Surat ul Momin

Surah: 40

Verse: 57

سورة مومن

لَخَلۡقُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ اَکۡبَرُ مِنۡ خَلۡقِ النَّاسِ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۵۷﴾

The creation of the heavens and earth is greater than the creation of mankind, but most of the people do not know.

آسمان و زمین کی پیدائش یقیناً انسان کی پیدائش سے بہت بڑا کام ہے ، لیکن ( یہ اور بات ہے کہ ) اکثر لوگ بے علم ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Life after Death Allah tells us that He will bring back His creation on the Day of Resurrection. That is very easy for Him, because He created the heavens and the earth, and creating them is greater than creating mankind, the first time and when He creates them again. The One Who is able to do that is able to do anything that is less than that. As Allah says: أَوَلَمْ يَرَوْاْ أَنَّ اللَّهَ الَّذِى خَلَقَ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ وَلَمْ يَعْىَ بِخَلْقِهِنَّ بِقَادِرٍ عَلَى أَن يُحْىِ الْمَوْتَى بَلَى إِنَّهُ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ Do they not see that Allah, Who created the heavens and the earth, and was not wearied by their creation, is able to give life to the dead! Yes, He surely is able to do all things. (46:33) And Allah says here: لَخَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالاَْرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَ The creation of the heavens and the earth is indeed greater than the creation of mankind; yet, most of mankind know not. hence they do not think about or ponder this proof. Similarly, many of the Arabs recognized that Allah had created the heavens and the earth, but they denied and rejected the idea of the resurrection; they acknowledged something which was greater than that which they denied. Then Allah says: وَمَا يَسْتَوِي الاَْعْمَى وَالْبَصِيرُ وَالَّذِينَ امَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَلاَ الْمُسِيءُ قَلِيلً مَّا تَتَذَكَّرُونَ

انسان کی دوبارہ پیدائش کے دلائل ۔ اللہ تعالیٰ قادر مطلق فرماتا ہے کہ مخلوق کو وہ قیامت کے دن نئے سرے سے ضرور زندہ کرے گا جبکہ اس نے آسمان و زمین جیسی زبردست مخلوق کو پیدا کر دیا تو انسان کا پیدا کرنا یا اسے بگاڑ کر بنانا اس پر کیا مشکل ہے؟ اور آیت میں ارشاد ہے کہ کیا ایسی بات اور اتنی واضح حقیقت بھی جھٹلائے جانے کے قابل ہے کہ جس اللہ نے زمین و آسمان کو پیدا کر دیا اور اس اتنی بڑی چیز کی پیدائش سے نہ وہ تھکا نہ عاجز ہوا اس پر مردوں کا جلانا کیا مشکل ہے؟ ایسی صاف دلیل بھی جس کے سامنے جھٹلانے کی چیز ہو اس کی معلومات یقینا نوحہ کرنے کے قابل ہیں ۔ اس کی جہالت میں کیا شک ہے؟ جو ایسی موٹی بات بھی نہ سمجھ سکے؟ تعجب ہے کہ بڑی بڑی چیز تو تسلیم کی جائے اور اس سے بہت چھوٹی چیز کو محال محض مانا جائے ، اندھے اور دیکھنے والے کا فرق ظاہر ہے ٹھیک اسی طرح مسلم و مجرم کا فرق ہے ۔ اکثر لوگ کس قدر کم نصیحت قبول کرتے ہیں ، یقین مانو کہ قیامت کا آنا حتمی ہے پھر بھی اس کی تکذیب کرنے اور اسے باور نہ کرنے سے بیشتر لوگ باز نہیں آتے ۔ ایک یمنی شیخ اپنی سنی ہوئی روایت بیان کرتے ہیں قریب قیامت کے وقت لوگوں پر بلائیں برس پڑیں گی اور سورج کی حرارت سخت تیز ہو جائے گی ۔ واللہ اعلم

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

57۔ 1 یعنی پھر یہ کیوں اس بات سے انکار کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو دوبارہ زندہ نہیں کرسکتا ؟ جب کہ یہ کام آسمان و زمین کی تخلیق سے بہت آسان ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٥] یہاں سے ان آیات کا آغاز ہوتا ہے جن میں یہ لوگ جھگڑا کیا کرتے تھے ان میں پہلے بعث بعد الموت کو لیا گیا ہے۔ اور سوال اس بنیاد پر کیا گیا ہے کہ کفار مکہ اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ اور سوال یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ اس قدر عظیم الجثہ مخلوق کو پیدا کرسکتا ہے تو کیا انسان کو ہی دوبارہ پیدا نہ کرسکے گا ؟ یہ گویا عقلی دلیل ہوئی کہ ایسا ہونا یقیناً ممکن ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لخلق السموت والارض اکبر من خلق الناس … : یہاں سے ان بنیادی عقائد کو ایک بار پھر دلائل سے ثابت کیا جا رہا ہے جن کا کفار انکار کرتے اور اس مقصد کے لئے کج بحثی اور جھگڑا کرتے تھے۔ کفار قریش اور ان کے ہم خیال لوگ قیامت کا انکار کرتے ہئے کہتے تھے کہ جب ہم مرکز مٹی ہوگئے تو کیسے ہوسکتا ہے کہ دوبارہ زندہ ہوں۔ ان کے مطابق یہ ممکن ہی نہیں اور عقل کسی صورت اسے تسلیم نہیں کرتی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، یقینا آسمانوں اور زمین کو کسی نمونے اور پہلے سے موجود کسی مادے کے بغیر پیدا کرنا انسانوں کو پہلی دفعہ پیدا کرنے سے یا دوبارہ پیدا کرنے سے بہت ہی بڑا کام ہے۔ تو جس نے اتنے بلند اور وسیع و عریض آسمانوں کو ان میں موجود بیشمار مخلوقات، لامحدود کہکشاؤں اور سیاروں سمیت پیدا کردیا ہے اور اتنی بڑی زمین اور اس میں موجود بیشمار مخلوق پیدا کردی ہے، اس کے لئے انسانوں کو دوبارہ زنادہ کردینا کیا مشکل ہے۔ ظاہر ہے بڑی چیز بنانے والے کے لئے چھوٹی چیز بنانا بالکل آسان عے، مگر اکثر لوگ اتنی واضح اور آسان بات کو بھی نہیں جانتے اور یہی کہے جاتے ہیں کہ مٹی ہو کر ہم کیسے زندہ ہوسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کی پیدائش کو انسان کی دوبارہ پیدائش کی دلیل کے طور پر متعدد مقامات پر ذکر فرمایا ہے۔ دیکھیے سورة یٰسین (٨١) ، صافات (١١) ، بنی اسرائیل (٩٩) احقاف (٣٣) اور نازعات (٢٧ تا ٣٣) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ۝ ٥٧ لام اللَّامُ التي هي للأداة علی أوجه : الأول : الجارّة، وذلک أضرب : ضرب لتعدية الفعل ولا يجوز حذفه . نحو : وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ [ الصافات/ 103] . وضرب للتّعدية لکن قدیحذف . کقوله : يُرِيدُ اللَّهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ [ النساء/ 26] ، فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلامِ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً [ الأنعام/ 125] فأثبت في موضع وحذف في موضع . الثاني : للملک والاستحقاق، ولیس نعني بالملک ملک العین بل قد يكون ملکا لبعض المنافع، أو لضرب من التّصرّف . فملک العین نحو : وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ المائدة/ 18] ، وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الفتح/ 7] . وملک التّصرّف کقولک لمن يأخذ معک خشبا : خذ طرفک لآخذ طرفي، وقولهم : لله كذا . نحو : لله درّك، فقد قيل : إن القصد أنّ هذا الشیء لشرفه لا يستحقّ ملكه غير الله، وقیل : القصد به أن ينسب إليه إيجاده . أي : هو الذي أوجده إبداعا، لأنّ الموجودات ضربان : ضرب أوجده بسبب طبیعيّ أو صنعة آدميّ. وضرب أوجده إبداعا کالفلک والسماء ونحو ذلك، وهذا الضرب أشرف وأعلی فيما قيل . ولَامُ الاستحقاق نحو قوله : لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] ، وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین/ 1] وهذا کالأول لکن الأول لما قد حصل في الملک وثبت، وهذا لما لم يحصل بعد ولکن هو في حکم الحاصل من حيثما قد استحقّ. وقال بعض النحويين : اللَّامُ في قوله : لَهُمُ اللَّعْنَةُ [ الرعد/ 25] بمعنی «علی» «1» أي : عليهم اللّعنة، وفي قوله : لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ مَا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ [ النور/ 11] ولیس ذلک بشیء، وقیل : قد تکون اللَّامُ بمعنی «إلى» في قوله : بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحى لَها [ الزلزلة/ 5] ولیس کذلک، لأنّ الوحي للنّحل جعل ذلک له بالتّسخیر والإلهام، ولیس ذلک کالوحي الموحی إلى الأنبیاء، فنبّه باللام علی جعل ذلک الشیء له بالتّسخیر . وقوله : وَلا تَكُنْ لِلْخائِنِينَ خَصِيماً [ النساء/ 105] معناه : لا تخاصم الناس لأجل الخائنين، ومعناه کمعنی قوله : وَلا تُجادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتانُونَ أَنْفُسَهُمْ [ النساء/ 107] ولیست اللام هاهنا کاللام في قولک : لا تکن لله خصیما، لأنّ اللام هاهنا داخل علی المفعول، ومعناه : لا تکن خصیم اللہ . الثالث : لَامُ الابتداء . نحو : لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوى [ التوبة/ 108] ، لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلى أَبِينا مِنَّا [يوسف/ 8] ، لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر/ 13] . الرابع : الداخل في باب إنّ ، إما في اسمه إذا تأخّر . نحو : إِنَّ فِي ذلِكَ لَعِبْرَةً [ آل عمران/ 13] أو في خبره . نحو : إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصادِ [ الفجر/ 14] ، إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود/ 75] أو فيما يتّصل بالخبر إذا تقدّم علی الخبر . نحو : لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الحجر/ 72] فإنّ تقدیره : ليعمهون في سکرتهم . الخامس : الداخل في إن المخفّفة فرقا بينه وبین إن النافية نحو : وَإِنْ كُلُّ ذلِكَ لَمَّا مَتاعُ الْحَياةِ الدُّنْيا [ الزخرف/ 35] . السادس : لَامُ القسم، وذلک يدخل علی الاسم . نحو قوله : يَدْعُوا لَمَنْ ضَرُّهُ أَقْرَبُ مِنْ نَفْعِهِ [ الحج/ 13] ويدخل علی الفعل الماضي . نحو : لَقَدْ كانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبابِ [يوسف/ 111] وفي المستقبل يلزمه إحدی النّونین نحو : لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ [ آل عمران/ 81] وقوله : وَإِنَّ كُلًّا لَمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ [هود/ 111] فَاللَّامُ في «لمّا» جواب «إن» وفي «ليوفّينّهم» للقسم . السابع : اللَّامُ في خبر لو : نحو : وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ [ البقرة/ 103] ، لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ [ الفتح/ 25] ، وَلَوْ أَنَّهُمْ قالُوا إلى قوله لَكانَ خَيْراً لَهُمْ [ النساء/ 46] «1» ، وربما حذفت هذه اللام نحو : لو جئتني أکرمتک أي : لأکرمتک . الثامن : لَامُ المدعوّ ، ويكون مفتوحا، نحو : يا لزید . ولام المدعوّ إليه يكون مکسورا، نحو يا لزید . التاسع : لَامُ الأمر، وتکون مکسورة إذا ابتدئ به نحو : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور/ 58] ، لِيَقْضِ عَلَيْنا رَبُّكَ [ الزخرف/ 77] ، ويسكّن إذا دخله واو أو فاء نحو : وَلِيَتَمَتَّعُوا فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ [ العنکبوت/ 66] ، وفَمَنْ شاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شاءَ فَلْيَكْفُرْ [ الكهف/ 29] ، وقوله : فَلْيَفْرَحُوا [يونس/ 58] ، وقرئ : ( فلتفرحوا) وإذا دخله ثم، فقد يسكّن ويحرّك نحو : ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ [ الحج/ 29] . ( اللام ) حرف ) یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ اول حروف جارہ اور اس کی چند قسمیں ہیں ۔ (1) تعدیہ کے لئے اس وقت بعض اوقات تو اس کا حذف کرنا جائز نہیں ہوتا جیسے فرمایا : وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ [ الصافات/ 103] اور باپ نے بیٹے کو پٹ پڑی کے بل لٹا دیا ۔ اور کبھی حذف کرنا جائز ہوتا ہے چناچہ آیت کریمہ : يُرِيدُ اللَّهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ [ النساء/ 26] خدا چاہتا ہے کہ تم سے کھول کھول کر بیان فرمادے۔ میں لام مذکور ہے اور آیت : فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلامِ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً [ الأنعام/ 125] تو جس شخص کو خدا چاہتا ہے کہ ہدایت بخشے اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کہ گمراہ کرے اس کا سینہ تنگ کردیتا ہے ۔ میں اسے حذف کردیا ہے ( یعنی اصل میں لا یھدیہ ولان یضلہ ہے ۔ ( یعنی اصل میں الان یھدی ولان یضلہ ہے (2) ملک اور استحقاق کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور ملک سے ہمیشہ ملک عین ہی مراد نہیں ہوتا ۔ بلکہ ملکہ منافع اور ملک تصرف سب کو عام ہے چناچہ فرمایا : وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ المائدة/ 18] اور آسمانوں اورز مینوں کی بادشاہت خدا ہی کی ہے ۔ وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الفتح/ 7] اور آسمانوں اور زمین کے لشکر خدا ہی کے ہیں ۔ اور ملک تصرف کے لئے مثلا کسی شخص کے ساتھ لکڑی تصرف کے لئے مثلا کسی شخص کے ساتھ لکڑی اٹھاتے وقت تم اس سے یہ کہو ۔ خذ طرفک لاخذنی کہ تم ا اپنی جانپ سے پکڑ لوتا کہ میں اپنی جانب پکڑوں ۔ اور للہ درک کی طرح جب للہ کذا کہا جاتا ہے تو اس میں تو اس میں بعض نے لام تملیک مانا ہی یعنی یہ چیز بلحاظ شرف و منزلت کے اتنی بلند ہے کہ اللہ تعا لیٰ کے سو اسی پر کسی کا ملک نہیں ہوناچاہیے اور بعض نے کہا ہے کہ اس میں لام ایجاد کے لے ے سے یعنی اللہ نے نے اسے بطریق ابداع پیدا کیا ہے کیونکہ اللہ نے اسے بطریق ابداع پیدا کیا ہے کیونکہ موجودات دو قسم پر ہیں ۔ ایک وہ جن کو اللہ تعالیٰ نے اسباب طبعی یا صنعت انسانی کے واسطہ سے ایجاد کیا ہے ۔ اورد وم وہ جنہیں بغیر کسی واسطہ کے پیدا کیا ہے جیسے افلاک اور آسمان وغیرہ اور یہ دوسری قسم پہلی کی نسبت اشرف اور اعلیٰ ہے ۔ اور آیت کریمہ : لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] اور ان کے لئے لعنت اور برا گھر ہے ۔ اور وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین/ 1] ناپ اور تول میں کمی کرنے والوں کے کئے خرابی ہے ۔ میں لا م استحقاق کے معنی دیتا ہے یعنی یہ لوگ لعنت اور ویل کے مستحق ہیں ۔ اور یہ سلام بھی لام ملک کی طرح ہے لیکن لام پال اسی چیز پر داخل ہوتا ہے جو ملک میں حاصل ہوچکی ہو اور لام استحقاق اس پر جو تا حال حاصل تو نہ ہوگی ہو نگر اس پر ستحقاق اس پر جوتا جال حاصل تو نہ ہوئی ہونگر اس پر استحقاق ثابت ہونے کے لحاظ سے حاصل شدہ چیز کی طرح ہو بعض وعلمائے نحو کہا ہے کہ آیت کریمہ : لَهُمُ اللَّعْنَةُ میں لام بمعنی علی ہے ۔ ای علیھم اللعنۃ ( یعنی ان پر لعنت ہے ) اسی طرح آیت کریمہ : لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ مَا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ [ النور/ 11] ان میں جس شخص نے گناہ کا جتنا حصہ لیا اسکے لئے اتنا ہی وبال ہے ۔ میں بھی لام بمعنی علی ہے لیکن یہ صحیح نہیں ہے ۔ بعض نے کہا ہے کبھی لام بمعنی الیٰ بھی آتا ہے جیسا کہ آیت بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحى لَها [ الزلزلة/ 5] کیونکہ تمہارے پروردگار نے اس کا حکم بھیجا ہوگا ۔ میں ہے یعنی اوحی الیھا مگر یہ بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ یہاں تو وحی تسخیری ہونے پر متنبہ کیا گیا ہے اور یہ اس وحی کی طرح نہیں ہوتی جو انبیاء (علیہ السلام) کی طرف بھیجی جاتی ہے لہذا لام بمعنی الی ٰ نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَلا تَكُنْ لِلْخائِنِينَ خَصِيماً [ النساء/ 105] اور ( دیکھو ) دغا بازوں کی حمایت میں کبھی بحث نہ کرنا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ لام اجل ہے اور سبب اور جانب کے معنی دیتا ہے یعنی تم ان کی حمایت میں مت بحث کرو جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا : وَلا تُجادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتانُونَ أَنْفُسَهُمْ [ النساء/ 107] اور جو لوگ اپنے ہم جنسوں کی خیانت کرتے ہیں ان کی طرف ہم جنسوں کی خیانت کرتے ہیں ان کی طرف سے بحث نہ کرنا ۔ اور یہ لا تکن للہ خصیما کے لام کی طرح نہیں ہے کیونکہ یہاں لام مفعول پر داخل ہوا ہے اور معنی یہ ہیں ۔ لاتکن خصیم اللہ کہ تم اللہ کے خصیم یعنی فریق مخالف مت بنو ۔ (3) لا ابتداء جیسے فرمایا : لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوى [ التوبة/ 108] البتہ وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے ۔ لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلى أَبِينا مِنَّا [يوسف/ 8] کہ یوسف اور اس کا بھائی ہمارے ابا کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں ۔ لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر/ 13] تمہاری ہیبت ان کے دلوں میں ۔۔۔ بڑھ کر ہے ۔ (4) چہارم وہ لام جو ان کے بعد آتا ہے ۔ یہ کبھی تو ان کے اسم پر داخل ہوتا ہے اور کبھی ان کی خبر اور کبھی متعلق خبر پر چناچہ جب اسم خبر سے متاخرہو تو اسم پر داخل ہوتا ہے جیسے فرمایا : إِنَّ فِي ذلِكَ لَعِبْرَةً [ آل عمران/ 13] اس میں بڑی عبرت ہے ۔ اور خبر پر داخل ہونے کی مثال جیسے فرمایا :إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصادِ [ الفجر/ 14] بیشک تمہارا پروردگار تاک میں ہے : إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود/ 75] بیشک ابراہیم (علیہ السلام) بڑے تحمل والے نرم دل اور رجوع کرنے والے تھے ۔ اور یہ لام متعلق خبر پر اس وقت آتا ہے جب متعلق خبر ان کی خبر پر مقدم ہو جیسے فرمایا : ۔ لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الحجر/ 72] اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہاری جان کی قسم وہ اپنی مستی میں مد ہوش ( ہو رہے ) تھے ۔ ( 5 ) وہ لام جوان مخففہ کے ساتھ آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَإِنْ كُلُّ ذلِكَ لَمَّا مَتاعُ الْحَياةِ الدُّنْيا [ الزخرف/ 35] اور یہ سب دنیا کی زندگی کا تھوڑا سا سامان ہے ۔ ( 5 ) لام قسم ۔ یہ کبھی اسم پر داخل ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لَقَدْ كانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبابِ [يوسف/ 111]( بلکہ ایسے شخص کو پکارتا ہے جس کا نقصان فائدہ سے زیادہ قریب ہے ۔ اور کبھی فعل ماضی پر آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ [ آل عمران/ 81] ( 12 ) ان کے قصے میں عقلمندوں کے لئے عبرت ہے ۔ اگر یہ لام فعل مستقبل پر آئے تو اس کے ساتھ نون تاکید ثقیلہ یا خفیفہ کا آنا ضروری ہے جیسے فرمایا : ۔ تو تمہیں ضرور اس پر ایمان لانا ہوگا اور ضرور اس کی مدد کر نا ہوگی ۔ اور آیت کریمہ : وَإِنَّ كُلًّا لَمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ [هود/ 111] اور تمہارا پروردگار ان سب کو قیامت کے دن ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیگا ۔ میں لما کالام ان کے جواب میں واقع ہوا ہے ۔ اور لیوفینھم کا لام قسم کا ہے ۔ ( 7 ) وہ لام جو لو کی خبر پر داخل ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ [ البقرة/ 103] اور اگر وہ ایمان لاتے اور پرہیز گاری کرتے تو خدا کے ہاں سے بہت اچھا صلہ ملتا ۔ لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ [ الفتح/ 25] اگر دونوں فریق الگ الگ ہوجاتے تو جو ان میں کافر تھے ان کو ہم ۔۔۔۔۔۔ عذاب دیتے ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ قالُوا إلى قوله لَكانَ خَيْراً لَهُمْ [ النساء/ 46] اور اگر یہ لوگ کہتے کہ ہم نے سن لیا اور مان لیا اور آپ کو متوجہ کرنے کے لئے ۔۔۔۔ راعنا کی جگہ انظرنا کہتے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا ۔ اور کبھی لو کے جواب میں لام محزوف ہوتا ہے جیسے ہے ۔ ( 8 ) وہ لام جو مدعا یا مدعو الیہ کے لئے استعمال ہوتا ہے مدعو کے لئے یہ مفعوح ہوتا ہے ۔ جیسے یا لذید ۔ اور مدعوالیہ آئے تو مکسور ہوتا ہے جیسے یالذید ۔ ( 9 ) لام امر یہ ابتدا میں آئے تو مکسور ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور/ 58] مومنوں تمہارے غلام لونڈیاں تم سے اجازت لیا کریں ۔ لِيَقْضِ عَلَيْنا رَبُّكَ [ الزخرف/ 77] تمہارا پروردگار ہمیں موت دے دے ۔ اور اگر اس پر داؤ یا فا آجائے تو ساکن ہوجاتا ہے جیسے فرمایا : وَلِيَتَمَتَّعُوا فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ [ العنکبوت/ 66] اور فائدہ اٹھائیں ( سو خیر ) عنقریب ان کو معلوم ہوجائیگا ۔ وفَمَنْ شاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شاءَ فَلْيَكْفُرْ [ الكهف/ 29] تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کافر رہے ۔ فَلْيَفْرَحُوا [يونس/ 58] اور جب اس پر ثم داخل ہو تو اسے ساکن اور متحرک دونوں طرح پڑھنا جائز ہوتا ہے جیسے فرمایا : ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ [ الحج/ 29] پھر چاہیے کہ لوگ اپنا میل کچیل دور کریں اور نذریں پوری کریں ۔ اور خانہ قدیم یعنی بیت اللہ کا طواف کریں ۔ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ كثر الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] ( ک ث ر ) کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

آسمان و زمین کا پیدا کرنا دجال کے پیدا کرنے کی نسبت بڑا کام ہے لیکن یہودی دجال کے فتنہ کو جانتے ہی نہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٧ { لَخَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَکْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ } ” آسمانوں اور زمین کی تخلیق یقینا زیادہ بڑا کام ہے انسانوں کی تخلیق سے “ اس مفہوم کو جتنا آج ہم سمجھ سکتے ہیں آج سے چودہ سو سال پہلے انسان نہیں سمجھ سکتا تھا۔ اس لیے کہ زمین و آسمان کی وسعتوں کے بارے میں آج کا انسان جو کچھ جانتا ہے اس دور کا انسان تو اس کے مقابلے میں بہت کم جانتا تھا۔ یہ کائنات اس قدر وسیع و عریض ہے کہ سائنس کی تمام تر ترقی اور بڑی بڑی ٹیلی سکوپس (telescopes) ایجاد کرلینے کے باوجود آج کے سائنس دان یہ تک نہیں جان سکے کہ اس کائنات کا نقطہ آغاز کہاں ہے اور یہ ختم کہاں پر ہوتی ہے۔ تو جس اللہ نے اتنی وسیع کائنات تخلیق کی ہے اس کے لیے تمہاری تخلیق کیا معنی رکھتی ہے ! { وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ } ” لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

78 After reviewing the conspiracies and plots of the chiefs of the Quraish in vv. 21-56, the address is now being directed towards the common people, and they are being made to understand that the truths to which Muhammad (upon whom be Allah's peace) is inviting them, are absolutely rational, as if to say: "Your own good and well-being lies in accepting them and rejecting them is ruinous for your own selves." In this connection, first of alI arguments have been given for the doctrine of the Hereafter, for the disbelievers regarded this very doctrine as most bewildering and incomprehensible. 79 This is an argument for the possibility of the Hereafter. The disbelievers thought it was impossible for man to be resurrected after death. In answer to this, it is being said: "Those who talk like this are, in fact, ignorant. If they use their common sense, they will easily understand that for that God Who has created this wonderful Universe it cannot at all be difficult to create men once again."

