Surat ul Momin

Surah: 40

Verse: 18

سورة مومن

وَ اَنۡذِرۡہُمۡ یَوۡمَ الۡاٰزِفَۃِ اِذِ الۡقُلُوۡبُ لَدَی الۡحَنَاجِرِ کٰظِمِیۡنَ ۬ ؕ مَا لِلظّٰلِمِیۡنَ مِنۡ حَمِیۡمٍ وَّ لَا شَفِیۡعٍ یُّطَاعُ ﴿ؕ۱۸﴾

And warn them, [O Muhammad], of the Approaching Day, when hearts are at the throats, filled [with distress]. For the wrongdoers there will be no devoted friend and no intercessor [who is] obeyed.

اور انہیں بہت ہی قریب آنے والی ( قیامت سے ) آگاہ کر دیجئے جب کہ دل حلق تک پہنچ جائیں گے اور سب خاموش ہونگے ظالموں کا نہ کوئی دلی دوست ہوگا نہ سفارشی ، کہ جس کی بات مانی جائے گی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Warning of the Day of Resurrection and Allah's judgement on that Day Allah says: وَأَنذِرْهُمْ يَوْمَ الاْأزِفَةِ ... And warn them of the Day that is drawing near, `The Day that is drawing near' is one of the names of the Day of Judgement. It is so called because it is close, as Allah says: أَزِفَتِ الاٌّزِفَةُ لَيْسَ لَهَا مِن دُونِ اللَّهِ كَاشِفَةٌ The Day of Resurrection draws near. None besides Allah can avert it. (53:57-58) اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ The Hour has drawn near, and the moon has been cleft asunder. (54:1) اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَـبُهُمْ Draws near for mankind their reckoning. (21:1) أَتَى أَمْرُ اللَّهِ فَلَ تَسْتَعْجِلُوهُ The Event (the Hour) ordained by Allah will come to pass, so seek not to hasten it. (16:1) فَلَمَّا رَأَوْهُ زُلْفَةً سِييَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُواْ But when they will see it approaching, the faces of those who disbelieve will change and turn black with sadness and in grief. (67:27) and ... إِذِ الْقُلُوبُ لَدَى الْحَنَاجِرِ كَاظِمِينَ ... when the hearts will be at the throats Kazimin. Qatadah said, "When the hearts reach the throats because of fear, and they will neither come out nor go back to their places." This was also the view of Ikrimah, As-Suddi and others. كَاظِمِينَ (Kazimin), means silent, for no one will speak without His permission: يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلَـيِكَةُ صَفّاً لاَّ يَتَكَلَّمُونَ إِلاَّ مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَـنُ وَقَالَ صَوَاباً The Day that Ar-Ruh (Jibril) and the angels will stand forth in rows, they will not speak except him whom the Most Gracious allows, and he will speak what is right. (78:38) Ibn Jurayj said: كَاظِمِينَ (Kazimin), "It means weeping." ... مَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ حَمِيمٍ وَلاَا شَفِيعٍ يُطَاعُ There will be no friend, nor an intercessor for the wrongdoers, who could be given heed to. means, those who wronged themselves by associating others in worship with Allah, will have no relative to help them and no intercessor who can plead on their behalf; all means of good will be cut off from them. يَعْلَمُ خَايِنَةَ الاَْعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُورُ

اللہ علیم پر ہر چیز ظاہر ہے ۔ ازفہ قیامت کا ایک نام ہے ۔ اس لئے وہ بہت ہی قریب ہے جیسے فرمان ہے ( اَزِفَتِ الْاٰزِفَةُ 57؀ۚ ) 53- النجم:57 ) یعنی قریب آنے والی قریب ہو چکی ہے ، جس کا کھولنے والا بجز اللہ کے کوئی نہیں اور جگہ ارشاد ہے ( اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ Ǻ۝ ) 54- القمر:1 ) قیامت قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا اور فرمان ہے ( اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِيْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَ Ǻ۝ۚ ) 21- الأنبياء:1 ) لوگوں کے حساب کا وقت قریب آ گیا اور فرمان ہے ( امر اللہ فلا تستعجلوہ ) اللہ کا امر آ چکا اس میں جلدی نہ کرو اور آیت میں ہے ( فَلَمَّا رَاَوْهُ زُلْفَةً سِيْۗـــــَٔتْ وُجُوْهُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَقِيْلَ هٰذَا الَّذِيْ كُنْتُمْ بِهٖ تَدَّعُوْنَ 27؀ ) 67- الملك:27 ) جب اسے قریب دیکھ لیں گے تو کافروں کے چہرے سیاہ پڑ جائیں گے ۔ الغرض اسی نزدیکی کی وجہ سے قیامت کا نام ازفہ ہے ۔ اس وقت کلیجے منہ کو آ جائیں گے ۔ وہ خوف و ہراس ہو گا کہ کسی کا دل ٹھکانے نہ رہے گا ۔ سب پر غضب کا سناٹا ہو گا ۔ کسی کے منہ سے کوئی بات نہ نکلے گی ۔ کیا مجال کہ بے اجازت کوئی لب ہلا سکے ۔ سب رو رہے ہوں گے اور حیران و پریشان ہوں گے ۔ جن لوگوں نے اللہ کے ساتھ شرک کر کے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے ان کا آج کوئی دوست غمگسار نہ ہو گا جو انہیں کام آئے ۔ نہ شفیع اور سفارشی ہو گا جو ان کی شفاعت کے لئے زبان ہلائے ۔ بلکہ ہر بھلائی کے اسباب کٹ چکے ہوں گے ، اس اللہ کا علم محیط کل ہے ۔ تمام چھوٹی بڑی چھپی کھلی باریک موٹی اس پر یکساں ظاہر باہر ہیں ، اتنے بڑے علم والے سے جس سے کوئی چیز مخفی نہ ہو ہر شخص کو ڈرنا چاہئے اور کسی وقت یہ خیال نہ کرنا چاہئے کہ اس وقت وہ مجھ سے پوشیدہ ہے اور میرے حال کی اسے اطلاع نہیں ۔ بلکہ ہر وقت یہ یقین کر کے وہ مجھے دیکھ رہا ہے اس کا علم میرے ساتھ ہے اس کا لحاظ کرتا رہے اور اس کے رو کے ہوئے کاموں سے رکا رہے ۔ آنکھ جو خیانت کے لئے اٹھتی ہے گو بظاہر وہ امانت ظاہر کرے ۔ لیکن رب علیم پر وہ مخفی نہیں سینے کے جس گوشے میں جو خیال چھپا ہو اور دل میں جو بات پوشیدہ اٹھتی ہو اس کا اسے علم ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں اس آیت سے مراد وہ شخص ہے جو مثلاً کسی گھر میں گیا وہاں کوئی خوبصورت عورت ہے یا وہ آ جا رہی ہے یا تو یہ کن اکھیوں سے اسے دیکھتا ہے جہاں کسی کی نظر پڑی تو نگاہ پھیرلی اور جب موقعہ پایا آنکھ اٹھا کر دیکھ لیا پس خائن آنکھ کی خیانت کو اور اس کے دل کے راز کو اللہ علیم خوب جانتا ہے کہ اس کے دل میں تو یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو پوشیدہ عضو بھی دیکھ لے ۔ حضرت ضحاک فرماتے ہیں اس سے مراد آنکھ مارنا اشارے کرنا اور بن دیکھی چیز کو دیکھی ہوئی یا دیکھی ہوئی چیز کو ان دیکھی بتانا ہے ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں ۔ نگاہ جس نیت سے ڈالی جائے اللہ پر روشن ہے ۔ پھر سینے میں چھپا ہوا خیال کہ اگر موقعہ ملے اور بس ہو تو آیا یہ بدکاری سے باز رہے گا یا نہیں ۔ یہ بھی وہ جانتا ہے ۔ سدی فرماتے ہیں دلوں کے وسوسوں سے وہ آگاہ ہے ، وہ عدل کے ساتھ حکم کرتا ہے قادر ہے کہ نیکی کا بدلہ نیکی دے اور برائی کی سزا بری دے ۔ وہ سننے دیکھنے والا ہے ۔ جیسے فرمان ہے کہ وہ بروں کو ان کی کرنے کی سزا اور بھلوں کو ان کی بھلائی کی جزا عنایت فرمائے گا ۔ جو لوگ اس کے سوا دوسروں کو پکارتے ہیں خواہ وہ بت اور تصویریں ہوں خواہ اور کچھ وہ چونکہ کسی چیز کے مالک نہیں ان کی حکومت ہی نہیں تو حکم اور فیصلے کریں گے ہی کیا ؟ اللہ اپنی مخلوق کے اقوال کو سنتا ہے ۔ ان کے احوال کو دیکھ رہا ہے جسے چاہے راہ دکھاتا ہے جسے چاہے گمراہ کرتا ہے اس کا اس میں بھی سرا سر عدل و انصاف ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

18۔ 1 َ اَزِفَۃ کے معنی ہیں قریب آنے والی۔ یہ قیامت کا نام ہے، اس لئے کہ وہ بھی قریب آنے والی ہے۔ 18۔ (2) یعنی اس دن خوف کی وجہ سے دل اپنی جگہ سے ہٹ جائیں گے کا ظمین غم سے بھرے ہوئے یا روتے ہوئے یا خاموش اس کے تینوں معنی کیے گئے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٤] اَزِفَ کا لغوی مفہوم : اٰزِفَہ۔ اَزِفَ میں وقت کی تنگی کا مفہوم پایا جاتا ہے جیسے ہم کہتے ہیں کہ گاڑی یا جہاز کے روانہ ہونے میں وقت بہت کم رہ گیا ہے۔ لہذا جلدی کرو۔ اسی طرح قیامت کا دن جو یقینی طور پر آنے والا ہے اسے بس آیا ہی سمجھو اور اس کے لئے جو کچھ سامان کرنا ہے جلدی جلدی کرلو۔ [٢٥] کَظَم کا لغوی مفہوم :۔ کَاظِمِیْنَ ۔ کظم سانس کی نالی کو کہتے ہیں اور کظم السقائ بمعنی مشک کو (پانی سے لبالب بھر کر اس کا منہ بند کردینا ہے اور کا ظم، کظیم اور مکظوم اس شخص کو کہتے ہیں جو غم و غصہ سے سانس کی نالی تک بھرا ہوا ہو مگر اسکا اظہار نہ کرے اور اسے دبا جائے۔ یعنی مجرموں کو اپنی دنیا کی زندگی کی کرتوتوں پر اس قدر غم ہوگا جس کی گھبراہٹ کی وجہ سے ان کے کلیجے منہ کو آرہے ہوں گے۔ [٢٦] سفارش کا عوامی عقیدہ :۔ شفاعت کے متعلق مشرکوں نے جو غلط سلط عقیدے گھڑ رکھے ہیں، بالکل بےکار ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مثلاً فلاں حضرت کا دامن پکڑ لیا جائے اور اس کی بیعت کرلی جائے تو بس بیڑا پارا ہے۔ وہ اللہ کے حضور سفارش کرکے ہمیں چھڑا لیں گے۔ حالانکہ قرآن کی صراحت کے مطابق یہ معلوم کرنا بھی مشکل ہے کہ جن حضرات کو وہ شفیع سمجھ رہے ہیں وہ خود کس حال میں ہوں گے۔ نیز انہیں شفاعت کی اجازت بھی ملے گی یا نہیں اور اگر بفرض محال یہ تسلیم کرلیا جائے کہ انہیں اجازت مل جائے گی تو پھر بھی یہ کب لازم آتا ہے کہ اس کی بات مان بھی لی جائے گی۔ لہذا کسی کی شفاعت پر انحصار کرنا بالکل عبث ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) وانذرھم یوم الازفۃ :” الازفۃ “” ازف یارف “ (س) سے اسم فاعل ہے۔ مونث اس لئے ہے کہ یہ ” الشاعۃ “ کی صفت ہے۔ چناچہ قیامت کے متعلق اکثر الفاظ مونث اسعتمال ہئے ہیں، مثلاً ” الحآقۃ، القارعۃ، الضآختہ “ اور ” الطآمۃ “ وغیرہ۔ قیامت کو ” الازقۃ “ اس لئے فرمایا کہ اس کا آنا بہت قریب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر قیامت کے قریب آنے سے لوگوں کو خبردار فرمایا ہے، چناچہ فرمایا :(ازقت الازقۃ لیس لھامن دون اللہ کاشفۃ) (النجم : ٥٨، ٥٨)” قریب آگئی وہ قریب آنے والی ہے۔ جسے اللہ کے سوا کوئی ہٹانے والا نہیں۔ “ قیامت کے قریب آنے کی تفصیل کے لئے دیکھیے سورة انبیاء کی آیت (١):(اقترب للناس حسابھم) کی تفسیر۔ (٢) اذا القلوب لدی الحناجر کظلمین :” الحناجر “” خنجرۃ “ کی جمع ہے، حلق ہے۔ ” کظلمین “ (” کظلم السقائ “ کا معنی مشکیزے کو پانی سے بھر کر اس کا من بند کردینا۔ یعنی شدید خوف اور غم کی وجہ سے مجرموں کے دل حلق کو پہنچے ہوئے ہوں گے، پھر وہ نہ تو اپنی جگہ واپس جائیں گے کہ انہیں کچھ آرام ملے اور نہ ہی ان کے بدن سے باہر نکلیں گے کہ موت آنے کے بعد ان کی جان چھوٹے۔ (٣) ماللظلمین من حمیم :” حم یحم “ (ن) گرم کرنا۔ دلی دوست یا رشتہ دار کو ” حمیم “ اس لئے کہتے ہیں کہ اسے اپنے دوست یا رشتہ دار کی وجہ سے دل میں گرمی آتی ہے۔ قیامت کے دن ظالموں کا کوئی دلی دوست نہیں ہوگا، جیسا کہ فرمایا : (الاخلآء یومیذ بعضھم لبعض عدو الا المتقین) (الزخرف : ٦٨) ” سب ذی دوست اس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے مگر متقی لوگ۔ “ (٤) ولا شفیع :” ظلامین “ سے مراد کفار و مشرکین۔ (دیکھیے انعام : ٨٢۔ لقمان : ١٣) ان کے حق میں کوئی بھی سفارش نہیں کرے گا، کیونکہ اس دن جو سفارش کی اجازت دی جائے گی وہ انبیاء فرشتوں اور نیک بندوں کو دی جائے گی اور وہ بھی صرف ایمان والوں کے لئے کفار و مشرکین کا سفارشی اس دن کوئی نہیں ہوگا۔ مزید دیکھیے سورة بقرہ (٤٨) (٥) یطلع :” جس کی بات مانی جائے “ یعنی اول تو کفار کے حق میں کوئی شفاعت کی جرأت ہی نہیں کرے گا۔ (دیکھیے انبیائ : ٣٨) اگر لاعلمی یا کسی شبہ کی وجہ سے سفارش کی اجازت سمجھ کر کوئی نبی یا ولی کسی کافر کے حق میں سفارش کر بھی دے گا تو اس کی سفارش نہیں مانی جائے گی۔ ہاں، سفارش قبول نہ ہونے کی وجہ بتادی جائے گی، جیسا کہ ابراہیم (علیہ السلام) قیامت کے دچن اپنے والد کے حق میں سفارش کریں گے، مگر وہ قبول نہیں ہوگی، اسی طرح حوض کوثر پر آنے والے بعض لوگوں کے حق میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سفارش کریں گے مگر آپ کو بتایاجائے گا کہ آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا نیا کام کیا تھا، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سفارش سے دست بردار ہوجائیں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاَنْذِرْہُمْ يَوْمَ الْاٰزِفَۃِ اِذِ الْقُلُوْبُ لَدَى الْحَـنَاجِرِ كٰظِمِيْنَ۝ ٠ۥۭ مَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ حَمِيْمٍ وَّلَا شَفِيْعٍ يُّطَاعُ۝ ١ نذر وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذر الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔ النذ یر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔ أزف قال تعالی: أَزِفَتِ الْآزِفَةُ [ النجم/ 57] أي : دنت القیامة . وأزف وأفد يتقاربان، لکن أزف يقال اعتباراً بضیق وقتها، ويقال : أزف الشخوص، والأَزَفُ : ضيق الوقت، وسمّيت به لقرب کو نها، وعلی ذلک عبّر عنها بالسّاعة، وقیل : أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل/ 1] ، فعبّر عنها بالماضي لقربها وضیق وقتها، قال تعالی: وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْآزِفَةِ [ غافر/ 18] . ا زف ) قرآن میں ہے :۔ { أَزِفَتِ الْآزِفَةُ } ( سورة النجم 57) یعنی قیامت قریب آپہنچی ازف وافد دونوں قریب المعنی ہیں قیامت کو ازف کہنا بلحاظ ضیق وقت کے ہے جیسے کہا جاتا ہے ازف الشخوص ( کوچ کا وقت قریب آپہنچا ) اور ازف کے معنی ضیق وقت کے ہے جیسے کہا جاتا ہے ازف کے معنی ضیق وقت کے ہیں اور قیامت کو ازفۃ کہنا اس کے قرب وقت کے اعتبار سے ہے اور اسی بنا پر اس کو ساعۃ کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے ۔ اور نیز آیت کریمہ :۔ { أَتَى أَمْرُ اللهِ } ( سورة النحل 1) خدا کا حکم ( یعنی عذاب گو یا ) آہی پہنچا ۔ میں قیامت کو لفظ ماضی کے ساتھ تعبیر کیا ہے نیز فرمایا ۔ { وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْآزِفَةِ } ( سورة غافر 18) اور ان کو قریب آنے والے دن سے ڈراو۔ قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ لدی لَدَى يقارب لدن . قال تعالی: وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف/ 25] . ( ل د ی ) لدی یہ تقریبا لدن کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف/ 25] اور دونوں کو دروازے کے پاس عورت کا خاوند مل گیا حنجر قال تعالی: لَدَى الْحَناجِرِ كاظِمِينَ [ غافر/ 18] ، وقال عزّ وجلّ : وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَناجِرَ [ الأحزاب/ 10] ، جمع حَنْجَرَة، وهي رأس الغلصمة من خارج . ( ح ن ج ر) الحنجرۃ ( نرخرہ ) نائے گلو یعنی بیرونی جانب سے حلقوم کا سرا س کی جمع حناجر آتی ہے قرآن میں ہے ؛ لَدَى الْحَناجِرِ كاظِمِينَ [ غافر/ 18] غم سے بھر کر گلو تک آرہے ہوں گے ۔ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَناجِرَ [ الأحزاب/ 10] اور دل ( مارے دہشت کے ) گلوں تک پہنچ گئے ۔ كظم الْكَظْمُ : مخرج النّفس، يقال : أخذ بِكَظَمِهِ ، والْكُظُومُ : احتباس النّفس، ويعبّر به عن السّكوت کقولهم : فلان لا يتنفّس : إذا وصف بالمبالغة في السّكوت، وكُظِمَ فلان : حبس نفسه . قال تعالی: إِذْ نادی وَهُوَ مَكْظُومٌ [ القلم/ 48] ، وكَظْمُ الغَيْظِ : حبسه، قال : وَالْكاظِمِينَ الْغَيْظَ [ آل عمران/ 134] ( ک ظ م ) الکظم اصل میں مخروج النفس یعنی سانس کی نالي کو کہتے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ احذ بکظمہ اس کی سانس کی نالي کو پکڑ لیا یعنی غم میں مبتلا کردیا ۔ الکظوم کے معنی سانس رکنے کے ہیں اور خاموش ہوجانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسا کہ انتہائی خا موشی کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے فلان لا یتنفس کہا جاتا ہے ۔ فلاں سانس نہین لیتا یعنی خا موش ہے ۔ کظم فلان اس کا سانس بند کردیا گیا ( مراد نہایت غمگین ہونا ) چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِذْ نادی وَهُوَ مَكْظُومٌ [ القلم/ 48] کہ انہوں نے خدا کو پکارا اور وہ غم) غصہ میں بھرے تھے ۔ اور کظلم الغیظ کے معنی غصہ روکنے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَالْكاظِمِينَ الْغَيْظَ [ آل عمران/ 134] اور غصے کو در کتے ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں حم الحمیم : الماء الشدید الحرارة، قال تعالی: وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد/ 15] ، إِلَّا حَمِيماً وَغَسَّاقاً [ عمّ/ 25] ، وقال تعالی: وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [ الأنعام/ 70] ، وقال عزّ وجل : يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُؤُسِهِمُ الْحَمِيمُ [ الحج/ 19] ، ثُمَّ إِنَّ لَهُمْ عَلَيْها لَشَوْباً مِنْ حَمِيمٍ [ الصافات/ 67] ، هذا فَلْيَذُوقُوهُ حَمِيمٌ وَغَسَّاقٌ [ ص/ 57] ، وقیل للماء الحارّ في خروجه من منبعه : حَمَّة، وروي : «العالم کالحمّة يأتيها البعداء ويزهد فيها القرباء» «6» ، وسمي العَرَق حمیما علی التشبيه، واستحمّ الفرس : عرق، وسمي الحمّام حمّاما، إمّا لأنه يعرّق، وإمّا لما فيه من الماء الحارّ ، واستحمّ فلان : دخل الحمّام، وقوله عزّ وجل : فَما لَنا مِنْ شافِعِينَ وَلا صَدِيقٍ حَمِيمٍ [ الشعراء/ 100- 101] ، وقوله تعالی: وَلا يَسْئَلُ حَمِيمٌ حَمِيماً [ المعارج/ 10] ، فهو القریب المشفق، فكأنّه الذي يحتدّ حماية لذويه، وقیل لخاصة الرّجل : حامّته، فقیل : الحامّة والعامّة، وذلک لما قلنا، ويدلّ علی ذلك أنه قيل للمشفقین من أقارب الإنسان حزانته أي : الذین يحزنون له، واحتمّ فلان لفلان : احتدّ وذلک أبلغ من اهتمّ لما فيه من معنی الاحتمام، وأحمّ الشّحم : أذابه، وصار کالحمیم، وقوله عزّ وجل : وَظِلٍّ مِنْ يَحْمُومٍ [ الواقعة/ 43] ، للحمیم، فهو يفعول من ذلك، وقیل : أصله الدخان الشدید السّواد ، وتسمیته إمّا لما فيه من فرط الحرارة، كما فسّره في قوله : لا بارِدٍ وَلا كَرِيمٍ [ الواقعة/ 44] ، أو لما تصوّر فيه من لفظ الحممة فقد قيل للأسود يحموم، وهو من لفظ الحممة، وإليه أشير بقوله : لَهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِهِمْ ظُلَلٌ [ الزمر/ 16] ، وعبّر عن الموت بالحمام، کقولهم : حُمَّ كذا، أي : قدّر، والحُمَّى سمّيت بذلک إمّا لما فيها من الحرارة المفرطة، وعلی ذلک قوله صلّى اللہ عليه وسلم : «الحمّى من فيح جهنّم» «4» ، وإمّا لما يعرض فيها من الحمیم، أي : العرق، وإمّا لکونها من أمارات الحِمَام، لقولهم : «الحمّى برید الموت» «5» ، وقیل : «باب الموت» ، وسمّي حمّى البعیر حُمَاماً «6» بضمة الحاء، فجعل لفظه من لفظ الحمام لما قيل : إنه قلّما يبرأ البعیر من الحمّى. وقیل : حَمَّمَ الفرخ «7» : إذا اسودّ جلده من الریش، وحمّم ( ح م م ) الحمیم کے معنی سخت گرم پانی کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد/ 15] اور ان کو کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا ۔ إِلَّا حَمِيماً وَغَسَّاقاً [ عمّ/ 25] مگر گرم پانی اور یہی پیپ ۔ وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [ الأنعام/ 70] اور جو کافر ہیں ان کے پینے کو نہایت گرم پانی ۔ يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُؤُسِهِمُ الْحَمِيمُ [ الحج/ 19]( اور ) ان کے سروں پر جلتا ہوا پانی دالا جائیگا ۔ ثُمَّ إِنَّ لَهُمْ عَلَيْها لَشَوْباً مِنْ حَمِيمٍ [ الصافات/ 67] پھر اس ( کھانے ) کے ساتھ ان کو گرم پانی ملا کردیا جائے گا ۔ هذا فَلْيَذُوقُوهُ حَمِيمٌ وَغَسَّاقٌ [ ص/ 57] یہ گرم کھولتا ہوا پانی اور پیپ ( ہے ) اب اس کے مزے چکھیں ۔ اور گرم پانی کے چشمہ کو حمتہ کہا جاتا ہے ایک روایت میں ہے ۔ کہ عالم کی مثال گرم پانی کے چشمہ کی سی ہے جس ( میں نہانے ) کے لئے دور دور سے لوگ آتے ہیں ( اور شفایاب ہوکر لوٹتے ہیں ) اور قرب و جوار کے لوگ اس سے بےرغبتی کرتے ہیں ( اس لئے اس کے فیض سے محروم رہتے ہیں ) اور تشبیہ کے طور پر پسینہ کو بھی حمیم کہا جاتا ہے اسی سے استحم الفرس کا محاورہ ہے جس کے معنی گھوڑے کے پسینہ پسینہ ہونے کے ہیں اور حمام کو حمام یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ پسینہ آور ہوتا ہے اور یا اس لئے کہ اس میں گرم پانی موجود رہتا ہے ۔ استحم فلان ۔ حمام میں داخل ہونا ۔ پھر مجازا قریبی رشتہ دار کو بھی حمیم کہا جاتا ہے ۔ اس لئے کہ انسان اپنے رشتہ داروں کی حمایت میں بھٹرک اٹھتا ہے اور کسی شخص کے اپنے خاص لوگوں کو حامتہ خاص وعام کا محاورہ ہے ۔ قرآن میں ہے : فَما لَنا مِنْ شافِعِينَ وَلا صَدِيقٍ حَمِيمٍ [ الشعراء/ 100- 101] تو ( آج ) نہ کوئی ہمارا سفارش کرنے والا ہے اور نہ گرم جوش دوست نیز فرمایا ۔ وَلا يَسْئَلُ حَمِيمٌ حَمِيماً [ المعارج/ 10] اور کوئی دوست کسیز دوست کا پر سان نہ ہوگا ۔ اور اس کی دلیل یہ بھی ہوسکتی ہے کہ انسان کے قریبی مہر بانوں کو حزانتہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ وہ اس کے غم میں شریک رہتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ احتم فلان لفلان فلاں اس کے لئے غمگین ہوا یا اس کی حمایت کے لئے جوش میں آگیا ۔ اس میں باعتبار معنی اھم سے زیادہ زور پایا جاتا ہے کیونکہ اس میں غم زدہ ہونے کے ساتھ ساتھ جوش اور گرمی کے معنی بھی پائے جاتے ہیں ۔ احم الشحم چربی پگھلا ۔ یہاں تک کہ وہ گرم پانی کی طرح ہوجائے اور آیت کریمہ : وَظِلٍّ مِنْ يَحْمُومٍ [ الواقعة/ 43] اور سیاہ دھوئیں کے سایے میں ۔ میں یحموم حمیم سے یفعول کے وزن پر ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کے اصل معنی سخت سیاہ دھوآں کے ہیں اور اسے یحموم یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں شیت حرارت پائی جاتی ہے جیسا کہ بعد میں سے اس کی تفسیر کی ہے اور یا اس میں حممتہ یعنی کوئلے کی سی سیاہی کا تصور موجود ہے ۔ چناچہ سیاہ کو یحموم کہا جاتا ہے اور یہ حممتہ ( کوئلہ ) کے لفظ سے مشتق ہے چناچہ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : لَهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِهِمْ ظُلَلٌ [ الزمر/ 16] ان کے اوپر تو اگ کے سائبان ہوں گے اور نیچے ( ان ) کے فرش پونگے اور حمام بمعنی موت بھی آجاتا ہے جیسا کہ کسی امر کے مقدر ہونے پر حم کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اور بخار کو الحمی کہنا یا تو اس لئے ہے کہ اس میں حرارت تیز ہوجاتی ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں آنحضرت نے فرمایا : کہ بخار جہنم کی شدت ست ہے اور یا بخار کو حمی اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں پسینہ اترتا ہے اور یا اس لئے کہ یہ موت کی علامات میں سے ایک علامت ہے ۔ جیسا کہ عرب لوگ کہتے ہیں الحمی بریدالموت ( کہ بخار موت کا پیغام پر ہے ) اور بعض اسے باب الموت یعنی موت کا دروازہ بھی کہتے ہیں اور اونٹوں کے بخار کو حمام کہا جاتا ہے یہ بھی حمام ( موت ) سے مشتق ہے کیونکہ اونٹ کو بخار ہوجائے تو وہ شازو نادر ہی شفایاب ہوتا ہے ۔ حمم الفرخ پرندے کے بچہ نے بال وپر نکال لئے کیونکہ اس سے اس کی جلد سیاہ ہوجاتی ہے ۔ حمم وجھہ اس کے چہرہ پر سبزہ نکل آیا یہ دونوں محاورے حممتہ سے موخوز ہیں ۔ اور حمحمت الفرس جس کے معنی گھوڑے کے ہنہنانے کے ہیں یہ اس باب سے نہیں ہے ۔ شَّفَاعَةُ : الانضمام إلى آخر ناصرا له وسائلا عنه، وأكثر ما يستعمل في انضمام من هو أعلی حرمة ومرتبة إلى من هو أدنی. ومنه : الشَّفَاعَةُ في القیامة . قال تعالی: لا يَمْلِكُونَ الشَّفاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْداً [ مریم/ 87] ، لا تَنْفَعُ الشَّفاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمنُ [ طه/ 109] ، لا تُغْنِي شَفاعَتُهُمْ شَيْئاً [ النجم/ 26] ، وَلا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضى[ الأنبیاء/ 28] ، فَما تَنْفَعُهُمْ شَفاعَةُ الشَّافِعِينَ [ المدثر/ 48] ، أي : لا يشفع لهم، وَلا يَمْلِكُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ الشَّفاعَةَ [ الزخرف/ 86] ، مِنْ حَمِيمٍ وَلا شَفِيعٍ [ غافر/ 18] ، مَنْ يَشْفَعْ شَفاعَةً حَسَنَةً [ النساء/ 85] ، وَمَنْ يَشْفَعْ شَفاعَةً سَيِّئَةً [ النساء/ 85] ، أي : من انضمّ إلى غيره وعاونه، وصار شَفْعاً له، أو شَفِيعاً في فعل الخیر والشّرّ ، فعاونه وقوّاه، وشارکه في نفعه وضرّه . وقیل : الشَّفَاعَةُ هاهنا : أن يشرع الإنسان للآخر طریق خير، أو طریق شرّ فيقتدي به، فصار كأنّه شفع له، وذلک کما قال عليه السلام : «من سنّ سنّة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها، ومن سنّ سنّة سيّئة فعليه وزرها ووزر من عمل بها» «1» أي : إثمها وإثم من عمل بها، وقوله : ما مِنْ شَفِيعٍ إِلَّا مِنْ بَعْدِ إِذْنِهِ [يونس/ 3] ، أي : يدبّر الأمر وحده لا ثاني له في فصل الأمر إلّا أن يأذن للمدبّرات، والمقسّمات من الملائكة فيفعلون ما يفعلونه بعد إذنه . واسْتَشْفَعْتُ بفلان علی فلان فَتَشَفَّعَ لي، وشَفَّعَهُ : أجاب شفاعته، ومنه قوله عليه السلام : «القرآن شَافِعٌ مُشَفَّعٌ» «2» والشُّفْعَةُ هو : طلب مبیع في شركته بما بيع به ليضمّه إلى ملكه، وهو من الشّفع، وقال عليه السلام : «إذا وقعت الحدود فلا شُفْعَةَ» الشفاعۃ کے معنی دوسرے کے ساتھ اس کی مدد یا شفارش کرتے ہوئے مل جانے کے ہیں ۔ عام طور پر کسی بڑے با عزت آدمی کا اپنے سے کم تر کے ساتھ اسکی مدد کے لئے شامل ہوجانے پر بولا جاتا ہے ۔ اور قیامت کے روز شفاعت بھی اسی قبیل سے ہوگی ۔ قرآن میں ہے َلا يَمْلِكُونَ الشَّفاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْداً [ مریم/ 87]( تو لوگ) کسی کی شفارش کا اختیار رکھیں گے مگر جس نے خدا سے اقرار لیا ہو ۔ لا تَنْفَعُ الشَّفاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمنُ [ طه/ 109] اس روز کسی کی شفارش فائدہ نہ دے گی ۔ مگر اس شخص کی جسے خدا اجازت دے ۔ لا تُغْنِي شَفاعَتُهُمْ شَيْئاً [ النجم/ 26] جن کی شفارش کچھ بھی فائدہ نہیں دیتی ۔ وَلا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضى[ الأنبیاء/ 28] وہ اس کے پاس کسی کی سفارش نہیں کرسکتے مگر اس شخص کی جس سے خدا خوش ہو ۔ فَما تَنْفَعُهُمْ شَفاعَةُ الشَّافِعِينَ [ المدثر/ 48]( اس حال میں ) سفارش کرنے والوں کی سفارش ان کے حق میں کچھ فائدہ نہ دے گی ۔ یعنی جن معبودوں کو یہ اللہ کے سو سفارش کیلئے پکارتے ہیں ۔ وہ ان کی سفارش نہیں کرسکیں گے ۔ مِنْ حَمِيمٍ وَلا شَفِيعٍ [ غافر/ 18] کوئی دوست نہیں ہوگا اور نہ کوئی سفارشی جس کی بات قبول کی جائے ۔ مَنْ يَشْفَعْ شَفاعَةً حَسَنَةً [ النساء/ 85] جو شخص نیک بات کی سفارش کرے تو اس کو اس ( کے ثواب ) میں سے حصہ ملے گا ۔ اور جو بری بات کی سفارش کرے اس کو اس ( کے عذاب ) میں سے حصہ ملے گا ۔ یعنی جو شخص اچھے یا برے کام میں کسی کی مدد اور سفارش کرے گا وہ بھی اس فعل کے نفع ونقصان میں اس کا شریک ہوگا ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں شفاعت سے مراد یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے کے لئے کسی اچھے یا برے مسلک کی بنیاد رکھے اور وہ اس کی اقتداء کرے تو وہ ایک طرح سے اس کا شفیع بن جاتا ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا :«من سنّ سنّة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها، ومن سنّ سنّة سيّئة فعليه وزرها ووزر من عمل بها» کہ جس شخص نے اچھی رسم جاری کی اسے اس کا ثواب ملے گا اور اس پر عمل کرنے والوں کا بھی اسے اجر ملے گا اور جس نے بری رسم جاری کی اس پر اس کا گناہ ہوگا ۔ اور جو اس پر عمل کرے گا اس کے گناہ میں بھی وہ شریک ہوگا ۔ اور آیت کریمہ ؛ما مِنْ شَفِيعٍ إِلَّا مِنْ بَعْدِ إِذْنِهِ [يونس/ 3] کوئی ( اس کے پاس ) اس کا اذن لیے بغیر کسی کی سفارش نہیں کرسکتا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ اکیلا ہی ہر کام کی تدبیر کرتا ہے اور نظام کائنات کے چلانے میں کوئی اس کا ساجھی نہیں ہے ۔ ہاں جب وہ امور کی تدبیر و تقسیم کرنے والے فرشتوں کو اجازت دیتا ہے تو وہ اس کی اجازت سے تدبیر امر کرتے ہیں ۔ واسْتَشْفَعْتُ بفلان علی فلان فَتَشَفَّعَ لي، میں نے فلاں سے مدد طلب کی تو اس نے میری مدد لی ۔ وشَفَّعَهُ : ۔ کے معنی کسی کی شفارش قبول کرنے کے ہیں ۔ اور اسی سے (علیہ السلام) کافرمان ہے (196) «القرآن شَافِعٌ مُشَفَّعٌ» کہ قرآن شافع اور مشفع ہوگا یعنی قرآن کی سفارش قبول کی جائے گی ۔ الشُّفْعَةُ کے معنی ہیں کسی مشترکہ چیز کے فروخت ہونے پر اس کی قیمت ادا کر کے اسے اپنے ملک میں شامل کرلینا ۔ یہ شفع سے مشتق ہے ۔ آنحضرت نے فرمایا :«إذا وقعت الحدود فلا شُفْعَةَ» جب حدود مقرر ہوجائیں تو حق شفعہ باقی نہیں رہتا ۔ طوع الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ «5» . قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً ) ( ط و ع ) الطوع کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور محمد ان کو آزفہ کے دن سے ڈرایے جس روز تیزی کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ چپٹے گا اور یہ قیامت کا دن ہے جس وقت کلیجے منہ کو آجائیں گے غم اور پریشانی سے گھٹ گھٹ جائیں گے۔ کافروں کے لیے کوئی دوست بھی نہ ہوگا جو ان کے کام آسکے اور نہ کوئی سفارشی ہوگا جس سے سفارش کا وہم بھی ہوسکے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٨ { وَاَنْذِرْہُمْ یَوْمَ الْاٰزِفَۃِ } ” اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) انہیں خبردار کر دیجئے اس نزدیک آجانے والے دن سے “ { اِذِ الْقُلُوْبُ لَدَی الْحَنَاجِرِکٰظِمِیْنَ } ” جبکہ دل حلق میں آ پھنسیں گے اور وہ غم کو دبا رہے ہوں گے۔ “ { مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ حَمِیْمٍ وَّلَا شَفِیْعٍ یُّطَاعُ } ” ان ظالموں کا نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی ایسا سفارشی ہوگا جس کی بات مانی جائے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

30 In the Qur'an the people have been made to realize again and again that Resurrection is not far off but has approached near at hand, and can take place any moment. In An-Nahl: 1, it has been said: "Allah's Judgement has come, so do not clamour for hastening it;" in Al-Anbiya':1: "The time of the reckoning of the people has drawn near, and yet they arc turning away in heedlessness;" in AI-Qamar: 1: "The Hour of Resurrection has drawn near and the moon has split asunder; " and in An-Najm: 57: "That which is coming is near at hand: none but Allah can avert it." All this is meant to warn the people to the effect that they should not become fearless of Resurrection thinking it to be yet far away, but should mend their ways and reform themselves at once. 31 The word hamim as used in the original implies such a friend of a person as is aroused to action when he sees hire being beaten, and rushes forward to protect and save Him. 32 This thing has been said to refute the concept of intercession held by the disbelievers. As a matter of fact, the wicked people will have no intercessor at all, for permission to intercede, if at all granted, can be granted only to the righteous servants of Allah, and Allah's righteous servants can never make friends with the disbelievers, polytheists and sinners so that they should even think of intruding on their behalf to save them. But as the disbelievers have generally held, and still hold, the belief that the saints, whose disciples they are, will not allow that they go to Hell, but will see that they are forgiven. Therefore, it has been said: There will be no such intercessor there. who may have to be listened to, and whose recommendation Allah may have to accept necessarily."

