Surat ul Momin

Surah: 40

Verse: 67

سورة مومن

ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ تُرَابٍ ثُمَّ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ ثُمَّ مِنۡ عَلَقَۃٍ ثُمَّ یُخۡرِجُکُمۡ طِفۡلًا ثُمَّ لِتَبۡلُغُوۡۤا اَشُدَّکُمۡ ثُمَّ لِتَکُوۡنُوۡا شُیُوۡخًا ۚ وَ مِنۡکُمۡ مَّنۡ یُّتَوَفّٰی مِنۡ قَبۡلُ وَ لِتَبۡلُغُوۡۤا اَجَلًا مُّسَمًّی وَّ لَعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ ﴿۶۷﴾

It is He who created you from dust, then from a sperm-drop, then from a clinging clot; then He brings you out as a child; then [He develops you] that you reach your [time of] maturity, then [further] that you become elders. And among you is he who is taken in death before [that], so that you reach a specified term; and perhaps you will use reason.

وہ وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے پھر نطفے سے پھر خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا پھر تمہیں بچہ کی صورت میں نکالتا ہے ، پھر ( تمہیں بڑھاتا ہے کہ ) تم اپنی پوری قوت کو پہنچ جاؤ پھر بوڑھے ہو جاؤ تم میں سے بعض اس سے پہلے ہی فوت ہو جاتے ہیں ( وہ تمہیں چھوڑ دیتا ہے ) تاکہ تم مدت معین تک پہنچ جاؤ اور تاکہ تم سوچ سمجھ لو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلً ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ ثُمَّ لِتَكُونُوا شُيُوخًا ... It is He, Who has created you from dust, then from a Nutfah then from a clot (a piece of coagulated blood), then brings you forth as an infant, then (makes you grow) to reach the age of full strength, and afterwards to be old. meaning, He is the One Who Alone, with no partner or associate, causes you to pass through these different stages, and this happens in accordance with His command, will and decree. ... وَمِنكُم مَّن يُتَوَفَّى مِن قَبْلُ ... though some among you die before, means, before being fully formed and emerging to this world; so his mother miscarries him. And there are some who die in infancy or in their youth, or when they are adults but before they reach old age, as Allah says: لِّنُبَيِّنَ لَكُمْ وَنُقِرُّ فِى الاٌّرْحَامِ مَا نَشَأءُ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى that We may make (it) clear to you. And We cause whom We will to remain in the wombs for an appointed term. (22:5) ... وَلِتَبْلُغُوا أَجَلً مُّسَمًّى وَلَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ and that you reach an appointed term in order that you may understand. Ibn Jurayj said, "In order that you may remember the Resurrection." Then Allah says:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