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :78 اوپر کے ساڑھے تین رکوعوں میں سرداران قریش کی سازشوں پر تبصرہ کرنے کے بعد اب یہاں سے خطاب کا رخ عوام کی طرف پھر رہا ہے اور ان کو یہ سمجھایا جا رہا ہے کہ جن حقائق کو ماننے کی دعوت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم کو دے رہے ہیں وہ سراسر معقول ہیں ، ان کو مان لینے ہی میں تمہاری بھلائی ہے اور نہ ماننا تمہارے اپنے لیے تباہ کن ہے ۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے آخرت کے عقیدے کو لے کر اس پر دلائل دیے گئے ہیں ، کیونکہ کفار کو سب سے زیادہ اچنبھا اسی عقیدے پر تھا اور اسے وہ بعید از فہم خیال کرتے تھے ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :79 یہ امکان آخرت کی دلیل ہے ۔ کفار کا خیال تھا کہ مرنے کے بعد انسان کا دوبارہ جی اٹھنا غیر ممکن ہے ۔ اس کے جواب میں ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ جو لوگ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں وہ در حقیقت نادان ہیں ۔ اگر عقل سے کام لیں تو ان کے لیے یہ سمجھنا کچھ بھی مشکل نہ ہو کہ جس خدا نے یہ عظیم الشان کائنات بنائی ہے اس کے لیے انسانوں کو دوبارہ پیدا کر دینا کوئی دشوار کام نہیں ہو سکتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

17: مشرکینِ عرب مانتے تھے کہ آسمان و زمین سب اﷲ تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اتنی سی بات اُن کی سمجھ میں نہیں آتی کہ جو ذات اتنی عظیم الشان چیزیں عدم سے وجود میں لا سکتی ہے، اُس کے لئے اِنسانوں کو دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہے۔ چنانچہ اِس واضح بات کا بھی وہ انکار کرتے ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٧۔ اس آیت کی شان نزول میں علمائے مفسرین کا اختلاف ہے بعضے مفسرین تو یہ کہتے ہیں کہ اوپر سے مشرکین مکہ کا ذکر چلا آتا ہے ان ہی مشرکین مکہ کی شان میں یہ آیت بھی ہے اور معنی اس آیت کے یہ ہیں کہ یہ مشرک لوگ حشر کا کیوں انکار کرتے ہیں آسمان و زمین کی پیدائش کو دیکھ کر یہ لوگ خدا کی قدرت کو نہیں پہچانتے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی عقل اور سمجھ سے باہر آسمان اور زمین کو پیدا کردیا اسی طرح مرنے کے بعد انسان کو اللہ تعالیٰ پھر پیدا کر دے گا۔ جس اللہ نے سب مخلوقات کو پیدا کیا اس کے نزدیک بہ نسبت آسمان و زمین کے انسان کا پیدا کرنا ایک ادنیٰ چیز ہے۔ تفسیر ابن ١ ؎ حاتم وغیرہ میں رفیع بن مہران ابو العالیہ ریاحی کی روایت سے جو شان نزول ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ یہود نے ایک روز دجال کے باب میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جھگڑا کیا اور یہ کہا کہ دجال ہم لوگوں میں سے ہوگا اور دجال کی طرح طرح کی بڑائیاں بیان کرنے لگے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اس صورت میں معنی اس آیت کے یہ ہوں گے کہ اللہ کی قدرت کی چند باتیں اگرچہ دجال میں ہوں گی مگر زمین و آسمان کی حالت سے اللہ کی بڑی قدرت ظاہر ہوتی ہے۔ حاصل یہ ہے کہ آیت کے اس معنی کے موافق اکبر من خلق الناس میں الناس سے مقصود دجال ہوگا اور مطلب یہ قرار پاوے گا کہ جب دجال کے ماتھے پر کافر لکھا ہوگا تو اس کے خلاف عادت باتیں تعریف کے قابل نہیں ہیں۔ ان ابو العالیہ ریاحی کی روایت کی شان نزول کو بعض مفسروں نے ضعیف ٹھہرا کر نقل کیا ہے۔ لیکن جلال الدین ٢ ؎ سیوطی نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔ یہ رفیع بن مہران ابو العالیہ بڑے جلیل القدر تابعی ہیں اور تفسیر میں دس صحابہ سے جو مشہور ہیں ان میں حضرت ابی بن کعب سے اکثر یہ ابوالعالیہ تفسیر کی باتیں روایت کرتے ہیں اور تفسیر کے باب میں ان کی روایت صحیح قرار پائی ہیں نماز میں ہنسنے سے نماز ٹوٹ جانے کے باپ میں جو ایک حدیث ان ابوالعالیہ کی روایت سے ہے جس پر امام شافعی علیہ الرحمۃ نے اعتراض کیا ہے اس اعتراض سے یہ مطلب نہیں نکل سکتا کہ ابوالعالیہ جیسے جلیل القدر تابعی کی سب روایتیں ضعیف ہیں غرض اس شان نزول کو بلاوجہ ضعیف نہیں کہا جاسکتا اس لئے صحیح قول یہ ہے کہ مکی آیت اگرچہ مشرکین مکہ کی شان میں ہے لیکن آیت ہر جھگڑنے والے کے حق میں صادق آتی ہے خواہ مشرکین مکہ ہوں یا یہود یا اور کوئی جھگڑنے والا فرقہ ہو اس شان نزول میں تو دجال کا ذکر مختصر طور پر ہے صحیح حدیثوں میں دجال کے ذکر کی بڑی تفصیل آئی ہے چناچہ سند سے ترمذی ٣ ؎ میں عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پہلے صاحب شریعت بنی نوح (علیہ السلام) اور سب انبیا نے اگرچہ اپنی امتوں کو دجال سے ڈرایا ہے مگر یہ بات کسی نبی نے اپنی امت کو نہیں بتلائی کہ دجال ایک آنکھ سے کا نڑا ہوگا۔ مختصر طور سے یہ حدیث ابوہریرہ (رض) کی روایت سے صحیح بخاری ١ ؎ و مسلم میں بھی ہے اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دجال کے پیدا ہونے کا مسئلہ سب انبیائے شریعت کا ایک اتفاقی مسئلہ ہے باوجود اس کے فرقہ خارجی جہیمی اور معتزلی کے بعض لوگوں نے جو دجال کے وجود کا انکار کیا ہے یہ بڑی غلطی ہے اگرچہ تفسیر معالم میں لکھا ہے کہ دجال دنیا میں چالیس برس ٹھہرے گا لیکن صحیح ٢ ؎ مسلم میں نواس بن سمعان سے جور وایت ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ دجال دنیا میں چالیس روز رہے گا دجال کے حال کی زیادہ تفصیل صحیح حدیثوں میں ہے کہ اس کے پیدا ہونے سے پہلے تین برس قحط پڑے گا لوگ اس قحط کے سبب سے بڑی تکلیف میں ہوں گے اس قحط کے بعد وہ پیدا ہوگا اور اس کے ساتھ ایک ڈھیر روٹیوں کا ہوگا اور ایک نہر پانی کی، خراسان کے ملک میں وہ پیدا ہوگا اصفہان کے ستر ہزار یہود کی فوج اس کے ساتھ ہوگی سوائے مکہ اور مدینہ کے روئے زمین پر اور کوئی جگہ اس کے پھرنے سے باقی نہ رہے گی مکہ اور مدینہ کے باہر فرشتے کھڑے ہوں گے اس کو مکہ اور مدینہ کے اندر نہیں جانے دیں گے مگر مدینہ میں اس وقت زلزلہ آئے گا جس کے سبب سے جو کوئی کافر اور منافق مدینہ میں ہوگا وہ باہر نکل کر دجال کے ساتھیوں میں مل جائے گا دجال کے ساتھ ایک چیز دوزخ کی صورت کی ہوگی اور ایک جنت کی صورت کی اور حقیقت میں اللہ کے حکم سے اس دوزخ میں جنت کی سی راحت ہوگی اور اس جنت میں دوزخ کی سی تکلیف ہوگی دجال کے ماتھے پر کافر لکھا ہوگا۔ ولکن اکثر الناس لایعلمون اس کا مطلب یہ ہے کہ جب اللہ نے بغیر کسی نمونہ کے آسمان زمین اور باقی کی سب چیزوں کو پیدا کردیا تو جو لوگ اپنے دوبارہ پیدا ہونے کے منکر ہیں وہ بڑے ناسمجھ ہیں کیونکہ سمجھ دار آدمی کا تجربہ تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ جو کام ایک دفعہ ہو چکتا ہے تو پھر دوبارہ اس کا کرنا آسان ہوجاتا ہے صحیح بخاری ٣ ؎ کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی روایت سے حدیث قدسی ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ نے فرمایا کہ جب ایک دفعہ انسان کو پیدا کر کے اس کے دوبارہ پیدا کرنے کی خبر میں نے اپنے کلام پاک میں دی تھی تو انسان کو زیبا نہیں تھا کہ اس خبر کو جھٹلاتا کس لئے کہ ایسی موٹی بات کو جھٹلانا کسی سمجھ دار کام نہیں ہے۔ یہ حدیث ولکن اکثر الناس لا یعلمون کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا کہ جو کام ایک دفعہ ہو چکتا ہے تو ہر سمجھ دار آدمی کے تجربہ میں پھر دوبارہ اسی کام کا کیا جانا آسان ہوجاتا ہے اسی طرح اوپر کی روایتوں کے موافق جبکہ اور نبیوں کی طرح موسیٰ (علیہ السلام) یہود کے رو برو دجال کی مذمت کرچکے تو کچھ تو یہ مذمت پشت در پشت ان میں چلی آتی ہے تو فقط نبی آخر الزمان کی نبوت کو نہ ماننے کے ضد میں دجال کی تعریف کا کرنا یہود کی یہ بڑی نادانی ہے کہ یہ لوگ اپنے نبی کو بھی جھٹلاتے ہیں اور اس سے بیخبر ہیں۔ (١ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ٣٥٣ ج ٥۔ ) (٢ ؎ ایضاً ) (٣ ؎ جامع ترمذی باب ماجاء فی الدجال ص ٥٦ ج ٢۔ ) (١ ؎ صحیح مسلم باب ذکر الدجال ص ٤٠٠ ج ٢۔ ) (٢ ؎ صحیح مسلم باب ذکر الدجال ص ٤٠٠ ج ٢۔ ) (٣ ؎ صحیح بخاری تفسیر سورة الاخلاص ص ٧٤٤ ج ٢۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 اب ان اصول عقائد کا اثبات ہے جن سے کفار انکار کرتے تھے۔ ( کبیر) اس آیت میں کفار قریش اور ان ہم خیال لوگوں کا رد ہے جو یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ آدمی کا ایک دفعہ مرجانے کے بعد دوبارہ پیدا کیا جانا محال ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حق کے بارے میں کبر اختیار کرنے والوں کو دیکھنا اور سوچنا چاہیے کہ پیدائش اور وجود کے اعتبار سے وہ بڑے ہیں یا زمین و آسمان بڑے ہیں۔ ظاہر ہے کہ زمین و آسمان بڑے ہیں مگر جو لوگ بلادلیل اللہ کی آیات کے بارے میں جھگڑتے ہیں حقیقتاً وہ اندھے ہیں اس لیے بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ قیامت برپا ہونے والی ہے جس کے بارے میں یہ شک یعنی قیامت کے دن ان کے کبر کا فیصلہ ہوجائے گا۔ جب آدمی تکبر کا شکار ہوجاتا ہے تو حقیقت پر غور کرنا تو درکنار اسے سننا بھی پسند نہیں کرتا۔ ایسا آدمی کافر ہے تو قولاً بھی قیامت کا انکار کرتا ہے۔ پھر اپنے انکار کو برحق ثابت کرنے کے لیے کہتا ہے کہ جب انسان مر کرمٹی کے ذرات بن جاتا ہے تو پھر اسے کس طرح زندہ کیا جاسکتا ہے۔ آخرت کے منکر یہ بھی کہتے ہیں کہ ہزاروں سال گزر چکے لیکن آج تک کوئی شخص مر کر زندہ نہیں ہوا۔ ان لوگوں کے کان کھولنے کے لیے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ اے قیامت کا انکار کرنے والو ! ذرا رمین و آسمان کی تخلیق پر غور کرو کہ اللہ تعالیٰ نے اس وسیع و عریض زمین اور بلند وبالا آسمانوں کو کس طرح پیدا کیا ہے۔ کیا لوگوں کو پیدا کرنا بڑا کام ہے یا زمین و آسمان کو پیدا کرنا بڑا کام ہے ؟ اتنی واضح حقیقت دیکھنے اور جاننے کے باوجود لوگوں کی اکثریت اس کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ جو لوگ کھلے حقائق کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ حقیقت میں وہ اندھے ہیں اندھا اور بینا برابر نہیں ہوسکتے۔ اور نہ ہی باطل عقیدہ رکھنے والے اور برے کردار کے حامل لوگ صالح اعمال کرنے والوں کے برابر ہوسکتے ہیں۔ برے لوگوں کو اسے لیے اندھا کہا گیا ہے کہ یہ ان کے اندھے پن کی دلیل ہے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ قیامت قائم نہیں ہوگی۔ اگر قیامت قائم نہیں ہوگی تو دنیا میں بےبس مظلوم کو انصاف کہاں سے ملے گا ؟ کیا ظالم کو اللہ تعالیٰ نے اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ کمزوروں پر ظلم کرتا رہے اور اسے پوچھنے والا کوئی نہ ہو۔ کیا ایسا سوچنا اور عقیدہ رکھنا اندھے پن کی دلیل نہیں ؟ ایک آدمی دنیا میں اپنے رب سے ڈر ڈر کر زندگی گزارتا اور دوسرا اپنے رب کے ساتھ کفر و شرک کرتا اور ہر قسم کی نافرمانی کرتا رہتا ہے۔ کیا نیک کو جزا دینے والا اور نافرمان کو سزا دینے والا کوئی نہیں ہونا چاہیے ؟ اگر ہونا چاہیے تو اس کے لیے ایک وقت اور مقام ہونا بھی ضروری ہے اس دن کا نام قیامت اور اس جگہ کا نام محشر ہے۔ لہٰذا تم مانو یا انکار کرو قیامت آکر رہے گی۔ جو اس پر ایمان لاتا ہے اور اس کے تقاضے پورے کرتا ہے وہ بینا اور نیک ہے۔ جو اس کا انکار کرتا ہے وہ اندھا اور متکبر ہے۔ عقل کا تقاضا ہے کہ قیامت ضرور برپا ہونی چاہیے لیکن اس کے باوجود اکثر لوگ اس پر ایمان لانے اور اپنے رب کی نصیحت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ” حضرت شداد بن اوس (رض) سے روایت ہے وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دانا وہ ہے جس نے اپنے آپ کو عقل مند بنالیا اور موت کے بعد والی زندگی کے لیے عمل کیے اور نادان وہ ہے جس نے اپنے آپ کو خواہشات کے پیچھے لگا لیا اور اللہ تعالیٰ سے امید رکھی۔ “ [ رواہ الترمذی : باب الکیس من دان نفسہ ] مسائل ١۔ لوگوں کو پیدا کرنے سے زمین و آسمان کو پیدا کرنا بڑاکام ہے۔ ٢۔ اندھا اور دیکھنے والا برابر نہیں ہوتے۔ ٣۔ صالح کردار ایمان دار اور براشخص برابر نہیں ہوسکتے۔ ٤۔ لوگوں کی اکثریت نصیحت قبول کرنے پر تیار نہیں ہوتی۔ تفسیر بالقرآن قیامت ہر صورت برپا ہو کر رہے گی : ١۔ یقیناً قیامت آنے والی ہے۔ (الحجر : ٨٥) ٢۔ یقیناً قیامت آنے والی ہے اور اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کی قبروں سے اٹھائے گا۔ (الحج : ٧) ٣۔ قیامت برپا ہونے میں کوئی شک نہیں اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے۔ (الکہف : ٢١) ٤۔ اے لوگو ! اللہ سے ڈر جاؤ بیشک قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے۔ (الحج : ١) ٥۔ کافر ہمیشہ شک میں رہیں گے، یہاں تک کہ قیامت اچانک آجائے گی۔ (الحج : ٥٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

60:۔ ” لخلق السموات “ یہ ثبوت قیامت پر دلیل انی ہے۔ ” النار یعرضون علیہا الخ “ میں تخویف اخروی کا ذکر تھا۔ اور تخویف اخروی تب ہی ہوسکت ہے کہ قیامت آئے، اس لیے یہاں قیام قیامت پر دلیل ذکر کی گئی۔ یہ مجادلین اور معاندین جنہیں تعداد میں اکثریت حاصل ہے اتنا بھی نہیں سوچتے کہ زمین و آسمان کو پیدا کرنا انسانوں کے پیدا کرنے سے کہیں زیادہ بڑا کام ہے، تو جس قادر مطلق نے زمین و آسمان کو پیدا کرلیا۔ جیسا کہ تمام مشرکین کا بھی ایمان ہے۔ اس کے لیے انسانوں کو دوبارہ پیدا کرلینا کونسا مشکل کام ہے ” وما یستوی الاعمی والبصیر “ یہ ثبوت قیامت پر دلیل لمی ہے۔ اندھا (کافر) جو دلائل قدرت اور آیات توحید کو نہیں دیکھتا اور ان میں غور و فکر نہیں کرتا اور بصیر (مومن) جو آیات قدرت اور دلائل وحدانیت کو دیکھتا اور ان کو مانتا ہے یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے، بعنوان دیگر مومن صالح اور کافر بدکار باہم یکساں نہیں ہیں۔ اول الذکر اللہ کی طرف سے ثواب جزیل اور اجر عظیم کے مستحق ہیں جبکہ آخر الذکر عقاب شدید اور عذاب الیم کے مستحق ہیں۔ لیکن یہ جزاء وسزا دنیا میں تو ظاہر نہیں ہوتی۔ اس لیے لامحالہ اس دنیا کی زندگی کے بعد کوئی ایسا وقت ہونا چاہئے جس میں مومن و کافر کی جزاء و سزا کما حقہ ظاہر ہو، اسی کا نام دار آخرت ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(57) البتہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا انسانوں کے پیدا کرنے سے بڑا کام ہے قدرت کا مگر اکثر لوگ اتنی بات بھی نہیں سمجھتے ، اوپر کی آیت میں رسالت پر اعتراض کرنے والوں ککا رد اور ان کا جواب تھا اس آیت میں منکرین توحید اور منکرین بعث کا رد ہے یعنی آسمان و زمین کا پہلی مرتبہ پیدا کرنا انسانوں کے دوبارہ پیدا کرنے کے مقابلے میں بہت بڑی قدرت کا اظہار ہے یعنی انسانوں کے دوبارہ پیدا کردینے کا انکار کرتے ہو اور آسمان و زمین کے ابتدا نہ پیدا کرنے کا اقرار کرتے ہو حالانکہ اتنی بات نہیں سمجھتے کہ جو آسمان و زمین کا موجد ہی اس کو انسان کا دوبارہ پیدا کرنا اور انسانوں کا اعادہ کرلینا کیا مشکل ہے۔