Surat ul Momin

Surah: 40

Verse: 4

سورة مومن

مَا یُجَادِلُ فِیۡۤ اٰیٰتِ اللّٰہِ اِلَّا الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فَلَا یَغۡرُرۡکَ تَقَلُّبُہُمۡ فِی الۡبِلَادِ ﴿۴﴾

No one disputes concerning the signs of Allah except those who disbelieve, so be not deceived by their [uninhibited] movement throughout the land.

اللہ تعالٰی کی آیتوں میں وہی لوگ جھگڑتے ہیں جو کافر ہیں پس ان لوگوں کا شہروں میں چلنا پھرنا آپ کو دھوکے میں نہ ڈالے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah says, مَا يُجَادِلُ فِي ايَاتِ اللَّهِ ... None disputes in the Ayat of Allah, One of the Attributes of the Disbelievers is That they dispute the Ayat of Allah -- and The Consequences of that Allah tells us that no one rejects or disputes His signs after clear proof has come, ... إِلاَّ الَّذِينَ كَفَرُوا ... but those who disbelieve, i.e., those who reject the signs of Allah and His proof and evidence. ... فَلَ يَغْرُرْكَ تَقَلُّبُهُمْ فِي الْبِلَدِ So let not their ability of going about here and there through the land deceive you! means, their wealth and luxurious life. This is like the Ayah: لااَ يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُواْ فِى الْبِلَـدِ مَتَـعٌ قَلِيلٌ ثُمَّ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِيْسَ الْمِهَادُ Let not the free disposal (and affluence) of the disbelievers throughout the land deceive you. A brief enjoyment; then, their ultimate abode is Hell; and worst indeed is that place for rest. (3:196-197) نُمَتِّعُهُمْ قَلِيلً ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ إِلَى عَذَابٍ غَلِيظٍ We let them enjoy for a little while, then in the end We shall oblige them to (enter) a great torment. (31:24) Then Allah consoles His Prophet Muhammad for the rejection of his people. He tells him that he has an example in the Prophets who came before him, may the blessings and peace of Allah be upon them all, for their nations disbelieved them and opposed them, and only a few believed in them.

انبیاء کی تکذیب کافروں کا شیوہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حق کے ظاہر ہوچکنے کے بعد اسے نہ ماننا اور اس میں نقصانات پیدا کرنے کی کوشش کرنا کافروں کا ہی کام ہے ۔ یہ لوگ اگر مال دار اور ذی عزت ہوں تو تم کسی دھوکے میں نہ پڑ جانا کہ اگر یہ اللہ کے نزدیک برے ہوتے تو اللہ انہیں اپنی یہ نعمتیں کیوں عطا فرماتا ؟ جیسے اور جگہ ہے کافروں کا شہروں میں چلنا پھرنا تجھے دھوکے میں نہ ڈالے یہ تو کچھ یونہی سا فائدہ ہے آخری انجام تو ان کا جہنم ہے جو بدترین جگہ ہے ۔ ایک اور آیت میں ارشاد ہے ہم انہیں بہت کم فائدہ دے رہے ہیں بالآخر انہیں سخت عذاب کی طرف بےبس کردیں گے ۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتا ہے کہ لوگوں کی تکذیب کی وجہ سے گھبرائیں نہیں ۔ اپنے سے اگلے انبیاء کے حالات کو دیکھیں کہ انہیں بھی جھٹلایا گیا اور ان پر ایمان لانے والوں کی بھی بہت کم تعداد تھی ، حضرت نوح علیہ السلام جو بنی آدم میں سب سے پہلے رسول ہو کر آئے انہیں ان کی امت جھٹلاتی رہی بلکہ سب نے اپنے اپنے زمانے کے نبی کو قید کرنا اور مار ڈالنا چاہا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے ان باطل والوں کو پکڑلیا ۔ اور ان کے ان زبردست گناہوں اور بدترین سرکشیوں کی بنا پر انہیں ہلاک کردیا ۔ اب تم ہی بتلاؤ کہ میرے عذاب ان پر کیسے کچھ ہوئے؟ یعنی بہت سخت نہایت تکلیف دہ اور المناک ، جس طرح ان پر ان کے اس ناپاک عمل کی وجہ سے میرے عذاب اتر پڑے اسی طرح اب اس امت میں سے جو اس آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرتے ہیں ان پر بھی میرے ایسے ہی عذاب نازل ہونے والے ہیں ۔ یہ گو نبیوں کو سچا مانیں لیکن جب تیری نبوت کے ہی قائل نہ ہوں ان کی سچائی مردود ہے ۔ واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

4۔ 1 اس جھگڑے سے مراد ناجائز اور باطل جھگڑا ہے جس کا مقصد حق کی تکذیب اور اس کی تردید و تغلیظ ہے ورنہ جس جدال بحث ومناظرہ کا مقصد ایضاح حق، ابطال باطل اور منکرین و معترضین کے شبہات کا ازالہ ہو وہ مذموم نہیں نہایت محمود و مستحسن ہے بلکہ اہل علم کو تو اس کی تاکید کی گئی ہے (لَتُبَيِّنُنَّهٗ للنَّاسِ وَلَاتَكْتُمُوْنَهٗ ) 3 ۔ ال عمران :187) تم اسے لوگوں کے سامنے ضرور بیان کرنا اسے چھپانا نہیں بلکہ اللہ کی نازل کردہ کتاب کے دلائل وبراہین کو چھپانا اتنا سخت جرم ہے کہ اس پر کائنات کی ہر چیز لعنت کرتی ہے البقرہ 4۔ 2 یعنی یہ کافر اور مشرک جو تجارت کرتے ہیں اس کے لئے مختلف شہروں میں آتے جاتے ہیں اور کثیر منافع حاصل کرتے ہیں، یہ اپنے کفر کی وجہ سے جلد ہی مؤاخذہ الٰہی میں آجائیں گے، یہ مہلت ضرور دیئے جا رہے ہیں لیکن انہیں چھوڑا نہیں جائے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢] یہاں سے حالات حاضرہ پر تبصرہ شروع کیا جارہا ہے کہ کفار مکہ جو اللہ کی آیات کا کبھی مذاق اڑاتے ہیں کبھی ان میں اعتراضات کرکے شکوک پیدا کرتے ہیں کبھی اسلام کی راہ روکنے کے لئے مسلمانوں کو اذیتیں دیتے ہیں اور کبھی سازشیں تیار کرتے ہیں۔ اور ساتھ ہی یہ بھی کہے جاتے ہیں کہ ہم اگر جھوٹے ہوتے تو اب تک ہم پر اللہ کا عذاب آجانا چاہئے تھا تو ان لوگوں کا تاحال صحیح و سلامت بچے رہنا اور زمین میں دندناتے پھرنا تم لوگوں کو اس وہم اور دھوکہ میں نہ ڈال دے کہ شاید یہ اللہ کی گرفت سے بچ جائیں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) مایجادل فی ایت اللہ الا الذین کفروا :” کفر “ کا معنی چھپانا بھی ہے اور انکار بھی اور جھگڑے سے مراد کج بحثی کر کے آیات الٰہی کو جھٹلانا اور انہیں رد کرنا ہے، ورنہ جس جدال اور بحث و مناظرے کا مقصد اللہ تعالیٰ کی آیات کی تصدیق اور حق بات کو ثابت کرنا ہو وہ قابل تعریف ہے، چناچہ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا :(وجادلھم بالتیھی احسن) (النحل :125)” اور ان سے اس طریقے کے ساتھ بحث کر جو سب سے اچھا ہے۔ “ اور نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم نے کہا :(ینوح قد جدلتنا فاکثرت جدالنا فاتنا بما تعدنا ان کنت من الصادقین ) (ھود، ٣٢)” اے نوح ! بیشک تو نے ہم سے جھگڑا کیا، پھر ہم سے بہت جھگڑا کیا، پس لے آہم پر جس کی تو ہمیں دھمکی دیتا ہے، اگر تو بچوں سے ہے۔ “ ابراہیم نے اپنے وقت کے بادشاہ کے ساتھ مناظرہ کر کے اسے لاجواب کیا، فرمایا :(الم تر الی الذی حاج ابراہیم فی ربہ) (البقرۃ :285) ” کیا تو نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے ابراہیم سے اس کے رب کے بارے میں جھگڑا کیا۔ “ ابراہیم (علیہ السلام) نے سورج، چاند اور ستاروں کی عبادت کرنے والوں کو لا جواب کیا (دیکھیے انعام : ٧٥ تا ٨٣) اور بت پرستوں کو لا جواب کیا۔ (دیکھیے انبیائ : ٥١ تا ٧٠) یعنی اتنی عظیم کتاب، جس کے اتارنے والے کی صفات کا ذکر اوپر گزرا، کوئی حق بات تسلیم کرنے والا شخص اس کی آیات کو جھٹلانے کے لئے جھگڑا نہیں کرتا، صرف وہی لوگ یہ جرأت کرتے ہیں جو حق کو چھپاتے اور اس کا انکار کرتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(المراء فی القرآن کفر) (ابوداؤد، الستۃ باب النھی عن الجدال فی القرآن : ٧٦٠٣ عن ابی ہریرہ (رح))” قرآن میں جھگڑا کرنا کفر ہے۔ “ (٢) فلا یغررک تقلبھم فی البلاد : یعنی ان لوگوں کی خوش حالی اور ان کا عیش و عشرت کے لئے یا تجارت اور دوسرے کاموں کے لئے مختلف شہروں میں پھرنا دیکھ کر کوئی شخص اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو کہ یہ اللہ کے پسندیدہ لوگ ہیں، دراصل یہ ان کے لئے مہلت ہے۔ مزید دیکھیے سورة آل عمران (١٩٦، ١٩٧) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In verse 4, it was said: مَا يُجَادِلُ فِي آيَاتِ اللَّـهِ إِلَّا الَّذِينَ كَفَرُ‌وا (No one quarrels about the verses of Allah, except those who disbelieve.). This verse declares quarreling in the matter of the Qur&an an act of kufr (disbelief). And the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has said: اِنَّ جِدَالأ فِی القُراٰنِ کُفرُ (Surely, quarreling (jidal) in the Qur&an is kufr.& (Reported by al-Baghawi, al-Baihaqi in ash-Shu&ab from Sayyidna Abu Hurairah (رض) ; and reported by Abu Dawud and al-Hakim who has rated it as &Sahib- Mazhari) It appears in Hadith that, on a certain day, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) heard two persons quarreling about some verse of the Qur&an. He got angry, and came out with his blessed face showing the signs of anger. He said, &communities before you were ruined because they had started quarreling in the matter of the Book of Allah.& (Reported by Muslim from ` Abdullah Ibn ` Amr Ibn Shu&aib - Mazhari) This جِدَال (jidal) declared as: کُفر (kufr) by the Qur&an, and Hadith, means throwing taunts, passing sarcastic remarks, engineering disputes over self-invented and absurd doubts, or to give such meaning of a verse of the Qur&an as is counter to other verses of the Qur&an and to the binding textual imperatives of Sunnah - something that amounts to alteration in the Qur&an. Otherwise, any honest inquiry about something ambiguous or vague, or trying to find a solution of a difficult word or expression, or to mutually investigate and discuss possibilities while deducing injunctions and rulings from the text of some verse are things not included under this jidal, in fact, it is an act of thawab (reward) in its own place (al-Qadi al-Baidawi, Qurtubi and Mazhari). In the last sentence of verse 4, it was said: فَلَا يَغْرُ‌رْ‌كَ تَقَلُّبُهُمْ فِي الْبِلَادِ their [ prosperous ] movements in the cities should not deceive you.). The kuffar (disbelievers) from the tribe of Quraish used to travel to Yemen during winter and to Syria in summer with their trading caravans. They were held in esteem all over Arabia because of their services to Baytullah at Makkah, therefore, they remained safe during their travels and profited from their commercial ventures. This was the backbone of their wealth and territorial power. That this state of affairs with them kept continuing despite the challenge from Islam and the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was a matter of pride for them - &Had we been the culprits in the sight of Allah, all these blessings would have been taken away from us!& This situation could have made even some Muslims easy victims of doubt. Therefore, in this verse, it was said that Allah Ta’ ala had granted them a temporary respite in His wisdom and under His expedient consideration. So, let Muslims not be deceived by this leash given to them. Once this period of respite is over, they are going to be visited by a punishment, and this territorial power of theirs is going to be taken away from them. This started from the Battle of Badr, and up to the Conquest of Makkah, the foreboding manifested itself fully and conclusively within a span of six years.

