Surat Ha meem Assajdah

Surah: 41

Verse: 33

سورة حم السجدہ

وَ مَنۡ اَحۡسَنُ قَوۡلًا مِّمَّنۡ دَعَاۤ اِلَی اللّٰہِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ﴿۳۳﴾

And who is better in speech than one who invites to Allah and does righteousness and says, "Indeed, I am of the Muslims."

اور اس سے زیادہ اچھی بات والا کون ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک کام کرے اور کہے کہ میں یقیناً مسلمانوں میں سے ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Virtue of calling Others to Allah Allah says, وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلاً مِّمَّن دَعَا إِلَى اللَّهِ ... And who is better in speech than he who invites to Allah, means, he calls the servants of Allah to Him. ... وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ and does righteous deeds, and says: "I am one of the Muslims." means, he himself follows that which he says, so it benefits him as well as others. He is not one of those who enjoin good but do not do it themselves, or who forbid evil yet they do it themselves. He does good and avoids doing evil, and he calls people to their Creator, may He be blessed and exalted. This is general in meaning and applies to everyone who calls people to what is good and is himself guided by what he says. The Messenger of Allah is the foremost among people in this regard, as Muhammad bin Sirin, As-Suddi and Abdur-Rahman bin Zayd bin Aslam said. It was also said that what was meant here is the righteous Mu'adhdhin, as it was mentioned in Sahih Muslim: الْمُوَذِّنُونَ أَطْوَلُ النَّاسِ أَعْنَاقًا يَوْمَ الْقِيَامَة The Mu'adhdhins will be the ones with the longest necks on the Day of Resurrection." In As-Sunan it is reported that the Prophet said: الاِْمَامُ ضَامِنٌ وَالْمُوَذِّنُ مُوْتَمَنٌ فَأَرْشَدَ اللهُ الاَْيِمَّةَ وَغَفَرَ لِلْمُوَذِّنِين The Imam is a guarantor and the Mu'adhdhin is in a position of trust. May Allah guide the Imams and forgive the Mu'adhdhin." The correct view is that the Ayah is general in meaning, and includes the Mu'adhdhin and others. When this Ayah was revealed, the Adhan had not been prescribed at all. The Ayah was revealed in Makkah, and the Adhan was prescribed in Al-Madinah after the Hijrah, when it was shown to Abdullah bin Abd Rabbihi Al-Ansari in a dream. He told the Messenger of Allah about it, and he told him to teach it to Bilal, may Allah be pleased with him, who had a more beautiful voice, as we have discussed elsewhere. So the correct view is that the Ayah is general in meaning, as Abdur-Razzaq said, narrating from Ma`mar, from Al-Hasan Al-Basri, who recited this Ayah: وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلاً مِّمَّن دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ And who is better in speech than he who invites to Allah, and does righteous deeds, and says: "I am one of the Muslims." and said, "This is the beloved of Allah, this is the close friend of Allah, this is the chosen one of Allah, this is the most beloved of the all the people of earth to Allah. He responded to the call of Allah and called mankind to that to which he had responded. He did righteous deeds in response and said, `I am one of the Muslims.' This is Allah's Khalifah." Wisdom in Da`wah etc. Allah says,

اللہ تعالیٰ کا محبوب انسان ۔ فرماتا ہے جو اللہ کے بندوں کو اللہ کی طرف بلائے اور خود بھی نیکی کرے اسلام قبول کرے اس سے زیادہ اچھی بات اور کس کی ہوگی؟ یہ ہے جس نے اپنے تئیں نفع پہنچایا اور خلق اللہ کو بھی اپنی ذات سے نفع پہنچایا ۔ یہ ان میں نہیں جو منہ کے بڑے باتونی ہوتے ہیں جو دوسروں کو کہتے تو ہیں مگر خود نہیں کرتے یہ تو خود بھی کرتا ہے اور دوسروں سے بھی کہتا ہے ۔ یہ آیت عام ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے اولیٰ طور پر اس کے مصداق ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کے مصداق اذان دینے والے ہیں جو نیک کار بھی ہوں ۔ چنانچہ صحیح مسلم میں ہے قیامت کے دن موذن سب لوگوں سے زیادہ لمبی گردنوں والے ہوں گے ۔ سنن میں ہے امام ضامن ہے اور موذن امانتدار ہے اللہ تعالیٰ اماموں کو راہ راست دکھائے اور موذنوں کو بخشے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضرت سعد بن وقاص فرماتے ہیں ۔ اذان دینے والوں کا حصہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک مثل جہاد کرنے والوں کے حصے کے ہے ۔ اذان و اقامت کے درمیان ان کی وہ حالت ہے جیسے کوئی جہاد میں راہ اللہ میں اپنے خون میں لوٹ پوٹ ہو رہا ہو ۔ حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں اگر میں موذن ہوتا تو پھر مجھے حج و عمرے اور جہاد کی اتنی زیادہ پروانہ نہ رہتی ۔ حضرت عمر سے منقول ہے ۔ اگر میں موذن ہوتا تو میری آرزو پوری ہو جاتی ۔ اور میں رات کے نفلی قیام کی اور دن کے نفلی روزوں کی اس قدر تگ ودو نہ کرتا ۔ میں نے سنا ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار موذنوں کی بخشش کی دعا مانگی ۔ اس پر میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے اپنی دعا میں ہمیں یاد نہ فرمایا حالانکہ ہم اذان کہنے پر تلواریں تان لیتے ہیں آپ نے فرمایا ہاں! لیکن اے عمر ایسا زمانہ بھی آنے والا ہے کہ موذنی غریب مسکین لوگوں تک رہ جائے گا ۔ سنو عمر جن لوگوں کا گوشت پوست جہنم پر حرام ہے ان میں موذن ہیں ۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں اس آیت میں بھی موذنوں کی تعریف ہے اس کا حی علی الصلوۃ کہنا اللہ کی طرف بلانا ہے ۔ ابن عمر اور عکرمہ فرماتے ہیں یہ آیت موذنوں کے بارے میں اتری ہے اور یہ جو فرمایا کہ وہ عمل صالح کرتا ہے اس سے مراد اذان و تکبیر کے درمیان دو رکعت پڑھنا ہے ۔ جیسے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے دو اذانوں کے درمیان نماز ہے دو اذانوں کے درمیان نماز ہے دو اذانوں کے درمیان نماز ہے جو چاہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ اذان و اقامت کے درمیان کی دعا رد نہیں ہوتی صحیح بات یہ ہے کہ آیت اپنے عموم کے لحاظ سے موذن غیر موذن ہر اس شخص کو شامل ہے جو اللہ کی طرف دعوت دے ۔ یہ یاد رہے کہ آیت کے نازل ہونے کے وقت تو سرے سے اذان شروع ہی نہ تھی ۔ اس لئے کہ آیت مکے میں اترتی ہے اور اذان مدینے پہنچ جانے کے بعد مقرر ہوئی ہے جبکہ حضرت عبداللہ بن زید بن عبدربہ نے اپنے خواب میں اذان دیتے دیکھا اور سنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا حضرت بلال کو سکھاؤ ۔ وہ بلند آواز والے ہیں ۔ پس صحیح بات یہی ہے کہ آیت عام ہے اس میں موذن بھی شامل ہیں ۔ حضرت حسن بصری اس آیت کو پڑھ کر فرماتے ہیں یہی لوگ حبیب اللہ ہیں ۔ یہی اولیاء اللہ ہیں یہی سب سے زیادہ اللہ کے پسندیدہ ہیں یہی سب سے زیادہ اللہ کے محبوب ہیں کہ انہوں نے اللہ کی باتیں مان لیں پھر دوسروں سے منوانے لگے اور اپنے ماننے میں نیکیاں کرتے رہے اور اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرتے رہے یہاں اللہ کے خلیفہ ہیں ، بھلائی اور برائی نیکی اور بدی برابر برابر نہیں بلکہ ان میں بیحد فرق ہے جو تجھ سے برائی کرے تو اس سے بھلائی کر اور اس کی برائی کو اس طرح دفع کر ۔ حضرت عمر کا فرمان ہے کہ تیرے بارے میں جو شخص اللہ کی نافرمانی کرے تو تو اس کے بارے میں اللہ کی فرمابرداری کر اس سے بڑھ کو کوئی چیز نہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسا کرنے سے تیرا جانی دشمن دلی دوست بن جائے گا ، اس وصیت پر عمل اسی سے ہو گا جو صابر ہو نفس پر اختیار رکھتا ہو اور ہو بھی نصیب دار کہ دین و دنیا کی بہتری اس کی تقدیر میں ہو ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں ایمان والوں کو اللہ کا حکم ہے کہ وہ غصے کے وقت صبر کریں اور دوسرے کی جہالت پر اپنی بردباری کا ثبوت دیں اور دوسرے کی برائی سے درگذر کرلیں ایسے لوگ شیطانی داؤ سے محفوظ رہتے ہیں اور ان کے دشمن بھی پھر تو ان کے دوست بن جاتے ہیں ، انسانی شر سے بچنے کا طریقہ ۔ اب شیطانی شر سے بچنے کا طریقہ بیان ہو رہا ہے کہ اللہ کی طرف جھک جایا کرو اسی نے اسے یہ طاقت دے رکھی ہے کہ وہ دل میں وساوس پیدا کرے اور اسی کے اختیار میں ہے کہ وہ اس کے شر سے محفوظ رکھے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز میں فرماتے تھے ، اعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم من ھمزہ ونفخہ ونفثہ ۔ پہلے ہم بیان کر چکے ہیں کہ اس مقام جیسا ہی مقام صرف سورہ اعراف میں ہے جہاں ارشاد ہے ( خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِيْنَ ١٩٩؁ ) 7- الاعراف:199 ) اور سورہ مومنین کی آیت ( اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ السَّيِّئَةَ 96؀ ) 23- المؤمنون:96 ) ، میں حکم ہوا ہے کہ درگذر کرنے کی عادت ڈالو اور اللہ کی پناہ میں آ جایا کرو برائی کا بدلہ بھلائی سے دیا کرو وغیرہ ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

