Surat Ha meem Assajdah

Surah: 41

Verse: 12

سورة حم السجدہ

فَقَضٰہُنَّ سَبۡعَ سَمٰوَاتٍ فِیۡ یَوۡمَیۡنِ وَ اَوۡحٰی فِیۡ کُلِّ سَمَآءٍ اَمۡرَہَا ؕ وَ زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنۡیَا بِمَصَابِیۡحَ ٭ۖ وَ حِفۡظًا ؕ ذٰلِکَ تَقۡدِیۡرُ الۡعَزِیۡزِ الۡعَلِیۡمِ ﴿۱۲﴾

And He completed them as seven heavens within two days and inspired in each heaven its command. And We adorned the nearest heaven with lamps and as protection. That is the determination of the Exalted in Might, the Knowing.

پس دو دن میں سات آسمان بنا دیئے اور ہر آسمان میں اس کے مناسب احکام کی وحی بھیج دی اور ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں سے زینت دی اور نگہبانی کی یہ تدبیر اللہ غا لب و دانا کی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِي يَوْمَيْنِ ... Then He completed and finished their creation (as) seven heavens in two Days. means, He finished forming them as seven heavens in two more days, which were Thursday and Friday. ... وَأَوْحَى فِي كُلِّ سَمَاء أَمْرَهَا ... and He decreed in each heaven its affair. means, He placed in each heaven whatever it needs of angels and things which are known only unto Him. ... وَزَيَّنَّا السَّمَاء الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ ... And We adorned the nearest (lowest) heaven with lamps, means, the stars and planets which shine on the people of the earth. ... وَحِفْظًا ... as well as to guard. means, as protection against the Shayatin, lest they listen to the angels on high. ... ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ Such is the Decree of Him, the Almighty, the All-Knower. means, the Almighty Who has subjugated all things to His control, the All-Knower Who knows all the movements of His creatures.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

12۔ 1 یعنی خود آسمانوں کو یا ان میں آباد فرشتوں کو مخصوص کاموں اور وظائف کا پابند کردیا۔ 12۔ 2 یعنی شیطان سے نگہبانی، جیسا کہ دوسرے مقام پر وضاحت کی ہے ستاروں کا ایک تیسرا مقصد دوسری جگہ اَھْتِدَاء (راستہ معلوم کرنا) بھی بیان کیا گیا (وَعَلٰمٰتٍ ۭ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُوْنَ ) 16 ۔ النحل :16)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠] زمین و آسمان کی تخلیق & ترتیب اور زمانہ تخلیق :۔ قرآن میں متعدد مقامات پر مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان یعنی کائنات کو چھ ایام (یا ادوار) میں بنایا۔ پھر بعض روایات میں بھی یہ مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہفتہ میں فلاں کام کیا تھا اور اتوار کو فلاں اور پیر کو فلاں اسی طرح چھ دنوں کے الگ الگ کام بھی مذکور ہیں۔ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ ایسی سب روایات ناقابل احتجاج اور اسرائیلیات سے ماخوذ ہیں۔ لہذا ان کا کچھ اعتبار نہیں البتہ کسی مقام پر تو یہ مذکور ہے کہ زمین آسمانوں سے پہلے پیدا کی گئی اور کسی مقام سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ زمین بعد میں پیدا ہوئی اور کبھی یہ اشتباہ پیدا ہونے لگتا ہے کہ کائنات کی پیدائش میں چھ کے بجائے آٹھ دن لگے تھے۔ ایسے شبہات و اختلافات کا بہترین جواب وہ ہے جو سیدنا ابن عباس (رض) نے ایک سائل کو دیا تھا۔ اور یہ جواب سورة نساء کی آیت نمبر ٨٢ کے حاشیہ میں ملاحظہ کرلیا جائے۔ [١١] آسمان زمین سے لاکھوں گنا زیادہ جسامت رکھتے ہیں۔ اور زمین میں جب ہزاروں قسم کی مخلوق آباد ہے اور لاکھوں قسم کے کارخانے ہیں تو آسمان کیسے خالی رہ سکتا ہیں۔ آسمانوں میں فرشتوں کی موجودگی کا ذکر تو قرآن میں صراحت سے موجود ہے اور واقعہ معراج سے پتہ چلتا ہے کہ ہر آسمان میں طرح طرح کی مخلوق آباد ہے۔ اگرچہ اس کی تفصیلات معلوم کرنا ہمارے بس سے باہر ہے۔ [١٢] تشریح کے لیے دیکھئے سورة والصافات کا حاشیہ نمبر ٤ [١٣] تشریح کے لیے دیکھئے سورة والصافات کا حاشیہ نمبر ٥ [١٤] اشیاء کائنات کا کثیر المقاصد ہونے کے ساتھ حسین اور مربوط ہونا :۔ اس کائنات کی ہر چیز جہاں کئی کئی مقاصد پورے کر رہی ہے وہاں ذوق جمال کے لحاظ سے بھی راحت بخش ہے۔ یہ ممکن تھا کہ ایک چیز سے فائدے تو کئی حاصل ہوں مگر وہ کریہہ المنظر ہو مگر کائنات میں ایسی کوئی بات نہیں ہے پھر ان تمام اشیاء میں باہمی ربط بھی ہے اور تعاون بھی۔ جس سے دو باتوں کا پتہ چلتا ہے۔ ایک یہ کہ اس کائنات کا خالق صرف ایک ہی ہوسکتا ہے اور اتنا زورآور ہے کہ ہر چیز سے اپنی مرضی کے موافق کام لے رہا ہے اور لے سکتا ہے۔ اور دوسرے یہ کہ خالق کائنات کی ایک ایک چیز کی کیفیت اور ماہیت دونوں چیزوں کا مکمل علم رکھتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) فقضھن سبع سموات فی یومین : یعنی اللہ تعالیٰ نے آسمان کو جو دخان کی صورت میں تھا، وہ دونوں میں پورے سات آسمان بنادیا۔ (٢) و اوحی فی کل سمآء امرھا : یعنی کائنات کے اس نظام میں ہر آسمان کی اور اس میں رہنے والی ہر مخلوق کی جو ذمہ داری تھی وہ اس کی طرف وحی فرما دی کہ تمہیں یہ کام کرنا ہے اور اس طرح کرنا ہے۔ (٣) و زینا السمآء الدنیا بمصابیح و حفظاً :” حفظاً “ (حفظنا ھا “ کا مفعول مطلق ہے جو یہاں مقدر ہے، اور اس کا عطف لفظ مقدر ” زینۃ “ پر ہے جو ” زینا السمآء الدنیا “ کا مفعول مطلق ہے۔ گویا اصل جملہ یہ تھا :” وزینا السماء الدنیا بمصابیح زینۃ وحفناھا بھا حفظا “ لفظ ” زینا “ کی دلالت کی وجہ سے ” زینۃ “ کو حذف کردیا اور ” حفظا “ کی دلالت کی وجہ سے ” حفناھا “ کو حذف کردیا۔ اس طرح نہایت خوب صورتی کے ساتھ ایک لمبی بات مختصر لفظوں میں سمیٹ دی۔ یہ قرآن کی بلاغت ہے اور اسے احتباک کہتے ہیں۔ (بقاعی) ” حفظاً “ کے مفعول مطلق ہونے کی وجہ سے ترجمہ کیا گیا ہے ” خوب محفوظ کردیا۔ “ اس زینت و حفاظت کی تفصیل کیلئے ملاحظہ فرمائیں سورة حجر (١٦ تا ١٨) ، صافات (٦ تا ١٠) اور سورة ملک (٥) ۔ یہاں یہ بات محلوظ رہے کہ ان آیات میں اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنا ذکر غائب کے صیغے ” بالذی خلق الارض “ کے ساتھ کیا ہے،” زینا السمآئ “ میں متکلم کے صیغے کے ساتھ اور ” ذلک تقدیر العزیز العلیم “ میں پھر غائب کے ساتھ فرمایا ہے، اسے التفات کہتے ہیں، اس سے کلام میں حسن پیدا ہوتا ہے اور کئی حکمتیں بھی ملحوظ ہوتی ہیں۔ (٤) ذلک تقدیر العزیز العلیم، یہ سب اس ہستی کا اندازہ اور مقرر کردہ نظام ہے جو عزت و علم کے ساتھ پوری طرح موصوف ہے۔ وہ سب پر غالب ہے، کوئی اس پر غالب نہیں، وہ سب کچھ جاننے والا ہے۔ گزشتہ ، موجودہ یا آئندہ کوئی بھی چیز اس سے مخفی نہیں، اس لئے کے اس نظام میں کوئی غلطی، کوئی حادثہ نہیں اور کسی اور کا اس نظام میں ذرہ برابر دخل نہیں۔ سلسلہ کلام ” قل ائنکم لتکفرون بالذی خلق الارض فی یومین “ سے شروع ہوا تھا اور ” ذلک تقدیر العزیز العلیم “ پر ختم ہوا۔ مطلب یہ ہے کہ یہ پوری کائنات جس سے نچھ دن میں پیدا فرمائی، اس میں موجود ہر چیز حتیٰ کہ تمہیں اور ان چیزوں کو بھی پیدا کیا جنہیں تم نے معبود بنا رکھا ہے، کیا تم اس عظیم ہستی کے ساتھ کفر کرتے ہو اور اس کے ساتھ شریک بناتے ہو جس نے یہ سب کچھ کیا ہے ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَقَضٰىہُنَّ سَبْعَ سَمٰوَاتٍ فِيْ يَوْمَيْنِ وَاَوْحٰى فِيْ كُلِّ سَمَاۗءٍ اَمْرَہَا۝ ٠ ۭ وَزَيَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيْحَ۝ ٠ ۤۖ وَحِفْظًا۝ ٠ ۭ ذٰلِكَ تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ۝ ١٢ قضی الْقَضَاءُ : فصل الأمر قولا کان ذلک أو فعلا، وكلّ واحد منهما علی وجهين : إلهيّ ، وبشريّ. فمن القول الإلهيّ قوله تعالی: وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] أي : أمر بذلک، ( ق ض ی ) القضاء کے معنی قولا یا عملا کیس کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں قضا الہیٰ اور قضاء بشری چناچہ قضاء الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ سبع أصل السَّبْع العدد، قال : سَبْعَ سَماواتٍ [ البقرة/ 29] ، سَبْعاً شِداداً [ النبأ/ 16] ، يعني : السموات السّبع وسَبْعَ سُنْبُلاتٍ [يوسف/ 46] ، سَبْعَ لَيالٍ [ الحاقة/ 7] ، سَبْعَةٌ وَثامِنُهُمْ كَلْبُهُمْ [ الكهف/ 22] ، سَبْعُونَ ذِراعاً [ الحاقة/ 32] ، سَبْعِينَ مَرَّةً [ التوبة/ 80] ، سَبْعاً مِنَ الْمَثانِي[ الحجر/ 87] . قيل : سورة الحمد لکونها سبع آيات، السَّبْعُ الطّوال : من البقرة إلى الأعراف، وسمّي سور القرآن المثاني، لأنه يثنی فيها القصص، ومنه : السَّبْعُ ، والسَّبِيعُ والسِّبْعُ ، في الورود . والْأُسْبُوعُ جمعه : أَسَابِيعُ ، ويقال : طفت بالبیت أسبوعا، وأسابیع، وسَبَعْتُ القومَ : كنت سابعهم، وأخذت سبع أموالهم، والسَّبُعُ : معروف . وقیل : سمّي بذلک لتمام قوّته، وذلک أنّ السَّبْعَ من الأعداد التامّة، وقول الهذليّ : 225- كأنّه عبد لآل أبي ربیعة مسبع «2» أي : قد وقع السّبع في غنمه، وقیل : معناه المهمل مع السّباع، ويروی ( مُسْبَع) بفتح الباء، وكنّي بالمسبع عن الدّعيّ الذي لا يعرف أبوه، وسَبَعَ فلان فلانا : اغتابه، وأكل لحمه أكل السّباع، والْمَسْبَع : موضع السَّبُع . ( س ب ع ) السبع اصل میں |" سبع |" سات کے عدد کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛ سَبْعَ سَماواتٍ [ البقرة/ 29] سات آسمان ۔ سَبْعاً شِداداً [ النبأ/ 16] سات مضبوط ( آسمان بنائے ) ۔ وسَبْعَ سُنْبُلاتٍ [يوسف/ 46] سات بالیں ۔ سَبْعَ لَيالٍ [ الحاقة/ 7] سات راتیں ۔ سَبْعَةٌ وَثامِنُهُمْ كَلْبُهُمْ [ الكهف/ 22] سات ہیں اور آٹھواں ان کا کتا ہے ۔ سَبْعُونَ ذِراعاً [ الحاقة/ 32] ستر گز سَبْعِينَ مَرَّةً [ التوبة/ 80] ستر مرتبہ اور آیت : سَبْعاً مِنَ الْمَثانِي[ الحجر/ 87] ( الحمد کی ) سات آیتیں ( عطا فرمائیں جو نماز کی ہر رکعت میں مکرر پڑھی جاتی ہیں میں بعض نے کہا ہے کہ سورة الحمد مراد ہے ۔ کیونکہ اس کی سات آیتیں ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ السبع الطوال یعنی سورة بقرہ سے لے کر اعراف تک سات لمبی سورتیں مراد ہیں ۔ اور قرآن پاک کی تمام سورتوں کو بھی مثانی کہا گیا ہے ۔ کیونکہ ان میں واقعات تکرار کے ساتھ مذکور ہیں منجملہ ان کے یہ سات سورتیں ہیں السبیع والسبع اونٹوں کو ساتویں روز پانی پر وارد کرتا ۔ الاسبوع ۔ ایک ہفتہ یعنی سات دن جمع اسابیع طفت بالبیت اسبوعا میں نے خانہ کعبہ کے گرد سات چکر لگائے سبعت القوم میں ان کا ساتواں بن گیا ۔ اخذت سبع اموالھم میں نے ان کے اموال سے ساتواں حصہ وصول کیا ۔ السبع ۔ درندہ کو کہتے ہیں ۔ کیونکہ اس کی قوت پوری ہوتی ہے جیسا کہ سات کا عدد |" عدد تام |" ہوتا ہے ۔ ھذلی نے کہا ہے ( الکامل) كأنّه عبد لآل أبي ربیعة مسبعگویا وہ آل ابی ربیعہ کا غلام ہے جس کی بکریوں کو پھاڑ کھانے کے لئے درندے آگئے ہوں ۔ بعض نے مسبع کا معنی مھمل مع السباع کئے ہیں یعنی وہ جو درندوں کی طرح آوارہ پھرتا ہے اور بعض نے مسبع ( بفتح باء ) پڑھا ہے ۔ اور یہ دعی سے کنایہ ہے یعنی وہ شخص جسکا نسب معلوم نہ ہو ۔ سبع فلانا کسی کی غیبت کرنا اور درندہ کی طرح اس کا گوشت کھانا ۔ المسبع ۔ درندوں کی سر زمین ۔ سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ يوم اليَوْمُ يعبّر به عن وقت طلوع الشمس إلى غروبها . وقد يعبّر به عن مدّة من الزمان أيّ مدّة کانت، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 155] ، ( ی و م ) الیوم ( ن ) ی طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کی مدت اور وقت پر بولا جاتا ہے اور عربی زبان میں مطلقا وقت اور زمانہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ خواہ وہ زمانہ ( ایک دن کا ہو یا ایک سال اور صدی کا یا ہزار سال کا ہو ) کتنا ہی دراز کیوں نہ ہو ۔ قرآن میں ہے :إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 155] جو لوگ تم سے ( احد کے دن ) جب کہہ دوجماعتیں ایک دوسرے سے گتھ ہوگئیں ( جنگ سے بھاگ گئے ۔ وحی أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی، ( و ح ی ) الوحی کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔ اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته : إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے زين الزِّينَةُ الحقیقيّة : ما لا يشين الإنسان في شيء من أحواله لا في الدنیا، ولا في الآخرة، فأمّا ما يزينه في حالة دون حالة فهو من وجه شين، ( زی ن ) الزینہ زینت حقیقی ہوتی ہے جو انسان کے لئے کسی حالت میں بھی معیوب نہ ہو یعنی نہ دنیا میں اور نہ ہی عقبی ٰ میں اور وہ چیز جو ایک حیثیت سی موجب زینت ہو لیکن دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ زینت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف ایک پہلو کے اعتبار سے زینت کہہ سکتے ہیں دنا الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ «1» ، وتارة عن الأرذل فيقابل بالخیر، نحو : أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] ، دنا اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا ہ ۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ صبح الصُّبْحُ والصَّبَاحُ ، أوّل النهار، وهو وقت ما احمرّ الأفق بحاجب الشمس . قال تعالی: أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ [هود/ 81] ، وقال : فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] ، والتَّصَبُّحُ : النّوم بالغداة، والصَّبُوحُ : شرب الصّباح، يقال : صَبَحْتُهُ : سقیته صبوحا، والصَّبْحَانُ : الْمُصْطَبَحُ ، والْمِصْبَاحُ : ما يسقی منه، ومن الإبل ما يبرک فلا ينهض حتی يُصْبَحَ ، وما يجعل فيه الْمِصْبَاحُ ، قال : مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكاةٍ فِيها مِصْباحٌ الْمِصْباحُ فِي زُجاجَةٍ [ النور/ 35] ، ويقال للسّراج : مِصْبَاحٌ ، والْمِصْبَاحُ : مقرّ السّراج، والْمَصَابِيحُ : أعلام الکواكب . قال تعالی: وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِمَصابِيحَ [ الملک/ 5] ، وصَبِحْتُهُمْ ماء کذا : أتيتهم به صَبَاحاً ، والصُّبْحُ : شدّة حمرة في الشّعر، تشبيها بالصّبح والصّباح، وقیل : صَبُحَ فلان أي : وَضُؤَ ( ص ب ح) الصبح والصباح دن کا ابتدائی حصہ جبکہ افق طلوع آفتاب کی وجہ سے سرخ ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ [هود/ 81] کیا صبح کچھ دور ہے ۔ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] تو جن کو ڈرسنا یا گیا ہے ۔ ان کے لئے برادن ہوگا ۔ التصبح صبح کے وقت سونا ۔ الصبوح صبح کی شراب کو کہتے ہیں اور صبحتہ کے معنی صبح کی شراب پلانے کے ہیں ۔ الصبحان صبح کے وقت شراب پینے والا ( مونث صبحیٰ ) المصباح (1) پیالہ جس میں صبوحی پی جائے (2) وہ اونٹ جو صبح تک بیٹھا رہے (3) قندیل جس میں چراغ رکھا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكاةٍ فِيها مِصْباحٌ الْمِصْباحُ فِي زُجاجَةٍ [ النور/ 35] اس کے نور کی مثال ایسی ہے گویا ایک طاق ہے جس میں چراغ اور چراغ ایک قندیل میں ہے ۔ اور چراغ کو بھی مصباح کہاجاتا ہے اور صباح کے معنی بتی کی لو کے ہیں ۔ المصا بیح چمکدار ستارے جیسے فرمایا : وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِمَصابِيحَ [ الملک/ 5] اور ہم نے قریب کے آسمان کو تاروں کے چراغوں سے زینت دی ۔ صبحتم ماء کذا میں صبح کے وقت انکے پاس فلاں پانی پر جاپہنچا اور کبھی صبیح یا صباح کی مناسبت سے بالوں کی سخت سرخی کو بھی صبح کہا جاتا ہے ۔ صبح فلان خوبصورت اور حسین ہونا ۔ حفظ الحِفْظ يقال تارة لهيئة النفس التي بها يثبت ما يؤدي إليه الفهم، وتارة لضبط الشیء في النفس، ويضادّه النسیان، وتارة لاستعمال تلک القوة، فيقال : حَفِظْتُ كذا حِفْظاً ، ثم يستعمل في كلّ تفقّد وتعهّد ورعاية، قال اللہ تعالی: وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف/ 12] ( ح ف ظ ) الحفظ کا لفظ کبھی تو نفس کی اس ہیئت ( یعنی قوت حافظہ ) پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ جو چیز سمجھ میں آئے وہ محفوظ رہتی ہے اور کبھی دل میں یاد ررکھنے کو حفظ کہا جاتا ہے ۔ اس کی ضد نسیان ہے ، اور کبھی قوت حافظہ کے استعمال پر یہ لفظ بولا جاتا ہے مثلا کہا جاتا ہے ۔ حفظت کذا حفظا یعنی میں نے فلاں بات یاد کرلی ۔ پھر ہر قسم کی جستجو نگہداشت اور نگرانی پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف/ 12] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔ قَدْرُ والتَّقْدِيرُ والقَدْرُ والتَّقْدِيرُ : تبيين كمّيّة الشیء . يقال : قَدَرْتُهُ وقَدَّرْتُهُ ، وقَدَّرَهُ بالتّشدید : أعطاه الْقُدْرَةَ. يقال : قَدَّرَنِي اللہ علی كذا وقوّاني عليه، فَتَقْدِيرُ اللہ الأشياء علی وجهين : أحدهما : بإعطاء القدرة . والثاني : بأن يجعلها علی مقدار مخصوص ووجه مخصوص حسبما اقتضت الحکمة، وذلک أنّ فعل اللہ تعالیٰ ضربان : ضرب أوجده بالفعل، ومعنی إيجاده بالفعل أن أبدعه کاملا دفعة لا تعتريه الزّيادة والنّقصان إلى إن يشاء أن يفنيه، أو يبدّله کالسماوات وما فيها . ومنها ما جعل أصوله موجودة بالفعل وأجزاء ه بالقوّة، وقدّره علی وجه لا يتأتّى منه غير ما قدّره فيه، کتقدیره في النّواة أن ينبت منها النّخل دون التّفّاح والزّيتون، وتقدیر منيّ الإنسان أن يكون منه الإنسان دون سائر الحیوانات . فَتَقْدِيرُ اللہ علی وجهين : أحدهما بالحکم منه أن يكون کذا أو لا يكون کذا، إمّا علی سبیل الوجوب، وإمّا علی سبیل الإمكان . وعلی ذلک قوله : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق/ 3] . والثاني : بإعطاء الْقُدْرَةِ عليه . وقوله : فَقَدَرْنا فَنِعْمَ الْقادِرُونَ [ المرسلات/ 23] ، تنبيها أنّ كلّ ما يحكم به فهو محمود في حكمه، أو يكون من قوله : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق/ 3] ، وقرئ : فَقَدَرْنا «1» بالتّشدید، وذلک منه، أو من إعطاء القدرة، وقوله : نَحْنُ قَدَّرْنا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ [ الواقعة/ 60] ، فإنه تنبيه أنّ ذلک حكمة من حيث إنه هو الْمُقَدِّرُ ، وتنبيه أنّ ذلک ليس كما زعم المجوس أنّ اللہ يخلق وإبلیس يقتل، وقوله : إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر/ 1] ، إلى آخرها . أي : ليلة قيّضها لأمور مخصوصة . وقوله : إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر/ 49] ، وقوله : وَاللَّهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ عَلِمَ أَنْ لَنْ تُحْصُوهُ [ المزمل/ 20] ، إشارة إلى ما أجري من تكوير اللیل علی النهار، وتكوير النهار علی اللیل، وأن ليس أحد يمكنه معرفة ساعاتهما وتوفية حقّ العبادة منهما في وقت معلوم، وقوله : مِنْ نُطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ [ عبس/ 19] ، فإشارة إلى ما أوجده فيه بالقوّة، فيظهر حالا فحالا إلى الوجود بالصّورة، وقوله : وَكانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَراً مَقْدُوراً [ الأحزاب/ 38] ، فَقَدَرٌ إشارة إلى ما سبق به القضاء، والکتابة في اللّوح المحفوظ والمشار إليه بقوله عليه الصلاة والسلام : «فرغ ربّكم من الخلق والخلق والأجل والرّزق» «1» ، والْمَقْدُورُ إشارة إلى ما يحدث عنه حالا فحالا ممّا قدّر، وهو المشار إليه بقوله : كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن/ 29] ، وعلی ذلک قوله : وَما نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ [ الحجر/ 21] ، قال أبو الحسن : خذه بقدر کذا وبقدر کذا، وفلان يخاصم بقدر وقدر، وقوله : عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ [ البقرة/ 236] ، أي : ما يليق بحاله مقدّرا عليه، وقوله : وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدى [ الأعلی/ 3] ، أي : أعطی كلّ شيء ما فيه مصلحته، وهداه لما فيه خلاصه، إمّا بالتّسخیر، وإمّا بالتّعلیم کما قال : أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] ، والتَّقْدِيرُ من الإنسان علی وجهين : أحدهما : التّفكّر في الأمر بحسب نظر العقل، وبناء الأمر عليه، وذلک محمود، والثاني : أن يكون بحسب التّمنّي والشّهوة، وذلک مذموم کقوله : فَكَّرَ وَقَدَّرَ فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ [ المدثر/ 18- 19] ، وتستعار الْقُدْرَةُ والْمَقْدُورُ للحال، والسّعة في المال، القدر ( والتقدیر کے معنی کسی چیز کی کمیت کو بیان کرنے کے ہیں۔ کہاجاتا ہے ۔ قدرتہ وقدرتہ اور قدرہ ( تفعیل ) کے معنی کسی کو قدرت عطا کرنا بھی آتے ہیں محاور ہ ہے ۔ قدرنی اللہ علی کذا وتوانی علیہ اللہ نے مجھے اس پر قدرت عطافرمائی پس ، ، تقدیرالہی ِ ، ، کی دوصورتیں ہیں اللہ تعالیٰ کا اشیاء کو قدرت بخشنا یا اللہ تعالیٰ کا اشیاء کو مقدار مخصوص اور طرز مخصوص پر بنانا جیسا کہ اس کی حکمت کا تقاضا ہے اس لئے کہ فعل دوقسم پر ہے اول ایجاد بالفعل یعنی ابتداء سے کسی چیز کو ایسا کامل وجو عطا کرنا کی جب تک مشیت الہی اس کے فنا یا تبدیل کی مقتضی نہ ہو اس میں کمی بیشی نہ ہوسکے جیسے اجرام سماویہ اور ومافیما کی تخلیق ( کہ ان میں تاقیامت کسی قسم کا تغیر نہیں ہوگا ) دوم یہ کہ اصول اشیاء کو بالفعل اور ان کے اجزاء کو بالقوۃ وجو عطافرمانا اور ان کو اس ندازہ کے ساتھ مقدر کرنا کہ اس کی خلاف ظہور پزیر نہ ہوسکیں جیسا کہ خرما کی گھٹلی کے متعلق تقیدر الہٰی یہ ہے کہ اس سے خرما کا درخت ہی اگتا ہے اور سیب بازیتون کا درخت نہیں اگ سکتا اسی طرح انسان کی منی سے انسان پی پیدا ہوتا ہے دوسرے جانور پیدا نہیں ہوسکتے ۔ پس تقدیر الہی کے دو معنی ہوئے ایک یہ کہ کسی چیز کے متعلق نفی یا اثبات کا حکم لگانا کہ یوں ہوگا اور یوں نہیں ہوگا ۔ عام اس سے کم وہ حکم برسبیل وجوب ہو یا برسبیل امکان چناچہ آیت ؛ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق/ 3] خدا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے ۔ میں یہی معنی مراد ہیں دوم کی چیز پر قدرت عطا کرنے کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛فَقَدَرْنا فَنِعْمَ الْقادِرُونَ [ المرسلات/ 23] پھر اندازہ مقرر کیا اور ہم ہی خوب اندازہ مقرر کرنے والے ہیں ۔ میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ اللہ کا ہر حکم قابل ستائش ہے ۔ اور یہ آیت : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق/ 3] خدا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کررکھا ہے ۔ کے ہم معنی ہے اور اس میں ایک قراءت ققدر نا ( تشدیددال ) کے ساتھ بھی ہے اور اس کے معنی یا تو حکم کرنے کے ہیں اور یا اعطاء قدرت کے اور آیت کریمہ : نَحْنُ قَدَّرْنا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ [ الواقعة/ 60] ہم نے تم میں مرنا ٹھہراد یا ۔ میں اس امر تنبیہ ہے کہ موت مقدر کرنے والا چونکہ اللہ تعالیٰ ہی ہے اس لئ یہ بھی عین حکمت کے مطابق ہے اور مجوس کا یہ علم غلط ہے کہ اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے اور ابلیس مارتا ہے ۔ اور آیت کریمہ :إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر/ 1] ہم نے اس ( قرآن ) گوشب قدر میں نازل کرنا شروع کیا ۔ میں لیلۃ القدر سے خاص رات مراد ہے جسے اور مخصوصہ کی انجام دہی لے لئے اللہ نے مقرر کر رکھا ہے ۔ نیز فرمایا :إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر/ 49] ہم نے ہر چیز اندازہ مقرر کے ساتھ پیدا کی ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَاللَّهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ عَلِمَ أَنْ لَنْ تُحْصُوهُ [ المزمل/ 20] اور خدا تو رات اور دن ، کا اندازہ رکھتا ہے اس نے معلوم کیا کہ تم اس کی نباہ نہ سکوگے ۔ میں سلسلہ لیل ونہار کے اجرء کی طرف اشارہ ہے اور یہ کہ ان کے اوقات کی معرفت حاصل کرنا اور پھر اوقات معینہ ، میں حق عبادات ادا کرنا کسی کے لئے ممکن نہیں ہے اور آیت کریمہ : مِنْ نُطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ [ عبس/ 19] نطفے سے بنایا پھر اس کا اندازہ مقرر کیا ۔ میں ان قویٰ کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے نطفہ میں بالقوۃ ودیعت کر رکھے ہیں اور وہ قتا فوقتا صورت کا لباس بہن کر ظہور پذیر ہوتے ہیں آیت کریمہ : وَكانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَراً مَقْدُوراً [ الأحزاب/ 38] اور خدا کا حکم ٹھہرچکا ہے ۔ میں قدر کے لفظ سے ان امور کی طرف اشارہ ہے جن کا فیصلہ ہوچکا ہے اور وہ لوح محفوظ میں لکھے جا چکے ہیں جن کی طرف کہ آنحضرت نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : فرغ ربکم من الخلق والاجل والرزق کہ اللہ تبارک وتعالیٰ خلق ۔ عمر اور رزق سے فارغ ہوچکا ہے اور مقدور کے لفظ سے ان امور کیطرف اشارہ ہے جو وقتا فوقتا ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں ۔ جن کی طرف آیت : كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن/ 29] وہ ہر روز کام میں مصروف ر ہتا ہے ۔ میں اشارہ فرمایا ہے اسی معنی میں فرمایا : وَما نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ [ الحجر/ 21] اور ہم ان کو بمقدار مناسب اتارتے رہتے ہیں ۔ ابوالحسن نے کہا ہے کہ یہ قدر وقدر ( بفتح الدال وسکونہا ) دونوں طرح بولا جاتا ہے چناچہ محاورہ خذ بقدر کذا ) وقدر کذا ( کہ اتنی مقدار میں لے لو ) وفلان یخاصم بقدر وقدر اور آیت کریمہ : عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ [ البقرة/ 236] یعنی ) مقدور والا اپنے مقدور کے مطابق دے اور تنگدست اپی حیثیت کے مطابق ۔ میں قدر کے معنی یہ ہیں کہ جو شخص اپنی مقدور کے مطابق اخراجات ادا کرے ۔ اور آیت کریمہ : وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدى[ الأعلی/ 3] اور جس نے ( اس کا ) اناازہ ٹھہرادیا ( پھر اس کو ) رستہ بتایا : کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہرچیز کو وہ سمجھ عطا فرمادیا جس میں اس کی مصلحت ہے اور اسے تعلیمی یا تسخیری طور پر ان چیزوں کی طرف ہدایت کردی ہے جن میں اس کی نجات مضمرہ جیسے فرمایا : أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] جس نے ہر چیز کو اس کی شکل و صورت بخشی پھر راہ دکھائی ۔ جب ، ، تقدیر ، ، کا فاعل انسان ہو تو اس کے دومعنی ہوتے ہیں ایک تقدیر محمود یعنی عقل وفکر کے مطابق کسی امر پر غور فکر کرنا اور پھر اس فارمولا کے مطابق کسی امر بچہ غور فکر کرنا اور پھر اس فارمولا کے مطابق کسی کام کو سرا نجام دینا ۔ دوم تقدیر مذموم کہ انسان اپنی تمنا اور خواہش کے پیمانہ کے مطابق کسی امر پر غور فکر کرے اور عقل وفکر سے کام نہ لے جیسے فرمایا فَكَّرَ وَقَدَّرَ فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ [ المدثر/ 18- 19] اس نے فکر کیا اور تجویز کی یہ مارا جائے اس نے کیسی تجویز کی ۔ اور استعارہ کے طورپر قدرۃ اور مقدور کے معنی حالت اور وسعت مالی کے بھی آتے ہیں اور قدر کے معنی اس معین وقت یا مقام کے بھی ہوتے ہیں جو کسی کام کے لئے مقرر ہوچکا ہو چناچہ فرمایا : إِلى قَدَرٍ مَعْلُومٍ [ المرسلات/ 22] ایک معین وقت تک ۔ نیز فرمایا : فَسالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِها [ الرعد/ 17] پھر اس سے اپنے اپنے اندازے کے مطابق نالے بہ نکلے ۔ یعنی نالے اپنے ( ظرف کے مطابق بہ نکلتے ہیں ایک قرات میں بقدر ھا ہے جو بمعنی تقدیر یعنی اندازہ ۔۔۔ کے ہے اور آیت کریمہ : وَغَدَوْا عَلى حَرْدٍ قادِرِينَ [ القلم/ 25]( اور کوشش کے ساتھ سویرے ہی جاپہنچے ( گویا کھیتی پر ) قادر ہیں ۔ میں قادرین کے معنی قاصدین کے ہیں یعنی جو وقت انہوں نے مقرر کر رکھا تھا ۔ اندازہ کرتے ہوئے اس وقت پر وہاں جا پہنچے اور یہی معنی آیت کریمہ : فَالْتَقَى الْماءُ عَلى أَمْرٍ قَدْ قُدِرَ [ القمر/ 12] تو پانی ایک کام کے لئے جو مقدر ہوچکا تھا جمع ہوگیا میں مراد ہیں ۔ اور قدرت علیہ الشئی کے معنی کسی پر تنگی کردینے کے ہیں گویا وہ چیز اسے معین مقدار کے ساتھ دی گئی ہے اس کے بالمقابل بغیر حساب ( یعنی بےاندازہ ) آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ [ الطلاق/ 7] اور جس کے رزق میں تنگی ہو ۔ یعنی جس پر اس کی روزی تنگ کردی گئی ہو ۔ نیز فرمایا : يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشاءُ وَيَقْدِرُ [ الروم/ 37] خدا جس پر جاہتا ہے رزق فراخ کردیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے ۔ فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ [ الأنبیاء/ 87] اور خیال کیا کہ ہم ان پر تنگی نہیں کریں گے اور ایک قرآت میں لن نقدر علیہ سے اور اسی سے لفظ اقدر مشتق ہے جس کے معنی کوتاہ گردن آدمی کے ہیں اوراقدر اس گھوڑے کو بھی کہتے ہیں جس کے دوڑتے وقت پچھلے پاؤں ٹھیک اس جگہ پڑیں جہاں اگلے پاؤں پڑے تھے ۔ اور آیت کریمہ وما قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ [ الأنعام/ 91] ان لوگوں نے خدا کی قدرشناسی جیسی کرنی چاہیے تھی نہیں کی ۔ یعنی لوگ اس کی حقیقت کو نہیں پاسکے اور پھر اس امر پر تنبیہ کی ہے کہ وہ اس کی کنہہ کا ادارک بھی کیسے کرسکتے ہیں جب کہ اس کی شان یہ ہے کہوالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 67] اور قیامت کے دن تمام زمین آں کی مٹھی میں ہوگی ۔ اور آیت کریمہ : أَنِ اعْمَلْ سابِغاتٍ وَقَدِّرْ فِي السَّرْدِ [ سبأ/ 11] کو کشادہ زر ہیں بناؤ اور کڑیوں کو اندازے سے جوڑ دو ۔ میں قدرفی السرد کے معنی یہ ہیں کہ مضبوطی اور محکم زر ہیں بناؤ ۔ اور مقدارالشئی اس وقت یاز مانہ وغیرہ کو کہا جاتا ہے جو کسی چیز کے لئے مقرر کیا گیا ہو ۔ قرآن میں ہے : يَوْمٍ كانَ مِقْدارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ [ المعارج/ 4] اور اس روز ( نازل ہوگا ) جس کا اندازہ پچاس ہزار برس کا ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : لِئَلَّا يَعْلَمَ أَهْلُ الْكِتابِ أَلَّا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ [ الحدید/ 29]( یہ باتیں ) اسلئے ( بیان کی گئی ہیں ) کہ اہل کتاب جان لیں کہ وہ خدا کے فضل کے ساتھ مختص ہے ( یعنی اس میں تاویل سے چارہ نہیں ہے ) القدر ( دیگ) برتن جس میں گوشت پکایا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ/ 13] اور دیگیں جو ایک ہی جگہ رکھی ہیں ۔ اور قدرت اللحم کے معنی ہانڈی میں گوشت پکانے کے ہیں اور ہینڈیاں پکائے ہوئے گوشت کو قدیر کہاجاتا ہے ۔ القدار ( قصاب ) وہ شخص جو اونٹ کو نحر ( ذبح ) کرکے دیگ میں اس کا گوشت پکاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل) (351) ضرب القدار نقیعۃ القدام جیسا کہ قصاب سفر سے آنے والے کی خوشی میں دعوت کے لئے گوشت کاٹتا ہے ۔ عزیز ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] ( ع ز ز ) العزیز العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

غرض کہ اللہ تعالیٰ نے دو روز میں اوپر نیچے سات آسمان بنا دیے کہ ہر ایک دن کی مقدار ہزار سال کے برابر تھی اور ہر ایک آسمان پر اس کے رہنے والے پیدا کردیے اور اس کے لیے مناسب حکم بھیج دیا اور سب سے پہلے آسمان کو ستاروں سے سجا دیا اور ستاروں کے ذریعے شیاطین سے اس کی حفاظت کی چناچہ بعض ستارے تو آسمان کی زینت ہیں کہ وہ اپنی جگہ سے حرکت نہیں کرتے اور بعض خشکی سمندری اور تاریک راستوں میں مسافروں کو راستہ بتاتے ہیں اور بعض شیاطین کے مارنے کے لیے مقرر ہیں۔ یہ اس ذات کی طرف سے تدبیر ہے جو کافر کو سزا دینے پر غالب اور مومن و کافر کو اور اس تدبیر کو جاننے والا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢ { فَقَضٰہُنَّ سَبْعَ سَمٰواتٍ فِیْ یَوْمَیْنِ } ” پھر اس نے ان کو سات آسمانوں کی شکل دے دی ‘ دو دنوں میں۔ “ قرآن حکیم میں سات مقامات پر یہ ذکر ملتا ہے کہ زمین و آسمان کی تخلیق چھ دنوں میں ہوئی ‘ لیکن یہ قرآن کا واحد مقام ہے جہاں نہ صرف ان چھ دنوں کی مزید تفصیل (break up) دی گئی ہے بلکہ اس تخلیقی عمل کی ترتیب (sequence) کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے۔ یعنی پہلے زمین بنی اور سات آسمان اس کے بعد وجود میں آئے۔ لیکن ابھی تک ہم نہ تو مذکورہ چھ دنوں کے مفہوم کو سمجھ سکے ہیں اور نہ ہی زمین و آسمان کے تخلیقی عمل کی ترتیب سے متعلق سائنٹیفک انداز میں کچھ جان سکتے ہیں۔ بہر حال ہمارا یمان ہے کہ مستقبل میں کسی وقت سائنس ضرور ان معلومات تک رسائی حاصل کرے گی اور انسان اس حقیقت کی تہہ تک ضرور پہنچ جائے گا کہ زمین و آسمان کے وجود میں آنے کی صحیح ترتیب وہی ہے جو قرآن نے بیان فرمائی ہے۔ { وَاَوْحٰی فِیْ کُلِّ سَمَآئٍ اَمْرَہَا } ” اور اس نے وحی کردیا ہر آسمان پر اس کا حکم “ سات آسمان بنانے کے بعد ہر آسمان پر اس سے متعلق تفصیلی احکامات بھیج دیے گئے۔ { وَزَیَّنَّا السَّمَآئَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ وَحِفْظًا } ” اور ہم نے آسمانِ دنیا کو چراغوں سے ّمزین کردیا اور اس کی خوب حفاظت کی۔ “ چراغوں سے مراد ستارے ہیں۔ ستارے زمین سے قریب ترین آسمان کے لیے باعث زینت بھی ہیں اور شیاطین جن کی سرگرمیوں کے خلاف حفاظتی چوکیوں کا کام بھی دیتے ہیں۔ چناچہ جو شیاطین جن غیب کی خبریں حاصل کرنے کے لیے ممنوعہ حدود میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں ان پر ان ستاروں سے میزائل داغے جاتے ہیں۔ (اس موضوع پر مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : سورة الحجر کی آیت ١٧ اور سورة الانبیاء کی آیت ٣٢ کی تشریح۔ ) { ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ } ” یہ اس ہستی کا بنایا ہوا اندازہ ہے جو زبردست ہے اور ُ کل علم رکھنے والا ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

16 To understand these verses well, it would be useful to study the following portions of the Tafhim al-Qur'an: AI-Baqarah: 29, Ar-Ra'd: 2, AI-Hijr: 1G-18, AI-Anbiya': 30-33, Al-Hajj: 65. Al-Mu'minun: 17, Ya Sin: E.N. 37, and E.N.'s 5, G of As-Saaffat.

سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :16 ان آیات کو سمجھنے کے لیے تفہیم القرآن کے حسب ذیل مقامات کا مطالعہ مفید ہو گا ۔ جلد اول ، البقرہ ، حاشیہ ۳٤ ۔ جلد دوم ، الرعد ، حاشیہ ۲ ، الحجر ، حواشی ۸ تا ۱۲ ۔ جلد سوم ، الانبیاء ، حواشی ۳٤ ۔ ۳۵ ، المومن ، حاشیہ ۱۵ ۔ جلد چہارم ، یٰس ، حاشیہ نمبر 37 ۔ الصافّات ، حواشی نمبر 5 ۔ 6 )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

7: یعنی آسمانوں کو نظام چلانے کے لیے جو احکام مناسب تھے، وہ متعلقہ مخلوقات کو عطا فرمادئیے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(41:12) فقضھن۔ فاء عاطفہ ہے جملہ ہذا کا عطف جملہ سابقہ ثم استوی الی السماء پر ہے۔ قضی : ای خلق اواتم او جعل : اس نے پیدا کر دئیے۔ اس نے مکمل کر دئیے۔ اس نے بنا دئیے۔ ھن ضمیر جمع مؤنث غائب ۔ السماء کی طرف راجع ہے ، جو یہاں بطور اسم جنس استعمال ہوا ہے اور بمعنی السموت ہے۔ سبع سموت : سبع اسم عدد قضی کا مفعول بہ سموت تمیز سبع کی۔ تقدیر کلام یوں ہے : قضی منھن سبع سموت : ای اتمھن سبع سموت اور ان کو مکمل سات آسمان بنادیا۔ واوحی : اس کا عطف فقضھن پر ہے۔ امرھا : مضاف مضاف الیہ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب کا مرجع سماء ہے۔ اس کا کام ۔ ای اوحی الی اہلہا باوامرہ ونواہیہ اور ہر ایک آسمان کی مخلوق کے لئے احکام بھیج دئیے۔ وزینا السماء الدنیا۔ واؤ عاطفہ ہے زینا ماضی جمع متکلم تزئین (تفعیل) مصدر۔ ہم نے زینت دی۔ ہم نے مزین کیا۔ ہم نے سنوارا۔ السماء الدنیا موصوف وصفت مل کر زینا کا مفعول۔ الدنیا دانیۃ سے اسم تفضیل کا صیغہ واحد مؤنث ہے اس کی جمع دنی ہے جس طرح کبری کی جمع کبر ہے السماء الدنیا۔ نزدیک ترین آسمان آسمان دنیا۔ مصابیح : مصابح کی جمع۔ قندیل ، لالٹین۔ چراغ۔ لیمپ۔ یہ جمع منتہی الجموع کے وزن پر ہونے کی وجہ سے قائم مقام دو سببوں کے ہے۔ لہٰذا غیر منصرف ہے بدیں وجہ ح پر بجائے کسرہ کے فتح لائی گئی ہے۔ مصابیح سے مراد یہاں ستارے کواکب ہیں۔ فائدہ : یہاں التفات ضمائر (واحد مذکر غائب سے جمع متکلم کی طرف) سموت اور ان کی تزئین کی عظمت کی وجہ سے ہے۔ وحفظا : واؤ عاطفہ ہے۔ حفظا فعل مقدرہ کا مفعول مطلق ہے ای حفظناھا حفظا۔ جملہ ہذا کا عطف جملہ سابقہ زینا السماء الدنیا پر ہے۔ اور ہم نے اس کو (آسمان دنیا کو) خوب محفوظ کردیا (ہر قسم کی بیرونی دخل اندازی و شکست وریخت سے) ۔ ذلک : اسم اشارہ بعید۔ یعنی یہ تمام چیزیں جن کا اوپر تفصیلی ذکر ہوا ہے زمین کی تخلیق اور اس میں اہل زمین کے لئے مناسب مقدار میں اقوات کی بہم رسانی ۔ تخلیق سماوات ان کی تزئین و تحفظ وغیرہ وغیرہ۔ تقدیر (یعنی نظام ارض و سماوات) مضاف ہے۔ العزیز مضاف الیہ ۔ ہمہ تواں۔ غالب۔ زبردست، قوی۔ العلیم۔ ہمہ دان ۔ بڑا دانا۔ خوب جاننے والا۔ ہر دو ۔ العزیز، والعلیم فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 14 اس طرح آسمانوں اور زمین کی پیدائش چھ دن میں مکمل ہوئی۔ ( دیکھئے سورة اعراف : 54)15 یعنی اس کا نظام جس طرح بنانا تھا بنادیا۔ 1 یعنی شیطانوں کی پہنچ سے اس کی حفاظت کی کہ وہ ملا اعلیٰ کی بات نہ سن سکیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ پس عبادت کے لائق یہ ذات کامل الصفات ہے یا دوسری اشیاء ناقص الذات و الصفات۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(فَقَضَاھُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِیْ یَوْمَیْنِ ) (سو اللہ تعالیٰ نے دو دن میں سات آسمان بنا دئیے) (وَاَوْحٰی فِیْ کُلِّ سَمَاءٍ اَمْرَھَا) (اور ہر آسمان میں اس کے مناسب اپنا حکم بھیج دیا) یعنی جن فرشتوں سے جو کام لینا تھا وہ ان کو بتادیا۔ (وَزَیَّنَّا السَّمَآء الدُّنْیَا بِمَصَابِیحَ وَحِفْظًا) (اور ہم نے قریب والے آسمان کو ستاروں سے زینت دی اور ان ستاروں کو حفاظت کا ذریعہ بنا دیا) شیاطین اوپر کی باتیں سننے کے لیے اوپر جاتے ہیں تو یہ ستارے انہیں مارتے ہیں جیسا کہ سورة الملک کی آیت (وَلَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَآء الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ وَجَعَلْنَاھَا رُجُوْمًا للشَّیَاطِینِْ ) میں بیان فرمایا ہے۔ (ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ ) (یہ تقدیر ہے یعنی طے کردہ امر ہے اس ذات پاک کی طرف سے جو عزیز یعنی زبردست ہے اور علیم ہے۔ ) سورۂ بقرہ کی آیت (ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا) ان سب کو ملانے سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے زمین کا مادہ بنایا اور اس کے اوپر بھاری پہاڑ پیدا فرما دئیے پھر سات آسمان بنا دئیے جو بنانے سے پہلے دھوئیں کی صورت میں تھے اس کے بعد زمین کے مادہ کو موجودہ صورت میں پھیلا دیا۔ قریش کے انکار وعناد پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا آیات بالا پڑھ کر سنانا قرطبی ص ٣٢٨: ج ١٥ میں لکھا ہے کہ ایک دن قریش نے آپس میں یوں کہا جن میں ابو جہل بھی تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معاملہ ہمارے لیے اشکال کا باعث بن گیا ہے (واضح طور پر ہم اس کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں) تم ایسا کرو کہ ایسے شخص کو تلاش کرو جو شاعر بھی ہو اور کاہن بھی اور ساحر بھی، ایسا شخص ان کے پاس جائے اور گفتگو کرکے واپس آئے اور ہمیں واضح طور پر بتادے کہ ان کے دعویٰ کی کیا حقیقت یہ سن کر عتبہ بن ربیعہ نے کہا کہ اللہ کی قسم میں کہانت اور شعر اور سحر تینوں سے واقف ہوں اگر ان تینوں میں سے کوئی چیز ہوگی تو مجھے پتہ چل جائے گا اور ان لوگوں نے کہا کہ اچھا تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جاؤ اور بات چیت کرو۔ عتبہ بن ربیعہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ اے محمد آپ بہتر ہیں یا قصی بن کلاب ؟ آپ بہتر ہیں یا ہاشم ؟ آپ بہتر ہیں یا عبد المطلب ؟ آپ بہتر ہیں یا عبد اللہ ؟ (مطلب یہ تھا کہ یہ آپ کے آباؤ اجداد ہیں آپ ان کے دین کو باطل بتاتے ہیں) آپ ہمارے معبودوں کو برا کہتے ہیں اور ہمارے باپ دادوں کو گمراہ بتاتے ہیں اور ناسمجھ بتاتے ہیں اور ہمارے دین کو برا کہتے ہیں ان سب باتوں سے آپ کا مقصد کیا ہے اگر آپ سردار بننا چاہتے ہیں تو ہم آپ کو سردار بنا لیتے ہیں جب تک آپ زندہ رہیں اور اس کے اظہار اور اعلان کے لیے جھنڈے کھڑے کردیتے ہیں اور اگر آپ کا مقصد یہ ہے کہ آپ کی شادی ہوجائے تو ہم قریش کی دس لڑکیوں سے آپ کا نکاح کردیتے ہیں جنہیں آپ چاہیں اور اگر آپ مال چاہتے ہیں تو ہم آپ کے لیے اتنا مال جمع کردیں گے کہ اس کی وجہ سے آپ اور آپ کے بعد آنے والے آل اولاد سب کو بےنیاز کردیں گے اور اگر یہ بات ہے کہ جو کچھ آپ کی زبان سے نکلتا ہے یہ جنات کا کوئی اثر ہے تو بتا دیجیے ہم مال جمع کریں گے اور آپ کا علاج کرا دیں گے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ سب باتیں خاموشی کے ساتھ سنتے رہے جب عتبہ اپنی باتیں کہہ چکا تو آپ نے فرمایا کہ اے ابو ولید تو اپنی باتوں سے فارغ ہوگیا ؟ (ابو الولید عتبہ کی کنیت تھی) عتبہ نے کہا کہ ہاں میں کہہ چکا ! آپ نے فرمایا سن ! کہنے لگا سنائیے آپ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر سورة حم السجدۃ پڑھنا شروع کیا اور (فَاِِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنذَرْتُکُمْ صَاعِقَۃً مِّثْلَ صَاعِقَۃِ عَادٍ وَّثَمُوْدَ ) تک پڑھتے چلے گئے آپ یہاں تک پہنچے تھے کہ عتبہ کود پڑا اور آپ کے منہ مبارک پر ہاتھ رکھ دیا اور اللہ کی قسم دی کہ آپ خاموش ہوجائیں اس کے بعد وہ اپنے گھر چلا گیا اور قریش کی مجلس میں نہ آیا بو جہل نے اس سے کہا کیا تو بےدین ہو کر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ڈھل گیا یا تجھے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کھانا پسند آگیا، یہ سن کر عتبہ غصہ ہوگیا اور اس نے قسم کھائی کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کبھی بھی بات نہ کروں گا۔ اس کے بعد عتبہ نے کہا اللہ کی قسم تم جانتے ہو کہ میں قریش میں سب سے زیادہ مال والے لوگوں میں سے ہوں (مال یا طعام کی وجہ سے میں خاموش نہیں ہوا) لیکن بات یہ ہے کہ جب میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گفتگو کی انہوں نے جو مجھے جواب دیا اس سے میں نے یہ سمجھ لیا کہ نہ وہ شعر ہے، نہ کہانت ہے نہ جادو ہے۔ اس کے بعد عتبہ نے (مِّثْلَ صَاعِقَۃِ عَادٍ وَّثَمُوْدَ ) تک آیات سنا دیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی تھیں اور اس نے بتایا کہ میں نے ان کا منہ پکڑلیا اور قسم دی کہ آگے نہ پڑھیں، سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے عتبہ نے مزید کہا کہ تم جانتے ہو کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب کبھی بھی کوئی بات کہی ہے جھوٹ نہیں بولا میں ڈر گیا کہ تم لوگوں پر عذاب نازل نہ ہوجائے۔ اور ایک روایت میں یوں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عتبہ بن ربیعہ کے سامنے سورة حم سجدہ کے شروع سے آیت سجدہ تک تلاوت کی، عتبہ کان لگا کر سنتا رہا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب قرأت ختم کردی تو فرمایا اے ابو الولید تو نے سن لیا جو میں نے کہا آگے تو جانے (یا تو ایمان لائے یا نہ لائے، عذاب میں گرفتار ہو تو ہوجائے۔ ) عتبہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے اٹھا اور قریش کی مجلس میں پہنچا وہ اس کی صورت دیکھتے ہی کہنے لگے کہ اللہ کی قسم ! ابو ولید کا رخ بدلا ہوا ہے یہ دوسرا چہرہ لے کر آیا ہے اس کے بعد عتبہ سے قریش نے کہا اے ابو الولید تو کیا خبر لایا ؟ کہنے لگا اللہ کی قسم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے میں نے ایسا کلام سنا ہے کہ اس جیسا کبھی نہیں سنا میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ نہ شعر ہے نہ کہانت ہے لہٰذا اس مسئلہ میں تم میری بات مان لو محمد کو ان کے حال پر چھوڑ دو (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور انہیں کچھ نہ کہو اللہ کی قسم میں سمجھتا ہوں کہ ان کی باتوں کا ضرور چرچا ہوگا۔ اگر اہل عرب نے ان کو ختم کردیا تو دوسروں کے ذریعہ تمہارا کام چل جائے گا اور اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بادشاہ بن گئے یا ان کی نبوت کا مظاہرہ ہوگیا تو تمہیں اس کی سعادت پوری طرح نصیب ہوجائے گی کیونکہ ان کا ملک تمہارا ہی ملک ہوگا اور ان کا شرف تمہارا ہی شرف ہے یہ سن کر قریش کہنے لگے۔ اے ابو الولید محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تجھ پر جادو کردیا ہے عتبہ نے کہا کہ یہ میری رائے ہے آگے تم جو چاہو کرو۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

12:۔ ” وزینا السماء “ وحفظا فعل حفظناھا کا مفعول مطلق ہے اور ہم نے سب سے نچلے آسمان کو شمعوں کی مانند روشن ستاروں سے آراستہ کردیا اور آسمانوں کو ہر قسم کی آلات و حادثات یا شیاطین سے محفوظ کردیا۔ ستارے فضا میں معلق ہوں۔ جیسا کہ جدید سائنسدانوں کا خیال ہے یا آسمانوں سے اوپر کرسی (آٹھویں آسمان) میں مرکوز ہوں جیسا کہ قدیم ریاضی دانوں کا نظریہ ہے۔ ہر حال میں وہ پہلے آسمان ہی کی زینت و آرائش ہیں۔ 13:۔ ” ذلک تقدیر العزیز العلیم “ یہ سب کچھ اس قادر وعلیم کی تدبیر وتقدیر ہے جو ہر چیز پر قادر اور سب پر غالب ہے اور جس کے علم محیط سے کوئی چیز باہر نہیں۔ یہ سارا نظام کائنات اس نے ایک نہایت ہی محکم طریقہ و تدبیر سے برپا کیا ہے اور یہ اس کی قدرت و حکمت سے قائم ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(12) پھر ان کو دو دن میں سات آسمان بنادیا اور ہر ایک آسمان میں اس کے مناسب حال حکم بھیج دیا اور ہم نے آسمان دنیا اور دوسرے آسمانوں کو چراغوں سے رونق دی اور آراستہ کیا اور نیز اس آسمان دنیا کی حفاظت کی یہ اس اللہ تعالیٰ کا تجویز کردہ نظام ہے جو کمال قوت اور کمال علم کا مالک ہے یعنی آسمان سات بنائے اوپر تلے اور ہر آسمان کے فرشتوں کو اس آسمان کے موافق حکم دے دیا اور آسمان دنیا کو چراغوں یعنی ستاروں سے رونق بخشی اور شیاطین کے جانے اور فرشتوں کی خبریں اڑا لانے سے آسمان دنیا کی حفاظت کی یہ تجویز کردہ نظام اس کی جانب سے ہے جو عزیز بھی ہے اور علیم بھی ہے۔