(آیت) مَا يُجَادِلُ فِيْٓ اٰيٰتِ اللّٰهِ اِلَّا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا۔ اس آیت نے جدال فی القرآن کو کفر قرار دیا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان جدالاً فی القرآن کفر یعنی بعض جدال قرآن میں کفر ہوتے ہیں (رواہ البغوی والبیہقی فی الشعب عن ابی ہریرة ورواہ ابو داؤد والحاکم وصححہ، مظہری) اور حدیث میں ہے کہ ایک روز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو شخصوں کی آواز سنی جو کسی آیت قرآن کے متعلق جھگڑ رہے تھے، آپ غضبناک ہو کر باہر تشریف لائے کہ آپ کے چہرہ مبارک سے غصہ کے آثار محسوس ہو رہے تھے اور فرمایا کہ تم سے پہلی امتیں اسی سے ہلاک ہوئیں کہ وہ اللہ کی کتاب میں جدال کرنے لگی تھیں (رواہ مسلم عن عبداللہ بن عمرو بن شعیب۔ مظہری) یہ جدال جس کو قرآن و حدیث نے کفر قرار دیا اس سے مراد قرآنی آیات پر طعن کرنا اور فضول قسم کے شبہات نکال کر اس میں جھگڑا ڈالنا ہے یا کسی آیت قرآن کے ایسے معنی بیان کرنا جو دوسری آیات قرآن اور نصوص سنت کے خلاف ہوں جو تحریف قرآن کے درجہ میں ہے ورنہ کسی مبہم یا مجمل کلام کی تحقیق یا مشکل کلام کا حل تلاش کرنا یا کسی آیت سے احکام و مسائل کے استنباط میں باہم بحث و تحقیق کرنا اس میں داخل نہیں بلکہ وہ تو بڑا ثواب ہے۔ (قاضی بیضاوی۔ قرطبی، مظہری) (آیت) فَلَا يَغْرُرْكَ تَــقَلُّبُهُمْ فِي الْبِلَادِ ۔ کفار قریش سردی میں یمن کا اور گرمی میں ملک شام کا تجارتی سفر کرتے تھے اور حرم بیت اللہ کی خدمت کی وجہ سے ان کا سارے عرب میں احترام تھا۔ اس لئے اپنے سفروں میں محفوظ رہتے اور تجارتی منافع حاصل کرتے تھے۔ اسی سے ان کی مالداری اور ریاست قائم تھی۔ اسلام اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کے باوجود ان کی یہ صورت قائم رہنا ان کے لئے فخر و غرور کا سبب تھا کہ اگر ہم اللہ کے نزدیک مجرم ہوتے تو یہ نعمتیں سلب ہوجاتیں۔ اس سے کچھ مسلمانوں کو بھی شبہات پیدا ہونے کا امکان تھا، اس لئے اس آیت میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت و مصلحت سے ان کو یہ چند روزہ مہلت دے رکھی ہے، اس سے آپ یا مسلمان کسی دھوکہ میں نہ پڑیں۔ چند روزہ مہلت کے بعد ان پر عذاب آنے والا ہے اور یہ ریاست فنا ہونے والی ہے جس کی ابتداء غزوہ بدر سے ہوئی اور فتح مکہ تک چھ سال کے اندر اس کا پوری طرح ظہور ہوگیا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مَا يُجَادِلُ فِيْٓ اٰيٰتِ اللہِ اِلَّا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَلَا يَغْرُرْكَ تَــقَلُّبُہُمْ فِي الْبِلَادِ۝ ٤ جدل الجِدَال : المفاوضة علی سبیل المنازعة والمغالبة، وأصله من : جَدَلْتُ الحبل، أي : أحكمت فتله ۔ قال اللہ تعالی: وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل/ 125] ( ج د ل ) الجدال ( مفاعلۃ ) کے معنی ایسی گفتگو کرنا ہیں جسمیں طرفین ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کریں اصل میں یہ جدلت الحبل سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی ہیں رسی کو مضبوط بٹنا اسی سے بٹی ہوئی رسی کو الجدیل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل/ 125] اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ غرر يقال : غَررْتُ فلانا : أصبت غِرَّتَهُ ونلت منه ما أريده، والغِرَّةُ : غفلة في الیقظة، والْغِرَارُ : غفلة مع غفوة، وأصل ذلک من الْغُرِّ ، وهو الأثر الظاهر من الشیء، ومنه : غُرَّةُ الفرس . وغِرَارُ السّيف أي : حدّه، وغَرُّ الثّوب : أثر کسره، وقیل : اطوه علی غَرِّهِ «5» ، وغَرَّهُ كذا غُرُوراً كأنما طواه علی غَرِّهِ. قال تعالی: ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ [ الانفطار/ 6] ، لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلادِ [ آل عمران/ 196] ، وقال : وَما يَعِدُهُمُ الشَّيْطانُ إِلَّا غُرُوراً [ النساء/ 120] ، وقال : بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً إِلَّا غُرُوراً [ فاطر/ 40] ، وقال : يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام/ 112] ، وقال : وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا مَتاعُ الْغُرُورِ [ آل عمران/ 185] ، وَغَرَّتْهُمُ الْحَياةُ الدُّنْيا [ الأنعام/ 70] ، ما وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُوراً [ الأحزاب/ 12] ، وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ [ لقمان/ 33] ، فَالْغَرُورُ : كلّ ما يَغُرُّ الإنسان من مال وجاه وشهوة وشیطان، وقد فسّر بالشیطان إذ هو أخبث الْغَارِّينَ ، وبالدّنيا لما قيل : الدّنيا تَغُرُّ وتضرّ وتمرّ «1» ، والْغَرَرُ : الخطر، وهو من الْغَرِّ ، «ونهي عن بيع الْغَرَرِ» «2» . والْغَرِيرُ : الخلق الحسن اعتبارا بأنّه يَغُرُّ ، وقیل : فلان أدبر غَرِيرُهُ وأقبل هريرة «3» ، فباعتبار غُرَّةِ الفرس وشهرته بها قيل : فلان أَغَرُّ إذا کان مشهورا کريما، وقیل : الْغُرَرُ لثلاث ليال من أوّل الشّهر لکون ذلک منه كالْغُرَّةِ من الفرس، وغِرَارُ السّيفِ : حدّه، والْغِرَارُ : لَبَنٌ قلیل، وغَارَتِ النّاقةُ : قلّ لبنها بعد أن ظنّ أن لا يقلّ ، فكأنّها غَرَّتْ صاحبها . ( غ ر ر ) غررت ( ن ) فلانا ( فریب دینا ) کسی کو غافل پاکر اس سے اپنا مقصد حاصل کرنا غرۃ بیداری کی حالت میں غفلت غرار اونکھ کے ساتھ غفلت اصل میں یہ غر سے ہے جس کے معنی کسی شے پر ظاہری نشان کے ہیں ۔ اسی سے غرۃ الفرس ( کگوڑے کی پیشانی کی سفیدی ہے اور غر ار السیف کے معنی تلوار کی دھار کے ہیں غر الثواب کپڑے کی تہ اسی سے محاورہ ہے : ۔ اطوہ علی غرہ کپڑے کو اس کی تہ پر لپیٹ دو یعنی اس معاملہ کو جوں توں رہنے دو غرہ کذا غرورا سے فریب دیا گویا اسے اس کی نہ پر لپیٹ دیا ۔ قرآن میں ہے ؛ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ [ الانفطار/ 6] ای انسان تجھ کو اپنے پروردگار کرم گستر کے باب میں کس چیز نے دہو کا دیا ۔ لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلادِ [ آل عمران/ 196]( اے پیغمبر ) کافروں کا شہروں میں چلنا پھر تمہیں دھوکا نہ دے ۔ وَما يَعِدُهُمُ الشَّيْطانُ إِلَّا غُرُوراً [ النساء/ 120] اور شیطان جو وعدہ ان سے کرتا ہے سب دھوکا ہے ۔ بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً إِلَّا غُرُوراً [ فاطر/ 40] بلکہ ظالم جو ایک دوسرے کو وعدہ دیتے ہیں محض فریب ہے ۔ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام/ 112] وہ دھوکا دینے کے لئے ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی باتیں ڈالنتے رہتے ہیں ۔ وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا مَتاعُ الْغُرُورِ [ آل عمران/ 185] اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے ۔ وَغَرَّتْهُمُ الْحَياةُ الدُّنْيا[ الأنعام/ 70] اور دنیا کی نے ان کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے ۔ ما وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُوراً [ الأحزاب/ 12] کہ خدا اور اس کے رسول نے ہم سے دھوکے کا وعدہ کیا تھا ۔ وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ [ لقمان/ 33] اور نہ فریب دینے والا شیطان ) تمہیں خدا کے بارے میں کسی طرح کا فریب دے ۔ پس غرور سے مال وجاہ خواہش نفسانی ، شیطان اور ہر وہ چیز مراد ہے جو انسان کو فریب میں مبتلا کرے بعض نے غرور سے مراد صرف شیطان لیا ہے کیونکہ چو چیزیں انسان کو فریب میں مبتلا کرتی ہیں شیطان ان سب سے زیادہ خبیث اور بعض نے اس کی تفسیر دنیا کی ہے کیونکہ دنیا بھی انسان سے فریب کھیلتی ہے دھوکا دیتی ہے نقصان پہنچاتی ہے اور گزر جاتی ہے ۔ الغرور دھوکا ۔ یہ غر سے ہے اور ( حدیث میں ) بیع الغرر سے منع کیا گیا ہے (57) الغریر اچھا خلق ۔ کیونکہ وہ بھی دھوکے میں ڈال دیتا ہے ۔ چناچہ ( بوڑھے شخص کے متعلق محاورہ ہے ۔ فلان ادبر غریرہ واقبل ہریرہ ( اس سے حسن خلق جاتارہا اور چڑ چڑاپن آگیا ۔ اور غرہ الفرس سے تشبیہ کے طور پر مشہور معروف آدمی کو اغر کہاجاتا ہے اور مہینے کی ابتدائی تین راتوں کو غرر کہتے ہیں کیونکہ مہینہ میں ان کی حیثیت غرۃ الفرس کی وہوتی ہے غرار السیف تلوار کی دھار اور غرار کے معنی تھوڑا سا دودھ کے بھی آتے ہیں اور غارت الناقۃ کے معنی ہیں اونٹنی کا دودھ کم ہوگیا حالانکہ اس کے متعلق یہ گہان نہ تھا کہ اسکا دودھ کم ہوجائیگا گویا کہ اس اونٹنی نے مالک کو دھوکا دیا ۔ تَقْلِيبُ الشیء : تغييره من حال إلى حال نحو : يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ [ الأحزاب/ 66] وتَقْلِيبُ الأمور : تدبیرها والنّظر فيها، قال : وَقَلَّبُوا لَكَ الْأُمُورَ [ التوبة/ 48] . وتَقْلِيبُ اللہ القلوب والبصائر : صرفها من رأي إلى رأي، قال : وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصارَهُمْ [ الأنعام/ 110] ، وتَقْلِيبُ الید : عبارة عن النّدم ذکرا لحال ما يوجد عليه النادم . قال : فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ [ الكهف/ 42] أي : يصفّق ندامة . قال الشاعر کمغبون يعضّ علی يديه ... تبيّن غبنه بعد البیاع والتَّقَلُّبُ : التّصرّف، قال تعالی: وَتَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِينَ [ الشعراء/ 219] ، وقال : أَوْ يَأْخُذَهُمْ فِي تَقَلُّبِهِمْ فَما هُمْ بِمُعْجِزِينَ [ النحل/ 46] . ورجل قُلَّبٌ حُوَّلٌ: كثير التّقلّب والحیلة «2» ، والْقُلَابُ : داء يصيب القلب، وما به قَلَبَةٌ «3» : علّة يُقَلِّبُ لأجلها، والْقَلِيبُ. البئر التي لم تطو، والقُلْبُ : الْمَقْلُوبُ من الأسورة . تقلیب الشئی کے معنی کسی چیز کسی چیز کو متغیر کردینے کے ہیں جیسے فرمایا : يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ [ الأحزاب/ 66] جس دن ان کے منہ آگ میں الٹائیں جائیں گے۔ اور تقلیب الامور کے معنی کسی کام کی تدبیر اور اس میں غوروفکر کرنے کے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : وَقَلَّبُوا لَكَ الْأُمُورَ [ التوبة/ 48] اور بہت سی باتوں میں تمہارے لئے الٹ پھیر کرتے رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے دلوں اور بصیرتوں کی پھیر دینے سے ان کے آراء کو تبدیل کردینا مراد ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصارَهُمْ [ الأنعام/ 110] اور ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو الٹ دیں گے ۔ اور تقلیب الید پشیمانی سے کنایہ ہوتا ہے ۔ کیونکہ عام طور پر نادم آدمی کا یہی حال ہوتا ہے ( کہ وہ اظہار ندامت کے لئے اپنے ہاتھ ملنے لگ جاتا ہے ) قرآن پاک میں ہے : فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ [ الكهف/ 42] تو ۔۔۔۔۔ و حسرت سے ) ہاتھ ملنے لگا ۔ شاعر نے کہا ہے ( 358) کمغبون یعض علی یدیہ تبین غبتہ بعدالبیاع جیسے خسارہ اٹھانے والا آدمی تجارت میں خسارہ معلوم کرلینے کے بعد اپنے ہاتھ کاٹنے لگتا ہے ۔ اور تقلب ( تفعل ) کے معنی پھرنے کے ہیں ۔ ارشاد ہے : وَتَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِينَ [ الشعراء/ 219] اور نمازیوں میں تمہارے پھرنے کو بھی ۔ أَوْ يَأْخُذَهُمْ فِي تَقَلُّبِهِمْ فَما هُمْ بِمُعْجِزِينَ [ النحل/ 46] یان کو چلتے پھرتے پکڑلے وہ ( خدا کو ) عاجز نہیں کرسکتے۔ رجل قلب بہت زیادہ حیلہ گر اور ہوشیار آدمی جو معاملات میں الٹ پھیر کرنے کا ماہر ہو ۔ القلاب دل کی ایک بیماری ( جو اونٹ کو لگ جاتی ہے) مابہ قلبہ : یعنی وہ تندرست ہے اسے کسی قسم کا عارضہ نہیں ہے جو پریشانی کا موجب ہو القلیب۔ پراناکنواں جو صاف نہ کیا گیا ہو ۔ القلب ایک خاص قسم کا کنگن ۔ بلد البَلَد : المکان المحیط المحدود المتأثر باجتماع قطّانه وإقامتهم فيه، وجمعه : بِلَاد وبُلْدَان، قال عزّ وجلّ : لا أُقْسِمُ بِهذَا الْبَلَدِ [ البلد/ 1] ، قيل : يعني به مكة «1» . قال تعالی: بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ [ سبأ/ 15] ، فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف/ 11] ، وقال عزّ وجلّ : فَسُقْناهُ إِلى بَلَدٍ مَيِّتٍ [ الأعراف/ 57] ، رَبِّ اجْعَلْ هذا بَلَداً آمِناً [ البقرة/ 126] ، يعني : مكة و تخصیص ذلک في أحد الموضعین وتنکيره في الموضع الآخر له موضع غير هذا الکتاب «2» . وسمیت المفازة بلدا لکونها موطن الوحشیات، والمقبرة بلدا لکونها موطنا للأموات، والبَلْدَة منزل من منازل القمر، والبُلْدَة : البلجة ما بين الحاجبین تشبيها بالبلد لتمدّدها، وسمیت الکركرة بلدة لذلک، وربما استعیر ذلک لصدر الإنسان «1» ، ولاعتبار الأثر قيل : بجلده بَلَدٌ ، أي : أثر، وجمعه : أَبْلَاد، قال الشاعر : وفي النّحور کلوم ذات أبلاد وأَبْلَدَ الرجل : صار ذا بلد، نحو : أنجد وأتهم «3» . وبَلِدَ : لزم البلد . ولمّا کان اللازم لموطنه كثيرا ما يتحيّر إذا حصل في غير موطنه قيل للمتحيّر : بَلُدَ في أمره وأَبْلَدَ وتَبَلَّدَ ، قال الشاعر : لا بدّ للمحزون أن يتبلّدا ولکثرة وجود البلادة فيمن کان جلف البدن قيل : رجل أبلد، عبارة عن عظیم الخلق، وقوله تعالی: وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَباتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَالَّذِي خَبُثَ لا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِداً [ الأعراف/ 58] ، کنایتان عن النفوس الطاهرة والنجسة فيما قيل «5» . ( ب ل د ) البلد شہر ) وہ مقام جس کی حد بندی کی گئی ہو اور وہاں لوگ آباد ۔ اس کی جمع بلاد اور بلدان آتی ہے اور آیت : ۔ لا أُقْسِمُ بِهذَا الْبَلَدِ [ البلد/ 1] سے مکہ مکرمہ مراد ہے دوسری جگہ فرمایا رَبِّ اجْعَلْ هذا بَلَداً آمِناً [ البقرة/ 126] کہ میرے پروردگار اس شہر کو ( لوگوں کے لئے ) امن کی جگہ بنادے ۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ [ سبأ/ 15] پاکیزہ شہر ہے ۔ فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف/ 11] پھر ہم نے اس سے شہر مردہ کو زندہ کردیا ۔ فَسُقْناهُ إِلى بَلَدٍ مَيِّتٍ [ الأعراف/ 57] پھر ہم ان کو ایک بےجان شہر کی طرف چلاتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رَبِّ اجْعَلْ هذا بَلَداً آمِناً [ البقرة/ 126] پروردگار اس جگہ کو امن کا شہر بنا میں بھی مکہ مکرمہ مراد ہے لیکن ایک مقام پر اسے معرفہ اور دوسرے مقام پر نکرہ لانے میں جو لطافت اور نکتہ ملحوظ ہے اسے ہم دوسری کتاب میں بیان کرینگے اور بلد کے معنی بیابان اور قبرستان بھی آتے ہیں کیونکہ پہلاوحشی جانوروں دوسرا مردوں کا مسکن ہوتا ہی ۔ البلدۃ منازل قمر سے ایک منزل کا نام ہے اور تشبیہ کے طور پر ابرو کے درمیان کی جگہ اور اونٹ کے کے سینہ کو بھی بلدۃ کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ یہ بھی شہر کی طرح محدود ہوتے ہیں اور بطور استعارہ انسان کے سینہ پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے اور اثر یعنی نشان کے معنی کے اعتبار سے بجلدہ بلد کا محاورہ استعمال ہوتا ہے یعنی اس کی کھال پر نشان ہے اس کی جمع ابلاد آتی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے اور ان کے سینوں پر زخموں کے نشانات ہیں ۔ ابلد الرجل شہر میں چلاجانا جیسا کہ انجد اتھم کے معنی نجد اور تہمامہ میں چلے جانے کے ہیں ۔ بلد الرجل کے معنی شہر میں مقیم ہونے کے ہیں اور کسی مقام پر ہمیشہ رہنے والا اکثر اوقات دوسری جگہ میں جاکر متحیر ہوجاتا ہے اس لئے متجیر آدمی کے متعلق وغیرہ ہا کے محاورات استعمال ہوتے ہیں شاعر نے کہا ہے ( ع ) کہ اند وہ گیں لازما متحیر رہے گا ) ۔ اجد لوگ دام طور پر بلید یعنی کند ذہن ہوتے ہیں اس لئے ہر لئے جیم آدمی کو ابلد کہا جاتا ہے اور آیت کریمہ : وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَباتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَالَّذِي خَبُثَ لا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِداً [ الأعراف/ 58]( جو زمین پاکیزہ دے ) اس میں سے سبزہ بھی پروردگار کے حکم سے ( نفیس ہی ) نکلتا ہے اور جو خراب ہے ۔ اس میں سے جو کچھ نکلتا ہے ناقص ہوتا ہے ) میں بلد کے طیب اور خبیث ہونے سے کنایہ نفوس کا طیب اور خبیث ہونا مراد ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