67۔ 1 یعنی تمہارے باپ آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے بنایا جو ان کی تمام اولاد کے مٹی سے پیدا ہونے کو مستلزم ہے پھر اس کے بعد نسل انسانی کے تسلسل اور اس کی بقا وتحفظ کے لیے انسانی تخلیق کو نطفے سے وابستہ کردیا اب ہر انسان اس نطفے سے پیدا ہوتا ہے جو صلب پدر سے رحم مادر میں جا کر قرار پکڑتا ہے سوائے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے کہ ان کی پیدائش معجزانہ طور پر بغیر باپ کے ہوئی جیسا کہ قرآن کریم کی بیان کردہ تفصیلات سے واضح ہے اور جس پر امت مسلمہ کا اجماع ہے۔ 67۔ 2 یعنی ان تمام کیفیتوں اور اطوار سے گزارنے والا وہی اللہ ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ 67۔ 3 یعنی رحم مادر میں مختلف ادوار سے گزر کر باہر آنے سے پہلے ہی ماں کے پیٹ میں، بعض بچپن میں، بعض جوانی میں اور بعض بڑھاپے سے قبل فوت ہوجاتے ہیں۔ 67۔ 4 یعنی اللہ تعالیٰ یہ اس لئے کرتا ہے تاکہ جس کی جتنی عمر اللہ نے لکھ دی ہے، وہ اس کو پہنچ جائے اور اتنی زندگی دنیا میں گزار لے۔ 67۔ 5 یعنی جب تم ان اطوار اور مراحل پر غور کرو گے کہ نطفے سے علقہ پھر مضغۃ، پھر بچہ، پھر جوانی، کہولت اور بڑھاپا، تو تم جان لو گے کہ تمہارا رب بھی ایک ہی ہے اور تمہارا معبود بھی ایک اس کے سوا کو‏ئی معبود نہیں علاوہ ازیں یہ بھی سمجھ لو گے کہ جو اللہ یہ سب کچھ کرنے والا ہے اس کے لیے قیامت والے دن انسانوں کو دوبارہ زندہ کردینا بھی مشکل نہیں ہے اور وہ یقینا سب کو زندہ فرما‏ئے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٠] انسان کی تخلیق اور زندگی کے مختلف مراحل سے بعث بعد الموت پر دلیل :۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے زمین کے بےجان ذروں سے تمہارے لئے خوراک پیدا کی۔ اسی بےجان خوراک سے کئی مراحل طے کرنے کے بعد تمہارے اندر منی پیدا ہوئی اور اطباء کے قول کے مطابق منی چوتھے ہضم کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے۔ پھر اسی منی کا قطرہ جب ماں کے رحم میں داخل ہوتا ہے اور اسے رحم مادر قبول کرلیتا ہے تو اس پر کئی ادوار آتے ہیں بعد میں اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔ اور ایک مقررہ مدت کے بعد خوبصورت شکل اور محیرالعقول صلاحیتیں لے کر رحم مادر سے باہر آجاتا ہے۔ اس وقت وہ نہ چل سکتا ہے نہ بول سکتا ہے نہ کچھ سمجھ سکتا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ اس میں وہ قوتیں نشوونما پانے لگتی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اس کی فطرت میں رکھ دی ہیں۔ انسان کے بڑھنے کے ساتھ اس کی عقل، اس کا فہم، اس کی جسمانی قوت، اس کا قد وقامت غرض ہر چیز بڑھتی چلی جاتی ہے۔ پھر اس پر بڑھاپے کا وقت آتا ہے تو پہلے جیسی غذائیں کھانے کے باوجود قد بڑھنا رک جاتا ہے اور دوسری قوتوں میں کمی واقع ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ اور آخری مرحلہ موت ہے۔ جو کبھی تو بچپن میں ہی آجاتی ہے، کبھی اسقاط ہوجاتا ہے کبھی جوانی میں انسان مرتا ہے اور کبھی بوڑھا کھوسٹ ہونے کے باوجود بستر مرگ پر ایڑیاں رگڑتا رہتا ہے مگر اسے موت نہیں آتی۔ ذرا سوچو ! ان مراحل میں سے کوئی مرحلہ بھی تمہارے اپنے اختیار میں ہے۔ پھر اگر بعث بعد الموت کا ایک اور مرحلہ تم پر گزر جائے تو تم اسے کیسے محال سمجھتے ہو ؟ خ موت سے متعلق چند اٹل حقائق :۔ پھر موت ایک ایسا اضطراری امر اور اٹل حقیقت ہے جو اپنے اندر کئی تلخ حقائق سمیٹے ہوئے ہے۔ کوئی فقیر، کوئی امیر، کوئی بادشاہ اس کی گرفت سے نہ آج تک بچ سکا ہے نہ آئندہ بچ سکے گا۔ پھر اس کا جو وقت مقرر ہے وہ بھی آگے پیچھے نہیں ہوسکتا۔ بعض دفعہ انسان بیشمار حوادث سے بچ نکلتا ہے اور موت کے منہ سے بچا رہتا ہے۔ اور بعض دفعہ ایک معمولی سا حادثہ اس کا جان لیوا ثابت ہوجاتا ہے۔ کوئی بادشاہ کسی اعلیٰ سے اعلیٰ ہسپتال سے داخل ہو کر اور ماہر ڈاکٹروں کی خدمات حاصل کرنے کے باوجود موت کے وقت کو آگے پیچھے نہیں کرسکتا۔ اور اس میں جو ایک مرد مومن اور صاحب عقل کے لئے سبق ہے وہ یہ ہے کہ دشمن اسلام طاقتیں جتنا بھی زور لگا لیں، جتنی بھی سازشیں تیار کرلیں کسی کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتیں جب تک کہ اس کی موت کا وقت نہ آئے۔ سیدنا خالد بن ولید تقریباً ایک سو جہاد کے معرکوں میں شریک ہوئے لیکن موت آئی تو بستر مرگ پر گھر میں ہی آئی۔ یہ عقیدہ ایک مجاہد میں بےپناہ جرأت پیدا کردیتا ہے۔ پھر اس کا ایک اور پہلو بھی قابل غور ہے ایک خطہ زمین جس میں ایک ہی قسم کا بیج ڈالا جائے۔ سیراب ایک ہی طرح کے پانی سے ہو، موسم اور آب و ہوا ایک جیسی ہو۔ نگہداشت ایک جیسی ہو اس خطہ زمین کے سارے پودے تقریباً ایک ہی جیسی پرورش اور زندگی پاتے ہیں۔ مگر ایک ہی والدین کے چھ بچے جن کی خوراک ایک، آب و ہوا ایک، گھر ایک ماں باپ ایک، لیکن عمریں سب کی جدا جدا ہوتی ہیں کوئی بچپن میں مرتا ہے، کوئی جوانی میں اور کوئی اتنا بوڑھا اور ذلیل ہوجاتا ہے کہ وہ خود چاہتا ہے کہ اللہ اسے دنیا سے اٹھا لے مگر اسے موت نہیں آتی۔ کیا یہ سب باتیں اس حقیقت کی نشاندہی نہیں کرتیں کہ کوئی قادر مطلق ہستی ہماری موت وحیات پر حکمران ہے۔ کسی دیوتا، کسی پیر، پیغمبر، کسی ستارے اور آستانے والے کا اس میں کچھ دخل نہیں یا کم از کم حکیم اور ڈاکٹر خود تو نہ مرتے۔ ہر کسی کی بےبسی ایک جیسی ہے تو ایسے بےبسوں کو عبادت کا مستحق کیسے قرار دیا جاسکتا ہے اور کتنے نادان ہیں وہ لوگ جو اللہ کے سوا دوسروں کی خدائی تسلیم کرلیتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ھو الذی خلقکم من تراب …: یہ آیت بھی اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی توحید اور قیامت قائم ہونے کی دلیل ہے۔ اس کی تفسیر سورة حج (٥) اور سورة مومنون (١٢ تا ١٤) میں تفصیل سے گزر چکی ہے۔ البتہ یہاں چند الفاظ کی مخت صر تشریح کی جاتی ہے۔ (٢) ثم لتبلغوا اشدکم “ اور ” ثم لتکونوا شیوخاً “ دونوں میں ” لام کی “ فعل محذوف کے متعلق ہے جو خود بخود سمجھ میں آرہا ہے :” ثم یربیکم “ یعنی پھر وہ تمہاری پرورش کرتا رہتا ہے (تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچ جاؤ، پھر تاکہ تم بوڑھے ہوجاؤ) یا ” ثم یبقیکم “ ہے، یعنی پھر وہ تمہیں باقی رکھتا ہے (تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچ جاؤ، پھر تاکہ تم بوڑھے ہوجاؤ۔ ) (٣) ومنکم فن یتوفی من قبل : یعنی کوئی پیدا ہونے سے پہلے (اسقاط کی صورت میں) کوئی جوانی کو پہنچنے سے پہلے اور کوئی بوڑھا ہونے سے پہلے فوت کرلیا جاتا ہے۔ (٤) ولیتلغوا اجلاً مسمیٰ : اس ” لتبلغوا “ کا تعلق پہلے ” لتبلغوا “ کے لئے مقدر فعل کے ساتھ نہیں ہوگا، بلکہ اس کے لئے الگ فعل مقدر ماننا پڑے گا، مثلاً و فعل لکم ذلک لتبلغوا اجلاً مسمی “” اور اس نے تمہارے ساتھ یہ معاملہ اس لئے کیا ہے کہ تم متو کے اس وقت تک پہنچ جاؤ جو تم میں سے ہر ایک کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ “ یعنی کوئی علاقہ بننے تک کوئی مضغہ یا عظام بننے تک، کوئی ولادت تک ، کوئی لڑکپن تک، کوئی جوانی تک اور کوئی بڑھاپے تک پہنچ کر مرے۔ (ابن جزی) (٥) ولعلکم تعقلون : یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں زندگی کے ان مختلف مراحل سے اس لئے گزارتا ہے کہ جب تم اس حیرت انگیز نظام پر غور کرو تو سمجھ جاؤ کہ کوئی خلاق ہے جس نے یہ سب کچھ پیدا فرمایا ہے اور وہ ایک ہی ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ ورنہ کائنات کے اس سلسلے میں ہر چیز کی ایک دوسرے کے ساتھ نہ اتنی زبردست موافقت و مناسبت ہوتی اور نہ ہی یہ نظام ایک لمحے کے لئے چل سکتا یا باقی رہ سکتا۔ اور تاکہ یہ بھی سمجھ جاؤ کہ یہاں ہر مرحلے کے بعد اگلا مرحلہ ہے، مٹی اور نطفے سے پیدا کرنے والے اور اسے ایک وقت تک پہنچانے کے بعد قبض کرلینے والے کے لئے کچھ مشکل نہیں کہ وہ تمہیں دوبارہ زندہ کرلے اور تمہارا حساب لے۔ یعنی اگر غور کرو تو پیدائش کے اس سلسلے سے اللہ تعالیٰ کا وجود، اس کی وحدانیت اور تمہیں دوبارہ زندہ کرنے پر اس کا قادر ہونا آسانی سے سمجھ میں آسکتا ہے۔ شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں : ” یعنی اتنے احوال تم پر گزرے ، شاید ایک حال اور بھ گزرے (اور) وہ (ہے) مر کر جینا۔ “ (واضح)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ہُوَالَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّــطْفَۃٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْٓا اَشُدَّكُمْ ثُمَّ لِتَكُوْنُوْا شُيُوْخًا۝ ٠ ۚ وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّتَوَفّٰى مِنْ قَبْلُ وَلِتَبْلُغُوْٓا اَجَلًا مُّسَمًّى وَّلَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ۝ ٦٧ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے ترب التُّرَاب معروف، قال تعالی: أَإِذا كُنَّا تُراباً [ الرعد/ 5] ، وقال تعالی: خَلَقَكُمْ مِنْ تُرابٍ [ فاطر/ 11] ، یالَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ/ 40] . ( ت ر ب ) التراب کے معنی مٹی کے ہیں ۔ قرآن میں ہے خَلَقَكُمْ مِنْ تُرابٍ [ فاطر/ 11] کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ۔ یالَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ/ 40] کہ اے کاش کے میں مٹی ہوتا ۔ نطف النُّطْفَةُ : الماءُ الصافي، ويُعَبَّرُ بها عن ماء الرَّجُل . قال تعالی: ثُمَّ جَعَلْناهُ نُطْفَةً فِي قَرارٍ مَكِينٍ [ المؤمنون/ 13] ، وقال : مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشاجٍ [ الإنسان/ 2] ، أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِنْ مَنِيٍّ يُمْنى [ القیامة/ 37] ويُكَنَّى عن اللُّؤْلُؤَةِ بالنَّطَفَة، ومنه : صَبِيٌّ مُنَطَّفٌ: إذا کان في أُذُنِهِ لُؤْلُؤَةٌ ، والنَّطَفُ : اللُّؤْلُؤ . الواحدةُ : نُطْفَةٌ ، ولیلة نَطُوفٌ: يجيء فيها المطرُ حتی الصباح، والنَّاطِفُ : السائلُ من المائعات، ومنه : النَّاطِفُ المعروفُ ، وفلانٌ مَنْطِفُ المعروف، وفلان يَنْطِفُ بسُوء کذلک کقولک : يُنَدِّي به . ( ن ط ف ) النطفۃ ۔ ضمہ نون اصل میں تو آب صافی کو کہتے ہیں مگر اس سے مرد کی منی مراد لی جاتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ ثُمَّ جَعَلْناهُ نُطْفَةً فِي قَرارٍ مَكِينٍ [ المؤمنون/ 13] پھر اس کو ایک مضبوط اور محفوظ جگہ ہیں نطفہ بنا کر رکھا ۔ مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشاجٍ [ الإنسان/ 2] نطفہ مخلوط سے أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِنْ مَنِيٍّ يُمْنى [ القیامة/ 37] کیا وہ منی کا جور رحم میں ڈالی جاتی ہے ایک قطرہ نہ تھا ۔ اور کنایۃ کے طور پر موتی کو بھی نطمۃ کہا جاتا ہے اسی سے صبی منطف ہے یعنی وہ لڑکا جس نے کانوں میں موتی پہنے ہوئے ہوں ۔ النطف کے معنی ڈول کے ہیں اس کا واحد بھی نطفۃ ہی آتا ہے اور لیلۃ نطوف کے معنی بر سات کی رات کے ہیں جس میں صبح تک متواتر بارش ہوتی رہے ۔ الناطف سیال چیز کو کہتے ہیں اسی سے ناطف بمعنی شکر ینہ ہے اور فلان منطف المعروف کے معنی ہیں فلاں اچھی شہرت کا مالک ہے اور فلان ینطف بسوء کے معنی برائی کے ساتھ آلودہ ہونے کے ہیں جیسا کہ فلان یندی بہ کا محاورہ ہے ۔ علق العَلَقُ : التّشبّث بالشّيء، يقال : عَلِقَ الصّيد في الحبالة، وأَعْلَقَ الصّائد : إذا علق الصّيد في حبالته، والمِعْلَقُ والمِعْلَاقُ : ما يُعَلَّقُ به، وعِلَاقَةُ السّوط کذلک، وعَلَقُ القربة كذلك، وعَلَقُ البکرة : آلاتها التي تَتَعَلَّقُ بها، ومنه : العُلْقَةُ لما يتمسّك به، وعَلِقَ دم فلان بزید : إذا کان زيد قاتله، والعَلَقُ : دود يتعلّق بالحلق، والعَلَقُ : الدّم الجامد ومنه : العَلَقَةُ التي يكون منها الولد . قال تعالی: خَلَقَ الْإِنْسانَ مِنْ عَلَقٍ [ العلق/ 2] ، وقال : وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ إلى قوله : فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً «1» والعِلْقُ : الشّيء النّفيس الذي يتعلّق به صاحبه فلا يفرج عنه، والعَلِيقُ : ما عُلِّقَ علی الدّابّة من القضیم، والعَلِيقَةُ : مرکوب يبعثها الإنسان مع غيره فيغلق أمره . قال الشاعر : أرسلها علیقة وقد علم ... أنّ العلیقات يلاقین الرّقم «2» والعَلُوقُ : النّاقة التي ترأم ولدها فتعلق به، وقیل للمنيّة : عَلُوقٌ ، والعَلْقَى: شجر يتعلّق به، وعَلِقَتِ المرأة : حبلت، ورجل مِعْلَاقٌ: يتعلق بخصمه . ( ع ل ق ) العلق کے معنی کسی چیز میں پھنس جانیکے ہیں کہا جاتا ہے علق الصید فی الحبالتہ شکار جال میں پھنس گیا اور جب کسی کے جال میں شکار پھنس جائے تو کہا جاتا ہے اعلق الصائد ۔ المعلق والمعلاق ہر وہ چیز جس کے ساتھ کسی چیز کا لٹکا یا جائے اسی طرح علاقتہ السوط وعلق القریتہ اس رسی یا تسمیہ کو کہتے ہیں جس سے کوڑے کا یا مشک کا منہ باندھ کر اسے لٹکا دیا جاتا ہے ۔ علق الکبرۃ وہ لکڑی وغیرہ جس پر کنوئیں کی چرخی لگی رہتی ہے ۔ اسی سے العلقتہ ہر اس چیز کہا کہا جاتا ہے جسے سہارا کے لئے پکڑا جاتا ہے ۔ علق دم فلان بزید فلاں کا خون زید کے ساتھ چمٹ گیا یعنی زید اس کا قاتل ہے ۔ العلق ( جونک ) ایک قسم کا کیڑا جو حلق کے ساتھ وابستہ ہوجاتا ہے ۔ نیز جما ہوا خون اسی سے لوتھڑے کی قسم کے خون کو علقہ کہا جاتا جس سے بچہ بنتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ خَلَقَ الْإِنْسانَ مِنْ عَلَقٍ [ العلق/جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے بنایا ؛ اور آیت کریمہ : ۔ وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ إلى قوله کے آخر میں فرمایا : فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةًپھر لو تھڑے کی بوٹی بنائی ۔ العلق اس عمدہ چیز کو کہتے ہیں جس کے ساتھ مالک کا دل چمٹا ہوا ہو اور اس کی محبت دل سے اترتی نہ ہو العلیق ۔ جو وغیرہ جو سفر میں جو نور کے کھانے کے لئے اس پر باندھ دیتے ہیں اور العلیقتہ اس اونٹ کو کہتے ہیں جو دوسروں کے ساتھ بھیجا جائے ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( رجز ) ( ارسلھا علیقتہ وقد علم ان العلیقات یلاقیں الرقم اس نے غلہ لینے کے لئے لوگوں کے ساتھ اپنا اونٹ بھیجد یا حالانکہ اسے معلوم تھا کہ دوسروں کے ساتھ بھیجے ہوئے اونٹ تکالیف سے دوچار ہوتے ہیں ۔ العلوق وہ اونٹنی جو اپنے بچے پر مہربان ہو اور اس سے لپٹی رہے اور موت کو بھی علوق کہا جاتا ہے العلقی درخت جس میں انسان الجھ جائے تو اس سے نکلنا مشکل علقت المرءۃ عورت حاملہ ہوگئی ۔ رجل معلاق جھگڑالو آدمی جو اپنے مخالف کا پیچھا نہ چھوڑے اور اس سے چمٹار ہے ۔ خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ طفل الطِّفْلُ : الولدُ ما دام ناعما، وقد يقع علی الجمع، قال تعالی: ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا [ غافر/ 67] ، أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا[ النور/ 31] ، وقد يجمع علی أَطْفَالٍ. قال : وَإِذا بَلَغَ الْأَطْفالُ [ النور/ 59] ، وباعتبار النّعومة قيل : امرأة طِفْلَةٌ ، وقد طَفِلَتْ طُفُولَةً وطَفَالَةً ، والمِطْفَلُ من الظبية : التي معها طِفْلُهَا، وطَفَلَتِ الشمسُ : إذا همَّت بالدَّوْرِ ، ولمّا يستمکن الضَّحُّ من الأرضِ قال : وعلی الأرض غياياتُ الطَّفَلِ وأما طَفَّلَ : إذا أتى طعاما لم يدع إليه، فقیل، إنما هو من : طَفَلَ النهارُ ، وهو إتيانه في ذلک الوقت، وقیل : هو أن يفعل فِعْلَ طُفَيْلِ العرائسِ ، وکان رجلا معروفا بحضور الدّعوات يسمّى طُفَيْلًا ( ط ف ل) الطفل جب تک بچہ نرم و نازک رہے اس وقت تک اسے طفل کہاجاتا ہے یہ اصل میں مفرد ہے مگر کبھی بمعنی جمع بھی آتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا[ غافر/ 67] پھر تم کو نکالتا ہے کہ تم بچے ہوتے ہو ۔ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا[ النور/ 31] یا ایسے لڑکوں سے جو عورتوں کے پردے کی چیزوں سے واقف نہ ہوں ۔ طفل کی جمع اطفال آتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَإِذا بَلَغَ الْأَطْفالُ [ النور/ 59] اور جب تمہارے لڑکے بالغ ہوجائیں ۔ اور نرمونازک ہونے کے معنی کی مناسبت سے گداز بدن عورت کو طفلۃ کہاجاتا ہے ۔ اور طفلت طفولۃ وطفالۃ کے نرم ونازک ہونے کے ہیں ۔ اور جس ہرنی کے ساتھ اس کا بچہ ہوا سے مطفل کہاجاتا ہے طفلت الشمس اس وقت بولا جاتا ہے جس آفتاب نکلنے کو ہو اور ابھی تک اس کی دھوپ اچھی طرح زمین پر نہ پھیلی ہو ۔ شاعرنے کہا ہے ۔ ( الرمل) (293) وعلی الارض غیایات الطفل اور زمین پر تاحال صبح کا سوجھا کا موجود تھا ۔ اور طفل جس کے معنی ایسے کھانا میں شریک ہونا کے ہیں جس پر اسے ملایا نہ گیا ہو ، کے متعلق بعض نے کہا ہے کہ یہ طفل النھار سے ماخوذ ہے یعنی اس وقت آنا اور بعض نے کہا ہے کہ طفیل العرس ایک مشہور آدمی کا نام ہے جو بلا دعوت تقریبات میں شریک ہوجاتا تھا ۔ اور اسی سے طفل ہے جس کے معنی طفیلی بن کر جانے کے ہیں ۔ بلغ البُلُوغ والبَلَاغ : الانتهاء إلى أقصی المقصد والمنتهى، مکانا کان أو زمانا، أو أمرا من الأمور المقدّرة، وربما يعبّر به عن المشارفة عليه وإن لم ينته إليه، فمن الانتهاء : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف/ 15] ( ب ل غ ) البلوغ والبلاغ ( ن ) کے معنی مقصد اور متبٰی کے آخری حد تک پہنچے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ مقصد کوئی مقام ہو یا زمانہ یا اندازہ کئے ہوئے امور میں سے کوئی امر ہو ۔ مگر کبھی محض قریب تک پہنچ جانے پر بھی بولا جاتا ہے گو انتہا تک نہ بھی پہنچا ہو۔ چناچہ انتہاتک پہنچے کے معنی میں فرمایا : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف/ 15] یہاں تک کہ جب خوب جو ان ہوتا ہے اور چالس برس کو پہنچ جاتا ہے ۔ شد الشَّدُّ : العقد القويّ. يقال : شَدَدْتُ الشّيء : قوّيت عقده، قال اللہ : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان/ 28] ، ( ش دد ) الشد یہ شدد ت الشئی ( ن ) کا مصدر ہے جس کے معنی مضبوط گرہ لگانے کے ہیں ۔ قرآں میں ہے : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان/ 28] اور ان کے مفاصل کو مضبوط بنایا ۔ شيخ يقال لمن طعن في السّنّ : الشَّيْخُ ، وقد يعبّر به فيما بيننا عمّن يكثر علمه، لما کان من شأن الشَّيْخِ أن يكثر تجاربه ومعارفه، ويقال : شَيْخٌ بيّن الشَّيْخُوخَةُ ، والشَّيْخُ ، والتَّشْيِيخُ. قال اللہ تعالی: هذا بَعْلِي شَيْخاً [هود/ 72] ، وَأَبُونا شَيْخٌ كَبِيرٌ [ القصص/ 23] . ( ش ی خ ) الشیخ کے معنی معمر آدمی کے ہیں عمر رسید ہ آدمی کے چونکہ تجربات اور معارف زیادہ ہوتے ہیں اس مناسب سے کثیر العلم شخص کو بھی شیخ کہہ دیا جاتا ہے ۔ محاورہ شیخ بین الشیوخۃ والشیخ ولتیشخ یعنی وہ بہت بڑا عالم ہے قرآن میں ہے : ۔ هذا بَعْلِي شَيْخاً [هود/ 72] یہ میرے میاں بھی بوڑھے ہیں وَأَبُونا شَيْخٌ كَبِيرٌ [ القصص/ 23] . ہمارے والد بڑی عمر کے بوڑھے ہیں ۔ وفی ( موت) وتَوْفِيَةُ الشیءِ : بذله وَافِياً ، واسْتِيفَاؤُهُ : تناوله وَافِياً. قال تعالی: وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران/ 25] ، وقال : وَإِنَّما تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ [ آل عمران/ 185] ، ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ [ البقرة/ 281] ، إِنَّما يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسابٍ [ الزمر/ 10] ، مَنْ كانَ يُرِيدُ الْحَياةَ الدُّنْيا وَزِينَتَها نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمالَهُمْ فِيها[هود/ 15] ، وَما تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ [ الأنفال/ 60] ، فَوَفَّاهُ حِسابَهُ [ النور/ 39] ، وقد عبّر عن الموت والنوم بالتَّوَفِّي، قال تعالی: اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر/ 42] ، وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ، قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ [ السجدة/ 11] ، اللَّهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفَّاكُمْ [ النحل/ 70] ، الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل/ 28] ، تَوَفَّتْهُ رُسُلُنا[ الأنعام/ 61] ، أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ [يونس/ 46] ، وَتَوَفَّنا مَعَ الْأَبْرارِ [ آل عمران/ 193] ، وَتَوَفَّنا مُسْلِمِينَ [ الأعراف/ 126] ، تَوَفَّنِي مُسْلِماً [يوسف/ 101] ، يا عِيسى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ إِلَيَ [ آل عمران/ 55] ، وقدقیل : تَوَفِّيَ رفعةٍ واختصاص لا تَوَفِّيَ موتٍ. قال ابن عباس : تَوَفِّي موتٍ ، لأنّه أماته ثمّ أحياه اور توفیتہ الشیئ کے معنی بلا کسی قسم کی کمی پورا پورادینے کے ہیں اور استیفاء کے معنی اپنا حق پورا لے لینے کے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران/ 25] اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا ۔ وَإِنَّما تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ [ آل عمران/ 185] اور تم کو تہمارے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا ۔ اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا ۔ إِنَّما يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسابٍ [ الزمر/ 10] جو صبر کرنے والے ہیں ان کو بیشمار ثواب ملے گا ۔ مَنْ كانَ يُرِيدُ الْحَياةَ الدُّنْيا وَزِينَتَها نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمالَهُمْ فِيها[هود/ 15] جو لوگ دنیا کی زندگی اور اس کی زیب وزینت کے طالب ہوں ہم ان کے اعمال کا بدلہ انہیں دنیا ہی میں پورا پورا دے دتیے ہیں ۔ وَما تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ [ الأنفال/ 60] اور تم جو کچھ راہ خدا میں خرچ کرو گے اس کا ثواب تم کو پورا پورا دیاجائے گا : ۔ فَوَفَّاهُ حِسابَهُ [ النور/ 39] تو اس سے اس کا حساب پورا پورا چکا دے ۔ اور کبھی توفی کے معنی موت اور نیند کے بھی آتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر/ 42] خدا لوگوں کی مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو رات کو ( سونے کی حالت میں ) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے ۔ قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ [ السجدة/ 11] کہدو کہ موت کا فرشتہ تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے ۔ اللَّهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفَّاكُمْ [ النحل/ 70] اور خدا ہی نے تم کو پیدا کیا پھر وہی تم کو موت دیتا ہے ۔ الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل/ 28] ( ان کا حال یہ ہے کہ جب فرشتے ان کی روحیں قبض کرنے لگتے ہیں ۔ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنا[ الأنعام/ 61]( تو ) ہمارے فرشتے ان کی روحیں قبض کرلیتے ہیں ۔ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ [يونس/ 46] یا تمہاری مدت حیات پوری کردیں ۔ وَتَوَفَّنا مَعَ الْأَبْرارِ [ آل عمران/ 193] اور ہم کو دنیا سے نیک بندوں کے ساتھ اٹھا ۔ وَتَوَفَّنا مُسْلِمِينَ [ الأعراف/ 126] اور ہمیں ماریو تو مسلمان ہی ماریو ۔ مجھے اپنی اطاعت کی حالت میں اٹھائیو ۔ اور آیت : ۔ يا عِيسى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ إِلَيَ [ آل عمران/ 55] عیسٰی (علیہ السلام) میں تمہاری دنیا میں رہنے کی مدت پوری کرکے تم کو اپنی طرف اٹھا لوں گا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ توفی بمعنی موت نہیں ہے ۔ بلکہ اس سے مدراج کو بلند کرنا مراد ہے ۔ مگر حضرت ابن عباس رضہ نے توفی کے معنی موت کئے ہیں چناچہ ان کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسٰی (علیہ السلام) کو فوت کر کے پھر زندہ کردیا تھا ۔ أجل الأَجَل : المدّة المضروبة للشیء، قال تعالی: لِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر/ 67] ، أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ [ القصص/ 28] . ( ا ج ل ) الاجل ۔ کے معنی کسی چیز کی مدت مقررہ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ { وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى } [ غافر : 67] اور تاکہ تم ( موت کے ) وقت مقررہ تک پہنچ جاؤ ۔ لعل لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] ( لعل ) لعل ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔ عقل العَقْل يقال للقوّة المتهيّئة لقبول العلم، ويقال للعلم الذي يستفیده الإنسان بتلک القوّة عَقْلٌ ، وهذا العقل هو المعنيّ بقوله : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] ، ( ع ق ل ) العقل اس قوت کو کہتے ہیں جو قبول علم کے لئے تیار رہتی ہے اور وہ علم جو اس قوت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی عقل کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] اور سے توا ہل دانش ہی سمجھتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور وہی اللہ ہے جس نے تمہیں بذریعہ آدم مٹی سے پیدا کیا پھر تمہیں تمہارے آباء کے نطفہ سے پیدا کیا پھر خون کے لوتھڑ؁ سے پھر تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے بچہ کی صورت میں نکالتا ہے تاکہ تم اپنی جوانی کو یعنی اٹھارہ سال سے لیکر تیس سال تک پہنچ جاؤ اور تاکہ تم پھر جوانی کے بعد بوڑھے ہوجاؤ۔ اور کسی کی تم میں سے بلوغ اور بڑھاپے سے پہلے ہی روح قبض کرلی جاتی ہے اور تاکہ تم سب اپنے وقت مقررہ تک پہنچ جاؤ تاکہ تم بعث بعد الموت کی تصدیق کرو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٧ { ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ } ” وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا پہلے مٹی سے ‘ پھر نطفے سے ‘ پھر علقہ سے “ عَلَقَہکے لغوی معنی ایسی چیز کے ہیں جو کسی دوسری چیز کے ساتھ معلق ّہو۔ اس لفظ میں بچے کی تخلیق کے حوالے سے دوسرے مرحلے کی کیفیت بیان ہوئی ہے جب نطفہ رحم مادر کی دیوار کے ساتھ لٹکی ہوئی ایک جونک کی سی شکل اختیار کرلیتا ہے ۔ - ۔ - ۔ - ۔ لفظ ” عَلَقَہ “ کی مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورة المومنون کی آیت ١٤ کی تشریح۔ { ثُمَّ یُخْرِجُکُمْ طِفْلًا } ” پھر وہ تمہیں نکال لیتا ہے ایک بچے کی حیثیت سے “ { ثُمَّ لِتَبْلُغُوْٓا اَشُدَّکُمْ } ” پھر (تمہیں پروان چڑھاتا ہے ) تاکہ تم پہنچ جائو اپنی جوانی کو “ { ثُمَّ لِتَکُوْنُوْا شُیُوْخًا } ” پھر (تمہیں مزید عمر دیتا ہے ) تاکہ تم ہو جائو بوڑھے۔ “ یعنی حیات انسانی کا دورانیہ (life cycle) عام طور پر اسی نہج پر چلتا ہے۔ { وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّتَوَفّٰی مِنْ قَبْلُ } ” اور تم میں سے بعض وہ بھی ہیں جنہیں اس سے پہلے ہی وفات دے دی جاتی ہے “ بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو بڑھاپے کی عمر تک نہیں پہنچ پاتے۔ کوئی بچپن میں فوت ہوجاتا ہے اور کوئی جوانی میں۔ { وَلِتَبْلُغُوْٓا اَجَلًا مُّسَمًّی وَّلَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ ۔ ” اور (بعض کو مہلت دیتا ہے) تاکہ تم ایک وقت معین ّکو پہنچ جائو اور (یہ اس لیے ہے ) تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔ “ چاہے کوئی بچپن میں ہی انتقال کر جائے ‘ کوئی جوانی میں فوت ہو یا کوئی بہت طویل عمر پالے ‘ ہر شخص نے اپنی موت تک بہر صورت زندہ رہنا ہے اور ہر شخص کی موت کا وقت اللہ کے ہاں مقرر اور طے شدہ ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

