Surat ul Momin

Surah: 40

Verse: 35

سورة مومن

الَّذِیۡنَ یُجَادِلُوۡنَ فِیۡۤ اٰیٰتِ اللّٰہِ بِغَیۡرِ سُلۡطٰنٍ اَتٰہُمۡ ؕ کَبُرَ مَقۡتًا عِنۡدَ اللّٰہِ وَ عِنۡدَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ؕ کَذٰلِکَ یَطۡبَعُ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ قَلۡبِ مُتَکَبِّرٍ جَبَّارٍ ﴿۳۵﴾

Those who dispute concerning the signs of Allah without an authority having come to them - great is hatred [of them] in the sight of Allah and in the sight of those who have believed. Thus does Allah seal over every heart [belonging to] an arrogant tyrant.

جو بغیر کسی سند کے جو ان کے پاس آئی ہو اللہ کی آیتوں میں جھگڑتے ہیں اللہ کے نزدیک اور مومنوں کے نزدیک یہ تو بہت بڑی ناراضگی کی چیز ہے اللہ تعالٰی اسی طرح ہر ایک مغرور سرکش کے دل پر مہر کر دیتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي ايَاتِ اللَّهِ بِغَيْرِ سُلْطَانٍ أَتَاهُمْ ... Those who dispute about the Ayat of Allah, without any authority that has come to them, means, those who attempt to refute truth with falsehood and who dispute the proof without evidence or proof from Allah, Allah will hate them with the utmost loathing. Allah says: ... كَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللَّهِ وَعِندَ الَّذِينَ امَنُوا ... it is greatly hateful and disgusting to Allah and to those who believe. meaning, the believers too will despise those who are like this, and whoever is like this, Allah will put a seal on his heart so that after that he will not acknowledge anything good or denounce anything evil. Allah says: ... كَذَلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلَى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ ... Thus does Allah seal up the heart of every arrogant. meaning, so that they cannot follow the truth. ... جَبَّارٍ tyrant.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

35۔ 1 یعنی اللہ کی طرف سے اتاری ہوئی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں ہے، اس کے باوجود اللہ کی توحید اور اس کے احکام میں جھگڑتے ہیں، جیسا کہ ہر دور کے اہل باطن کا وطیرہ رہا ہے۔ 35۔ 2 یعنی ان کی اس حرکت سے اللہ تعالیٰ ہی ناراض نہیں ہوتا، اہل ایمان بھی اس کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ 35۔ 2 یعنی جس طرح ان مجادلین کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ہے اسی طرح ہر اس شخص کے دل پر مہر لگا دی جاتی ہے جو اللہ کی آیتوں کے مقابلے میں تکبر اور سرکشی کا اظہار کرتا ہے جس کے بعد معروف ان کو معروف اور منکر، منکر نظر نہیں آتا بلکہ بعض دفعہ منکر، ان کے ہاں معروف اور اور معروف، منکر قرار پاتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٩] گمراہ ہونے والوں کی صفات :۔ گمراہ ہونے والوں کی دو صفات تو اوپر مذکور ہوچکیں۔ ایک یہ کہ حق سے انکار کرتے اور اپنی بداخلاقی اور فسق و فجور میں بہت آگے نکل جاتے ہیں۔ دوسرے انبیاء (علیہم السلام) کی تعلیم جس کا اکثر حصہ توحید اور آخرت کے متعلق ہوتا ہے & سے ہمیشہ شک و شبہ میں مبتلا رہے ہیں اور ان کی تیسری صفت یہ ہوتی ہے کہ وہ اللہ کی آیات کا مذاق اڑاتے اور ان میں اس طرح کج بحثی کرتے ہیں جس کی بنیاد نہ کسی عقلی دلیل پر ہوتی ہے اور نہ نقلی دلیل پر۔ اور اس کی وجہ محض ان کی ضد، ہٹ دھرمی اور تکبر یا پندار نفس ہوتا ہے۔ ان کی یہ صورت حال اللہ اور مومنوں کے نزدیک انتہائی نفرت انگیز ہوتی ہے اور جو انسان اس حالت کو پہنچ جاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے دل پر ٹھپہ لگا دیتا ہے جس کے بعد ان کے دلوں میں ہدایت اور بھلائی کی بات داخل ہو ہی نہیں سکتی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) الذین یجادلون فی ایت اللہ …: یہ ان لوگوں کی تیسری صفت ہے جنہیں اللہ تعالیٰ ہدایت نہیں دیتا، بلکہ انہیں ضلالت میں مبتلا کردیتا ہے، یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی واضح اور روشن آیات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے اور انہیں سعادت مندی کے ساتھ تسلیم کرنے کے بجائے انہیں ٹھکرانے کے لئے صحیح عقل یا نقل سے آنے والی کسی دلیل کے بغیر جھگڑتے اور کج بحثی کرتے ہیں۔ فرمایا، ان کا کل سرمایہ شور و غوغا، استہزاء اور ہٹ دھرمی ہوتا ہے۔ یہ تین عیوب جن لوگوں میں پیدا ہوجاتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ بھی گمراہی کے گڑھے میں پھینک یدتا ہے۔ (٢) کبر مقتا عند اللہ و عند الذین امنوا :” کبر “ کا فاعل وہ جدال ہے جو ” یجادلون “ کے ضمن میں بطور مصدر موجود ہے،” مقتاً “ تمیز ہے۔ یعنی بلا دلیل جھگڑا اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی اور ایمان والوں کے ہاں بھی سخت ناپسندیدگی ، نفرت اور ناراض ہونے کے لحاظ سے بہت بڑا ہے۔ (٣) بلا دلیل جھگڑا اللہ تعالیٰ اور مومنوں کے نزدیک سخت ناپسندیدہ بتلانے میں اہل ایمان کو تلقین ہے کہ ایسے جھگڑے سے اجتناب کریں جیسا کہ فرمایا :(واذا سمعوا اللغوا اعرضوا عنہ) (القصص : ٥٥)” اور جب وہ لغوبات سنتے ہیں تو اس سے کنارہ کرتے ہیں۔ “ اور فرمایا :(واذا خاطبھم الجھلون قالوا سلما) (الفرقان : ٦٣)” اور جب جاہل لوگ ان سے بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں سلام ہے۔ “ اور فرمایا :(واذا مروا بالغومروا کراماً ) (الفرقان : ٨٢) ” اور جب بےہودہ کام کے پاس سے گزرتے ہیں تو باعزت گزر جاتے ہیں۔ “ ناحق جھگڑے سے اپنی شدید نفرت کے ذدکر کے ساتھ ایمان والوں کی شدید نفرت کا تذکرہ بھی فرمایا، اس سے ایمان والوں کی شان کی عظمت کا اظہار مقصود ہے۔ (٤) کذلک یطبع اللہ علی کل قلب متکبر جبار : معلوم ہوتا ہے کہ ” کذلک یضل اللہ من ھو مسرف مرتاب “ سے یہاں تک چند فقرے آل فرعون کے کلام کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارشاد فرمائے گئے ہیں اور ان میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کے متکبر و جبار کفار کے کفر پر اصرار کا باعث بیان کیا گیا ہے۔ یعنی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جن لوگوں کی طرف مبعوث کئے گئے ہیں ان میں سے بھی کوئی شخص جب تکبر اور سرکشطی میں حد سے گزر جاتا ہے اور کوئی صحیح بات ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتا تو اس کے دل پر اسی طرح مہر لگا دی جاتی ہے جس طرح آل فرعون کے دل پر مہر لگا دی گئی، پھر اس کا کام اسراف (زیادتی) ، ارتیاب (شک) اور جدال بالباطل (ناحق جھگڑا) ہی رہ جاتا ہے، کوئی صحیح بات یا نصیحت اس پر اثر نہیں کرتی اور ہی اللہ تعالیٰ اسے ہدایت کی توفیق دیتا ہے، جیسا کہ فرمایا :(فلما زاغوا ازاغ اللہ قلوبھم) (الصف : ٥) ” پھر جب وہ ٹیڑھے ہوگئے تو اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کردیئے۔ “ اور فرمایا :(ونقلب افدتھم وابصارھم کمالو یو منوا بہ اول مزۃ ونذرھم فی طغیانھم یعمھون) (الانعام : ١١٠)” اور ہم ان کے دلوں اور ان کی آنکھوں کو پھیر دیں گے، جیسے وہ اس پر پہلی بار ایمان نہیں لائے اور انہیں چھوڑ دیں گے، اپنی سرکشی میں بھٹکتے پھریں گے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In verse 35, it was said: كَذَٰلِكَ يَطْبَعُ اللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ‌ جَبَّارٍ‌ (That is how Allah stamps a seal on the entire heart of an arrogant tyrant), that is, the way the hearts of Pharaoh and Haman remained unaffected by the good counsel of Sayyidna Musa (علیہ السلام) and the believer from the House of Pharaoh, similarly, Allah Ta’ ala cancels out or puts a seal on the heart of every such person who is arrogant and tyrannical (someone proud and arrogant, someone unjust and oppressive). When this happens, the effect is that the light of faith does not enter that heart, and one is rendered unable to distinguish between good and bad. In one قِرَأت (qira&ah: rendition of the Qur&an), the words for &arrogant& and &tyrant& have been identified as attributes of the heart for the reason that the heart is the reservoir of all morals and deeds. Every deed, good or bad, is born in the heart. Therefore, it has been said in Hadith that there is a piece of flesh (heart) in the human body which, when it works right, it makes the whole body work right, and when it goes bad, it makes the whole body go bad. (Qurtubi)

(آیت) كَذٰلِكَ يَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰي كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ ۔ یعنی جس طرح فرعون وہامان کے قلوب نے موسیٰ (علیہ السلام) اور مومن آل فرعون کی نصیحتوں سے کوئی اثر نہیں لیا اسی طرح اللہ تعالیٰ مہر کردیتے ہیں ہر ایسے شخص کے قلب پر جو متکبر اور جبار ہو (متکبر، تکبر کرنیوالا اور جبار کے معنی ظالم قاتل) جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ اس میں نور ایمان داخل نہیں ہوتا اور اس کو اچھے برے کی تمیز نہیں رہتی۔ ایک قرات میں متکبر اور جبار کو قلب کی صفت قرار دیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ تمام اخلاق و اعمال کا منبع اور سرچشمہ قلب ہی ہے، ہر اچھا برا عمل قلب ہی سے پیدا ہوتا ہے۔ اس لئے حدیث میں فرمایا ہے کہ انسان کے بدن میں ایک گوشت کا ٹکڑا (یعنی دل) ایسا ہے جس کے درست ہونے سے سارا بدن درست ہوجاتا ہے اور اس کے خراب ہونے سے سارا بدن خراب ہوجاتا ہے۔ (قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

الَّذِيْنَ يُجَادِلُوْنَ فِيْٓ اٰيٰتِ اللہِ بِغَيْرِ سُلْطٰنٍ اَتٰىہُمْ۝ ٠ ۭ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللہِ وَعِنْدَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا۝ ٠ ۭ كَذٰلِكَ يَطْبَعُ اللہُ عَلٰي كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ۝ ٣٥ جدل الجِدَال : المفاوضة علی سبیل المنازعة والمغالبة، وأصله من : جَدَلْتُ الحبل، أي : أحكمت فتله ۔ قال اللہ تعالی: وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل/ 125] ( ج د ل ) الجدال ( مفاعلۃ ) کے معنی ایسی گفتگو کرنا ہیں جسمیں طرفین ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کریں اصل میں یہ جدلت الحبل سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی ہیں رسی کو مضبوط بٹنا اسی سے بٹی ہوئی رسی کو الجدیل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل/ 125] اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ غير أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] ، ( غ ی ر ) غیر اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے سلط السَّلَاطَةُ : التّمكّن من القهر، يقال : سَلَّطْتُهُ فَتَسَلَّطَ ، قال تعالی: وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء/ 90] ، وقال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر/ 6] ، ومنه سمّي السُّلْطَانُ ، والسُّلْطَانُ يقال في السَّلَاطَةِ ، نحو : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء/ 33] ، ( س ل ط ) السلاطۃ اس کے معنی غلبہ حاصل کرنے کے ہیں اور سلطتہ فتسلط کے معنی ہیں میں نے اسے مقہود کیا تو وہ مقہود ہوگیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء/ 90] اور اگر خدا چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کردتیاوَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر/ 6] لیکن خدا اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے ۔ اور اسی سے بادشاہ کو سلطان ، ، کہا جاتا ہے ۔ اور سلطان کا لفظ تسلط اور غلبہ کے معنی میں بھی آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء/ 33] اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ «5» ، وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ «6» . والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل/ 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل/ 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر/ 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعر : 5- أتيت المروءة من بابها «7» فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة/ 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء/ 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) «1» فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم/ 27] . يقال : أتيته وأتوته الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو { أَتَى أَمْرُ اللَّهِ } [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ { فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ } [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت { وَجَاءَ رَبُّكَ } [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) |" اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ { وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى } [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ { يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ } [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ { لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا } [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ كَبِيرَةُ ، گناه، مشكل والْكَبِيرَةُ متعارفة في كلّ ذنب تعظم عقوبته، والجمع : الْكَبَائِرُ. قال : الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَواحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ [ النجم/ 32] ، وقال : إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبائِرَ ما تُنْهَوْنَ عَنْهُ [ النساء/ 31] قيل : أريد به الشّرک لقوله : إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] . وقیل : هي الشّرک وسائر المعاصي الموبقة، کالزّنا وقتل النّفس المحرّمة، ولذلک قال : إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء/ 31] ، وقال : قُلْ فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُما أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِما [ البقرة/ 219] . وتستعمل الکبيرة فيما يشقّ ويصعب نحو : وَإِنَّها لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخاشِعِينَ [ البقرة/45] ، وقال : كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ ما تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ [ الشوری/ 13] ، وقال : وَإِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكَ إِعْراضُهُمْ [ الأنعام/ 35] ، وقوله : كَبُرَتْ كَلِمَةً [ الكهف/ 5] ففيه تنبيه علی عظم ذلک من بين الذّنوب وعظم عقوبته . ولذلک قال : كَبُرَ مَقْتاً عِنْدَ اللَّهِ [ الصف/ 3] ، وقوله : وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ [ النور/ 11] إشارة إلى من أوقع حدیث الإفك . وتنبيها أنّ كلّ من سنّ سنّة قبیحة يصير مقتدی به فذنبه أكبر . وقوله : إِلَّا كِبْرٌ ما هُمْ بِبالِغِيهِ [ غافر/ 56] ، أي تكبّر . وقیل : أمر كَبِيرٌ من السّنّ ، کقوله : وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ [ النور/ 11] الکبیرۃ ۔ عرف میں اس گناہ کو کہتے ہیں جس کی سزا بڑی سخت ہو ۔ اس کی جمع الکبائر آتی ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَواحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ [ النجم/ 32] جو صغیرہ گناہوں کے سوا بڑے بڑے گناہوں اور بےحیائی کی باتوں سے اجتناب کرتے ہیں ۔ اور آیت ؛ إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبائِرَ ما تُنْهَوْنَ عَنْهُ [ النساء/ 31] اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے جن سے تم کو منع کیا جاتا ہے ۔ اجتناب رکھو ۔ میں بعض نے کہا ہے ۔ کہ کبائر سے مراد شرک ہے ۔ کیونکہ دوسری آیت ۔ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ؛میں شرک کو ظلم عظیم کہا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہ ے کہ کبائر کا لفظ ۔ شر ک اور تمام مہلک گناہوں کو شامل ہے ۔ جیسے زنا اور کسی جان کا ناحق قتل کرنا جیسا کہ فرمایا :إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء/ 31] کچھ شک نہیں کہ ان کا مار ڈالنا بڑا سخت گناہ ہے ۔ قُلْ فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُما أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِما [ البقرة/ 219] کہہ دو کہ ان میں نقصان بڑے ہیں اور لوگوں کے لئے کچھ فائدے بھی ہیں ۔ مگر ان کے نقصان فاہدوں سے زیادہ ہیں ۔ اور کبیرۃ اس عمل کو بھی کہتے ہیں جس میں مشقت اور صعوبت ہو ۔ چناچہ فرمایا : وَإِنَّها لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخاشِعِينَ [ البقرة/بے شک نماز گراں ہے مگر ان لوگوں پر نہیں جو عجز کرنے والے ہیں ۔ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ ما تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ [ الشوری/ 13] جس چیز کی طرف تم مشرکوں کو بلاتے ہو وہ ان کو دشوار گزرتی ہے ۔ وَإِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكَ إِعْراضُهُمْ [ الأنعام/ 35] اور اگر ان کی روگردانی تم پر شاق گزرتی ہے اور آیت کریمہ : كَبُرَتْ كَلِمَةً [ الكهف/ 5]( یہ ) بڑی بات ہے ۔ میں اس گناہ کے دوسرے گناہوں سے بڑا اور اس کی سزا کے سخت ہونے پر تنبیہ پائی جاتی ہے ۔ جیسے فرمایا : كَبُرَ مَقْتاً عِنْدَ اللَّهِ [ الصف/ 3] خدا اس بات سے سخت بیزار ہے ۔ اور آیت : وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ [ النور/ 11] اور جس نے ان میں سے اس بہتان کا بڑا بوجھ اٹھایا ۔ میں تولی کبرہ سے مراد وہ شخص ہے جس نے افک کا شاخسانہ کھڑا کیا تھا اور اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو شخص کسی برے طریقے کی بنیاد ڈالے اور لوگ اس پر عمل کریں تو وہ سب سے بڑھ کر گنہگار ہوگا ۔ اور آیت :إِلَّا كِبْرٌ ما هُمْ بِبالِغِيهِ [ غافر/ 56]( ارادہ ) عظمت ہے اور اس کو پہنچنے والے نہیں ۔ میں بکر کے معنی بھی تکبر ہی کے ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ اس سے ہر بڑا امر مراد ہے ۔ اور یہ کبر بمعنی پیرا نہ سالی سے ماخوذ ہے جیسا کہ آیت ۔: وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ [ النور/ 11] مقت المَقْتُ : البغض الشدید لمن تراه تعاطی القبیح . يقال : مَقَتَ مَقاتَةً فهو مَقِيتٌ ، ومقّته فهو مَقِيتٌ ومَمْقُوتٌ. قال تعالی: إِنَّهُ كانَ فاحِشَةً وَمَقْتاً وَساءَ سَبِيلًا [ النساء/ 22] وکان يسمّى تزوّج الرّجل امرأة أبيه نکاح المقت، وأما المقیت فمفعل من القوت، وقد تقدّم ( م ق ت ) المقت کے معنی کسی شخص کو فعل قبیح کا ارتکاب کرتے ہوئے دیکھ کر اس سے بہت بغض رکھتے کے ہیں ۔ یہ مقت مقاتۃ فھو مقیت ومقتہ فھو مقیت وممقوت سے اسم سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ یہ نہایت بےحیائی اور ( خدا کی ) ناخوشی کی بات تھی اور بہت برا دستور تھا ۔ جاہلیت میں اپنے باپ کی بیوہ سے شادی کرنے کو نکاح المقیت کہا جاتا تھا ۔ المقیت کی اصل قوۃ ہے جس کی تشریح پہلے گزر چکی ہے ۔ عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ طبع الطَّبْعُ : أن تصوّر الشیء بصورة مّا، كَطَبْعِ السّكّةِ ، وطَبْعِ الدّراهمِ ، وهو أعمّ من الختم وأخصّ من النّقش، والطَّابَعُ والخاتم : ما يُطْبَعُ ويختم . والطَّابِعُ : فاعل ذلك، وقیل للطَّابَعِ طَابِعٌ ، وذلک کتسمية الفعل إلى الآلة، نحو : سيف قاطع . قال تعالی: فَطُبِعَ عَلى قُلُوبِهِمْ [ المنافقون/ 3] ، ( ط ب ع ) الطبع ( ف ) کے اصل معنی کسی چیز کو ( ڈھال کر) کوئی شکل دینا کے ہیں مثلا طبع السکۃ اوطبع الدراھم یعنی سکہ یا دراہم کو ڈھالنا یہ ختم سے زیادہ عام اور نقش سے زیادہ خاص ہے ۔ اور وہ آلہ جس سے مہر لگائی جائے اسے طابع وخاتم کہا جاتا ہے اور مہر لگانے والے کو طابع مگر کبھی یہ طابع کے معنی میں بھی آجاتا ہے اور یہ نسبۃ الفعل الی الآلۃ کے قبیل سے ہے جیسے سیف قاطع قرآن میں ہے : فَطُبِعَ عَلى قُلُوبِهِمْ [ المنافقون/ 3] تو ان کے دلوں پر مہر لگادی ۔ قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ تَّكَبُّرُ والتَّكَبُّرُ يقال علی وجهين : أحدهما : أن تکون الأفعال الحسنة كثيرة في الحقیقة وزائدة علی محاسن غيره، وعلی هذا وصف اللہ تعالیٰ بالتّكبّر . قال : الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ [ الحشر/ 23] . والثاني : أن يكون متکلّفا لذلک متشبّعا، وذلک في وصف عامّة الناس نحو قوله : فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 72] ، وقوله : كَذلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ [ غافر/ 35] ومن وصف بالتّكبّر علی الوجه الأوّل فمحمود، ومن وصف به علی الوجه الثاني فمذموم، ويدلّ علی أنه قد يصحّ أن يوصف الإنسان بذلک ولا يكون مذموما، وقوله : سَأَصْرِفُ عَنْ آياتِيَ الَّذِينَ يَتَكَبَّرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ [ الأعراف/ 146] فجعل متکبّرين بغیر الحقّ ، وقال : عَلى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ [ غافر/ 35] بإضافة القلب إلى المتکبّر . ومن قرأ : بالتّنوین جعل المتکبّر صفة للقلب، التکبر ۔ اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ایک یہ فی الحقیقت کسی کے افعال حسنہ زیادہ ہوں اور وہ ان میں دوسروں سے بڑھا ہوا ہو ۔ اسی معنی میں اللہ تعالیٰ صفت تکبر کے ساتھ متصف ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ [ الحشر/ 23] غالب زبردست بڑائی ۔ دوم یہ کہ کوئی شخص صفات کمال کا اعاء کرے لیکن فی الواقع وہ صفات حسنہ عاری ہو اس معنی کے لحاظ سے یہ انسان کی صفت بن کر استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ فرمایا ہے ؛فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 72] متکبروں کا کیا بڑا ٹھکانا ہے ۔ كَذلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ [ غافر/ 35] اسی طرح خدا ہر سرکش متکبر کے دل پر مہر لگا دیتا ہے ۔ تو معنی اول کے لحاظ سے یہ صفات محمود میں داخل ہے اور معنی ثانی کے لحاظ سے صفت ذم ہے اور کبھی انسان کے لئے تکبر کرنا مذموم نہیں ہوتا جیسا کہ آیت ؛سَأَصْرِفُ عَنْ آياتِيَ الَّذِينَ يَتَكَبَّرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ [ الأعراف/ 146] جو لوگ زمین میں ناحق غرور کرتے ہیں ان کو اپنی آیتوں سے پھیردوں گا ۔ سے معلوم ہوتا ہے کہ تکبر الحق نہ ہو تو مذموم نہیں ہے : اور آیت ؛ عَلى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ [ غافر/ 35] ہر متکبر جابر کے دل پر ۔ اور بعض نے قلب کی طرف مضاف ہے ۔ اور بعض نے قلب تنوین کے ساتھ پڑھا ہے اس صورت میں متکبر قلب کی صفت ہوگا ۔ جبر أصل الجَبْر : إصلاح الشیء بضرب من القهر، والجبّار في صفة الإنسان يقال لمن يجبر نقیصته بادّعاء منزلة من التعالي لا يستحقها، وهذا لا يقال إلا علی طریق الذم، کقوله عزّ وجل : وَخابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ [إبراهيم/ 15] ( ج ب ر ) الجبر اصل میں جبر کے معنی زبردستی اور دباؤ سے کسی چیز کی اصلاح کرنے کے ہیں ۔ الجبار انسان کی صفت ہو تو اس کے معنی ہوتے ہیں ناجائز تعلی سے اپنے نقص کو چھپانے کی کوشش کرنا ۔ بدیں معنی اس کا استعمال بطور مذمت ہی ہوتا ہے ۔ جیسے قران میں ہے : ۔ وَخابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ [إبراهيم/ 15] تو ہر سرکش ضدی نامراد ہ گیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

جو بلا کسی سند کے جو اللہ کی جانب سے ان کے پاس ہو رسول اکرم اور قرآن کریم کی تکذیب کرتے ہیں جیسا کہ ابوجہل اور اس کے بدکردار ساتھی ان کی باتیں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی غصہ اور نفرت کا باعث ہیں اور مومنین کو بھی دنیا میں ان سے نفرت ہے اسی طرح اللہ ہر ایک ایمان سے تکبر کرنے والے اور حق و ہدایت کے قبول کرنے سے سرکشی کرنے والے کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٥ { نِ الَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْٓ اٰیٰتِ اللّٰہِ بِغَیْرِ سُلْطٰنٍ اَتٰـٹہُمْ } ” جو اللہ کی آیات کے بارے میں جھگڑتے ہیں بغیر کسی سند کے جو ان کے پاس آئی ہو۔ “ { کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ وَعِنْدَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا } ” بڑی بیزاری کی بات ہے یہ اللہ کے نزدیک بھی اور اہل ِایمان کے نزدیک بھی۔ “ { کَذٰلِکَ یَطْبَعُ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ قَلْبِ مُتَکَبِّرٍ جَبَّارٍ } ” اسی طرح اللہ مہر لگا دیا کرتا ہے ہر اس شخص کے دل پر جو متکبر ّاور سرکش ہو۔ “ اللہ کے اس فیصلے کے بعد پھر ایسے لوگوں کو ایمان کی دولت نصیب نہیں ہوتی۔ مومن ِآلِ فرعون کی اس تقریر کو پڑھتے ہوئے فرعون کے دربار کا نقشہ ذہن میں لائیے اور درو دیوار کے درمیان سے ابھرنے والی اس تصویر کو غور سے دیکھئے ! فرعون نظریں زمین پر گاڑے بت بنا بیٹھا ہے۔ اس کے دائیں بائیں سب کے سب درباری مبہوت ہوچکے ہیں ‘ پورے دربار میں سناٹے ّکا عالم َہے۔ فضا میں صرف ایک آواز گونج رہی ہے اور وہ ہے حق کی آواز ! مردِ مومن ُ پر جلال انداز میں اپنی تقریر جاری رکھے ہوئے ہے۔ تقریر نہایت موثر اور مربوط ہے۔ اس میں عقلی دلائل بھی ہیں اور تاریخی شواہد بھی۔ دعوت کا انداز بھی ہے اور عبرت کا سامان بھی۔ ماحول پر گہری سنجیدگی طاری ہوچکی ہے۔ اس صورت ِحال میں فرعون کرے تو کیا کرے۔ نہ تو اسے چپ رہنے کا یارا ہے اور نہ بولنے کا حوصلہ۔ اندیشہ ہائے دور دراز کے جھرمٹ میں اسے یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ وہ ” فرعون “ ہے۔ پھر کچھ دیر کے بعد جب وہ اس کیفیت سے باہر آتا بھی ہے تو مرد مومن کو جواب دینے کے بجائے اپنے وزیر سے مخاطب ہونا مناسب سمجھتا ہے :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

52 It so appears that the ncxt few sentences are an addition by Allah and an explanation of the words of the Believer of the people of Pharaoh. 53 That is, "Allah allows only those people to go astray who possess the following three qualities: (1) They transgress all limits in their evildoing. and then develop such a taste for it that they do not feel inclined to accept any invitation to reform their morals (2) their permanent attitude in respect of the Prophets is characterised by doubt and suspicion. The Prophets of God may bring any clear Signs before them, yet they doubt their Prophethood as well as view with suspicion those truths which they present with regard to Tauhid and the Hereafter; and 131 they try to resist the Revelations of the Book of Allah with crooked arguments instead of considering them rationally, and these objections are neither based on any sound reason nor on the authority of a revealed Book, but from the beginning to the end their only basis is obstinacy and stubbornness. When a group of the people develops these three evils, Allah hurls it into the deep pit of Hell-fire wherefrom no power can then rescue them. 54 That is, 'The seal is not set on the heart of anybody without a reason. This seal of curse is set only on the heart of the one who is filled with arrogance and spirit of violence and tyranny."