مگر اس کے باوجود مکہ والوں میں رسول اکرم اور قرآن کریم کی تکذیب کافر ہی کرتے ہیں تو اے نبی کریم ان لوگوں کا تجارت کے لیے سفر کرنا اور آنا جانا آپ کو شک میں نہ ڈالے کیونکہ یہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ شان نزول : مَا يُجَادِلُ فِيْٓ اٰيٰتِ اللّٰهِ (الخ) ابن ابی حاتم نے بواسطہ سدی ابو مالک سے اس آیت مبارکہ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ یہ آیت حارث بن قیس سہمی کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤ { مَا یُجَادِلُ فِیْٓ اٰیٰتِ اللّٰہِ اِلَّا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَلَا یَغْرُرْکَ تَقَلُّبُہُمْ فِی الْْبِلَادِ } ” نہیں جھگڑتے اللہ کی آیات میں مگر وہی لوگ جو کفر کرتے ہیں ‘ تو (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) زمین میں ان کی چلت پھرت آپ کو دھوکے میں نہ ڈالے۔ “ یہاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے سب مسلمانوں کو سمجھانا مقصود ہے کہ اے مسلمانو ! ان غیر مسلموں کے مادی وسائل ‘ ان کی طاقت ‘ ترقی اور ٹیکنالوجی تمہیں مرعوب نہ کرے۔ دیکھو ! کسی دنیوی ” سپر پاور “ کے دھوکے میں آکر کہیں تم اللہ کی قدرت اور طاقت کو بھول نہ جانا !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