33۔ 1 یعنی لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے کے ساتھ خود بھی ہدایت یافتہ، دین کا پابند اور اللہ کا مطیع ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤١] اصلاح نفس کے ساتھ ساتھ دوسروں کو تبلیغ :۔ پچھلی آیات میں ان لوگوں کا ذکر ہوا جو اللہ پر ایمان لانے کے بعد ساری زندگی اپنے اس قول وقرار پر پہرہ بھی دیتے ہیں۔ اس آیت میں ان سے بھی اگلے درجہ کے ایمانداروں کا ذکر ہے۔ یعنی وہ لوگ جو صرف خود ہی احکام الٰہی کی بجاآوری پر جمے نہیں رہتے بلکہ دوسروں کو اسی بات کی طرف دعوت دیتے ہیں وہ سب سے پہلے خود عمل پیرا ہو کر اللہ کی فرمانبرداری کا عملی نمونہ پیش کرتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ کے دین کی طرف دوسروں کو بلاتے ہیں۔ ان لوگوں کا پہلے خود عمل پیرا ہونا پھر اس کے بعد اللہ کے دین کی طرف بلانا انتہائی بہترین عمل ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) من احسن قولاً منن دعا الی اللہ …: پچھلی آیات میں ایمان لا کر اس پر استقامت اختیار کرنے والوں کو فرشتوں کے نزول ، دنیا و آخرت میں ان کی دوستی، جنت میں داخلے اور غفور و رحیم کی مہمانی کی بشارت دے کر ان کے قلبی سکون و اطمینان اور دلی راحت کا سامان فرمایا، اب ایک ایسے کام کا ذکر فرمایا جو ” ربنا اللہ “ کہنے کا فطری تقاضا ہے کہ وہ اس نعمت کو اپنے تک محدود نہیں رکھتے، بلکہ ان کی کوشش اسے دنیا کے تمام لوگوں تک پہنچانے کی ہوتی ہے۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ جو نعمت انھیں عطا ہوئی ہے وہ ہر شخص کو عطا ہوجائے۔ یہ کام سر انجام دیتے ہوئے جب وہ تین باتوں کا اہتمام کریں تو بات میں ان سے بہتر اور درجے میں ان سے بلند کوئی نہیں ہوسکتا ۔ پہلی بات ”’ عآ الی اللہ “ یعنی وہ صرف اللہ کی طرف بلائیں۔ نہ اپنی ذات کی طرف، نہ کسی شخصیت کی طرف اور نہ کسی قبیلے، جماعت، نسل یا وطن کی طرف، بلکہ ان کی دعوت صرف اللہ تعالیٰ کی طرف ہو کہ سب اسی کے بندے اور فرمان بردار بن جاؤ، جیسا کہ فرمایا :(قل ھذہ سبیلی ادعوا الی اللہ علی بصیرۃ انا ومن اثبعنی، وسبحن اللہ وما انا من المشرکین) (یوسف :108)” کہہ دے یہی میرا راستہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، پوری بصیرت پر، میں اور وہ بھی جنہوں نے میری پیروی کی ہے اور اللہ پاک ہے اور میں شریک بنانے والوں سے نہیں ہوں۔ “ یہ پیغمبروں کا اور ان کے جانشینوں کا کام ہے اور اتنا عظیم کام ہے کہ ان کی دعوت سے جو لوگ راہ ہدایت اختیار کریں گے ان کا اجر ان کے علاوہ انھیں بھی ملے گا۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(من دعا الی ھدی کان لہ من الاخر مثل اجور من تبعہ، لا بعض ذلک من اجورھم شیئاً ومن دعا الی ضلالہ، کان علیہ من الاثم مثل انام من تبعہ لا ینفص ذلک من آثامھم شیئاً ) (مسلم، العلم، باب من سن سنۃ حسنۃ اوسیئۃ…:2683)” جو شخص ہدایت کی کسی بات کی طرف دعوت دے اس کے لئے ان لوگوں کے اجروں جیسا اجر ہوگا جو اس کی پیروی کریں گے، یہ ان کے اجروں میں کوئی کمی نہیں کرے گا اور جو شخص گمراہی کی کسی بات کی طرف دعوت دے اس پر ان لوگوں کے گناہوں جیسا گناہ ہوگا جو اس کی پیروی کریں گے، یہ ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں کرے گا۔ “ یہی وجہ ہے کہ پوری امت مل کر بھی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درجے کو نہیں پاسکتی، نہ ہی صحابہ کرام (رض) کے بعد آنے والے ان کے درجے تک پہنچ سکتے ہیں، یہی حال بعد میں دعوت الی اللہ دینے والوں کا ہے۔ پھر بات میں ان سے بہتر کون ہوسکتا ہے جسے ان اعمال کا اجر بھی مل رہا ہو جو اس نے نہیں کئے۔ کوئی شخص خود کتنا بھی عمل کرلے یہ مقام کیسے حاصل کرسکتا ہے ؟ (٢) اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت زبان کے ساتھ بھی ہے اور ہاتھ کے ساتھ بھی۔ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن کے ساتھ تلوار دے کر بھیجا گیا، آپ کے اصحاب نے آپ کا ساتھ دیا، پھر زبانی دعوت اور جہاد فی سبیل اللہ کے ساتھ اسلام مشرق سے مغرب تک پھیل گیا۔ یہی مناسبت ہے : (ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی و دین الحق لیظھرہ علی الذین کلہ، وکفی باللہ شھیداً (الفتح :28) کے بعد :(محمد رسول اللہ ، والذین معہ اشدآء علی الکفار رحمآء بینھم …) (الفتح :29) میں۔ مزید دیکھیے سورة آل عمران (١٠٤، ١١٠) ۔ (٣) قول میں سب سے بہتر ہونے کے لئے دوسری ضروری بات ” وعمل صالحاً “ ہے یعنی اللہ کی طرف دعوت دینے کے ساتھ وہ خود بھی عمل صالح کریں۔ صالح عمل کا مطلب یہ ہے کہ وہ خلاص اللہ کے لئے ہوا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہو۔ (دیکھیے سورة کہف کی آخری آیت) جو شخص دوسروں کو دعوت دے مگر خود اس کے خلاف عمل کرے اس کے لئے شدید وعید آئی ہے۔ دیکھیے سورة بقرہ (٤٤) (٤) تیسری بات ” وقال اننی من المسلمین “ یعنی وہ ڈنکے کی چوٹ یہودی، نصرانی، ہندو، سکھ، کمیونسٹ، ڈیموکیرٹ اور لبرل وغیرہ ہونے کے بجائے اپنے مسلم ہونے کا اعلان کرے، اس پر فخر کرے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروانہ کرے۔” من المسلمین “ یعنی مسلمانوں کی جماعت کافرد ہونے پر اسے خوشی ہوا ور کسی دین، مذہب، ملت یا معاشرے کو اسلام اور مسلمانوں سے بہتر نہ سمجھے۔ آج کل کے بعض ملحدوں کی طرح نہیں جو مسلمانوں میں پیدا ہوگئے، مگر وہ کفار سے اس قدر مرعوب ہیں کہ بعض اوقات یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ ہم بدقسمتی سے مسلماناوں میں پیدا ہوگئے۔ ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔ نہ بہ نظم شاعر خوش غزل، نہ بہ نثر ناشر بےبدل بہ غلامی شہ عزوجل و بعاشقی نبی خوشم ” نہ کسی خوب صورت غزل والے شاعر کی نظم پر اور نہ کسی بےمثال نثر لکھنے والے کی نثر پر، بلکہ میں کائنات کے بادشاہ عزو جل کی غلامی پر اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت پر خوش ہوں۔ “ عباس بن عبدالمطلب (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا :(ذاق طعم الایمان من ضری باللہ ربا و بالا اسلام دینا و بمحمد رسولاً ) (مسلم، الایمان، باب الدلیل علی ان من رضی باللہ ربا …:38) ترمذی :2623)” اس شخص نے ایمان کا ذائقہ چکھ لیا جو اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رسول ہونے پر راضی ہوگیا ۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلَى اللَّـهِ (And who can be better in words than the one who calls towards Allah, and acts righteously and says, |"I am one of those who submit themselves [ to Allah ] |"? - 33) This is the second aspect of the state of the totally obedient Mu&mins, that they not only have faith and carry out good deeds themselves, but they also invite others to do the same. The Qur&an states that who can say anything better than the one who calls others towards Allah. So we know that the best and most excellent discourse of a man is to call others towards truth. This includes all the ways of calling towards Allah - through the spoken word, through writing or through any other manner. The one who calls adhan (call to obligatory prayer) is also included in this category, because he calls others towards prayers. That is why Sayyidah ` A&ishah (رض) has said that this verse is about mu&adhdhins (those who proclaim adhan), and that the words, ` and acts righteously ` after this means offering of two rak’ at of prayers between adhan and iqamah. It is narrated in a Hadith that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said that the supplication between adhan and Iqamah is not rejected (Abu Dad and Tirmidhi - narrated by Sayyidna Anas (رض) Mazhari) The merits and blessings of adhan and its reply are very great, as stated in Sahih ahadith, provided that the adhan is proclaimed purely for Allah, and not for any payment or compensation. These ahadith have been collected in Tafsir Mazhari&.

وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَى اللّٰهِ ۔ یہ مومنین کاملین کا دوسرا حصہ احوال ہے کہ وہ صرف خود ہی اپنے ایمان و عمل پر قناعت نہیں کرتے بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی اس کی دعوت دیتے ہیں۔ اور فرمایا کہ اس سے اچھا کس کا قول ہوسکتا ہے جو لوگوں کو اللہ کی طرف بلائے۔ معلوم ہوا کہ انسان کے کلام میں سب سے افضل و احسن وہ کلام ہے جس میں دوسروں کو دعوت حق دی گئی ہو، اس میں دعوت الی اللہ کی سب صورتیں داخل ہیں۔ زبان سے تحریر سے یا کسی عنوان سے، اذان دینے والا بھی اس میں داخل ہے، کیونکہ وہ دوسروں کو نماز کی طرف بلاتا ہے۔ اسی لئے حضرت صدیقہ عائشہ نے فرمایا کہ یہ آیت موذنوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اور اس دعا الیٰ اللہ کے بعد عمل صالحاً آیا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اذان و اقامت کے درمیان دو رکعت نماز پڑھ لے۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اذان و اقامت کے درمیان جو دعا کی جاتی ہے وہ رد نہیں ہوتی۔ (رواہ ابوداؤد والترمذی عن انس۔ مظہری) اذان اور جواب اذان کے فضائل و برکات احادیث صحیحہ میں بہت بڑے ہیں۔ بشرطیکہ اخلاص کے ساتھ اللہ کے لئے اذان دے، اجرت و معاوضہ پیش نظر نہ ہو۔ احادیث میں اس جگہ تفسیر مظہری میں جمع کردی ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَى اللہِ وَعَمِلَ صَالِحًـا وَّقَالَ اِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ۝ ٣٣ احسان الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» . فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] . ( ح س ن ) الحسن الاحسان ( افعال ) احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ إلى إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران/ 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور/ 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت . الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا } ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ :{ وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ } ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے س صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ سلم والْإِسْلَامُ : الدّخول في السّلم، وهو أن يسلم کلّ واحد منهما أن يناله من ألم صاحبه، ومصدر أسلمت الشیء إلى فلان : إذا أخرجته إليه، ومنه : السَّلَمُ في البیع . والْإِسْلَامُ في الشّرع علی ضربین : أحدهما : دون الإيمان، وهو الاعتراف باللسان، وبه يحقن الدّم، حصل معه الاعتقاد أو لم يحصل، وإيّاه قصد بقوله : قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات/ 14] . والثاني : فوق الإيمان، وهو أن يكون مع الاعتراف اعتقاد بالقلب، ووفاء بالفعل، واستسلام لله في جمیع ما قضی وقدّر، كما ذکر عن إبراهيم عليه السلام في قوله : إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة/ 131] ، ( س ل م ) السلم والسلامۃ الاسلام اس کے اصل معنی سلم ) صلح) میں داخل ہونے کے ہیں اور صلح کے معنی یہ ہیں کہ فریقین باہم ایک دوسرے کی طرف سے تکلیف پہنچنے سے بےخوف ہوجائیں ۔ اور یہ اسلمت الشئی الی ٰفلان ( باب افعال) کا مصدر ہے اور اسی سے بیع سلم ہے ۔ شرعا اسلام کی دوقسمیں ہیں کوئی انسان محض زبان سے اسلام کا اقرار کرے دل سے معتقد ہو یا نہ ہو اس سے انسان کا جان ومال اور عزت محفوظ ہوجاتی ہے مگر اس کا درجہ ایمان سے کم ہے اور آیت : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات/ 14] دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے ( بلکہ یوں ) کہو اسلام لائے ہیں ۔ میں اسلمنا سے یہی معنی مراد ہیں ۔ دوسرا درجہ اسلام کا وہ ہے جو ایمان سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ولی اعتقاد بھی ہو اور عملا اس کے تقاضوں کو پورا کرے ۔ مزید پر آں کو ہر طرح سے قضا وقدر الہیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کردے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة/ 131] جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا ۔ کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سرا طاعت خم کرتا ہوں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

