یعنی اس کے معنی یعدلون بہ کے ہیں ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ عدل عن الحق سے مشتق ہو جس کے معنی حق سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ ایام معتد لات معتدل زمانہ یعنی جب رات دن برابر ہوتے ہیں ۔ عادل بین الامرین اس نے دو چیزوں کے درمیان موازنہ کیا عادل الامر کسی معاملہ میں پھنس گیا اور کسی ایک جانب فیصلہ نہ کرسکا اور جب کسی شخص کی زندگی سے مایوسی ہوجائے تو اس کے متعلق کہا جاتا ہے : ۔ یعنی اب وہ زندہ نہیں رہ سکتا ۔ نعم ( مدح) و «نِعْمَ» كلمةٌ تُسْتَعْمَلُ في المَدْحِ بإِزَاءِ بِئْسَ في الذَّمّ ، قال تعالی: نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ [ ص/ 44] ، فَنِعْمَ أَجْرُ الْعامِلِينَ [ الزمر/ 74] ، نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال/ 40] ( ن ع م ) النعمۃ نعم کلمہ مدح ہے جو بئس فعل ذم کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ [ ص/ 44] بہت خوب بندے تھے اور ( خدا کی طرف ) رجوع کرنے والے تھے ۔ فَنِعْمَ أَجْرُ الْعامِلِينَ [ الزمر/ 74] اور اچھے کام کرنے والوں کا بدلہ بہت اچھا ہے ۔ نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال/ 40] وہ خوب حمایتی اور خوب مدد گار ہے وعظ الوَعْظُ : زجر مقترن بتخویف . قال الخلیل . هو التّذكير بالخیر فيما يرقّ له القلب، والعِظَةُ والمَوْعِظَةُ : الاسم . قال تعالی: يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل/ 90] ( و ع ظ ) الوعظ کے معنی ایسی زجر تو بیخ کے ہیں جس میں خوف کی آمیزش ہو خلیل نے اس کے معنی کئے ہیں خیر کا اس طرح تذکرہ کرنا جس سے دل میں رقت پیدا ہوا عظۃ وموعضۃ دونوں اسم ہیں قرآن میں ہے : ۔ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل/ 90] نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

امانتوں کی ادائیگی کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کے واجب کردہ احکام قول باری ہے (ان اللہ یامرکم ان تودوالامانات الی اھلھا، اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کردو) مفسرین کا ان لوگوں کے بارے میں اختلاف رائے ہے جنہیں اس آیت میں امانتیں ادا کردینے کا حکم دیا گیا ہے۔ زید بن اسلم، مکحول اور شہر بن حوشب سے مروی ہے ان سے مراد ، ولاۃ الامر، یعنی وہ لوگ ہیں جو صاحب امر ہوں ابن جریج کا قول ہے کہ آیت کا نزول عثمان بن طلحہ کے بارے میں ہوا تھا، اس میں حکم دیا گیا تھا کہ بیت اللہ کی کنجیاں انہیں واپس کردی جائیں، حضرت ابن عباس ، حضرت ابی بن کعب، حسن اور قتادہ کا قول ہے کہ آیت کا تعلق ہراس شخص سے ہے جسے کسی چیز کا امین مقرر کیا گیاہو، یہ تاویل سب سے بہتر ہے کیونکہ قول باری (ان اللہ یامرکم) میں جو خطاب ہے اس کا عموم تمام مکلفین کا مقتضی ہے اس لیے اسے کسی دلالت کے بغیر صرف بعض افراد تک محدود کردینادرست نہیں ہے میراخیال ہے کہ جن حضرات نے اس کی تاویل ولاۃ الامر ، سے کی ہے ان کا ذہن قول باری (واذاحکمتم بین الناس ان تحکموا بالعدل، اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کروتوعدل کے ساتھ کرو) کی طرف گیا ہے چونکہ اس میں ولاۃ الامر یعنی ارباب نسبت وکشاد کو خطاب ہے ، اس لیے اس خطاب کے ابتدائی حصے کا رخ بھی ان ہی لوگوں کی طرف تصور کرلیا گیا ہے۔ لیکن بات ایسی نہیں ہے کیونکہ اس میں وکئی امتناع نہیں کہ خطاب کا ابتدائی حصہ تمام لوگوں کے لیے عام ہو اور اس پر بعد کا جو حصہ معطوف کیا گیا ہے وہ ارباب بست وکشاد کے ساتھ خاص ہو، ہم نے قرآن اور غیر قرآن میں اس کے بہت سے نظائر پہلے ہی بیان کردیے ہیں، ابوبکرجصاص مزید کہتے ہیں جس چیز کا کسی کو امین بنایا گیا ہو وہ امانت کہلاتی ہے اس امین کی ذمہ داری ہے کہ وہ امانت کو اس کے مالک کے حوالے کردے۔ ودیعتیں بھی امانتوں میں داخل ہیں ، اس لیے یہ ودیعتیں جن کے پاس رکھی گئی ہوں ان پر انہیں ان کے مالکوں کو لوٹا دیناواجب ہے ، تاہم فقہاء امصار کے مابین اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے اگر ودیعت اس شخص کے پاس ہلاک ہوجائے تو اس پر اس کا تاوان عائد نہیں ہوگا۔ سلف میں سے بعض سے اس سلسلے میں تاوان ادا کرنے کی روایت میں بھی موجود ہے ، شعبی نے حضرت انس سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے اپناسامان مجھ سے اٹھوایا اس کا یہ سامان میرے کپڑوں کے درمیان سے ضائع ہوگیا حضرت عمر نے مجھ سے اس کا تاوان رکھوالیا۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی ہے انہیں حامد بن محمد نے ، انہیں شریح نے انہیں ابن ادریس نے ہشام بن حسان سے ، انہوں نے انس بن سیرین سے، انہوں نے حضرت انس بن مالک سے کہ میرے پاس چھ ہزار درہم بطور ودیعت رکھے گئے پھر یہ درہم ضائع ہوگئے حضرت عمر نے مجھ سے پوچھا کہ تمہاری بھی کوئی چیز اس رقم کے ساتھ ضائع ہوئی ہے ، میں نے نفی میں جواب دیا اس پر حضرت عمر نے مجھ سے تاوان رکھوالیا۔ حجاج نے ابوزبیر سے ، انہوں نے حضرت جابر سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے کسی کی کوئی چیز اپنے پاس ودیعت رکھ لی لیکن وہ چیز اس شخص کی دوسری اشیاء کے ساتھ ضائع ہوگئی ، حضرت ابوبکر نے اس شخص سے تاوان نہیں رکھوایا، اور فرمایا کہ یہ امانت تھی ، یعنی اس کا کوئی تاوان نہیں ہے۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی انہیں اسماعیل بن فضل نے ، انہیں قتیبہ نے ، انہیں ابن لہیعہ نے عمرو بن شعیب سے انہوں نے اپنے والد سے اور والد کے واسطے سے اپنے دادا سے کہ حضور نے فرمایا، (من استودع ودیعۃ فلاضمان علیہ، جس شخص نے کوئی ودیعت اپنے پاس رکھ لی تو اس پر کوئی تاوان نہیں ) ۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی انہیں ابراہیم بن ہاشم نے انہیں محمد بن عون نے انہیں عبداللہ بن نافع نے محمد بن نبیہ الحجبی سے انہوں نے عمرو بن شعیب سے ، انہوں نے اپنے والد سے اور والد کے واسطے سے اپنے دادا سے کہ حضور نے فرمایا (ولاضمان علی راع ولاعلی موتمن، چرواہے اور امین پر کوئی تاوان نہیں ) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضور کا یہ ارشاد کہ امین پر کوئی تاوان نہیں ، عاریت پر تاوان کی نفی کرتا ہے کیونکہ عاریت مستعیر یعنی عاریت لینے والے شخص کے ہاتھوں میں امانت کے طور پر ہوتی ہے اس لیے عاریت دینے والے نے اسے امین سمجھا تھا، فقہاء کے درمیان ودیعت کی ہلاکت پر تاوان ادانہ کرنے کے مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے بشرطیکہ اس شخص کی طرف سے کوئی زیادتی نہ ہوئی جس کے پاس یہ ودیعت رکھی گئی تھی۔ حضرت عمر سے تاوان رکھوانے کے متعلق جو روایت مروی ہے ، تو اس میں اس بات کا امکان ہے کہ ودیعت رکھنے والے نے کسی ایسی حرکت کا اعتراف کرلیا ہوجوحضرت عمر کی نظروں میں تاوان کی موجب بن گئی ۔ عاریت کے سلسلے میں تاوان بھرنے کے متعلق سلف کے درمیان اختلاف رائے کے بعد فقہاء کے درمیان بھی اختلاف رائے ہوگیا۔ حضر ت عمر، حضرت علی، حضرت جابر، قاضی شریح اور ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ عاریت غیرمضمون ہے یعنی اس کے ضیاع پر تاوان واجب نہیں ہوتا، حضرت ابن عباس اور حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ تاوان واجب ہوتا ہے ، امام ابوحنیفہ ، امام ابویوسف، امام محمد، زفر اور حسن بن زیاد کا قول ہے کہ اس کی ہلاکت پر تاوان لازم نہیں ہوتا، ابن شبرمہ ، سفیان ، ثوری، اور اوزاعی کا بھی یہی قول ہے عثمان البتی کا قول ہے کہ مستغیر یعنی رعایت لینے والاضامن ہوگا۔ البتہ جانور اور مقتول کی دیت میں تاوان نہیں لیکن اگر مستعیر پر تاوان کی شرط لگادی گئی ہو توپھرجانور اور دیت کی عاریت کی صورت میں وہ ضامن ہوگا اور اسے تاوان بھرنا پڑے گا، امام مالک کا قول ہے کہ جانور کی عاریت کی صورت میں اگر جانور ہلاک ہوجائے تو کوئی تاوان نہیں ہوگا، البتہ زیورات اور کپڑوں کا تاوان بھرناپڑے گا۔ لیث کا قول ہے عاریت میں کوئی تاوان نہیں لیکن امیرالمومنین ابوالعباس نے مجھے تحریری طور پر عاریت میں بھی تاوان لینے کا حکم دیا ہے اس لیے آج کل میں تاوان دینے کا فیصلہ سناتاہوں ، امام شافعی کا قول ہے کہ ہر عاریت قابل تاوان ہے۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ عاریت کی ہلاکت کی صورت میں جبکہ اس کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہوئی ہوتاوان بھرنے کی نفی کی دلیل یہ ہے کہ عاریت دینے والے نے عاریت لینے والے کو امین سمجھ کر عاریت اس کے حوالے کی تھی ، جب عاریت لینے والے کو امین سمجھ لیا گیا تواب اس پر عاریت کا تاوان لازم نہیں رہا، کیونکہ ہم نے حضور سے یہ روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا، الاضمان علی موتمن، جس شخص کو امین قرار دیا گیا ہو اس پر کوئی تاوان نہیں ) ۔ اس ارشاد میں ہراس شخص سے تاوان کی نفی کا عموم ہے جسے امین قرار دیا گیا ہو، نیز جب عاریت کو اس کے مالک کی اجازت سے قبضے میں لیا گیا اور اس میں تاوان کی شرط نہیں لگائی گئی تواب ودیعت کی طرح وہ اس کا تاوان نہیں بھرے گا۔ ایک اور پہلو سے ، اس مسئلے پر غور کیا جائے کرائے پر لیا ہوا کپڑا جس میں اس کپڑے سے حاصل ہونے والے فائدے کو استعمال میں لانے کی شرط لگائی گئی ہو اگر ضیاع کی صورت میں اس کپڑے کے بدل کو بطور تاوان ادا کرنے کی شرط نہ رکھی گئی ہو تو اس کے تاوان کی نفی پر سب کا اتفاق ہے اس لیے عاریت بطریق اولی ناقابل تاوان ہوگی کیونکہ اس میں کسی طرح بھی تاوان کی شرط نہیں ہوتی۔ ایک اور جہت سے اس پر نظر ڈالنے سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اجارے کے طور پر قبضے میں لی ہوئی چیز اس کے منافع کو استعمال میں لانے کی غرض سے قبضے میں لی جاتی ہے اور ضیاع کی صورت میں تاوان لازم نہیں آتا، اس سے یہ لازم ہوگیا کہ عاریت کی ہلاکت پر بھی تاوان لازم نہ آئے کیونکہ عاریت کو بھی ا سے حاصل ہونے والے منافع کو استعمال میں لانے کے لیے قبضے میں لیاجاتا ہے۔ ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ ہبہ کی ہلاکت کی صورت میں ہبہ قبول کرنے والے شخص پر کوئی تاوان نہیں عائد ہوتا کیونکہ اسے مالک کی اجازت سے قبضے میں لیاجاتا ہے اور اس کے بدل کو بطور تاوان ادا کرنے کی کوئی شرط نہیں ہوتی ، اس لیے کہ ہبہ کی حیثیت ایک نیکی اور صدقے کی ہوتی ہے اس بنا پر عاریت کے لیے بھی یہی حکم واجب ہوگیا کیونکہ یہ بھی ایک نیکی اور صدقہ کی شکل ہوتی ہے ۔ نیز اس پر بھی سب کا اتفاق ہے کہ اگر عاریت میں استعمال کی بنا پر کوئی کمی ہوجائے تو اس کمی کا کوئی تاوان نہیں ، جب عاریت کا ایک جز ناقابل تاوان ہے جبکہ اس پر قبضہ حاصل تھا تو اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ عاریت کا کل بھی ناقابل تاوان ہو اس لیے کہ جس چیز کے تاوان کا تعلق قبضے کے ساتھ ہو اس میں کل اور جزء کے حکم میں کوئی فرق نہیں ہوتا، جس طرح غصب اور بیع فاسد کے ذریعے قبضے میں لی ہوئی چیز کا مسئلہ ہے ، جب سب کا اس پر اتفاق ہوگیا کہ نقصان اور کمی کی بنا پر ضائع ہوجانے والا ناقابل تاوان ہے توکل کا بھی ناقابل تاوان ہوناواجب ہوگیا جیسا کہ ودعیت اور دوسری تمام امانتوں کا مسئلہ ہے۔ ودیعت کے متعلق صفوان بن امیہ کی روایت کے الفاظ میں اختلاف ہے بعض راویوں نے اس میں تاوان کا ذکر کیا ہے اور بعض نے نہیں کیا ہے شریک نے عبدالعزیز بن رفیع سے انہوں نے ابن ابی ملیکہ سے انہوں نے امیہ بن صفوان بن امیہ سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے جنگ حنین کے موقع پر حضور نے ان سے لوہے کی چند زرہیں عاریت کے طور پر لیں، انہوں نے کہا، محمد یہ زرہیں ضمانت کے طور پر دی ہیں آپ نے جواب میں فرمایا، ٹھیک ہے ، شرط منظور ہے۔ پھران میں کچھ زرہیں ضائع ہوگئیں، حضور نے صفوان سے فرمایا اگر تم چاہو توہم ان کا تاوان بھردیں گے ، انہوں نے جواب دیا ، اللہ کے رسول مجھے تاوان لینے سے زیادہ اسلام قبول کرنے کی رغبت ہے میں تاوان نہیں لوں گا۔ اسرائیل نے یہی روایت عبدالعزیز بن رفیع سے انہوں نے ابن ابی ملیکہ سے انہوں نے صفوان بن امیہ سے بیان کی ہے کہ حضور نے صفوان بن امیہ سے چند زرہیں عاریت کے طور پرلی تھیں، ان میں سے کچھ ضائع ہوگئیں، حضور نے ان سے فرمایا، اگر تم چاہو توہم ان کا تاوان ادا کریں گے ، انہوں نے جواب دیا، اللہ کے رسول اس کی ضرورت نہیں ہے ، اس روایت کو شریک نے موصولا نقل کیا ہے اور اس میں ضمان یعنی تاوان کا ذکر کیا ہے لیکن اسرائیل نے اسے مقطوعا روایت کی ہے اور تاوان کی شرط کا ذکر نہیں کیا ہے۔ قتادہ نے عطاء سے روایت کی ہے کہ حضور نے صفوان بن امیہ سے جنگ حنین کے موقعہ پر چند زرہیں عارت کے طور پرلی تھیں ، انہوں نے حضور سے پوچھا تھا آیایہ عاریت قابل واپسی ہے ، آپ نے اثبات میں جواب دیا تھا۔ جریر نے عبدالعزیز بن رفیع سے ، انہوں نے عبداللہ بن صفوان کے خاندان کے کچھ افراد سے روایت کی ہے کہ حضور نے غزوہ حنین پر جانے کا ارادہ فرمایا، جریر نے اس کے بعد حدیث کا باقی ماندہ حصہ بیان کردیا لیکن اس میں ضمان کا ذکر نہیں کیا۔ کہاجاتا ہے کہ حدیث کے راویوں میں جریر بن عبدالحمید سے بڑھ کر کوئی روای نہ تو اس روایت کو محفوظ کرنے والا ہے نہ متقن ہے اور نہ ہی ثقہ ہے اور جریر نے ضمان کا ذکر نہیں کیا، اگر راویوں کو حفظ اور اتقان کے لحاظ سے یکساں درجے پر تسلیم کرلیاجائے توپھراصطلاحی طور پر یہ حدیث مضطرب کہلائے گی۔ حضرت ابوامامہ اور دوسرے صحابہ کے واسطوں سے حضور سے یہ مروی ہے کہ ، العاریۃ موادۃ عاریت ادا کی جائے گی اگر صفوان کی روایت میں ضمان کا ذکر صحیح تسلیم بھی کرلیاجائے تو اس کا مفہوم تاوان نہیں ہوگا، بلکہ ادائیگی کی ضمانت ہوگا۔ جیسا کہ صفوان سے روایت کے بعض طرق کے الفاظ یہ ہیں کہ حضور نے فرمایا، جب تک میں انہیں تمہیں واپس نہیں کروں گا، اس وقت تک یہ ضمانت کے تحت رہیں گی۔ اور جس طرح ایک روایت ہے جو ہمیں عبدالباقی بن قانع نے بیان کی انہیں الفریابی نے انہیں قتیبہ نے ، انہیں لیث نے یزید بن حبیب سے انہوں نے سعید بن ابی ہند سے کہ عاریت کی ضمانت کی سب سے پہلے جو صورت پیش آئی وہ یہ تھی کہ حضور نے صفوان سے فرمایا تھا کہ ہمیں اپنے ہتھیار عاریت کے طور پردے دو ، یہ ہتھیار ہماری ضمانت کے تحت رہیں گے حتی کہ ہم انہیں تمہارے پاس پہنچادیں گے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ حضور نے صفوان سے واپسی کی ضمانت کی شرط مقرر کی تھی ، اس کی وجہ یہ تھی کہ صفوان اس وقت ایک حربی کافر تھے انہوں نے یہ خیال کیا تھا کہ حضور ان سے یہ ہتھیار ان کا مال مباح ہونے کی حیثیت سے لے رہے ہیں ، جس طرح تمام حربیوں کا مال لے لینا مباح ہوتا ہے ، اس لیے صفوان نے کہا تھا، محمد، کیا تم مجھ سے یہ ہتھیار زبردستی لے رہے ہو ؟ آپ نے جواب میں فرمایا تھا، نہیں بلکہ عاریت کے طور پر ضمانت کے تحت لے رہاہوں یہ ضمانت اسی وقت تک رہے گی جب تک میں تمہیں واپس نہ کردوں۔ یہ قابل واپسی عاریت ہوگی، حضور نے صفوان کو یہ بتادیا کہ یہ ہتھیار قابل واپسی عاریت کے طور پر لیے جارہے ہیں۔ یہ اس طور پر نہیں لیے جارہے جس طرح اہل حرب کے اموال لیے جاتے ہیں۔ اس کی مثال قائل کے اس قول کی طرح ہے جو وہ اپنے مخاطب سے کہے ، میں تمہاری ضروریات کا ضامن ہوں اس سے قائل کی مرادیہ ہوتی ہے کہ میں ان ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرتا رہوں گا، یہاں تک کہ یہ پوری ہوجائیں ایک شاعر اپنی اونٹنی کی تعریف میں کہتا ہے ، بتلک اسلی حاجۃ ان ضمن تھا، ،، وابری ھما کان فی الصدرداخلا۔ اگر میں کسی ضرورت اور حاجت کو پورا کرنے کا ارادہ کرلوں تو اس اونٹنی کی وجہ سے میں اس ضرورت کی طرف سے بےغم اور بے فکر ہوجاتاہوں اور دل میں جگہ پانے والے غم سے نجات پالیتاہوں۔ شاعر کے الفاظ ان ضمن تھا، کے متعلق اہل لغت کا قول ہے کہ اس سے مراد ہے اگر میں کسی حاجت کو پورا کرنے کا قصد اور ارادہ کرلوں۔ ایک اور پہلو سے غور کیجئے، ہم اپنے مخالف کے اس قول کو تسلیم کرلیتے ہیں کہ وہ روایت درست ہے ، جس میں ضمان یعنی تاوان کا ذکر ہے ، اس صورت میں ہم یہ کہیں گے اس روایت میں اختلافی نکتے پر کوئی دلالت نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور نے فرمایا تھا، (عاریۃ مضمونۃ) آپ نے یہ فرماکر اپنے قبضے میں لی ہوئی تمام زرہوں کو قابل ضمانت قرار دیا ۔ یہ چیز ہوبہوان زرہوں کی واپسی کی ضمانت کی مقتضی ہے ، ان کی قیمت کے ضمان یعنی تاوان کی مقتضی نہیں ہے کیونکہ آپ نے یہ نہیں فرمایا، تھا کہ میں ان کی قیمت کا ضامن ہوں یعنی ان کی قیمت کا تاوان بھردوں گا، ایک لفظ کو اس کے معنی سے ہٹاکر کسی دلالت کے بغیر مجازی معنی کی طرف لے جانادرست نہیں ہوتا۔ نیز ہمارے مخالف کی جانب سے فقرے میں ایک پوشیدہ لفط کے اثبات کا دعوی بھی درست نہیں ہوسکتا، کیونکہ اس پر فقرے میں کوئی دلالت موجود نہیں ہے ، وہ پوشیدہ لفظ ضمان القیامہ، ہے یعنی قیمت کا تاوان دلالت کے بغیر اس پوشیدہ لفظ کا اثبات درست نہیں ہے۔ حضور نے عاریت کے طور پرلی ہوئی ان زرہوں میں چند کو جب غائب پایاتو آپ نے صفوان سے فرمایا کہ اگر تم چاہو توہم ان گمشدہ زرہوں کا تاوان بھرنے کے لیے تیار ہیں یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ یہ زرہیں ضیاع کی صورت میں قیمت کے تاوان کی ضمانت کے تحت نہیں لی گئی تھیں۔ اگرقیمت کے ضمان پر اتفاق کی صورت ہوتی تو آپ صفوان سے ہرگز نہ یہ کہتے کہ اگر تم چاہو توہم ان گم شدہ زرہوں کی قیمت کا تاوان بھردیں گے جب کہ تاوان کی شرط کی صورت میں آپ کو لازمی طور پر تاوان بھرنا ہوتا۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ ضیاع کی بنا پر تاوان واجب نہیں ہوا اور یہ کہ حضور نے صفوان کی خواہش اور رضامندی کی صورت میں تبرع کے طور پرا سے تاوان دینے کا ارادہ کیا تھا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ حضور نے اسی غزوہ حنین کے موقعہ پر عبداللہ بن ربیعہ سے تیس ہزار کا قرض لیا تھا، پھر آپ نے جب یہ قرض انہیں واپس کرنا چاہاتو انہوں نے لینے سے انکار کردیا، اس پر آپ نے فرمایا، قرض واپس لے لو، کیونکہ قرض کا بدلہ قرض کی ادائیگی اور حمد ہے اگر گم شدہ زرہوں کا تاوان لازم ہوتا تو آپ ہرگز یہ نہ فرماتے اگر تم چاہو توہم ان کا تاوان ادا کردیں گے۔ پھرصفوان کا یہ جواب کہ مجھے تاوان لینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ آج میرے دل میں جس قدر ایمان ہے وہ پہلے نہیں تھا، اس پر دلالت کرتا ہے کہ صفوان گم شدہ زرہوں کی قیمت کا تاوان لینے کا ارادہ ہی نہیں رکھتے تھے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان زرہوں کی قیمت کا تاوان بھرنے کی کوئی شرط نہیں تھی کیونکہ جس چیز کا تاوان بھرناضروری ہوتا ہے اسلام اور کفر کی صورت میں اس کے حکم میں کوئی فرق نہیں ہوتا ہے۔ ہمارے ایک شیخ کا قول ہے کہ صفوان چونکہ حربی تھا، اس لیے اس کے ساتھ ایسی شرط لگانا درست تھا کیونکہ ہمارے اور اہل حرب کے درمیان معاملات کی صورت میں ایسی شرطیں درست ہوتی ہیں ، جو ہمارے آپس کے معاملات میں درست نہیں ہوتیں۔ آپ نہیں دیکھتے اگر ہم ودیعتوں اور مضاربت کی صورتوں اور ان جیسی چیزوں کے اندر ان کے ساتھ ضمان کی شرط لگائیں گے تو یہ شرط درست نہیں ہوگی ، عاریت کے ضمان کے قائل ہیں، انہوں نے اس روایت سے استدلال کیا ہے جسے شعبہ اور سعید بن ابی عروبہ نے قتادہ سے نقل کیا ہے انہوں نے حسن سے ، انہوں نے حضرت سمرہ سے کہ حضور نے فرمایا، (علی الید مااحذرت حتی تودیہ، جو چیز تم نے لے لی وہ ہاتھ پر رہے گی حتی کہ تم اسے واپس کردو) ۔ اس روایت میں بھی اختلافی نکتے پر کوئی دلالت نہیں ہے اس میں تو صرف لی ہوئی چیز کو واپس کے وجوب کا ذکر ہے ، ضائع یا ہلاک ہوجانے کی صورت میں قیمت کے تاوان کا ذکر نہیں ہے ، ہم بھی تویہی کہتے ہیں کہ اس پر عاریت کی واپسی ضروری ہے ، اس میں کوئی اختلاف نہیں اور اختلاف نکتے سے اس کو کوئی تعلق بھی نہیں ۔ واللہ اعلم۔ انصاف کے ساتھ فیصلے کرنے کے متعلق اللہ کا حکم قول باری ہے (واذاحکمتم بین الناس ان تحکموا بالعدل ، اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کروتوانصاف کے ساتھ فیصلے کرو) نیز قول باری ہے ، (ان اللہ یامر بالعدل والاحسان، اللہ تعالیٰ عدل واحسان کا حکم دیتا ہے) ۔ نیز فرمایا، (واذاقلتم فاعدلوا ولوکان ذاقربی، اور جب تم کہو تو انصاف کی بات کہوخواہ وہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو) ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی ، انہیں عبداللہ بن موسیٰ بن ابی عثمان نے ، انہیں عبید بن حباب الحلی، نے ، انہیں عبدالرحمن بن ابی الرجال نے اسحاق بن یحییٰ بن طلحہ بن عبیداللہ سے ، انہوں نے ثابت الاعرج سے ، انہوں نے حضرت انس بن مالک سے اور انہوں نے حضور سے کہ آپ نے فرمایا : (الاتزال ھذہ الامۃ بخیر مااذاقالت صدقت واذاحکمت عدلت واذا استرحمت رحمت، یہ امت اس وقت تک ٹھیک ٹھاک رہے گی ، جب تک اس میں یہ صفات باقی رہیں گی ک کہ جب بولے گی توسچ بولے گی، جب فیصلہ کرے گی، تو انصاف کرے گی ، اور جب اس سے رحم کی درخواست کی جائے گی تو رحم کرے گی۔ ہمیں عبدالباقی نے روایت بیان کی ، انہیں بشر بن موسیٰ نے ، انہیں عبدالرحمن المقری نے کھمس بن الحسن سے ، انہوں نے عبداللہ اسلمی سے کہ ایک شخص نے حضرت ابن عباس سے بدزبانی کی، حضرت ابن عباس نے اس سے فرمایا، تم میرے ساتھ بدزبانی کرتے ہو جب کہ میرے اندر تین اچھائیاں موجود ہیں، میں قرآن کی ایک آیت پر پہنچتاہوں پھر خدا کی قسم میری یہ تمنا ہوتی ہے کہ اس آیت کے جن معانی ومطالب کا مجھے علم ہوگیا ہے تمام لوگوں کو بھی ان کا علم ہوجائے۔ میں مسلمانوں کے کسی حاکم کے متعلق جب یہ سنتا ہوں کہ وہ انصاف سے فیصلہ کرتا ہے تو مجھے اس کی خوشی ہوتی ہے جبکہ شاید مجھے کبھی اس کے پاس اپنا کوئی مقدمہ لے کرجانے کی نوبت ہی نہ آئے اس طرح میں جب سنتا ہوں کہ مسلمانوں کے فلاں علاقے میں بارش ہوئی ہے تو مجھے مسرت ہوتی ہے حالانکہ میرے پاس اپنے کوئی مویشی نہیں ہیں۔ ہمیں عبدالباقی نے روایت بیان کی ، انہیں حارث بن ابی امامہ نے ، انہیں ابوعبید قاسم بن سلام نے ، انہیں عبدالرحمن بن مہدی نے حماد بن ابی اسلمہ سے ، انہوں نے حمید سے ، انہوں نے حسن سے کہ ، اللہ تعالیٰ نے حکام سے تین باتوں کا عہد لیا ہے ، اپنی خواہشات کی پیروی نہ کریں، اللہ سے ڈریں لوگوں سے نہ ڈریں اور اللہ کی آیات کو ذرا ذرا سے معاوضے لے کر فروخت نہ کریں۔ پھر یہ آیت تلاوت کی ، (یاداؤد اناجعلناک خلیفۃ فی الارض فاحکم بین الناس بالحق والاتتبع الھوی، اے داؤد ہم نے تمہیں زمین میں اپنا خلیفہ مقرر کیا ہے پس لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرو اور خواہشات کی پیروی نہ کرو) تاآخر آیت۔ نیز یہ ارشاد بھی ہے (اناانزلنا التوراۃ فیھاھدی ونور یحکم بھا النبیوں الذین اسلمواہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی، سارے نبی جو مسلم تھے، اسی کے مطابق فیصلہ کرتے تھے) ۔ تاقول باری (فلاتخشوالناس واخشونی ولاتشتروا بایاتی ثمناقلیلا ومن لم یحکم بماانزل اللہ فاو لئک ھم الکافرون، تم لوگوں سے نہ ڈرو، بلکہ مجھ سے ڈرو ارمیری آیات کو ذرا ذرا سے معاوضے لے کر بیچنا چھوڑدو جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں) ۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٨) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے دن حضرت عثمان (رض) بن بی طلحہ کلید بردار خانہ کعبہ سے کلید (چابی) کعبہ لی تھی تو اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس آیت میں کلید خانہ کعبہ عثمان بن ابی طلحہ (رض) کو واپس کردینے کا حکم دیا ہے کہ ان کی امانت ان ہی کو واپس کردو۔ اور جب عثمان بن ابی طلحہ اور عباس بن عبد المطلب کے درمیان فیصلہ کرو تو کلید (چابی) حضرت عثمان (رض) کو دو اور سقایہ (زمزم شریف پلانے کی خدمت) حضرت عباس (رض) کے سپرد کردو۔ اللہ تعالیٰ امانتوں کی واپسی اور عدل کرنے کا حکم دیتا ہے اور وہ حضرت عباس (رض) کی اس درخواست کو کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سقایہ کے ساتھ کلید (چابی) بھی مجھے مرحمت فرما دیجیے، سن رہا ہے اور حضرت عثمان (رض) کے اس فعل کو بھی دیکھ رہا ہے جب کہ انہوں نے حضرت عباس (رض) کی درخواست پر بیت اللہ کی چابی دیتے ہوئے ہاتھ روک لیا تھا، پھر عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس چابی کو اللہ تعالیٰ کی امانت میں لے لیجیے۔ شان نزول : (آیت) ” ان اللہ یامرکم “۔ (الخ) ابن مردویہ (رح) نے بواسطہ کلبی (رح) ، ابو صالح (رح) ، ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ مکرمہ فتح فرمایا تو عثمان بن طلحہ کو بلایا جب وہ آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا خانہ کعبہ کی کلید (چابی) دو ، چناچہ وہ کلید (چابی) لے کر آئے جب انہوں نے دینے کے لیے ہاتھ بڑھایا، تو حضرت عباس (رض) نے کھڑے ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سقایہ کے ساتھ کلید (چابی) بھی مجھے مرحمت فرمادیجیے یہ سن کر حضرت عثمان (رض) نے ہاتھ روک لیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ، ، عثمان کلید (چابی) لاؤ عثمان نے عرض کیا، اللہ تعالیٰ کی امانت مجھ سے لے لیجیے۔ چناچہ آپ نے کلید (چابی) لے کر بیت اللہ کا دروازہ کھولا، پھر باہر تشریف لاکر بیت اللہ کا طواف کیا اس کے بعد آپ کے پاس جبرئیل امین (علیہ السلام) کلید واپس کردینے کا حکم لے کر تشریف لائے، آپ نے عثمان بن طلحہ کربلا کر کلید (چابی) واپس کردی، اس کے بعد آپ نے (آیت) ” ان اللہ یامرکم “۔ سے پوری آیت تلاوت فرمائی۔ اور شعبی (رح) نے اپنی تفسیر میں بواسطہ حجاج ابن جریج سے روایت نقل کی ہے کہ یہ آیت عثمان بن طلحہ (رض) کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ فتح مکہ کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کلید خانہ کعبہ (خانہ کعبہ کی چابی) لے کر بیت اللہ میں تشریف لے گئے تھے، جب خانہ کعبہ سے باہر تشریف لائے تو اس آیت کو تلاوت کرتے ہوئے تشریف لائے پھر آپ نے عثمان (رض) کو بلا کر کلید خانہ کعبہ ان کو لوٹا دی۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خانہ کعبہ سے اس آیت کو تلاوت کرتے ہوئے باہر تشریف لائے، اس حدیث کا ظاہر اس بات پر دلالت کررہا ہے کہ یہ آیت خانہ کعبہ کے درمیان میں نازل ہوئی ہے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

یہ دو آیات (٥٨ ‘ ٥٩) قرآن مجید کی نہایت اہم آیات ہیں ‘ جن میں اسلام کا سارا سیاسی ‘ قانونی اور دستوری نظام موجود ہے۔ فرمایا : آیت ٥٨ (اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ الآی اَہْلِہَالا) (وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بالْعَدْلِ ط) پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ جو بھی سیاسی نظام بناتے ہیں اس میں مناصب ہوتے ہیں ‘ جن کی ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں اور اختیارات بھی۔ لہٰذا ان مناصب کے انتخاب میں آپ کی رائے کی حیثیت امانت کی ہے۔ آپ اپنی رائے دیکھ بھال کردیں کہ کون اس کا اہل ہے۔ اگر آپ نے ذات برادری ‘ رشتہ داری وغیرہ کی بنا پر یا مفادات کے لالچ میں یا کسی کی دھونس کی وجہ سے کسی کے حق میں رائے دی تو یہ صریح خیانت ہے۔ حقِ رائے دہی ایک امانت ہے اور اس امانت کا استعمال صحیح صحیح ہونا چاہیے۔ عام معنی میں بھی امانت کی حفاظت ضروری ہے اور جو بھی امانت کسی نے رکھوائی ہے اسے واپس لوٹانا آپ کی شرعی ذمہ داری ہے۔ لیکن یہاں یہ بات اجتماعی زندگی کے اہم اصولوں کی حیثیت سے آرہی ہے۔ دوسری بات یہ کہ جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو۔ گویا پہلی ہدایت سیاسی نظام سے متعلق ہے کہ امیر المؤمنین یا سربراہ ریاست کا انتخاب اہلیت کی بنیاد پر ہوگا ‘ جبکہ دوسری ہدایت عدلیہ (Judiciary) کے استحکام کے بارے میں ہے کہ وہاں بلا امتیاز ہر ایک کو عدل و انصاف میسرآئے۔ ( اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ ط) (اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیْعًام بَصِیْرًا ) اگلی آیت میں تیسری ہدایت مقننہ (Legislature) کے بارے میں آرہی ہے کہ اسلامی ریاست کی دستوری بنیاد کیا ہوگی۔ جدید ریاست کے تین ستون انتظامیہ (Executive) ‘ عدلیہ (Judiciary) اور مقننہ (Legislature) گنے جاتے ہیں۔ پہلی آیت میں انتظامیہ اور عدلیہ کے ذکر کے بعد اب دوسری آیت میں مقننہ کا ذکر ہے کہ قانون سازی کے اصول کیا ہوں گے ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

88. Here the Muslims are forewarned against the evils which had afflicted the Israelites. One of the fundamental mistakes committed by the Israelites was that in the time of their degeneration they had handed over positions of trust (i.e. religious and political leadership) to incompetent, mean, immoral, dishonest and corrupt people. The result was that corruption spread throughout the nation. The Muslims are directed to take heed of this, and to entrust positions of responsibility only to those who are capable of shouldering the burdens of such positions. The other major weakness of the Israelites was that they completely lost their sense of justice. In their pursuit of either personal or national interests, honesty and good faith were often sacrificed. The Muslims, in the time of the Prophet (peace be on him), were themselves subjected to gross injustice at their hands. On the one side were the Prophet (peace be on him) and his followers, to whose purity of life and conduct the Jews were themselves witnesses. On the other side were those who worshipped idols, buried their daughters alive, married their step-mothers and circumambulated the Ka'bah naked. Despite this, these so-called People of the Book felt no shame in declaring that the latter were closer to righteousness than the Muslims. After informing the Muslims of the iniquity of the Jews, God now warns them against committing similar injustices. They should rather declare what is right in the face of friend and foe alike, and judge between people with equity and justice.