2 "To dispute" means using crooked arguments in reasoning, raising irrelevant objections, isolating a word or a sentence from its context, subjecting it to hair-splitting and making it the basis of doubts and accusations, misconstruing words from their true sense and intention so that neither should one understand the meaning oneself nor Iet others understand it. Such a way of dispute is adopted only by those whose difference of opinion is based on iII-will and malice. If a well-intentioned opponent disputes a point, he does so for the sake of arriving at the truth, and wants to be satisfied through discussion whether his own point of view is correct. Such a discussion is engaged in quest of truth and not for refutation. Contrary to this, the real purpose of the malicious opponent is not to understand anything nor to help others to understand, but to degrade and humiliate the other man; he joins a discussion only with the intention that he would not Iet the other man carry his point. That is why he never faces the real problems but launches his attacks only on the irrelevant issues. 3 Here, the word kufr" has been used in two meanings: for ingratitude and for denial of the truth. According to the first meaning, the sentence would mean: As against the Revelations of Allah this sort of behaviour is adopted only by those who have forgotten His bounties and who have even lost the feeling that it is by His bounty that they are flourishing. According to the second, it would mean: "This sort of behaviour is adopted only by those who have turned away from the truth and are determined not to accept it. " From the context it becomes obvious that here the disbeliever does not imply every non-Muslim, for a non-Muslim who disputes a point in good faith for the sake of understanding Islam, and who tries to grasp thoroughly those things which he fends hard to follow, although a nonMuslim technically, yet that which has been condemned in this verse does not apply to him. 4 There is a gap between the previous sentence and this, which has been left for the listener to fill. From the context and style it becomes evident that those who adopt the attitude of disputation as against the Revelations of Allah Almighty, can never escape the punishment. Therefore, they shall inevitably meet their doom. Now, if one sees that those people, even after adopting such an attitude, arc strutting about, their business is flourishing, their governments functioning in a grand style. and they are enjoying the good things of life, one should not be misled into thinking that they have escaped Allah's punishment, or that war against Allah's Revelations is a sport which can be adopted as a pastime and its evil consequences warded off easily. This, in fact, is a respite which they have been granted by Allah. Those who abuse this respite for doing more mischief arc indeed preparing for an ignominious end.

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :2 جھگڑا کرنے سے مراد ہے کج بحثیاں کرنا ۔ مین میخ نکالنا ۔ الٹے سیدھے اعتراضات جڑنا ۔ سیاق و سباق سے الگ کر کے کوئی ایک لفظ یا فقرہ لے اڑانا اور اس سے طرح طرح کے نکتے پیدا کر کے شبہات و الزامات کی عمارتیں کھڑی کرنا ۔ کلام کے اصل مدعا کو نظر انداز کر کے اس کو غلط معنی پہنانا تاکہ آدمی نہ خود بات کو سمجھے نہ دوسروں کو سمجھنے دے ۔ یہ طرز اختلاف لازماً صرف وہی لوگ اختیار کرتے ہیں جن کا اختلاف بد نیتی پر مبنی ہوتا ہے ۔ نیک نیت مخالف اگر بحث کرتا بھی ہے تو تحقیق کی غرض سے کرتا ہے اور اصل مسائل زیر بحث پر گفتگو کر کے یہ اطمینان کرنا چاہتا ہے کہ ان مسائل میں اس کا اپنا نقطہ نظر درست ہے یا فریق مخالف کا ۔ اس قسم کی بحث حق معلوم کرنے کے لیے ہوتی ہے نہ کہ کسی کو نیچا دکھانے کے لیے ۔ بخلاف اس کے بد نیت مخالف کا اصل مقصد سمجھنا اور سمجھانا نہیں ہوتا بلکہ وہ فریق ثانی کو زک دینا اور زچ کرنا چاہتا ہے اور بحث کے میدان میں اس لیے اترنا ہے کہ دوسرے کی بات کسی طرح چلنے نہیں دینی ہے ۔ اسی وجہ سے وہ کبھی اصل مسائل کا سامنا نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ اطراف ہی میں چھاپے مارتا رہتا ہے ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :3 کفر کا لفظ یہاں دو معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔ ایک کفران نعمت ۔ دوسرے انکار حق ۔ پہلے معنی کے لحاظ سے اس فقرے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی آیات کے مقابلہ میں یہ طرز عمل صرف وہ لوگ اختیار کرتے ہیں جو اس کے احسانات کو بھول گئے ہیں اور جنہیں یہ احساس نہیں رہا ہے کہ اسی کی نعمتیں ہیں جن کے بل پر وہ پل رہے ہیں ۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ یہ طرز عمل صرف وہی لوگ اختیار کرتے ہیں جنہوں نے حق سے منہ موڑ لیا ہے اور اسے نہ ماننے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ سیاق و سباق کو نگاہ میں رکھنے سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ یہاں کفر کرنے والے سے مراد ہر وہ شخص نہیں ہے جو مسلمان نہ ہو ۔ اس لیے کہ جو غیر مسلم اسلام کو سمجھنے کی غرض سے نیک نیتی کے ساتھ بحث کرے اور تحقیق کی غرض سے وہ باتیں سمجھنے کی کوشش کرے جن کے سمجھنے میں اسے زحمت پیش آرہی ہو ، اگرچہ اسلام قبول کرنے سے پہلے تک اصطلاحاً ہوتا وہ بھی کافر ہی ہے ، لیکن ظاہر ہے کہ اس پر وہ بات راست نہیں آتی جس کی اس آیت میں مذمت کی گئی ہے ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :4 پہلے فقرے اور دوسرے فقرے کے درمیان ایک خلا ہے جسے ذہن سامع پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔ فحوائے کلام سے یہ بات خود بخود مترشح ہوتی ہے کہ اللہ عزّوجلّ کی آیات کے مقابلے میں جو لوگ جھگڑالو پن کا طرز عمل اختیار کرتے ہیں ، وہ سزا سے کبھی بچ نہیں سکتے ۔ لامحالہ ایک نہ ایک روز ان کی شامت آنی ہے ۔ اب اگر تم دیکھ رہے ہو کہ وہ لوگ یہ سب کچھ کر کے بھی خدا کی زمین میں اطمینان سے دندناتے پھر رہے ہیں ، اور ان کے کاروبار خوب چمک رہے ہیں ، اور ان کی حکومتیں بڑی شان سے چل رہی ہیں ، اور وہ خوب داد عیش دے رہے ہیں ، تو اس دھوکے میں نہ پڑ جاؤ کہ وہ خدا کی پکڑ سے بچ نکلے ہیں ، یا خدا کی آیات سے جنگ کوئی کھیل ہے جسے تفریح کے طور پر کھیلا جا سکتا ہے اور اس کا کوئی برا نتیجہ اس کھیل کے کھلاڑیوں کو کبھی نہ دیکھنا پڑے گا ۔ یہ تو دراصل ایک مہلت ہے جو خدا کی طرف سے ان کو مل رہی ہے ۔ اس مہلت سے غلط فائدہ اٹھا کر جو لوگ جس قدر زیادہ شرارتیں کرتے ہیں ان کی کشتی اسی قدر زیادہ بھر کر ڈوبتی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

