Surat Ha meem Assajdah

Surah: 41

Verse: 28

سورة حم السجدہ

ذٰلِکَ جَزَآءُ اَعۡدَآءِ اللّٰہِ النَّارُ ۚ لَہُمۡ فِیۡہَا دَارُ الۡخُلۡدِ ؕ جَزَآءًۢ بِمَا کَانُوۡا بِاٰیٰتِنَا یَجۡحَدُوۡنَ ﴿۲۸﴾

That is the recompense of the enemies of Allah - the Fire. For them therein is the home of eternity as recompense for what they, of Our verses, were rejecting.

اللہ کے دشمنوں کی سزا یہی دوزخ کی آگ ہے جس میں ان کا ہمیشگی کا گھر ہے ( یہ ) بدلہ ہے ہماری آیتوں سے انکار کرنے کا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا رَبَّنَا أَرِنَا الَّذَيْنِ أَضَلَّنَا مِنَ الْجِنِّ وَالاِْنسِ نَجْعَلْهُمَا تَحْتَ أَقْدَامِنَا لِيَكُونَا مِنَ الاَْسْفَلِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

28۔ 1 آیتوں سے مراد جیسا کہ پہلے بھی بتلایا گیا ہے وہ دلائل وبراہین واضحہ ہیں جو اللہ تعالیٰ انبیاء پر نازل فرماتا ہے یا وہ معجزات ہیں جو انہیں عطا کیے جاتے ہیں یا دلائل تکوینیہ ہیں جو کائنات یعنی آفاق وانفس میں پھیلے ہوئے ہیں کافر ان سب ہی کا انکار کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ایمان کی دولت سے محروم رہتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٥] ایسے لوگ صرف منکر حق ہی نہیں ہوتے بلکہ اللہ کے، اللہ کے رسول کے، اللہ کے دین کے، سب کے پکے دشمن ہوتے ہیں۔ پھر اللہ انہیں سزا دینے میں کیوں کمی کرے گا ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ذلک جزآء اعدآء اللہ النار…: اللہ کے دشمنوں کی یہی جزاء یعنی آگ ہے، جنہوں نے کفر و شرک کیا، زبان اور ہاتھ کو ہر طرح سے اس کی کتاب سننے سے روکا، اس کے نبی اور ایمان والوں کا مقابلہ کا، ان سے جنگ کی اور دشمنی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ (٢) بایتنا یجحدون : یعنی اس جزا کی وجہ یہ ہے کہ وہ جانتے تھے کہ ہماری آیات حق ہیں، پھر جان بوجھ کر ضد اور عناد کی وجہ سے ان کا انکار کرتے تھے، پھر اللہ ایسے دشمنوں کو سزا دینے میں کیوں کمی کرے گا ؟” جحو ”‘ کا معنی جانتے ہوئے انکار کرنا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ذٰلِكَ جَزَاۗءُ اَعْدَاۗءِ اللہِ النَّارُ۝ ٠ ۚ لَہُمْ فِيْہَا دَارُ الْخُلْدِ۝ ٠ ۭ جَزَاۗءًۢ بِمَا كَانُوْا بِاٰيٰتِنَا يَجْحَدُوْنَ۝ ٢٨ هذا ( ذَاكَ ذلك) وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام/ 131] ، إلى غير ذلك . ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔ جزا الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان/ 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، ( ج ز ی ) الجزاء ( ض ) کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا } ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ عدو العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ «3» ، أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال : رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] ( ع د و ) العدو کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ دار الدَّار : المنزل اعتبارا بدورانها الذي لها بالحائط، وقیل : دارة، وجمعها ديار، ثم تسمّى البلدة دارا، والصّقع دارا، والدّنيا كما هي دارا، والدّار الدّنيا، والدّار الآخرة، إشارة إلى المقرّين في النّشأة الأولی، والنّشأة الأخری. وقیل : دار الدّنيا، ودار الآخرة، قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ، أي : الجنة، ( د و ر ) الدار ۔ منزل مکان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ چار دیواری سے گھرا ہوتا ہے بعض نے دراۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع دیار ہے ۔ پھر دار کا لفظ شہر علاقہ بلکہ سارے جہان پر بولا جاتا ہے اور سے نشاۃ اولٰی اور نشاہ ثانیہ میں دو قرار گاہوں کی طرف اشارہ ہے بعض نے ( باضافت ) بھی کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ : لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ان کے لئے ان کے اعمال کے صلے میں پروردگار کے ہاں سلامتی کا گھر ہے ۔ خلد الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] ، ( خ ل د ) الخلودُ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء/ 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ جحد الجُحُود : نفي ما في القلب إثباته، وإثبات ما في القلب نفيه، يقال : جَحَدَ جُحُوداً وجَحْداً قال عزّ وجل : وَجَحَدُوا بِها وَاسْتَيْقَنَتْها أَنْفُسُهُمْ [ النمل/ 14] ، وقال عزّ وجل : بِآياتِنا يَجْحَدُونَ [ الأعراف/ 51] . وتَجَحَّدَ تَخَصَّصَ بفعل ذلك، يقال : رجل جَحِدٌ: شحیح قلیل الخیر يظهر الفقر، وأرض جَحْدَة : قلیلة النبت، يقال : جَحَداً له ونَكَداً ، وأَجْحَدَ : صار ذا جحد . ( ج ح د ) حجد ( ف ) جحد وجحودا ( رجان بوجھ کر انکار کردینا ) معنی دل میں جس چیز کا اقرار ہو اس کا انکار اور جس کا انکار ہو اس کا اقرار کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَحَدُوا بِها وَاسْتَيْقَنَتْها أَنْفُسُهُمْ [ النمل/ 14] اور ان سے انکار کیا کہ انکے دل انکو مان چکے تھے بِآياتِنا يَجْحَدُونَ [ الأعراف/ 51] اور ہماری آیتوں سے منکر ہورہے تھے ۔ کہا جاتا ہے : ۔ رجل جحد یعنی کنجوس اور قلیل الخیر آدمی جو فقر کو ظاہر کرے ۔ ارض جحدۃ خشک زمین جس میں روئید گی نہ ہو ۔ محاورہ ہے : ۔ اسے خبر حاصل نہ ہو ۔ اجحد ۔ ( افعال ، انکار کرنا ۔ منکر ہونا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