96 That is, "Someone dies before birth, and someone before attaining youth, and someone before reaching old age. " 97 "An appropriate time" may either imply the time of death, or the time when all human beings will be resurrected and presented before their Lord. In the first case, the meaning would be: Allah passes every man through different stages of life and takes him to the specific time which He has appointed for everyone's return. Before that time even if the whole world joins to kill him, it cannot kill him; and when that time has arrived, none can keep him alive even if all the powers of the world join together to do so. In the second case, it would mean: This gamut of life has not been brought about so that man may end up in the dust and be completely annihilated, but Allah passes him through different stages of life so that all human beings may present themselves before Him at the time which He has appointed for the purpose. 98 That is, "You are not being passed through these different stages of lift so that you may live as the animals live and die as they die, but for the purpose that you may use yew common sense which Allah has granted you and thay understand the system in which you are living. The creation of a wonderful thing like life from the lifeless substances of the earth, then the coming into being of a marvelous creation like man from the microscopic germ of the sperm, then its developing inside the mother's womb, from the time of conception till delivery, in such a manner that its sex, its form and appearance, its bodily structure, its mental qualifies and characteristics, and its faculties and capabilities should be determined therein, un-influenced by any external factor or agency. Then the one who is to be eliminated by abortion does fall a prey to abortion, the one who is to die in infancy, does die in infancy, whether he be the child of a king, and the one who is to reach maturity or old age, dces reach that age, even through highly dangerous conditions, in which death should be certain, and the one who is to die in a particular stage of life, does die in that stage even if he is given the best medical attention and treatment in the best hospitals by the best doctors. Are not all these things pointing to the truth that the ultimate control of ow life and death is in the hand of an all-Mighty Sovereign? And when the reality is this that an all-Powerful Being is controlling ow life and death, then how did a prophet or a saint or an angel or a star or planet become worthy of ow worship and service? When did a creature attain the rank that we should pray to it, and accept it as the maker and un-maker of our destiny? And how did a human power have the status that we should obey its commands and prohibitions and its self-made law about the lawful and the unlawful, without question? (For further explanation, see Al-Hay: 5-7 and the E.N.'s on it).

