Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 81

سورة النساء

وَ یَقُوۡلُوۡنَ طَاعَۃٌ ۫ فَاِذَا بَرَزُوۡا مِنۡ عِنۡدِکَ بَیَّتَ طَآئِفَۃٌ مِّنۡہُمۡ غَیۡرَ الَّذِیۡ تَقُوۡلُ ؕ وَ اللّٰہُ یَکۡتُبُ مَا یُبَیِّتُوۡنَ ۚ فَاَعۡرِضۡ عَنۡہُمۡ وَ تَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیۡلًا ﴿۸۱﴾

And they say, "[We pledge] obedience." But when they leave you, a group of them spend the night determining to do other than what you say. But Allah records what they plan by night. So leave them alone and rely upon Allah . And sufficient is Allah as Disposer of affairs.

یہ کہتے ہیں کہ اطاعت ہے پھر جب آپ کے پاس سے اٹھ کر باہر نکلتے ہیں تو ان میں سے ایک جماعت جو بات آپ نے یا اس نے کہی ہے اس کے خلاف راتوں کو مشورہ کرتی ہے ، ان کی راتوں کی بات چیت اللہ لکھ رہا ہے تو آپ ان سے منہ پھیر لیں اور اللہ پر بھروسہ رکھیں ، اللہ تعالٰی کافی کارساز ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَيَقُولُونَ طَاعَةٌ ... They say: "We are obedient," Allah states that the hypocrites pretend to be loyal and obedient. ... فَإِذَا بَرَزُواْ مِنْ عِندِكَ ... but when they leave you, meaning, when they depart and are no longer with you, ... بَيَّتَ طَأيِفَةٌ مِّنْهُمْ غَيْرَ الَّذِي تَقُولُ ... a section of them spends all night in planning other than what you say. They plot at night among themselves for other than what they pretend when they are with you. Allah said, ... وَاللّهُ يَكْتُبُ مَا يُبَيِّتُونَ ... But Allah records their nightly (plots). meaning, He has full knowledge of their plots and records it through His command to His scribes, the angels who are responsible for recording the actions of the servants. This is a threat from Allah, stating that He knows what the hypocrites try to hide, their plotting in the night to defy the Messenger and oppose him, even though they pretend to be loyal and obedient to him. Allah will certainly punish them for this conduct. In a similar Ayah, Allah said, وَيِقُولُونَ امَنَّا بِاللَّهِ وَبِالرَّسُولِ وَأَطَعْنَا ثُمَّ يَتَوَلَّى فَرِيقٌ مِّنْهُمْ مِّن بَعْدِ ذلِكَ وَمَأ أُوْلَـيِكَ بِالْمُوْمِنِينَ They say: "We have believed in Allah and in the Messenger, and we obey," then a party of them turn away thereafter, such are not believers. (24:47) Allah's statement, ... فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ ... So turn aside from them, means, pardon them, be forbearing with them, do not punish them, do not expose them to the people and do not fear them. ... وَتَوَكَّلْ عَلَى اللّهِ وَكَفَى بِاللّهِ وَكِيلً and put your trust in Allah. And Allah is Ever All-Sufficient as a Disposer of affairs. meaning, He is sufficient as Protector, Supporter and Helper for those who rely on Him and return to Him.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

81۔ 1 یعنی یہ منافقین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں جو باتیں ظاہر کرتے۔ راتوں کو ان کے برعکس باتیں کرتے اور سازشوں کے جال بنتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے اعراض کریں اور اللہ پر توکل کریں ان کی باتیں اور سازشیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گی کیونکہ آپ کا ولی اور کارساز اللہ ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٣] یعنی منافقین آپ کے سامنے تو آپ کی اطاعت کا دم بھرتے ہیں اور آپ کی اور مسلمانوں کی خیر خواہی کی باتیں بھی کرتے ہیں۔ لیکن ان کے خفیہ مشورے ان باتوں سے بالکل الگ نوعیت کے ہوتے ہیں اور ان کی سوچ اور انداز فکر ہی مختلف ہوتا ہے۔ وہ یہ سوچتے ہیں کہ ان مسلمانوں کو کیسے نقصان پہنچایا جاسکتا ہے تاکہ ان کی قوت کمزور ہو اور ان سے پیچھا چھڑایا جاسکے یا انہیں مدینہ ہی سے نکال دیا جائے اور اس غرض کے لیے یہود مدینہ سے مشورے اور گٹھ جوڑ کرتے رہتے ہیں۔ سو آپ ان کی ایسی ناپاک سازشوں کی مطلق پروا نہ کیجئے۔ فقط اللہ پر بھروسہ رکھیے۔ اللہ تعالیٰ خود ان سے نمٹ لے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ۭوَيَقُوْلُوْنَ طَاعَةٌ ۡ۔ : یہاں منافقین کی ایک اور مذموم خصلت بیان فرمائی ہے اور ان کو سرزنش کی ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کی حرکات سیۂ سے چشم پوشی اور اللہ تعالیٰ پر توکل کا حکم فرمایا ہے۔ ” بَیَّتَ “ کا لفظ اصل میں ” بَیْتٌ“ ( گھر) سے ہے اور انسان چونکہ عموماً رات کو گھر میں رہتا ہے، اس لیے ” بَاتَ “ کے معنی شب باشی کے ہیں، پھر چونکہ رات کے فارغ اوقات میں آدمی اپنے معاملات پر غور و فکر کرتا ہے، اس لیے ” بَیَّتَ “ کا لفظ کسی معاملہ میں نہایت غور و فکر کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے۔ (رازی) یعنی دن کو وہ آپ کے سامنے اطاعت کا یقین دلاتے ہیں مگر رات کو ان سے کچھ لوگ اس کے برعکس مشورے کرتے ہیں، جو وہ دن کو آپ کے سامنے کہہ رہے تھے اس طائفہ سے مراد لیڈر ہیں کیونکہ عام لوگ تو ان کے پیچھے چلنے والے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

That obedience to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is obligatory was the subject of verse 80. Here, the Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was comforted in case the disbelievers rejected his message. Now comes a mention of some hypocrites who used to wriggle out of this obligation. Commentary The first verse (81) which begins with the words: وَيَقُولُونَ طَاعَةٌ فَإِذَا بَرَ‌زُوا مِنْ عِندِكَ بَيَّتَ طَائِفَةٌ مِّنْهُمْ غَيْرَ‌ الَّذِي تَقُولُ (And they say, |"Obedience (we observe)...|" condemns those who practice a policy of double-dealing. They will say something verbally and have something else hidden in their hearts. Once this is established, what should be the attitude of the Messenger of Allah towards such a set of people? The latter part of the verse carries a special instruction about it. An important instruction for a leader The verse: فَأَعْرِ‌ضْ عَنْهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّـهِ وَكِيلًا refers to the hypocrites who, when they came face to face with the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said that they were quite obedient to him and had accepted what he had commanded them with. But, when they left his company, they got together and conspired as to how they could disobey him. This duplicity of theirs caused great pain to him. Thereupon, Allah Almighty instructed him to ignore them and continue with his mission placing his trust in Allah because Allah is all-sufficient for him. From here we know that one who leads people has to go through all sorts of hardships. People tend to level absurd allegations against him. Then, there are enemies in the garb of friendship and trust around him. Despite the presence of all such obstacles, this leader must display determination and steadfastness and devote to his mission with full trust in Allah. If his objective and orientation is right, he will, Insha’ Allah, succeed.