1: یعنی کافر لوگ اپنے کفر کے باوجود جس طرح خوش حال نظر آتے ہیں، اس سے کسی کو یہ دھوکا نہ ہو کہ انہیں اپنے کیے کی سزا نہیں ملے گی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤۔ ٩۔ تفسیر سدی اور تفسیر ابن ابی ٣ ؎ حاتم میں ابی مالک سے روایت ہے کہ حارث بن قیس سہیمی وغیرہ مشرک لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آکر جھگڑا کیا کرتے تھے اور قرآن شریف کے باب میں طرح طرح کی بےادبی کے لفظ منہ سے نکالا کرتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور فرمایا کہ یہ لوگ اللہ کے رسول اور اللہ کے کلام سے مخالفت کر کے ابھی تک جو کسی وبال اور عذاب الٰہی میں نہیں پکڑے گئے اور چین سے شہر بشہر تندرستی اور آرام سے گزر کر رہے ہیں اے نبی اللہ کے ان لوگوں کے اس حال پر کچھ تعجب نہیں کرنا چاہئے کیونکہ ان لوگوں کی اس طرح کی باتوں سے ان کا کفر تو اللہ کے نزدیک ثابت ہوچکا ہے مگر اللہ کی درگاہ میں ہر کام کا وقت مقرر ہے وقت آتے ہی حضرت نوح کے زمانہ سے لے کر اب تک جو اللہ کے رسولوں کے مخالف لوگوں کا انجام ہوا وہی ان لوگوں کا انجام ہوگا اللہ کے کلام میں ایک تو جھگڑا ان کافر لوگوں کا یہ تھا کہ اللہ کے کلام کو کلام الٰہی نہیں مانتے تھے یہ صریح کفر ہے لیکن کلام الٰہی اللہ کا کلام مان کر اس طرح جھگڑا اور فساد ان میں نکالنا جس سے کوئی فتنہ پیدا ہو یا کوئی بدعت رواج پکڑے یہ بھی عذاب الٰہی آجانے کی بات ہے صحیح مسلم ١ ؎ میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے جس کا یہ حاصل ہے کہ ایک روز دو صحابیوں کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کی ایک آیت کے مطلب میں اختلاف کرتے اور جھگڑتے دیکھا یہ حال دیکھ کر نہایت غصہ سے آپ نے فرمایا کہ پچھلی امتیں اس طرح کے اختلاف اور جھگڑے سے غارت ہوگئیں۔ امام نووی نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ کسی حق بات کے معلوم کرنے کی نیت سے یا صحیح مسئلہ کے دریافت ہوجانے کی غرض سے اختلاف ہو تو شریعت میں اس کی اجازت ہے اور اگر لوگوں کو شک و شبہ اور فتنہ میں ڈالنے کے طور پر یا بدعت کے رواج دینے کے طور پر اختلاف ہو تو حرام ہے اور اسی طرح کے اختلاف نے اہل کتاب کو ہلاک کیا سورة الشعراء میں گزر چکا ہے کہ نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم نے پتھروں سے کچل ڈالنے کا ارادہ کیا تھا سورة انفال میں گزر چکا ہے کہ قریش نے خاتم الانبیا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قید کرنے یا شہید کر ڈالنے کا قصد کیا تھا۔ مخالف لوگوں کی ان ہی باتوں کو و ھمت کل امۃ برسولھم لیا خدوہ فرمایا مطلب یہ ہے کہ ہر امت کے مخالف لوگ رسولوں کو ایذا کے ہمیشہ درپے رہے اور چاہتے رہے کہ رسولوں کو پکڑ کر جس طرح کی ایذائیں پہنچائی جائیں اس میں کوتاہی نہ کی جائے اب آگے اللہ نے ان لوگوں کا ذکر فرمایا ہے جو اللہ کے رسول کے حکم میں خلاف شریعت کوئی جھگڑا اور اختلاف نہیں کرتے اور اللہ کی مرضی کے موافق اللہ کے حکم پر ایمان لاتے ہیں ان لوگوں کا یہ رتبہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عرش اٹھانے والے اور عرش کے پاس حاضر رہنے والے مقرب فرشتے ایسے لوگوں کے حق میں رات دن مغفرت کی دعا اللہ تعالیٰ سے کرتے ہیں۔ صحیح ٢ ؎ مسلم حضرت ابو درد (رض) اسے اور ترمذی اور ابودائود میں حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایتیں ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ انسان دوسرے انسان کے حق میں پیٹھ پیچھے دعا کرے تو اس دعا کو اللہ قبول فرماتا ہے اب یہ ظاہر بات ہے کہ فرشتوں کی پیٹھ پیچھے کی یہ دعا جس کا ذکر اس آیت میں ہے اور فرشتے جو عرش معلیٰ کے پاس رہنے والے مقرب فرشتے ہیں ان کی دعا کس قدر مقبول ہونے کا درجہ رکھتی ہے حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کے کلام میں طرح طرح کی حجتیں نکالتے ہیں اللہ کی وحدانیت کو نہیں مانتے اور اللہ کے رسول کی ایذا کے درپے ہیں وہ چند روز دنیا کی خوشحالی کو برت لیں بعد اس کے قوم نوح عاد ثمود قوم لوط اور رسولوں کے مخالف لوگوں کا جو انجام ہوا وہی ان کا ہوگا کیونکہ اللہ کا وعدہ ہے کہ شیطان اور اس کی پیروی کرنے والوں کو قیامت کے دن دوزخ میں جھونکا جائے گا۔ پھر فرشتوں کی دعا ذکر فرمایا جس کا حاصل یہ ہے کہ یا اللہ دنیا میں جو لوگ ہماری طرح تیری توحید پر قائم ہیں ان کے گناہ معاف فرما کر انہیں دوزخ کے عذاب سے بچا کیونکہ تیری رحمت بہت بڑی ہے کہ اپنی رحمت سے تو جس کو چاہے دوزخ کے عذاب سے بچا سکتا ہے اور تیرا علم ایسا وسیع ہے کہ نیکوں اور بدون کا دلی ارادہ تک تجھ سے پوشیدہ نہیں ہے اس لئے جن نیک لوگوں کے رشتہ داروں کے دل میں تیری وحدانیت تو ہو مگر نیک عملوں کے حساب سے ان کو جنت کا اعلیٰ درجہ نہ مل سکتا ہو تو ان سب کو جنت کا اعلیٰ درجہ عنایت فرما تاکہ سب رشتہ دار جنت کا اعلیٰ درجہ پا کر خوش ہوں کیونکہ تو بڑا زبردست ہے جو چاہے وہ کرسکتا ہے اور تیری حکمت ایسی بڑی ہے کہ تو نے اپنی حکمت اور تدبیر سے ایک کام کا سبب دوسرے کام کو ٹھہرا رکھا ہے مثلاً گناہ گاروں کی بخشش کا سبب تو نے شفاعت کو ٹھہرایا ہے اس واسطے کم نیک عمل رشتہ داروں کے حق میں ہماری شفاعت ہے کہ ان کو بھی جنت کا اعلیٰ درجہ اس طرح عنایت فرما کہ ان کے کچھ گناہ دوزخ کی سزا کے قابل ہوں تو اس سزا سے بالکل ان کو بچا دے کیونکہ قیامت کے دن سزا سے بالکل بچ کر جنت میں داخل ہوجانا تیری رحمت کے آگے تو کچھ بھی نہیں مگر گناہ گاروں کے حق میں یہ بہت بڑی کامیابی کی صورت ہے۔ طبرانی ١ ؎ میں حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ قیامت دن بعضے جنتی لوگ جنت میں داخل ہونے کے بعد اپنے ماں باپ اور بی بی بچوں کا حال فرشتوں سے پوچھیں گے وہ سب کہاں ہیں فرشتے کہیں گے ان کے اعمال اس قابل نہ تھے کہ اس درجہ کی جنت میں داخل ہوتے جہاں تم ہو یہ جنتی لوگ اللہ سے دعا کریں گے اور اللہ تعالیٰ ان سب کو ایک جگہ اعلیٰ درجہ کی جنت میں اکٹھا کر دے گا۔ طبرانی کی سند میں ایک راوی محمد بن عبد الرحمن بن غزوان ضعیف ہے لیکن یہ روایت مسند بزار میں بھی ہے اور مسند بزار کی سند میں یہ راوی نہیں ہے اس لئے ایک روایت سے دوسری کو تقویت ہوجاتی ہے صحیح بخاری ٢ ؎ و مسلم کے حوالہ سے عبد اللہ (رض) بن عمر کی حدیث ایک جگہ گزر کی ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بعضے گنا گاروں کو ان کے گناہ یاد لائے گا جب وہ لوگ اپنے گناہوں کا اقرار کریں گے تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ان کے وہ گناہ معاف فرما دے گا۔ جنت کا درجہ بڑھ جانے کی اور بغیر سزا کے جنت میں داخل ہوجانے کی فرشتوں کی جو دعا ان آیتوں میں ہے یہ حدیثیں اس کی تفسیر ہیں کیونکہ اس دعا کے مضمون کے موافق قیامت کے دن جو عمل ہوگا اس کا حال ان حدیثوں سے اچھی طرح معلوم ہوسکتا ہے۔ (٣ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ٣٤٦ ج ٥۔ ) (١ ؎ صحیح مسلم کتاب العلم ص ٣٣٩ ج ٢۔ ) (٢ ؎ صحیح مسلم باب فضل الدعاء للمسلمین بظھر الخیب ص ٣٥١ ج ٢۔ ) (١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٧٢ ج ٤۔ ) (٢ ؎ مسلم شریف باب سحۃ رحمۃ اللہ تعالیٰ الخ ص ٣٦٠ ج ٢)