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :96 یعنی کوئی پیدا ہونے سے پہلے اور کوئی جوانی کو پہنچنے سے پہلے اور کوئی بڑھاپے کو پہنچنے سے پہلے مر جاتا ہے ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :97 وقت مقرر سے مراد یا تو موت کا وقت ہے ، یا وہ وقت جب تمام انسانوں کو دوبارہ اٹھ کر اپنے خدا کے حضور حاضر ہونا ہے پہلی صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ ہر انسان کو زندگی کے مختلف مرحلوں سے گزارتا ہوا اس ساعت خاص تک لے جاتا ہے جو اس نے ہر ایک کی واپسی کے لیے مقرر کر رکھی ہے ۔ اس وقت سے پہلے ساری دنیا مل کر بھی کسی کو مارنا چاہے تو نہیں مار سکتی ، اور وہ وقت آجانے کے بعد دنیا کی ساری طاقتیں مل کر بھی کسی کو زندہ رکھنے کی کوشش کریں تو کامیاب نہیں ہو سکتیں ۔ دوسرے معنی لینے کی صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ یہ ہنگامہ ہستی اس لیے برپا نہیں کیا گیا ہے کہ تم مر کر مٹی میں مل جاؤ اور فنا ہو جاؤ ، بلکہ زندگی کے ان مختلف مرحلوں سے اللہ تم کو اس لیے گزارتا ہے کہ تم سب اس وقت پر جو اس نے مقرر کر رکھا ہے ، اس کے سامنے حاضر ہو ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :98 یعنی زندگی کے ان مختلف مراحل سے تم کو اس لیے نہیں گزارا جاتا کہ تم جانوروں کی طرح جیو اور انہی کی طرح مر جاؤ ، بلکہ اس لیے گزارا جاتا ہے کہ تم اس عقل سے کام لو جو اللہ نے تمہیں عطا کی ہے اور اس نظام کو سمجھو جس میں خود تمہارے اپنے وجود پر یہ احوال گزرتے ہیں ۔ زمین کے بے جان مادوں میں زندگی جیسی عجیب و غریب چیز کا پیدا ہونا ، پھر نطفے کے ایک خورد بینی کیڑے سے انسان جیسی حیرت انگیز مخلوق کا وجود میں آنا ، پھر ماں کے پیٹ میں استقرار حمل کے وقت سے وضع حمل تک اندر ہی اندر اس کا اس طرح پرورش پانا کہ اس کی جنس ، اس کی شکل و صورت ، اس کے جسم کی ساخت ، اس کے ذہن کی خصوصیات ، اور اس کی قوتیں اور صلاحیتیں سب کچھ وہیں متعین ہو جائیں اور ان کی تشکیل پر دنیا کی کوئی طاقت اثر انداز نہ ہو سکے ، پھر یہ بات کہ جسی اسقاط حمل کا شکار ہونا ہے اس کا اسقاط ہی ہو کر رہتا ہے ، جسے بچپن میں مرنا ہے وہ بچپن ہی میں مرتا ہے خواہ وہ کسی بادشاہ ہی کا بچہ کیوں نہ ہو ، اور جسے جوانی یا بڑھاپے کی کسی عمر تک پہنچنا ہے وہ خطرناک سے خطرناک حالات سے گزر کر بھی ، جن میں بظاہر موت یقینی ہونی چاہیے ، اس عمر کو پہنچ کر رہتا ہے ، اور جسے عمر کے جس خاص مرحلے میں مرنا ہے اس میں وہ دنیا کے کسی بہترین ہسپتال کے اندر بہترین ڈاکٹروں کے زیر علاج رہتے ہوئے بھی مر کر رہتا ہے ، یہ ساری باتیں کیا اس حقیقت کی نشاندہی نہیں کر رہی ہیں کہ ہماری اپنی حیات و ممات کا سر رشتہ کسی قادر مطلق کے ہاتھ میں ہے؟ اور جب امر واقعہ یہی ہے کہ ایک قادر مطلق ہماری موت و زیست پر حکمراں ہے تو پھر کوئی نبی یا ولی یا فرشتہ یا ستارہ اور سیارہ آخر کیسے ہماری بندگی و عبادت کا مستحق ہو گیا ؟ کسی بندے کو یہ مقام کب سے حاصل ہوا کہ ہم اس سے دعائیں مانگیں اور اپنی قسمت کے بننے اور بگڑنے کا مختار اس کو مان لیں؟ اور کسی انسانی طاقت کا یہ منصب کیسے ہو گیا کہ ہم اس کے قانون اور اس کے امر و نہی اور اس کے خود ساختہ حلال و حرام کی بے چون و چرا اطاعت کریں؟ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد سوم ، الحج ، حاشیہ ۹ ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