ان کی دنیا میں یہی سزا ہے اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کی سزا دوزخ ہے اور وہ دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے اس بات کے بدلے میں کہ وہ رسول اکرم اور قرآن کریم کا انکار کیا کرتے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٨ { ذٰلِکَ جَزَآئُ اَعْدَآئِ اللّٰہِ النَّارُ } ” یہ ہے بدلہ اللہ کے دشمنوں کا (یعنی) آگ ! “ یہ لوگ قرآن کے دشمن ہیں تو قرآن چونکہ اللہ کا کلام ہے اس لیے یہ اللہ کے دشمن ہیں۔ اور اللہ کے دشمنوں کی سزا آتش دوزخ کے علاوہ اور کیا ہوسکتی ہے ! { لَہُمْ فِیْہَا دَارُ الْخُلْدِ } ” ان کے لیے اسی میں ہمیشگی کا ٹھکانہ ہوگا۔ “ { جَزَآئًم بِمَا کَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَجْحَدُوْنَ } ” یہ بدلہ ہوگا اس کا کہ وہ ہماری آیات کا انکار کرتے رہے تھے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(41:28) ذلک جزاء اعداء اللّٰہ النار۔ ذلک اشارہ ہے اس عذاب و سزا کی طرف جو آیہ سابقہ میں مذکور ہوئی ہے۔ مبتدا جزاء اعداء اللّٰہ : جزاء مضاف اعداء اللہ مضاف مضاف الیہ مل مضاف الیہ، خبر النار ۔ جزاء کا عطف بیان ہے یا مبدل منہ۔ یہ ہے سزا اللہ کے دشمنوں کی یعنی آگ (دوزخ جزاء بما کانوا بایتنا یجحدون : جزاء بوجہ مفعول مطلق فعل مقدر کے منصوب ہے ای یجزون جزاء ، بما میں باء سببیہ ہے ما موصولہ کانوا یجحدون : ماضی استمراری کا صیغہ جمع مذکر غائب ان کو سزا دی گئی بسبب اس کے کہ وہ ہماری آیات (قرآن) کا انکار کیا کرتے تھے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا کہ اللہ کے دشمنوں کو (آخرت میں جو) سزا ملے گی آگ کی صورت میں ان کے سامنے آئے گی یعنی نار جہنم میں داخل ہوں گے اور ایسا نہیں کہ تھوڑے سے دن سزا بھگت لیں تو جان بخشی ہوجائے بلکہ انہیں اس آگ میں ہمیشہ رہنا ہوگا ان کا یہ عذاب اس کا بدلہ ہوگا کہ وہ اللہ کی آیات کا انکار کیا کرتے تھے۔ گمراہ لوگ درخواست کریں گے کہ ہمارے بڑوں کو سامنے لایا جائے، تاکہ قدموں سے روند ڈالیں دنیا میں تو یہ حال تھا کہ چھوٹے موٹے لوگ اپنے بڑے اور سرداروں کے بہکانے سے کفر پر جمے رہے اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کرتے رہے ان کے بہکانے والوں میں جنات بھی تھے اور انسان بھی تھے جو انہیں حق قبول نہیں کرنے دیتے تھے اور ان سے کہتے تھے کہ قرآن پڑھا جائے تو تم شور و غل کرو یہ لوگ ان کی بات مان لیتے تھے یہ تو ان کا دنیا میں حال تھا پھر جب آخرت میں حاضر ہوں گے تو اپنے بڑوں پر غصہ ہوں گے اور دانت پیسیں گے کہ انہوں نے ہمارا ناس کھویا لہٰذا بارگاہ خداوندی میں عرض کریں گے کہ اے ہمارے پروردگار جنات میں سے اور انسانوں میں سے جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا انہیں ہمارے سامنے لائیے آج ہم انہیں بہکانے اور ورغلانے کا مزہ چکھا دیں، بتائیے وہ لوگ کہاں ہیں ہم انھیں اپنے پاؤں میں روند ڈالیں۔ انہوں نے ہمارا ناس کھویا آج ہم ان سے بدلہ لے لیں انہیں اپنے پاؤں کے نیچے مسل دیں اور کچل دیں تاکہ وہ خوب زیادہ ذلت والوں میں سے ہوجائیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(28) اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کی سزا یہی آگ ہے اور یہ ہے جزا دشمنان خدا کی آگ ہے ان کو اسی آگ میں ہمیشہ رہنا ہوگا ان کا گھر اسی آگ میں ہے سدا کو یہ بدلا ان کو اس بنا پر دیا کہ یہ ہماری آیتوں کا انکار کیا کرتے تھے۔