Surat ul Momin

Surah: 40

Verse: 37

سورة مومن

اَسۡبَابَ السَّمٰوٰتِ فَاَطَّلِعَ اِلٰۤی اِلٰہِ مُوۡسٰی وَ اِنِّیۡ لَاَظُنُّہٗ کَاذِبًا ؕ وَ کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِفِرۡعَوۡنَ سُوۡٓءُ عَمَلِہٖ وَ صُدَّ عَنِ السَّبِیۡلِ ؕ وَ مَا کَیۡدُ فِرۡعَوۡنَ اِلَّا فِیۡ تَبَابٍ ﴿٪۳۷﴾  9

The ways into the heavens - so that I may look at the deity of Moses; but indeed, I think he is a liar." And thus was made attractive to Pharaoh the evil of his deed, and he was averted from the [right] way. And the plan of Pharaoh was not except in ruin.

۔ ( ان ) دروازوں تک پہنچ جاؤں اور موسیٰ کے معبود کو جھانک لوں اور بیشک میں سمجھتا ہوں وہ جھوٹا ہے اور اسی طرح فرعون کی بد کرداریاں اسے بھلی دکھائی گئیں اور راہ سے روک دیا گیا اور فرعون کی ( ہر ) حیلہ سازی تباہی میں ہی رہی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَسْبَابَ السَّمَاوَاتِ ... that I may arrive at the ways -- the ways of the heavens, Sa`id bin Jubayr and Abu Salih said, "The gates of the heavens." Or it was said, the ways of the heavens. ... فَأَطَّلِعَ إِلَى إِلَهِ مُوسَى وَإِنِّي لاَأَظُنُّهُ كَاذِبًا ... and I may look upon the God of Musa, but verily, I think him to be a liar. Because of his disbelief and defiance, he did not believe that Allah had sent Musa to him. Allah says: ... وَكَذَلِكَ زُيِّنَ لِفِرْعَوْنَ سُوءُ عَمَلِهِ وَصُدَّ عَنِ السَّبِيلِ ... Thus it was made fair seeming, in Fir`awn's eyes, the evil of his deeds, and he was hindered from the path; means, this act of his (building the tower), by means of which he wanted to deceive his people and make them think that he could prove that Musa was lying. Allah says: ... وَمَا كَيْدُ فِرْعَوْنَ إِلاَّ فِي تَبَابٍ and the plot of Fir`awn led to nothing but loss and destruction. Ibn Abbas and Mujahid said, "Meaning nothing but ruin."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

37۔ 1 یعنی دیکھوں کہ آسمانوں پر کیا واقعی کوئی اللہ ہے ؟ 37۔ 2 اس بات میں کہ آسمان پر اللہ ہے جو آسمان و زمین کا خالق اور ان کا مدبر ہے۔ یا اس بات میں کہ وہ اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہے۔ 37۔ 3 یعنی شیطان نے اس طرح اسے گمراہ کئے رکھا اور اس کے برے عمل اسے اچھے نظر آتے رہے۔ 37۔ 4 یعنی حق اور درست راستے سے اسے روک دیا گیا اور وہ گمراہیوں کی بھول بھلیوں میں بھٹکتا رہا۔ 37۔ 5 تباب خسارہ، ہلاکت۔ یعنی فرعون نے جو تدبیر اختیار کی، اس کا نتیجہ اس کے حق میں برا ہی نکلا۔ اور بالآخر اپنے لشکر سمیت پانی میں ڈبو دیا گیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٠] ہامان کو بلند عمارت بنانے کے لئے کہنا :۔ فرعون نے اس مرد مومن کی باتوں کا کچھ اثر نہ لیا اور نہایت متکبرانہ شان سے اپنے وزیر ہامان سے کہنے لگا : ہامان ! ایک بلند عمارت تعمیر کراؤ۔ تاکہ میں یہ تو دیکھوں کہ جس الٰہ کی موسیٰ بات کرتا ہے وہ ہے کہاں اور کتنی بلندی پر رہتا ہے۔ (مزید تفصیل کے لئے سورة قصص کی آیت نمبر ٣٨ کا حاشیہ نمبر ٥٠ دیکھئے) [٥١] یعنی فرعون جو بھی بنی اسرائیل پر ظلم ڈھا رہا تھا اور سیدنا موسیٰ کی مخالفت میں جو بھی ہتھکنڈے استعمال کر رہا تھا وہ سب اسے اچھے ہی لگتے تھے اور وہ انہیں اپنی حسن تدبیر پر محمول کرتا تھا۔ برے کام کرتے کرتے اس کی کچھ ایسی مت ماری گئی تھی اور ایسی مضحکہ خیز حرکتیں کرنے لگا تھا جس کے بعد اس کے راہ راست پر آنے کی کوئی صورت باقی نہیں رہ گئی تھی۔ [٥٢] فرعون کی وہ مکارانہ چالیں جن میں وہ خود گھر گیا :۔ فرعون دل سے یہ سمجھ چکا تھا کہ موسیٰ فی الواقع اللہ کے رسول ہیں اور یہ اسے پہلے دن ہی یقین ہوگیا تھا۔ مگر وہ اپنے اقتدار اور اپنی سلطنت کو بچانے کے لئے ہمیشہ مکارانہ چالیں ہی چلتا رہا اس کی پہلی چالاکی یہ تھی کہ اس نے لوگوں کو یہ تاثر دینا چاہا کہ موسیٰ کے معجزات بس جادو کے کرشمے ہی ہیں۔ اور اپنی اس چال کو عملی جامہ پہنانے کے لئے جادوگروں سے مقابلہ کا ڈھونگ رچایا۔ پھر جب جادوگروں نے یہ تسلیم کرلیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) جو کچھ لائے ہیں وہ جادو نہیں بلکہ فی الواقع اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاکردہ معجزات ہیں اور انہوں نے بھرے مجمع میں اپنے ایمان کا اعلان بھی کردیا تو لوگوں کو ان اثرات سے بچانے کے لئے جادوگروں پر یہ الزام لگا دیا کہ تم تو خود اندر سے موسیٰ سے ملے ہوئے ہو وہ تمہارا گرو ہے اور تم اس کے چیلے ہو اور میں تمہیں ایسی اور ایسی سزائیں دوں گا۔ لیکن فرعون کی اس دھمکی کا بھی کچھ اثر نہ ہوا۔ اور لوگ چوری چھپے سیدنا موسیٰ پر ایمان لاتے رہے پھر اس نے اعلان کروایا کہ جو لوگ موسیٰ پر ایمان لائیں گے میں ان کے بچوں کو قتل کردوں گا۔ پھر اس قضیہ سے نجات حاصل کرنے کے لئے سیدنا موسیٰ کے قتل کے منصوبے بنانے لگا۔ انہی ایام میں سیدنا موسیٰ کو ہجرت کا حکم ہوگیا۔ اب اگر وہ سیدنا موسیٰ کا تعاقب نہ کرتا تو زیادہ سے زیادہ یہی ہوتا کہ بنی اسرائیل اس کے ہاتھ سے نکل جاتے۔ وہ خود تو نہ غرق ہوتا اور نہ اس کی سلطنت ہاتھ سے جاتی مگر اس کی تدبیر اسے اس کی تباہی کی طرف ہی دھکیلتی رہی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) اسباب السموت فاظلع الی الہ موسیٰ : فرعون نے پہلے صرف یہ کہا : ” تاکہ میں اسباب تک پہنچ سکوں “ مقصد تجسس پیدا کرنا تھا کہ وہ کس چیز کے اسباب تک پہنچنا چاہتا ہے۔ چناچہ اس نے دوبارہ وضاحت کی، تاکہ میں آسمانوں کے راستوں اور دروازوں تک پہنچ جاؤں، جہاں سے آسمانوں تک رسائی ہوتی ہے، پھر موسیٰ کے معبود کی طرف جھانکوں ، جو اس کے کہنے کے مطابق آسمانوں کے اوپر ہے۔ (٢) وانی لاظنہ کاذباً ” ان اور ” لام “ کے ساتھ تاکید کی وجہ سے یہاں ظن (گمان) یقین کے معنی میں ہے، یعنی موسیٰ جو دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اللہ کا رسول ہے، یا یہ کہ اس کا رب آسمانوں کے اور عرش پر ہے، تو مجھے یقین ہے کہ وہ جھوٹا ہے۔ اس آیت سے ثابت ہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں سے اوپر عرش پر ہے، اس پر تمام انبیاء و رسل، صحابہ و تابعین اور ائمہ دین کا اتفاق ہے۔ افسوس ! اس مقام پر کئی مفسرین نے، جو یونان کے مشرک فلسفیوں سے متاثر ہیں، اللہ تعالیٰ کے آسمان پر یا بلندی کی طرف یا عرش پر ہونے کا انکار کیا ہے، بلکہ بعض نے تو اتنی جرأت کی ہے کہ اسے فرعون کا عقیدہ قرار دیا ہے، حالانکہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) کا عقیدہ ہے جس کا فرعون انکار کر رہا ہے اور اس میں موسیٰ (علیہ السلام) کو جھوٹا کہہ رہا ہے، اس کے علاوہ قرآن مجید کی ” ثم استوی علی العرش “ والی تمام آیات اس بات کی واضح دلیل ہیں۔ اسی طرح وہ آیات بھی جن میں اللہ تعالیٰ کے آسمانوں کے اوپر ہونے کا ذکر ہے۔ دیکھیے سورة ملک (١٦، ١٧) ، حاقہ (١٧) اور طہ (٥) کی تفسیر۔ (٣) وکذلک زین لفرعون سوء عملہ …یعنی اس طرح فرعون کے لئے اس کا برا عمل، یعنی اللہ تعالیٰ کے وجود کا انکار، اپنے رب الاعلیٰ ہونے پر اصرار، موسیٰ (علیہ السلام) کی تکذیب اور بنی اسرائیل پر ظلم و ستم خوش نما بنادیا گیا اور وہ ان کاموں کو اچھا سمجھ کر ان پر چلتا رہا۔ خوش نما بنانے والا کون تھا ؟ تو یہ اس کی خواہش نفس، شیطان، برے ساتھی (دیکھیے انعام : ١٢٢، ١٣٧، انفال : ٤٨) اور خود اللہ تعالیٰ تھا، کیونکہ ہر چیز کا خالق وہی ہے۔ (دیکھیے انعام : ١٠٨ ۔ نمل : ٤) اور جو مخالفت پر کمر باندھ لے تو اللہ تعالیٰ اسے اس کی مرضی پر چھوڑ دیتا ہے۔ دیکھیے سورة نسائ (١١٥) ۔ (٤) وما کید فرعون الا فی تباب :” تباب “ ” تب یتب “ (ن) کا مصدر ہے، ہلاکت، تباہی اور خسارہ۔ یہ لازم و متعددی دونوں معنوں میں آتا ہے۔ یعنی اس نے جتنی چالیں چلیں سب اس کی تباہی کا سبب بنتی چلی گیئں، بالآخر وہ اپنے لشکروں سمیت سمندر میں غرق کردیا گیا۔ یہی حال ہر جھوٹے اور مکار آدمی کا ہوتا ہے۔ (٥) فرعون نے وہ محل بنایا یا نہیں، اس کی وضاحت اور ان دونوں آیتوں کی مزید تفصیل کے لئے دیکھیے سورة قصص (٣٨ تا ٤٠) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَسْـبَابَ السَّمٰوٰتِ فَاَطَّلِعَ اِلٰٓى اِلٰہِ مُوْسٰى وَاِنِّىْ لَاَظُنُّہٗ كَاذِبًا۝ ٠ ۭ وَكَذٰلِكَ زُيِّنَ لِفِرْعَوْنَ سُوْۗءُ عَمَلِہٖ وَصُدَّ عَنِ السَّبِيْلِ۝ ٠ ۭ وَمَا كَيْدُ فِرْعَوْنَ اِلَّا فِيْ تَبَابٍ۝ ٣٧ۧ سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ طَلَعَ طَلَعَ الشمسُ طُلُوعاً ومَطْلَعاً. قال تعالی: وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ [ طه/ 130] ، حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] ، والمَطْلِعُ : موضعُ الطُّلُوعِ ، حَتَّى إِذا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَطْلُعُ عَلى قَوْمٍ [ الكهف/ 90] ، وعنه استعیر : طَلَعَ علینا فلانٌ ، واطَّلَعَ. قال تعالی: هَلْ أَنْتُمْ مُطَّلِعُونَ [ الصافات/ 54] ، فَاطَّلَعَ [ الصافات/ 55] ، قال : فَأَطَّلِعَ إِلى إِلهِ مُوسی[ غافر/ 37] ، وقال : أَطَّلَعَ الْغَيْبَ [ مریم/ 78] ، لَعَلِّي أَطَّلِعُ إِلى إِلهِ مُوسی[ القصص/ 38] ، واسْتَطْلَعْتُ رأيَهُ ، وأَطْلَعْتُكَ علی كذا، وطَلَعْتُ عنه : غبت، والطِّلاعُ : ما طَلَعَتْ عليه الشمسُ والإنسان، وطَلِيعَةُ الجیشِ : أوّل من يَطْلُعُ ، وامرأةٌ طُلَعَةٌ قُبَعَةٌ «1» : تُظْهِرُ رأسَها مرّةً وتستر أخری، وتشبيها بالطُّلُوعِ قيل : طَلْعُ النَّخْلِ. لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق/ 10] ، طَلْعُها كَأَنَّهُ رُؤُسُ الشَّياطِينِ [ الصافات/ 65] ، أي : ما طَلَعَ منها، وَنَخْلٍ طَلْعُها هَضِيمٌ [ الشعراء/ 148] ، وقد أَطْلَعَتِ النّخلُ ، وقوسٌ طِلَاعُ الكفِّ : ملءُ الكفِّ. ( ط ل ع ) طلع ( ن ) الشمس طلوعا ومطلعا کے معنی آفتاب طلوع ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ [ طه/ 130] اور سورج کے نکلنے سے پہلے ۔۔۔۔۔ تسبیح وتحمید کیا کرو ۔ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] طلوع صبح تک ۔ اور مطلع کے معنی ہیں طلوع ہونیکی جگہ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى إِذا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَطْلُعُ عَلى قَوْمٍ [ الكهف/ 90] یہاں تک کہ سورج کے طلوع ہونے کے مقام پر پہنچا تو دیکھا کہ وہ ایسے لوگوں پر طلوع کرتا ہے ۔۔۔۔۔ اسی سے استعارہ کے طور طلع علینا فلان واطلع کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی ہیں کسی کے سامنے ظاہر ہونا اور اوپر پہنچ کر نیچے کی طرف جھانکنا قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَنْتُمْ مُطَّلِعُونَ [ الصافات/ 54] بھلا تم اسے جھانک کر دیکھنا چاہتے ہو اتنے میں وہ خود جھانکے گا ۔ فَاطَّلَعَ [ الصافات/ 55] پھر اوپر جاکر موسیٰ (علیہ السلام) کے خدا کو دیکھ لوں ۔ أَطَّلَعَ الْغَيْبَ [ مریم/ 78] کیا اس نے غیب کی خبر پالی ۔ لَعَلِّي أَطَّلِعُ إِلى إِلهِ مُوسی[ القصص/ 38] تاکہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کے خدا کی طرف چڑھ جاؤں ۔ استطعت ( میں نے اس کی رائے معلوم کی ۔ اطلعت علٰی کذا میں نے تمہیں فلان معاملہ سے آگاہ کردیا طلعت عنہ میں اس سے پنہاں ہوگیا ( اضداد الطلاع ہر وہ چیز جس پر سورج طلوع کرتا ہو یا ( 2 ) انسان اس پر اطلاع پائے طلعیۃ الجیش ہر اول دستہ امرء ۃ طلعۃ قبعۃ وہ عورت جو بار بار ظاہر اور پوشیدہ ہو اور طلوع آفتاب کی مناسبت سے طلع النخل کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اور اس کے معنی درخت خرما کے غلاف کے ہیں جس کے اندر اس کا خوشہ ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق/ 10] جن کا گا بھاتہ بتہ ہوتا ہے طَلْعُها كَأَنَّهُ رُؤُسُ الشَّياطِينِ [ الصافات/ 65] ان کے شگوفے ایسے ہوں گے جیسے شیطانوں کے سر ۔ وَنَخْلٍ طَلْعُها هَضِيمٌ [ الشعراء/ 148] اور کھجوریں جن کے شگوفے لطیف ونازک ہوتے ہیں ۔ الطلعت النخل کھجور کا شگوفے دار ہونا ۔ قو س طلاع الکھف کمان جس سے مٹھی بھر جائے ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله» وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حیھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) موسی مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته . ظن والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم/ 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن/ 7] ، ( ظ ن ن ) الظن اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے زين الزِّينَةُ الحقیقيّة : ما لا يشين الإنسان في شيء من أحواله لا في الدنیا، ولا في الآخرة، فأمّا ما يزينه في حالة دون حالة فهو من وجه شين، ( زی ن ) الزینہ زینت حقیقی ہوتی ہے جو انسان کے لئے کسی حالت میں بھی معیوب نہ ہو یعنی نہ دنیا میں اور نہ ہی عقبی ٰ میں اور وہ چیز جو ایک حیثیت سی موجب زینت ہو لیکن دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ زینت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف ایک پہلو کے اعتبار سے زینت کہہ سکتے ہیں فِرْعَوْنُ : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة . فرعون یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔ ساء ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] ، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء/ 123] ، أي : قبیحا، وکذا قوله : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة/ 37] ، عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح/ 6] ، أي : ما يسوء هم في العاقبة، وکذا قوله : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء/ 97] ، وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66] ، وأما قوله تعالی: فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] ، وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة/ 66] ، ساءَ مَثَلًا[ الأعراف/ 177] ، فساء هاهنا تجري مجری بئس، وقال : وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ [ الممتحنة/ 2] ، وقوله : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، نسب ذلک إلى الوجه من حيث إنه يبدو في الوجه أثر السّرور والغمّ ، وقال : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] : حلّ بهم ما يسوء هم، وقال : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد/ 21] ، وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] ، وكنّي عن الْفَرْجِ بِالسَّوْأَةِ «1» . قال : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] ، فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] ، يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف/ 22] ، لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما [ الأعراف/ 20] . ساء اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ اور آیت :، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء/ 123] جو شخص برے عمل کرے گا اسے اسی ( طرح ) کا بدلہ دیا جائیگا ۔ میں سوء سے اعمال قبیحہ مراد ہیں ۔ اسی طرح آیت : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة/ 37] ان کے برے اعمال ان کو بھلے دکھائی دیتے ہیں ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہیں اور آیت : عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح/ 6] انہیں پر بری مصیبت ( واقع ) ہو ۔ میں دائرۃ السوء سے مراد ہر وہ چیز ہوسکتی ہے ۔ جو انجام کا رغم کا موجب ہو اور آیت : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء/ 97] اور وہ بری جگہ ہے ۔ وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66]( دوزخ ) ٹھہرنے کی بری جگہ ہے ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہے ۔ اور کبھی ساء بئس کے قائم مقام ہوتا ہے ۔ یعنی معنی ذم کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] مگر جب وہ ان کے مکان میں اتریگا تو جن کو ڈرسنایا گیا تھا ان کے لئے برادن ہوگا ۔ وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة/ 66] ان کے عمل برے ہیں ۔ ساءَ مَثَلًا[ الأعراف/ 177] مثال بری ہے ۔ اور آیت :۔ سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ( تو) کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ میں سیئت کی نسبت وجوہ کی طرف کی گئی ہے کیونکہ حزن و سرور کا اثر ہمیشہ چہرے پر ظاہر ہوتا ہے اور آیت : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] تو وہ ( ان کے آنے سے ) غم ناک اور تنگدل ہوئے ۔ یعنی ان مہمانوں کو وہ حالات پیش آئے جن کی وجہ سے اسے صدمہ لاحق ہوا ۔ اور فرمایا : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد/ 21] ایسے لوگوں کا حساب بھی برا ہوگا ۔ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] اور ان کیلئے گھر بھی برا ہے ۔ اور کنایہ کے طور پر سوء کا لفظ عورت یا مرد کی شرمگاہ پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] اپنے بھائی کی لاش کو کیونکہ چھپائے ۔ فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا ۔ يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] کہ تمہار ستر ڈھانکے ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف/ 22] تو ان کے ستر کی چیزیں کھل گئیں ۔ لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما[ الأعراف/ 20] تاکہ ان کے ستر کی چیزیں جو ان سے پوشیدہ تھیں ۔ کھول دے ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے صدد الصُّدُودُ والصَّدُّ قد يكون انصرافا عن الشّيء وامتناعا، نحو : يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء/ 61] ، وقد يكون صرفا ومنعا نحو : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل/ 24] ( ص د د ) الصدود والصد ۔ کبھی لازم ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے رو گردانی اور اعراض برتنے کے ہیں جیسے فرمایا ؛يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء/ 61] کہ تم سے اعراض کرتے اور کے جاتے ہیں ۔ اور کبھی متعدی ہوتا ہے یعنی روکنے اور منع کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل/ 24] اور شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کردکھائے اور ان کو سیدھے راستے سے روک دیا ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ كيد الْكَيْدُ : ضرب من الاحتیال، وقد يكون مذموما وممدوحا، وإن کان يستعمل في المذموم أكثر، وکذلک الاستدراج والمکر، ويكون بعض ذلک محمودا، قال : كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف/ 76] ( ک ی د ) الکید ( خفیہ تدبیر ) کے معنی ایک قسم کی حیلہ جوئی کے ہیں یہ اچھے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور برے معنوں میں بھی مگر عام طور پر برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اسی طرح لفظ استد راج اور مکر بھی کبھی اچھے معنوں میں فرمایا : ۔ كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف/ 76] اسی طرح ہم نے یوسف کے لئے تدبیر کردی ۔ تبَ التَبُّ والتَّبَابُ : الاستمرار في الخسران، يقال : تَبّاً له وتَبٌّ له، وتَبَبْتُهُ : إذا قلت له ذلك، ولتضمن الاستمرار قيل : اسْتَتَبَّ لفلان کذا، أي : استمرّ ، وتَبَّتْ يَدا أَبِي لَهَبٍ [ المسد/ 1] ، أي : استمرت في خسرانه، نحو : ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] ، وَما زادُوهُمْ غَيْرَ تَتْبِيبٍ [هود/ 101] ، أي : تخسیر، وَما كَيْدُ فِرْعَوْنَ إِلَّا فِي تَبابٍ [ غافر/ 37] . ( ت ب ب ) التب والتبات ( ض ) کے معنی مسلسل خسارہ میں رہنے کے ہیں کہا جاتا ہے تبالہ ( اللہ اسے خائب و خاسر کرے ( وتبیتہ کسی سے تبالک کہنا ۔ قرآن میں ہے ۔ وتَبَّتْ يَدا أَبِي لَهَبٍ [ المسد/ 1] ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹیں یعنی وہ ہمیشہ خسارے میں رہے یہی مفہوم ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] میں پایا جاتا ہے ۔ وَما زادُوهُمْ غَيْرَ تَتْبِيبٍ [هود/ 101] ان نقصان میں ڈالتے ( یعنی تباہ کرنے ) کے سوا ان کے حق میں اور کچھ نہ کرسکے ۔ وَما كَيْدُ فِرْعَوْنَ إِلَّا فِي تَبابٍ [ غافر/ 37] اور فرعون کی تدبیر تو بیکارتهي

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور میں وہاں جاکر موسیٰ کے اللہ کو دیکھوں جس کے رسول ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور یہ کہ وہ اللہ آسمان پر ہے اور میں تو موسیٰ کو اس دعوی میں کہ میرے علاوہ آسمانوں پر اور اللہ ہے جھوٹا سمجھتا ہوں اور پھر وہ محل نہیں بنا اور اسی طرح فرعون کی اور بدکاریاں بھی اس کو اچھی معلوم ہوتی تھیں اور فرعون حق و ہدایت کے راستہ سے رک گیا اور فرعون کی ہر ایک تدبیر اکارت ہی گئی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٧ { اَسْبَابَ السَّمٰوٰتِ فَاَطَّلِعَ اِلٰٓی اِلٰہِ مُوْسٰی } ” یعنی آسمان کے راستوں تک ‘ پھر میں جھانک کر دیکھوں موسیٰ کے الٰہ کو “ یہ موسیٰ جس الٰہ کا ذکر کرتا ہے میں اس تک پہنچ کر خود اسے دیکھنا چاہتا ہوں۔ { وَاِنِّیْ لَاَظُنُّہٗ کَاذِبًا } ” اور میرا گمان تو یہ ہے کہ وہ جھوٹا ہے۔ “ { وَکَذٰلِکَ زُیِّنَ لِفِرْعَوْنَ سُوْٓئُ عَمَلِہٖ } ” اور اس طرح فرعون کے لیے اس کا ُ برا عمل بھی ّمزین کردیا گیا “ یعنی فرعون کی نگاہوں میں اس کی بدعملی خوشنما بنا دی گئی۔ { وَصُدَّ عَنِ السَّبِیْلِ وَمَا کَیْدُ فِرْعَوْنَ اِلَّا فِیْ تَبَابٍ } ” اور اسے روک دیا گیا سیدھی راہ سے۔ اور فرعون کی یہ چال نہیں تھی مگر تباہ ہونے کے لیے ۔ “ فرعون کی بےبسی کی ایک تصویر تو ہم قبل ازیں آیت ٢٩ میں دیکھ آئے ہیں : { مَآ اُرِیْکُمْ اِلَّا مَآ اَرٰی وَمَآ اَہْدِیْکُمْ اِلَّا سَبِیْلَ الرَّشَادِ } کہ دیکھو بھئی ! یہ تو میری رائے ہے ‘ مجھے جو بات صحیح محسوس ہوئی وہ میں نے آپ لوگوں کے سامنے رکھ دی۔ اب آیت زیر مطالعہ میں جو منظر دکھایا گیا ہے اس میں وہ پہلے سے بھی زیادہ بےبس نظر آ رہا ہے۔ یہ جملے بولتے ہوئے نہ تو اس نے مرد مومن کی کسی بات کا جواب دیا اور نہ ہی وہ اس سے نظریں ملا سکا۔ ایک طویل خاموشی کے بعد اس نے بات کی بھی تو اپنے وزیر سے کی اور بات بھی نہایت بےتکی اور لایعنی کی ! کہ مجھے کوئی اونچا سامینار بنا دو تاکہ میں اس پر چڑھ کر موسیٰ کے معبود کو دیکھ سکوں ! واہ رے بادشاہ سلامت واہ ! اسے کہتے ہیں کھسیانی بلی کھمبا نوچے ! اللہ تعالیٰ کے وجود کے خلاف ایسی ہی ایک ” پختہ دلیل “ موجودہ دور کے لال بجھکڑوں کو بھی سوجھی تھی جب انہوں نے کہا تھا کہ ہم تو چاندتک بھی ہو آئے ہیں ‘ ہمیں تو کہیں کوئی خدا نظر نہیں آیا۔ مردِ مومن نے بہر حال فرعون کی اس فضول اور بےمحل بات کو نظر انداز کر کے کمال سنجیدگی سے اپنی تقریر کو جاری رکھا :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

55 Pharaoh addresses these words to Hamim, his minister, interposing in the speech of the Believer in a way as though he has no regard for what he was saying. Therefore, he turns away from him arrogantly and says to Haman, "Build me a high tower so that I may climb it to see where the God of whom this Moses speaks, lives." (For explanation, see AI-Qasas: 38 and E.N.'s thereof).