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(40:4) مایحادل۔ مضارع منفی واحد مذکر غائب ۔ وہ جھگڑا کرتا ہے۔ جادل یجادل مجادلۃ (مفاعلۃ) سے۔ یہاں صیغہ واحد بمعنی صیغہ جمع آیا ہے یعنی نہیں جھگڑا کیا کرتے (اللہ کی آیات میں مگر کافر) ۔ فلا یغررک : لایغرر۔ فعل نہی واحد مذکر غائب غرور مصدر (باب نصر) ک ضمیر مفعول واحد مذکر حاضر۔ تجھے فریب نہ دے۔ تجھے دھوکہ میں نہ ڈالے۔ الفاء سببیہ ہے یعنی انکفار کا کردفر سے اپنے تجارتی قافلے لے کر کبھی شام کی طرف اور کبھی یمن کی طرف جانا اور ہر دفعہ دولت و ثروت کے ڈھیر سمیٹ کر واپس آنا تمہارے لئے اس دھوکے کس سبب نہ بن جائے۔ کہ شاید ان کے کفر کی ان کو سزا نہ ملے گی۔ یہ تنعم محض عارضی ہے اور عنقریب وہ عذاب و ہلاکت سے دو چار ہوں گے۔ الفاء فی قولہ فلا یغررک سببیۃ ای لایمکن تقلیہم فی بلاد اللّٰہ متنعمین بالاموال والارزاق سببا لاغتراک بہم فتظن بھم ظنا حسنا لان ذلک التنعم تنعم استدراج۔ وھو زائل عن قریب وہم صائرون الی الہلاک والعذاب الدائم۔ (اضواء البیان) تقلبھم مضاف مضاف الیہ، تقلب (تفعل) مصدر۔ پھرنا۔ پھر پھرجانا۔ آنا جانا۔ الٹنا پلٹنا۔ ہم ضمیر کا مرجع کافر قریش ہیں۔ فی البلاد : ای فی بلاد اللّٰہ۔ یہاں اشارہ ہے جنوب میں یمن سے اور شمال میں ملک شام سے جہاں قریش کے تجارتی قافلے اکثر آیا جاتا کرتے تھے اس کا تذکرہ سورة قریش میں آیا ہے رحلۃ الشتاء (للیمن) رحلۃ الصیف (للشام) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 اس مقام پر اللہ کی آیتوں میں جھگڑا کرنے سے مراد کج بحثیاں کر کے انہیں جھٹلانا اور رد کرنا ہے۔ یہ کام کافروں کا ہے مسلمان ایسا نہیں کرتے۔ ابو دائود میں جو حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ” قرآن میں جھگڑا کرنا کفر ہے “۔ اس کے بھی یہی معنی ہیں ورنہ قرآن کے ناسخ و منسوخ، راجح و مرجوح اور محکم و متشابہ کو پہچاننے کے لئے بحث کرنا ممدوح اور اہل علم کا مشغلہ چلا آیا ہے جس سے مقصود قرآن فہمی اور اس کے احکام کا علم حاصل کرنا ہے۔13 یعنی ان کی خوشحالی اور چلن دیکھ کر کوئی شخص اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو کہ یہ اللہ کے پسندیدہ لوگ ہیں۔ دراصل یہ ان کے لئے مہلت ہے اور اللہ کے ہاں مہلت و امہال تو ہے۔ اہمال ( سزا دیئے بغیر چھوڑ دینا) نہیں ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 4 تا 6 :۔ ما یجادل ( وہ جھگڑتا نہیں ہے) لا یغرر ( دھوکا نہیں دیتا) تقلب (الٹنا پلٹنا، آنا جانا) البلاد ( بلد) ( شہر ، ملک) ھمت (ارادہ کیا) ید حضوا (وہ پھیلاتے ہیں ، ڈگمگا دیتے ہیں) تشریح : آیت نمبر 4 تا 6 :۔ قریش مکہ بےتکی باتوں ، غیر متعلق جھگڑوں اور الٹے سیدھے اعتراضات کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں شک و شبہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے تا کہ ہر شخص یہ سمجھنے لگے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس سچے پیغام اور دعوت حق کی طرف بلا رہے ہیں اس میں ان کی ذاتی غرض اور سارے عرب پر برتری قائم کرنے کے جذبے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ چونکہ بنو قریش بیت اللہ کے رکھوالے اور محافظ کہلاتے تھے اس لئے اس بدامنی کے دور میں جہاں کسی کی جان اور اس کا مال محفوظ نہ تھا وہ ہر شہر میں اپنے کاروباری فائدوں کے لئے دندناتے پھرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے سورة قریش میں بھی اسی کی طرف اشارہ کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آج جو بنو قریش سردی اور گرمی میں اپنے تجارتی مفادات کے لئے سر گرم ہیں اور ان کو کوئی شخص یا قبیلہ نقصان نہیں پہنچاتا اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ ان کو بیت اللہ کا متولی اور نگراں سمجھتے ہیں ۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بنو قریش سردی میں یمن اور گرمی کے دنوں میں شام اور فلسطین میں اپنا مال تجارت لے جایا کرتے تھے۔ ہر طرف لوٹ مار ، قتل و غارت گری اور چوری و ڈکیتی کا عام رواج تھا لیکن بیت اللہ کی نسبت کی وجہ سے قریشیوں کو سارے عرب میں نہایت عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا اس لئے وہ دوسروں کے مقابلے میں نہایت امن و سکون سے اپنا کاروبار کرتے اور ہر ملک میں آنے جانے میں کوئی دشواری محسوس نہ کرتے تھے۔ حالانکہ یہ عزت و احترام اور امن و سکون بیت اللہ کی وجہ سے تھا لیکن ان میں ایسا احساس برتری پیدا ہوچکا تھا کہ وہ اپنے غرور وتکبر میں ہر ایک کو اپنے سے حقیر اور کم تر سمجھا کرتے تھے۔ ان کا یہ دعویٰ تھا کہ ہم بیت اللہ کے خدمت گزار ہیں اگر ہم مجرم یا گناہ گار ہوتے تو ہمیں یہ نعمتیں اور سہولتیں نصیب نہ ہوتیں ۔ ان کی چرب زبانی اتنی بڑھ چکی تھی کہ بعض کمزور ایمان کے لوگوں میں کچھ شبہات پیدا ہونے کا اندیشہ تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ کی آیات میں جھگڑے پیدا کرنے والے اور شہر شہر گھوم کر اپنے مفادات حاصل کرنے والوں کی بھاگ دوڑ سے اہل ایمان اس دھوکے میں نہ پڑجائیں کہ واقعی اللہ ان کفار و مشرکین سے خوش ہے بلکہ یہ حقیقت ہے کہ دنیاوی زندگی کی یہ چند روز بہار ہے جو موت کے ساتھ ساری حقیقت کھول کر رکھ دے گی ۔ فرمایا کہ اگر اللہ چاہتا تو ان کو اسی وقت سخت سے سخت سزا دے کر معاملہ ختم کردیتا لیکن یہ بات اس کی مصلحت کے خلاف ہے کیونکہ وہ ہر شخص کو اس کی قیامت شروع ہونے تک مہلت اور ڈھیل دیتا ہے ۔ اگر وہ اس فرصت سے فائدہ اٹھا کر توبہ کرلیتا ہے تو اس کی نجات ہے اور اگر وہ اسی روش پر قائم رہتا ہے تو اس کو دنیا اور آخرت میں سخت سزا دی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) اور قوم عاد و قوم ثمود کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے بعد بہت سے پیغمبر آئے جن کی تعلیمات کا لوگوں نے انکار کیا ۔ ان کو جھٹلایا اور آخرت کا انکار کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ نے ان کو پکڑ کر عبرت ناک سزا دی ۔ ان کے اونچے اونچے محل ، مال و دولت کے ڈھیر اور ان کے خدام ان کے کسی کام نہ آسکے ۔ وہ اپنی نافرمانیوں کے سمندر میں اس طرح ڈوب گئے کہ آج ان کی عالی شان بلڈنگوں کے کھنڈرات بھی مٹ چکے ہیں اور باقی ہیں وہ ہر شخص کے لئے نشان عبرت و نصیحت بن چکے ہیں اور اس طرح اللہ کا یہ فیصلہ ثابت ہو کر رہا کہ جو لوگ اللہ و رسول کی نافرمانی کرتے ہیں اور بد کاریوں کی انتہاؤں تک پہنچ جاتے ہیں ان کو آخر اپنے برے انجام سے اس دنیا میں بھی دو چار ہونا پڑتا ہے اور آخرت کی سزا کا تو اس دنیا میں تصور ہی نہیں کیا جاسکتا ۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ آپ کے اس خطاب سے دوسروں کو سنانا مقصود ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : عظیم ترین صفات رکھنے والے ایک الٰہ کو اس کی پوری مخلوق مانتی ہے لیکن صرف کافر نہیں مانتے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورة کی ابتداء میں اپنی سات صفات کا حوالہ دے کر یہ بات واضح فرمائی ہے کہ قرآن مجید کو اسی ذات نے نازل فرمایا ہے جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ لیکن قرآن مجید اور ” اللہ “ کو ایک الٰہ نہ ماننے والے اس کی آیات یعنی دلائل کے بارے میں بحث و تکرار کرتے ہیں۔ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کفار کا شہروں میں چلنا پھرنا اور ان کی ترقی سے آپ کو دھوکہ نہیں کھانا چاہیے۔ اگر یہ آپ کو جھٹلاتے ہیں تو ان سے پہلے نوح (علیہ السلام) کی قوم نے اور ان کے بعد کئی گروہوں نے اپنے پیغمبروں کی تکذیب کی ہے۔ جس طرح یہ لوگ آپ کے خلاف منصوبہ بندی کررہے ہیں اسی طرح ہر دور کے لوگوں نے اپنے رسول کے خلاف منصوبہ بنایا کہ اسے گرفتار کرلیا جائے یا شہید کر دیاجائے۔ وہ حق کے بارے میں جھگڑتے رہے تاکہ حق کو دبا دیا جائے لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں پکڑلیا دیکھ لیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر کس قدر سخت گرفت کی۔ جس طرح انہیں پکڑ لیا گیا تھا اسی طرح ہی آپ کے دور کے کفار کو پکڑ لیا جائے اور آخرت میں یقیناً یہ لوگ جہنم میں جھونکے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کے بارے میں کفار اور مشرکین کے جھگڑنے کی جو صورتیں ہوسکتی ہیں ان میں چند ایک درج ذیل ہیں۔ 1 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا کوئی شریک نہیں۔ مشرک اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ثابت کرتے ہیں۔ 2 اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ میں نے اپنی خدائی میں کسی کو کوئی اختیار نہیں دیا۔ مشرک بحث کرتا ہے کہ ” اللہ “ نے فوت شدگان کو کچھ نہ کچھ اختیار دے رکھے ہیں۔ 3 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میری کوئی اولاد نہیں۔ کافر لوگ ملائکہ کو اللہ کی بیٹیاں، یہودی حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اور عیسائی عیسیٰ ( علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا قرار دیتے ہیں۔ 4 اللہ کا فرمان ہے کہ میرا کوئی جز نہیں۔ مشرک نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نور من نور اللہ کہتے ہیں۔ 5 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمام کے تمام انبیاء (علیہ السلام) میرے بندے اور انسان تھے۔ کافر کہتے ہیں کہ بشر رسول نہیں ہوسکتا ہے بعض کلمہ گو کہتے ہیں کہ رسول بشر نہیں ہوتا۔ 6 اللہ فرماتا ہے کہ میں نے قرآن مجید نازل کیا ہے۔ کافر کہتے ہیں قرآن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود بنا لیا ہے۔ 7 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے سوا کوئی مشکل کشا اور حاجت روا نہیں۔ مشرک کہتا ہے اولیاء بھی مشکل کشائی اور حاجت روائی کرتے ہیں۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کفار اور مشرکین کے تہذیب و تمدن اور شان و شوکت سے دھوکہ نہ کھائیں۔ کیونکہ یہ زندگی عارضی اور قلیل ہے۔ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ فلاں لوگ نسل در نسل خوشحالی، اقتدار اور اختیار کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ تو شاید اللہ تعالیٰ ان پر راضی ہے ایسا ہرگز نہیں۔ ان لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا اصول یہ ہے کہ وہ انہیں مہلت پہ مہلت دئیے جاتا ہے۔ تاکہ انہیں گناہ کرنے میں کوئی حسرت باقی نہ رہے اس کا ارشاد ہے : ” کافر ہماری دی ہوئی مہلت کو اپنے حق میں بہتر نہ سمجھیں یہ مہلت تو ہم نے اس لیے دی ہے کہ وہ گناہوں میں اور بڑھ جائیں اور ان کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔ “ (آل عمران : ١٧٨) ” ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیے یہاں تک کہ جب وہ ان چیزوں کے ساتھ خوش ہوگئے جو انہیں دی گئی تھیں ہم نے انہیں اچانک پکڑ لیا تو پھر وہ اچانک ناامیدہوگے۔ جنہوں نے ظلم کیا تھا ان لوگوں کی جڑکاٹ دی گئی اور سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو سب جہانوں کا رب ہے۔ “ (الانعام : ٤٤، ٤٥) قوم نوح اور اس کے بعد جس قوم نے بھی اپنے رسول کو گوفتار کرنے یا قتل کرنے کی سازش اور حق کو دبانے کی کوشش کی اللہ تعالیٰ نے انہیں عبرت ناک عذاب سے دوچار کیا۔ دیکھنا چاہو تو ان قوموں کے کھنڈرات دیکھو۔ وہ زبان حال سے بتائیں گے کہ تیرے رب کا عذاب کس قدر شدید تھا۔ قیامت کے دن یہ لوگ جہنم میں پھینکیں جائیں گے۔ مسائل ١۔ مشرک اور کافر اللہ کی آیات کے ساتھ جھگڑا کرتے ہیں۔ ٢۔ بےدین لوگوں کی ترقی پر فریفتہ نہیں ہونا چاہیے۔ ٣۔ پہلی اقوام نے بھی اپنے رسولوں کو قابو کرنے اور حق کو دبانے کی کوشش کی تھی۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے نافرمان قوموں کو دنیا میں سزادی اور آخرت میں یہ لوگ جہنم میں جھونکیں جائیں گے۔ تفسیر بالقرآن پہلی اقوام کے عذاب کا ایک منظر : ١۔ کیا وہ لوگ بےفکر ہوگئے ہیں کہ اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے ؟ (النحل : ٤٥) ٢۔ قوم ثمود کو چیخ نے آپکڑا۔ وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ (ھود : ٦٧) ٣۔ قوم عاد کو تندو تیز ہوا نے ہلاک کیا۔ (الحاقۃ : ٦) ٤۔ قوم لوط کی بستی کو الٹاکر دیا اور ان پرکھنگر والے پتھر برسائے گئے۔ (الحجر : ٧٤) ٥۔ آل فرعون کو غرق کردیا گیا۔ (البقرۃ : ٥٠) ٦۔ بنی اسرائیل کو اللہ نے ذلیل بندر بنا دیا۔ (البقرۃ : ٦٥) ٧۔ ان کے گناہ کی پاداش میں پکڑ لیا کسی پر تند ہوا بھیجی، کسی کو ہولناک آواز نے آلیا، کسی کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور کچھ کو غرق کردیا۔ (العنکبوت : ٤٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 4 تا 6 اس فیصلے کے بعد کہ اللہ تعالیٰ بہت ہی صفات رکھتا ہے اور وہ وحدہ لاشریک ہے ، اب یہ کہا جاتا ہے کہ یہ حقائق ، اس کائنات کی ہر چیز کی طرف سے مسلم ہیں کیونکہ اس کائنات کی فطرت ان حقائق کے ساتھ مربوط ہے اور یہ تعلق براہ راست ہے جس میں تنازعہ اور کوئی مجادلہ نہیں ہے۔ یہ پوری کائنات بڑے اطمینان سے آیات الہیہ کو تسلیم کرتی ہے ، اللہ کی وحدانیت پر شاہد عادل ہے ۔ اور اس میں مجادلہ وہی لوگ کرتے ہیں جو کفر پر تلے ہوئے ہیں اور یہ لوگ اس کائنات سے منحرف ہیں۔ مایجادل۔۔۔۔ کفروا (40: 4) ” اللہ کی آیات میں جھگڑے نہیں کرتے مگر وہی لوگ جنہوں نے کفر کیا ہے “۔” یہی لوگ “ یعنی اس کائنات میں سے وہی لوگ اکیلے ان آیات کا انکار کرتے ہیں جو کفر پر تلے ہوئے ہیں۔ اس عظیم مخلوقات میں سے صرف یہی لوگ منحرف ہیں۔ اور ان کی اس عظیم الشان دجود میں چیونٹی سے بھی کم حیثیت ہے۔ جس طرح اس کرۂ ارض کی نسبت سے ایک چیونٹی حقیر شے ہے۔ اس طرح اس کائنات کے حوالے سے انسان ایک چیونٹی سے بھی کم ہے۔ لیکن جھگڑتا ہے یہ حضرت انسان اللہ کی نشانیوں کے بارے میں ، جبکہ یہ عظیم کائنات اہل کفر کے مقابلے میں کھڑی ہے۔ اور حق تعالیٰ کا اعتراف کررہی ہے۔ اور عزیز وجبار کی قوتوں کی معترف ہے۔ یہ لوگ ، اس موقف میں انجام کے خلاف کھڑے ہیں۔ یہ لوگ چاہے دنیا میں قوت رکھتے ہوں اور جاہ ومال کے مالک ہوں اور مقتدر اعلیٰ ہوں ، لیکن جس جگہ انہوں نے جانا ہے ، اس کی انہیں کوئی فکر نہیں ہے۔ فلایغررک تقلبھم فی البلاد (4 ہ : 4) ” اس کے بعد دنیا کے ملکوں میں ان کی چلت پھرت تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے “۔ وہ جس قدر دوڑ دھوپ کریں ، جس قدر اقتدار اور مال وجاہ کے وہ مالک ہوں ، جس قدر وہ عیش و عشرت میں ہوں ، آخر کار یہ لوگ تباہ برباد اور ہلاک ہونے والے ہیں۔ ان کی اس جنگ کا انجام معروف ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ اس عظیم خالق کائنات کے درمیان اور اس کائنات کے درمیان اور اس کائنات کی ایک حقیر چیونٹی کے درمیان کوئی معرکہ برپا ہوسکتا ہے۔ ان سے پہلے ان جیسی کئی اقوام اس زمین پر گزری ہیں ، ان کا جو انجام ہوا ، اس سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ ایسی اقوام کا انجام کیا ہوا کرتا ہے ، جو اللہ کی قوت کے مقابلے میں آجائیں ۔ اللہ کی قوت ان کو پیش کر رکھ دیا کرتی ہے اور ہر اس قوت کو پیس ڈالتی ہے جو اللہ کے ساتھ جنگ کے لیے اٹھتی ہے۔ کذبت قبلھم۔۔۔۔۔ کان عقاب (40: 5) ” ان سے پہلے نوح کی قوم بھی جھٹلاچ کی ہے اور ان کے بعد بہت سے دوسرے جتھوں نے بھی یہ کام کیا۔ ہر قوم اپنے رسول پر جھپٹی تاکہ اسے گرفتار کرے۔ ان سب نے باطل کے ہتھیاروں سے حق کو نیچا دکھانے کی کوشش کی مگر آخر کار میں نے ان کو پکڑلیا۔ پھر دیکھ لو کہ میری سزا کیسی تھی “۔ یہ سلسلہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانے سے چلا آرہا ہے اور یہ ایک ایسا معرکہ ہے جو ہر زمان ومکان میں برپا ہے ، اور یہ آیت اس قصے کا خلاصہ بتاتی ہے۔ رسولوں اور انکی تکذیب کا قصہ۔ اور ان کے اور اللہ کے مقابلے میں سرکشی کا رویہ ہر زمان ومکان میں یونہی ہوتا رہا ہے اور انجام بھی ایک رہا ہے رسول آیا ہے ، اس کی قوم کے سرکشوں نے اس کی تکذیب کی ہے۔ انہوں نے دلیل کا جواب دلیل سے نہیں دیا ، بلکہ دلیل کے مقابلے میں تشدد کے ہتھیار لے کر آئے اور انہوں نے رسول کو پکڑ کر گرفتار کرنے کی کوشش کی اور جمہور عوام کی آنکھوں میں دھول ڈالنے کی کوشش کی تاکہ حق کا مقابلہ کریں ، حق کو نیچا دکھائیں مگر اللہ کی قوت جبارہ نے مداخلت کی ہے۔ اور ایسے سرکشوں کو اس طرح چوٹی سے پکڑا کہ وہ آنے والوں کے لیے عبرت بن گئے۔ فکیف کان عقاب (40: 5) ” میری سزا کیسی سخت تھی “۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی سزا تباہ کن تھی ، بہت سخت تھی۔ ان اقوام کے جو آثار بھی آج باقی ہیں ، وہ بتاتے ہیں کہ یہ سزا بہت سخت تھی۔ اور احادیث وروایات بھی یہ بتاتی ہیں کہ وہ سزا بہت سخت تھی۔ اور یہ معرکہ یہاں ختم نہیں ہوگیا بلکہ قیامت تک چلا گیا : وکذٰلک۔۔۔۔ النار (40: 6) ” اسی طرح تیرے رب کا یہ فیصلہ بھی ان سب لوگوں پر چسپاں ہوچکا ہے جو کفر کے مرتکب ہوئے ہیں کہ وہ واصل بجہنم ہونیوالے ہیں “۔ جب یہ اللہ کا فیصلہ حق ہوا ، چسپاں ہوا ، گویا نافذ ہوگیا ، اور ہر قسم کا مباحثہ ہی ختم ہوگیا یوں قرآن کریم ایک حقیقی صورت حال کی تصویر کشی کرتا ہے۔ ایمان اور کفر کے طویل معرکہ کی تصویر کشی۔ حق اور باطل کے درمیان معرکہ آرائی ، ان لوگوں کے درمیان جو اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں اور ان لوگوں کے درمیان معرکہ آرائی جو زمین میں سرکشی اختیار کرتے ہیں ، بغیر دلیل کے بات کرتے ہیں۔ یوں قرآن یہ بتاتا ہے کہ یہ معرکہ حق و باطل آغاز انسانیت سے شروع ہے اور اس کا میدان زمین سے بھی آگے ہے۔ اس پوری کائنات میں بھی یہ جاری ہے کہ یہ پوری کائنات اللہ کے سامنے سرتسلیم خم کیے ہوئے ہے لیکن ایک کافرنہ صرف اہل ایمان سے بلکہ پوری کائنات کے ساتھ بھی برسرپیکار ہوتا ہے۔ یہ اس کائنات کے اندر موجود اللہ کی نشانیوں سے بھی لڑتا ہے اور اس معرکہ آرائی کا انجام بھی معلوم ہوتا ہے کہ حق کی قوتیں ، بہت بڑی ، بہت طاقتور ہیں۔ اللہ ہے ، پوری کائنات ہے ، اہل ایمان ہیں اور اس کے مقابلے کی قلیل و حقیر قوت ہے۔ اگرچہ عارضی طور پر اس کا پلہ بھاری ہوا اور بظاہر یہ قوت بہت ہی خوفناک نظر آئی ہو مگر آخر کار یہ تباہ ہونے والی ہے۔ یہ حقیقت کہ حق و باطل کا معرکہ اور اس میں لڑنے والی قوتیں اور اس کا میدان جنگ یعنی طویل انسانی تاریخ ، اس کی تصویر کشی قرآن اس لیے کرتا ہے کہ اہل ایمان کے دلوں میں یہ بات اچھی طرح بیٹھ جائے ، خصوصاً ان اہل ایمان کے دلوں میں جو پیغمبروں کے اصول ومنہاج پر دعوت حق لے کر آئے ہیں اور ہر زمان ومکان میں دعوت ایمان دیتے ہیں وہ اچھی طرح جان لیں اور یقین کرلیں کہ باطل کی قوت کچھ بھی نہیں ہے۔ اگرچہ وہ بظاہر پھولی ہوئی نظر آئے ، ایک محدود وقت کے لیے کسی محدود سرزمین میں ، یہ قوت حقیقت نہیں ہے۔ اصل حقیقت وہ ہے ، جس کی نشاندہی اللہ کی کتاب کررہی ہے ، جسے وہ کلمتہ الحق کہتی ہے ، اور حق غالب ہوا کرتا ہے۔ اللہ سب سے سچا ہے اور اس کی بات سچی ہے۔ اس حقیقت کے ساتھ ساتھ کہ دعوت حق ہے اور اس کے حامل مومنین ہیں۔ ان کے ساتھ وہ مومنین بھی شامل ہیں ، جو اللہ کے عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو اس کے اردگرد متعین وہ بھی اہل ایمان کے ساتھ تائید میں کھڑے ہیں۔ وہ ہر وقت انسان مومنین کی رپورٹ اللہ کے ہاں پیش کرتے ہیں ، ان کے لیے مغفرت طلب کرتے رہتے ہیں اور ان کے لیے جو اللہ کا وعدہ ہے ، اللہ سے اس کے پورا کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔ کیوں ؟ اس لیے کہ یہ انسان بھی مومن ہیں اور وہ مومن ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