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :88 یعنی تم ان برائیوں سے بچے رہنا جن میں بنی اسرائیل مبتلا ہو گئے ہیں ۔ بنی اسرائیل کی بنیادی غلطیوں میں سے ایک یہ تھی کہ انہوں نے اپنے انحطاط کے زمانہ میں امانتیں ، یعنی ذمہ داری کے منصب اور مذہبی پیشوائی اور قومی سرداری کے مرتبے ( Positions of trust ) ایسے لوگوں کو دینے شروع کر دیے جو نااہل ، کم ظرف ، بد اخلاق ، بد دیانت اور بدکار تھے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ برے لوگوں کی قیادت میں ساری قوم خراب ہوتی چلی گئی ۔ مسلمانوں کو ہدایت کی جارہی ہے کہ تم ایسا نہ کرنا بلکہ امانتیں ان لوگوں کے سپرد کرنا جو ان کے اہل ہوں ، یعنی جن میں بار امانت اٹھانے کی صلاحیت ہو ۔ بنی اسرائیل کی دوسری بڑی کمزوری یہ تھی کہ وہ انصاف کی روح سے خالی ہو گئے تھے ۔ وہ شخصی اور قومی اغراض کے لیے بے تکلف ایمان نگل جاتے تھے ۔ صریح ہٹ دھرمی برت جاتے تھے ۔ انصاف کے گلے پر چھری پھیرنے میں انہیں ذرا تامل نہ ہوتا تھا ۔ ان کی بے انصافی کا تلخ ترین تجربہ اس زمانہ میں خود مسلمانوں کو ہو رہا تھا ۔ ایک طرف ان کے سامنے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان پر ایمان لانے والوں کی پاکیزہ زندگیاں تھیں ۔ دوسری طرف وہ لوگ تھے جو بتوں کو پوج رہے تھے ، بیٹیوں کو زندہ گاڑتے تھے ، سوتیلی ماؤں تک سے نکاح کر لیتے تھے اور کعبہ کے گرد مادر زاد ننگے ہو کر طواف کرتے تھے ۔ یہ نام نہاد اہل کتاب ان میں سے دوسرے گروہ کو پہلے گروہ پر ترجیح دیتے تھے اور ان کو یہ کہتے ہوئے ذرا شرم نہ آتی تھی کہ پہلے گروہ کے مقابلہ میں یہ دوسرا گروہ زیادہ صحیح راستہ پر ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس بے انصافی پر تنبیہ کرنے کے بعد اب مسلمانوں کو ہدایت کرتا ہے کہ تم کہیں ایسے بے انصاف نہ بن جانا ۔ خواہ کسی سے دوستی ہو یا دشمنی ، بہرحال بات جب کہو انصاف کی کہو اور فیصلہ جب کرو عدل کے ساتھ کرو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

اکثر مفسرین کا قول ہے کہ یہ آیت ابن عثمان بن طلحہ کی شان میں اتری ہے جو ابو طلحہ بشیر بن عثمان کے چچا زاد بھائی اور اسی گھرانے میں کعبہ کی دربانی آج تک ہے۔ معتبر سند سے ابن اسحاق وغیرہ نے اس قصہ کو نقل کیا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عثمان بن طلحہ سے کعبہ کی کنجی لے کر کعبہ کو کھولا۔ اور کعبہ کے دروازہ پر خطبہ پڑھا۔ لوگوں کو طرح طرح کی نصیحت کی اسی موقع پر حضرت علی (رض) اور حضرت عباس (رض) نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ درخواست کی کہ کعبہ کی کنجی ان دونوں میں سے کسی کو مل جائے تاکہ کعبہ کی دربانی آئندہ ان کے گھرانے میں رہے اتنے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ اور جن عثمان بن طلحہ سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ کنجی بطور امامت کے لی تھی۔ اس آیت کے موافق ان کو واپس کردی ١۔ بعض روایتوں میں یہ بھی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کنجی واپس دیتے وقت عثمان بن طلحہ سے یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کنجی تم کو واپس دلوائی ہے اس لئے اب جو کوئی بعد اس کے تم سے یہ کنجی چھینے گا وہ ظالم کہلائے گا ٢۔ اس روایت کے لفظوں سے یہ بھی نکلتا ہے کہ آیت کا نزول اسی قصہ کے متعلق ہے۔ اس شان نزول کے بیان کرنے کے بعد اکثر مفسرین نے یہ لکھا ہے کہ اگرچہ اس آیت کے نازل ہونے کا سبب خاص ہے۔ لیکن امانت کا لفط ان سب حقوق کو شامل ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے ذمے کئے ہیں۔ مثلاً توحید اور عبادت یا وہ حقوق جو بندوں کے بندوں پر ہیں۔ مثلاً امانت کی چیز یا مانگی ہوئی چیز کا واپس کرنا آیت انا عرضنا الا مانۃ (٣٤۔ ٧٢) کی تفسیر علی بن ابی طلحہ نے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے جو صحیح روایت کی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ امانت سے وہ باتیں مقصود ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے انسان پر فرض کیا ہے جن کے بغیر کسی خیانت کے ادا کرنے کے انسان کی نجات ہی نہیں مثلاً جو عبادت بغیر ریا کاری کی خیانت کے اد ہوئی وہ نجات کا موجب ہے ورنہ عبادت کی محنت رائیگاں اور ریاکاری کا مواخذہ قائم انہی شرائط کے ڈر سے آسمان و زمین۔ اور پہاڑوں نے اس امانت کو قبول نہیں کیا ١۔ اس کی پوری تفصیل تو سورة احزاب میں آئے گی۔ مگر یہاں مطلب اسی قدر ہے کہ آیت ان اللہ یامرکم ان تؤدوالامانات اور آیت انا عرضنا الاماتہ ان دونوں آیتوں میں امام المفسرین حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کے نزدیک امانت کا لفظ سب حقوق اللہ اور حقوق الناس کو شامل ہے اور اس عام حکم میں یہود کو یہ تنبیہ ہے کہ تورات میں نبی آخر الزماں کے اوصاف کی آیتوں میں ان لوگوں نے تبدل تغیر جو کیا ہے وہ اللہ کی امانت میں انہوں نے خیانت کی ہے۔ وقت مقرر پر جس کا مواخذہ ہوگا صحیح بخاری و مسلم میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منافق کی علامتوں میں سے امانت کی خیانت کو بھی ایک علامت فرمایا ہے ٢۔ ترمذی ‘ ابو داؤد اور مستدرک حاکم میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مسلمان آدمی کو امانت کا واپس کرنا لازم ہے اگر اس کے مال میں کوئی دوسرا شخص خیانت بھی کرے تو اس کو کسی کے مال میں خیانت نہیں چاہیے ٣۔ اس حدیث کی سند میں اگرچہ بعض علماء نے کلام کیا ہے لیکن ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ٤ اور حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے ٥۔ مستدرک ٦ حاکم میں اس طرح کی ایک روایت انس (رض) کی بھی ہے جس کی سند میں ایوب بن سوید ایک راوی ہے جس کو بعض علماء نے ضعیف الحافظ کہا ہے۔ لیکن حاکم نے اس روایت کو صحیح کہا ہے ٦۔ قاضی حاکم۔ امیر۔ والی۔ جن کے سپرد لوگوں کے ہر طرح کے جھگڑوں کا فیصلہ کرنا ہے ان کے ذمہ بھی اللہ کی یہ امانت ہے کہ بغیر کسی کی رعایت کے ان کو ہر ایک فیصلہ انصاف سے کرنا چاہیے۔ چناچہ صحیح مسلم میں ابوذر (رض) سے یہ روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ابوذر (رض) نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کسی بستی پر حاکم ہوجانے کی خواہش کی آپ نے ابوذر (رض) کو جواب دیا کہ تمہارے مزاج میں ایک طرح کا ضعف ہے اور حکومت اللہ تعالیٰ کی بڑی بھاری امانت ہے جس کی ذمہ داری صاحب ضعف آدمی سے دشوار ہے ٧۔ غرض اسی تعلق کے سبب سے امانت کے ذکر میں حاکم لوگوں کا یہ ذکر فرمایا کہ ” جب چکوتی کرنے لگو لوگوں میں چکوتی کرو انصاف سے “ مسند امام احمد صحیح مسلم اور نسائی میں عبد اللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انصاف سے لوگوں کا فیصلہ کرنے والے حاکموں کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے دائیں ہاتھ کی جانب نور کے منبروں پر عزت سے بٹھائے گا۔ پھر فرمایا یہ محض شفقت حاکموں کی عزت بڑھانے کیلئے ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں ١۔ یہ ان حاکموں کا ذکر ہے جن کی اصلی کوشش انصاف سے فیصلہ کرنے کی ہے اس لئے اکثر فیصلے تو ان کے منصفانہ ہیں اور شاذو نادر اقتضاء بشریت سے بعض فیصلوں میں ان سے کچھ غلطی بھی ہوگئی ہے تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل درگذر ہے۔ رہے وہ حاکم جو رشوت لالچ یا سعی وسفارش کے مان لینے کے سبب سے منصفانہ فیصلہ کی زیادہ پرواہ نہیں کرتے اس واسطے اکثر فیصلہ تو ان کے رعایتی اور نامنصفانہ ہیں اور کچھ تھوڑے سے فیصلے منصفانہ بھی ان کے قلم سے نکل گئے ہیں ایسے حاکموں اور قاضی کا سیدھا ٹھکانہ جہنم ہے۔ چناچہ معتبر سند سے ابو داؤد میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس حاکم کے منصفانہ فیصلوں کی تعداد نا منصفانہ فیصلوں پر قیامت کے دن غالب آئے گی وہ جنتی ہے اور جس حاکم کا حال اس کے برخلاف ہے وہ دوزخی ہے ٢۔ اس باب میں اور بھی حدیثیں ہیں ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے وہ نصیحت فرمائی ہے جس پر عمل کرنے سے آدمی کی نجات ہوسکتی اس لئے فرمایا ” اللہ نصیحت کرتا ہے تم کو۔ اللہ ہے سنتا دیکھتا “۔ کا یہ مطلب ہے کہ اس نصیحت کی تعمیل میں جو اللہ تعالیٰ کے سننے سے متعلق ہے مثلاً آپس میں تمہارا وعظ و نصیحت پر قائم رہنا سچی گواہی کا ادا کرنا اس سب کو سنتا ہے اور جو عمل دیکھنے سے متعلق ہے نماز روزہ حج زکوٰۃ ان سب نیک عملوں کو دیکھتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 درمیان میں کفار کے احوال اور ان کے حق میں وعید کا ذکر آگیا تھا اب دوبارہ سلسلئہ احکام کا بیان شروع ہو رہا ہے۔ یہود امانت میں خیانت کرتے اور فیصلہ میں رشوت لے کر جوا کرتے۔ مسلمانوں کو ان باتوں سے دور رہنے کا حکم دیا۔ یہاں امانت سے مراد گو ہر قسم کی امانت ہے اس کا تعلق مذہب ودیا نت سے ہو یا دنیاوی معاملات سے لیکن یہود کتمان حق کر کے امانت علمی میں خیانت کے مرتکب تھے بعض روایات میں ہے کہ جب مکہ فتح ہوا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عثمان بن طلحتہ بن ابی طلحتہ احجبی سے کعبی کی کنجی لے لی۔ اس پر جبرائیل نازل ہوئے اور کنجی واپس کردینے کا حکم دیا (ابن جریر) آیت میں ہر قسم کے ذمہ کو اس کے اہل کے سپر کرنے کا حکم دیا ہے نیز حکم دیا ہے کہ ہر قسم کے فیصلوں سے عدل و انصاف کو ملحوظ رکھا جائے صحیحین کی ایک روایت میں خیانت درامان کو نفاق کی ایک خصلت قرار دیا ہے۔ نیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ جب تک حاکم بےانصافی پر اتر آتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے اس کے حوالے کردیتا ہے اور ایک اثر میں ہے کہ ایک دن عدل کرنا جالیس سال کی عبادت بہتر ہے (ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

اسرار و معارف آیت نمبر 58 تا 59: ان اللہ یا مرکم۔۔۔ احسن تاویلا۔ اب رہی وہاں پہنچنے کی صورت تو ان دو آیات میں اس کی ساری تفصیل سمو دی گئی ہے پہلی صورت ہے ایمان باللہ کہ بغیر ایمان کے اللہ کریم کی اطاعت کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا اور دوسری عمل کی ہے جس کے بغیر دعوی ایمان ہی محل نظر ہے تو ارشاد ہوا کہ اللہ کریم دو باتوں کا حکم دیتے ہیں اول یہ کہ امانت اس شخص کو دو جو اس کا اہل ہو اور دوسرے یہ کہ لوگوں کے مابین انصاف کرو۔ امانت کا معنی بہت وسیع ہے بظاہر تو اس مال کو امانت کہا جاتا ہے جو کسی نے مناسب موقع پر واپس لینے کے لیے دیا ہو خواہ وہ قرض کی صورت میں ہو یا محض کچھ عرصہ رکھنے کو دیا ہو مگر اس میں ہر وہ بات اور عمل داخل ہے جو دوسرے افراد کو متاثر کرتا ہو خصوصاً حکومت کے عہدے اور مناصب۔ کہ اصل حکومت ذات باریکو سزاوار ہے اور انسان اس کا خلیفہ نائب یا امین ہے لہذا عہدے اور مراتب ان لوگوں کو دئیے جائیں جو اس کام کی اہلیت رکھتے ہوں اور اسے بخوبی انجام دے سکیں بلکہ علمی اور عملی اعتبار سے اہلیت رکھنے والے افراد تلاش کرنا اور انہیں ذمہ داری سونپنا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے اور محض سفارش یا دوستی کی بنا پر یا اقربا پروری کرتے ہوئے کسی نااہل کو عہد و منصب دینے والے پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لعنت فرمائی ہے یہ بہت بڑا ظلم ہے اپنے ساتھ اس شخص کے ساتھ اور قوم اور ملک کے ساتھ کہ جب مناصب نا اہلوں کے پاس ہوں گے تو ابتری پھیلے گی خلق خدا پریشان ہوگی اور نظام سلطنت برباد ہوگا ایسے ہی ووٹ بھی امانت ہے کہ ہم اس کے ذریعہ کسی کو امور سلطنت میں شریک کرتے ہیں یا ملک کا حاکم تسلیم کرتے ہیں وہاں بھی ذات برادری یا مقامی اور مہاجر یا سندھی بلوچی پٹھان پنجابی وغیرہ کی جگہ ایسا بندہ حقدار ثابت ہوگا جو ایماندار صالح اور منصب کی اہلیت بھی رکھتا ہو صرف نیکی کافی نہ ہوگی جیسا کہ حضرت ابوذر نے درخواست کی تھی کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے بھی کوئی خدمت سونپی جائے تو فرمایا آپ ضعیف آدمی ہیں اور منصب تو امانت ہوتا ہے جس کے باعث آخرت میں رسوائی ہوگی سوائے اس کے ، جس نے اس کا حق ادا کردیا اوکما قال بلکہ ووٹ میں تو ایک طرح سے شہادت بھی پائی جاتی ہے کہ ووٹ دینے والا ان امور پر مطمئن ہے کہ یہ شخص ایماندار نیک امانتدار ہونے کے ساتھ ساتھ اس منصب کا اہل بھی ہے اس طرح سے حکومت وقت اور عوام اپنی اپنی جگہ دونوں ذمہ دار ہیں۔ یہ بھی درست نہیں کہ صوبوں یا قبیلوں پر عہدوں کو بانٹ دیا جائے بلکہ قومی امور میں ایسے افراد کو تلاش کیا جائے جو قومی سطح پر کام کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں خواہ وہ سب ایک ہی صوبے یا قبیلے سے متعلق ہوں کہ یہاں شرط اہلیت و استعداد ہے قبیلہ نہیں اسی طرح صوبائی ضلعی اور دیہی سطح پر افراد تلاش کرکے ان کے ذمے امور کرنا یہ حکومت کا فرض ہے اور جب انتخاب عوام کی طرف سے ہوتا ہے تو وہاں یہی ذمہ داری عوام پہ آجاتی ہے ایسی صورت حال میں کہ جب کوئی بھی ایسا شخص نہ مل رہا ہو جو کماحقہ اہلیت رکھتا ہو تو جو افراد سامنے ہوں ان میں سے سب سے قابل پھر اس کے بعد دوسروں سے قابل ترین شخص کو لیا جائے گا۔ ورنہ اللہ کی امانت میں بھی خیانت کا ارتکاب ہوگا اور قوم اور ملک کے حقوق میں بھی خیانت پائی جائے گی۔ رشوت لے کر ایسا کرنا تو دوسروں کے حقوق نیلام کرنے کے مترادف ہے دوسری بات ہے عدل یعنی جب دو انسانوں کے درمیان کوئی بات ہو تو حکومت ، حاکم یا ثالث جو بھی فیصلہ کرنے والا ہو وہ انصاف کرے اور یہ انصاف ہر ملک میں اس کے سب شہریوں کا حق ہے اللہ کی طرف سے انہیں بغیر کسی مذہب و مسلک کی تفریق اور رنگ و نسل کے امتیاز کے دیا گیا ہے یہاں بین الناس فرما کر یہ حق انسانیت کو بخشا ہے کہ عموماً تو حکومت یا متعلقہ حاکم کی ذمہ داری ہے کہ ہر بات کا فیصلہ انصاف سے کیا جائے کہ عدل کے مقابل ظلم ہوتا ہے جس کا معنی ہے کسی چیز کو اس کے مقام سے ہٹا دینا اور غیر محل پر رکھنا اور فوراً انصاف کرنا لوگوں کو ظلم اور زیادتی سے بچانا یہ سب امور حکومت کے ذمہ ہوتے ہیں اور حاکم سے پورے ملک کے ایک ایک فرد کا حساب لیا جائے گا فرمایا اللہ تمہیں بہترین نصیحت فرماتے ہیں جس سے تمہیں دنیا میں بھی امن و سکون عزت و شہرت ملے اور آخرت میں بھی سر بلندی نصیب ہو یہ ضرور جان لو کہ اللہ سب کی سنتا ہے جو فریاد کرسکتے ہیں ان کی بھی اور جو فریاد تک نہیں کرسکتے ان کی بھی نیز وہ ہر حال اور ہر شے کو خود دیکھ رہا ہے خواہ وہ ظاہر ہے یا سینکڑوں پردوں میں پوشیدہ رہی بات کہ انصاف کیسے ہوگا اور عدل کے تقاضے پورے کرنے کے لیے کس طرح کسی کا حق مقرر کیا جاسکے گا تو فرمایا اے ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو اور اللہ کے رسول کی نیز ان لوگوں کی بھی اطاعت کرو جو تم میں سے صاحب اختیار و اقتدار ہیں تو اس طرح سے بیک وقت تین اطاعتیں فرض ہوگئیں مگر فی الحقیقت اطاعت صرف ایک ہستی کی ہی کی جائے گی جو اللہ رب العزت کی ہے جس پر عمل کی صورتیں مختلف ہیں اور اول وہ امور جن کا حکم قرآن حکیم میں واضح طور پر موجود ہے اس میں کسی طرح کی مداخلت نہ کی جاسکے گی جیسے اللہ کی توحید یا کفر و شرک کا گناہ عظیم ہونا اللہ ہی کی عبادت کرنا حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا آخری اور برحق نبی ماننا آخرت پر یقین رکھنا قیامت عذاب وثواب یا فرشتوں کا یقین رکھنا یا ارکان دین کا اقرار اور حلال و حرام کا اقرار کرنا وگیر زالک ، ضروریات کو شامل ہے دوسرا درجہ ان امور کا ہے جن کا بیان کتاب میں مجمل ہے اور تفصیل و تشریح ارشاداتِ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں فرمائی گئی ہے در اصل یہ بھی وحی الہی ہے جس میں مفہوم اللہ کی طرف سے ہے اور الفاظ رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں یہ بھی اللہ ہی کی اطاعت ہے مگر بظاہر چونکہ قرآن نہیں بلکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات ہیں اسلیے آعنت رسول کا حکم ارشاد فرمایا گیا جو لوگ صرف قرآن کریم ہی کے الفاظ سے مطلب اخذ کرنا چاہتے ہیں ان کیلئے لمحہ فکر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ اطاعت رسول کا حکم مستقلا موجود ہے اور تیسرا درجہ ان امور کا ہے جو نہ قرآن میں صراحۃ بیان ہوئے نہ حدیث میں واضح حکم ملتا ہے ان میں علما مجتہدین کا کام ہے جو ذخیرہ حدیث اور مضامین قرآن پر نطر رکھنے والے ہیں کہ زیر نظر مسئلہ کی نظیر کو قرآن و سنت سے تلاش کرکے اس پہ حکم لگائیں۔ در اصل یہ بھی اللہ ہی کی اطاعت ہے مگر باعتبار ظاہر فقہا کی طرف منسوب ہے اس لیے فقہی احکام کہلائے گی اور چوتھے درجہ میں وہ امور ہیں جن پر اللہ و رسول کی طرف سے کوئی پابندی نہیں بلکہ عمل کرنے والوں کی صواب دید پر ہیں انہیں مباحات کہا جاتا ہے یہ امور حکام سے متعلق ہیں جو افراد اور معاشرے کی بہتری کے لیے اصول یا قانون بنا دیتے ہیں ان میں حاکم کی اطاعت کی جائے گی جیسے کسی شہر میں ڈاک کا انتظام کیا ہوگا یا کہاں کہاں پولیس ستیشن ہوں گے سرک کہاں بنے گی یا موٹر ریل اور جہاز کے اوقات کیا ہوں گے کس کس مقام پر فوجی چھاؤنی بنے گی اور اس میں کسقدر فوج رکھی جائے گی یہ ایسے کام ہیں جو امور انتظامی سے تعلق رکھتے ہیں اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ انہیں عوام کے بہترین مفاد میں ترتیب دے اور عوام رپ ان کی اطاعت واجب ہے اور اطاعت الہی میں داخل ہے اس میں اعتبار سے علماء دین اور حکام یا حکومت دونوں اولی الامر میں شامل ہوں گے یعنی واضح حکم ہو تو قرآن کی اطاعت ، تفسیر و تشریح کی ضرورت ہو تو رسول کریم کی اطاعت اور غیر واضح امور میں فقہا اور علما کی اطاعت اور امور انتظامی میں حکام اور حکومت کی اطاعت یہ اللہ کی اطاعت کی چار صورتیں ہوں گی جن پر عمل امانت ہے اور جن سے روگردانی امانت اللہ میں خیانت کے مترادف ہے یہ بھی یاد رہے کہ علماء حکام کوئی ایسا حکم نہیں دے سکتے جو اللہ کریم کے حکم کے خلاف ہو علما کو یہ حق حاصل نہیں کہ کتاب اللہ یا حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی منشاء کے خلاف محض لغوی معانی وغیرہ کا سہارا لے کر اور کھینچ تان کر کوئی حکم دیں ایسا کرنے والے امانت دار نہ رہیں گے اور نہ ان کی بات مانی جائے گی اور غالباً اسی طرح کی کوششوں کو اجتہاد کا نام دے کر اجتہاد کا دروازہ کھلا رکھنے کی فرمائشیں ہوتی ہیں ورنہ کسی بھی نئی پیدا شدہ صورت حال کی نظیر قرآن و حدیث سے تلاش کرکے اس کے مطابق حکم لگانے سے تو اسلام میں کوئی ممانعت نہیں ایسے ہی حکومت یا حکام کو یہ حق حاصل نہیں کہ اللہ کے حکم کیخلاف قانون نافذ کریں یا حکم دیں ایسی صورت میں ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی کہ ارشادات رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں موجود ہے کہ اللہ کی نافرمانی کرکے مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔ اسی لیے ارشاد ہوا کہ اگر کسی بات پہ اختلاف پیدا ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اور رسول کی جانب رجوع کرو ظاہر ہے کہ اختلاف اسی صورت میں ہوگا جب واضح احکام موجود نہ ہوں گے ورنہ تو اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں تو پھر عمل انہی صورتوں پہ ہوگا جو علماء حق نے کتاب و سنت پر غور کرکے اور ان کی نظیر دریافت کرکے حکم لگائے ہوں گے اور یہی بہترین صورت ہے کہ واضح احکام میں اختلاف نہ کیا جائے اللہ کی عظمت اور اپنی بےبضاعتی پہ نظر رکھنا چاہیے دوسری صورت میں بھی علماء اور حکام کے ساتھ انسانیت اور مسلمانوں کے مفاد میں تعاون ہی بہتر صورت ہے اور اسی سے بہترین نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں دنیا میں بھی اور اخرت کی ابدی زندگی میں بھی۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیت نمبر 58 لغات القرآن : تؤدوا، تم ادا کر دو ۔ الامنت، امانتیں۔ الی اھلھا، اس کے مالکوں کی طرف۔ حکمتم، تم نے فیصلہ کیا (تم فیصلہ کرنے لگو) ، ان تحکموا، یہ کہ تم فیصلہ کرو۔ العدل، انصاف۔ نعما، بہترین۔ یعظکم، وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے۔ تشریح : اس آیت میں مومنوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ جنہیں کتاب حکمت اور حکومت سے نوازا گیا ہے ان مومنوں کے لئے کتاب حکمت اور حکومت ایک آزمائش ہے۔ سلطنت کا انتظام اگر کیا جائے گا تو اس حکمت اور ان احکام کے تحت جنہیں اللہ کی کتاب نے پیش کیا ہے۔ تمام حکومتوں کے مقابلے میں مومن کی حکومت ایک خاص امتیاز رکھتی ہے یعنی یہاں پر عہدہ، دولت، روپیہ اور ہر چیز اللہ کی امانت ہے۔ انسان صرف خلیفۃ اللہ فی الارض ہے۔ یہاں پر دو احکام ارشاد فرمائے گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سلطنت کی بقاء و ترقی اور خوش حالی کا انحصار ان ہی دو احکام پر ہے۔ نمبر (ایک) عہدے یا پر مٹ یا الاٹمنٹ یا ٹھیکہ وغیرہ صرف ان ہی لوگوں کے حوالے کیا جائے جو اس کام کو امانت سمجھ کر انجام دیں۔ جن کا شعور تیز ہوکر اللہ دیکھ رہا ہے اور آخرت میں ذرہ ذرہ کی جواب دہی کرنی ہوگی۔ ظاہر ہے کہ یہ صفت صرف مومنوں میں ہوگی۔ (دوسرا حکم یہ ہے) کہ فیصلہ کرو تو بےلاگ۔ کوئی لالچ خوف تعصب اقربا پروری اور مفاد پرستی نہ ہو۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی۔ دنیا پکار اٹھے کہ زمین و آسمان جس انصاف پر قائم ہیں وہ یہی ہے فرمایا کہ خبردار انصاف کا پلہ ایک طرف نہ جھک جائے۔ بنی اسرائیل کو بھی حاکمانہ اقتدار سے صدیوں نوازا گیا تھا۔ وہ بھی کتاب ، حکمت اور نبوت کے حامل رہے۔ لیکن چند خاص زمانوں میں چھوڑ کر وہ ہمیشہ اخلاقی انحطاط میں مبتلا رہے۔ ان کی سلطنت کے زوال کی خاص وجہ یہ ہی تھی کہ وہ تمام عہدے اور مراعات اور انعام و اکرام اپنے محبوب اور مرغوب دوستوں اور رشتہ داروں میں تقسیم کرتے تھے خواہ وہ کتنے ہی خائن، چور، راشی اور ابے ایمان ہوں۔ عہدوں اور دوسری ذمہ داریوں کو عیش و عشرت کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ دوسری خرابی ان میں یہ تھی کہ بااثر اور با اختیار لوگ اگر جرم کرتے تھے تو چھوڑ دئیے جاتے تھے یا ان کے ساتھ خاص نرمی برتی جاتی تھی لیکن کمزور اور بےآسرا لوگوں پر ظلم کی تلوار خوب چلتی تھی۔ کہا گیا ہے کہ اللہ تمہیں بہت عمدہ نصیحت کرتا ہے ۔ اسی میں حکمت بھی ہے فلاح بھی اور دنیاوی ترقی بھی۔ اور تم خوب سوچ لو اور سمجھ لو کہ اللہ کی نگاہوں سے تمہارا کوئی فعل پوشیدہ نہیں ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یہ اہل حکومت کو خطاب ہے۔ 4۔ وہ بات بہت اچھی ہے دنیا کے اعتبار سے بھی کہ اس میں بقاء حکومت ہے اور آخرت کے اعتبار سے بھی کہ موجب قرب وثواب ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب سے تورات و انجیل میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کا عہد لیا گیا تھا۔ جس کو لوگوں کے سامنے بیان کرنا امانت داری کا تقاضا تھا لیکن انہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد اور اس امانت میں خیانت کی تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ ہر شعبہ میں پرلے درجہ کے خائن ثابت ہوئے۔ امت کو مالی ‘ اخلاقی، سیاسی اور عدالتی خیانت سے بچانے کے لیے ہر قسم کی ذمہ داری اس کے اہل لوگوں کے سپرد کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ اکثر مفسرین نے اس آیت کا شان نزول بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ آیت فتح مکہ کے موقعہ پر نازل ہوئی۔ جس کا پس منظر یہ ہے کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہجرت سے پہلے بیت اللہ میں داخل ہونے کے لیے عثمان بن طلحہ سے چابی طلب فرمائی لیکن اس نے چابی دینے سے انکار کردیا۔ اس موقعہ پر آپ نے فرمایا عثمان وہ وقت ذہن میں لاؤ۔ جب یہ چابی میرے پاس ہوگی اور جس کو چاہوں گا عطا کروں گا۔ عثمان نے غصہ میں آکر کہا کہ کیا ہم اس وقت مرچکے ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا نہیں تم زندہ ہو گے لیکن اس کے باوجود چابی میرے پاس ہوگی۔ چناچہ جب آپ نے مکہ فتح کیا تو بیت اللہ میں داخل ہونے کے لیے عثمان بن طلحہ سے چابی طلب فرمائی جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوا تھا۔ عثمان نے بڑی بےچارگی کے عالم میں آپ کو چابی پیش کرتے ہوئے عرض کی اللہ کے رسول ! اسے امانت سمجھیے۔ آپ نے بیت اللہ میں داخل ہو کر دو نفل ادا کیے اور آپ کے ساتھ حضرت بلال (رض) بھی تھے۔ جب نیچے تشریف لائے تو حضرت علی (رض) نے درخواست کی کہ یہ چابی ہمیں ملنی چاہیے کیونکہ حجاج کو زم زم پلانے کی ذمہ داری ہمارے پاس ہے۔ آپ نے فرمایا یہ ایفائے عہد کا دن ہے لہٰذا چابی عثمان بن طلحہ کو دی جائے گی۔ پھر عثمان بن طلحہ کو بلاکر یہ فرماتے ہوئے چابی عطا کی کہ یہ چابی ہمیشہ تمہارے پاس رہے گی۔ جس شخص نے تم سے چابی چھیننے کی کوشش کی وہ ظالم ہوگا۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ آپ اس وقت اس آیت کی تلاوت کر رہے تھے۔ “ [ تفسیر ابن کثیر : النساء ٥٨] بے شک یہ آیت مبارکہ خاص موقعہ پر نازل ہوئی لیکن اس میں ہر قسم کی امانتوں کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے جس میں یہ اشارہ بھی موجود ہے کہ اے مسلمانو ! قیادت و امامت اہل کتاب سے چھین کر تمہارے سپرد کی جارہی ہے انہوں نے اس کا حق ادا نہیں کیا لیکن تم اس کا حق ادا کرنا۔ اس آیت کی تفسیر میں مولانا امین احسن اصلاحی (رض) لکھتے ہیں : اس امانت کا انہوں نے حق ادا نہیں کیا جس منصب شہادت پر ان کو مامور کیا گیا اس کو انہوں نے چھپایا، جو کتاب ان کی تحویل میں دی گئی اس میں انہوں نے تحریف کی، جس شریعت کا ان کو حامل بنایا گیا اس میں انہوں نے اختلاف پیدا کیا، جن حقوق کے وہ امین بنائے گئے ان میں انہوں نے خیانت کی، جو فرائض ان کے سپرد ہوئے ان میں وہ چور ثابت ہوئے، جو عہد انہوں نے باندھے وہ سب توڑ ڈالے۔ اے امت محمدیہ کے لوگو ! اب تمہاری اولین ذمہ داری یہ ہے کہ تم اس عظیم امانت کو ٹھیک ٹھیک ادا کرو یہاں لفظ امانت کے بجائے اما نات استعمال ہوا ہے جس میں اخلاقی، سیاسی امانتیں لوٹانے کے ساتھ رقم کی امانت بھی شامل ہے۔[ تدبر قرآن ] اس لیے مفسرین نے سیاسی ‘ مالی ‘ اخلاقی اور اسلامی امانتوں کے ساتھ حقوق اللہ کو شامل کیا ہے۔ امانت میں سب سے بڑی امانت جس سے دنیا کا نظام بگڑتا اور سنورتا ہے وہ اختیارات کا استعمال ہے۔ اختیارات تبھی صحیح استعمال ہوسکتے ہیں جب یہ اہل اور صحیح لوگوں کو دیے جائیں۔ اگر نااہل، بددیانت اور اوباش لوگوں کو اختیارات سونپ دیے جائیں تو بہتر سے بہترین قانون اور منصب بھی نہ صرف اپنی افادیت کھو بیٹھتا ہے بلکہ یہ دنیا کی نظروں میں حقیر اور بےمقصد ہوجاتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ جب تمہارے حکمران نااہل ‘ حق سننے اور کہنے میں گونگے ‘ بہرے ہوں گے تو پھر تمہیں قیامت کا انتظار کرنا چاہیے۔ اس کے برعکس عادل اور ذمہ دار حکمرانوں کے بارے میں فرمایا کہ وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے دائیں جانب چمکتے ہوئے منبروں پر جلوہ افروز ہوں گے۔ [ رواہ مسلم : کتاب الامارۃ ] نااہل آدمی کو ذمہ داری دینے والا ملعون ہوتا ہے : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ جس شخص کو مسلمانوں کی کوئی ذمہ داری دی جائے اور وہ صرف تعلق اور قرابت کی بنیاد پر کسی نااہل آدمی کو منصب سونپ دے اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہوتی ہے اور اس کی نفلی اور فرضی عبادت قبول نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ اسے جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ [ جمع الفوائد بحوالہ معارف القرآن ] صحیح مشورہ دینا امانت ہے : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے جس شخص سے مشورہ لیا جائے وہ ایک طرح سے امین ہوتا ہے۔ اس کا فرض ہے کہ وہ اپنی سمجھ اور معلومات کے مطابق بلا رعایت صحیح مشورہ دے۔ اگر اس نے جان بوجھ کر غلط مشورہ دیا تو اس کے نتائج کا ذمہ دار ہوگا آپ نے اس کو جامع الفاظ میں یوں بیان فرمایا : (اَلْمُسْتَشَارُ مُؤْتَمَنٌ) [ رواہ الترمذی : کتاب الأدب، باب إن المستشار مؤتمن ] ” جس سے مشورہ لیا جائے وہ صاحب امانت ہوتا ہے۔ “ مجالس بھی امانت ہوتی ہیں : عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ وہی شخص امانت دار ہوتا ہے جس کے پاس روپیہ پیسہ یا کوئی سامان رکھا جائے حالانکہ قرآن و سنت میں دیانت وامانت کا وسیع تصور پایا جاتا ہے۔ جس کی تفسیر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ باضابطہ مجالس بھی امانت ہوتی ہیں کیونکہ بسا اوقات مال و اسباب کا نقصان آدمی برداشت کرلیتا ہے یا اس کی تلافی ہوسکتی ہے۔ لیکن اگر کسی اجلاس اور مجالس کا راز افشا کردیا جائے تو فرد اور خاندان ہی نہیں قوموں اور ملکوں کو ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے۔ اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلْمَجَالِسُ بالْأَمَانَۃِ ) [ رواہ أبو داؤد : کتاب الأدب، باب فی نقل الحدیث ] ” مجالس امانت ہوا کرتی ہیں۔ “ مسائل ١۔ مسلمان اہل لوگوں کو اپنے معاملات کا ذمہ دار بنائیں۔ ٢۔ ذمہ دار لوگوں کا فرض ہے کہ وہ عدل و انصاف قائم کریں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو بہت ہی اچھی نصیحت فرماتا ہے۔ تفسیر بالقرآن عدل و انصاف کا حکم : ١۔ عدل و انصاف کا حکم۔ (الاعراف : ٢٩) ٢۔ فیصلہ کرتے وقت عدل و انصاف کا خیال رکھنا چاہیے۔ (صٓ: ٢٦) ٣۔ فیصلہ اللہ کے حکم کے مطابق ہونا چاہیے۔ (المائدۃ : ٤٨) ٤۔ انصاف کرنے والوں کو اللہ پسند کرتا ہے۔ (المائدۃ : ٤٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٥٨۔ یہ ہیں امت مسلمہ کے فرائض اور یہ ہے اس کا ضابطہ اخلاق ۔ وہ امانتوں کو ان لوگوں کے سپرد کرتی ہے جو اس کے اہل ہوں ۔ اور اگر وہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کرے تو عدل پر کرے گی اور اس نظام اور قانون کے مطابق کرے گی جو اللہ نے سکھایا ہے ۔ امانتوں کا آغاز امانت کبری سے ہوتا ہے ۔ یہ وہ امانت ہے جس سے فطرت انسان مربوط ہے اور یہ امانت وہی ہیں جس کے اٹھانے سے آسمان ‘ زمین اور پہاڑوں نے معذوری کا اظہار کیا تھا ‘ لیکن اسے انسان نے اٹھا لیا تھا ۔ انسان نے جس بار امانت کو اٹھایا ‘ ” ہدایت ‘ معرفت اور ایمان باللہ کی امانت تھی ۔ یہ ایمان باللہ ‘ بامقصد ‘ باارادہ اور کمال توجہ کے لائق ایمان ہے ۔ یہ امانت انسان کی فطرت کا تقاضا بھی ہے ۔ انسان کے سوا اور جس قدر مخلوق خدا ہے ‘ اس کی جانب سے خدا پر ایمان ‘ ہدایت ‘ معرفت طہارت اور اطاعت بلاقصد و ارادہ اور بلاتوجہ ہوتی ہے ۔ اور وہ طوعا وکرہا ناموس الہی کے فرمان بردار ہوتے ہیں ۔ انسان ” واحد مخلوق ہے کہ اللہ نے اس کی فطرت ‘ اس کی عقل اس کی معرفت ‘ اس کے ارادے اور اس کی توجہ پر ایمان کو موقوف کردیا ہے اور اس پر فرض قرار دیا ہے کہ وہ ایمان کی منزل تک پہنچنے کی جدوجہد کرے ۔ وہ یہ جدوجہد کرے گا تب اللہ اسے راستہ دکھائے گا ۔ (آیت) ” (والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا) (جو لوگ ہماری راہ میں جدوجہد کرتے ہیں ہم ان کی راہنمائی اپنے راستوں کی طرف کریں گے) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہے وہ پہلی امانت جسے انسان نے دوسری امانتوں کے ساتھ اٹھانا ہے ۔ اور پھر اس امانت کبری سے دوسری ماتحت امانتیں اور ذمہ داریاں انسان پر عائد ہوتی چلی جاتی ہیں ۔ ان میں سے اہم امانت شہادت حق کی امانت ہے اور یہ شہادت انسان نے اس دین کی سچائی پر دینی ہے ۔ سب سے پہلے مومن کا نفس یہ شہادت دے گا کہ وہ مومن ہے اسے ایمان اور اسلام کا عکاس ہونا چاہئے ۔ ایک مومن اپنے شعور و تصورات اور اپنے سلوک اور عمل میں اسلام اور دین کا ترجمان ہو۔ لوگ دیکھتے ہی یہ کہیں کہ یہ ہے نمونہ اسلام اور دین اسلام کا ۔ دیکھتے ہی لوگ کہیں کہ یہ دین ایمان بہت ہی اچھا دیں و ایمان ہے جس کے پیروکار ایسے اچھے ہیں جس کے ماننے والے اس قدر اخلاق و کمالات کے مالک ہیں ۔ یہ دین کی شہادت حق ہے جس سے تمام دیکھنے والے متاثر ہوں گے اور یہ بھی ایک امانت ہے ۔ دوسری شہادت یہ ہے کہ ایک مومن دین کی دعوت لوگوں کو دے اور لوگوں کے سامنے دین کے فضائل بیان کرے جبکہ خود داعی کے اندر وہ پورے فضائل زندہ موجود ہوں ۔ کسی مومن کی ذاتی پاکیزگی اور طہارت کی شہادت کافی نہیں ہے جب تک وہ لوگوں کو اس طرف دعوت نہ دے ۔ اگر دعوت نہ دے تو اس نے امانت دعوت ادا نہ کی جو بذات خود امانت ہے ۔ اس کے بعد اس دین کی شہادت قیام دین ہے اور اس امانت کی ادائیگی پورے کرہ ارض پر فرض ہے ۔ اس طرح کہ یہ جماعت مومنہ کا بھی منہاج ہو اور تمام بشریت کا بھی منہاج ہو اور اس کام کے لئے ایک مومن انسان کا فرض ہوگا کہ وہ اپنے پورے وسائل اس راہ میں جھونک دے ۔ جماعت مسلمہ کے پاس جس قدر وسائل وذرائع ہوں ‘ وہ اس راہ میں صرف کردے اور اس نظام کو انسانوں کی زندگی میں قیام کے مرحلے تک پہنچائے ۔ اور یہ بھی ایک عظیم امانت ہے جسے ادا کرنا ہے ۔ اور یہ ایک شخص کے ذاتی ایمان کی وسعت ہے اور یہ فریضہ اقامت دین نہ کسی فرد کے لئے معاف ہے اور نہ کسی جماعت کے لئے ۔ یہی وجہ ہے کہ کہا گیا (الجھاد ماض الی یوم القیامۃ) (جہاد قیامت تک جاری رہے گا) اور یہ جہاد بھی امانات میں سے ایک اہم امانت ہے ۔ ان امانات میں سے وہ امانتیں بھی ہیں جو لوگوں کے باہم معاملات میں پیش آتی ہیں ۔ یہ فرض ہے کہ لوگوں کی امانتیں ان کو لوٹائی جائیں ۔ معاملات کی امانت اور وہ مالی امانت جو کسی کے پاس رکھی گئی ہو ‘ حکام اور رعایا کو نصیحت کرنے کی امانت ‘ چھوٹے بچوں کی پرورش کی امانت ‘ جماعت کی عزت کی حفاظت کی امانت ‘ اجتماعی اموال کی امانت اور سرحدوں کی حفاظت کی امانت ۔ غرض وہ تمام مناصب ‘ فرائض اور تمام سروسز امانت ہیں اور یہ ان لوگوں کے سپرد کردی جائیں جو ان کے اہل ہوں ۔ یہ سب امانتیں ہیں اور اس آیت میں ان کا اجمالی تذکرہ کیا گیا ہے ۔ رہا یہ حکم کہ لوگوں عدل کرو ‘ تو یہ عام ہے اور تمام لوگوں کے لئے ہے ۔ یہ حکم نہیں ہے کہ اہل اسلام کے درمیان عدل کرو ۔ یہ حکم بھی نہیں ہے کہ اور لوگوں کو چھوڑ کر صرف اہل کتاب کے ساتھ عدل کرو ۔ انصاف ہر انسان کا حق ہے اور بحیثیت انسان اسے ملنا چاہئے ۔ اسلامی نظام حیات کے اندر عدل کا تعلق اس صفت یعنی صفت الناس کے ساتھ ہوتا ہے اور اسی صفت الناس پر تمام لوگ متحد ہوتے ہیں۔ مومن ہیں تو وہ بھی الناس ہیں ‘ کافر ہیں تو وہ بھی الناس ہیں ۔ دوست ہیں یا دشمن ‘ کالے ہیں یا گورے ‘ عربی ہیں یا عجمی ‘ سب کے سب الناس ہیں اور امت مسلمہ کو یہ نگرانی سپرد کی گئی ہے کہ وہ الناس کے درمیان عدل قائم کرین ۔ جب بھی اسے لوگوں کے امور کے فیصلے کا موقع ملے ۔ یہ انصاف انسانیت کو اس صورت میں صرف اسلام کے ہاتھوں ملا ‘ صرف مسلمانوں کی حکومت میں ملا ‘ صرف اسلامی قیادت کے دور میں ملا ۔ اس دور سے پہلے اور بعد میں انسانیت نے اسے گم پایا ۔ اسے کبھی بھی اس کا چکھنا تک نصیب نہ ہوا ۔ ایسی شریفانہ اور باعزت صورت میں کہ وہ سب انسانوں کے لئے مہیا ہو ‘ اس لئے کہ وہ انسان ہیں ۔ وہ صرف ان طبقات تک محدود نہ ہوں جو الناس کی صفت کے ساتھ کوئی اور صفت بھی رکھتے ہوں ۔ یہ ہے اسلام میں نظام عدالت کی اساس ۔ جس طرح امانت اس کے حقدار تک پہنچانا ‘ اسلامی معاشرے کی اساس اور اس کا اصل الاصول ہے۔ (تفصیلات کے لئے دیکھئے کتاب ” نحو مجتمع اسلامی “ کا فصل ” مجتمع عادل) اور ان دو احکام یعنی امانت اس کے مستحق کو دینا اور لوگوں کے درمیان عدل کرنا ‘ کے بعد جو تعقیب اور تبصرہ آتا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ یاد رکھو کہ یہ اللہ کی جانب سے ایک نصیحت ہے اور یہ اسی کی ہدایات ہیں ‘ اور کیا ہی اچھی نصیحت اور کیا ہی اچھی ہدایات ہیں یہ (آیت) ” ان اللہ نعما یعظکم بہ (٤ : ٥٨) (اللہ تم کو نہایت ہی اچھی نصیحت کرتا ہے۔ ) اب ذرا یہاں توقف کیجئے ۔ ذرا دیکھیں کہ اس فقرے کا انداز اور اسلوب کیا ہے ۔ اصل بات اس جملے کی ساخت ہے ۔ ا صل ہے ۔ (آیت) ” انہ نعم ما یعظکم اللہ بہ) لیکن اس فقرے میں لفظ اللہ کو مقدم کرکے اسے ان کا اسم بنا دیا گیا ۔ اور (نعم ما) یعنی (نعما) کو مع متعلقات (Propositions) خبر کی جگہ رکھا گیا اور اصل خبر کی محذوف کردیا گیا ۔ اس طرح طرز ادا سے یہ ثابت ہوا کہ اللہ کی ذات اور اس وعظ ونصیحت کے درمیان ایک مضبوط تعلق ہے ۔ یہ وعظ تو تھا نہیں بلکہ یہ حکم تھا لیکن امر کا اظہار بلفظ وعظ ونصیحت کیا گیا اس لئے کہ نصیحت اور وعظ کے الفاظ کے ساتھ بات کو انسان جلدی اخذ کرتا ہے اور انسانی وجدان اسے جلدی قبول کرلیتا ہے اور اس طرح یہ بات جلدی نافذ ہوتی ہے کیونکہ اس کے نفاذ میں اختیار ‘ رغبت اور حیاء سب شامل ہوتے ہیں ۔ اس کے بعد آیت میں آخری تعقیب اور نتیجہ آتا ہے اور اس میں تمام معاملے کو اللہ کی نگرانی ‘ اس کی خشیت اور اس سے امید کرم کے حوالے کردیا جاتا ہے ۔ (آیت) ” ان اللہ کان سمیعا بصیرا (٤ : ٥٨) ” اور یقینا اللہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے ۔ “ یہاں مامور بہ یعنی ادائیگی امانات اور قیام عدل بین الناس اور اس بات میں کہ اللہ سمیع وبصیر ہے ایک نہایت ہی لطیف اور واضح مناسبت ہے ۔ اللہ سنتا اور دیکھتا ہے کہ تم امانت صحیح ادا کرتے ہو۔ تم عدل صحیح طرح قائم کرتے ہو ۔ عدالت کے عمل کو بھی اس بات کی ضرورت ہے کہ اچھی طرح سنا جائے اچھی طرح اندازہ کیا جائے اور حالات اور بادی النظر امور کے پیچھے عمیق اسباب کی تلاش کی جائے اور اس کے بعد فیصلے بصیرت افروز سماعت کے بعد ہوں اور سامع صاحب بصیرت و بصارت ہو ۔ اب ‘ امانت داری اور عدل کا میعار کیا ہے ؟ امانت وعدل کا طریق اور تصور کیا ہے ؟ عدل وامانت کی تعریف کیا ہے اور ان کا نفاذ کیسے ہوگا ؟ یعنی زندگی کی ہر سر گرمی اور ہر معاملے میں ۔۔۔۔ کیا ہم امانت اور عدل کا مفہوم اور ان کے نفاذ و رواج کے طریقے اور وسائل کو عوام الناس میں مروج رسم و رواج اور اصطلاحات پر چھوڑ دیں اور ان کی عقل جو فیصلہ کرے اسے عدل قرار دیں یا ان کی خواہشات پر چھوڑ دیں ۔ بیشک انسانی عقل وخرد کی اپنی قدروقیمت ہے اور انسان کی ہدایت اور علم ومعرفت کے لئے وہ ایک ، مسلم ذریعہ ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے ۔ لیکن یہ انسانی عقل بہرحال افراد اور جماعتوں کی عقل ہوتی ہے اور یہ افراد کسی مخصوص معاشرے کے فرد ہوتے ہیں اور ان پر متعدد چیزیں اثر ڈالتی ہیں ۔ انسانی عقل نام کی کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کا کوئی مطلق اور بےقید مفہوم ہو ۔ اصل چیز یہ ہے کہ میری عقل ہوتی ‘ فلاں فلاں کی عقل ہوتی اور پھر ان عقلوں کا مجموعہ انسانی عقل ہوتی ہے اور مجموعہ عقل زمان ومکان کے اندر محدود ہوتی ہے ۔ اس لئے یہ عقول مختلف موثرات سے تاثر لیتی ہیں اور کبھی اس طرف مائل ہوجاتی ہیں اور کبھی اس طرح مائل ہوجاتی ہیں ۔ لہذا کسی ایسے معیار اور میزان کی ضرورت ہے جو نہ بدلے اور نہ تاثر لے ۔ ان تمام عقول کو اس میزان پر تولا جائے اور اس معیار پر پرکھا جائے اور معلوم کیا جائے کہ ان میں سے کون سی عقل ٹھیک ہے اور کون سی غلط ہے ؟ کون سے احکام ٹھیک اور کون سے غلط ہیں ؟ کون سا تصور ٹھیک اور کون سا غلط ہے ؟ اور ان احکام اور تصورات میں کہاں کہاں غلو ‘ تقصیر ‘ کوتاہی اور انحراف کیا گیا ہے ۔ یہاں عقل کی قدروقیمت یہ ہے کہ وہ انسان کی بھلائی کے لئے ایک آلہ پیدا کیا گیا ہے ۔ تاکہ وہ اس کے ذریعے اپنے احکام اور تصورات کو اس میزان کے مطابق درست کرتا رہے ۔ اس لئے کہ یہ میزان ایک ایسا میزان ہے جو انسان کی خواہشات نفس سے متاثر نہیں ہوتا اور نہ دنیا کے موثرات اس پر اثر انداز ہو سکتے ہیں ۔ رہے وہ اوزان اور پیمانے جو خود انسانوں نے وضع کئے ہیں تو ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے کیونکہ بعض اوقات ان انسانی پیمانوں کے اندر غلطی ہوتی ہے اس لئے ان پیمانوں کے ساتھ ناپی ہوئی اقدار میں بھی غلطی واقع ہوجاتی ہے ۔ یہ غلطی اس وقت تک دہرائی چلی جاتی ہے جب تک لوگ اس اصل معیار اور پیمانے کی طرف واپس نہیں لوٹتے ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ میزان انسانوں کے لئے نصب کیا ہے تاکہ اس کے اوپر وہ امانتوں اور نظام عدالت کو استوار کریں اور تمام دوسری اقدار کو بھی اس پر تولیں ۔ اپنے تمام احکام اور تمام حالات زندگی کو اس پر پرکھیں ‘ زندگی کے ہر میدان میں ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