دعوت الی اللہ فرض ہے قول باری ہے (ومن احسن قولا ممن دعا الی اللہ وعمل صالحا۔ اور اس سے بہتر بات کس کی ہے جو دوسروں کو اللہ کی طرف بلائے اور خود بھی نیک عمل کرے) اس میں یہ بیان ہے کہ یہی بات سب سے بہتر ہے۔ اس کے ذریعے اس امر پر دلالت ہورہی ہے کہ اللہ کی طرف بلانے کی فرضیت لازم ہے ۔ کیونکہ نفل کا فرض سے بہتر ہونا کسی طرح درست نہیں ہے۔ اگر اللہ کی طرف بلانا فرض نہ ہوتا جبکہ اللہ تعالیٰ نے اسے بہترین قرار دیا ہے تو یہ اس امر کا مقتضی ہوتا کہ نفل کو فرض سے بہتر قرار دیا جائے حالانکہ یہ امر ممتنع ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور اس سے زیادہ محکم یا یہ کہ بہتر کس کی بات ہوسکتی ہے جو لوگوں کو توحید کی طرف بلائے یعنی رسول اکرم کی ذات اقدس اور فرائض کو ادا کرے نیز کہا گیا ہے کہ یہ آیت موذنوں کے بارے میں نازل ہوئی یعنی جو اذان کے ذریعہ سے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلائے اس سے بہتر کس کی بات ہوسکتی ہے اور خود بھی مغرب کی اذان کے علاوہ اور اذانوں کے بعد دو رکعتیں پڑھے اور اسلام کا اقرار کرے اور کہے کہ میں بیشک مومن ہوں ان اوصاف کے مالک رسول اکرم کی ذات بابرکت اور آپ کے اصحاب ہیں۔ اور رسول اکرم کا توحید کی طرف دعوت دینا اور ابو جہل کا شرک کی طرف بلانا یہ دونوں باتیں برابر نہیں ہوسکتیں یا یہ کلمہ لا الہ الا اللہ کی گواہی دینا اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٣{ وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللّٰہِ } ” اور اس شخص سے بہتر بات اور کس کی ہوگی جو بلائے اللہ کی طرف “ جس خوش قسمت شخص کو ایمان کے بعد ” استقامت “ کا مقام حاصل ہوچکا ہو ‘ اسے بھلا اب کس بات کی دھن ہوگی ؟ کیا وہ اب بھی مال و دولت ِدنیا کے پیچھے دوڑے گا ؟ یا کیا حکومت اور اقتدار کے حصول کی خواہش اب بھی اس کے دامن دل کو اپنی طرف کھینچے گی ؟ نہیں ! ہرگز نہیں ! اس ” متاعِ غرور “ کو تو وہ ٹھکرا کر بہت آگے نکل آیا ہے۔ مسند ِاستقامت پر رونق افروز ہونے کے بعد دنیا ومافیہا کے بارے میں اس کی ترجیحات بہت واضح ہوچکی ہیں۔ اب تو وہ خوب سمجھتا ہے کہ یہ سب آنی جانی چیزیں ہیں ‘ آج ہیں تو کل نہیں ہیں۔ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ دنیا اور اس کے لوازمات کی بہتات سے مسئولیت بڑھتی ہے اور حساب آخرت مشکل ہوجاتا ہے۔ چناچہ اب اس کے دل میں ایک ہی تڑپ ہے اور وہ ہے دعوت الی اللہ کی تڑپ۔ اب اس کی دوڑ دھوپ اور جدوجہد کا اگر کوئی ہدف ہے تو بس یہی کہ میں زیادہ سے زیادہ انسانوں کو راہ ہدایت پر لے آئوں۔ { وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ } ” اور وہ نیک عمل کرے اور کہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں۔ “ اعمالِ صالحہ کا مفہوم ” استقامت “ کے اندر بھی پوشیدہ ہے ‘ لیکن یہاں پر اس کا علیحدہ ذکر بھی آگیا ہے ‘ اس لیے کہ دعوت الی اللہ اور عمل صالح لازم و ملزوم ہیں۔ اگر ایک داعی کا اپنا عمل درست نہیں ہوگا تو نہ صرف یہ کہ اس کی دعوت موثر نہیں رہے گی بلکہ وہ دعوت کی بدنامی کا باعث بھی بنے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

36 After consoling and encouraging the believers, now they are being exhorted towards their real duty. In the preceding verse they were told: "Being firm in the service to Allah and standing steadfast on this way after adopting it is by itself the basic good, which makes man a friend of the angels and worthy of Paradise." Now they are being told: "The next thing which wins man the highest place of honour is that he should do good deeds himself and should invite others to the service of Allah, and even in the environment of severe antagonism where to proclaim Islam is tantamount to inviting hardships for oneself, one should firmly say that one is a Muslim." To understand the full significance of these words, one should keep in view the conditions in which they were said. The conditions were that anyone who proclaimed to be a Muslim, would feel as if he had stepped into a jungle of beasts, where everyone was rushing at him to tear him into pieces. More than that: if anyone opened his mouth to preach Islam he would feel as if he had called on the beasts to come and devour him. Such were the conditions when it was said: "A person's believing in Allah as his Lord and adopting the Right Way and standing steadfast on it is indeed a great and fundamental good, but the greatest good is that man should boldly say that he is a Muslim and should invite others towards Allah's service, fearless of the consequences, and while performing this duty should remain so pure and pious in conduct and character that no one should have a cause to find fault with Islam and with those who uphold it.

سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :36 اہل ایمان کو تسکین دینے اور ان کی ہمت بندھانے کے بعد اب ان کو ان کے اصل کام کی طرف رغبت دلائی جا رہی ہے ۔ گزشتہ آیت میں ان کو بتایا گیا تھا کہ اللہ کی بندگی پر ثابت قدم ہو جانا اور اس راستے کو اختیار کر لینے کے بعد پھر اس سے منحرف نہ ہونا بجائے خود وہ بنیادی نیکی ہے جو آدمی کو فرشتوں کا دوست اور جنت کا مستحق بناتی ہے ۔ اب ان کو بتایا جا رہا ہے کہ آگے کا درجہ ، جس سے زیادہ بلند کوئی درجہ انسان کے لیے نہیں ہے ، یہ ہے کہ تم خوب نیک عمل کرو ، اور دوسروں کو اللہ کی بندگی کی طرف بلاؤ ، اور شدید مخالفت کے ماحول میں بھی ، جہاں اسلام کا اعلان و اظہار کرنا اپنے اوپر مصیبتوں کو دعوت دینا ہے ، ڈٹ کر کہو کہ میں مسلمان ہوں ۔ اس ارشاد کی پوری اہمیت سمجھنے کے لیے اس ماحول کا نگاہ میں رکھنا ضروری ہے جس میں یہ بات فرمائی گئی تھی ۔ اس وقت حالت یہ تھی کہ جو شخص بھی مسلمان ہونے کا اظہار کرتا تھا اسے یکایک یہ محسوس ہوتا تھا کہ گویا اس نے درندوں کے جنگل میں قدم رکھ دیا ہے جہاں ہر ایک اسے پھاڑ کھانے کو دوڑ رہا ہے ۔ اور اس سے آگے بڑھ کر جس نے اسلام کی تبلیغ کے لیے زبان کھولی اس نے تو گویا درندوں کو پکار دیا کہ آؤ اور مجھے بھنبھوڑ ڈالو ۔ ان حالات میں فرمایا گیا ہے کہ کسی شخص کا اللہ کو اپنا رب مان کر سیدھی راہ اختیار کرلینا اور اس سے نہ ہٹنا بلا شبہ اپنی جگہ بڑی اور بنیادی نیکی ہے ، لیکن کمال درجے کی نیکی یہ ہے کہ میں مسلمان ہوں ، اور نتائج سے بے پرواہ ہو کر اللہ کی بندگی کی طرف خلق خدا کو دعوت دے ، اور اس کام کو کرتے ہوئے اپنا عمل اتنا پاکیزہ رکھے کہ کسی کو اسلام اور اس کے علمبرداروں پر حرف رکھنے کی گنجائش نہ ملے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٣۔ اول درجہ میں تو یہ آیت انبیاء کی شان میں ہے جن کے سبب سے دنیا میں نیک کام کرنے کی اور برائی سے بچنے کی بنیاد قائم ہوئی اور جن کی ذات کو خاص اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے کہ وہ نیک راستے پر امت کے لوگوں کو لگائیں۔ دوم درجہ میں امت کے وہ علما اور نیت لوگ ہیں جو انبیاء کی فرمانبرداری کے سبب سے خود نیک راستے پر لگے اور دوسروں کو بھی نیک راستے کی رغبت دلاتے ہیں۔ مصنف ابن ابی شیبہ وغیرہ میں حضرت ١ ؎ عائشہ سے اور بعضی اور کتابوں میں اور صحابہ سے یہ جو روایتیں ہیں کہ یہ آیت موذنوں کی شان میں نازل ہوئی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ موذن لوگ نماز جیسے نیک کام کی طرف اللہ کی مخلوق کو بلاتے ہیں اسی واسطے موذنوں کی شان میں بھی یہ آیت صادق آتی ہے یہ مطلب اس روایت کا نہیں ہے کہ موذنوں کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی ہے کیونکہ یہ آیت تو مکی ہے اور صحیحین ٢ ؎ کی حضرت عبد اللہ (رض) بن عمر کی روایت سے اور ترمذی ابودائود و ابن ماجہ اور دارمی کی حضرت عبد اللہ (رض) بن زید کی روایت سے یہ بات صحیح طور سے ثابت ہوچکی ہے کہ ہجرت کے برس ڈیڑھ برس بعد عبد اللہ بن زید نے اور حضرت عمر نے جب اذان کے لفظ خواب میں ایک شخص کو کہتے ہوئے سنے اس وقت سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت بلال کو اذان کا حکم دیا اور اسی وقت سے اذان شریعت محمدی میں قائم ہوئی پھر اس مکی آیت کا موذنوں کی شان میں نازل ہونا کیونکر صحیح ہوسکتا ہے لیکن اوپر کئی جگہ بیان ہوچکا ہے کہ صحابہ کا یہ طریقہ تھا کہ جس کسی حالت پر کسی آیت کا مطلب صادق آیا کرتا تھا تو اس کو وہ شان نزول کہا کرتے تھے اور اسی طریقہ اور عادت کے موافق حضرت عائشہ اور بعضے صحابہ نے یہ فرمایا ہے کہ آیت موذنوں کی شان میں نازل ہوئی طبرانی دارقطنی مسند بزار تفسیر ابن مردویہ وغیرہ میں جو بعضی روایتیں ہیں کہ معراج کی رات نماز کے حکم کے ساتھ ہی حضرت جبرئیل ( علیہ السلام) نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اذان سکھائی ان روایتوں میں سے کوئی روایت صحت کے درجہ کو نہیں پہنچتی۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اوپر جن لوگوں کا ذکر تھا کہ وہ خالص اللہ تعالیٰ کو اپنا معبود ٹھہرا پھر مرتے دم تک اس پر قائم رہتے ہیں۔ ان میں اس گروہ کا بڑا درجہ ہے جو خود بھی نیک راستے پر ہیں اور دوسروں کو بھی وعظ نصیحت کرکے نیک راستے پر لگاتے ہیں۔ صحیح ١ ؎ مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے۔ جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص لوگوں کو نیک راستے سے لگاتا ہے اس کو اپنے ذاتی عملوں کے اجر کے سوا اس قدر اجر اور ملے گا جتنا اس کی پیروی کرنے والوں کو ملے گا یہ حدیث ومن احسن قولا ممن دعا الی اللہ۔ کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ قیامت کے دن ایسے لوگوں کو دہرا اجر ملے گا اس لئے یہ بڑے درجہ اور رتبے کے لوگ ہیں۔ (١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ١٠٠۔ ١٠١ ج ٤ و تفسیر الدر المنثور ص ٣٦٤ ج ٥) (٢ ؎ صحیح مسلم باب بدا الاذان ص ١٦٤ ج ١) (١ ؎ صحیح مسلم باب من سن سنۃ حسنۃ اوسیئۃ الخ۔ ص ٣٤١ ج ٢)