خلاصہ تفسیر اور یہ (منافق) لوگ (آپ کے احکام سن کر آپ کے سامنے زبان سے تو) کہتے ہیں کہ ہمارا کام (آپ کی) اطاعت کرنا ہے، پھر جب آپ کے پاس سے (اٹھ کر) باہر جاتے ہیں تو شب کے وقت (پوشیدہ) مشورے کرتے ہیں ان میں ایک جماعت (یعنی ان کے سرداروں کی جماعت) برخلاف اس کے جو کچھ زبان سے کہہ چکے تھے (اور چونکہ وہ سردار ہیں اصل مشورہ وہ کرتے ہیں باقی ان کے تابع رہتے ہیں تو اس خلاف میں سب کی ایک حالت ہے) اور اللہ تعالیٰ (سرکاری روزنامچہ میں) لکھتے جاتے ہیں جو کچھ وہ راتوں کو مشورے کیا کرتے ہیں (موقع پر سزا دیں گے) سو آپ ان کی (بیہودگی کی) طرف التفات (اور خیال) نہ کیجئے اور (نہ کچھ فکر کیجئے، بلکہ سارا قصہ) اللہ تعالیٰ کے حوالہ کیجئے اور اللہ تعالیٰ کافی کار ساز ہیں، (وہ خود مناسب طور پر اس کا دفعیہ فرمائیں گے، چناچہ کبھی ان کی شرارت سے کوئی ضرر نہیں پہنچا) کیا یہ لوگ (قرآن کا اعجاز فصاحت و بلاغت میں اور غیب کی صحیح صحیح خبریں دینے میں دیکھ رہے ہیں اور پھر) قرآن میں غور نہیں کرتے (تاکہ اس کا کلام الہی ہونا واضح ہوجائے) اور اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس (کے مضامین) میں (بوجہ ان کے کثیر ہونے کے واقعات سے اور حد اعجاز سے) بکثرت تفاوت پاتے (کیونکہ ہر ہر مضمون میں ایک ایک اختلاف و تفاوت ہوتا تو مضامین کثیرہ میں اختلافات کثیرہ ہوتے، حالانکہ ایک مضمون میں بھی اختلاف نہیں، پس لامحالہ یہ غیر اللہ کا کلام نہیں ہو سکتا) معارف و مسائل ویقولون اطاعت فاذا برزوا من عندک بیت طآئفة منھم غیر الذین تقول، اس آیت میں ان لوگوں کی مذمت کی گئی ہے جو دو رخی پالیسی رکھتے ہیں، زبان سے کچھ کہتے ہیں دل میں کچھ ہوتا ہے، اس کے بعد ایسے لوگوں کے بارے میں رسول اللہ نافرمانی کے طرز عمل کے متعلق ایک خاص ہدایت ہے۔ پیشوا کے لئے ایک اہم ہدایت :۔ فاعرض عنھم و توکل علی اللہ وکفی باللہ وکیلاً جب منافقین آپ کے سامنے آتے تو کہتے کہ ہم نے آپ کا حکم قبول کیا اور جب واپس جاتے تو آپ کی نافرمانی کرنے کے لئے مشورے کرتے، اس سے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سخت کوفت ہوئی، اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہدایت دی کہ ان کی پروانہ کیجئے، آپ اپنا کام اللہ کے بھروسہ پر کرتے رہیں، کیونکہ وہ آپ کے لئے کافی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص لوگوں کا پیشوا اور رہنما ہو اسے طرح طرح کی دشواریوں سے گذرنا پڑتا ہے، لوگ طرح طرح کے الٹے سیدھے الزامات اس کے سر ڈالیں گے دوستی کے روپ میں دشمن بھی ہوں گے، ان سب چیزوں کے باوجود اس رہنما کو عزم و استقلال کے ساتھ اللہ کے بھروسہ پر اپنے کام سے لگن ہونی چاہئے، اگر اس کا رخ اور نصب العین صحیح ہوگا تو انشاء اللہ ضررو کامیاب ہوگا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيَقُوْلُوْنَ طَاعَۃٌ۝ ٠ۡفَاِذَا بَرَزُوْا مِنْ عِنْدِكَ بَيَّتَ طَاۗىِٕفَۃٌ مِّنْھُمْ غَيْرَ الَّذِيْ تَقُوْلُ۝ ٠ۭ وَاللہُ يَكْتُبُ مَا يُبَيِّتُوْنَ۝ ٠ۚ فَاَعْرِضْ عَنْھُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ۝ ٠ۭ وَكَفٰى بِاللہِ وَكِيْلًا۝ ٨١ طوع الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً ) ( ط و ع ) الطوع کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) برز البَرَاز : الفضاء، وبَرَزَ : حصل في براز، وذلک إمّا أن يظهر بذاته نحو : وَتَرَى الْأَرْضَ بارِزَةً [ الكهف/ 47] تنبيها أنه تبطل فيها الأبنية وسكّانها، ومنه : المبارزة للقتال، وهي الظهور من الصف، قال تعالی: لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ [ آل عمران/ 154] ، وقال عزّ وجلّ : وَلَمَّا بَرَزُوا لِجالُوتَ وَجُنُودِهِ [ البقرة/ 250] ، وإمّا أن يظهر بفضله، وهو أن يسبق في فعل محمود، وإمّا أن ينكشف عنه ما کان مستورا منه، ومنه قوله تعالی: وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْواحِدِ الْقَهَّارِ [إبراهيم/ 48] ، وقال تعالی: يَوْمَ هُمْ بارِزُونَ [ غافر/ 16] ، وقوله : عزّ وجلّ : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء/ 91] تنبيها أنهم يعرضون عليها، ويقال : تَبَرَّزَ فلان، كناية عن التغوّط «1» . وامرأة بَرْزَة «2» ، عفیفة، لأنّ رفعتها بالعفة، لا أنّ اللفظة اقتضت ذلك . ( ب رز ) البراز کے معنی فضا یعنی کھلی جگہ کے ہیں ۔ اور برزرن کے معنی ہیں کھلی جگہ میں چلے جانا اور برود ( ظہور ) کئی طرح پر ہوتا ہے ( 1) خود کسی چیز کا ظاہر ہوجانا جیسے فرمایا : وَتَرَى الْأَرْضَ بارِزَةً [ الكهف/ 47] اور تم زمین کو صاف یہاں دیکھو گے ۔ اس میں تنبیہ ہے کہ زمین پر سے عمارات اور ان کے ساکنین سب ختم ہوجائیں گے اسی سے مبارزۃ ہے جسکے معنی صفوف جنگ سے آگے نکل کر مقابلہ کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ [ آل عمران/ 154] تو جن کی تقدیر میں مارا جانا لکھا تھا وہ اپنی اپنی قتل گاہوں کی طرف ضرور نکل آتے ۔ وَلَمَّا بَرَزُوا لِجالُوتَ وَجُنُودِهِ [ البقرة/ 250] اور جب وہ لوگ جالوت اور اس کے لشکر کے بالمقابل میں آئے ۔ ( 2) دوم بروز کے معنی فضیلت ظاہر ہونے کے ہیں جو کسی محمود کام میں سبقت لے جانے سے حاصل ہوتی ہے ۔ ( 3 ) کسی مستور چیز کا منکشف ہو کر سامنے آجانا جیسے فرمایا : وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْواحِدِ الْقَهَّارِ [إبراهيم/ 48] اور سب لوگ خدائے یگا نہ زبردست کے سامنے نکل کھڑے ہوں گے ۔ { وَبَرَزُوا لِلَّهِ جَمِيعًا } ( سورة إِبراهيم 21) اور قیامت کے دن سب لوگ خدا کے سامنے کھڑے ہونگے ۔ يَوْمَ هُمْ بارِزُونَ [ غافر/ 16] جس روز وہ نکل پڑیں گے ۔ اور آیت کریمہ : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء/ 91] اور دوزخ گمراہوں کے سامنے لائی جائے گی میں اس بات پر تنبیہ پائی جاتی ہے کہ انہیں دو زخ کے سامنے لایا جائیگا محاورہ ہے تبرز فلان کنایہ از قضائے حاجت اور پاکدامن عورت کو امراءۃ برزۃ کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی رفعت پاک دامنی اور عفت میں مضمر ہوتی ہے نہ یہ کہ برزۃ کا لفظ اس معنی کا مقتضی ہے ۔ بَيُّوت : ما يفعل باللیل، قال تعالی: بَيَّتَ طائِفَةٌ مِنْهُمْ [ النساء/ 81] . يقال لكلّ فعل دبّر فيه باللیل : بُيِّتَ ، قال تعالی: إِذْ يُبَيِّتُونَ ما لا يَرْضى مِنَ الْقَوْلِ [ النساء/ 108] ، وعلی ذلک قوله عليه السلام : «لا صيام لمن لم يبيّت الصیام من اللیل» وبَاتَ فلان يفعل کذا عبارة موضوعة لما يفعل باللیل، كظلّ لما يفعل بالنهار، وهما من باب العبارات . البیوت وہ معاملہ جس پر رات بھر غور و خوض کیا گیا ہو ۔ قرآن میں ہے ؛۔ بَيَّتَ طائِفَةٌ مِنْهُمْ [ النساء/ 81] ان میں بعض لوگ رات کو مشورے کرتے ہیں ۔ اور بیت الامر کے معنی ہیں رات کے وقت کسی کام کی تدبیر کرنا ۔ چناچہ فرمایا ؛۔ إِذْ يُبَيِّتُونَ ما لا يَرْضى مِنَ الْقَوْلِ [ النساء/ 108] حالانکہ جب وہ راتوں کو ایسی باتوں کے مشورے کیا کرتے ہیں جن کو وہ پسند نہیں کرتا اسی طرح ایک روایت ہے (48) لاصیام لمن لم یبیت الصیام من الیل کہ جو شخص رات سے روزہ کی پختہ نیت نہ کرے اس کا روزہ نہیں ہوگا ۔ اور بات فلان یفعل کذا کے معنی رات بھر کوئی کام کرنا کے ہیں جیسا کہ ظل کے معنی دن بھر کام کرنا آتے ہیں اور یہ دونوں افعال عادات سے ہیں ۔ طَّائِفَةُ وَالطَّائِفَةُ من الناس : جماعة منهم، ومن الشیء : القطعة منه، وقوله تعالی: فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة/ 122] ، قال بعضهم : قد يقع ذلک علی واحد فصاعدا وعلی ذلک قوله : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات/ 9] ، إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران/ 122] ، والطَّائِفَةُ إذا أريد بها الجمع فجمع طَائِفٍ ، وإذا أريد بها الواحد فيصحّ أن يكون جمعا، ويكنى به عن الواحد، ويصحّ أن يجعل کراوية وعلامة ونحو ذلك . الطائفۃ (1) لوگوں کی ایک جماعت (2) کسی چیز کا ایک ٹکڑہ ۔ اور آیت کریمہ : فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة/ 122] تویوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کا علم سیکھتے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کبھی طائفۃ کا لفظ ایک فرد پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات/ 9] ، اور اگر مومنوں میں سے کوئی دوفریق ۔۔۔ اور آیت کریمہ :إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران/ 122] اس وقت تم میں سے دو جماعتوں نے چھوڑ دینا چاہا ۔ طائفۃ سے ایک فرد بھی مراد ہوسکتا ہے مگر جب طائفۃ سے جماعت مراد لی جائے تو یہ طائف کی جمع ہوگا ۔ اور جب اس سے واحد مراد ہو تو اس صورت میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جمع بول کر مفر د سے کنایہ کیا ہو اور یہ بھی کہ راویۃ وعلامۃ کی طرح مفرد ہو اور اس میں تا برائے مبالغہ ہو ) غير أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] ، ( غ ی ر ) غیر اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے كتب ( لکھنا) الْكَتْبُ : ضمّ أديم إلى أديم بالخیاطة، يقال : كَتَبْتُ السّقاء، وكَتَبْتُ البغلة : جمعت بين شفريها بحلقة، وفي التّعارف ضمّ الحروف بعضها إلى بعض بالخطّ ، وقد يقال ذلک للمضموم بعضها إلى بعض باللّفظ، فالأصل في الْكِتَابَةِ : النّظم بالخطّ لکن يستعار کلّ واحد للآخر، ولهذا سمّي کلام الله۔ وإن لم يُكْتَبْ- كِتَاباً کقوله : الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، وقوله : قالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ [ مریم/ 30] . ( ک ت ب ) الکتب ۔ کے اصل معنی کھال کے دو ٹکڑوں کو ملاکر سی دینے کے ہیں چناچہ کہاجاتا ہے کتبت السقاء ، ، میں نے مشکیزہ کو سی دیا کتبت البغلۃ میں نے خچری کی شرمگاہ کے دونوں کنارے بند کرکے ان پر ( لوہے ) کا حلقہ چڑھا دیا ، ، عرف میں اس کے معنی حروف کو تحریر کے ذریعہ باہم ملا دینے کے ہیں مگر کبھی ان حروف کو تلفظ کے ذریعہ باہم ملادینے پر بھی بولاجاتا ہے الغرض کتابۃ کے اصل معنی تو تحریر کے ذریعہ حروف کو باہم ملادینے کے ہیں مگر بطور استعارہ کبھی بمعنی تحریر اور کبھی بمعنی تلفظ استعمال ہوتا ہے اور بناپر کلام الہی کو کتاب کہا گیا ہے گو ( اس وقت ) قید تحریر میں نہیں لائی گئی تھی ۔ قرآن پاک میں ہے : الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب ( قرآن مجید ) اس میں کچھ شک نہیں ۔ قالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ [ مریم/ 30] میں خدا کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے ۔ اعرض وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ ( ع ر ض ) العرض اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء/ 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔ وكل والتَّوَكُّلُ يقال علی وجهين، يقال : تَوَكَّلْتُ لفلان بمعنی: تولّيت له، ويقال : وَكَّلْتُهُ فَتَوَكَّلَ لي، وتَوَكَّلْتُ عليه بمعنی: اعتمدته قال عزّ وجلّ : فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة/ 51] ( و ک ل) التوکل ( تفعل ) اس کا استعمال دو طرح ہوتا ہے ۔ اول ( صلہ لام کے ساتھ ) توکلت لفلان یعنی میں فلاں کی ذمہ داری لیتا ہوں چناچہ وکلتہ فتوکل لی کے معنی ہیں میں نے اسے وکیل مقرر کیا تو اس نے میری طرف سے ذمہ داری قبول کرلی ۔ ( علیٰ کے ساتھ ) توکلت علیہ کے معنی کسی پر بھروسہ کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة/ 51] اور خدا ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہئے ۔ كفى الكِفَايَةُ : ما فيه سدّ الخلّة وبلوغ المراد في الأمر . قال تعالی: وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ [ الأحزاب/ 25] ، إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر/ 95] . وقوله : وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] قيل : معناه : كفى اللہ شهيدا، والباء زائدة . وقیل : معناه : اكْتَفِ بالله شهيدا «1» ، والکُفْيَةُ من القوت : ما فيه كِفَايَةٌ ، والجمع : كُفًى، ويقال : كَافِيكَ فلان من رجل، کقولک : حسبک من رجل . ( ک ف ی ) الکفایۃ وہ چیز جس سے ضرورت پوری اور مراد حاصل ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ [ الأحزاب/ 25] اور خدا مومنوں کے لئے جنگ کی ضرور یات کے سلسلہ میں کافی ہوا ۔ إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر/ 95] ہم تمہیں ان لوگوں کے شر سے بچا نے کے لئے جو تم سے استہزا کرتے ہیں کافی ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] اور حق ظاہر کرنے کے لئے اللہ ہی کافی ہے میں بعض نے کہا ہے کہ باز زائد ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی گواہ ہونے کے لئے کافی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ با اصلی ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ گواہ ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ پر ہی اکتفاء کرو الکفیۃ من القرت غذا جو گذارہ کے لئے کافی ہو ۔ ج کفی محاورہ ہے ۔ کافیک فلان من رجل یعنی فلاں شخص تمہارے لئے کافی ہے اور یہ حسبک من رجل کے محاورہ کے ہم معنی ہے ۔ وكيل التَّوْكِيلُ : أن تعتمد علی غيرک وتجعله نائبا عنك، والوَكِيلُ فعیلٌ بمعنی المفعول . قال تعالی: وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء/ 81] أي : اکتف به أن يتولّى أمرك، ( و ک ل) التوکیل کے معنی کسی پر اعتماد کر کے اسے اپنا نائب مقرر کرنے کے ہیں اور وکیل فعیل بمعنی مفعول کے وزن پر ہے ۔ قرآن میں : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء/ 81] اور خدا ہی کافی کار ساز ہے ۔ یعنی اپنے تمام کام اسی کے سپرد کر دیجئے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨١) اور یہ منافقین کا گروہ وہ گروہ ہے جو ظاہرا یہ کہتے ہیں کہ ہمارا کام آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرنا ہے، لہٰذا جو چاہو ہمیں حکم کرو اور جب یہ منافق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے چلے جاتے ہیں تو ان کی جماعت جو کہتی ہے یہ اس کے مشورے کے مطابق اس میں تبدیلی کرلیتے ہیں۔ لہذا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے دور رہیے اور ان کے مشوروں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیے، اللہ تعالیٰ آپ کی مدد فرمائے گا اور ان منافقین وان کی تمام تر سازشوں کا مناسب طریقہ پر خاتمہ کردے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨١ (وَیَقُوْلُوْنَ طَاعَۃٌز) ان منافقوں کا حال یہ ہے کہ آپ کے سامنے تو کہتے ہیں کہ ہم مطیع فرمان ہیں ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو فرمایا قبول ہے ‘ ہم اس پر عمل کریں گے۔ (فَاِذَا بَرَزُوْا مِنْ عِنْدِکَ بَیَّتَ طَآءِفَۃٌ مِّنْہُمْ غَیْرَ الَّذِیْ تَقُوْلُ ط) ۔ جا کر ایسے مشورے آپس میں شروع کردیتا ہے جو خلاف ہے اس کے جو وہ وہاں کہہ کر گئے ہیں۔ سامنے وہ ہوگئی بعد میں جا کر جو ہے ریشہ دوانی ‘ سازش۔ (وَاللّٰہُ یَکْتُبُ مَا یُبَیِّتُوْنَ ج ) (فَاَعْرِضْ عَنْہُمْ ) آپ ان کی پروانہ کیجیے ‘ یہ آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔ ابھی ان کے خلاف اقدام کرنا خلاف مصلحت ہے۔ جیسے ایک دور میں فرمایا گیا : (فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوْا) (البقرۃ : ١٠٩) یعنی ان یہودیوں کو ذرا نظر انداز کیجیے ‘ ابھی ان کی شرارتوں پر تکفیر نہ کیجیے ‘ جو کچھ یہ کہہ رہے ہیں اس پر صبر کیجیے ‘ اس لیے کہ مصلحت کا تقاضا ہے کہ ابھی یہ محاذ نہ کھولا جائے۔ اسی طرح یہاں منافقین کے بارے میں کہا گیا کہ ابھی ان سے اعراض کیجیے۔ چناچہ ان کی ریشہ دوانیوں سے کچھ عرصے تک چشم پوشی کی گئی اور پھر غزوۂ تبوک کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر گرفت شروع کی۔ پھر وہ وقت آگیا کہ اب تک ان کی شرارتوں پر جو پردے پڑے رہے تھے وہ پردے اٹھا دیے گئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ کو سہارے کے لیے اللہ کافی ہے۔ ان کی ساری ریشہ دوانیاں ‘ یہ مشورے ‘ یہ سازشیں ‘ سب پادر ہوا ہوجائیں گی ‘ آپ فکر نہ کیجیے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:81) طاعۃ۔ ای یقولون من افواہہم۔ یعنی منہ سے تو اطاعت کا دم بھرتے ہیں کہتے ہیں کہ ہم مطیع فرمان ہیں۔ طاعۃ اسم بمعنی حکمبرداری۔ قبول کرنا۔ حکم ماننا۔ طوع سے۔ برزوا۔ ماضی جمع مذکر غائب۔ وہ نکلتے ہیں بروز سے باب نصر۔ جس کے معنی کھلم کھلا ظاہر ہونے کے ہیں۔ یعنی جب آپ کے پاس سے اٹھ کر چلے جاتے ہیں۔ بیت۔ اس نے رات کے وقت مشورت کی۔ یعنی تو ایک طائفہ (گروہ) رات بھر (آپ کے خلاف) ایسے مشوروں میں لگا رہتا ہے جو غیر الذی نقول ہے۔ یعنی جو وہ کہتا ہے (کہ ہم فرمانبردار ہیں) اس سے بالکل مختلف ہے۔ نقول میں ضمیر واحد مؤنث غائب طائفۃ کی طرف راجع ہے یا اس کی ضمیر (واحد مذکر حاضر) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف راجع ہے اس صورت میں اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ طائفہ رات بھر مشورہ کرتا رہتا ہے ان باتوں کے خلاف جو آپ نے فرمائی ہیں۔ یبیتون۔ جو وہ رات بھر مشورہ کرتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 یہاں منافقین کی ایک اور مذموم خصلت بیان فرمائی ہے اور ان کو سرزنش کی ہے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کی حرکات شبیعہ سے چشم پوشی اور اللہ تعالیٰ پر توکل کا حکم فرمایا ہے بیتت کا لفظ اصل میں بیت (گھر) سے ہے اور انسان چونکہ عمو مارات کو اپنے گھر میں رہتا ہے اس لیے بات کے معنی ثب باشی کے ہیں پھر چونکہ رات کے فارغ اوقات میں آدمی اپنے معالات پر غور و فکر کرتا ہے اس لیے بتیت کا لفث کسی معاملہ میں نہایت غور وفکر کرنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ( رازی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیت نمبر 81-82 لغات القرآن : طاعۃ، اطاعت۔ برزوا، وہ نکلے۔ بیت، رات کو جمع ہوکر باتیں کیں۔ یبیتون، وہ رات گزارتے ہیں۔ اعرض، چھوڑ دو ، منہ پھیر لو۔ افلا یتدبرون، وہ غور و فکر کیوں نہیں کرتے۔ تشریح : منافقین کی پہچان یہ ہے کہ ظاہر کچھ اور باطن کچھ۔ جب دن میں حضور کی محفل میں ہوتے تو بڑھ بڑھ کے آپ کی اطاعت کا دم بھرتے لیکن رات کے اندھیرے میں ان کے سردار جمع ہو کر آپ کے خلاف مشورہ کرتے اور تدبیریں سوچتے رہتے۔ وہ اس بات کا ذرا خیال نہ کرتے کہ د ن میں انہوں نے نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا کیا وعدے کئے تھے۔ کہا جا رہا ہے (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) آپ ان باتوں کو اپنے دل پر نہ لیں بلکہ اللہ پر بھروسہ رکھیں وہی کارساز ہے۔ منافقین کو وہ کرنے دیجئے جو وہ کرتے ہیں۔ ان کا حساب کتاب لینے کے لئے اللہ کافی ہے۔ یہ منافقین اس بارے میں شک کر رہے ہیں کہ یہ وحی اللہ ہی کی طرف سے آئی ہے۔ فرمایا منافقین قرآن کریم کے مضامین میں غور و فکر کرتے تو ان کی سمجھ میں آجاتا کہ سالہا سال سے جو باتیں کہی جا رہی ہیں وہ یکساں ہیں۔ ان میں مقصد یا مقصودیت کا کوئی فرق نہیں۔ اس کے انداز بیان میں کوئی فرق نہیں۔ وہی فصاحت ، وحی بلاغت، معنی و مطلب کی وہی گہرائی، وسعت اور بلندی، اگر اس کی تصنیف میں کسی دوسرے کا بھی ہاتھ ہوتا تو مقصد کلام کا بھی فرق ہوتا اور انداز کلام کا بھی۔ کہیں پر کچھ اور کہیں پر کچھ ہوتا۔ پڑھنے اور سننے والا خیالات کی ٹکر اور پریشانی ہی میں گم ہو کر رہ جاتا۔ اس آیت سے یہ بھی ظاہر ہے کہ قرآن صرف تلاوت ہی کے لئے نہیں آیا بلکہ تدبر کے لئے بھی آیا ہے۔ اور ہر شخص جس کے پاس غوروفکر کے لئے علم و عقل ہے یا علم و عقل حاصل کرسکتا ہے وہ اس کی گہرائی میں اتر سکتا ہے اور معافی و مطالب کے موتی حاصل کرسکتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ چناچہ کبھی ان کی شرارت سے کوئی ضرر نہیں پہنچا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منافقوں کے کردار کا تذکرہ جاری ہے۔ منافق کی یہ بھی عادت ہوتی ہے کہ دوغلی بات کرتا ہے۔ منافق کی عادت ہوتی ہے کہ وہ سامنے جی حضوری اور بعد میں اس کے الٹ بات کرتا ہے۔ یہی عادت آپ کے دور کے منافقوں کی تھی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رعب اور مسلمانوں کے ماحول سے مرعوب ہو کر اور ظاہری رکھ رکھاؤ کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے آتے تو ایسے الفاظ اور انداز اختیار کرتے کہ جن سے آپ کو یقین ہوجائے کہ یہ واقعتا مخلص لوگ ہیں۔ لیکن جونہی آپ کی محفل سے باہرجاتے بالخصوص رات کے وقت خفیہ میٹنگوں میں مشورے کرتے کہ اسلام سے کس طرح چھٹکارا پائیں اور آپ کو کس طرح نقصان پہنچایا جائے ؟ ان کی خفیہ مجالس کو طشت ازبام کرکے بتلایا جارہا ہے کہ جو کچھ یہ کہتے اور کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اسے لکھ رہا ہے اور کراماً کاتبین ان کا ایک ایک لفظ اور تمام حرکات کو ضبط تحریر میں لا رہے ہیں۔ قیامت کے روز مکمل ریکارڈ ان کے سامنے رکھ دیا جائے گا۔ یہاں نہایت بلیغ انداز میں منافقوں کو ایسی حرکات سے بازرہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اس کے بعد رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سمجھایا گیا کہ آپ ایسی باتوں کے پیچھے پڑنے کے بجائے درگزر فرمایا کریں۔ کیونکہ صاحب عزیمت لوگ سفلہ مزاج لوگوں کی عادات سے صرف نظر ہی کیا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کریں اور اپنا کام کرتے جائیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی پوری طرح حفاظت کرنے والا، کار ساز اور ان کی سازشیں ناکام کرنے والا ہے۔ مسائل ١۔ منافق لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں اطاعت کا اعلان کرتے جبکہ بعد میں انکار کرتے تھے۔ ٢۔ لوگوں کے اعراض اور بےہودہ اعتراضات پر افسردہ ہونے کی بجائے اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” ویقولون طاعۃ فاذا برزوا من عندک بیت طائفۃ منھم غیر الذی تقول واللہ یکتب ما یبیتون فاعرض عنھم و توکل علی اللہ وکفی باللہ وکیلا (٨١) افلا یتدبرون القران ولو کان من عند غیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافا کثیرا (٨٢) (٤ : ٨١۔ ٨٢) ” وہ منہ پر کہتے ہیں ہم مطیع فرمان ہیں مگر جب تمہارے پاس سے نکلتے ہیں تو ان میں سے ایک گروہ راتوں کو جمع ہو کر تمہاری باتوں کے خلاف مشورے کرتا ہے ‘ اللہ انکی یہ ساری سرگوشیاں لکھ رہا ہے ‘ تم انکی پروا نہ کرو اور اللہ پر بھروسہ رکھو ‘ وہی بھروسہ کے لئے کافی ہے۔ کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے ؟ اگر یہ اللہ کی سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت کچھ اختلاف بیانی پائی جاتی ۔ یہ گروہ ایسا تھا کہ جب یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس موجود ہوتا اور آپ سے قرآن سنتا اور قرآنی فرائض کو سمجھتا تو کہتا کہ ہم مطیع فرمان ہیں ‘ وہ اس طرح جامع اور مانع اطاعت کا اعلان کرتے ‘ بےقید اطاعت کا اقرار کرتے ۔ اس میں نہ ہو کوئی اعتراض کرتے ‘ نہ کسی قسم کی توضیحات طلب کرتے ‘ نہ کوئی استثناء رکھتے ‘ لیکن جونہی وہ حضور کی مجلس سے اٹھتے ‘ ان میں سے ایک گروہ راتوں کو جمع ہو کر آپ کی باتوں کے خلاف مشورے کرنے لگ جاتا ۔ اور یہ فیصلہ کرتا کہ حضور نے جو کچھ فرمایا ہے اس پر عمل نہ کیا جائے اور کوئی ایسا منصوبہ اپنایا جائے کہ اس پر عمل نہ ہو اور گلو خلاصی ہوجائے ۔ اس کا مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مسلمانوں کی جماعت من حیث الجماعت تو یہ کہتی ہے کہ ہم اطاعت کریں گے لیکن ان میں سے ایک گروہ رات کے وقت نکل کر وہ سازش کرتا ہے جو جماعت مسلمہ کے قول کے خلاف ہوتی ہے ۔ اور اس گروہ منافقین کا مقصد اس جماعت کے اندر افراتفری اور بےچینی پیدا کرنا ہوتا ہے ۔ بہرحال دونوں صورتوں میں یہ گروہ منافقین سازش کر رہا ہوتا ہے ۔ ان کی سرگرمیاں اسلامی صفوں کے اندر بےچینی پیدا کرتی ہیں جبکہ جماعت مسلمہ ان سازشوں کے خلاف ہر میدان میں معرکہ آرا ہوتی ہے اور اپنی پوری قوت ان کے مقابلے میں صرف کرتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ اہل ایمان اور حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ اطمینان دلاتے ہیں کہ اللہ کی نظروں سے یہ سازشی ٹولہ اوجھل نہیں ہے اور اس کی مکاری سے اللہ اچھی طرح باخبر ہے ۔ یہ شعور اور احساس کہ ان سازشیوں کی سازشوں سے اللہ اچھی طرح خبردار ہے اہل ایمان کے دلوں کے اندر اطمینان اور قوت پیدا کرنے کا موجب ہوتا ہے ۔ ان کے اندر یہ سکون پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کی نظر ہوتے ہوئے یہ سازشیں ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتیں ۔ دوسری جانب سے ان سازشیوں کو بھی یہ سخت تنبیہ ہے کہ وہ ان سازشوں میں ہر گز کامیاب نہیں ہو سکتے ۔ (آیت) ” واللہ یکتب ما یبیتون “۔ (اور اللہ ان کی یہ تمام سرگوشیاں لکھ رہا ہے) اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منافقین کے ساتھ معاملہ کرنے کا جو منصوبہ دیا تھا وہ یہ تھا کہ آپ ان کے ساتھ ان کی ظاہری حالت کے مطابق معاملہ کریں گے اور ان کے ساتھ ان کی نیتوں کے مطابق سلوک نہ ہوگا ۔ انکی خفیہ سازشوں سے اغماض برتا جائے گا اور اعراض کیا جائے گا ۔ یہ ایک ایسا منصوبہ تھا جس کے مطابق آخر کار وہ منتشر ہوگئے کمزور ہوگئے اور ان میں سے جو باقی رہ گئے تھے وہ تتربتر ہوگئے اور چھپ گئے ۔ اس منصوبے کا ایک حصہ یہ تھا۔ (آیت) ” فاعرض عنھم “ (آپ ان کی پرواہ نہ کریں) ان سے چشم پوشی کرنے کے ساتھ ساتھ رسول کو مطمئن کیا جاتا ہے کہ اللہ کی حفاظت اور پاسبانی پر مکمل بھروسہ رکھو۔ (آیت) ” و توکل علی اللہ وکفی باللہ وکیلا “۔ (اور اللہ پر بھروسہ رکھو ‘ اللہ بھروسے کے لئے کافی ہے) بالکل درست اللہ بھروسے کے لئے کافی ہے ‘ جس کا وکیل اللہ ہو اسے کوئی بھی گزند نہیں پہنچا سکتا ۔ نہ اسے کوئی سازش گزند پہنچا سکتی ہے ‘ نہ خفیہ سازش ان کے خلاف چل سکتی ہے ۔ ‘ اور نہ ظاہری سازش ۔ سوال یہ ہے کہ یہ گروہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اقرار اطاعت کرتا اور واپس ہو کر رات کو سازش کرنے میں لگ جاتا ۔ وہ ایسا کیوں کرتا تو دراصل یہ گروہ یہ رویہ اس لئے اختیار کرتا تھا کہ اسے اس بات میں شبہ تھا کہ آیا حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کلام پیش کرتے ہیں وہ اللہ کی جانب سے ہے یا نہیں ۔ جب ایک لمحہ کے لئے اس قسم کا شک پیدا ہوجائے تو بات کی قوت اور شوکت ختم ہوجاتی ہے ۔ قرآن اور کلام رسول کی اندر قوت اور شوکت اسی شعور سے پیدا ہوتی ہے کہ یہ کلام باری تعالیٰ کی طرف سے آرہا ہے اگر عبداللہ کے حلقوم سے سنا جار ہا ہے ۔ اور یہ کہ آپ ہوائی باتیں نہیں کررہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو توکل علی اللہ کرنے کے بارے میں دو ٹوک حکم دیا گیا اور مکرر تاکید مزید کی گئی ۔ یہاں اللہ تعالیٰ ان کے سامنے ایک نکتہ پیش فرماتے ہیں ۔ اور یہ نکتہ عزت وشرف کی وہ انتہا ہے جس تک قرآن کریم انسان کو پہنچانا چاہتا ہے کہ وہ عقل سے کام لے اور یہ سمجھ لے کہ وہ ایک ذی شرف مخلوق ہے ۔ وہ صاحب عقل وادراک ہے ‘ اور یہ عقل وادراک اللہ ہی نے انسان کو عطا کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ قرآن کے بارے میں فیصلہ ان کے شعور اور ان کی عقل وادراک پر چھوڑتا ہے ۔ اللہ ان کے لئے بصارت وبصیرت کا ایک منہاج متعین فرماتا ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ اگر وہ اس منہاج کے مطابق معاملات پر غور کریں تو وہ کبھی بھی ٹھوکر نہ کھائیں گے ۔ یہ منہاج فہم وادراک قرآن میں نہایت ہی واضح طور پر متعین کیا گیا ہے ۔ اور خود انسانی فہم وادراک بھی اس منہاج تک پہنچ سکتا ہے ۔ اور اس طرح انسان اس نتیجے تک پہنچ سکتا ہے کہ قرآن کریم اللہ کی جانب سے ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

منافقین کی ایک عادت بد کا تذکرہ اس آیت میں منافقین کی ایک عادت بد کا تذکرہ فرمایا اور وہ یہ کہ جب آپ کی خدمت میں موجود ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم آپ کے حکم سے کیسے باہر ہوسکتے ہیں ہمارا کام تو بات ماننا اور فرمانبرداری کرنا ہے (ای امرنا و شاننا طاعۃ) علی انہ خبر مبتداء محذوف پھر جب آپ کی مجلس سے باہر نکل جاتے ہیں ان میں سے ایک جماعت (یعنی ان کے رؤسا) راتوں کو اس بات کے علاوہ مشورے کرتے ہیں جو انہوں نے آپ کی مجلس میں کہا تھا یعنی آپ کے ارشاد کے خلاف چلتے ہیں اور آپ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور خلاف ورزی کے منصوبے بناتے ہیں۔ (وَ اللّٰہُ یَکْتُبُ مَا یُبَیِّتُوْنَ ) (اور اللہ لکھتا ہے جو وہ رات کو مشورے کرتے ہیں) وہ دنیا اور آخرت میں ان کے عمل کا بدلہ دے دے گا۔ (فَاَعْرِضْ عَنْھُمْ ) (ان سے اعراض کیجیے) اور ان سے بدلہ لینے کا فکر نہ کیجیے۔ (وَ تَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ ) (اور اللہ پر بھروسہ کیجیے) تمام امور اللہ کے سپرد کیجیے (وَ کَفٰی بِا للّٰہِ وَکِیْلاً ) (اور اللہ کافی ہے کام بنانے والا) وہی آپ کے سب کام بنائے گا، ان کے شر اور ضرر سے بھی محفوظ فرمائے گا۔ (روح المعانی صفحہ ٥٢: ج ٥)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