18: یعنی یہ سمجھو کہ جو ذات انسان کو تخلیق کے ان سارے مراحل سے گذار رہی ہے، اس کو کسی اور شریک کی کیا حاجت ہے؟ اور اس کے سوا کون ہے جو عبادت کے لائق ہو؟ نیز جس نے انسان کو اتنے سارے مراحل سے گذارا، کیا وہ اسے ایک اور مرحلے سے گذار کر اسے ایک دوسری زندگی نہیں دے سکتی؟

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦٧۔ ٦٨۔ یہاں انسان کی پیدائش کا ذکر اللہ تعالیٰ نے مختصر طور پر فرمایا ہے قد افلح المومنون اور بعضی اور آیتوں میں اور صحیح حدیثوں میں انسان کی پیدائش کی تفصیل میں خدا تعالیٰ کی قدرت کے اس قدر نمونے ہیں کہ اور مخلوقات کے سوا اگر انسان اپنی پیدائش کے حال کو نظر غور سے دیکھے تو خدا کی قدرت کا حشر کی باتوں کا پورا اس کو یقین ہوسکتا ہے اسی واسطے سورة والذریات میں اللہ تعالیٰ نے اور عجائبات قدرت کا ذکر فرما کر پھر فرمایا ہے کہ خود انسان کی پیدائش میں انسان کے غور کرنے اور خدا کی قدرت کے پہچاننے اور حشر اور قیامت کے یقین کرنے کے لئے بہت سی نشانیاں قدرت الٰہی کی ہیں حقیقت میں اگر غور کیا جائے تو فقط نطفہ کے رحم میں ٹھہرنے سے بچہ کے ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کے دن تک ہی وہ نشانیاں قدرت الٰہی کی ہیں کہ جن کا بیان انسان کی طاقت سے باہر ہے جس طرح مٹی کا خمیر اٹھا کر اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کے جسم کا پتلہ بنایا اسی طرح جس نطفہ سے اللہ تعالیٰ کو بچہ پیدا کرنا منظور ہوتا ہے تو رحم میں چالیس روز تک اس نطفہ کا فقط خمیر اٹھایا جاتا ہے پھر اس خمیر کا خون رحم میں بنتا ہے۔ اہل تشریح نے لکھا ہے کہ مرد کے نطفہ کو بچہ کی پیدائش میں فقط اتنا ہی دخل ہے کہ جس طرح دہی کے ضامن سے دودھ جم جاتا ہے۔ اسی طرح مرد کا نطفہ عورت کی منی کا ضامن ہے اور باقی پیدائش بچہ کے پتلے کی عورت کے حیض کے خون سے ہے اہل حدیث نے صحیح حدیثوں کے مضمون سے اہل تشریح کے اس قول کو ضعیف ٹھہرایا ہے اور اسی بات کو ثابت کیا ہے کہ عورت اور مرد کی منی سے مل کر خمیر اٹھتا ہے اور اس خمیر سے خون ١ ؎ بنتا ہے۔ اور اس خون کا گوشت بنتا ہے پھر اس گوشت سے ہڈیاں بنتی ہیں پھر ان ہڈیوں کے اپور اور گوشت کا غلاف چڑھایا جاتا ہے چار مہینے میں یہ سب کچھ ہو کر پھر اس پتلے میں اللہ کے حکم سے روح پھونکی جاتی ہے اللہ کے حکم سے عورت کے رحم پر جو فرشتہ تعینات ہے وہ نطفہ سے خون اور خون سے گوشت بننے کے وقت اللہ کا حکم حاصل کرتا رہتا ہے اگر حکم ہوتا ہے تو پورا پتلا تیار ہوجاتا ہے ورنہ حمل ساقط ہوجاتا ہے گوشت سے جب پتلا بننے لگتا ہے تو وہ فرشتہ یہ بھی پوچھتا ہے کہ یا اللہ لڑکے کا پتلا تیار ہوگا یا لڑکی کا جس طرح اللہ کا حکم ہوتا ہے اس کے موافق وہ فرشتہ عمل کرتا ہے اسی وقت یہ چار باتیں بھی لکھی جاتی ہیں کہ اس بچہ کی عمر کتنی ہوگی ‘ کب تک کی دنیا میں زیست ہوگی ‘ رزق فراخی سے ملے گا یا تنگی سے ‘ حرام طریقہ سے کمائے گا یا حلال طریقہ سے ‘ تمام عمر عمل کیسے کرے گا اور پھر خاتمہ کس طرح کے عمل پر ہوگا اسی کو خط تقدیر کہتے ہیں اسی کے موافق مرنے کے وقت آدمی کا خاتمہ ہوتا ہے۔ اسی کے سبب سے شریعت میں خاتمہ کا ڈر رکھا گیا ہے۔ صحیح مسلم ١ ؎ ترمذی نسائی مسند امام احمد میں جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ خط تقدیر کے سبب سے بعضے نیک آدمی آخر عمر میں برے کام کرنے لگتے ہیں اور اسی حال میں مرجاتے ہیں اور دوزخی قرار پاتے ہیں اور بعضے بد آدمی اخیر عمر میں نیک کام کرتے ہیں اور اسی حال میں مر کر جتنی قرار پاتے ہیں اسی موقع پر صحابہ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا تھا کہ حضرت جب دار و مدار خط تقدیر اور خط تقدیر کے موافق خاتمہ پر ہے تو تمام عمر کے نیک عمل سے کیا فائدہ ہے آپ نے فرمایا تم نیک عمل کئے جائو اللہ تعالیٰ نے اپنے علم غیب کے موافق جس کو جس انجام کے قابل پیدا کیا ہے وہ ویسا ہی اس سے کام لیتا ہے علما نے لکھا ہے کہ جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ تقدیر کا لکھا پلٹ جاتا ہے ان کی مراد بھی یہی خط تقدیر ہے کہ عمر بھر کراماً کاتبیں اور دنیا کے لوگوں کے نزدیک بعضے شخصوں کا ایک ڈھنگ رہتا ہے اسی پر سے فرشتے اور دنیا کے لوگ انجام کا ایک منصوبہ باندھ لیتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے موافق انجام عمر بھر کے ڈھنگ کے مخالف ہوتا ہے غرض علم ازلی الٰہی نہیں پلٹتا۔ ترمذی ٢ ؎ ابودائود اور صحیح ابن حبان کے حوالہ سے ابو موسیٰ اشعری کی صحیح حدیث ایک جگہ گزرچکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کے پتلے کے لئے تمام زمین کی مٹی لی ہے اسی سبب سے آدم ( علیہ السلام) کی اولاد میں کوئی گورا ہے کوئی کالا کوئی بدمزاج کوئی خوش مزاج حاصل کلام یہ ہے کہ آدم (علیہ السلام) کی پیدائش کے بعد اگرچہ اولاد آدم کی پیدائش نطفہ سے ہے لیکن اس نطفہ میں آدم (علیہ السلام) کے پتلے کی مٹی کا دخل بھی چلا آتا ہے اسی واسطے مٹی سے پیدائش کے ذکر میں اولاد آدم کو بھی شریک کیا جا کر خلقکم من تراب فرمایا۔ اوپر ذکر تھا کہ ہر شخص پر اللہ کا یہ حق ہے کہ وہ خالص اللہ کی عبادت کرے ان آیتوں میں فرمایا یہ حق اس واسطے ہے کہ اس نے ہر شخص کو پہلے مٹی سے بنایا پھر منی کی بوند سے پھر خون کی پھٹکی سے پھر اس یکے حکم سے بچہ پیدا ہو کر کوئی فقط جوانی تک پہنچا اور کوئی بڑھاپے تک جیا پھر مرا یہ سب کچھ اس لئے کیا گیا کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ ہر شخص کی عمر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہے اس لئے ایک نطفہ سے پیدا ہو کر سب یکساں عمر کو نہیں پہنچتے اب ان منکرین حشر کو یہ سمجھنا چاہئے کہ جس صاحب قدرت نے انسان کی پہلی پیدائش میں اپنی یہ قدرت دکھائی اس کی قدرت کے آگے یہ کیا مشکل ہے کہ وہ مٹی سے دوبارہ پتلا بنا کر اسی پتلے میں روح پھونک دے پھر فرمایا پہلی دفعہ کا جینا اور مرنا جو اللہ کے حکم سے ہے وہ تو سب کی آنکھوں کے سامنے ہے دوبارہ جینے کو یہ لوگ مشکل جانتے ہیں اللہ کے حکم کے آگے کوئی چیز مشکل نہیں ہے کیونکہ جس کام کے ہوجانے کے لئے اس کا حکم ہو وہ فوراً ہوجاتا ہے۔ (١ ؎ صحیح بخاری ص ٥٦١ ج ١۔ ) (١ ؎ صحیح مسلم کتاب القدر ص ٣٣٢ تا ٣٣٤ ج ٢) (٢ ؎ جامع ترمذی تفسیر سورة بقرہ ص ١٤٠ ج ٢۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(40:67) نطفۃ : اسم مفرد۔ صاف پانی۔ یہاں مراد نطفۂ انسانی ہے انسان کی منی اس کے اور بھی کئی مشتقات دوسرے معنی میں آتے ہیں۔ نطف عیب یا عیب میں آلودہ ہونا۔ نطفۃ چھوٹے موتی۔ ناطف ہر سیال چیز۔ وغیرہ۔ علقۃ : جمے ہوئے خون کی ایک پھٹکی ، خون کی وہ پھٹکی جو منی انسانی سے پیدا ہوتی ہے یہاں یہی مراد ہے۔ اس کو علقہ اس لئے کہتے ہیں کہ یہ خون کی پھٹکی اپنی اس رطوبت میں جو اس کے ساتھ لگی رہتی ہے معلق ہوتی ہے جب یہ رطوبت خشک ہوجائے تو پھر اس کو علقہ نہیں کہتے۔ ثم لتبلغوا : لتبلغوا سے قبل عبارت محذوف ہے ای ثم یبقیکم لتبلغوا۔ پھر تمہیں زندہ رکھا یا پرورش کی کہ تم (اپنی جوانی کو) پہنچو۔ لام تعلیل کا ہے تبلغوا مضارع جمع مذکر حاضر کا صیغہ ہے ۔ نون اعرابی بوجہ عمل لام ساقط ہوگیا۔ تاکہ تم پہنچو۔ بلوغ باب نصر سے مصدر۔ اشدکم : مضاف مضاف الیہ۔ تمہارا زور جوانی۔ تمہاری جوانی۔ اشد کے اصل معنی ہیں عقل وتمیز کی قوت۔ اور جگہ قرآن مجید میں انہی (جوانی کے) معنوں میں آیا ہے۔ حتی اذا بلغ اشدہ (46:15) یہاں تک کہ جب جواب ہوتا ہے۔ ثم لتکونوا شیوخا۔ یہاں بھی لتکونوا سے قبل یبقیکم محذوف ہے۔ ای ثم یبقیکم لتکونوا شیوخا پھر تمہیں زندہ رکھا تاآنکہ تم بوڑھے ہوجاؤ۔ من قبل اس سے پہلے یعنی بڑھاپے یا جوانی سے قبل۔ ولتبلغوا : ای ویفعل ذلک لتبلغوا۔ اور یہ سب وہ اس لئے کرتا ہے کہ تم پہنچ جاؤ۔ اجل مسمی۔ وقت مقررہ۔ یعنی موت۔ خواہ وہ پڑھاپے میں آئے یا جوانی میں یا اس سے قبل اس کا وقت مقررہ ہے۔ ولعلکم تفعلون ۔ تاکہ اس کے اندر قدرت کی جو نشانیاں ہیں یا جو عبرتیں یا جو حکمتیں ہیں ان کو تم سمجھو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 یعنی کوئی پیدا ہونے سے پہلے، کوئی جوانی کو پہنچنے سے پہلے اور کوئی بوڑھا ہونے سے پہلے مرجاتا ہے۔8 یعنی اس عمر تک جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے لکھی ہے با قیامت جبکہ تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ ہو کر اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے۔9 یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں زندگی کے ان مختلف مراحل سے اس لئے گزارتا ہے کہ جب تم اس حیرت انگیز نظام پر غور کرو تو سمجھ سکو کہ کوئی خدا ہے جس نے اس ساری کائنات کو پیدا کیا ہے اور جو اپنی قدرت کاملہ سے اس کا نظام چلا رہا ہے اور یہ کہ وہ اپنی ذات وصفات میں یکتا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں، جس کی اس کے علاوہ عبادت کی جائے۔ شاہ صاحب (رح) اپنی توضیح میں لکھتے ہیں، یعنی اتنے احوال تم پر گزرے، شاید ایک حال اور بھی گزرے ( اور) وہ ( ہے) مر کر جینا۔ ( موضح) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

