Surat ul Momin

Surah: 40

Verse: 65

سورة مومن

ہُوَ الۡحَیُّ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ فَادۡعُوۡہُ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ؕ اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۶۵﴾

He is the Ever-Living; there is no deity except Him, so call upon Him, [being] sincere to Him in religion. [All] praise is [due] to Allah , Lord of the worlds.

وہ زندہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں پس تم خالص اسی کی عبادت کرتے ہوئے اسے پکارو تمام خوبیاں اللہ ہی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

هُوَ الْحَيُّ لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ ... He is the Ever Living, La ilaha illa Huwa; means, He is the Ever Living, from eternity to eternity, Who was, is and shall be, the First and the Last, the Manifest, the Hidden. لاَ إِلَهَ إِلاَّا هُوَ (La ilaha illa Huwa), means, there is none comparable or equal to Him. ... فَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ... so invoke Him making the religion for Him Alone. means, affirm His Oneness by testifying that there is no God but He. Imam Ahmad recorded that after ending every prayer, Abdullah bin Az-Zubayr used to say: لاَا إِلهَ إِلاَّ اللهُ وَحْدَهُ لاَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ لاَا حَوْلَ وَلاَا قُوَّةَ إِلاَّ بِاللهِ لاَا إِلهَ إِلاَّ اللهُ وَلاَا نَعْبُدُ إِلاَّ إِيَّاهُ لَهُ النِّعْمَةُ وَلَهُ الْفَضْلُ وَلَهُ الثَّنَاءُ الْحَسَنُ لاَا إِلهَ إِلاَّ اللهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُون There is no (true) God except Allah Alone with no partner or associate, to Him belongs the dominion and praise, for He is able to do all things; there is no strength and no power except with Allah; there is no (true) God except Allah and we worship none but Him; to Him belong blessings and virtue and goodly praise; there is no (true) God except Allah, we worship Him in all sincerity even though the disbelievers may hate that. He said, "The Messenger of Allah used to say the Tahlil in this fashion after every prayer." Similar was also recorded by Muslim, Abu Dawud and An-Nasa'i. ... الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ All the praises and thanks be to Allah, the Lord of all that exits.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

65۔ 1 یعنی جب سب کچھ کرنے والا اور دینے والا وہی ہے دوسرا کوئی بنانے میں شریک ہے نہ اختیارات میں تو پھر عبادت کا مستحق بھی صرف اک اللہ ہی ہے، دوسرا کوئی اس میں شریک نہیں ہوسکتا۔ استمداد و استغاثہ بھی اسی سے کرو کہ وہی سب کی فریادیں اور التجائیں سننے پر قادر ہے دوسرا کوئی بھی مافوق الاسباب طریقے سے کسی کی بات سننے پر قادر ہی نہیں ہے جب یہ بات ہے تو دوسرے مشکل کشائی اور حاجت روائی کس طرح کرسکتے ہیں ؟

