Surat ul Momin

Surah: 40

Verse: 36

سورة مومن

وَ قَالَ فِرۡعَوۡنُ یٰہَامٰنُ ابۡنِ لِیۡ صَرۡحًا لَّعَلِّیۡۤ اَبۡلُغُ الۡاَسۡبَابَ ﴿ۙ۳۶﴾

And Pharaoh said, "O Haman, construct for me a tower that I might reach the ways -

فرعون نے کہا اے ہامان! میرے لئے ایک بالا خانہ بنا شاید کہ میں آسمان کے جو دروازے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

How Fir`awn mocked the Lord of Musa Allah tells, وَقَالَ فِرْعَوْنُ يَا هَامَانُ ابْنِ لِي صَرْحًا ... And Fir`awn said: "O Haman! Build me a lofty tower Allah tells us of the arrogant and hostile defiance of Fir`awn and his rejection of Musa, when he commanded his minister Haman to build him a tower, i.e., a tall, high, strong fortress. He built it of bricks made from baked clay, as Allah says: فَأَوْقِدْ لِى يَهَـمَـنُ عَلَى الطِّينِ فَاجْعَل لِّى صَرْحاً So kindle for me (a fire), O Haman, to bake (bricks out of) clay, and set up for me a lofty tower. (28:38) ... لَّعَلِّي أَبْلُغُ الاَْسْبَابَ

فرعون کی سرکشی اور تکبر ۔ فرعون کی سرکشی اور تکبر بیان ہو رہا ہے کہ اس نے اپنے وزیر ہامان سے کہا کہ میرے لئے ایک بلند و بالا محل تعمیر کرا ۔ اینٹوں اور چونے کی پختہ اور بہت اونچی عمارت بنا ۔ جیسے اور جگہ ہے کہ اس نے کہا اے ہامان اینٹیں پکا کر میرے لئے ایک اونچی عمارت بنا ۔ حضرت رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ قبر کو پختہ بنانا اور اسے چونے گج کرنا سلف صالحین مکروہ جانتے تھے ۔ ( ابن ابی حاتم ) فرعون کہتا ہے کہ یہ محل میں اس لئے بنوا رہا ہوں کہ آسمان کے دروازوں اور آسمان کے راستوں تک میں پہنچ جاؤں اور موسیٰ کے اللہ کو دیکھ لوں گو میں جانتا ہوں کہ موسیٰ ہے جھوٹا ۔ وہ جو کہہ رہا ہے کہ اللہ نے اسے بھیجا ہے یہ بالکل غلط ہے ، دراصل فرعون کا یہ ایک مکر تھا اور وہ اپنی رعیت پر یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ دیکھو میں ایسا کام کرتا ہوں جس سے موسیٰ کا جھوٹ بالکل کھل جائے اور میری طرح تمہیں بھی یقین آ جائے کہ موسیٰ غلط گو مفتری اور کذاب ہے ۔ فرعون راہ اللہ سے روک دیا گیا ۔ اسی کی ہر تدبیر الٹی ہی رہی اور جو کام وہ کرتا ہے وہ اس کے لئے نقصان دہ ہوتا ہے اور وہ خسارے میں بڑھتا ہی جا رہا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

36۔ 1 یہ فرعون کی سرکشی کا بیان ہے کہ اس نے اپنے وزیر ہامان کو بلند عمارت بنانے کا حکم دیا تاکہ اس کے ذریعے سے وہ آسمان کے دروازوں تک پہنچ جائے۔ اسباب کے معنی دروازے، یا راستے کے ہیں مزید دیکھئے القصص، آیت۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وقال فرعون یھامن ابن لی صرحاً …” صرحاً “ بلند و بالا عمارت جو دور سے صاف نظر آئے۔” صراحت “ کسی بات کے خوب ظاہر اور واضح ہونے کو کہتے ہیں۔ ” الاسباب “ ” سبب “ کی جمع ہے، کسی چیز تک پہنچنھے کا ذریعہ، مراد راستے اور دروازے ہیں۔ فرعون نے جب دیکھا کہ اس کے پاس اس مرد مومن کی کسی بات کا جواب نہیں تو اس نے اس کی نصیحت کا اثر ختم کرنے اور مذاق اڑانے کے لئے اپنے وزیر ہامان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میرے لئے ایک بلند و بالا عمارت بناؤ، تاکہ میں راستوں تک پہنچ جاؤں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The word: صرح (sarh) in verse 36: وَقَالَ فِرْ‌عَوْنُ يَا هَامَانُ ابْنِ لِي صَرْ‌حًا (And the Pharaoh said, |"0 Haman, make a tower for me,) means a structure that rises high. An outward look at this statement suggests that the Pharaoh ordered his minister, Haman to build a structure that rises high into the sky close enough for him to go up, peek in and have a glimpse of God. If this wild thought, not imaginable even in the case of a man of very ordinary commonsense, really comes from Pharaoh, the sole master of the kingdom of Egypt, then, it is an evidence of his unbelievable folly - and if the minister carried out his orders, then, the apple did not fall far from the tree, as the king, so the courtier! Since no one expects any head of the state to go that wild in his imagination, therefore, some commentators have said that this much he too knew that, no matter how high a structure is made for him, he still cannot reach the skies (by that mode of ascent). But, he did that only to impress or confuse his people. Then, we have no sound and strong report to prove whether or not such a palatial high structure was ever raised. However, al-Qurtubi reports that this building was constructed, but once it reached its higher levels, it collapsed. My respected father, Maulana Muhammad Yasin, a dear disciple of Maulana Muhammad Ya` qub, the first principal of the famous Darul-` Uloom of Deoband in India has reported his learned teacher saying, &For this lofty palace to collapse, it is not necessary that it be hit by some Divine punishment. The fact is that the height of every building depends on the capability of its foundation to bear weight. No matter how deep the foundation is laid, it cannot go deeper than a certain limit. Now, when levels after levels were added to this building, it was inevitable that, once it exceeded the capability of its foundation to bear additional weight, it must collapse.& This provides another proof of the folly of Pharaoh and Haman. Allah knows best.