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :30 قرآن مجید میں لوگوں کو بار بار یہ احساس دلایا گیا ہے کہ قیامت ان سے کچھ دور نہیں ہے بلکہ قریب ہی لگی کھڑی ہے اور ہر لمحہ آسکتی ہے ۔ کہیں فرمایا اَتیٰ اَمْرُ اللہِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْہُ ( النحل:1 ) ۔ کہیں ارشاد ہوا اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُھُمْ وَھُمْ فِیْ غَفْلَۃٍ مُّعْرِضُوْنَ ( الانبیاء :1 ) کہیں متنبہ کیا گیا اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ ( القمر:1 ) ۔ کہیں فرمایا گیا اَزِفَتِ الْاٰزِفَۃُ لَیْسَ لَھَا مِنْ دُوْنِ اللہِ کَاشِفَۃٌ ( النجم:57 ) ۔ ان ساری باتوں سے مقصود لوگوں کو متنبہ کرنا ہے کہ قیامت کو دور کی چیز سمجھ کر بے خوف نہ رہیں اور سنبھلنا ہے تو ایک لمحہ ضائع کیے بغیر سنبھل جائیں ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :31 اصل میں لفظ حَمَیْم استعمال کیا گیا ہے جس سے مراد کسی شخص کا ایسا دوست ہے جو اس کو پٹتے دیکھ کر جوش میں آئے اور اسے بچانے کے لیے دوڑے ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :32 یہ بات برسبیل تنزل ، کفار کے عقیدہ شفاعت کی تردید کرتے ہوئے فرمائی گئی ہے ۔ حقیقت میں تو وہاں ظالموں کا کوئی شفیع سرے سے ہو گا ہی نہیں ، کیونکہ شفاعت کی اجازت اگر مل بھی سکتی ہے تو اللہ کے نیک بندوں کو مل سکتی ہے ، اور اللہ کے نیک بندے کبھی کافروں اور مشرکوں اور فساق و فجار کے دوست نہیں ہو سکتے کہ وہ انہیں بچانے کے لیے سفارش کا خیال بھی کریں ۔ لیکن چونکہ کفار و مشرکین اور گمراہ لوگوں کا بالعموم یہ عقیدہ رہا ہے ، اور آج بھی ہے ، کہ ہم جن بزرگوں کے دامن گرفتہ ہیں وہ کبھی ہمیں دوزخ میں نہ جانے دیں گے بلکہ اڑ کر کھڑے ہو جائیں گے اور بخشوا کر ہی چھوڑیں گے ، اس لیے فرمایا گیا کہ وہاں ایسا شفیع کوئی بھی نہ ہو گا جس کی بات مانی جائے اور جس کی سفارش اللہ کو لازماً قبول ہی کرنی پڑے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(40:18) انذرھم : انذر۔ فل امر۔ واحد مذکر حاضر۔ جس کا مرجع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ انذار (افعال) مصدر سے بمعنی ڈرانا۔ ہم ضمیر مفعول مع مذکر غائب تو ان کو ڈرا۔ تو ان کو ڈر سنا دے۔ یوم الازفۃ۔ مضاف مضاف الیہ ای یوم القیامۃ۔ یہ انذر کا مفعول ثانی ہے اس کا ظرف نہیں ہے۔ کیونکہ یوم قیامت سے خوف دلانے کا فعل یہاں دنیا میں واقع ہے۔ الازفۃ : ازف سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مؤنث ہے۔ ازف یہازف (سمع) ازف قریب آپہنچنا۔ اس کے اصل معنی تنگی وقت کے ہیں۔ چونکہ تنگی وقت کا مطلب وقت کا قریب آلگنا ہوتا ہے اس لئے اس کا استعمال قریب آلگنے میں ہونے لگا۔ ازف جا کے آنے کا وقت بہت تنگ ہوگیا ہو۔ قریب آلگنے والی ۔ مراد قیامت۔ وانذرھم یوم الافۃ : اور ان کو قریب آنے والے دن (یوم قیامت سے) ڈراؤ۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے ازفت الازفۃ۔ نزدیک آجانے والی نزدیک آپہنچی یعنی قیامت قریب آپہنچی۔ اذ القلوب لدی الحناجر کظمین۔ اذ۔ جب ۔ جبکہ۔ یوم الازفۃ سے بدل ہے۔ لدی الحناجر۔ مضاف مضاف الیہ۔ لدی اسم ظرف بمعنی عند پاس۔ الحناجر جمع حنجرۃ کی گلا۔ لدی الحناجر گلوں کے پاس۔ گلوں میں۔ اس وقت دلوں کا غلے میں آنا۔ دو طرح سے ہے :۔ (1) دل اس روز سینے میں اپنی جگہوں کو چھوڑ کر اوپر کو آجائیں گے حتی کہ گلے میں آپھنسیں گے وہاں سے نہ تو وہ منہ سے باہر ہی نکل سکیں گے کہ نکل جائیں تو موت ہی آجائے اور نہ نیچے اپنے اصلی مقام کو جاسکیں گے کہ سانس لیا جاسکے۔ بس گلے میں اٹکے ہی رہ جائیں گے نہ موت آئے گی اور نہ اس دکھ سے جان چھوٹے گی۔ (2) دلوں کا گلے میں آ اٹکنا۔ دکھ اور درد کی شدت، صورت حال کی قباحت و دشواری کو ظاہر کرنا ہے دلوں کا فی الواقع گے میں آجانا مراد نہیں ہے اسی مفہوم میں قرآن مجید میں دوسری جگہ آیا ہے۔ ھنالک ابتلی المؤمنون وزلزلوا زلزالا شدیدا (33:11) اس موقعہ پر ایمان والوں کو خوب آزمایا گیا اور وہ سخت زلزلہ میں ڈالے گئے۔ یہاں زلزال سے خوف و فزع مراد ہے نہ کہ حرکت ارض (زلزلہ، بھونچال) یعنی وہ خوب سختی سے جھنجھوڑے گئے۔ گویا یہاں بطور محاورہ استعمال ہوا ہے۔ کظمین۔ اسم فاعل جمع مذکر کظم مفرد۔ کظم کظوم مصدر۔ (باب ضرب) کظم الباب اس نے دروازہ بند کیا۔ کظم النھر اس نے نہر کو روک دیا کظم القربۃ اس نے مشک بھری اور منہ باندھ دیا۔ کظم (باب سمع) ۔۔ غیظم۔ اس نے اپنے غصہ کو پی لیا۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے واللظلمین الغیظ ۔۔ آیۃ (3:134) غصہ کو پی جانے والے۔ والکظم خوف و غم اور غصہ کو دل میں روک لینا۔ حتی یمتلی منہ ویضیق بہ۔ حتی کو وہ اس سے بھر جائے اور اس کی وجہ سے گھٹن محسوس کرنے لگے۔ کا ظمین : مکروبین ممتلئین خوفا وغما وحزنا۔ خوف و غم اور حزن سے بھرے ہوئے کہ سخت کرب و عذاب میں مبتلا ہوں۔ کظمین۔ القلوب سے حال ہے جملہ کا مطلب یہ ہوگا۔ جس وقت (دکھ اور درد کی شدت سے) اپنی جگہ چھوڑ کر دل اوپر حلقوم میں آجائیں گے اور ان کے منہ بند کردیں گے (کہ نہ سانس اندر کی راہ پاسکے اور نہ اندرونی کرب و ایزاء میں کمی ہوسکے) ۔ ظلمین۔ سے مراد مشرک اور کافر لوگ ہیں۔ حمیمجگری دوست، ایسا دوست جو کہ اپنے دوست کو تکلیف میں دیکھ کر اس کی مدد کے لئے جوش میں آجائے (گرمی کھاجائے) شفیع : شفاعۃ سے بروزن فعیل بمعنی فاعل ہے۔ سفارش کرنے والا۔ یطاع۔ مضارع مجہول واحد مذکر غائب۔ جس کی بات مانی گئی ہو۔ یعنی ایسا سفارشی جس کی بات اگلا مان جائے۔ مراد یہاں سفارشی کی مطلقا نفی ہے کیونکہ ان کو کوئی ایسا سفارشی تو ہوگا ہی نہیں جس کی سفارش مان لی جائے اور ایسا سفارشی بھلا کون ڈھونڈے گا جس کے متعلق یقین ہو کہ اس کی کوئی بات مانے گا ہی نہیں َ مطلب یہ ہوا کہ اسے کوئی بھی سفارشی ملے گا ہی نہیں ۔ یا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ جیسا کہ کفار و مشرکین خیال کرتے تھے اور اب بھی اعتقاد رکھتے ہیں کہ جن بزرگوں کے وہ دامن گرفتہ ہیں وہ ان کو دوزخ میں جانے نہیں دیں گے اور انہیں اللہ سے بخشوا کر ہی چھوڑیں گے۔ فرمایا کہ ایسا کوئی ان کا شفیع نہ ہوگا جس کی سفارش اللہ تعالیٰ منظور فرمالے۔ یا اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کا کوئی سفارشی نہ ہوگا جس کی سفارش مان لی جائے۔ یعنی ان کے کسی سفارشی کی بات نہ مانی جائے گی (یہ الگ بات ہے کہ ان کا کوئی سفارشی ہوگا بھی کہ نہیں) ۔ فائدہ : کلام یلقی الروح ۔۔ الحساب (آیات 15:17) کا ترجمہ یوں بھی ہوسکتا ہے (جب کہ الیوم کا ترجمہ ” آج کا دن “ کی بجائے ” اس دن “ کیا جائے۔ (اللہ تعالیٰ ) اپنے بندوں میں سے کس کا چاہتا ہے اپنا حکم دے کر وحی کو اس کی طرف بھیجتا ہے۔ تاکہ وہ (اللہ یا وحی یا پیغمبر جس پر وحی نازل ہو لوگوں کو) یوم اجتماع کے (عذاب سے) ڈرائے اس دن سب مخلوق چٹی ننگی بغیر کسی چھین چھاوے کے اس کے سامنے نکل کھڑی ہوگی (اور) ان کی کوئی بات اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہ ہوگی۔ اس دن کس کی حکومت ہوگی ؟ (ظاہر ہے کہ اور کسی کی نہیں) صرف اور صرف اللہ کی ہوگی جو الواحد اور القھار ہے۔ اس دن ہر شخص کو اپنے کئے کی جزا ملے گی اور اس روز کسی کی حق تلفی نہیں کی جائے گی۔ بیشک اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے والا ہے (اس صورت میں لمن الملک الیوم (رسول) اور للّٰہ الواحد القھار (جواب) کے لئے سائل اور مجیب معلوم کرنے کی ضرورت نہیں یہ اسلوب بیان کسی امر کو زور دار اور مؤثر بنانے کے لئے دوسری دوسری زبانوں میں بھی اختیار کیا جاتا ہے)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 13 یہ محاوہ ہے جسے ہم اردو میں کلیجہ منہ کو آنا سے تعبیر کرتے ہیں۔14 یعنی اس دن جو سفارش کرنے کی اجازت نہ دی جائے گی وہ انبیاء فرشتوں اور نیک بندوں کو دی جائے گی اور وہ بھی صرف اہل ایمان کے لئے، رہے کافر اور مشرک ہو ان کا اس روز کوئی سفارش نہیں ہوگا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قیامت کے دن کسی پر کوئی زیادتی نہ ہوگی اس کے باوجود لوگوں کے کلیجے منہ کو آرہے ہوں گے۔ رب ذوالجلال کا رعب اور قیامت کے حساب و کتاب کے ڈر کی وجہ سے لوگوں کے کلیجے ان کے حلق تک آچکے ہوں گے۔ اس وقت ظالموں کا کوئی خیر خواہ اور سفارشی نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ آنکھوں کی خیانت اور دلوں میں چھپے ہوئے خیالات کو جانتا ہے وہ اپنے بندوں کو سچائی کا حکم دیتا ہے۔ اس کے سوا جن کو پکارا جاتا ہے وہ کوئی بھی حکم نہیں دے سکتے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ سب کو سننے والا اور ہر چیز کو دیکھنے والا ہے۔ سچائی سے پہلی مراد ” اللہ “ کی توحید اور اس کے تقاضے ہیں۔ قیامت کے دن ظالموں کا یہ حال ہوگا کہ ربِّ ذوالجلال کے خوف کی وجہ سے ان کے کلیجے ان کے حلقوں میں اٹک جائیں گے اور ظالم اس قدر پریشان ہوگے کہ ان کے چہروں سے ان کی ذلت اور پریشانی بالکل عیاں ہوگی۔ وہ اپنے دوست و احباب سے مدد طلب کریں گے مگر کوئی بھی ان کی مدد کے لیے تیار نہ ہوگا۔ مجرم حساب و کتاب کے ابتدائی مرحلے میں جھوٹی قسمیں کھا کر اپنے گناہوں کا انکار اور انہیں چھپانے کی کوشش کریں گے مگر اللہ تعالیٰ سے کچھ بھی چھپا نہیں سکیں گے۔ کیونکہ وہ انسان کی آنکھوں کی خیانت اور اس کے دل میں چھپے ہوئے خیالات کو جانتا ہے۔ مشرک اس لیے شرک کرتا ہے کہ قیامت کے دن اس کے ٹھہرائے ہوئے شریک اسے بچالیں گے مگر جب قیامت قائم ہوگی تو اللہ تعالیٰ سے کوئی کسی کو چھڑا نہیں سکے گا۔ وہاں صرف اللہ تعالیٰ ہی فیصلے کرنے والا ہوگا جو حق اور سچ کے ساتھ لوگوں کے درمیان فیصلے صادر فرمائے گا۔ اس کا فرمان ہے کہ کسی پر ذرہ برابر زیادتی نہ ہوپائے گی۔ دنیا میں بھی ہر چیز اللہ تعالیٰ کے سامنے ہے اور قیامت کے دن بھی سامنے ہوگی۔ وہ ہر حال میں ہر بات سننے والا اور ہر چیز کو دیکھنے والا ہے۔ (عَنِ الْمِقْدَادِ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ تُدْ نَیْ الشَّمْسُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ مِنَ الْخَلْقِ حَتّٰی تَکُوْنَ مِنْھُمْ کَمِقْدَارِ مِیْلٍ فَیَکُوْنُ النَّا سُ عَلٰی قَدْرِ اَعْمَالِھِمْ فِیْ الْعََرَ قِ فَمِنْھُمْ مَنْ یَّکُوْنُ اِلٰی کَعْبَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ یَّکُوْنُ اِلٰی رُکْبَتَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ یَّکُوْنُ اِلٰی حَقْوَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ یُّلْجِمُھُمُ الْعَرَقُ اِلْجَامًا وَاَشَارَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بِیَدِہٖ اِلٰی فِیْہِ ) [ رواہ مسلم : باب فِی صِفَۃِ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ أَعَانَنَا اللَّہُ عَلَی أَہْوَالِہَا ] ” حضرت مقداد (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے سروردو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے سنا ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما رہے تھے قیامت کے دن سورج لوگوں سے ایک میل کی مسافت پر ہوگا لوگوں کا پسینہ ان کے اعمال کے مطابق ہوگا بعض لوگوں کے ٹخنوں تک ‘ بعض کے گھٹنوں تک بعض کی کمر تک اور بعض کے منہ تک پسینہ ہوگا یہ بیان کرتے ہوئے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے منہ کی طرف اشارہ فرمایا۔ “ مسائل ١۔ قیامت کے دن ربِّ ذوالجلال کے خوف کی وجہ سے ظالموں کے کلیجے ان کے حلق میں اٹک جائیں گے۔ ٢۔ قیامت کے دن ظالموں کا نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی سفارشی کہ جس کی بات مانی جائے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ آنکھوں کی خیانت اور دلوں کے بھید جانتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہی قیامت کے دن حق اور سچ کیساتھ فیصلہ فرمائے گا۔ ٥۔ قیامت کے دن اللہ کے سوا کسی کے پاس کوئی اختیار نہیں ہوگا۔ ٦۔ یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ ہر بات سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن کفار اور مشرکین کا کوئی مددگار نہیں ہوگا : ١۔ اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں ان کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔ (ہود : ٢٠۔ البقرۃ : ١٠٧) ٢۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ایسا نہیں جو تمہاری مدد کرسکے۔ (البقرۃ : ١٢٠) ٣۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ولی اور بچانے والا نہیں ہے۔ (الرعد : ٣٧) ٤۔ اللہ تعالیٰ کے سوا تمہارا کوئی ولی اور مددگار نہیں۔ (العنکبوت : ٢٢۔ الشوریٰ : ٣١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 18 تا 20 آزفہ کے معنی ہوتے ہیں قریبہ ، جلدی آنے والی ، معنی ہے قیامت ۔ یہ لفظ قامت کی تصویر اس طرح کھینچ رہا ہے کہ گویا وہ پہنچنے ہی والی ہے۔ انسانی سانس تیز ہوگا ، لوگ ہانپ رہے ہوں گے۔ اور کلیجے منہ کو آرہے ہوں گے اور لوگوں پر بہت بڑا دباؤ ہوگا لیکن یہ پریشان دل لوگ دباؤ کا مقابلہ کرنے کی سعی کریں گے۔ سانس کی تیزی کو روک رہے ہوں گے۔ دورپر قابو پانے کی سعی کریں گے ، خوف کو چھپائیں گے۔ اور اس برداشت کی وجہ سے ان پر مزید دباؤ ہوگا ، ان کے سینے پھٹ رہے ہوں گے۔ کوئی دوست نہ ہوگا جس کے سامنے سینہ کھول کر رکھ دیں اور وہ ہمدردی کرے ، کوئی سفارشی نہ ہوگا جو ان کے حق میں کوئی بات کرے۔ اس قدر خوفناک اور کربناک مقام پر کوئی کیا بات کرسکتا ہے۔ ان کے راز اس دن کھلیں گے ، ان کی کوئی بات اللہ سے مخفی نہ ہوگی۔ یہاں تک کہ آنکھوں کے خائن کی کوئی بات بھی مخفی نہ ہوگی اور دلوں کے راز بھی مخفی نہ ہوں گے۔ یعلم خآئنة الاعین وما تخفی الصدور (40: 19) ” اللہ نگاہوں کی چوری تک سے واقف ہے ، اور وہ راز تک جانتا ہے جو سینوں میں چھپا رکھے ہیں “۔ خائن آنکھیں ہمیشہ اپنی خیانت کو چھپائے رکھتی ہیں۔ لیکن اللہ پر تو کوئی بات مخفی نہیں ہوتی ، نہ دلوں کا راز مخفی ہوتا ہے ، اللہ تو سب کچھ جانتا ہے۔ اس دن صرف اللہ ہی فیصلے کرے گا۔ یہ سچے فیصلے ہوں گے۔ لوگوں کو الٰہ بنارکھا ہے ، ان کا کوئی اختیار نہ ہوگا اور نہ وہ فیصلہ کرسکیں گے۔ واللہ یقضی۔۔۔۔ بشئ (40: 20) ” اور اللہ ٹھیک ٹھیک بےلاگ فیصلے کرے گا۔ رہے وہ جن کو اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ کسی چیز کا بھی کرنے والے نہیں ہیں “۔ اللہ حق کے فیصلے علم ومہارت سے کرتا ہے۔ وہ دیکھ سن کر فیصلے کرتا ہے۔ نہ کسی پر ظلم کرتا ہے اور نہ کوئی چیز بھولتا ہے۔ ان اللہ ھو السمیع البصیر (40: 20) ” بلاشبہ اللہ ہی سب کچھ دیکھنے اور سننے والا ہے

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

انہیں قیامت کے دن سے ڈرائیے جس دن دل گھٹن میں ہوں گے، ظالموں کے لیے کوئی دوست یا سفارش کرنے والا نہ ہوگا ان آیات میں بھی قیامت کا منظر بتایا ہے ارشاد فرمایا کہ آپ انہیں یوم الاٰزفۃ سے ڈرائیے یہ ازف یازف سے اسم فاعل کا صیغہ ہے جو قرب کے معنی پر دلالت کرتا ہے سورة النجم میں فرمایا (اَزِفَتِ الْاٰزِفَۃُ ) (قریب آنے والی قریب آگئی) اس سے قیامت مراد ہے جو جلد ہی آجانیوالی ہے آیت بالا میں فرمایا کہ آپ ان کو قیامت کے دن سے ڈرائیے یہ ایسا دن ہوگا کہ قلوب حلقوم کو پہنچے ہوئے ہوں گے اور ایسا معلوم ہوگا کہ دل اندر سے اٹھ کر گلوں میں آکر پھنس گئے ہیں اور باہر آنا چاہتے ہیں یہ قلوب بڑی گھٹن میں ہوں گے اس وقت سخت تکلیف ہوگی گھٹن اور غم اور بےچینی بہت زیادہ ہوگی جو لوگ دنیا میں ظلم والے تھے وہ وہاں مصیبت سے چھٹکارا کے لیے دوست اور سفارشی تلاش کریں گے تو کوئی بھی دوست نہ ملے گا اور نہ کوئی سفارشی ملے گا جس کی بات مانی جائے، صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ ظالمین سے کافر مراد ہیں کیونکہ ظلم میں کامل ہونا انہیں کی صفت ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

25:۔ قیامت کے دن مشرکین کا کوئی ھامی و مددگار نہیں ہوگا اور نہ کوئی ایسا سفارشی ہی میسر آسکے گا جس کی سفارش ان کے حق میں قبول کی جاسکے۔ ای لیس للذین ظلموا انفسہم بالشرک باللہ من قریب منہم ینفعہم ولا شفیع یشفع فیہم (ابن کثیر ج 4) ۔ 26:۔ ” یعلم خائنۃ الاعین “ یہ اضافت صفت بموصوف کے قبیل سے ہے اور اصل میں ” الاعین الخائنۃ “ ہے یعنی وہ خیانت کرنے والی نگاہوں کو خوب جانتا ہے۔ یا الخائنۃ مصدر ہے۔ ” العافیۃ “ اور ” العاقبۃ “ کی مانند آنکھوں کی خیانت سے غیر محرموں کو دیکھنا مراد ہے۔ ” یعلم خائنۃ الاعین کقولہ وان سقیت کرام الناس ای الناس و جوز ان تکون خائنۃ مصدرا کالعافیۃ والعاقبۃ ای یعلم خیانۃ الاعین (بحر ج 7 ص 457) ۔ وہ ایسا علیم وخبیر ہے کہ آنکھوں کی خیانت کو بھی جانتا ہے اور جو باتیں دلوں میں پوشیدہ ہیں ان سے بھی باخبر ہے، اس لیے قیامت کے دن وہ سب کے اعمال کی پوری پوری جزا و سزا دے گا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(18) اوراے پیغمبر آپ ان کو اس قریب آنے والے دن کی مصیبت سے ڈرا دیجئے جس وقت مارے غم اور خوف کے گھٹ گھٹ کر لوگوں کے کلیجے گلوں میں آرہے ہوں گے اس دن ان ظالموں کا نہ کوئی ہمدردی کرنے والا درست ہوگا اور نہ کوئی ایسا سفارش ہوگا جس کی بات مان لی جائے۔ کلیجہ منہ کو آنا ایک محاورہ ہے ہماری زبان کا۔ مطلب یہ ہے کہ وہ دن قریب ہی آنے والا ہے کیونکہ ہر روزقریب ہوتا جاتا ہے اس دن کو گھبراہٹ اور خوف اور نفسا نفسی کا قرآن میں بہت جگہ ذکر آچکا ہے یہاں خوف اور گھبراہٹ سے جو گھٹن ہوگی اس کا حال بیان فرمایا ایسے موقعہ پر انسان کا دل اور اس کا کلیجہ اچھلتا ہے اس کو فرمایا کہ دل اچھلتے اچھلتے حلق اور اور گلوں میں پھنس جائیں گے نہ باہر نکل سکیں گے اور نہ اطمینان نصیب ہوگا کہ دل اپنی جگہ اور کلیجہ اپنی جگہ ٹھہر کر سکون پکڑیں پھر اس مصیبت اور تکلیف کے وقت نہ کوئی ہمدردی کرنے والا دوست ہوگا اور نہ کوئی قابل اعتماد سفارشی کہ جس کا کہا مان لیا جائے۔