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٧] اللہ کی صفات ازلی اور انبدی ہیں :۔ وہی ایک ذات ایسی ہے کہ ازل سے زندہ ہے اور ابدا لآباد تک زندہ رہے گی۔ باقی سب چیزیں حادث ہیں اور وہ کسی نہ کسی وقت فنا سے دوچار ہوجائیں گی خواہ وہ جاندار ہیں یا بےجان۔ باقی تمام جانداروں کی زندگی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہے جب کہ اس کی زندگی ذاتی ہے۔ لہذا اصل میں زندہ کہلانے کا وہی مستحق ہے پھر جس طرح اس کی زندگی ازلی اور انبدی ہے اسی طرح اس کی دوسری تمام صفات بھی ازلی ابدی ہیں۔ اور معبود برحق صرف وہی ذات ہوسکتی ہے جس کی حیات اور دوسری صفات مستقل اور دائمی ہوں۔ دوسرے کسی الٰہ میں یہ صفات موجود نہیں ہیں۔ [٨٨] اس کی تشریح کے لئے سورة زمر کی آیت نمبر ٢ اور ٣ کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ھو الحی لا الہ الا ھو :” الحی “ خبر پر الف لام نے کلام میں حصر کا مفہوم پیدا کردیا ہے کہ وہی زندہ ہے، یعنی ہمیشہ سے زادہ اور ہمیشہ زندہ رہنے والا وہی ہے، تو عبادت کے لائق بھی وہی ہے۔ اس کے سوا سب موت کی وادی سے وجود میں آئے ہیں اور موت کی آغوش میں جانے والے ہیں۔ تو مرنے والے عبادت کے حق دار کیسے بن گئے ؟ مزید دیکھیے آیت الکرسی (بقرہ : ٢٥٥) اور سورة نحل (٢١) کی تفسیر۔ (٢) فادعوہ مخلصین لہ الذین : تفصیل کے لئے دیکھیے سورة اعراف (٢٩) اور سورة مومن (١٤) کی تفسیر۔ (٣) الحمد للہ رب العلمین : یعنی جب یہ سب نعمتیں اس اکیلے کی عطا کردہ ہیں اور یہ سب اوصاف اور خوبیاں اس اکیلے میں پائی جاتی ہیں جو رب العالمین ہے، تو کسی اور کا حق نہیں کہ اس کی تعریف کی جائے اور شکر ادا کرنے کے لئے اس کی عبادت کی جائے، بلکہ یہ حق صرف اللہ تعالیٰ کا ہے جو رب العالمین ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ہُوَالْـحَيُّ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَفَادْعُوْہُ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَ۝ ٠ ۭ اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝ ٦٥ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ خلص الخالص کالصافي إلّا أنّ الخالص هو ما زال عنه شوبه بعد أن کان فيه، والصّافي قد يقال لما لا شوب فيه، وقوله تعالی: فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف/ 80] ، أي : انفردوا خالصین عن غيرهم .إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف/ 24] ( خ ل ص ) الخالص ( خالص ) خالص اور الصافی دونوں مترادف ہیں مگر الصافی کبھی ایسی چیز کو بھی کہہ دیتے ہیں جس میں پہلے ہی سے آمیزش نہ ہو اور خالص اسے کہتے ہیں جس میں پہلے آمیزش ہو مگر اس سے صاف کرلیا گیا ہو ۔ آیت کریمہ : ۔ فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف/ 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے میں خلصوا کے معنی دوسروں سے الگ ہونا کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ [ البقرة/ 139] اور ہم خالص اس کی عبادت کرنے والے ہیں ۔ إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف/ 24] بیشک وہ ہمارے خالص بندوں میں سے تھے ۔ دين والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] ( د ی ن ) دين الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔ حمد الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود : إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف/ 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح/ 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم/ 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ . ( ح م د ) الحمدللہ ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف/ 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح/ 29] محمد خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد گومن وجہ آنحضرت کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشنار پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم/ 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پرند کو ہے ۔ عالَمُ والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، وقیل : إنما جمع هذا الجمع لأنه عني به أصناف الخلائق من الملائكة والجنّ والإنس دون غيرها . وقد روي هذا عن ابن عبّاس «2» . وقال جعفر بن محمد : عني به النّاس وجعل کلّ واحد منهم عالما «3» ، وقال «4» : العَالَمُ عالمان الکبير وهو الفلک بما فيه، والصّغير وهو الإنسان لأنه مخلوق علی هيئة العالم، وقد أوجد اللہ تعالیٰ فيه كلّ ما هو موجود في العالم الکبير، قال تعالی: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة/ 1] ، وقوله تعالی: وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة/ 47] ، قيل : أراد عالمي زمانهم . وقیل : أراد فضلاء زمانهم الذین يجري كلّ واحد منهم مجری كلّ عالم لما أعطاهم ومكّنهم منه، وتسمیتهم بذلک کتسمية إبراهيم عليه السلام بأمّة في قوله : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل/ 120] ، وقوله : أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر/ 70] . العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ چونکہ لفظ عالم سے خلائق کی خاص قسم یعنی فرشتے جن اور انسان ہی مراد ہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے ۔ اس لئے اس کی جمع واؤنون کے ساتھ لائی گئی ہے امام جعفر بن محمد کا قول ہے کہ عالیمین سے صرف انسان مراد ہیں اور ہر فرد بشر کو ایک عالم قرار دے کر اسے جمع لایا گیا ہے ۔ نیز انہوں نے کہا ہے کہ عالم دو قسم پر ہے ( 1 ) العالم الکبیر بمعنی فلک دمافیہ ( 2 ) العالم اصغیر یعنی انسان کیونکہ انسان کی تخلیق بھی ایک مستقل عالم کی حیثیت سے کی گئی ہے اور اس کے اندر قدرت کے وہ دلائل موجود ہیں جا عالم کبیر میں پائے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر/ 70] کیا ہم نے تم کو سارے جہاں ( کی حمایت وطر فداری سے ) منع نہیں کیا الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة/ 1] سب تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جو تمام مخلوقات کو پروردگار ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة/ 47] کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ تم یعنی بنی اسرائیل کو ان کی ہمعصراز قوام پر فضیلت دی اور بعض نے اس دور کے فضلا مراد لئے ہیں جن میں سے ہر ایک نواز شات الہٰی کی بدولت بمنزلہ ایک عالم کے تھا اور ان کو عالم سے موسم کرنا ایسے ہی ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل/ 120] بیشک حضرت ابراہیم ایک امہ تھے میں حضرت ابراہیم کو امۃ کہا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