9۔ یعنی تمہارے باپ کو۔ 10۔ یعنی آگے ان کی نسل کو۔ 11۔ یعنی جوانی اور بڑہاپے سے پہلے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنی الوہیت کے واضح دلائل دے کر حکم دیا ہے کہ صرف میری ہی فرمانبرداری کی جائے۔ اس لیے کہ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور اسی نے ہی انسان کو مختلف مراحل کے بعد پیدا کیا ہے۔ جس رب کی تابعداری کا حکم ہوا ہے اسی نے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ لفظ رب کا پہلا معنٰی خالق ہے۔ اس بنا پر ارشاد ہوا کہ اسی نے تمہیں پہلے مٹی سے پیدا کیا۔ یعنی حضرت آدم (علیہ السلام) اور آدم (علیہ السلام) سے اس کی بیوی کو پیدا کیا۔ پھر ان سے انسان کی آفزائش کا سلسلہ شروع فرمایا۔ (النساء : ١) اور تمام انسانوں کی تخلیق کا آغاز نطفہ سے کیا۔ جس سے لوتھڑا بنایا۔ پھر بچہ بنا کر تمہیں تمہاری ماؤں کے بطن سے پیدا کیا اور تمہیں بھرپور جوانی تک پہنچایا۔ پھر تمہیں بوڑھا کرتا ہے اور اس کے بعد تم اپنی موت کے وقت کو پہنچ جاتے ہو۔ یہ تخلیقی مراحل اس لیے بتائے اور سمجھائے جارہے ہیں تاکہ تم سمجھنے کی کوشش کرو کہ وہی ایک ذات ہے جو تمہیں زندگی عطا کرتی ہے اور وہی موت سے ہمکنار کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ جب کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو اسے صرف ہوجانے کا حکم دیتا ہے تو وہ کام اس کی منشا اور نقشے کے مطابق ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے خالق ہونے کے ثبوت میں انسان کی تخلیق کا کئی بار تذکرہ کیا ہے اور بار بار انسان کو توجہ دلائی ہے تاکہ انسان اپنے بارے میں غور کرے کہ اسے کیسے اور کس نے اور کس لیے پیدا کیا ہے۔ ظاہربات ہے کہ اسے صرف ایک ” اللہ “ ہی نے پیدا کیا ہے۔ لہٰذا اسی سے مانگنا اور اسی کی عبادت کرنی چاہیے۔ ” حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے وہ حدیث کو مرفوع بیان کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے رحم میں ایک فرشتہ مقرر کر رکھا ہے وہ پوچھتا ہے اے میرے رب ! یہ نطفہ ہے اے میرے رب ! یہ گوشت کا لوتھڑا ہے جب اللہ تعالیٰ کسی کی تخلیق کا فیصلہ فرماتا ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ فرشتہ کہتا ہے اے میرے رب مذکر یا مؤنث بدبخت یا خوش بخت اس کا رزق کتنا ہے اس کی عمر کتنی ہے اس طرح سب کچھ انسان کی ماں کے پیٹ میں لکھ دیا جاتا ہے۔ “ [ رواہ مسلم : باب کَیْفِیَّۃِ الْخَلْقِالْخَلْقِ الآدَمِیِّ فِی بَطْنِ أُمِّہِ وَکِتَابَۃِ رِزْقِہِ وَأَجَلِہِ وَعَمَلِہِ وَشَقَاوَتِہِ وَسَعَادَتِہِ ] مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا فرمایا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ انسان کو مختلف مراحل سے گزار کر ایک بچے کی شکل میں ماں کے پیٹ سے پیدا کرتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہی آدمی کو جوان اور بوڑھا کرتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہی موت دیتا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے ہر کسی کی موت کا وقت مقرر کر رکھا ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ ہی موت وحیات کا مالک ہے۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ جو کام کرنا چاہے تو اس کے لیے صرف لفظ کُنْ کہتا ہے تو وہ کام اس کی مرضی کے مطابق ہوجاتا ہے۔ ٨۔ انسان کو اپنی تخلیق اور اللہ کی توحید کے دلائل سمجھنے کے لیے عقل سے کام لینا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن انسان کی تخلیق کے مختلف مراحل : ١۔ ” اللہ “ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا۔ (آل عمران : ٥٩) ٢۔ حوّا کو آدم سے پیدا کیا۔ (النساء : ١) ٣۔ ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ (المومنون : ١٢) ٤۔” اللہ “ نے انسان کو نطفہ سے پیدا کیا۔ (النحل : ٤) ٥۔ ہم نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا۔ (الدھر : ٢) ٦۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین شکل و صورت میں پیدا فرمایا۔ (التین : ٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 67 تا 68 اس کرۂ ارض پر انسانی پیدائش کا ارداک انسانی علم نہیں کرسکتا ، کیونکہ انسان اس وقت نہ تھا جب اسے پیدا کیا گیا تھا ، انسانی پیدائش کے تسلسل میں بعض امور ایسے ہیں جن کا مشاہدہ انسان کرتا ہے لیکن یہ انسانی مشاہدہ اپنی موجودہ ترقی یافتہ شکل میں زمانہ حال میں سامنے آیا ہے ، نزول قرآن کے صدیوں بعد۔ پہلی بات یہ ہے کہ انسان کو مٹی سے پیدا کیا گیا اور یہ واقعہ اس وقت ہوا جب انسان نہ تھا۔ لیکن معلوم ہوگیا کہ اس کرۂ ارض پر مٹی ہی حیات کی بنیاد ہے۔ اسی سے انسان کو بنایا گیا ہے اور اسے زندگی دی گئی ہے۔ یہ بات اللہ کے سوا کوئی اور نہیں جانتا کہ یہ معجزہ کس طرح ظہور میں آیا زندگی اور زمین کی تاریخ میں یہ عظیم واقعہ کب اور کس طرح وجود میں آیا۔ رہا نسلوں کا چلنا تو اس کا نظام یوں بنایا گیا کہ مرد کا خلیہ یعنی نطفہ جب عورت کے انڈے سے ملتا ہے اور یہ دونوں آپس میں متحد ہوجاتے ہیں اور رحم میں خون کے ایک لوتھڑے کی شکل میں ٹک جاتے ہیں تو جنین اپنے مراحل طے کرتا ہے اور اپنے آخری مرحلے میں بچہ نمودار ہوتا ہے ۔ پیدا ہونے سے قبل بچے میں بہت بڑے بڑے انقلابات ہوتے رہتے ہیں۔ اگر ابتدائی خلیے کو غور سے دیکھا جائے تو اس کی زندگی بچے کی زندگی سے زیادہ طویل ہے یعنی ولادت سے لے کر موت تک کے عرصہ سے ، سیاق کلام میں قرآن مجید نے یہاں صرف اس کی بعض ممتاز صفات و مراحل کا ذکر کیا ہے۔ یعنی بچپنے کا مرحلہ۔ پھر سن رشد تک پہنچنا یعنی تیس سال کی عمر تک پھر بڑھاپا۔ یہ وہ مراحل ہیں جنہیں طے کرکے انسان اپنے کمزور ، آغازوانجام کے درمیان اپنی پوری قوت تک پہنچتا ہے۔ ومنکم من یتوفی من قبل (40: 67) تم میں سے کوئی پہلے ہی واپس بلالیا جاتا ہے “۔ اور وہ یہ پورے مراحل طے نہیں کرتا یا بعض مراحل اس سے چھوٹ جاتے ہیں اور وہ فوت ہوجاتا ہے۔ ولتبلغوآ اجلا مسمی (40: 67) ” یہ سب کچھ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ تم اپنے مقررہ وقت تک پہنچ جاؤ “۔ یہ وقت مقرر ، طے شدہ اور معلوم ہے۔ اس میں کوئی تقدیم اور تاخیر نہیں ہوتی۔ ولعلکم تعقلون (40: 67) ” اور اس لیے کہ تم حقیقت کو سمجھو “۔ جنین کا سفر طے کرنا ، پھر بچے کا سفر طے کرنا ، پھر ان کی شکل و صورت کا حسن اور ان کی طبیعی نشوونما کے صحیح صحیح اندازے اور اطوار میں سوچنے کا بہت بڑا سامان ہے۔ جنین کا سفر تو نہایت ہی حیرت انگیز سفر ہے۔ علوم طبیہ کی ترقی کے بعد تو اس کے بارے میں ہم نے حیرت انگیز معلومات حاصل کرلی ہیں۔ علوم جنین ایک مستقل شعبہ ہے لیکن قرآن نے جس انداز سے آج سے چودہ سو سال قبل اس کے بعض مراحل کی طرف جس ٹھیک ٹھیک اندازے سے اشارہ کیا ہے ، یہ فکر ونظر کے لیے دامن گیر ہے۔ انسان کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ ان مراحل سے غافل ہوکر گزر جائے اور ان پر گہرا غور وفکر نہ کرے۔ جنین کا سفر اور بچے کا سفر انسانی احساس پر گہرے اثرات چھوڑتے ہیں اور انسانی دل کو خوب جھنجھوڑتے ہیں۔ چاہے عقل ورشد کے جس مرحلے میں بھی وہ ہو۔ ہر نسل انسانی ، اپنی معلومات کے حوالے سے اس سے متاثر ہوتی ہے ، اس لیے قرآن نے انسانی نسلوں کو اس طرف متوجہ کیا ہے اس لیے کہ اس سے انسان متاثر ہوتا ہے۔ اس کے بعد وہ آزاد ہے ، لبیک کہے یا نہ کہے۔ اس بحث کے بعد زندہ کرنے اور مارنے اور تخلیق اور نشوونما کے بارے میں ایک سبق آموز تبصرہ : ھوالذی۔۔۔۔ کن فیکون (40: 68) ” وہی ہے زندگی اور موت دینے والا۔ وہ جس بات کا بھی فیصلہ کرتا ہے بس ایک حکم دیتا ہے کہ وہ ہوجائے اور وہ ہوجاتی ہے “۔ قرآن میں آیات موت وحیات کا بہت ذکر ہوا ہے۔ کیونکہ موت وحیات کا مضمون انسانی شخصیت کو گہرے طور پر متاثر کرتا ہے۔ یہ نہایت ہی ممتاز اور باربار دہرائے جانے والے واقعات ہیں اور انسانی حس ان کو بہت ہی قریب سے دیکھتی ہے۔ بادی النظر میں زندہ کرنے اور مارنے سے جو بات انسان کی سمجھ میں آتی ہے۔ غور سے دیکھا جائے تو حیات وممات کا مفہوم اس سے کہیں گہرا ہے۔ حیات کی بھی کئی اقسام ہیں ، موت کی بھی کئی اقسام ہیں۔ زمین کو ہم مردہ دیکھتے ہیں۔ پھر زمین ہی کو ہم زندہ اور سرسبز دیکھتے ہیں۔ جب مردہ ہو تو درختوں کے پتے نہیں ہوتے ، شاخیں خشک نظر آتی ہیں ، ایک تو یہ موسم ہوتا ہے ، اور جب یہ زندہ ہوتے ہیں تو یہی مردہ شاخیں اور ٹہنیاں سرسبز اور شاداب ہوکر لہلہاتی ہیں۔ ان شاخوں کا انگ انگ پھوٹ جاتا ہے اور پھول اور پتے نکل آتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ زندگی ان شاخوں سے ابلی پڑتی ہے۔ ایک انڈے کو دیکھو ، پھر بچے کو دیکھو ، بیج کو دیکھو اور اگنے والے پودے کو دیکھو ، اور پھر الٹے سفر کو دیکھو کہ یہی زندگی موت میں بدل جاتی ہے اور بچھے ہوئے کھیت سامنے آتے ہیں۔ یہ سب حالات دل اور دماغ کو متاثر کرتے ہیں اور بمو جب ” فکر ہر کس بقدر ہمت اوست “ ہر شخص کا تاثر ہوتا ہے۔ آخر میں موت وحیات سے آگے ، اہم سوال کہ کائنات کس طرح وجود میں آئی ؟ بس اللہ کا ارادہ ہوا ، کن کا حکم ہوا اور سب کچھ ہوگیا یا جو چاہا ہوگیا۔ یہ کائنات ہوتی چلی گئی اور تسلسل قائم ہوتا چلا گیا۔ فتبارک اللہ احسن الخالقین۔ حیات وممات کے اس منظر کے بعد اور انشاء و تخلیق کے کن فیکون کے بعد ، اللہ کی نشانیوں اور مہربانیوں میں جدل وجدال اور بحث و تکرار لاحاصل اور بہت عجیب و غریب ہے اور رسولوں کے پیغام اور دعوت کی تکذیب اس سے بھی عجیب تر ہے۔ اب ہوجاؤ خبردار ! ایک خوفناک منظر تمہارے سامنے آنے والا ہے۔ خبردار ! یہ قیامت ہے اور تم نے اس منظر کو دیکھنا ہے ، ذرا دیکھنے سے پہلے ہی دیکھ لو !