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(41:33) ومن احسن قولا : من سوالیہ ہے۔ احسن افعل التفضیل کا صیغہ ہے۔ قولا تمیز ہے احسن سے۔ قول کے لحاظ سے کون بہتر ہے۔ اس شخص کے قول سے کس کا قول بہتر ہوسکتا ہے یا ہوگا۔ یہ جملہ استفہام انکاری ہے یعنی اس سے بہتر قول والا کوئی نہیں ہوسکتا۔ ممن۔ مرکب ہے من (حرف جر) اور من (اسم موصول) سے ۔ یعنی اس شخص سے دعا الی اللّٰہ ۔۔ الخ صلہ۔ جس نے لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا۔ بعض کے نزدیک اس دعوت الی اللہ سے مراد اذان ہے۔ پھر من دعا الی اللّٰہ سے متعلق متعدد اقوال ہیں :۔ (1) محمد بن سیرین اور سدی کا قول ہے کہ اس سے مراد رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات مبارک ہے۔ (2) حسن کے نزدیک ہر وہ مومن مراد ہے جس نے اللہ کی طرف دعوت دی۔ (3) اور حضرت ابو امامہ نے فرمایا کہ اس سے مراد مؤذن (اذان دینے والا) ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8” احسن قولا “ سے مراد قرآن اور داعی سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور پھر قیامت تک ہر وہ شخص اس کے تحت آجاتا ہے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت لیکر اٹھے۔ یوں با اعتبار معنی اس میں مؤذنین ( آذان دینے والے) اس کے مصداق ہیں۔ جنہوں نے کفار کے نرغہ سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بچایا اور کہا ( اتقتلون رجلا ان یقول ربی اللہ) ( قرطبی وغیرہ)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٣٣ تا ٤٤۔ اسرار ومعارف۔ سب سے اعلی بات یہ ہے کہ اللہ کی طرف اللہ کے بندوں کو دعوت دی جائے زبانی عمل یاتحریری کسی بھی صورت میں نہ صرف خوار ایمان قبول کرکے بیٹھ رہنا بلکہ اصلی کام یہ ہے کہ دعوت ایمان کو عام کرے حتی کہ اگر کوئی محض اللہ کے لیے اذان بھی دے دولت کا طمع نہ ہو تو وہ بھی اس میں شامل ہے اور ہر مبلغ جو خلوص سے تبلیغ کرے اس سے دولت کا حصول یا اقتدار مقصود نہ ہو تو یہ سب سے اعلی بات ہے جو دار دنیا میں کی جاسکتی ہے نیز تبلیغ دین عمل سے آزادی نہیں دیتی بلکہ تبلیغ کے ساتھ کود اس کا کردار بھی صالح ہو اپنے مسلمان ہونے پر فخر ہو۔ اور اس بات پر فخر ہو اللہ کا شکر ادا کرتا ہو کہ میں مسلمان ہوں نہ یہ کہ آج کل مسلمانوں کی طرح کفار سے دب کرمعذرت خواہانہ انداز میں کہے کہ جی میں ہوں تو مسلمان ہی۔ برائی اور بھلائی اپنے نتائج میں کبھی ایک نہیں ہوسکتیں لہذا برائی کو بھی نیکی اور بھلائی کرکے ٹال دیا کریں اور برائی کا جواب برائی سے دینا تو بہرحال عداوت کو بڑھاتا ہے مگر نیکی کی جائے تو اکثر دشمن کو بھی دوست بنادیتی ہے عمومی زندگی میں مسلمان کے لیے یہ حسن عمل اس کی کامیابی کا راستہ ہے جیسے کسی نے سیدنا ابوبکر کو برابھلا کہا تو آپ نے فرمایا اگر میں ایسا ہوں تو توبہ کرتا ہوں اللہ مجھے معاف کرے اور اگر تو غلط کہہ رہا ہے تو دعا ہے اللہ تجھے معاف فرمائے ۔ یہ نعمت ان لوگوں کو عطا ہوتی ہے جو صبر اختیار کرتے ہیں اور جلد باز نہیں ہوتے اور ایسے لوگ بہت ہی خوش نصیب ہوتے ہیں۔ اور اگر ایسی حالت میں کوئی شیطانی شرارت محسوس ہو یعنی غصہ وغیرہ آنے لگے تو فورا اللہ کی پناہ حاصل کی جائے اللہ کو یاد کیا جائے کہ وہ ہر حال میں سننے والا بھی ہے اور ہر حال سے واقف بھی۔ عمومی سلوک۔ یاد رہے کہ یہ قاعدہ عمومی زندگی کے لیے ہے اس کا یہ معنی نہیں کہ احکام شرعی پامال ہوتے رہیں اور اہل باطل کو چھوٹ دے کر مسلمان حسن سلوک کا بہانہ کرتے رہین جیسا آج کل اپنے مفاد پہ چوٹ آئے تو فورا چیخ اٹھتے ہیں اور دین بیشک برباد ہوتا رہے وہاں حسن سلوک یاد آجاتا ہے ۔ یہ شب وروز کا نظام اس کی باقاعدگی اور اس کے اثرات ونتائج اشیاء پر اور انسانی زندگی پر یہ سب اللہ کی عظمت کے دلائل ہیں کہیں اپنی جہالت سے انہی کی عظمت کے اسیر نہ ہوجانا کہ چاند سورج وغیرہ کو سجدہ کرنے لگو بلکہ سجدہ صرف اس ذات کا حق ہے جو سب کی خالق ہے۔ غیر اللہ کا سجدہ۔ سجدہ عبادت شرک ہے ، اور ہمیشہ حرام رہا ہے پہلی شریعتوں میں تعظیم کے لیے سجدہ جائز تھا جو شریعت محمدی میں حرام ہو اگر کوئی عبادت کی نیت سے سجدہ کرے گا کافر ہوگا اور تعظیم کے لیے کرے گا ، تو فعل حرام کا مرتکب ہوگا نیز دہریوں کی طرح سورج اور چاند اور شب وروز یاموسموں کے اثرات ہی مستقل سبب مان لینا ایک طرح سے انہیں سجدہ عبات کرنا ہی ہے۔ فرمایا ان سب سے بچو اور اس ذات کو سجدہ کروجوان سب کو یہ کمال عطا کرتی ہے ان کی خالق ہے یہی اس کی عبادت کا راستہ ہے یعنی ان تمام سائنسی تحقیقات کا حاصل عظمت الٰہی کا شعور اور ادراک ہے ۔ اور اگر کوئی اپنی جہالت سے اللہ کو سجدہ کرنا اپنی کسر شان سمجھے اس کی اطاعت میں اپنی کمی خیال کرتا ہو تو اللہ کی بارگاہ میں تو سجدہ کرنے والے بیشمار فرشتے بھی ہیں جو شب وروز اس کی تسبیح کرتے ہیں اور کبھی تھکتے تک نہیں اسے سجدہ کی کمی نہیں ہر انسان کی ضرورت ہے کہ عبادت کرے اور دیکھ کر زمین کس طرح مردہ ہوجاتی ہے کہ اور ویران پڑی ہوتی ہے مگر اللہ اس پر بارش برساتا ہے تو پھولنے لگتی ہے اور دیکھ بیشمار نباتات اور چارہ سبزہ جس کانشان تک ہٹ چکا ہوتا پھر تروتازہ ہوکرنکل آتا ہے یقیناجو اللہ اس سب کو تمہاری نظروں کے سامنے زندگی عطا کرتا ہے وہی مردوں کو میدان حشر میں زندہ کرے گا کہ بیشک وہ ہر شے پر قادر ہے اور جو لوگ یہ طریقہ اپناتے ہیں کہ بظاہر تو قرآن کو مان لیں مگر اس کے معانی میں ایسی تاویل کریں جو مفہوم ہی بدل دے اور یوں الحاد سے اپنی خواہشات کی تکمیل چاہتے ہوں وہ اللہ سے چھپے ہوئے نہیں۔ الحاد وملحد۔ الحاد سے مراد علماء حق کے نزدیک یہ ہے کہ کھلا کفر تو نہ کرے اور قرآن کو حق ماننے کا دعوے دار ہو مگر معانی اور مفاہیم ایسے گھڑ دے جو احکام شرعی اور قرآن کی منشاء کے خلاف ہوں تو وہ ملحد ہوگا اور اس کا یہ فعل الحاد ہوگا اور یہ رویہ روافض نے اپنایا اور پھر خوارج کا یہی انداز رہا اور قادیانی نے یہی راہی اختیار کی غرض مغرق باطلہ الحاد کے مرتکب ہوئے اور مگر آج کل کی مصیبت یہ ہے کہ تعلیم نو سے آراستہ مغرب زدہ لوگ ان حقائق میں رائے زنی کرتے ہیں جو مسلمانوں میں مشہور معروف ہیں جیسے پانچ نمازیں یا روزہ اور زکوۃ کی فرضیت وغیرہ اور یوں الحاد میں پڑ کر تباہی کی طرف جا رہے ہیں جیسے جوئے اور سود کے لیے تاویلیں گھڑی جاتی ہیں یہ سب الحاد ہے اور یہ الحاد دوزخ میں لے جانے کا سبب ہے توکیاوہ بدنصیب جو دوزخ میں ڈالے جائیں گے بہتر یا وہ خوش نصیب جنہیں یوم حشر دوزخ سے امن نصیب ہوگا ان کی رائے بہتر ہے بہرحال بندے کو اختیار دیا گیا راستہ وہ پسند کرے اپنائے اللہ کریم انسانوں کے سب اعمال خود دیکھ رہے ہیں اس ذات سے کچھ چھپا ہوا نہیں کیسے بدنصیب لوگ ہیں جو قرآن کو ماننے سے انکار کرتے ہیں حالانکہ یہ بہت ہی معزز اور نادر کتاب ہے اس کی خصوصیت ہے کہ کوئی کسی طرح سے اس میں باطل کو داخل نہیں کرسکتا نہ مخالفت کرکے اس کے الفاظ ومعانی بدل سکتا ہے جیسے سامنے سے آکر بدلنا کہا گیا ہے اور نہ خفیہ طریقے سے منافقت کرکے ایسا کرسکتا ہے اور ہمیشہ ذلیل و خوار ہوتا ہے اور اس کا رد ہوجاتا ہے چودہ صدیاں گواہ ہیں کہ واقعی اس کتاب کو ہر طرح سے اللہ کی حفاظت حاصل ہے یہ اس ذات کی طرف سے نازل کی گئی ہے جو ہر طرح سے ذات وصفات میں حکیم بھی ہے اور محمود بھی۔ آپ پر بھی ایسے ہی الزامات لگائے جاتے ہیں اور وہی اعتراضات دہرائے جاتے ہیں جو آپ سے پہلے انبیاء ورسل پر کیے گئے اور جن کے جوابات دلائل سے بارہادیے جاچکے ہیں کہ اللہ کریم بہت بڑے بخشنے والے ہیں لہذا لوگوں کی بخشش کا سبب ان جوابات دلائل کو بنا رہے ہیں لیکن یاد رہے کہ کفر پر اڑنے والوں کے لیے اس کی سزائیں بھی بہت دردناک ہیں اگر قرآن ایسی زبان میں ہوتا جسے یہ لوگ جو اس کے پہلے مخاطب ہیں اوپر ہی خیال کرتے ہیں تو ضرور کہتے کہ عجیب بات ہے خطاب عربوں سے ہے اور زبان غیر عربی ہے کہ معترض ہر حال اعتراض گھڑ ہی لیتا ہے ۔ آپ کہہ دیجئے کہ یہ قبول کرنے والوں کے لیے ہدایت نیکی کی طرف رہنمائی کرتا ہے پوری زندگی کا خوبصورت نظام عطا کرتا ہے ایسانظام عطا کرتا ہے جو ہر دکھ سے بچاتا ہے ہر پریشانی سے محفوظ رکھتا ہے اور جو نہیں مانتے ان کی برائیوں نے ان کی سماعت متاثر کردی ہے اور یہی نور قرآن ان کے لیے اندھے پن کا سبب بن گیا ہے انہیں اس کی سمجھ نہیں آرہی عربوں کا محاورہ ہے کہ بات سمجھنے والے کو کہتے ہیں تو نے قریب سے سنا اور نہ سمجھنے والے کو کہتے ہیں کہ تم بہت دور سے سنتے ہو۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