وہ حی لا یموت ہے اس کے علاوہ اور کوئی یہ کام نہیں کرسکتا اس کی توحید کا سچا اقرار کرلو اور خالص اعتقاد کر کے اسی کی عبادت کرو۔ تمام خوبیاں اور خدائی اسی اللہ کے لیے ہے جو کہ ہر اس جاندار کا بھی اللہ ہے جو روئے زمین پر رہتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٥ { ہُوَ الْحَیُّ لَآ اِلٰــہَ اِلَّا ہُوَ } ” وہ زندہ وجاوید ہستی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں “ ایک وہی ذات ہے جو خود زندہ ہے ‘ صرف اسی کی حیات ذاتی ہے۔ باقی زندگی جہاں بھی ہے ‘ جس شکل میں بھی ہے اسی کی عطا کردہ ہے۔ ہمیں بھی زندگی کے یہ چار دن اسی نے مستعار دیے ہیں۔ ع ” عمر ِدراز مانگ کے لائے تھے چار دن ! “ { فَادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ } ” پس اسی کو پکارو ! اس کے لیے اطاعت کو خالص کرتے ہوئے۔ “ نوٹ کیجیے ‘ پھر وہی حکم دہرایا جا رہا ہے کہ دعا اسی سے مانگو ‘ وہ قبول بھی کرے گا ‘ مگر شرط یہ ہے کہ تمہاری اطاعت خالص اسی کے لیے ہونی چاہیے۔ { اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن } ” کل ُ حمد اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

92 That is, "His is the real and true life. He only is living by virtue of His own power. No one else has the eternal and everlasting lift but He. All others have borrowed and temporary life, which is destined to death and perishable. " 93 For explanation, see E.N.'s :3, 4 of Az-Zumar. 94 That is, "There is none else the hymns of whose praise may be sung and who may be thanked. "

