The Virtue of calling Others to Allah
Allah says,
وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلاً مِّمَّن دَعَا إِلَى اللَّهِ
...
And who is better in speech than he who invites to Allah,
means, he calls the servants of Allah to Him.
...
وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ
and does righteous deeds, and says: "I am one of the Muslims."
means, he himself follows that which he says, so it benefits him as well as others. He is not one of those who enjoin good but do not do it themselves, or who forbid evil yet they do it themselves. He does good and avoids doing evil, and he calls people to their Creator, may He be blessed and exalted.
This is general in meaning and applies to everyone who calls people to what is good and is himself guided by what he says. The Messenger of Allah is the foremost among people in this regard, as Muhammad bin Sirin, As-Suddi and Abdur-Rahman bin Zayd bin Aslam said.
It was also said that what was meant here is the righteous Mu'adhdhin, as it was mentioned in Sahih Muslim:
الْمُوَذِّنُونَ أَطْوَلُ النَّاسِ أَعْنَاقًا يَوْمَ الْقِيَامَة
The Mu'adhdhins will be the ones with the longest necks on the Day of Resurrection."
In As-Sunan it is reported that the Prophet said:
الاِْمَامُ ضَامِنٌ وَالْمُوَذِّنُ مُوْتَمَنٌ فَأَرْشَدَ اللهُ الاَْيِمَّةَ وَغَفَرَ لِلْمُوَذِّنِين
The Imam is a guarantor and the Mu'adhdhin is in a position of trust. May Allah guide the Imams and forgive the Mu'adhdhin."
The correct view is that the Ayah is general in meaning, and includes the Mu'adhdhin and others. When this Ayah was revealed, the Adhan had not been prescribed at all. The Ayah was revealed in Makkah, and the Adhan was prescribed in Al-Madinah after the Hijrah, when it was shown to Abdullah bin Abd Rabbihi Al-Ansari in a dream. He told the Messenger of Allah about it, and he told him to teach it to Bilal, may Allah be pleased with him, who had a more beautiful voice, as we have discussed elsewhere.
So the correct view is that the Ayah is general in meaning, as Abdur-Razzaq said, narrating from Ma`mar, from Al-Hasan Al-Basri, who recited this Ayah:
وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلاً مِّمَّن دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ
And who is better in speech than he who invites to Allah, and does righteous deeds, and says: "I am one of the Muslims." and said,
"This is the beloved of Allah, this is the close friend of Allah, this is the chosen one of Allah, this is the most beloved of the all the people of earth to Allah. He responded to the call of Allah and called mankind to that to which he had responded. He did righteous deeds in response and said, `I am one of the Muslims.'
This is Allah's Khalifah."
Wisdom in Da`wah etc.
Allah says,
اللہ تعالیٰ کا محبوب انسان ۔
فرماتا ہے جو اللہ کے بندوں کو اللہ کی طرف بلائے اور خود بھی نیکی کرے اسلام قبول کرے اس سے زیادہ اچھی بات اور کس کی ہوگی؟ یہ ہے جس نے اپنے تئیں نفع پہنچایا اور خلق اللہ کو بھی اپنی ذات سے نفع پہنچایا ۔ یہ ان میں نہیں جو منہ کے بڑے باتونی ہوتے ہیں جو دوسروں کو کہتے تو ہیں مگر خود نہیں کرتے یہ تو خود بھی کرتا ہے اور دوسروں سے بھی کہتا ہے ۔ یہ آیت عام ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے اولیٰ طور پر اس کے مصداق ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کے مصداق اذان دینے والے ہیں جو نیک کار بھی ہوں ۔ چنانچہ صحیح مسلم میں ہے قیامت کے دن موذن سب لوگوں سے زیادہ لمبی گردنوں والے ہوں گے ۔ سنن میں ہے امام ضامن ہے اور موذن امانتدار ہے اللہ تعالیٰ اماموں کو راہ راست دکھائے اور موذنوں کو بخشے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضرت سعد بن وقاص فرماتے ہیں ۔ اذان دینے والوں کا حصہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک مثل جہاد کرنے والوں کے حصے کے ہے ۔ اذان و اقامت کے درمیان ان کی وہ حالت ہے جیسے کوئی جہاد میں راہ اللہ میں اپنے خون میں لوٹ پوٹ ہو رہا ہو ۔ حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں اگر میں موذن ہوتا تو پھر مجھے حج و عمرے اور جہاد کی اتنی زیادہ پروانہ نہ رہتی ۔ حضرت عمر سے منقول ہے ۔ اگر میں موذن ہوتا تو میری آرزو پوری ہو جاتی ۔ اور میں رات کے نفلی قیام کی اور دن کے نفلی روزوں کی اس قدر تگ ودو نہ کرتا ۔ میں نے سنا ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار موذنوں کی بخشش کی دعا مانگی ۔ اس پر میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے اپنی دعا میں ہمیں یاد نہ فرمایا حالانکہ ہم اذان کہنے پر تلواریں تان لیتے ہیں آپ نے فرمایا ہاں! لیکن اے عمر ایسا زمانہ بھی آنے والا ہے کہ موذنی غریب مسکین لوگوں تک رہ جائے گا ۔ سنو عمر جن لوگوں کا گوشت پوست جہنم پر حرام ہے ان میں موذن ہیں ۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں اس آیت میں بھی موذنوں کی تعریف ہے اس کا حی علی الصلوۃ کہنا اللہ کی طرف بلانا ہے ۔ ابن عمر اور عکرمہ فرماتے ہیں یہ آیت موذنوں کے بارے میں اتری ہے اور یہ جو فرمایا کہ وہ عمل صالح کرتا ہے اس سے مراد اذان و تکبیر کے درمیان دو رکعت پڑھنا ہے ۔ جیسے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے دو اذانوں کے درمیان نماز ہے دو اذانوں کے درمیان نماز ہے دو اذانوں کے درمیان نماز ہے جو چاہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ اذان و اقامت کے درمیان کی دعا رد نہیں ہوتی صحیح بات یہ ہے کہ آیت اپنے عموم کے لحاظ سے موذن غیر موذن ہر اس شخص کو شامل ہے جو اللہ کی طرف دعوت دے ۔ یہ یاد رہے کہ آیت کے نازل ہونے کے وقت تو سرے سے اذان شروع ہی نہ تھی ۔ اس لئے کہ آیت مکے میں اترتی ہے اور اذان مدینے پہنچ جانے کے بعد مقرر ہوئی ہے جبکہ حضرت عبداللہ بن زید بن عبدربہ نے اپنے خواب میں اذان دیتے دیکھا اور سنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا حضرت بلال کو سکھاؤ ۔ وہ بلند آواز والے ہیں ۔ پس صحیح بات یہی ہے کہ آیت عام ہے اس میں موذن بھی شامل ہیں ۔ حضرت حسن بصری اس آیت کو پڑھ کر فرماتے ہیں یہی لوگ حبیب اللہ ہیں ۔ یہی اولیاء اللہ ہیں یہی سب سے زیادہ اللہ کے پسندیدہ ہیں یہی سب سے زیادہ اللہ کے محبوب ہیں کہ انہوں نے اللہ کی باتیں مان لیں پھر دوسروں سے منوانے لگے اور اپنے ماننے میں نیکیاں کرتے رہے اور اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرتے رہے یہاں اللہ کے خلیفہ ہیں ، بھلائی اور برائی نیکی اور بدی برابر برابر نہیں بلکہ ان میں بیحد فرق ہے جو تجھ سے برائی کرے تو اس سے بھلائی کر اور اس کی برائی کو اس طرح دفع کر ۔ حضرت عمر کا فرمان ہے کہ تیرے بارے میں جو شخص اللہ کی نافرمانی کرے تو تو اس کے بارے میں اللہ کی فرمابرداری کر اس سے بڑھ کو کوئی چیز نہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسا کرنے سے تیرا جانی دشمن دلی دوست بن جائے گا ، اس وصیت پر عمل اسی سے ہو گا جو صابر ہو نفس پر اختیار رکھتا ہو اور ہو بھی نصیب دار کہ دین و دنیا کی بہتری اس کی تقدیر میں ہو ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں ایمان والوں کو اللہ کا حکم ہے کہ وہ غصے کے وقت صبر کریں اور دوسرے کی جہالت پر اپنی بردباری کا ثبوت دیں اور دوسرے کی برائی سے درگذر کرلیں ایسے لوگ شیطانی داؤ سے محفوظ رہتے ہیں اور ان کے دشمن بھی پھر تو ان کے دوست بن جاتے ہیں ، انسانی شر سے بچنے کا طریقہ ۔ اب شیطانی شر سے بچنے کا طریقہ بیان ہو رہا ہے کہ اللہ کی طرف جھک جایا کرو اسی نے اسے یہ طاقت دے رکھی ہے کہ وہ دل میں وساوس پیدا کرے اور اسی کے اختیار میں ہے کہ وہ اس کے شر سے محفوظ رکھے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز میں فرماتے تھے ، اعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم من ھمزہ ونفخہ ونفثہ ۔ پہلے ہم بیان کر چکے ہیں کہ اس مقام جیسا ہی مقام صرف سورہ اعراف میں ہے جہاں ارشاد ہے ( خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِيْنَ ١٩٩ ) 7- الاعراف:199 ) اور سورہ مومنین کی آیت ( اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ السَّيِّئَةَ 96 ) 23- المؤمنون:96 ) ، میں حکم ہوا ہے کہ درگذر کرنے کی عادت ڈالو اور اللہ کی پناہ میں آ جایا کرو برائی کا بدلہ بھلائی سے دیا کرو وغیرہ ۔