تشریح : آیت نمبر 33 تا 36 : قرآن کریم کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اللہ کے بندوں کو اللہ کی طرف آنے کی دعوت دی جائے اور ان کو رب سے جوڑ کر اس کی یاد میں جینے کا طریقہ سکھا دیا جائے ۔ اور اس بات کا گہرا شعور بیدار کردیا جائے کہ وہ صرف اس ایک اللہ کا بندہ ہے جو اس کا خالق ، رازق اور مالک ہے وہی ہر طرح کی عبادت و بندی کے لائق ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ یہ ایک اتنا عظیم مقصد ہے جس کی طرف بلانے والے سے بہتر شخص اور کون ہو سکتا ہے ؟ فرمایا کہ اس شخص سے بہتر اور کس کی بات ہو سکتی ہے جو٭لوگوں کو اللہ کی طرف بلائے٭ اسی کی اطاعت و فرما برداری کرتے ہوئے عمل صالح اختیار کرے اور ٭ اور یہ کہے میں اللہ کا فرماں بردار اور اطاعت گزار بندہ ہوں۔ بعد کی آنے والی آیات سے ظاہر ہے کہ اس سے مراد خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں کیونکہ آپ کی سیرت پاک اس بات کی گواہ ہے کہ آپ سے زیادہ کسی کا قول اور عمل اور دعوت الی اللہ احسن اور معتبر نہیں ہے ۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ آپ نیکی اور بھلائی کے اسی طریقے پر چلتے رہیے آپ دیکھیں گے کہ دنیا سے ہر برائی مٹتی چلتی جائے گی کیونکہ نیکی اور برائی برابر نہیں ہو سکتیں۔ نیکی ایک طاقت ہے جو آہستہ آہستہ دلوں کو مسخر کرتی چلی جاتی ہے اور ہر برائی کے مٹنے کا سبب بن جایا کرتی ہے ۔ نیکی اور بھلائی کو پھیلانے میں ردشواریاں بہت آتی ہیں لیکن اگر عزم و ہمت اور بلند ترین حوصلے کے ساتھ ہر تکلیف کو برداشت کرلیا جائے تو برائی اور بد کرداری کی کمزوریاں ظاہر ہو کر رہتی ہیں ۔ وہی لوگ جو مخالفتوں کا طوفان برپا کئے ہوئے ہیں اگر ان کے ساتھ بہترسلوک ، حسن اخلاق ، ہر برائی کے مقابلے میں بھلائی ، اشتعال کے جواب میں در گزر اور صبر و تحمل سے کام لیا جائے تو جو لوگ آج جانی دشمن بنے ہوئے ہیں وہ گہرے جگری دوست بن جانے پر مجبور ہوجائیں گے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے جان نثار صحابہ کرام (رض) سے فرمایا جا رہا ہے کہ جن کے دلوں میں اللہ و رسول اور دین اسلام سے بغض اور دشمنی بھری ہوئی ہے وہ ہر موقع پر اشتعال دلانے کی کوشش کرتے ہیں اور کسی زیادتی سے باز نہیں آتے۔ ان کے طرز عمل کے مقابلے میں صبر استقلال ، عزم و ہمت اور تحمل و برداشت اس قدر آسان نہیں ہے لیکن جن کی زندگیوں کا مقصد راہ سے بھٹکے ہوئے انسانوں کو ہدایت کے راستے پر گامزن کرنا ہے ان کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ آخر میں فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ شیطان کے دھوکے اور فریب کی طرف سے اپنی آنکھیں کھلی رکھیں کیونکہ شیطان نہایت درد مند ، مخلص اور خیر خواہ کے روپ میں آپ کو اور اہل ایمان کو اشتعال اور غصہ دلانے کی کوشش کرے گا کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے لیکن ایسے موقعوں پر آپ اور اہل ایمان برداشت سے کام لے کر اللہ سے پناہ مانگ لیا کریں وہ اللہ سب کی سنتا اور ہر ایک کے حالات سے اچھی طرح واقف ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی بندگی کو فخر سمجھتے متکبرین کی طرح عار نہ کرے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : ایمانداروں میں اعلیٰ کردار اور بلند مقام کے حامل حضرات۔ اپنے رب پر ایمان لانا اور اس پر مرتے دم تک قائم رہنا بہت بڑاکام اور مقام ہے۔ مگر ایک جماعت ان حضرات سے بھی ارفع مقام کی حامل ہے اور ہوگی جن کے بارے میں ارشاد ہورہا ہے کہ یہ لوگ قول اور کردار کے لحاظ سے دوسرے مسلمانوں سے بہتر ہیں۔ جس نے اسلام قبول کیا اور پھر لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا اور خود صالح اعمال کرتا رہا۔” اللہ “ کی طرف بلانے سے مراد اس کے دین کی بلامفاد اور پوری جانفشانی کیساتھ دعوت دینا ہے۔ جس میں سرفہرست رب کی توحید کی دعوت ہے۔ کیونکہ دین کی ابتدا اور اس کی انتہا توحید پر رکھی گئی ہے۔ اسلامی انقلاب اور اصلاح انسان کے لیے اس سے بہتر اور زوداثر کوئی دعوت نہیں ہوسکتی۔ اسی لیے تمام انبیاء ( علیہ السلام) کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ ” اے رسول ہم نے آپ سے پہلے جو بھی رسول بھیجا اس کی طرف یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں سو تم میری ہی بندگی کرو۔ “ (الانبیاء : ٢٥) اسی بنا پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ میں تیرہ سال اسی بات پر زور دیا اور ماریں کھائیں۔ اگر آپ اپنی دعوت میں کسی اور بات کو سرفہرست رکھتے تو اتنی تکلیفیں کبھی نہ اٹھانا پڑتیں۔ توحید میں بھی سر فہرست توحید الوہیّت کو رکھا۔ اس لیے پوری امت کے اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس آیت کے پہلے حضرت سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ جنہوں نے لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے اور صالح نمونہ پیش کرنے کا حق ادا کردیا۔ پھر آپ کے صحابہ کرام (رض) کی عظیم جماعت ہے جنہوں نے دعوت الیٰ اللہ کی خاطر وہ تکالیف بردشت کیں اور مال و جان کی قربانیاں دیں۔ جس کی مثال قیامت تک کوئی شخص پیش نہیں کرسکتا۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) أَنَّ النَّبِيَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بَعَثَ مُعَاذًا (رض) إِلَی الْیَمَنِ فَقَالَ ادْعُھُمْ إِلٰی شَھَادَۃِ أَنْ لَّاإِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰہِ فَإِنْ ھُمْ أَطَاعُوْا لِذٰلِکَ فَأَعْلِمْھُمْ أَنَّ اللّٰہَ قَدِ افْتَرَضَ عَلَیْھِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِيْ کُلِّ یَوْمٍ وَّلَیْلَۃٍ فَإِنْ ھُمْ أَطَاعُوْا لِذٰلِکَ فَأَعْلِمْھُمْ أَنَّ اللّٰہَ افْتَرَضَ عَلَیْھِمْ صَدَقَۃً فِيْ أَمْوَالِھِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِیَاءِھِمْ وَتُرَدُّ عَلٰی فُقَرَاءِھِمْ ) [ رواہ البخاری : کتاب الزکوٰۃ، باب وجوب الزکوٰۃ ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت معاذ (رض) کو یمن کی طرف بھیجتے ہوئے فرمایا انہیں اس بات کی دعوت دو کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور یقیناً میں اللہ کا رسول ہوں اگر وہ آپ کی دعوت مان لیں تو انہیں بتلائیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں اگر وہ آپ کی اس بات میں اطاعت کریں تو انہیں بتائیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کے اموال میں زکوٰۃ فرض کی ہے جو ان کے امیروں سے لے کر ان کے غریبوں کو دی جائے گی۔ “ (عَنْ أَبِيْ بَکْرَۃَ قَالَ خَطَبَنَا النَّبِيُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَوْمَ النَّحْرِ فَإِنَّ دِمَآءَ کُمْ وَأَمْوَالَکُمْ عَلَیْکُمْ حَرَامٌ کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ھٰذَا فِيْ شَھْرِکُمْ ھٰذَا فِيْ بَلَدِکُمْ ھٰذَا إِلٰی یَوْمِ تَلْقَوْنَ رَبَّکُمْ أَلَا ھَلْ بَلَّغْتُ قَالُوْا نَعَمْ ۔۔ ) [ رواہ البخاری : کتاب الحج، باب الخطبۃ أیام منی ] ” حضرت ابو بکرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج کا خطبہ دیتے ہوئے فرمایا یقیناً تمہارے خون اور تمہارے مال تم پر ایسے ہی حرام ہیں جیسے تمہارے لیے آج کا دن، مہینہ اور یہ شہر قیامت تک کے لیے حرام ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کیا میں نے ” اللہ “ کا پیغام تم تک پہنچا دیا ہے ؟ تو لوگوں نے جواب دیا ہاں۔ “ مسائل ١۔ سب سے بہتر دعوت اللہ کی توحید کی دعوت ہے۔ ٢۔ توحید پورے دین کی بنیاد ہے۔ ٣۔ بہترین مبلّغ وہ ہے جو اپنی دعوت میں توحید کو سرفہرست رکھے اور خود بھی دین پر عمل کرے۔ تفسیر بالقرآن احسن قول اور احسن مسلمان : ١۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو احسن التقویم بنایا ہے۔ ( التین : ٤) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے احسن حدیث اتاری ہے۔ (الزمر : ٣٣) ٣۔ اللہ تعالٰٰ نے موت وحیات اس لیے بنائے تاکہ انسان احسن عمل کرئے۔ ( الملک : ٢) ٤۔ اللہ تعالیٰ کی توحید کی دعوت دینا احسن بات ہے۔ (حم ٓ السجدۃ : ٣٣) ٥۔ برائی کا جواب اچھائی سے دینا احسن ہے۔ (حم ٓ السجدۃ : ٣٤) ٦۔ جھگڑے کی بجائے احسن انداز اختیار کرنا۔ (النحل : ١٢٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس سبق کا خاتمہ ایک داعی کے خدو خال اور حوصلہ افزائی پر ہوتا ہے۔ اس کی روح ، اس کے الفاظ ، اس کے آداب اور اس کی میٹھی میٹھی باتوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ ان باتوں کی طرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت کے تمام داعیوں کو متوجہ کیا جاتا ہے۔ سورت کا آغاز اس مضمون سے ہوا تھا کہ پیغمبروں اور داعیوں کے ساتھ عوام الناس کا رویہ کس قدر ظالمانہ ہوتا ہے۔ اور وہ کس قدر گستاخی اور تکبر کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس لیے یہاں داعی کو بتایا جاتا ہے کہ آپ لوگوں کا منہاج دعوت یہ ہے۔ دعوت اسلامی کا کام ایک بہت بڑا اور کٹھن کام ہے ، داعی کو مخاطب کی پیچیدہ نفسیات کا ، اس کی جہالت کا ، اس کی عزت نفس ، اس کے استکبار کا ، اس کی خواہشات کا ، اس کے مفادات کا اور اس کے مرتبہ و مقام کا سامنا ہوتا ہے۔ صرف اللہ وحدہ کی حاکمیت کی طرف دعوت دینا ، ان میں سے بیشتر چیزوں کو خطرے میں ڈال دیتا ہے ۔ پھر یہ دعوت دینا اور ایک طبقاتی معاشرے میں دینا کہ سب لوگ ایک دوسرے کے ساتھ برابر ہیں ، ایسے حالات میں دعوت کی ذمہ داری اٹھانا حقیقت ہے کہ ایک بہت ہی مشکل کام ہے۔ لیکن مشکل ہونے کے ساتھ ساتھ یہ ایک عظیم کام بھی تو ہے۔ ومن احسن قولا ۔۔۔۔۔۔ من المسلمین (٣٣) ” اور اس شخص کی بات سے اور اچھی بات کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا میں مسلمان ہوں “۔ جو لوگ دعوت اسلامی کا کام لے کر اٹھے ہیں ان کی دعوت اس عالم میں سب سے برگذیدہ دعوت ہے ، ان کے کلمے آسمانوں کی طرف پاکیزہ کلمات کی صورت میں بلند ہوتے ہیں ، لیکن داعی کی دعوت کے ساتھ اس کا عمل بھی ایسا ہی ہونا چاہئے ۔ وہ اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والا ہو۔ اس کی ذات اس دعوت میں گم ہوجائے اور اس کے سب کام دعوت ہوجائیں اور اس کی تمام سرگرمیوں میں اس کا اپنا کچھ نہ ہو۔ اس کے بعد پھر داعی کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی ہے کہ اس کی دعوت کا رد عمل کیا ہوتا ہے۔ کوئی انکار کرتا ہے ، کوئی گستاخی کرتا ہے ، کوئی تکبر کرتا ہے ، بہرحال داعی ایک اچھا انداز لے کر ہی چلتا ہے۔ وہ تو بلند مقام پر ہوتا ہے۔ اس کا مخالف برائی لے کر آتا ہے۔ اس کا مخالف تو نہایت ہی گرے ہوئے مقام پر ہوتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