کافر لوگ اللہ کی آیات کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں، شہروں میں ان کا چلنا پھرنا دھوکہ میں نہ ڈالے، سابقہ امتوں اور جماعتوں نے جھٹلایا جس کی وجہ سے ان کی گرفت کرلی گئی قرآن مجید کی آیات نازل ہوتی تھیں تو جو لوگ ایمان نہیں لاتے تھے اور اپنے کفر پر جمے رہتے تھے ان آیات کے بارے میں یہ لوگ طرح طرح کی باتیں نکالتے تھے اور جھگڑے کی باتیں کرتے تھے ان لوگوں کی باتوں سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف پہنچتی تھی یہ لوگ دنیاوی اعتبار سے کھاتے پیتے اور مالدار تھے ان کے پاس سواریاں بھی تھیں اس شہر سے دوسرے شہر میں جاتے تھے اور زمین میں گھومتے پھرتے تھے، جو لوگ آپ کے ساتھی تھے ان کو خیال ہوسکتا تھا کہ ہم اہل ایمان ہیں غریب ہیں اور یہ لوگ کافر اور منکر ہیں ان کے پاس دنیا ہے عیش کے اسباب ہیں مال کی فروانی ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان شہروں میں گھومنا پھرنا آپ کو دھوکہ میں نہ ڈالے یہ ان کی چند روزہ زندگی ہے آخرت میں تو ہر کافر کو عذاب ہی ہے اور دنیا میں بھی انبیائے کرام (علیہ السلام) کے معاندوں اور منکروں اور جدال کرنے والوں پر عذاب آتا رہا ہے اور ان سے پہلے نوح (علیہ السلام) کی قوم گزری ہے اور ان کے بعد بہت سی جماعتیں گزری ہیں مثلاً عادو ثمود وغیرہ۔ انہوں نے پیغمبروں کو جھٹلایا اور مبتلائے عذاب ہوئے۔ جو امتیں پہلے گزری ہیں ان میں سے ہر امت نے اپنے نبی کو پکڑنے کا اردہ کیا تاکہ قتل کردیں اور بعض انبیاء کرام (علیہ السلام) کو تو قتل بھی کردیا اور ان لوگوں نے باطل کے ذریعہ جھگڑا کیا تاکہ حق کو مٹا دیں کچھ دن ان کا یہ طریقہ کار رہا بالآخر اللہ تعالیٰ نے ان کی گرفت فرمائی انہیں پکڑ لیا اور عذاب چکھا دیا اور عذاب بھی معمولی نہیں ان پر سخت عذاب آیا، ہلاک اور برباد ہوئے اسی کو فرمایا (فَاَخَذْتُہُمْ فَکَیْفَ کَانَ عِقَابِ ) (سو میں نے ان کی گرفت کرلی، سو کیسا ہوا میرا عذاب) اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی ہے کہ ان لوگوں کے جدال اور عناد اور کفر و انکار کی وجہ سے غمزدہ نہ ہوں سابقہ امتوں نے بھی اپنے اپنے نبیوں کے ساتھ جدال وعناد کا معاملہ کیا ہے۔ دنیا میں کافروں کو جو عذاب ہوگا اسی پر بس نہیں ہے کافروں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ثابت ہوچکا ہے کہ ان کو دوزخ میں ضرور جانا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