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :92 یعنی اصلی اور حقیقی زندگی اسی کی ہے ۔ اپنے بل پر آپ زندہ وہی ہے ۔ ازلی و ابدی حیات اس کے سوا کسی کی بھی نہیں ہے ۔ باقی سب کی حیات عطائی ہے ، عارضی ہے ، موت آشنا اور فنا در آغوش ہے ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :93 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، الزُّمُر ، حاشیہ 3 ۔ 4 ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :94 یعنی کوئی دوسرا نہیں ہے جس کی حمد و ثنا کے گیت گائے جائیں اور جس کے شکرانے بجا لائے جائیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(40:65) الحی۔ زندہ۔ حیاۃ سے صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی سے ہے اللہ کی صفت میں جب حی کہا جائے تو اس سے مراد یہ ہے کہ وہ ذات اقدس ایسی ہے کہ جس کے لئے موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا۔ مخلصین لہ الدین دین کو اس کے لئے خالص کرتے ہوئے (نیز ملاحظہ ہو 40:14)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ اور شرک نہ کیا کرو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس ” اللہ “ سے مانگنے اور صرف اس کی عبادت کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس کی یہ صفت ہے کہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ جس ” اللہ “ نے زمین کو باعث قرار، آسمان کو چھت بنایا اور لوگوں کی بہترین شکلیں بنائیں اور ان کے لیے پاکیزہ رزق کا بندوبست فرمایا وہ بابرکت ذات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔” اَلْحَیُّ “ کا معنٰی ہے ہمیشہ ہمیش زندہ رہنے والا اور جب تک چاہے مخلوق کو زندہ رکھنے والا۔ اس کے سوانہ کوئی ہمیشہ سے زندہ ہے اور نہ رہے گا اور نہ اس کے سوا زمین و آسمانوں، اور انسان کی شکل و صورت بنانے والا ہے اور نہ ہی اس کے سوا کوئی رزق دینے والا ہے۔ وہ اپنی صفات اور ذات میں اکیلا ہے لہٰذا اس کی اسی طرح عبادت کرنی چاہیے۔ جس طرح اس نے حکم دیا ہے۔ اس لیے تمام تعریفات اللہ رب العالمین کے لیے ہیں۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ فرما دیں کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ان کی ہرگز عبادت نہ کروں جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو۔ اس لیے کہ میرے پاس میرے رب کی طرف سے ٹھوس دلائل آچکے ہیں کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرنا۔ اسی بنا پر مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں کائنات کے رب کی بندگی کرتا رہوں۔ اس مقام پر توحید کا بیان آیت ٦٠ سے شرو ع ہوا۔ جس میں دعا کو عبادت قرار دیا گیا ہے۔ لہٰذا یہاں ” اَعْبُدُ “ اور ” تَدْعُوْنَ “ کے الفاظ کا پہلا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے بالواسطہ یا بلا واسطہ مانگنا جائز نہیں۔ کیونکہ صرف ایک اللہ ہی پوری کائنات کا رب ہے۔ اس کے سوا کسی سے مانگنے اور اس کی عبادت کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ (وَلَا تَدْعُ مِنْ دُون اللَّہِ مَا لَا یَنْفَعُکَ وَلَا یَضُرُّکَ فَإِنْ فَعَلْتَ فَإِنَّکَ إِذًا مِنَ الظَّالِمِینَ وَإِنْ یَمْسَسْکَ اللَّہُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَہُ إِلَّا ہُوَ وَإِنْ یُرِدْکَ بِخَیْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِہِ یُصِیبُ بِہِ مَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِہِ وَہُوَ الْغَفُور الرَّحِیمُ )[ یونس : ١٠٦، ١٠٧] ” اور اللہ کو چھوڑ کر اس چیز کو مت پکاریں جو نہ آپ کو نفع دے سکتی ہے اور نہ آپ کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اگر تو نے ایسا کیا تو بلاشبہ اس وقت ظالموں میں سے ہوجائے گا۔ اگر اللہ تجھے کوئی نقصان پہنچائے تو اس کے سوا کوئی اس کو دور کرنے والا نہیں اور اگر وہ تیرے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرے تو اس کو رد کرنے والا نہیں۔ وہ اسے اپنے بندوں میں سے جسے چاہے مستفید کرتا ہے اور وہی بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔ “ مسائل ١۔ ” اللہ “ ہمیشہ زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا۔ ٢۔ ” اللہ “ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق صرف اسی کی ہی عبادت کرنی چاہیے۔ ٤۔ اللہ ہی پوری کائنات کا خالق اور مالک ہے۔ لہٰذا اسی کی تابعداری کرنی چاہیے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور آپ کے ذریعے لوگوں کو حکم دیا ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے تفسیر بالقرآن ” اللہ “ کے علاوہ کسی کو نہیں پکارنا چاہیے : ١۔ میں ان کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو۔ (یونس : ١٠٤) ٢۔ مجھے منع کیا گیا ہے کہ میں ان کی عبادت کروں جن کی اللہ کے سوا تم عبادت کرتے ہو۔ (الانعام : ٥٦) ٣۔ کیا میں اللہ کے سوا ان کو پکاروں جو نفع اور نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ (الانعام : ٧١) ٤۔ جن کو لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں انہوں نے کوئی چیز پیدا نہیں کی وہ تو خود پیدا کیے گئے ہیں۔ (النحل : ٢٠) ٥۔ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تمہارے جیسے بندے ہیں۔ (الاعراف : ١٩٤) ٦۔ اللہ کے سوا کسی کو مت پکاریں جو نفع اور نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ (یونس : ١٠٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 65 تا 66 یہ اعلان ان لوگوں کے لیے ہے جو اللہ کی آیات سے منہ موڑتے ہیں اور اللہ کے عطیات کی ناشکری کرتے ہیں ، کہ میں تو ان معبودوں کی بندگی سے منع کردیا گیا ہوں جن کو تم پکارتے ہو۔ لہٰذا میں منع ہوگیا ہوں۔ اس لیے کہ میرے پاس نشانات آگئے ہیں اور آئے بھی میرے رب کی طرف سے ہیں۔ میرے پاس دلائل پہنچ چکے ہیں اور میں ان پر ایمان لاچکا ہوں۔ اور اللہ نے میرے پاس جو دلائل بھیجے ہیں ، ان کا حق ہے کہ میں ان پر مطمئن ہوجاؤں اور تصدیق کردوں اور اس سچائی کا اعلان کردوں جو میرے پاس آگئی ہے۔ اور غیر اللہ کی بندگی سے رک جانا ہی کافی نہیں بلکہ رب العالمین کے سامنے سر تسلیم خم کردینا اور ایک مثبت پروگرام شروع کرنا بھی بڑا مشن ہے۔ اس میں ” لا “ بھی ہے اور ” الا “ بھی ہے۔ اور آفاقی دلائل الہیہ کے بیان کے بعد اب انفس کی طرف روئے سخن مڑتا ہے۔ انفس کے دلائل میں سے بڑی دلیل ظہور حیات انسانی ہے اور پھر اس کے ظہور کے عجیب اطوار ودرجات ہیں۔ انسانی حیات کا مطالعہ ایک مقدمہ ہے۔ اس بات کے لیے کہ اس کائنات میں ہر قسم کی حیات درحقیقت اللہ کے دست قدرت کا کرشمہ ہے اور اس کی مٹھی میں ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(65) وہی اللہ تعالیٰ زندہ ہے اس کے سوا کوئی اور عبادت کے لائق نہیں سو تم خالص اسی کی عبادت اور فرمانبرداری کے اعتقاد سے اس کو پکارا کرو تمام تعریفیں اور خوبیاں اسی اللہ تعالیٰ کو سزاوار ہیں جو تمام عالموں کا پروردگار ہے۔