امانت کی ادائیگی اور فیصلوں میں انصاف کا حکم اس آیت کے سبب نزول میں حضرات مفسرین کرام نے یہ واقعہ لکھا ہے کہ فتح مکہ کے دن آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عثمان بن طلحہ حجبی سے کعبہ شریف کی چابی لے لی تھی۔ (ان کے خاندان میں عرصہ دراز سے کعبہ شریف کے کھولنے اور بند کرنے کی خدمت آرہی تھی جس کو اہل عرب سدانۃ البیت کے نام سے تعبیر کرتے تھے) آپ کعبہ شریف میں داخل ہوئے وہاں نماز پڑھی جب باہر نکلے تو حضرت علی (رض) نے عرض کیا کہ چابی ہمیں دے دیجیے تاکہ بنی ہاشم میں سقایۃ الحاج (حاجیوں کو پانی پلانا) اور سدانۃ البیت دونوں جمع ہوجائیں۔ اور بعض روایات میں ہے کہ عباس بن عبدالمطلب نے یہ سوال کیا تھا۔ آپ نے ان دونوں میں سے کسی کو چابی نہ دی۔ جب آپ کعبہ شریف سے باہر تشریف لائے تو آیت بالا (اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ الآی اَھْلِھَا) تلاوت فرما رہے تھے۔ رب العالمین جل مجدہ کے فرمان کے مطابق آپ نے چابی اسی کو دے دی جس سے لی تھی۔ جب آپ نے ان کو چابی عطا فرمائی تو فرمایا خذوھا یا بنی ابی طلحۃ بامانۃ اللّٰہ لا ینزعھا منکم الا ظالم (اے بنی طلحہ اس چابی کو اللہ کی امانت کے طور پر لے لو اس چابی کو تم سے ظالم کے علاوہ کوئی نہیں چھینے گا) ۔ اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا خذوھا یا بنی ابی طلحۃ خالدۃً قالدۃً (اے بنی ابی طلحہ اس کو ہمیشہ کے لیے لے لو تو یہ تمہارے لیے خاندانی میراث ہے) اس کے بعد سے آج تک یہ چابی انہیں کے خاندان میں ہے جس کے پاس چابی ہوتی ہے۔ اہل مکہ اس کو شیبی کہتے ہیں۔ عثمان بن طلحہ کے والد ابو طلحہ تھے جن کا نام عبداللہ بن عبدالعزیٰ تھا اور عثمان شیبہ بن عثمان بن ابی طلحہ کے چچا زاد بھائی تھے۔ یہ شیبہ بن عثمان بن ابی طلحہ ہیں۔ جن کے خاندان میں اب تک کعبہ شریف کی کلید برداری چلی آرہی ہے اور اسی لیے اس خاندان کو شیبی خاندان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عثمان بن طلحہ سے ہی چابی لی تھی اور درمیان میں حضرت علی حضرت عباس (رض) اس کے طالب بن گئے تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ امانت کو امانت والوں کے پاس پہنچاؤ۔ (تفسیر درمنثور صفحہ ١٧٤: ج ٢) (تفسیر ابن کثیر صفحہ ٥١٥: ج ١) (اسباب النزول للواحدی صفحہ ١٥١) قرآن مجید کی متعدد آیات میں ادائے امانت کا حکم فرمایا ہے اور خیانت کرنے والوں کی مذمت کی ہے، سورة الانفال میں ارشاد فرمایا (یٰٓا أَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِکُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ) اے ایمان والو ! تم اللہ اور اس کے رسول کے حقوق میں خیانت نہ کرو اور آپس کی امانتوں میں خیانت نہ کرو حالانکہ تم جانتے ہو۔ سورة یوسف میں فرمایا (وَ اَنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِیْ کَیْدَ الْخَآءِنِیْنَ ) بلاشبہ اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کے فریب کو راہ نہیں دیتا۔ سورة انفال میں فرمایا (اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْخَآءِنِیْنَ ) بلاشبہ اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ سورة حج میں فرمایا (اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ خَوَّانٍ کَفُوْرٍ ) بلاشبہ اللہ تعالیٰ تعالیٰ خیانت کرنے والے ناشکرے کو پسند نہیں فرماتا۔ سورة معارج میں اچھے لوگوں کی صفات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمَانٰتِہِمْ وَعَہْدِھِمْ رَاعُوْنَ ) اور وہ لوگ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرنے والے ہیں۔ امانتوں کی تفصیل : سورة نساء کی آیت بالا اور دیگر آیات جو ہم نے نقل کی ہیں ان سب سے عمومی طور پر ہر قسم کی امانتوں کی ادائیگی کا حکم اور ہر قسم کی خیانت کی مذمت معلوم ہوئی۔ اللہ کے حقوق جو بندوں پر ہیں نماز، زکوٰۃ، روزے کفارات نذر اور ان کے علاوہ بہت سی چیزیں یہ سب امانتیں ہیں۔ جن کی ادائیگی یا اضاعت ہر شخص کو معلوم ہوتی ہے کہ میں نے کس حکم پر عمل کیا اور کس حکم کی حکم عدولی کی، دوسروں کو خبر بھی نہیں ہوتی۔ اسی طرح سے آپس میں حقوق العباد جو ایک دوسرے پر واجب ہیں وہ بھی امانتیں ہیں ان کی ادائیگی فرض ہے، کسی نے مال امانت رکھ دیا قرض دے دیا یا کسی سے مال غصب کرلیا یا کسی کے مال میں خیانت کرلی یا چوری کرلی یہ سب اموال امانتیں ہیں ان کی ادائیگی فرض ہے حکام کو بلکہ صاحب مال کو معلوم ہو یا نہ ہو ہر شخص اپنے اپنے متعلقہ احکام میں امانتدار ہے چھوٹے بڑے حکام اور ملوک اور رؤسا اور وزراء امانتدار ہیں۔ انہوں نے جو عہدے اپنے ذمہ لیے ہیں وہ ان کی ذمہ داری شریعت اسلامیہ کے مطابق پوری کریں۔ کسی بھی معاملے میں عوام کی خیانت نہ کریں۔ اسی طرح سے بائع اور مشتری اور سفر کے ساتھی اور پڑوسی اور میاں بیوی اور ماں باپ اور اولاد سب ایک دوسرے کے مال کے اور دیگر متعلقہ امور کے امانتدار ہیں جو بھی کوئی کسی کی خیانت کرے گا گنہگار ہوگا اور میدان آخرت میں پکڑا جائے گا۔ سورة بقرہ میں ارشاد فرمایا (فَاِنْ اَمِنَ بَعْضُکُمْ بَعْضًا فَلْیُؤَدِّ الَّذِی اؤْتُمِنَ اَمَانَتَہٗ وَلْیَتَّقِ اللّٰہَ رَبَّہٗ ) سو اگر تم میں سے ایک دوسرے پر اعتماد کرے تو جس پر اعتماد کیا گیا وہ دوسرے کی امانت کو ادا کر دے اور اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے۔ امانتداری ایمانی تقاضوں میں سے ہے : حضرت انس (رض) نے بیان فرمایا کہ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم سے خطاب فرمایا ہو اور یہ نہ ارشاد فرمایا ہو کہ لا ایمان لمن لا امانۃ لہ و لا دین لمن لا عھدلہ (اس کا کوئی ایمان نہیں جو امانتدار نہیں اور اس کا کوئی دین نہیں جو عہد کا پورا نہیں) ۔ (مشکوٰۃ المصابیح عن البیہقی فی شعب الایمان صفحہ ١٥) صحیح مسلم صفحہ ٥٦: ج ١ میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں اگرچہ نماز پڑھے اور روزے رکھے اور وہ یہ خیال کرے کہ میں مسلمان ہوں۔ (١) جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔ (٢) جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے۔ (٣) اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص میں چار چیزیں ہوں گی وہ خالص منافق ہوگا اور جس میں ان میں سے ایک خصلت ہوگی تو یوں سمجھا جائے گا کہ اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے جب تک اسے چھوڑ نہ دے۔ (١) اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ (٢) جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔ (٣) جب عہد کرے تو دھوکہ دے۔ (٤) جب جھگڑا کرے تو گالیاں بکے۔ (صحیح بخاری صفحہ ١٠: ج ١) حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہ جب تیرے اندر چار خصلتیں ہوں تو تجھے اس بات کا ضرر نہیں کہ دنیا کی باقی چیزیں تیرے پاس نہیں ہیں۔ (١) امانت کی حفاظت (٢) بات کی سچائی (٣) اخلاق کی خوبی (٤) لقمے کی پاکیزگی۔ (رواہ احمد و البیہقی فی شعب الایمان) مؤطا امام مالک میں ہے کہ حضرت لقمان حکیم سے کسی نے پوچھا کہ آپ علم و فضل کے اس مرتبے پر کیسے پہنچے انہوں نے جواب میں فرمایا کہ بات کی سچائی، امانت کی ادائیگی اور لایعنی سے پرہیز ان تینوں کی وجہ سے میں اس مرتبہ پر پہنچا۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٤٤٥) اداروں کے اموال کی حفاظت میں امانتداری : جن لوگوں کے ہاتھوں میں دوسروں کے اموال ہیں ان میں ملوک اور حکام بھی ہیں۔ اور یتیموں کے اولیاء بھی۔ مسجدوں کے متولی بھی اور مدارس کے مہتمم بھی۔ اور بیت المال کے نگران بھی۔ اور کہیں پر پڑا ہوا مال اٹھانے والے بھی۔ اور بہت سے عہدیدار ہیں جن پر دوسروں کے مالوں کی حفاظت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے یہ سب لوگ اس بات کے مامور ہیں کہ مالوں کی حفاظت کریں اور ذرا سی بھی خیانت نہ کریں۔ امانت کی حفاظت اور اس کی ادائیگی بہت بڑی ذمہ داری ہے، یہ سارے عہدے جنہیں دنیا میں خوشی خوشی قبول کرلیا جاتا ہے۔ پھر ان سے متعلقہ ذمہ داریوں کو پورا نہیں کیا جاتا قیامت کے دن وبال بن جائیں گے۔ حضرت ابوذر (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ مجھے کسی عمل پر نہیں لگاتے ؟ (یعنی مجھے کوئی عہدہ نہیں عنایت فرماتے ؟ ) اس پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے مونڈھے پر ہاتھ مارا پھر فرمایا اے ابو ذر ! تو ضعیف ہے اور بلاشبہ یہ عہدہ امانت ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قیامت کے دن رسوائی اور ندامت کا ذریعہ ہوگا سوائے اس شخص کے جس نے حق کے ساتھ لیا اور متعلقہ ذمہ داری کو پورا کیا۔ اور ایک روایت یوں ہے کہ آپ نے فرمایا اے ابو ذر ! میں تمہیں ضعیف دیکھتا ہوں اور میں تمہارے لیے وہ پسند کرتا ہوں جو اپنے لیے پسند کرتا ہوں دو آدمیوں کا امیر مت بننا اور یتیم کے مال کا متولی نہ ہونا۔ (رواہ مسلم) نااہلوں کو عہدے دینا خیانت ہے : بہت سے لوگ نا اہلوں کو اپنی کوشش سے یا اپنے اقتدار سے چھوٹے بڑے عہدے دے دیتے ہیں یا دلا دیتے ہیں حالانکہ یہ جانتے ہیں کہ جس کو عہدہ دیا جا رہا ہے۔ یہ اس عہدہ کا اہل نہیں ہے یہ عہدہ ایک امانت ہے اس کی ذمہ داری بہت بڑی ہے لیکن دنیاوی تعلقات اور دنیاوی منافع کے پیش نظر جو فاسقوں، فاجروں ظالموں بےنمازیوں کو عہدے دیئے اور دلا دیے جاتے ہیں، یہ سب امانت میں خیانت ہے، یہ نہیں دیکھا جاتا کہ جسے اقتدار سپرد کردیا جاتا ہے جب وہ عہدے تقسیم کرنے لگتا ہے تو یہ نہیں دیکھتا کہ جسے اقتدار سپرد کیا جا رہا ہے یہ شریعت اسلامیہ سے واقف ہے یا ناواقف ہے اس کے عقائد اسلامی ہیں یا غیر اسلامی جس کو عہدہ دیا جا رہا ہے اس پر خدا ترسی کی شان ہے بھی یا نہیں اور یہ دین پر چلے گا یا نہیں عوام کے ساتھ اس کا سلوک اچھا ہوگا یا برا۔ عہدہ سپرد کرنے میں رشتہ داریاں اپنی اپنی پارٹی کا آدمی دیکھا جاتا ہے یا وطنی عصبیتوں کی رعایت کی جاتی ہے، یعنی صرف یہ دیکھتے ہیں کہ یہ ہمارا آدمی ہے۔ اپنوں کو نوازنا مقصود ہوتا ہے دین خداوندی پر چلنے اور چلانے اور امت مسلمہ کے ساتھ عدل و انصاف اور خیر خواہی اور ہمدردی کے جذبات کا کہیں سے کہیں تک بھی دھیان نہیں ہوتا۔ اس لیے سارے فیصلے غیر شرعی ہوتے ہیں اور عوام عہدہ داروں کے ظالمانہ فیصلوں کو بھگتتے رہتے ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان کے متعلقہ امور سے جو شخص کسی امر کا والی بنا پھر اس نے ان پر کسی شخص کو (ذاتی) مروت اور تعلقات کی بنا پر امیر بنا دیا تو اس پر اللہ کی لعنت ہے اس سے کوئی فرض یا نفل قبول نہیں کیا جائے گا۔ یہاں تک کہ اللہ اس کو دوزخ میں داخل فرما دے گا۔ (الترغیب و الترہیب صفحہ ١٧٩) پھر جن لوگوں کے سیاسی وعدے ہوتے ہیں جب عہدہ مل جاتا ہے تو عوام پر ظلم بھی کرتے ہیں اور وعدہ فراموشی بھی کرتے ہیں اور عذر بھی کرتے ہیں، اس بارے میں جو ارشادات نبویہ ہیں ان سب کو یکسر بھول جاتے ہیں۔ حضرت معقل بن یسار (رض) سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مامن وال یلی رعیۃ من المسلمین فیموت و ھو غاشٌ لھم الاحرم اللّٰہ علیہ الجنۃ (صحیح بخاری صفحہ ١٠٥٢: ج ٤) جو بھی کوئی شخص مسلمانوں میں سے کچھ لوگوں کا والی بنا (یعنی ان کی دیکھ بھال اس کے ذمہ کی گئی) پھر وہ اس حال میں مرگیا کہ وہ ان کے ساتھ خیانت کرنے والا تھا تو اللہ اس پر جنت حرام فرما دے گا۔ دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں : مامن عبد یسترعیۃ رعیۃ فلم یحطھا بنصیحۃ الالم یجد رائحۃ الجنۃ۔ ” جس کسی بندہ کو اللہ نے چند افراد کا نگہبان بنایا پھر اس نے ان لوگوں کو اچھی طرح خیر خواہی نہ کی تو جنت کی خوشبو بھی نہ سونگھے گا۔ “ (صحیح بخاری صفحہ ١٠٥٩۔ ١٠٥٨: ج ٢) رعیت کو دھوکہ دینے کے بارے میں حدیث ذیل پڑھئیے۔ عن سعد رضی اللّٰہ عنہ عن النبی قال لکل غادر لواء عند استہ یوم القیامۃ و فی روایۃ لکل غادر لواء یوم القیامۃ یرفع لہ بقدر غدرہ الا ولا غادر اعظم غدراً من امیر عامۃ۔ ” حضرت سعید (رض) سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہ قیامت کے دن ہر دھوکہ دینے والے کے لیے ایک جھنڈا ہوگا جو اس کے پاخانہ کے مقام پر نصب کیا جائے گا وہ اس کے دھوکہ کے بقدر بلند کیا جائے گا (پھر فرمایا) خبردار جو شخص عوام کا امیر ہو اس کے غدر یعنی دھوکے سے بڑھ کر کسی کا غدر نہیں۔ “ (رواہ مسلم کما فی المشکوٰۃ صفحہ ٣٢٣) کام پورا نہ کرنا اور تنخواہ پوری لینا خیانت ہے : جو لوگ تنخواہ پوری لیتے ہیں اور کام پورا نہیں کرتے یا وقت پورا نہیں دیتے یہ سب لوگ خیانت کرنے والے ہیں۔ اسی طرح جو لوگ رشوت لیتے ہیں اور رشوت لینے کی وجہ سے کار مفوضہ انجام دینے کی بجائے رشوت دینے والے کی مرضی کے مطابق اس کا کام کردیتے ہیں، یہ لوگ بھی خیانت کرنے والے ہیں، رشوت حرام ہے ہی ملازمت کی تنخواہ بھی پوری حلال نہیں ہوتی کیونکہ جس کام کی تنخواہ دی جاتی ہے اس کے خلاف کام کرتے ہیں۔ درحقیقت امانتداری کی صفت بہت بڑی صفت ہے اور اس کو پورا کرنا ایمان کا بہت بڑا مطالبہ ہے۔ یہ ایسی عظیم صفت ہے۔ جو انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے۔ یہ صفت صرف مالیات ہی سے متعلق نہیں۔ مجلسیں امانت کے ساتھ ہیں : دیگر امور میں بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امانتداری پر قائم رہنے کا حکم دیا۔ آپ نے فرمایا ہے کہ المجالس بالامانۃ کہ مجلسیں امانت کے ساتھ ہیں (رواہ ابو داؤد فی کتاب الادب) یعنی مجلس میں جو باتیں ہوتی ہیں ان کو مجلس سے باہر لے جانا اور تجھ مجھ سے بیان کردینا امانتداری کے خلاف ہے اور اہل مجلس کی خیانت ہے ہاں اگر مجلس میں کسی کا خون کرنے کا یا زنا کاری کا یا کسی کا ناحق مال حاصل کرنے کا مشورہ کیا گیا ہو تو اس کو دوسروں سے بیان کرسکتا ہے تاکہ اس گناہ پر عمل نہ ہو وقد ذاد فی الحدیث الاثلثۃ مجالس سفک دم حرام و فرج حرام او اقتطاع مال بغیر حق ایک حدیث میں ہے کہ جب کسی آدمی نے کوئی بات کہی پھر اس نے ادھر ادھر دیکھا (کہ کوئی سن تو نہیں رہا) تو یہ بات امانت ہے۔ (رواہ الترمذی و ابو داؤد) مشورہ دینا امانت ہے : اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ان المستشار مؤتمن کہ جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امانت دار ہوتا ہے (رواہ الترمذی فی ابواب الزہد) مطلب یہ ہے کہ جس سے مشورہ لیا جائے اس پر واجب ہے کہ صحیح مشورہ دے جو اس کے نزدیک مشورہ لینے کے حق میں بہتر ہو۔ اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس نے اپنے بھائی کو کسی ایسی بات کا مشورہ دیا جس کے بارے میں وہ جانتا ہے کہ یہ مشورہ مصلحت کے خلاف ہے تو اس نے مشورہ لینے والے کی خیانت کی۔ (اخرجہ ابو داؤد فی کتاب العلم) بلا اجازت کسی کے گھر میں نظر ڈالنا خیانت ہے : آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بھی فرمایا کہ تین کام ایسے ہیں کہ جن کا کرنا کسی کے لیے حلال نہیں : (١) جو شخص کسی جماعت کا امام بنے پھر ان کو چھوڑ کر صرف اپنے لیے ہی دعا کرے اگر ایسا کیا تو اس نے خیانت کی۔ (٢) جو شخص اجازت لیے بغیر کسی گھر میں نظر ڈالے اگر اس نے ایسا کیا تو گھر والوں کی خیانت کی۔ (٣) کوئی شخص پیشاب پاخانہ رو کے ہوئے نماز نہ پڑھے جب تک ہلکا نہ ہوجائے (یعنی ان سے فارغ نہ ہوجائے) ۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٩٦) ان احادیث شریفہ سے معلوم ہوا کہ اموال کے علاوہ دیگر امور میں بھی امانت داری کی صفت کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ عدل و انصاف کا حکم : ادائیگی امانت کا حکم فرمانے کے بعد فیصلوں میں عدل و انصاف کرنے کا حکم فرمایا اور ارشاد فرمایا (وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بالَعَدْلِ ) (اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلے کرو تو عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے کرو) شریعت اسلامیہ میں جن امور کا بہت زیادہ اہمیت اور تاکید کے ساتھ حکم دیا گیا ہے ان میں انصاف کے ساتھ فیصلے کرنا بھی ہے۔ عدل و انصاف کرنے والوں کو بلند مراتب کی خوشخبری دی گئی ہے اور ظالمانہ فیصلے کرنے والوں کی مذمت کی گئی ہے اور ان کے لیے بڑی بڑی وعیدیں ہیں اللہ تعالیٰ شانہ نے جو فیصلوں کے قوانین اپنی کتاب اور اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ بھیجے ہیں ان کے مطابق فیصلے کرنے ہی سے انصاف ہوگا، نیز اللہ کے قانون میں جس کی جو چیز ہو اور جس کا جو حق ہو وہ حق اور وہ چیز مستحق کو دلانے سے انصاف قائم ہوگا۔ قرآن و حدیث کے خلاف فیصلے ظالمانہ ہیں : انسانوں نے اپنی طرف سے جو دسا تیر اور قوانین بنائے ہیں عموماً وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف ہیں۔ قرآن و حدیث کے خلاف فیصلے کرنا ظلم ہے۔ اگرچہ اہل دنیا اسے انصاف ہی کہتے ہوں۔ میراث اور وصیت دیت اور قصاص حدود اور جنایات کے شرعی قوانین، تجارت زراعت سے متعلقہ احکام نکاح و طلاق کے مسائل، حکومت سپرد کرنے اور حکومت چلانے کے قوانین اور انسانی زندگی میں جو کچھ پیش آتا ہے اس کے اصول و قواعد جو شریعت اسلامیہ نے بتائے ہیں ان کے خلاف فیصلے دینا ظلم ہے۔ سورة مائدہ میں فرمایا (وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓءِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ ) (اور جو شخص اس کے مطابق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے اتارا تو یہ لوگ ظلم کرنے والے ہیں) جن ملکوں میں کافروں کی عملداری ہے وہاں تو اللہ کی شریعت کے خلاف فیصلے ہوتے ہی ہیں لیکن جن ملکوں میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اقتدار دیا ہے وہاں کے ذمہ دار بھی اسلامی احکام کو قبول کرنے اور ان کے مطابق فیصلے کرنے کو تیار نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں لیکن جب ان کے سامنے یہ بات آتی ہے کہ اسلامی قوانین نافذ کرو تو کانوں پر ہاتھ دھرتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ عوام جو مغربی قوانین کے مطابق فیصلوں کے باعث ظلم سہتے ہیں وہ بھی اسلامی نظام نافذ کرنے کے حق میں نہیں۔ دعویٰ مسلمان ہونے کا کرتے ہیں اور قوانین اور احکام دشمنان دین کے نافذ کرتے ہیں۔ سورة مائدہ میں فرمایا (اَفَحُکْمَ الْجَاھِلِیَّۃِ یَبْغُوْنَ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ حُکْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ ) (کیا پھر یہ لوگ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں اور فیصلہ کرنے میں اللہ سے اچھا کون ہوگا، یقین رکھنے والوں کے لیے۔ ) ظالمانہ فیصلوں کی وجہ سے مصائب کی کثرت : اب جو غیر اسلامی فیصلے ہو رہے ہیں ان کی وجہ سے آفات اور مصائب کا طوفان آیا ہوا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان فرمایا کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر تھے آپ نے فرمایا تمہارا کیا حال ہوگا جب تمہارے اندر پانچ چیزیں موجود ہوجائیں اور میں اللہ سے پناہ مانگتا ہوں کہ وہ چیزیں تمہارے اندر موجود ہوں : (١) جس قوم میں زنا کاری کھلم کھلا ہونے لگے گی ان میں طاعون پھیل جائے گا اور ایسے ایسے مرض ظاہر ہوجائیں گے جو ان کے آباؤ اجداد میں نہیں تھے۔ (٢) اور جو لوگ زکوٰۃ دینا روک دیں گے ان کو آسمان کے قطروں سے یعنی بارش سے محروم کردیا جائے گا۔ اگر چوپائے نہ ہوں تو (بالکل بھی) بارش نہ ہو۔ (٣) اور جو لوگ ناپ تول میں کمی کریں گے ان کو قحط بھیج کر سزا دی جائے گی اور ان کو سخت محنت اور صاحب اقتدار کے ظلم میں مبتلا کردیا جائے گا۔ (٤) اور جس قوم کے امراء اس فیصلے کے علاوہ کوئی فیصلہ کریں گے جو اللہ نے نازل فرمایا تو اللہ تعالیٰ ان پر دشمن مسلط فرما دے گا پھر یہ دشمن ان کے قبضے کی بعض چیزوں پر قبضہ کرلیں گے۔ (٥) اور جو لوگ اللہ کی کتاب کو اور اس کے نبی کی سنت کو معطل کردیں گے یعنی اس پر عمل کرنا چھوڑ دیں گے اللہ تعالیٰ ان کے درمیان جنگ وجدال کی صورت پیدا فرما دیں گے۔ (ذکرہ المنذری فی الترغیب و الترھیب صفحہ ٣٠: ج ٣ وعزاہ الی البیھقی و قال فی آخرہ رواہ الحاکم بنحوہ من حدیث بریدۃ و قال صحیح علی شرط مسلم) حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ جس کسی قوم میں خیانت ہونے لگے تو اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں رعب ڈال دیتے ہیں اور جو لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگتے ہیں ان کا رزق کاٹ دیا جاتا ہے اور جو لوگ ظلم کے فیصلے فیصلہ کرتے ہیں ان میں خونریزی پھیل جاتی ہے اور جو لوگ عہد شکنی کرتے ہیں ان پر دشمن مسلط کردیا جاتا ہے۔ (رواہ مالک فی الموطا وھو موقوف فی حکم المرفوع) تقویٰ کے بغیر انصاف نہیں ہوسکتا انصاف جبھی ہوسکتا ہے جبکہ اللہ کا خوف ہو، تقویٰ ہو، حق کا اتباع مقصود ہو، قرآن و حدیث کا علم ہو قضا کے احکام اور مسائل سے واقفیت ہو۔ امیر و غریب اپنے پرائے، چھوٹے بڑے کی کوئی رعایت نہ ہو، عادلانہ فیصلے کا معیار ایک حدیث میں یوں بتایا وحکموا للناس کحکمھم لانفسھم کہ لوگوں کے درمیان وہی فیصلے کرتے ہیں جو اپنی جانوں کے بارے میں فیصلے کرتے ہیں (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٣٢٢) مطلب یہ ہے کہ جیسے اپنے لیے حق و انصاف چاہتے ہیں اسی طرح جب دوسروں کے بارے میں فیصلہ کرنے لگیں تب بھی حق و انصاف اختیار کریں۔ آج کل فیصلہ اس کے حق میں ہوتا ہے جو ہم وطن ہو یا ہم پیشہ ہو یا ہم زبان ہو ایسے حاکم کے لیے آخرت میں سخت عذاب ہے جو ظلم کا فیصلہ دے اور ظالم کا ساتھی بنے اور اس کی رعایت کرے جس سے کسی قوم کا تعلق ہو اور جس کا واقعی شرعی حق بنتا ہوا سے حق سے محروم کر دے، رشوتیں لے کر بھی فیصلے دیئے جاتے ہیں جس نے رشوت دے دی موٹی رقم پکڑا دی اس کے حق میں فیصلہ کردیا جاتا ہے۔ یہ رشوتیں اور موٹی رقمیں نوٹوں کے گڈے دنیا میں اچھے لگتے ہیں لیکن آخرت میں جو ان کا وبال ہوگا اس کی طرف سے بیخبر ہیں۔ انصاف کے فیصلے کرنے والوں کے لیے بشارت اور ظالموں کی ہلاکت : جیسے ظلم کرنے والوں کے لیے وعیدیں ہیں ایسے ہی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مطابق فیصلے کرنے والوں کے لیے بشارتیں ہیں حضرت بریدہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ قاضی (فیصلہ دینے والے) تین قسم کے ہیں ان میں سے ایک جنت میں ہے اور دو دوزخ میں ہیں، جنت والا تو وہ شخص ہے جس نے حق کو پہچانا اور اس کے مطابق فیصلہ کیا اور ان میں سے ایک وہ شخص ہے جس نے حق کو پہچانا اور ظلم کا فیصلہ کیا سو یہ شخص دوزخ میں ہوگا اور ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو جہالت کے ساتھ لوگوں کے درمیان فیصلے کرتا ہے (اس کو حق ناحق کا کچھ پتہ نہیں) سو یہ بھی دوزخ میں ہوگا۔ (رواہ ابو داؤد والترمذی و ابن ماجہ کما فی الترغیب صفحہ ١٥٦: ج ٣) جن سات آدمیوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ قیامت کے دن وہ اللہ کے عرش کے سائے میں ہوں گے جس دن اللہ کے سایہ کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا ان میں سب سے پہلے امام عادل کا ذکر ہے یعنی مسلمانوں کا وہ اعلیٰ اقتدار والا شخص جو انصاف کرنے والا ہو۔ (رواہ البخاری صفحہ ١٩١: ج ١) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ہے کہ اہل جنت تین قسم کے لوگ ہوں گے : (١) وہ صاحب اقتدار جو انصاف والا ہے اور اسے خیر کی توفیق دی گئی ہے۔ (٢) وہ شخص جو رحم کرنے والا ہے نرم دل ہے، ہر قرابت دار کے لیے جو مسلمان ہو۔ (٣) وہ شخص جو صاحب اہل و عیال ہوتے ہوئے (حرام سے اور سوال سے) پرہیز کرنے والا ہو اور پرہیز کرنے کا اہتمام کرتا ہو۔ (رواہ مسلم کما فی الترغیب صفحہ ١٦٧: ج ٣) حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ کو سب سے زیادہ پیا را اور اللہ سے سب سے زیادہ قریب مجلس کے اعتبار سے امام عادل ہوگا اور اللہ کو سب سے زیادہ مبغوض اور مجلس کے اعتبار سے اللہ سے سب سے زیادہ دور امام جائر ہوگا۔ (الترغیب صفحہ ١٦٧: ج ٣ عن الترمذی و الطبرانی) حاکم جائر سے مراد ہے ظلم کرنے والا شخص جسے اقتدار اعلیٰ حاصل ہو۔ حاکم بننا اور فیصلے کرنے کی ذمہ داری اپنے سر لے لینا یہ معمولی چیز نہیں یہ ذمہ داری بہت بڑی ہے اور آخرت میں اس کا حساب بہت بڑا ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص لوگوں کے درمیان فیصلے کرنے والا مقرر کردیا گیا تو وہ بغیر چھری کے ذبح کردیا گیا۔ (رواہ احمد والترمذی و ابو داؤد و ابن ماجہ کما فی المشکوٰۃ صفحہ ٣٢٤) مطلب یہ ہے کہ اس عہدے کا انجام بہت برا ہے عام طور سے لوگ عدل و انصاف پر قائم نہیں رہتے قیامت کے دن یہ عہدہ و بال بنے گا اور اس عہدے کی ذمہ داریوں کو پورا نہ کرنے پر جو عذاب ہوگا اس کو اس دنیا میں اس طرح سمجھ لیا جائے جیسے کسی کو چھری کی بجائے (دھار دار آلے کے علاوہ) کسی چیز سے ذبح کردیا جائے چھری سے ذبح کرنے کی تکلیف ذرا دیر ہوتی ہے لیکن اگر بغیر چھری کے ذبح کیا جائے تو اس کی تکلیف بہت ہی زیادہ ہوتی ہے۔ حاکموں کو ضروری تنبیہ : اس حدیث پر ہر وہ شخص غور کرے جو حاکم و قاضی و مجسٹریٹ بنا ہوا ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہ جو بھی کوئی حاکم لوگوں کے درمیان فیصلے کرتا ہے قیامت کے دن اسے لایا جائے گا پھر جہنم کے کنارے پر اسے کھڑا کردیا جائے گا پھر اگر حکم ہوگا کہ اسے دھکا دے دیا جائے تو اس کو دھکیل دیا جائے گا جس کے نتیجے میں وہ ستر سال تک گہرائی میں گرتا چلا جائے گا۔ (رواہ البزار کما فی الترغیب صفحہ ١٨٣: ج ٣) حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ انصاف کرنے والے قاضی پر قیامت کے دن ضرور ایک ایسی گھڑی آئے گی کہ وہ حساب کی سختی کی وجہ سے یہ تمنا کرے گا کہ میں کبھی کسی ایک کھجور کے بارے میں بھی فیصلہ نہ کرتا تو اچھا تھا۔ (الترغیب صفحہ ١٥٧: ج ٣) حاکم کیسے شخص کو بنایا جائے ؟ شاید کسی کو یہ خیال گزرے کہ جب یہ وعیدیں ہیں تو لوگوں کے درمیان جو جھگڑے ہوں ان کے فیصلے کون کرے گا ؟ جواب یہ ہے کہ شریعت کے اصول کے مطابق اگر کسی کو حاکم بنا دیا جائے اور پھر وہ شریعت کے مطابق فیصلے کرے حق و انصاف کو سامنے رکھے قرآن و حدیث کے مطابق اپنی زندگی گزارے اور دوسروں کو بھی اس پر ڈالے تو ایسا قاضی انشاء اللہ کامیاب ہوگا۔ وہ اصول کون سا ہے جس کے موافق قاضی بنایا جائے ؟ وہ یہ ہے کہ جو شخص قاضی بننے کی تمنا نہ کرے نہ اس کا طلب گار ہو نہ اس کے لیے کوشش کریں نہ سفارشیں کروائے نہ رشوتیں دے اور عہدہ قضا سے بچتا رہے اس کو قاضی بنا دیا جائے۔ حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص عہدہ قضا کا طلبگار ہو اور اس سلسلے میں سفارش کرنے والوں سے سوال کرے (جس پر اسے عہدہ دے دیا جائے) تو وہ اپنے نفس کے حوالے کردیا جائے گا (یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی مدد نہ ہوگی وہ جانے اس کا نفس جانے جب ایسا ہوگا تو ظاہر ہے کہ نفس کے موافق فیصلے ہوں گے) اور جس کو قاضی بننے پر مجبور کیا جائے اللہ تعالیٰ اس کے پاس ایک فرشتہ بھیج دیتا ہے جو اسے ٹھیک راستے پر چلاتا رہتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص عہدہ قضا کا طلبگار ہو اسے تو عہدہ سپرد کیا ہی نہ جائے جس کے دل میں خواہش ہے کہ میں فیصلے کرنے والا بنوں وہ حق پر قائم نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ اس کی رغبت اور خواہش بتارہی ہے کہ وہ اس سے دنیاوی منافع حاصل کرے گا اسے جاہ اور مال کی رغبت ہے اس لیے وہ اس عہدے کا طالب ہوا۔ اس کو عہدہ مل جائے گا تو فیصلے اپنی مرضی کے مطابق کرے گا اور جہالت کے ساتھ کرے گا، رشوتیں بھی لے گا اور اپنے پرائے کا خیال بھی کرے گا اور جس پر زبر دستی کر کے عہدہ قضا ڈال دیا گیا وہ اس کی ذمہ داریوں سے جیسا پہلے ڈرتا تھا ایسے ہی اب اپنے نفس کو ذمہ داریاں پوری کرنے کا پابند بنائے گا، یہ ایک ایسا سنہری اصول ہے کہ اسے اختیار کرلیا جائے تو فیصلوں میں جو ظلم ہوتے ہیں ان کی روک تھام ہوجائے گی۔ اب تو ہوتا یہ ہے کہ جن کو جج اور مجسٹریٹ بننا ہے وہ پڑھتے ہی اس لیے ہیں کہ ڈگری لے کر اس کام میں لگیں گے پھر درخواستیں دیتے ہیں۔ سفارشیں لاتے ہیں رشوتیں دیتے ہیں پھر جن لوگوں کے ہاتھ میں تقرر ہوتا ہے وہ بھی رشوتوں اور سفارشوں اور ڈگریوں کی بنیاد پر حج اور مجسٹریٹ بنا دیتے ہیں۔ اور اوپر جسٹس تک یہی سلسلہ چلتا ہے یہ جس کا تقرر کرتے ہیں اس کے بارے میں یہ تو دیکھا ہی نہیں جاتا کہ اسے قرآن و حدیث کا کچھ علم ہے یا نہیں اور اس میں تقویٰ کتنا ہے خدا ترسی کتنی ہے۔ اس سے انصاف کی امید کتنی ہے۔ حاکم تک کوئی شخص خود نہیں پہنچ سکتا وکیل کے بغیر حاکم کے ہاں کسی مظلوم کا کیس پیش نہیں ہوسکتا اول وہ وکیل کی فیس فراہم کرے پھر اس کا استغاثہ دائر ہو پھر تاریخوں پر تاریخیں پڑتی رہتی ہیں جس سے اس کے وقت اور پیسے کا خون ہوتا رہتا ہے یہ دشمنان اسلام کا طریق کار ہے مجسٹریٹ اس سے مانوس ہیں اور اسی پر چلتے ہیں اور اسی کی تنخواہ لیتے ہیں مظلوم کی داد رسی کا ذرا دھیان نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی نصیحت قبول کرنے میں خیر ہے : آخر میں فرمایا (اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیْعًا بَصِیْرًا) (بلاشبہ اللہ تعالیٰ جس چیز کی تمہیں نصیحت فرماتا ہے وہ بہت اچھی ہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ سننے والا دیکھنے والا ہے) مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ شانہ نے جو حکم دیا ہے اس میں تمہارے لیے بہتری ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد اور ہدایت تمہارے لیے سراپا بہتر ہے اس میں دنیا و آخرت کی خیر ہے اس کو خوشی سے قبول کرو اور عمل کرو۔ اور جو شخص نصیحت نہ مانے گا خیر کو قبول نہ کرے گا، اللہ تعالیٰ اسے اس کی جزا دے دے گا وہ سمیع یعنی سننے والا ہے اور بصیر یعنی دیکھے والا ہے کسی کا کوئی عمل اس کے علم سے خارج نہیں درحقیقت یہ بہت بڑی تنبیہ ہے جو لوگ خلاف شرع فیصلے کرنے اور نا اہلوں اور ظالموں کو اور رشوت خوروں کو عہدہ قضا دینے کے خوگر ہوگئے ہیں وہ سب لوگ اس کا مراقبہ کریں اور غور کریں کہ آخر بار گاہ خداوندی میں پیش ہونا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

حصہ دوم (احکام سلطانیہ): پہلا حکم سلطانی : حقداروں کو ان کے حقوق دلواؤ اور فیصلے انصاف سے کیا کرو یہاں خطاب حکام اور امراء مسلمین کو ہے جیسا کہ حضرت علی اور دوسرے مفسرین سے منقول ہے۔ قال علی بن ابی طالب و زید بن اسلم و شھر بن حوشب وابن زید ھذا خطاب لولاۃ الملمین خاصۃ الخ (قرطبی ج 5 ص 256) یہاں حکام اور صاحب اقتدار طبقہ کو حکم دیا گیا کہ حقداروں کے حقوق لوگوں سے دلواؤ اور باہمی نزاعات اور جھگڑے عدل و انصاف سے طے کرو اور رعیت کو حکم دیا گیا کہ ایسے حکام کی فرمانبرداری کرو اور اپنے جھگڑے ایسے حکام کے پاس لے جایا کرو جو عدل و انصاف سے فیصلہ کیا کریں۔ حضرت شیخ (رح) نے فرمایا کہ اَمَانَات سے یہاں مراد عام ہے اور ہر قسم کی ذمہ داریوں اور عدل و انصاف کے فیصلوں کو شامل ہے الخطاب عام یتناول الولاۃ فیما الیھم من الامات فی قسمۃ الاموال ورد الظلامات و عدل الحکومات الخ (بحر ج 3 ص 277) ۔ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیءٍ الخ اس میں خطاب حکام اور رعایا سے ہے یعنی اگر حکام اور رعایا میں کسی معاملہ میں تنازع یا اختلاف پیدا ہوجائے تو اس کو ختم کرنے صورت یہ ہے کہ اس کے متعلق اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی طرف رجوع کیا جائے اور کتاب و سنت سے جو ہدایات ملیں ان پر عمل کیا جائے نہ یہ کہ چند انسانوں کی ایک مشاورتی ٹیم کو فیصل بنا کر اس کے فیصلوں کو حرف آخر کی حیثیت دی جائے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 بلاشبہ اللہ تعالیٰ تم کو اس بات کا حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان اہل امانت کو ادا کردیا کرو اور ان تک پہنچا دیا کرو اور نیز یہ حکم دیتا ہے کہ جب تم لوگوں کے مابین کوئی فیصلہ اور تصفیہ کیا کرو تو انصاف کے ساتھ کیا کرو اور یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ تم کو جس بات کی نصیحت کرتا ہے وہ بات بہت اچھی ہے بلاشبہ اللہ تعالیٰ خوب سننے اور دیکھنے والا ہے ۔ (تیسیر) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی امانت ہیں خیانت مت کرو اور چکوتی میں خاطر مت کر خواہ کسی کے واسطے یہ عادتیں یہود میں بہت تھیں، اسی واسطے بعضے کچے مسلمان قضیہ چکانے کو حضرت کے پاس نہ آتے کہ یہ کسی کی خاطر نہ رکھیں گے اور یہود کے عالموں کے پاس جاتے کہ وہ خاطر کریں گے آگے مسلمانوں کو تقید فرمایا کہ جب تک ہر قضیے میں اور ہر حکم میں رسول ہی کی طرف رجوع نہ رکھو اور دل سے اس کے حکم پر راضی نہ ہو جب تک تم کو ایمان نہیں ۔ (موضح القرآن) اگرچہ آیت کا شان نزول اکثر علماء مفسرین کے نزدیک عثمان بن طلحہ کے بارے میں ہے جیسا کہ روایات میں آتا ہے کہ فتح مکہ کے دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خانہ کعبہ کی کنجی عثمان بن طلحہ سے جو کلید بردار تھے حاصل کرلی اور کجی پر قبضہ کرلیا۔ اس پر حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نازل ہوئے اور یہ آیتیں تلاوت فرمائیں اس پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عثمان بن طلحہ کو بلا کر وہ کنجی ان کو واپس دے دی اور دیتے وقت فرمایا خالدۃ تالدۃ یعنی ہمیشہ ہمیشہ یہ کنجی تیرے پاس رہے گی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آیت کسی اور موقعہ پر نازل ہوئی ہو اور حضور نے کنجی واپس کرتے وقت چونکہ یہ آیت پڑھی تھی اس لئے لوگ یہ سمھے ہوں کہ یہ آیت اسی معاملہ میں نازل ہوئی ہے۔ بہرحال ہم عرض کرچکے ہیں کہ شان نزول خواہ کچھ ہو مگر آیت اس قدر عام ہے کہ ہر اہل حق کا حق ادا کرنے کی اس میں تاکید موجود ہے حتی کہ انسان کے اعضاء کا بھی انسان پر حق ہے اور ان حقوق کو پورا کرنے کا حکم ہے جس چیز کا حق بھی انسان کے ذمہ ہو وہ ایک امانت ہے اور اس کی ادائیگی ضروری ہے بلکہ اہل سلوک کا یہ قول مشہور ہے کہ کل کمال فی الممکن فھو لیس بداتہ بل مقتبس من مرتبۃ الوجوب و امانتہ مودعۃ مستعارۃ منہ تعالیٰ یعنی ممکن کا ہر کمال اپنا ذاتی کمال نہیں ہے بلکہ واجب جل مجدہ کا عطا کردہ اور اس کی ایک امانت ہے جو ممکن کو مستعار طور پر عطا کی گئی ہے ۔ بہرحال آیت کا مطلب یہ ہے کہ تمام اہل حقوق کے حقوق ان تک پہنچا دو اور کسی کا حق غصب نہ کرو اور شان نزول سے اس کی تائید ہوتی ہے کیونکہ عثمان بن طلحہ کے پاس کنجی ایک مدت سے چلی آتی تھی فتح مکہ کے دن حضرت علی نے ان سے چھین لی تھی وہ کنجی ان کا ایک حق تھا جو ان کو امانت کی آیت نازل ہونے پر واپس کیا گیا گویا وہ کنجی جو ارباب حل و عقد نے ان کے حوالے کی تھی اور کعبہ کے دروازے کا منتظم بنایا تھا وہ کام قیامت تک کے لئے ان ہی کے سپرد کردیا گیا۔ اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ کسی ایسے متولی کو جو نیک ہو اور انتظام کی صلاحیت رکھتا ہو اس کو وقف سے علیحدہ نہ کیا جائے۔ اگرچہ ان اللہ یا مرکم میں خطاب عام ہے لیکن بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اہل حقوق کے حقوق کی واپسی اور فیصلے میں انصاف کرنا یہ خطاب حکام کو ہے۔ جیسا کہ بعض مفسرین نے اس کو ترجیح دی ہے اور یہ جو فرمایا ان اللہ نعما یعظکم بہ ا س کا مطلب یہ ہے کہ امانت کی واپسی اور قضایا میں عدل و انصاف جس کی اللہ تعالیٰ تم کو نصیحت فرما رہا ہے یہ بہت اچھی چیز ہے آیت کو سمیع اور بصیر پر ختم فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ ادائے امانت اور عدل و انصاف کے بارے میں تم جو باتیں کہتے ہو ان کو وہ سنتا ہے اور جو افعال تم کرتے ہو ان کو وہ دیکھتا ہے اس لئے جو کرد اور جو کہو وہ سوچ کر سمجھ کر کہو اور کرو۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حق ہو یا بندے کا حق ہو یا خود اپنے نفس کا حق ہو سب کو ضخیح طور پر ادا کرنا چاہئے الفاظ کی جامعیت بےحد تفصیل کی محتاج ہے اور سچ تو یہ ہے کہ قرآن کریم کے یہ دو جملے پوری شریعت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حاوی ہیں۔ سبحان من جعل القرآن معجزا۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایسا بہت کم ہوتا تھا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی کسی تقریر میں یہ الفاظ فرماتے ہوں کہ جو شخص امانت پوری نہیں کرتا وہ مومن نہیں ہے اور عہد کو پورا نہ کرے اس کا کوئی دین نہیں۔ (بیہقی) صحیح احادیث میں امانت کی خیانت کو علامات نفاق میں سے شمار کیا گیا ہے۔ حضرت ابوذر سے مرفوعاً روایت ہے کہ میں نے سرکار رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں عرض کی کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے عامل بنا دیجیے اور سکی مقام پر عامل کردیجیے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اے ابو ذر (رض) تو ایک کمزور آدمی ہے اور یہ محکمہ ایک امانت ہے اور قیامت کے دن یہ ندامت اور رسوائی کا موجب ہے مگر ہاں وہ شخص محفوظ ہے جو صحیح حق وصول کرے اور جس کا حق ہو اس کو پورا پورا ادا کرے۔ اسی روایت کا ایک ٹکڑا یہ ہے کہ اے ابو ذر ! میں تجھ کو کمزور پاتا ہوں اور میں جو بات اپنے لئے پسند کرتا ہوں وہی تیرے لئے پسند کرتا ہوں دو آدمیوں سے پنچ بننے سے احتراز کر اور یتیم کے مال کا متولی بننے سے بچتا رہ۔ (مسلم) مطلب یہ ہے کہ دونوں باتیں بڑی ذمہ داری کی ہیں اور ان میں کوتاہی ہوجانے کا خطرہ ہے اس لئے محتاط آدمی کو ان سے بچنا چاہئے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کی روایت میں مرفوعاً آیا ہے کہ انصاف کرنے والے رحمٰن کی دائیں جانب نور کے ممبروں پر بیٹھے ہوں گے اور رحمٰن کے دونوں ہی ہاتھ دائیں ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو ہر فیصلہ انصاف کے ساتھ کرتے ہیں خواہ معاملہ ان کی اہل کا ہو یا ان لوگوں کا ہو جن پر یہ والی بنائے گئے ہوں۔ (مسلم) حضرت ابوسعید کی روایت میں مرفوعاً آیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب لوگوں سے زیادہ محبوب وہ لوگ ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کے سب سے قریب وہ لوگ ہوں گے جو امام عادل ہیں اور سب لوگوں سے زیادہ مبغوض اور مجلس کے اعتبار سے دور اور عذاب کے اعتبار سے سخت وہ لوگ ہوں گے جو امام ظالم ہیں۔ (ترمذی) مطلب یہ ہے کہ ظالم حاکموں کے لئے سخت وعید ہے اور منصف حاکموں کے لئے بشارت ہے حضرت عائشہ کی روایت میں مرفوعاً آیا ہے کہ تم جانتے ہو کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سایہ میں کون شخص سبقت کرنے والا ہے لوگوں نے کہا اللہ اور اس کے رسول ہی کو معلوم ہے۔ آپ نے فرمایا یہ سبقت کرنے والے وہ لوگ ہیں کہ جب ان کا حق ان کو دیا جائے تو اس کو قبول کرلیں اور ان سے حق طلب کیا جائے تو اس کو ادا کردیں اور جب لوگوں میں تصفیہ کریں تو ایسا تصفیہ کریں جیسا اپنے لئے کرتے ہیں (احمد بیہقی) مطلب وہی ہے کہ فیصلہ ایسا منصفانہ کریں جیسا اپنے لئے چاہتے ہیں اب آگے عام مسلمانوں کو اطاعت و فرما نبرداری کا حکم دیتے ہیں یعنی حاکموں کو نصیحت کرنے کے بعد محکموں کو فرماں برداری اور حاکموں کا حکم ماننے کی تاکید فرماتے ہیں۔ (تسہیل)