4:۔ ” مایجادل الخ “ یہ عنوان دوم ہے ” ایت اللہ “ میں وضع الظاہر موضع المضمر ایضاح اور حکمنامے کی عظمت شان ظاہر کرنے کے لیے ہے۔ اصل میں ” فیہ “ کہنا تھا۔ ” الذین کفروا “ ای ستروا الحق عناد (مدارک فی موضع آخر) ۔ یعنی یہ حکمانہ بہت بڑے بادشاہ کی طرف سے ہے اور سراپا حق اور ظاہر و بارہ ہے، اب اس میں صرف معاند ہی جدال (جھگڑا) کرے گا۔ دوسرے لوگ جو ضدی نہیں مان لیں گے۔ اس کے بعد منکرین دعوی کی اصلاح کے تین طریقے مذکور ہیں۔ 5:۔ ” فلا یغررک الخ “ اصلاح کا پہلا طریقہ۔ تقلب مصدر تقلیل وتحقیر کے لیے ہے۔ جیسا کہ آگے آرہا ہے ” نما ھذہ الحیوۃ الدنیا متاع وان الاخرۃ ھی دار القرار “ (رکوع 5) ۔ ” متاع “ محض نفع گرفتن۔ اور سورة حدید (رکوع 3) میں اس مضمون کو یوں بیان فرمایا ” اعلموا انما الحیوۃ الدنیا لعب و لھو وزینۃ و تفاخر بینکم و تکاثر فی الاموال والاولاد “ دنیا محض تفاخر اور تکاثر فی الاموال والاولاد ہے۔ یعنی آخرت کے مقابلہ میں قلیل و حقیر ہے۔ اور سورة آل عمرا (رکوع 20) میں تقلیل و تحقیر دنیا کی اس طرح صراحت فرمائی ” لا یغرنک تقلب الذین کفروا فی البلاد، متاع قلیل، ثم ماواھم جہنم وبئس المہاد “ حاصل یہ ہوا کہ حکمنامہ خداوندی میں جدال کرنے والوں اور اسے نہ ماننے والوں کی پر عیش زندگی، بڑے بڑے شہروں میں ان کے وسیع تجارتی کاروبار اور ان کے یہاں دولت کی ریل پیل آپ کو دھوکے میں نہ ڈالے، یہ تو محض دنیا میں چند روزہ نفع ہے، ان کی عاقبت تباہی اور دائمی عذاب ہے۔ لایغرنک ما ھم فیہ من الخیر والسعۃ فی الرزق فانہ متاع قلیل فی الدنیا (قرطبی ج 15 ص 292) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(4) اللہ تعالیٰ کی آیتوں میں صرف وہی لوگ جھگڑے نکالا کرتے ہیں جو دین حق کے منکر ہیں اور جنہوں نے کفر کا شیوہ اختیار کررکھا ہے سوائے پیغمبران منکروں کا شہر در شہر پھرتے پھرنا آپ کو کسی غلطی اور فریب میں مبتلا نہ کردے۔ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ کافر اور دین حق کے منکر ہیں یہی قرآن میں ناحق کے جھگڑے نکالتے اور کج بحثی کرتے ہیں اور اپنے حق پر ہونے کے لئے یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ دیکھ لو ہم کس طرح اطمینان کے ساتھ شہر بہ شہر پھرتے ہیں اور خوب تجارت کرکے نفع کماتے ہیں اگر ہم حق پر نہ ہوتے اور غلط راستے پر ہوتے تو ہم پر عذاب آجاتا اور ہم ہلاک ہوجاتے گویا تباہی میں تعجیل کا نہ ہونا ہماری حقانیت کے ثبوت ہے۔ اس کو فرمایا کہ ان کو جو وسعت تجارت کی مہلت ملی ہوئی ہے اس سے آپ کسی غلطی میں مبتلا نہ ہوجائیں یہ تو استدراجا ہے اور چند روزہ بہا رہے جیسا کہ ہم تفصیل کے ساتھ آل عمران کی تسہیل میں عرض کرچکے ہیں وہاں ملاحظہ کرلیا جائے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی آشنائیاں رکھتے ہیں سرداروں سے اس کا اندیشہ نہ کر۔