داعی الی اللہ کی فضیلت، اخلاق عالیہ کی تلقین، شیطان سے محفوظ ہونے کے لیے اللہ کی پناہ لینا ان آیات میں داعی الی اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والے اشخاص و افراد کی فضیلت بیان فرمائی اور بعض امور پر تنبیہ کی ہے ارشاد فرمایا کہ اس سے بڑھ کر کس کی بات اچھی ہوگی جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور یوں کہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں، اس میں یہ بتادیا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف جو شخص بلائے یعنی توحید کی دعوت دے اور اس کے دین اور احکام دین قبول کرنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی دعوت دے اسے خود بھی اعمال صالحہ میں لگنا چاہیے جب خود عمل کرے گا تو دوسروں کو اعمال صالحہ کی دعوت دینا بھی مفید اور نافع ہوگا اور جو شخص داعی ہو اس میں تواضع بھی ہونی چاہیے حق کی دعوت بھی دے اور اپنے کو بڑا بھی نہ سمجھے اپنے بارے میں یوں کہے کہ میں بھی مسلمانوں میں سے ایک مسلمان ہوں اپنے علم کو تکبر اور غرور کا ذریعہ نہ بنالے جب کوئی شخص حق کی دعوت لیے کھڑا ہوتا ہے تو تکے بےت کے لوگوں سے سابقہ پڑتا ہے معاندین اور متکبرین سامنے آتے ہیں زبان سے اور ہاتھ سے تکلیف دیتے ہیں ایسے مواقع پر صبر کرنا درگزر کرنا مناسب ہوتا ہے اور ترکی بہ ترکی جواب دینا برائی کا بدلہ برائی سے دینا مناسب نہیں ہوتا، اگر برائی کا بدلہ برائی سے دیا جائے اور اسی قدر دیا جائے جتنی زیادتی دوسرے نے کی ہے تو یہ جائز تو ہے لیکن خوبی اور بہتری حلم اور برداشت ہی میں ہے۔ اسی کو فرمایا (وَلاَ تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلا السَّیِءَۃُ ) کہ اچھا برتاؤ اور برا برتاؤ برابر نہیں ہے پھر فرمایا (ادْفَعْ بالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ) جو اچھی خصلت ہے اور عمدہ طریقہ ہے اس کو اختیار کیجیے اس کے ذریعہ مخالف کی بد معاملگی اور برے برتاو کو دفع کیجیے (فَاِِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ) جب ایسا کرو گے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ جس شخص سے آپ کی دشمنی تھی وہ آپ کا خالص دوست بن جائے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