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :53 یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے گمراہی میں انہی لوگوں کو پھینکا جاتا ہے جن میں یہ تین صفات موجود ہوتی ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ اپنی بد اعمالیوں میں حد سے گزر جاتے ہیں اور پھر انہیں فسق و فجور کی ایسی چاٹ لگ جاتی ہے کہ اصلاح اخلاق کی کسی دعوت کو قبول کرنے کے لیے وہ آمادہ نہیں ہوتے ۔ دوسرے یہ کہ انبیاء علیہم السلام کے معاملہ میں ان کا مستقل رویہ شک کا رویہ ہوتا ہے ۔ خدا کے نبی ان کے سامنے خواہ کیسے ہی بینات لے آئیں ، مگر وہ ان کی نبوت میں بھی شک کرتے ہیں اور ان حقائق کو بھی ہمیشہ شک ہی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو توحید اور آخرت کے متعلق انہوں نے پیش کیے ہیں ۔ تیسرے یہ کہ وہ کتاب اللہ کی آیات پر معقولیت کے ساتھ غور کرنے کے بجائے کج بحثوں سے ان کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کج بحثیوں کی بنیاد نہ کسی عقلی دلیل پر ہوتی ہے ، نہ کسی آسمانی کتاب کی سند پر ، بلکہ از اول تا آخر صرف ضد اور ہٹ دھرمی ہی ان کی واحد بنیاد ہوتی ہے ۔ یہ تین عیوب جب کسی گروہ میں پیدا ہو جاتے ہیں تو پھر اللہ اسے گمراہی کے گڑھے میں پھینک دیتا ہے جہاں سے دنیا کی کوئی طاقت اسے نہیں نکال سکتی ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :54 یعنی کسی کے دل پر ٹھپہ بلا وجہ نہیں لگا دیا جاتا ۔ یہ لعنت کی مہر صرف اسی کے دل پر لگائی جاتی ہے جس میں تکبر اور جباریت کی ہوا بھر چکی ہو ۔ تکبر سے مراد ہے آدمی کا جھوٹا پندار جس کی بنا پر وہ حق کے آگے سر جھکانے کو اپنی حیثیت سے گری ہوئی بات سمجھتا ہے ۔ اور جباریت سے مراد خلق خدا پر ظلم ہے جس کی کھلی چھوٹ حاصل کرنے کے لیے آدمی شریعت الٰہیہ کی پابندیاں قبول کرنے سے بھاگتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(40:35) الذین یجادلون : یہ من ھو مسرف سے بدل ہے کیونکہ مسرف جمع کے حکم میں ہے۔ لانہ لایرید مسرفا واحدا بل کل مسرف جو جھگڑے نکالتے ہیں جھگڑتے ہیں جھگڑا کرتے رہتے ہیں۔ یجادلون مضارع جمع مذکر غائب مجادلۃ (مفاعلۃ) سے۔ جدال جھگڑا۔ آیات اللہ میں جدال کی مندرجہ ذیل تین صورتیں ہیں :۔ (1) آیات کی بےجا تاویل کرنا۔ (2) ان میں عیب نکالنا۔ (3) ان میں تضاد پیدا کرنے کی کوشش کرنا۔ سلطن۔ برہان، حجت، دلیل، سند وغیرہ ۔ اتھم : اتی ۔ ایتاء (افعال) سے ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب۔ اس نے ان کو دیا۔ یا۔ دی۔ بغیر سلطن اتھم : بغیر کسی سند یا دلیل کے جو اس نے ان کو دی ہو۔ اتی میں ضمیر فاعل کا مرجع اللہ ہے۔ کبرمقتا : کبر۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ کبر وکبر (باب کرم) مصدر بڑا ہونا مرتبہ میں۔ دشوار ہونا معاملہ کا اہم ہونا وغیرہ۔ عربی زبان میں جس لفظ کا مادہ ک، ب، ر سے مرکب ہو اس کے مفہوم میں بڑائی کے معنی ضرور پائے جاتے ہیں گو بڑائی کی نوعیت ہی جدا جدا ہوسکتی ہے۔ کبر میں ضمیر فاعل کا مرجع کون ہے اس کے متعلق مندرجہ ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں۔ (1) اس کا مرجع من ھو مسرف (مذکورہ بالا) ہے جو اگرچہ معنی جمع ہے لیکن لفظا مفرد ہے (ملاحظہ ہو الذین یجادلون کے محاذ) ایسا مسرف اللہ اور مومنوں کے نزدیک بڑا ہی مبغوض ہے۔ (2) الذین یجادلون سے پہلے مضاف محذوف ہے ای جدال الذین یجادلون۔ اور کبر کی ضمیر اسی محذوف کی طرف راجع ہے اس صورت میں ترجمہ ہوگا :۔ ایسے مسرف جو بغیر حق کے یا کسی واضح دلیل کے خدا کی آیات میں جھگڑا کھڑا کرتے رہتے ہیں ان کا یہ جھگڑا یا روش یا طریقہ اللہ اور مؤمنوں کے نزدیک بہت بڑی بیزاری اور فطرت کا سبب ہے۔ مقتا : مصدر۔ منصوب بوجہ تاکید۔ سخت بیزاری ۔ بغض شدید۔ مقت یمقت (نصر) مقت مصدر۔ ناپسند کرنا۔ نفرت کرنا۔ امقات (افعال) اور تمقیت (تفعیل) کا بھی یہی معنی ہے۔ کذلک : اسی طرح ، ایسے ہی۔ یعنی جس طرح ان لوگوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی دعوت توحید قبول نہ کی۔ اور ان کے بعد سلسلہ رسالت کا بھی انقطاع کر بیٹھے اور اس طرح اپنے دلوں کو حق کے لئے ہمیشہ بند کردیا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ ہر متکبر اور سرکش کے دل پر مہر لگا دیتا ہے کہ پھر ان کے دلوں میں حق بات جاتی ہی نہیں۔ یطبع۔ مضارع واحد مذکر غائب طبع مصدر (باب فتح) وہ مہر لگا دیتا ہے۔ علی کل قلب متکبر جبار : علی حرف جار کل مجرور مضاف ۔ قلب مضاف الیہ۔ مضاف متکبر مضاف الیہ۔ مضاف مضاف الیہ مل کر کل کا مضاف الیہ۔ ہر متکبر کا دل۔ اسی طرح ہر جبار کا دل۔ اب جملہ کا ترجمہ ہوگا؛۔ اسی طرح اللہ مہر لگا دیتا ہے ہر مغرور اور جابر کے دل پر۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یعنی اللہ تعالیٰ گمراہی میں انہی لوگوں کو مبتلا کرتا ہے جن میں تین صفات پائی جاتی ہے۔ ایک ’ ’ مسرف “ یعنی جو اپنی بد اعمالی یا کسی شخص کی عقیدت میں حد سے بڑھنے والے ہوں۔ دوسرے ” مرتاب “ یعنی اللہ کی آیات اور اس کے رسولوں کی کہی ہوئی باتوں میں شک کرنے والے ہوں اور تیسرے ” لجدال بالباطل “ یعنی قرآن و حدیث پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی بجائے ان میں کج بحثیاں کرتے ہوں اور تکبر سے کام لیتے ہوں۔ 1 یعنی جب کوئی شخص تکبر و تجبر ( غرور اور اینٹھوپن) میں حد سے گزر جاتا ہے اور کوئی صحیح بات ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتا تو اس کے دل پر مہر لگا دی جاتی ہے۔ پھر اسراف و ارتیاب کے کام اس سے صادر ہوتے رہتے ہیں اور کوئی صحیح بات اور نصیحت اس پر اثر نہیں کرتی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ اس لئے اس میں اصلا گنجائش حق فہمی کی نہیں رہتی۔ (فائدہ) یہ تقریر تھی ان مومن بزرگ کی اور اس تقریر سے ان بزرگ کا کتمان ایمان جاتا رہا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مسرف و مرتاب کا گمراہ ہونا اور ہر متکبر جبار کے دل پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مہر لگ جانا مرد مومن کا سلسلہ کلام جاری ہے اس نے پہلے فرعون اور اس کی قوم کو ڈرایا اور یاد دلایا کہ دیکھو تم سے پہلے اللہ تعالیٰ کے رسولوں کو جھٹلا کر گزشتہ امتیں ہلاک ہوچکی ہیں اس کے بعد ان سے خصوصی طور پر حضرت یوسف (علیہ السلام) کی بعثت کا تذکرہ کیا جو اہل مصر کی طرف مبعوث ہوئے تھے انہیں یاد دلایا کہ دیکھو حضرت یوسف (علیہ السلام) دلائل کے ساتھ تمہارے پاس آئے لیکن تم نے ان کو بھی جھٹلایا اور انہوں نے جو دعوت پیش کی اور اللہ تعالیٰ کے احکام بتلائے تم اس میں برابر شک کرتے رہے تم نے یہ تسلیم نہ کیا کہ یہ اللہ کے رسول ہیں اور ان کی دعوت حق ہے اور تم نے نہ صرف یہ کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی رسالت کا انکار کیا بلکہ ان کی وفات ہوجانے پر یوں کہہ دیا کہ اگر بالفرض رسول تھے تو اب ان کے بعد اللہ تعالیٰ کوئی رسول نہ بھیجے گا اللہ کے رسول کی رسالت کا انکاری ہونا اور اپنی طرف سے یہ تجویز کردینا کہ اللہ تعالیٰ اب کوئی بھی رسول نہ بھیجے گا عناد در عناد اور بغاوت در بغاوت ہے۔ جو لوگ بغاوت اور سرکشی میں حد سے بڑھ جائیں اور ان کا مزاج شک کرنے کا بن جائے ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ گمراہ فرما دیتا ہے ان کا کام یہ ہوتا ہے کہ خواہ مخواہ بلا دلیل اللہ کی آیات میں جھگڑے کرتے رہیں ان کی یہ جھگڑے بازی اللہ کے نزدیک اور اہل ایمان کے نزدیک بہت زیادہ بغض اور نفرت کی چیز ہے۔ مرد مومن نے مزید کہا کہ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ تمہارے دلوں پر مہر لگ چکی ہے اب تمہیں حق قبول کرنا نہیں ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں پر مہر لگا دی ہے وہ اسی طرح ہر متکبر مغرور اور جابر کے دل پر مہر لگا دیتا ہے ایسے شخص کے دل میں ذرا بھی حق قبول کرنے کی طرف جھکاؤ نہیں رہتا، اس میں حق سمجھنے اور حق قبول کرنے کی بالکل ہی گنجائش نہیں رہتی۔ فائدہ : صاحب روح المعانی نے اول تو حضرت یوسف (علیہ السلام) کے نام سے ساتھ یعقوب لکھ دیا ہے اور حضرت یوسف (علیہ السلام) جو کنعان سے آکر مصر میں صاحب اقتدار ہوگئے تھے اور ان کے سامنے ہی ان کے والدین اور بھائی تمام اہل و عیال کے ساتھ مصر میں آکر بس گئے تھے انہیں یوسف (علیہ السلام) کو مراد لیا ہے اور (جَاءَ کُمْ ) میں جو ضمیر خطاب ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے اہل مصر کے آباؤ اجداد مراد ہیں پھر ایک یہ قول نقل کیا ہے کہ آیت بالا میں جس یوسف کا ذکر ہے وہ حضرت یوسف الصدیق (علیہ السلام) کے پوتے تھے ان کو بھی اللہ تعالیٰ نے نبی بنا کر بھیجا تھا انہوں نے بھی مصر میں بیس سال قیام کیا اور یہ لوگ ان کی دعوت میں شک ہی کرتے رہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

43:۔ ” الذین یجادلون “ جو محض ضد وع ناد کی وجہ سے دلیل و حجت کے بغیر ہی اللہ کی آیتوں میں جدال اور جھگرا کرتے رہتے ہیں۔ ” کبر مقتا الخ “ یہ بات یعنی اللہ کی توحید اور اس کی آیتوں میں جھگرنا اللہ تعالیٰ اور ایمان والوں کے نزدیک نہایت ہی ممقوت و مبغوض اور قابل مذمت فعل ہے۔ کذالک ای لذلک یعنی مبدا توحید (آیات الٰہی) میں جدال و نزاع کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ہر مغرور اور جابر کے دل پر مہر جباریت ثبت کردیتا ہے، چونکہ وہ حق جوئی کے جذبے سے عاری اور ضد پر قائم ہوتے ہیں، اس لیے انہیں ہدایت قبول کرنے کی فوفیق نہیں ملتی۔ جب آدمی توحید کے دلائل واضحہ اور آیات بینات دیکھ کر پھر بھی شک میں رہا، تو یہ شک اس کی گمراہی کا سبب بنے گا۔ گمراہی کے بعد اگر آیات بینات میں نیک نیتی سے غور و فکر کرنے کی بجائے کجروی اور جدال کرنے لگا، تو شقاوت کی انتہاء کو پہنچ جائے گا اور اس کے دل پر مہر جباریت لگ جائے گی۔ یہاں ان چاروں منزلوں کو اسی ترتیب سے ذکر کیا گیا ہے (1) شک (2) شک کے بعد ضلال، گمراہی (3) ضلال کے بعد جدال اور (4) جدال کے بعد طبع، یعنی مہر جباریت۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(35) مسرف ومرتاب وہ لوگ ہیں جو بغیر کسی ایسی دلیل کے جوان کو ملی ہو اور ان کے پاس آئی ہو اللہ تعالیٰ کی آیتوں میں جھگڑا نکالتے ہیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک اور ان لوگوں کے نزدیک جو ایمان لائے ہیں یہ رویہ بڑاناپسندیدہ ہے اور یہ کج بحثی اللہ تعالیٰ کے اور مسلمانوں کے نزدیک بہت مبغوض ہے جس طرح تمہارے دلوں پر اللہ تعالیٰ نے مہر کردی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ ہر متکبر اور سرکش کے دل پر مہر کردیا کرتا ہے۔ یعنی یہ مسرف ومرتاب وہی لوگ ہیں جو بغیر کسی دلیل آسمانی کے خواہ وہ دلیل عقلی ہو یا نقلی اللہ تعالیٰ کی آیتوں میں جھگڑا نکالا کرتے ہیں اور کج بحثیاں کرتے ہیں اور یہ رویہ اللہ تعالیٰ کے اور ایمان والوں کے نزدیک بہت مبغوض اور بیزاری کا موجب ہے اور یہی وہ باتیں ہیں جو قلب انسانی کے لئے مہلک ہیں۔ ہم کئی مرتبہ عرض کرچکے ہیں یہی وہ اسباب و عوارض ہیں جن سے روحانی بیماری بڑھتی رہتی ہے خواہ ابتداء میں اس کا نام دین یعنی زنگ ہو پھر بڑھتے بڑھتے آخر میں غشا وہ یعنی پردہ اور طبع یعنی مہر اور قساوت یعنی سختی ہو غرض یہ تمام امراض باطنی تکبر اور سرکشی لاپروائی اور عدم تدبر اور بےموقع استہزاء وغیرہ سے پیدا ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی توہین اس مرض کا سب سے بڑا سبب ہے اللہ تعالیٰ چونکہ خالق ہے اس کی جانب بحیثیت خالق ہونے کے نسبت کی جاتی ہے ورنہ یہ سب بندے کے اپنے ہی برے اعمال ہیں اور وہ بدپرہیزیاں ہیں جس سے مرض بڑھتا رہتا ہے تاآنکہ کفر پر موت واقع ہوجاتی ہے۔ وما توادھم کفرون کا مصداق صحیح ہوجاتا ہے۔ بہرحال احزقیل کی اس تقریر کا ممبران حکومت پر جو اثر ہوا ہو مگر معلوم ہوتا ہے کہ فرعون اپنے خیال سے نہ ہٹا اور اسی تکبر اور سرکشی پر قائم رہا چناچہ آگے اس کے قول سے ظاہر ہوتا ہے۔