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :55 مومن آل فرعون کی تقریر کے دوران میں فرعون اپنے وزیر ہامان کو مخاطب کر کے یہ بات کچھ اس انداز میں کہتا ہے کہ گویا وہ اس مومن کے کلام کو کسی التفات کے قابل نہیں سمجھتا ، اس لیے متکبرانہ شان کے ساتھ اس کی طرف سے منہ پھیر کر ہامان سے کہتا ہے کہ ذرا میرے لیے ایک اونچی عمارت تو بنوا ، دیکھوں تو سہی کہ یہ موسیٰ جس خدا کی باتیں کر رہا ہے وہ کہاں رہتا ہے ۔ ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، القصص ، حواشی ۵۲ تا ۵٤ )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

10: ظاہر یہ ہے کہ یہ بات فرعون نے طنز کے طور پر کہی تھی، کیونکہ وہ خود خدائی کا دعوے دار تھا، اور اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا تھا کہ اگر تم نے میرے سوا کسی اور کو خدا مانا تو تمہیں قید کردوں گا (دیکھئے سورۃ شعراء : 29) 11: یعنی اس کی نفسانی خواہشات نے اسے سیدھے راستے پر چلنے سے روک رکھا تھا، اور یہ سمجھا دیا تھا کہ جو کام تم کر رہے ہو، وہ بہت اچھا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(40:37) فاطلع۔ مضارع واحد متکلم اطلاع افتعال مصدر ، میں جھانکوں ۔ میں مطلع ہوں۔ میں اطلاع پاسکوں۔ میں معلوم کرسکوں۔ مضارع منصوب بوجہ جواب امر ہے۔ اگر رفع کے ساتھ ہو تو ابلغ کا معطوف ہوگا۔ لاظنہ لام تاکید کا ہے اظن مضارع کا صیغہ واحد متکلم ظن باب نصر سے مصدر جس کے معنی اس اعتقاد راجح کے ہیں جس میں اس کے خلاف ظہور پذیر ہونے کا بھی احتمال ہو یہ کبھی شک اور کبھی یقین کے معنی بھی دیتا ہے۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب کا صیغہ ہے جو حضرت موسیٰ کے لئے آیا ہے۔ میں تو اس (حضرت موسیٰ ) کو جھوٹا ہی سمجھتا ہو مجھے تو یقین ہے کہ وہ جھوٹا ہے۔ کذلک۔ اسی طرح (یعنی جس طرح رب السموت کو دیکھنے کے لئے اونچی عمارت کی تعمیر کو فرون کی نظر میں زینت آگین بنادیا گیا اسی طرح اس کی ہر بدکاری اس کے خیال میں زینت آفریں بنادی گئی۔ سوء عملہ۔ اس کے کام کی برائی۔ صد ۔ ماضی مجہول واحد مذکر غائب صد (باب نصر) مصدر جس کے معنی رک جانے یا روک دینے کے ہیں۔ پہلے اعتبار سے یہ لازم ہے اور دوسرے معنی کے اعتبار سے متعدی ۔ السبیل۔ بمعنی سیدھا راستہ۔ راہ راست۔ کید۔ تدبیر۔ چال۔ واؤ۔ (ہر دو مذموم و محمود حالت کے لئے استعمال ہوتا ہے) ۔ تباب۔ ٹوٹے میں رہنا۔ کھپاوا۔ مسلسل خسارہ میں رہنا۔ ٹوٹنا۔ تب یتب (باب ضرب) کا مصدر ہے۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے تبت ید ابی لہب وتب (111:1) ابو لہب کے ساتھ ٹوٹیں۔ یعنی وہ ہمیشہ خسارہ میں رہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی موسیٰ جو دعویٰ کرتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں یا یہ کہ میرا خدا آسمانوں کے اوپر عرش پر ہے تو میرے گمان میں وہ جھوٹا ہے۔ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں سے اوپر عرش پر ہے اس پر سب انبیاء ( علیہ السلام) و رسل ( علیہ السلام) اور صحابہ (رض) وتابعین (رح) اور ائمہ دین (رح) کا اتفاق ہے۔ ” غنیہ “ میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کا آسمان پر ہونا ہر آسمانی کتاب میں مذکورہ ہے جو کسی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کی گئی۔ نیز دیکھئے قصص 38 ( وجیز و حاشیہ جامع وغیرہ)3 برے کاموں سے مراد کفرو شرک کے کام ہیں۔ بھلے کر دکھانے کا مطلب یہ ہے کہ شیطان نے اس کی عقل مار دی، یہاں تک کہ وہ ان کاموں کو اچھا سمجھتے ہوئے ان پر چلتا رہا۔4 یعنی اس نے جتنی چالیں چلیں سب اس کی تباہی کا سبب بنتی چلی گئیں۔ یہی حال ہر جھوٹے اور مکار آدمی کا ہوتا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَکَذٰلِکَ زُیِّنَ لِفِرْعَوْنَ سُوءُ عَمَلِہٖ ) اور اسی طرح فرعون کے لیے اس کی بد کرداری مزین کردی گئی جسے وہ اچھی سمجھتا تھا۔ (وَصُدَّ عَنْ السَّبِیْلِ ) اور وہ راہ حق سے روک دیا گیا موسیٰ (علیہ السلام) کا مقابلہ کرنے کے لیے تدبیریں سوچتا رہا مگر کوئی تدبیر کام نہ آئی (وَمَا کَیْدُ فِرْعَوْنَ اِِلَّا فِیْ تَبَابٍ ) اور فرعون کی تدبیر ہلاکت ہی میں لے جانے والی تھی جو سوچا سب الٹا پڑا بالآخر ہلاک ہوا خود بھی ڈوبا اپنے لشکروں کو بھی لے ڈوبا۔ قال تعالیٰ فی سورة طٰہٰ ، (فَاَتْبَعَھُمْ فِرْعَوْنُ بِجُنُوْدِہٖ فَغَشِیَھُمْ مِّنَ الْیَمِّ مَا غَشِیَھُمْ وَاَضَلَّ فِرْعَوْنُ قَوْمَہٗ وَ مَا ھَدٰی) (سو فرعون نے ان (بنی اسرائیل) کا پیچھا کیا اپنے لشکروں کے ساتھ سو ان کو سمندر کے ایک بڑے حصہ نے ڈھانپ لیا اور فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ کیا اور صحیح راہ نہ بتائی۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

45:۔ ” وکذلک زین “ یوں فرعون کے لیے اس کے مشرکانہ اعمال اور اس کی متکبرانہ حرکات اس کی نگاہوں میں مزین کردی گئیں۔ اور اسے راہ راست پر آنے سے روک دیا گیا۔ یعنی اس کے ضد وعناد کی وجہ سے اسے قبول حق کی توفیق سے محروم کردیا گیا۔ ” وما کید فرعون الخ “ یہ ادخال الٰہی ہے۔ فرعون کی ہر چال اور اس کا ہر فریب بیکار اور رئیگاں تھا۔ وہ کسی تدبیر سے بھی اپنے کو سوء عاقبت سے نہ بچا سکا۔ آخر لاؤ لشکر سمیت غرق ہو کر رہا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(37) جو ذرائع آسمانوں پر جانے کے ہیں پھر ذرا موسیٰ (علیہ السلام) کے معبود کی ٹوہ لگائوں اور دیکھ بھال کرسکوں اور واقعہ یہ ہے کہ میں تو موسیٰ کو جھوٹا ہی سمجھتا ہوں اور اسی طرح فرعون کے عمل کی برائی اس کے لئے خوش منظر اور دیدہ زیب کردی گئی اور اسے سیدھی راہ سے روک دیا گیا اور فرعون کی چال اور حیلہ سازی نہ تھی مگر غارت اور تباہ ہونے والی یعنی برسراقتدار لوگوں کا قاعدہ ہے کہ وہ عام لوگوں کو گمراہ کرنے کی غرض سے اور فریب میں مبتلا کرنے کے لئے ایک نئی بات کیا کرتے ہیں تاکہ لوگ اس میں الجھ جائیں۔ اسی طرح اس نے اپنے وزیر ہامان سے کہا کہ ایک محل بنا یعنی ایک اونچی عمارت بناتا کہ اس پرچڑھ کر ایسے راستے حاصل کرسکوں جو آسمان تک پہنچانے کے راستے ہیں چناچہ ایک بڑا اونچا منار بنایا گیا اور اس کو اتنا بلند کیا کہ تمام عمارتوں سے وہ اونچا تھا۔ چناچہ فرعون اس پرچڑھا مگر دیکھا کہ آسمان اتنا ہی اونچا جتنا نیچے سے نظر آتا تھا اس نے لوگوں کو یہ دھوکہ دیا کہ اونچا ہوکر ذرا موسیٰ (علیہ السلام) کے خدا کا پتہ چلائوں گا اور اس کی ٹوہ لگائوں گا اور یہ بھی کہا تھا کہ میں تو موسیٰ (علیہ السلام) کو جھوٹا ہی سمجھتا ہوں لیکن جاتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ اس کا جھوٹ تم پر آشکارا کردوں۔ اس پر حضرت حق نے فرمایا کہ اس کے عمل کی برائی اس کو دکھائی نہ دیتی تھی بلکہ اعمال کی برائی اس کے لئے دیدہ زیب بنادی گئی اور یہ بھی مرض کی انتہائی خوف نک حالت ہے کہ مریض کو مرض کا احساس ہوجاتا رہے اور وہ باوجود مرض کے اپنے کو تندرست سمجھنے لگے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ راہ حق سے روکا گیا اسی ناگفتہ بہ حالت کی وجہ سے فرمایا کہ اس کا ہر دائوں تباہ و برباد ہونے والا ہے جتنی روک تھام اور اپنے اقتدار کا بچائو کرتا تھا اتنا ہی ہلاکت اور تباہی کے قریب ہوتا جاتا تھا اس جملہ معترضہ کے بعد پھر اس مرد مسلمان کی تقری رہے جس نے ارکان حکومت کو دن کردیا تھا۔