32:۔ ” ومن احسن “ یہ دوسری شکوے کے ساتھ متعلق ہے۔ اس میں ترغیب و ترہیب اور طریق تبلیغ کا بیان ہے۔ جب آپ ان معاندین کو اللہ تعالیٰ کا حکمنامہ (قرآن) سنائیں گے۔ تو وہ شور بپا کریں گے اور خرافات بکیں گے۔ تو آپ ان کی شرارتوں کا سختی سے جواب نہ دیں۔ بلکہ نرمی سے سمجھائیں۔ اور نہایت معقول اور سنجیدہ طرز اختیار کریں۔ تاکہ وہ کم از کم اس قرآن کو سن تو لیں۔ ان معاندین کی بدبختی دیکھو کہ وہ دعوت توحید ایسے احسن و افضل قول کو ٹھکراتے ہیں، جسے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسے جامع کمالات اور ناصح مشفق ان کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ بھلا اس شخص سے بھی کسی کا قول بہتر اور اعلی ہوسکتا ہے جو توحید باری تعالیٰ کی دعوت دے رہا ہو، خود بھی اس کے مطابق عمل کرے اور اللہ تعالیٰ کا نہایت ہی فرمانبردار بندہ ہو ؟ استفہام انکاری ہے یعنی اس سے بہتر کوئی نہیں۔ ھو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا الی التوحید (مدارک ج 4 ص 72 ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(33) اور قول کے اعتبار سے اس شخص سے بہتر کس کی بات اور کس کا قول ہوسکتا ہے جو لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دے اور بلائے اور خود بھی نیک عمل کرتا رہے اور یوں کہے کہ بیشک میں مسلمان ہوں اور اللہ تعالیٰ کے فرمانبرداروں میں سے ہوں۔ یعنی توحید کی دعوت دے عمل نیک یعنی خلوص کے ساتھ کام کرتا ہو اور اللہ تعالیٰ کی عبادت پر فخر کرتا ہو اور اپنے مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہو۔ ظاہر ہے کہ اس سے مراد خود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس ہے جیسا کہ آگے آیت میں آپ ہی کو خطاب ہے اس میں دعوت الی اللہ کا ذکر ہے آگے تبلیغ میں وہ حالات پیش آتے ہیں ان کا علاج ہے فخر کرنے کا یہ مطلب کہ اسلام سے تکبر یا عارنہ کرتا ہو۔ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ ہم کو اس میں شک نہیں کہ یہ آیت موذنوں یعنی اذان دینے والوں کے بارے میں اتری ہے اور ہر اس شخص کے بارے میں ہے جو دین اسلام کا معتقد اور موحد ہو اچھے کام کرنے والا ہو اللہ کی طرف بلانے والا ہو۔ عکرمہ کا قول ہے کہ بلانے والا موذن ہے۔ ابوامامہ باہی کا قول ہے کہ مراد اچھے عمل کرنے سے اذان اور تکبیر کے مابین نماز پڑھنی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ نماز اور تکبیر کے مابین جو دعا کی جائے وہ رد نہیں کی جاتی اور یہ بھی فرمایا کہ اگر لوگ اذان کا ثواب جان لیتے تو آپس میں اذان دینے کے متعلق جھگڑا کیا کرتے۔