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

دوسری آیت میں انسان کی تخلیق کے مختلف ادوار بتائے اول تو یہ فرمایا کہ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا فرمایا یعنی انسان کی ابتدائی تخلیق مٹی سے ہے سب سے پہلے انسان حضرت آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا فرما دیا اس طرح سے ان کی پوری نسل کی اصل مٹی سے ہوگئی اور حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کے بعد ان کی نسل کی پیدائش کا اللہ تعالیٰ نے یوں سلسلہ چلایا کہ ہر فرد مرد کے نطفہ سے پیدا ہوتا ہے مرد کا نطفہ عورت کے رحم میں جاتا ہے کچھ عرصے کے بعد یہ نطفہ علقہ یعنی جما ہوا خون بن جاتا ہے پھر یہ جما ہوا خون چبانے کے قابل ایک گوشت کا ٹکڑا بن جاتا ہے پھر اللہ تعالیٰ وہیں رحم مادر میں اس کی صورت بنا دیتا ہے اور وہیں پر ہڈیاں بنا دیتا ہے پھر اللہ تعالیٰ ہڈیوں پر گوشت چڑھا دیتا ہے پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے پھر اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق وہ باہر آجاتا ہے جب باہر آجاتا ہے تو اس وقت طفل ہوتا ہے اس شان طفولیت سے ہر بچہ گزرتا ہے اس تفصیل کو (ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ ثُمَّ یُخْرِجُکُمْ طِفْلًا) میں بیان فرمایا ہے۔ انسان کی تخلیق اور اس کی زندگی کے مختلف اطوار و ادوار اس تفصیل اور تفسیر کو بیان کرتے ہوئے سورة الحج کے پہلے رکوع اور سورة المومنون کے پہلے رکوع کو سامنے رکھا گیا ان دونوں جگہ اجمال کی تفصیل ہے اس کے بعد زندگی کے مزید ادوار بیان فرمائے۔ اولاً فرمایا (ثُمَّ لِتَبْلُغُوْا اَشُدَّکُمْ ) ای ثم یبقیکم لتبلغوا اشدکم یعنی اللہ نے تمہیں حالت طفلی میں پیدا فرمایا پھر تم کو اتنی زندگی دی کہ طاقت کے زمانہ یعنی جوانی کے زمانہ کو پہنچ گئے جسمانی قوت بھی دی سمجھ بھی دی عقل بھی عنایت فرمائی اور قوت گویائی بھی عطا فرمائی (ثُمَّ لِتَکُوْنُوْا شُیُوخًا) پھر تمہاری جوانی آگے بڑھتی رہی بڑھاپا قریب آتا چلا گیا حتیٰ کہ تم بوڑھے ہوگئے۔ پھر یہ ضروری نہیں کہ ہر شخص جوان ہو یا ہر شخص بوڑھا ہو اللہ تعالیٰ بعض کو پہلے ہی اٹھا لیتا ہے بہت سے لوگ بڑھاپا پانے سے پہلے ہی یا جوانی آنے سے پہلے ہی اس دنیا سے اٹھالیے جاتے ہیں اور موت ان کا صفایا کردیتی ہے اس کو (وَمِنْکُمْ مَنْ یُّتَوَفّٰی مِنْ قَبْلُ ) میں بیان فرمایا پھر فرمایا (وَلِتَبْلُغُوْا اَجَلًا مُسَمًّی) یعنی مختلف ادوار سے گزرتے ہوئے آخر میں سب کو مقررہ اجل یعنی قیامت کے دن تک پہنچنا ہے یعنی اس دن حاضر ہونا ہے وہاں سب کی حاضری ہوگی اور جو زندگی دی گئی تھی اس میں جو اعمال کیے ان کا محاسبہ ہوگا۔ (وَلَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ ) اور تاکہ تم سمجھ لو کہ مختلف ادوار سے جو گزرتے ہو یہ کیوں گزارے جا رہے ہیں اور اس میں حکمتوں اور عبرتوں کی کیا کیا باتیں ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

66:۔ ” وھو الذی خلقکم “ یہ دلیل عقلی کا اعادہ ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے تمہارے باپ آدم کو مٹی سے پیدا فرمایا پھر نطفے سے اس کی نسل کا سلسلہ شروع کیا، نطفے کو رحم مادر میں محض اپنی قدرت سے گوشت کے لوتھڑے کی شکل میں تبدیل کردیا، پھر اس سے کامل الخلقت بچہ پیدا کیا، پھر تمہیں زندگی عطا کی یہاں تک کہ تم جوانی کو پہنچے پھر مزید زندگی عطا فرمائی یہاں تک کہ تم بڑھاپے کو پہنچ گئے۔ ” لتبلغو “ اور ” لتکونوا “ دونوں سے پہلے ” یبقیکم “ مقدر ہے (مدارک) ۔ تم میں سے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو جوانی یا بڑھاپے سے پہلے ہی موت کا جام پی لیتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے کرتا ہے تاکہ تم اپنے معین وقت (اجل موت) تک پہنچ جاؤ اور اس کے کمال قدرت میں غور و فکر کر کے اس کی ربوبیت اور اس کی وحدانیت کو سمجھ جاؤ۔ ” ھو الذی یحییٰ ویمیت “ جیسے زندگی اس کے ہاتھ میں ہے اسی طرح موت بھی اسی کے قبضہ قدرت میں ہے، بلکہ سارا نظام کائنات ہی اس کے زیر تصرف ہے۔ اس کے لیے کوئی کام مشکل نہیں، وہ جس کام کا فیصلہ فرما لیتا ہے، اس کے سر انجام ہونے کے لیے اس کا ارادہ ہی کافی ہوتا ہے۔ ادھر ارادہ فرمایا، ادھر کام مکمل ہوگیا۔ بس یہی قادر مطلق اور متصرف علی الاطلاق تم سب کا معبود اور کارساز ہے، اس کے سوا کسی کو حاجات میں غائبانہ مت پکارو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(67) وہ اللہ تعالیٰ وہ ہے جس نے تم کو یعنی آدم کی ابتداء مٹی سے بنایا پھر بتدریج نطفہ سے پھر جمے ہوئے خون سے بنایا پھر تم کو بچہ بنا کر نکالتا ہے پھر تم کو باقی رکھتا ہے تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچ جائو پھر تم کو باقی رکھتا ہے یہاں تک کہ تم بوڑھے ہوجائو اور بعض تم میں سے وہ ہے جو اس سے پہلے ہی مرجاتا ہے اور تم میں سے ہر ایک کو ایک خاص عمر دیتا ہے تاکہ تم سب اپنے معین اور مقررہ وقت تک پہنچو اور تاکہ تم عقل وسمجھ سے کام لو۔ مطلب یہ ہے کہ تمہاری پیدائش اور تمہارے بنانے میں مٹی اور خاک کا بڑا عنصر ہے ابتداء تم کو خاک ہی سے بنایا یعنی آدم کو پھر ان کی نسل کو نطفہ سے جو مٹی کا ایک جو ہریاست ہے اس سے پیدا کیا یہ سلسلہ تدریجی ہے انسان جو کھاتا ہے اس کی غذا مٹی سے نکلتی ہے پھر اس غذا سے خون پیدا ہوتا ہے اس سے نطفہ پھر وہ نفطہ رحم مادر میں جمے ہوئے خون کی شکل اختیار کرتا ہے پھر یہ جما ہوا خون مختلف شکلیں اختیار کرکے بچہ بن جاتا ہے پھر تم کو بچہ کی شکل میں نکالتا اور پیدا کرتا ہے پھر تم کو زندہ رکھتا ہے تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچ جائو پھر تم کو زندہ رکھتا ہے تاکہ بڑھاپے کو پہنچو اور بوڑھے ہوجائو اور بعض تم میں سے اس سے پہلے ہی مرجاتا ہے۔ بہرحال ! مقررہ عمر تک پہنچنے میں سب برابر ہیں جو عمر مقرر کردی ہے اس کو سب پورا کرتے ہیں اور اس سلسلہ کو جاری رکھنے کا منشا یہ ہے کہ تم سمجھو کہ جو یہ کام کرتا ہے وہ وحدہ لاشریک ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی اتنے احوال تم پر گزرے شاید ایک حال اور بھی گزرے وہ مر کر جینا۔