(آیت) وَقَالَ فِرْعَوْنُ يٰهَامٰنُ ابْنِ لِيْ صَرْحًا۔ صرح کے معنی بلند تعمیر کے ہیں۔ ظاہر اس کا یہ ہے کہ فرعون نے اپنے وزیر ہامان کو حکم دیا کہ ایسی بلند تعمیر بناؤ جو آسمان کے قریب تک چلی جائے جس پر جا کر میں خدا کو جھانک کر دیکھ لوں۔ یہ احمقانہ خیال جو کوئی ادنیٰ سمجھ کا آدمی بھی نہیں کرسکتا سلطنت مصر کے مالک فرعون کا یا تو واقعی ہے جو اس کی انتہائی بےوقوفی اور حماقت کی دلیل ہے اور وزیر نے اگر اس کی تعمیل کی تو وزیرے چنین شہریارے چنین کا مصداق ہے۔ مگر کسی بھی والئی ملک سے ایسے احمقانہ تصور کی امید نہیں کی جاسکتی۔ اس لئے بعض حضرات مفسرین نے کہا کہ یہ تو وہ بھی جانتا تھا کہ کتنی ہی بلند تعمیر بنا لے وہ آسمان تک نہیں پہنچ سکتا۔ مگر اپنے لوگوں کو بیوقوف بنانے اور دکھانے کے لئے یہ حرکت کی تھی۔ پھر کسی صحیح اور قوی روایت سے یہ ثابت نہیں ہے کہ ایسا کوئی محل عالیشان بلند تعمیر ہوا یا نہیں۔ قرطبی نے نقل کیا ہے کہ یہ بلند تعمیر کرائی گئی تھی جو بلندی پر پہنچتے ہی منہدم ہوگئی۔ دارالعلوم دیوبند کے پہلے صدر مدرس مولانا محمد یعقوب صاحب کے شاگرد خاص میرے والد ماجد مولانا محمد یٰسین صاحب نے اپنے استاد موصوف سے نقل کر کے فرمایا کہ اس قصر بلند کے منہدم ہونے کے لئے ضروری نہیں کہ کوئی آسمانی عذاب آیا ہو بلکہ ہر تعمیر کی بلندی اس کی بنیادوں کے تحمل پر موقوف ہوتی ہے اس نے کتنی بھی گہری بنیاد رکھی ہو مگر ایک حد تک ہی گہری ہوگی جب اس کے اوپر تعمیر چڑھاتا ہی چلا گیا تو لازم تھا کہ جب اس کی بنیادوں کے تحمل سے زیادہ ہوجائے تو منہدم ہوجائے اس سے فرعون و ہامان کی دوسری بےوقوفی ثابت ہوئی۔ واللہ اعلم۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ فِرْعَوْنُ يٰہَامٰنُ ابْنِ لِيْ صَرْحًا لَّعَلِّيْٓ اَبْلُغُ الْاَسْـبَابَ۝ ٣٦ۙ فِرْعَوْنُ : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة . فرعون یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔ بنی يقال : بَنَيْتُ أَبْنِي بِنَاءً وبِنْيَةً وبِنًى. قال عزّ وجلّ : وَبَنَيْنا فَوْقَكُمْ سَبْعاً شِداداً [ النبأ/ 12] . والبِنَاء : اسم لما يبنی بناء، قال تعالی: لَهُمْ غُرَفٌ مِنْ فَوْقِها غُرَفٌ مَبْنِيَّةٌ [ الزمر/ 20] ، والبَنِيَّة يعبر بها عن بيت اللہ تعالیٰ «2» . قال تعالی: وَالسَّماءَ بَنَيْناها بِأَيْدٍ [ الذاریات/ 47] ، وَالسَّماءِ وَما بَناها [ الشمس/ 5] ، والبُنيان واحد لا جمع، لقوله تعالی: لا يَزالُ بُنْيانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ [ التوبة/ 110] ، وقال : كَأَنَّهُمْ بُنْيانٌ مَرْصُوصٌ [ الصف/ 4] ، قالُوا : ابْنُوا لَهُ بُنْياناً [ الصافات/ 97] ، وقال بعضهم : بُنْيَان جمع بُنْيَانَة، فهو مثل : شعیر وشعیرة، وتمر وتمرة، ونخل ونخلة، وهذا النحو من الجمع يصح تذكيره وتأنيثه . و ( ب ن ی ) بنیت ابنی بناء وبنیتہ وبنیا کے معنی تعمیر کرنے کے ہیں قرآن میں ہے ۔ { وَبَنَيْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعًا شِدَادًا } ( سورة النبأ 12) اور تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان بنائے { وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ } ( سورة الذاریات 47) اور آسمانوں کو ہم ہی نے ہاتھوں سے بنایا ۔ { وَالسَّمَاءِ وَمَا بَنَاهَا } ( سورة الشمس 5) اور آسمان اور اس ذات کی ( قسم ) جس نے اسے بنایا ۔ البنیان یہ واحد ہے جمع نہیں ہے جیسا کہ آیات ۔ { لَا يَزَالُ بُنْيَانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ } ( سورة التوبة 110) یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہے ہمیشہ ان کے دلوں میں ( موجب ) خلجان رہے گی ۔ { كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ } ( سورة الصف 4) کہ گویا سیساپلائی ہوئی دیوار ہیں :{ قَالُوا ابْنُوا لَهُ بُنْيَانًا فَأَلْقُوهُ فِي الْجَحِيمِ } ( سورة الصافات 97) وہ کہنے لگے کہ اس کے لئے ایک عمارت بناؤ ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ بعض کے نزدیک یہ بنیانۃ کی جمع ہے اور یہ : شعیر شعیر وتمر وتمر ونخل ونخلتہ کی طرح ہے یعنی جمع اور مفرد میں تا کے ساتھ فرق کرتے ہیں اور جمع کی اس قسم میں تذکر وتانیث دونوں جائز ہوتے ہیں لَهُمْ غُرَفٌ مِنْ فَوْقِها غُرَفٌ مَبْنِيَّةٌ [ الزمر/ 20] ان کے لئے اونچے اونچے محل ہیں جن کے اوپر بالا خانے بنے ہوئے ہیں ۔ بناء ( مصدر بمعنی مفعول ) عمارت جمع ابنیتہ البنیتہ سے بیت اللہ مراد لیا جاتا ہے صرح الصَّرْحُ : بيت عال مزوّق سمّي بذلک اعتبارا بکونه صَرْحاً عن الشّوب أي : خالصا . قال اللہ تعالی: صَرْحٌ مُمَرَّدٌ مِنْ قَوارِيرَ [ النمل/ 44] ، يلَ لَهَا ادْخُلِي الصَّرْحَ [ النمل/ 44] ، ولبن صَرِيحٌ بيّن الصَّرَاحَةِ ، والصَّرُوحَةِ ، وصَرِيحُ الحقّ : خلص عن محضه، وصَرَّحَ فلان بما في نفسه، وقیل : عاد تعریضک تَصْرِيحًا، وجاء صُرَاحاً جهارا . ( ص ر ح ) الصرح ؛بلند منقش ومزین مکان ۔ ہر قسم کے عیب سے پاک ہونے کے اعتبار سے اسے صرح کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ صَرْحٌ مُمَرَّدٌ مِنْ قَوارِيرَ [ النمل/ 44] ایسا محل ہے جس کے ( نیچے بھی ) شیشے جڑے ہوئے ہیں ۔ يلَ لَهَا ادْخُلِي الصَّرْحَ [ النمل/ 44]( پھر اس سے کہا گیا کہ محل میں چلئے ۔ لبن صریح : خالص دودھ ۔ صریح الحق : خالص حق جس میں باطل کی آمیزش نہ ہو صرح فلان فی نفسہ فلاں نے اپنے دل کی بات صاف صاف بیان کردی ۔ محاورہ ہے ۔ عاد تعریضک تصریحا ۔ تمہاری تعریض نے تصریح کا کام دیا ۔ جاء صراحا : وہ کھلے بندوں آیا ۔ لعل لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] ( لعل ) لعل ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔ بلغ البُلُوغ والبَلَاغ : الانتهاء إلى أقصی المقصد والمنتهى، مکانا کان أو زمانا، أو أمرا من الأمور المقدّرة، وربما يعبّر به عن المشارفة عليه وإن لم ينته إليه، فمن الانتهاء : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف/ 15] ( ب ل غ ) البلوغ والبلاغ ( ن ) کے معنی مقصد اور متبٰی کے آخری حد تک پہنچے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ مقصد کوئی مقام ہو یا زمانہ یا اندازہ کئے ہوئے امور میں سے کوئی امر ہو ۔ مگر کبھی محض قریب تک پہنچ جانے پر بھی بولا جاتا ہے گو انتہا تک نہ بھی پہنچا ہو۔ چناچہ انتہاتک پہنچے کے معنی میں فرمایا : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف/ 15] یہاں تک کہ جب خوب جو ان ہوتا ہے اور چالس برس کو پہنچ جاتا ہے ۔ سبب السَّبَبُ : الحبل الذي يصعد به النّخل، وجمعه أَسْبَابٌ ، قال : فَلْيَرْتَقُوا فِي الْأَسْبابِ [ ص/ 10] ، والإشارة بالمعنی إلى نحو قوله : أَمْ لَهُمْ سُلَّمٌ يَسْتَمِعُونَ فِيهِ فَلْيَأْتِ مُسْتَمِعُهُمْ بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [ الطور/ 38] ، وسمّي كلّ ما يتوصّل به إلى شيء سَبَباً ، قال تعالی: وَآتَيْناهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَباً فَأَتْبَعَ سَبَباً [ الكهف/ 84- 85] ، ومعناه : أنّ اللہ تعالیٰ آتاه من کلّ شيء معرفة، وذریعة يتوصّل بها، فأتبع واحدا من تلک الأسباب، وعلی ذلک قوله تعالی: لَعَلِّي أَبْلُغُ الْأَسْبابَ أَسْبابَ السَّماواتِ [ غافر/ 36- 37] ، أي : لعلّي أعرف الذرائع والأسباب الحادثة في السماء، فأتوصّل بها إلى معرفة ما يدعيه موسی، وسمّي العمامة والخمار والثوب الطویل سَبَباً «1» ، تشبيها بالحبل في الطّول . وکذا منهج الطریق وصف بالسّبب، کتشبيهه بالخیط مرّة، وبالثوب الممدود مرّة . والسَّبُّ : الشّتم الوجیع، قال : وَلا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] ، وسَبَّهُمْ لله ليس علی أنهم يَسُبُّونَهُ صریحا، ولکن يخوضون في ذكره فيذکرونه بما لا يليق به، ويتمادون في ذلک بالمجادلة، فيزدادون في ذكره بما