57 یہ منافقین کا شکوی ہے اور ان کی دو رخی چال پر ان کو زجر ہے جب وہ آپ کے پاس موجود ہوتے ہیں اس وقت تو آپ کی اطاعت کا دم بھرتے ہیں اور کہتے ہیں حضور آپ کا حکم ہمارے سر و چشم لیکن جب آپ کے پاس سے چلے جاتے ہیں تو اپنے قول واقرار کے برعکس رات کو آپ کے اور مسلمانوں کے خلاف منصوبے بناتے ہیں لیکن آپ ان کی پروا نہ کریں۔ اور اللہ پر بھروسہ رکھیں وہ آپ کو نقصان نہیں پہنچا سکیں گے اور ہم نے ان کے تمام منصوبے نوٹ کر رکھے ہیں اور ان کو اس شرارت کی پوری پوری سزا دیں گے۔ تَقُوْلُ میں دو احتمال ہیں یا تو یہ واحد مونث غائب کا صیغہ ہے اور ضمیر غائب طائفہ کی طرف راجع ہے اور مطلب یہ ہے کہ منافقین کا طائفہ اور ان کے سرداروں کی جماعت اپنے ہی اقرار کے باعث رات کو منصوبے بناتے ہیں یا یہ واحد مذکر حاضر کا صیغہ ہے اور خطاب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے یعنی وہ آپ کے احکام و ارشادات کے خلاف باتیں کرتے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 جس شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت و فرمانبرداری کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کی اور جو شخص آپ کی اطاعت سے روگردانی کرے تو آپ کوء فکر نہ کیجیے اور اس پر غم نہ کیجیے کیونکہ آپ کو ہم نے ان کے اوپر کوئی محافظ اور نگہبان بنا کر نہیں بھیجا ہے اور یہ منافق لوگ بظاہر زبان سے تو یوں کہتے ہیں کہ ہم فرماں بردار ہیں اور ہمارا کام تو آپ کی اطاعت اور فرماں برداری کرنا ہے لیکن جب یہ لوگ آپ کے پا س سے باہر نکلتے ہیں اور باہر جاتے ہیں تو ان ہی لوگوں میں سے ایک جماعت رات کے وقت ان باتوں کے خلاف خفیہ مشورے کرتی ہے جو باتیں یہ آپ سے کہہ چکے تھے اور جو خفیہ مشورے یہ رات کے وقت کیا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو ان کے اعمال نامے میں لکھتا رہتا ہے۔ لہٰذا آپ ان کو منہ نہ لگائیے اور ان کی بےہودگی کی جانب التفات نہ کیجیے اور آپ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیے اور اپنے سب کام اللہ تعالیٰ کے حوالے کیجیے اور اللہ تعالیٰ ہی کا کار ساز ہونا کافی ہے اور وہی با اعتبار کار ساز ہونے کے کفایت کرتا ہے۔ وہ خود آپ کی مدد کرے گا اور ان سے انتقام لے لے گا۔ (تیسیر) حفیظ کے معنی نگراں، نگہبان، حفاظت کرنے والا، مطلب یہ ہے کہ آپ پر ان کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے کہ آپ ان کو گناہ نہ کرنے دیں اور ان کو نافرمانی سے روک دیں، یا ان کے گناہوں کی آپ سے کوئی باز پرس کی جائے، باقی وہ نگرانی اور نگہبانی جو ہر امت پر مربیانہ اور مشفقانہ اس کے نبی کو حاصل ہوتی ہے اس نگرانی کی نفی یہاں مراد نہیں ہے۔ تبیت شب میں سکی کام کے کرنے کو کہتے ہیں غیر الذی تقول کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جن وفادارانہ جذبات کا دن کو اظہار کرچکے تھے اور اطاعت و فرماں برداری کا جو یقین آپ کو دلا چکے تھے شب میں ان جذبات کے خلاف ان میں سے ایک جماعت مشورہ کرتی ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ جو باتیں آپ ان سے فرماتے ہیں ان کے خلاف شب میں ایک فرق مشورے کرتا ہے ہم نے پہلا قول اختیار کیا ہے۔ وکیل اس کو کہتے ہیں کام جس کے سپرد کیا جائے۔ مطلب یہ ہے کہ آپ کے سامنے تو اطاعت و فرماں برداری کا وعدہ کرتے ہیں لیکن جب آپ کے پاس سے اٹھ کر باہر جاتے ہیں تو انہی میں سے ایک فرق یعنی ان کے سردار اور بڑے لوگ ان باتوں کے خلاف جو آپ سے کہی تھیں رات کے وقت مشورے کرتے ہیں اور جب ان کے نفاق کی یہ حلات ہے کہ دن میں کچھ اور رات میں کچھ اور آپ ان کے نفاق کی جانب توجہ نہ فرمائیے اور خدا پر بھروسہ رکھیے یہ آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں گے اور اللہ تعالیٰ کی ذات وکیل ہونے کے لئے کافی ہے اور وہی اس لائق ہے کہ اس پر بھروسہ کیا جائے چونکہ ان آیتوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا اثبات ہے اسی کے ساتھ قرآن کی حقانیت کا ذکر بھی فرماتے ہیں اور ہم نے یہ بات کئی دفعہ عرض کی ہے کہ یہی چند مسائل ہیں جن کو مختلف عنوان سے بار بار ذکر کیا جاتا ہے ان ہی مسائل میں سے توحید، رسالت ، قرآن اور قیامت وغیرہ ہیں۔ چناچہ قرآن کریم کے کلام الٰہی ہونے کے متعلق ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)