تنزّه تعالیٰ عنه . وقول الشاعر : فما کان ذنب بني مالک ... بأن سبّ منهم غلاما فسب بأبيض ذي شطب قاطع ... يقطّ العظام ويبري العصب «2» فإنه نبّه علی ما قال الآخر : ونشتم بالأفعال لا بالتّكلّم «1» والسِّبُّ : الْمُسَابِبُ ، قال الشاعر : لا تسبّنّني فلست بسبّي ... إنّ سبّي من الرّجال الکريم «2» والسُّبَّةُ : ما يسبّ ، وكنّي بها عن الدّبر، وتسمیته بذلک کتسمیته بالسّوأة . والسَّبَّابَةُ سمّيت للإشارة بها عند السّبّ ، وتسمیتها بذلک کتسمیتها بالمسبّحة، لتحريكها بالتسبیح . ( س ب ب ) السبب اصل میں اس رسی کو کہتے ہیں جس سے درخت خرما وغیرہ پر چڑھا ( اور اس سے اترا ) جاتا ہے اس کی جمع اسباب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَلْيَرْتَقُوا فِي الْأَسْبابِ [ ص/ 10] تو ان کو چاہیئے کہ سیڑ ھیاں لگا کر ( آسمان پر ) چڑ ہیں اور یہ معنوی لحاظ سے آیت : ۔ أَمْ لَهُمْ سُلَّمٌ يَسْتَمِعُونَ فِيهِ فَلْيَأْتِ مُسْتَمِعُهُمْ بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [ الطور/ 38] یا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے کہ اس پر چڑھ کر ( آسمان سے باتیں ) سن آتے ہیں کے مضمون کی طرف اشارہ ہے پھر اسی مناسبت سے ہر اس شے کو سبب کہا جاتا ہے ۔ جو دوسری شے تک رسائی کا ذریعہ بنتی ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَآتَيْناهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَباً فَأَتْبَعَ سَبَباً [ الكهف/ 84- 85] اور اسے ہر قسم کے ذرائع بخشے سو وہ ایک راہ پر چلا ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ہر چیز کی معرفت اور سامان و ذرائع عطا کئے تھے جس کے ذریعہ وہ اپنے مقصود تک پہنچ سکتا تھا ۔ چناچہ اس نے ایک ذریعہ اختیار کیا اور آیت کریمہ : ۔ لَعَلِّي أَبْلُغُ الْأَسْبابَ أَسْبابَ السَّماواتِ [ غافر/ 36- 37] تاکہ جو آسمان تک پہنچنے کے ذرائع ہیں ہم ان تک جا پہنچیں ۔ میں بھی اسباب سے مراد ذرائع ہی ہیں یعنی تاکہ ہم ان اسباب و ذرائع کا پتہ لگائیں جو آسمان میں پائے جاتے ہیں اور ان سے موسٰی کے مزعومہ خدا کے متعلق معلومات حاصل کریں اور عمامہ دوپٹہ اور ہر لمبے کپڑے کو طول میں رسی کے ساتھ تشبیہ دے کر بھی سبب کہا جاتا ہے اسی جہت سے شاہراہ کو بھی سبب کہہ دیا جاتا ہے جیسا کہ شاہراہ کو بھی خیط ( تاگا ) اور کبھی محدود کپڑے کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے : ۔ السبب ( مصدر ن ) کے معنی مغلظات اور فحش گالی دینا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] تو جو لوگ خدا کے سوا ( دوسرے ) معبودوں کو حاجت روائی کے لئے بلایا ( یعنی ان کی پرشش کیا کرتے ہیں ) ان کو برا نہ کہو کہ یہ لوگ بھی ازراہ نادانی ناحق خدا کو برا کہہ بیٹھیں گے ۔ ان کے اللہ تعالیٰ کو گالیاں دینے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ صریح الفاظ میں اللہ تعالیٰ کو گالیاں دیں گے ۔ کیونکہ اس طرح مشرک بھی نہیں کرتا بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ جوش میں آکر شان الہی میں گستاخی کریں گے اور ایسے الفاظ استعمال کریں گے جو اس کی ذات کے شایاں شان نہیں جیسا کہ عام طور پر مجادلہ کے وقت ہوتا ہے کسی شاعر نے کہا ہے ۔ 220 ۔ فما کان ذنب بني مالک ... بأن سبّ منهم غلاما فسبّ 221 ۔ بأبيض ذي شطب قاطع ... يقطّ العظام ويبري العصببنی مالک کا صرف اتنا گناہ ہے کہ ان میں سے ایک لڑکے کو بخل پر عار دلائی گئی اور اس نے عار کے جواب میں سفید دھاری دار قاطع تلوار سے اپنی موٹی اونٹنیوں کو ذبح کر ڈالا جو ہڈیوں کو کاٹ ڈالتی ہو اور قصب یعنی بانس کو تراش دیتی ہو ۔ ان اشعار میں اس مضمون کی طرف اشارہ ہے جس کو دوسرے شاعر نے یوں ادا کیا ہے کہ ونشتم بالأفعال لا بالتّكلّمکہ ہم زبان کی بجائے افعال سے گالی دیتے ہیں ۔ اور سب ( فعل ) بمعنی دشنام دہندہ کیلئے آتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ لا تسبّنّني فلست بسبّي ... إنّ سبّي من الرّجال الکريم «2»مجھے گالی نہ دو تم مجھے گالی دینے کے لائق نہیں ہو کیونکہ نہایت شریف درجہ کا آدمی ہی مجھے گالی دے سکتا ہے ۔ السبۃ ہر وہ چیز جو عار و ننگ کی موجب ہو اور کنایہ کے طور پر دبر کو بھی سبۃ کہا جاتا ہے ۔ جیسا کہ اسے سوءۃ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ السبابۃ انگشت شہادت یعنی انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی کیونکہ گالی دیتے وقت اس کے ساتھ اشارہ کیا جاتا ہے جیسا کہ اس انگلی کو مسبحۃ ( انگشت شہادت ) کہا جاتا ہے کیونکہ تسبیح کے وقت اشارہ کے لئے اسے اوپر اٹھایا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

سورة المومن ہامان کی تعمیر کردہ عمارت قول باری ہے (یا ھامان ابن لی صرحا۔ اے ہامان ! میرے لئے ایک بلند عمارت بنوا) سفیان نے منصور سے اور انہوں نے ابراہیم سے اس آیت کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ ہامان نے اینٹ کی عمارت بنوائی جبکہ لوگ اینٹوں کی عمارت کو ناپسند کرتے تھے وہ انہیں مقبروں میں استعمال کرتے تھے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور فرعون نے اپنے وزیر ہامان سے کہا کہ میرے لیے ایک محل بنواؤ کہ میں وہاں چڑھ کر رستے تلاش کروں ممکن ہے کہ میں آسمانوں کے دروازوں تک پہنچ جاؤں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٦ { وَقَالَ فِرْعَوْنُ یٰـہَامٰنُ ابْنِ لِیْ صَرْحًا لَّعَلِّیْٓ اَبْلُغُ الْاَسْبَابَ } ” اور فرعون نے کہا : اے ہامان ! میرے لیی ایک بلند عمارت بنوائو تاکہ میں پہنچ جائوں راستوں تک۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٦۔ ٣٧۔ ایمان دار قبطی کی نصیحت کے بیچ میں فرعون نے پہلی بات جو کہی تھی اسکا ذکر تو اوپر گزرا اس نصیحت کے بیچ میں فرعون کی دوسری بات ہے جس کا ذکر اس آیت میں ہے۔ دہریہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے خدا کو آنکھ سے نہیں دیکھا اس لئے ہم اس کی ہستی کے قائل نہیں علمائے پابند شریعت نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ جس عقل کے بھروسہ پر تم لوگوں نے آسمان و زمین کے پیدا کرنے والے کی ہستی کا انکار کیا ہے اس عقل کو تم نے آنکھوں سے کب دیکھا ہے جو تم عقل کی ہستی کے قائل ہو اگر یہ کہتے ہو کہ عقل کی نشانیاں دیکھ کر ہم نے عقل کا اقرار کیا ہے تو پھر یہ بتلاؤ کہ اس نشانیوں والی عقل کو اور خود تم کو کس نے پیدا کیا ہے کیا یہ سب کچھ اپنے پیدا کرنے والی کی ہستی کی نشانیاں نہیں ہیں حاصل کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کے انکار میں تو فرعون دہریہ تھا مگر اس ملعون میں یہ بات دہریوں سے زیادہ تھی کہ یہ اپنے آپ کو خدا کہلواتا تھا۔ تفسیر بیضاوی میں لکھا ہے کہ فرعون خدا کی ہستی کا منکر نہیں تھا کیونکہ اگر وہ خدا کی ہستی کا منکر ہوتا تو پھر خدا کے دیکھنے کے لئے یہ منار کیوں بنواتا لیکن سورة الشعرا میں گزر چکا ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا تو فرعون نے صاف کہہ دیا تھا کہ فرعون کے سوا اگر دوسرا خدا تم قرار دو گے تو تم کو قید کردیا جائے گا اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ ملعون خدا کی ہستی کا اس قدر منکر تھا کہ اللہ تعالیٰ کے نام لینے کو بھی قید کردینے کے قابل جرم گنتا تھا اس کی زیادہ تفصیل سورة القصص میں گزر چکی ہے اور اہل تاریخ کے قول کے حوالہ سے سورة القصص میں یہ بھی گزر چکا ہے کہ ہامان نے جب یہ منار بنا کر تیار کردیا تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے جبرئیل (علیہ السلام) نے اپنا پر مار کر اس کو گرا دیا جس کے نیچے فرعون کی قوم کے بہت سے آدمی دب کر مرگئے قتادہ ١ ؎ کا قول ہے کہ پکی اینٹوں کا بنانا پہلے پہل فرعون نے ہی نکالا ہے۔ تفسیر سدی میں اسباب السموت کے معنی آسمان کے راستوں ٢ ؎ کے لئے ہیں۔ حاصل مطلب یہ ہے کہ جب اس ایماندار قبطی نے فرعون کو موسیٰ (علیہ السلام) کے قتل سے روکا اور قتل ناحق پر اللہ کے عذاب سے ڈرایا تو فرعون نے اپنی قوم کو بہکانے کے لئے اپنے وزیر ہامان سے کہا کہ موسیٰ نے اپنے خدا کا ہونا جو کہا ہے میں تو موسیٰ کی اس بات کو جھوٹ جانتا ہوں پھر میں خدا کے عذاب سے کو نکر ڈرسکتا ہوں اس پر حکم دیتا ہوں کہ پکی اینٹوں کی ایک منار اونچی بنائی جائے تاکہ شاید میں آسمان کا راستہ ڈھونڈھ لوں اور موسیٰ کے معبود کو جھانک کر دیکھوں۔ شیطان نے جس طرح بت پرستی دنیا میں پھیلائی حضرت عبد اللہ بن عباس کی صحیح بخاری ٣ ؎ کی روایت سے اس کا ذکر ایک جگہ گزر چکا ہے کہ قوم نوح میں کے کچھ نیک آدمی مرگئے جن کی آنکھوں کے سامنے سے اٹھ جانے کا صدمہ قوم کے لوگوں کو بہت تھا شیطان نے پہلے تو قوم کے لوگوں کے دل میں یہ وسوسہ ڈالا کہ ان نیک لوگوں کی شکل کے بت بنا کر رکھ لئے جائیں تاکہ ان کی آنکھوں کے سامنے سے اٹھ جانے کا رنج کچھ کم ہوجائے پھر قوم کے لوگوں کی چند پشت کے بعد بت پرستی کا رواج دنیا میں پھیلا دیا۔ برے کاموں کو بھلے کر کے دکھانے اور نیک راہ سے روکنے کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اسی طرح کے شیطانی دھوکے میں آ کر فرعون نے اپنے آپ کو خدا کہلوایا اور بت پرستی پھیلائی اور شریعت موسوی کی باتوں کو خرابی کی باتیں بتلاتا تھا اور اپنے ان سب برے کاموں کو اچھا جانتا تھا۔ حضرت موسیٰ کے زندہ نہ رہنے کے داؤ کے لئے فرعون نے بنی اسرائیل کے ہزاروں لڑکے قتل کرائے حضرت موسیٰ پر غالب آنے کے داؤ کے لئے موسیٰ (علیہ السلام) اور جادو گروں کا مقابلہ کرایا آسمان پر چڑھنے کے لئے مینار کے بنانے کا حکم دیا مگر کسی داؤ میں اس کو کچھ کامیابی حاصل نہیں ہوئی اسی واسطے فرمایا فرعون کا جو داؤ تھا وہ مرنے کھپنے کا تھا۔ (١ ؎ تفسیر الدر المنثر ص ٣٥١ ج ٥۔ ) (٢ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ٣٥١ ج ٥۔ ) (٣ ؎ صحیح بخاری باب وداولا سواعا و لایخوث و یعوق و نسرا ص ٧٣٢ ج ٢۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(40:36) ھامان : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ کے فرعون کا وزیر تھا جو کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا سخت دشمن تھا اور فرعون کا بڑا معتمد تھا۔ ابن : فعل امر واحد مذکر حاضر کا صیغہ بناء (باب ضرب) مصدر سے۔ تو بنا۔ تو تعمیر کر۔ صرحا : ایک عالیشان عمارت یا محل جس میں نقش و نگار ہوں۔ ایسی اونچی عمارت (منارہ وغیرہ) جو دور سے دیکھنے والوں کو بھی دکھائی دے۔ اسی مناسبت سے تصریح کا لفظ بمعنی اظہار آتا ہے۔ اور جگہ قرآن مجید میں آتا ہے قال انہ صرح ممرد من قواریر (27:44) (حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے کہا) یہ ایسا محل ہے جس میں شیشے جڑے ہوئے ہیں ۔ لعلی ابلغ الاسباب ، لعی ، لعل حرف مشبہ بالفعل۔ ی ضمیر واحد متکلم۔ شاید میں۔ ابلغ مضارع واحد متکلم۔ بلوغ (باب نصر) مصدر میں پہنچ جاؤں۔ الاسباب سبب کی جمع کسی چیز تک پہنچنے کے ذریعہ کو سبب کہتے ہیں جیسے رسی اور ڈول کو سبب اسی لئے کہتے ہیں کہ یہ پانی تک پہنچنے کے ذریعے ہیں یہاں مراد آسمانوں کی راہیں یا دروازے یعنی ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک پہنچنے کے راستے۔ ترجمہ :۔ شاید (اس سے چڑھ کر) میں (آسمان کی) راہوں تک پہنچ جاؤں۔ اسباب السموت۔ مضاف مضاف الیہ۔ آسمانوں کے راستے۔ یہ الاسباب سے بدل ہے یعنی وہ راستے جو ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک جاتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مرد حق کے خطاب کے مقابلے میں فرعون کا ردّ عمل۔ چاہیے تو یہ تھا کہ مرد حق کے مدلّل اور مؤثر خطاب کے بعد فرعون ہدایت قبول کرتا۔ لیکن اس نے اپنے خصوصی مشیر ہامان کو حکم دیا کہ میرے لیے ایک بلندو بالا عمارت تعمیر کی جائے تاکہ میں اس کے ذریعے آسمان کے دروازوں تک پہنچ جاؤں اور دیکھوں کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا الٰہ کہاں بیٹھا ہوا ہے۔ میں تو موسیٰ (علیہ السلام) کو جھوٹا سمجھتا ہوں۔ فرعون کے تکبّر اور حد سے تجاوز کرنے کی وجہ سے اس کی رسی کھلی چھوڑ دی گئی۔ جس بنا پر اسے اپنی غلط سوچ، سیاست اور کردار بہترین دکھائی دیتا تھا۔ اسی بنا پر وہ سیدھے راستہ سے روک دیا گیا۔ فرعون کا ہر قدم اس کے لیے تباہی کا سبب ثابت ہوا۔ جسے اس کی بداعمالیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ہدایت سے روک دے پھر اسے کون ہدایت دے سکتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مردحق اپنی قوم اور حکومت کے ایوانوں میں بہت اثر رسوخ رکھنے والا تھا۔ جس بنا پر فرعون نے نہ تو اسے کسی قسم کی دھمکی دی اور نہ ہی اس کے خطاب کا سخت جواب دیا۔ اس لیے اب بھی موسیٰ (علیہ السلام) کو ہدف تنقید بنارہا ہے۔ چناچہ کہنے لگا زمین میں تو مجھے موسیٰ (علیہ السلام) کا خدا دکھائی نہیں دیتا۔ اب دیکھتے ہیں کہ وہ آسمان میں کہاں رہتا ہے۔ اگر موسیٰ (علیہ السلام) کا خدا مل گیا تو پوچھیں گے کہ جناب نے ہمارے پاس موسیٰ جیسا رسول بھیجا ہے۔ کہ جسے بات کرنے کا بھی سلیقہ نہیں آتا کہ بادشاہ کے حضور کس طرح فریاد کی جاتی ہے۔ کیا تجھے موسیٰ (علیہ السلام) کے علاوہ کوئی اور آدمی نہیں مل سکا۔ ایسے ہی بیہودہ خیالات کا اظہار اہل مکہ بھی کیا کرتے تھے کہ اگر واقعی اللہ نے کسی کو نبی بنانا ہوتا تو مکہ یا طائف کے سرداروں میں سے کسی کو نبی بناتا۔ پہلی دفعہ لفظ اسباب سے مراد وہ ذرائع ہیں جن کے ذریعے وہ آسمان تک پہنچنا چاہتا تھا اور دوسری مرتبہ اسباب سے مراد آسمان کے دروازے ہیں۔ جس شخص کو باربار اس کی گمراہی سے آگاہ کیا جائے اور وہ توبہ کرنے کی بجائے گمراہی کو اپنے لیے بہتر سمجھے تو ایسے شخص کو کون ہدایت دے سکتا ہے۔ ایسے شخص کو اس کے گناہوں کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی حد ہوتی ہے جس بنا پر اللہ تعالیٰ اس کے دل پر گمراہی کی مہر لگا دیتا ہے۔ مسائل ١۔ فرعون کو اپنے برے اعمال اچھے دکھائی دیتے تھے۔ ٢۔ جسے اپنے برے اعمال اچھے دکھائی دیں اسے ہدایت نصیب نہیں ہوتی۔ ٣۔ فرعون کے بد ترین اعمال کی وجہ سے اسے ہدایت سے روک دیا گیا۔ کیونکہ اس کا ہر قدم گمراہی اور تباہی کی طرف اٹھتا تھا۔ تفسیر بالقرآن کن لوگوں کے برے اعمال ان کے لیے خوبصورت بنادئیے جاتے ہیں : ١۔ ظالموں کے دل سخت ہوگئے اور شیطان ان کے اعمال کو مزین کر دکھاتا ہے۔ (الانعام : ٤٣) ٢۔ اکثر مشرکین کے لیے قتل اولاد کا عمل مزّین کردیا۔ (الانعام : ١٣٧) ٣۔ شیطان نے اللہ کے راستہ سے روکنے والوں کے برے اعمال کو مزین کردیا اور کہا تم ہی غالب ہو گے۔ (الانفال : ٤٨) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے کئی امتوں کی طرف رسول بھیجے شیطان نے ان کے بد اعمال کو مزّین کردیا۔ (النحل : ٦٣) ٥۔ اللہ تعالیٰ کے سوا سورج کو سجدہ کرنے والوں کے برے اعمال کو شیطان نے ان کے لیے مزّین کردیا۔ (النمل : ٢٤) ٦۔ قوم عاد وثمود کے اعمال بد کو شیطان نے مزین کردیا۔ (العنکبوت : ٣٨) ٧۔ ہر گروہ کے بد اعمال کو شیطان نے ان کے لیے مزین کردیا۔ (الانعام : ١٠٩) ٨۔ حد سے تجاوز کرنے والوں کے اعمال ان کے لیے مزّین کردیے جاتے ہیں۔ (یونس : ١٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 36 تا 37 فرعون نے ہامان سے کہا میرے لیے ایک بلند عمارت بناتک کہ میں آسمان کے راستوں تک پہنچ سکوں اور موسیٰ کے حدا کے بارے میں جان سکوں۔ وانی لاظنه جاذبا (40: 37) ” مجھے تو یہ موسیٰ جھوٹا ہی معلوم ہوتا ہے “۔ یہ سرکش فرعون کی چالاکی اور اٹکل بازی ہے ، وہ سچائی کے مقابلے میں علانیہ آنا نہیں چاہتا اور عقیدۂ توحید کا اعتراف بھی نہیں کرتا کیونکہ اس صورت میں اس کی حکومت جاتی ہے ، جن افسانوں پر اس کی مملک قائم تھی وہ عقیدۂ توحید کے بعد باطل قرار پاتے تھے۔ یہ بات بعید ازامکان ہے کہ فرعون اس قدر کم عقل تھا اور وہ اس علمی سطح کا آدمی تھا۔ اور وہ الہہ موسیٰ کو اس سادہ انداز سے دھوکہ دے رہا تھا کیونکہ فراعنہ مصر علمی لحاظ سے بہت ہی ترقی یافتہ تھے۔ یہ دراصل اس کی طرف سے حضرت موسیٰ اور الہٰ العالمین کے ساتھ مذاق تھا۔ البتہ اس مذاق کے ساتھ وہ اپنے رویہ کو بظاہر منصفانہ بنانا چاہتا تھا۔ اور رجل مومن نے جو زبردست منطقی تقریر کی تھی اس سے جان چھڑانے کا یہ بھونڈا طریقہ اور تدبیر تھی لیکن یہ سب باتیں یہ ضرور ظاہر کردیتی ہیں کہ فرعون مصر کو اپنی گمراہی پر اصرار تھا اور وہ کبر میں مبتلا تھا۔ اور حضرت موسیٰ کو رع کرنے پر تلا ہو تھا۔ وکذٰلک۔۔۔ عن السبیل (40: 37) ” اس طرح فرعون کے لیے اس کی بدعملی خوشنما بنادی گئی اور وہ راہ راست سے روک دیا گیا “۔ اور اب وہ اس بات کا مستحق قرار پا گیا کہ اسے راستے سے روک دیاجائے کیونکہ وہ جس رویے کا اظہار کررہا تھا ، وہ صراط مستقیم سے دور انحراف کا رویہ تھا۔ نتیجہ یہ نکالا جاتا ہے کہ وہ بربادی اور ناکامی کی طرف بڑھ رہا ہے ، وماکیدفرعون الافی تباب (40: 37) ” اور فرعون کی ساری چالبازی تباہی کے راستہ ہی میں صرف ہوئی۔ اسی مذاق اور فریب اور گمراہی پر یہ اصرار کو دیکھکر رجل مومن نے بھی مناسب سمجھا کہ ایک آخری بات ان سے کہہ دے۔ یہ بہت ہی بلند واضح بات ہے۔ اس سے پہلے تو لوگوں کو یہ دعوت دی کہ میرا اتباع کرو ، میں تمہیں سیدھی راہ کی طرف دعوت دیتا ہوں۔ پھر اس نے لوگوں کو بتایا کہ یہ زندگی تو بہت ہی مختصر اور فانی زندگی ہے۔ اسلیے تم اس زندگی کا انتظام کرو جو باقی رہنے والی ہے اور آخرت کے دائمی عذاب سے بچو اور اسنے واضح طور پر بتایا کہ شرک کے عقیدے میں کیا کیا کمزوریاں ہیں :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

فرعون کا اوپر چڑھنے کے لیے اونچا محل بنانے کا حکم دینا اور اس کی تدبیر کا بربادی کا سبب بننا جب فرعون کے سامنے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی دعوت پیش کی تو اس نے سوال و جواب کیے قتل کی دھمکی دی بڑی ڈینگیں ماریں اور اپنے عوام کو دھوکہ دینے کے لیے طرح طرح کی باتیں نکالیں انہیں باتوں میں سے ایک یہ بات تھی کہ اس نے اپنے وزیر ہامان سے کہا کہ ذرا ایک محل یعنی اونچی عمارت تو بناؤ میں اوپر چڑھوں گا۔ آسمانوں کے راستوں میں پہنچوں گا اور موسیٰ (علیہ السلام) کے معبود کا پتہ چلاؤں گا جھوٹے معبود ایسے ہی ہوتے ہیں دعویٰ تو اس کا یہ تھا کہ میں سب سے بڑا رب ہوں اور حال اس کا یہ تھا کہ آسمانوں کی خبر جاننے کے لیے اونچی عمارت کا اور سیڑھیوں کا محتاج تھا چونکہ صرف عوام کو دھوکا دینا مقصود تھا اس لیے بلند عمارت کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ اس نے پہلے ہی سے یوں کہہ دیا کہ میں موسیٰ کو جھوٹا سمجھتا ہوں۔ فرعون نے جو اونچا محل بنانے کو کہا تھا اس کا ذکر سورة القصص میں بھی گزر چکا ہے (فَاَوْقِدْ لِیْ یٰھَامٰنُ عَلَی الطِّیْنِ ) (ع ٤) کی تفسیر کا مطالعہ بھی کرلیا جائے۔ (جلد کے شروع میں گزر چکی ہے)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

44:۔ ” وقال فرعون “ فرعون کو اندیشہ ہوا کہ مبادا مومن کے کلام سے قوم متاثر ہوجائے، اس لیے اس نے قوم کو دوسری طرف مشغول کرنے کے لیے اپنے وزیر ھامان کو حکم دیا کہ ایک نہایت ہی بلند مینار تعمیر کرائے تاکہ وہ اس پر چڑھ کر موسیٰ کے خدا کو دیکھ تو سہی جس کی عبادت کی وہ دعوت دیتا ہے۔ لیکن یاد رکھو، یہ صرف تمہارے اطمینان کے لیے ہے ویسے مجھے تو اپنی جگہ یقین ہے کہ موسیٰ اپنے اس دعوے میں جھوٹا ہے کہ میرے سوا کوئی اور بھی الٰہ ہے (العیاذ باللہ) یہاں ظن بمعنی یقین ہے۔ ان الطن بمعنی الیقین ای وانا (تیقن انہ کاذب وانما اقوال ما اقولہ لازالۃ الشبۃ عمن لا یتیقن ما اتیقنہ (قرطبی ج 15 ص 315) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(36) فرعون نے کہا اے ہامان میرے واسطے ایک محل اور بلند عمارت بناتا کہ میں اس پر چڑھ کر ان ذرائع اور اسباب کو حاصل کروں۔