Surat Ha meem Assajdah

Surah: 41

Verse: 35

سورة حم السجدہ

وَ مَا یُلَقّٰہَاۤ اِلَّا الَّذِیۡنَ صَبَرُوۡا ۚ وَ مَا یُلَقّٰہَاۤ اِلَّا ذُوۡحَظٍّ عَظِیۡمٍ ﴿۳۵﴾

But none is granted it except those who are patient, and none is granted it except one having a great portion [of good].

اور یہ بات انہیں کو نصیب ہوتی ہے جو صبر کریں اور اسے سوائے بڑے نصیبے والوں کے کوئی نہیں پا سکتا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَمَا يُلَقَّاهَا إِلاَّ الَّذِينَ صَبَرُوا ... But none is granted it except those who are patient, meaning, no one accepts this advice and works according to it, except for those who can be patient in doing so, for it is difficult for people to do. ... وَمَا يُلَقَّاهَا إِلاَّ ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ and none is granted it except the owner of the great portion. means, the one who has a great portion of happiness in this world and in the Hereafter. Ali bin Abi Talhah reported that Ibn Abbas explained this Ayah: "Allah commands the believers to be patient when they feel angry, to be forbearing when confronted with ignorance, and to forgive when they are mistreated. If they do this, Allah will save them from the Shaytan and subdue their enemies to them until they become like close friends."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

35۔ 1 یعنی برائی کو بھلائی کے ساتھ ٹالنے کی خوبی اگرچہ نہایت مفید اور بڑی ثمر آور ہے لیکن اس پر عمل وہی کرسکیں گے جو صابر ہونگے۔ غصے کو پی جانے والے اور ناپسندیدہ باتوں کو برداشت کرنے والے۔ 35۔ 2 حظ عظیم (بڑا نصیبہ) سے مراد جنت ہے۔ یعنی مذکورہ خوبیاں اس کو حاصل ہوتی ہیں جو بڑے نصیبے والا ہوتا ہے، یعنی جنتی جس کے لئے جنت میں جانا لکھ دیا گیا ہو۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٣] بدلہ لینے کے لحاظ سے لوگوں کی تین قسمیں :۔ دنیا میں لوگ تین قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو برائی کا بدلہ برائی سے اور نیکی کا بدلہ نیکی سے دیتے ہیں۔ اور عام لوگوں کی اکثریت ایسی ہی ہوتی ہے۔ دوسرے وہ جو نیکی کا بدلہ بھی برائی سے دیتے ہیں۔ یہ بدترین لوگ ہوتے ہیں جو بچھو کی سرشت رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ بالآخر آپ ہی اپنا نقصان کرتے ہیں۔ ان کی اس بدفطری کی وجہ سے لوگ ان سے نفرت کرتے اور ان سے پرے ہی رہنے کی کوشش کرتے ہیں اور تیسرے وہ جو برائی ہونے پر بھڑک نہیں اٹھتے بلکہ اسے برداشت کر جاتے ہیں۔ بعد میں برائی کرنے والے سے خیرخواہی اور بھلائی کا سلوک کرتے ہیں۔ اور یہ کام کوئی بچوں کا کھیل نہیں بلکہ بڑے حوصلہ اور دل گردہ کا کام ہے۔ اور ایسے کام کی اسی سے توقع کی جاسکتی ہے جو بڑا صاحب عزم اور عالی حوصلہ شخص ہو۔ ایسے لوگ سب سے بہتر ہوتے ہیں۔ اور یہ لوگ بالآخر اپنے مقصد میں کامیاب ہوتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) وما یلفھا الا الذین صبروا : یعنی برائی کا جواب سب سے اچھے طریقے کے ساتھ دینے کی توفیق انھی لوگوں کو عطا کی جاتی ہے جنہوں نے اس سے پہلے بھی صبر کی عادت اپنئای ہوتی ہے۔ ” صبروا “ مضای کا صیغہ ہے۔ (٢) وما یلقھآ الا ذوحظ عظیم : یعنی یہ خبوی کہ برائی کا جواب سب سے اچھے طریقے کے ساتھ دیں، صرف انھی لوگوں کو عطا کی جاتی ہے جو بہت بڑے نصیب والے ہوں۔ معلوم ہوا یہ حوصلہ انسان کے بس کی بات نہیں، محض اللہ تعالیٰ کی عطا ہے، اس لئے اپنی کوشش کے ساتھ ساتھ اسی سے صبر اور حوصلے کی دعا کرنا لازم ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا يُلَقّٰىہَآ اِلَّا الَّذِيْنَ صَبَرُوْا۝ ٠ ۚ وَمَا يُلَقّٰىہَآ اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِيْمٍ۝ ٣٥ ( لقی) تلقی السّماحة منه والنّدى خلقاویقال : لَقِيتُه بکذا : إذا استقبلته به، قال تعالی: وَيُلَقَّوْنَ فِيها تَحِيَّةً وَسَلاماً [ الفرقان/ 75] ، وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُوراً [ الإنسان/ 11] . وتَلَقَّاهُ كذا، أي : لقيه . قال : وَتَتَلَقَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ [ الأنبیاء/ 103] ، وقال : وَإِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْآنَ [ النمل/ 6] وتلقی السماحۃ منہ والندیٰ خلقا سخاوت اور بخشش کرنا اس کی طبیعت ثانیہ بن چکی ہے ۔ لقیت بکذا ۔ میں فلاں چیز کے ساتھ اس کے سامنے پہنچا۔ قرآن میں ہے : وَيُلَقَّوْنَ فِيها تَحِيَّةً وَسَلاماً [ الفرقان/ 75] اور وہاں ان کا استقبال دعاوسلام کے ساتھ کیا جائے گا ۔ وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُوراً [ الإنسان/ 11] اور تازگی اور شادمانی سے ہمکنار فرمائے گا ۔ تلقاہ کے معنی کسی چیز کو پالینے یا اس کے سامنے آنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَتَتَلَقَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ [ الأنبیاء/ 103] اور فرشتے ان کو لینے آئیں گے ۔ وَإِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْآنَ [ النمل/ 6] اور تم کو قرآن عطا کیا جاتا ہے ۔ صبر الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ( ص ب ر ) الصبر کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں ذو ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع، ويقال في المؤنّث : ذات، وفي التثنية : ذواتا، وفي الجمع : ذوات، ولا يستعمل شيء منها إلّا مضافا، قال : وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] ، وقال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] ، وَذِي الْقُرْبى [ البقرة/ 83] ، وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود/ 3] ، ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة/ 177] ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال/ 43] ، وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 18] ، وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال/ 7] ، وقال : ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن/ 48] ، وقد استعار أصحاب المعاني الذّات، فجعلوها عبارة عن عين الشیء، جو هرا کان أو عرضا، واستعملوها مفردة ومضافة إلى المضمر بالألف واللام، وأجروها مجری النّفس والخاصّة، فقالوا : ذاته، ونفسه وخاصّته، ولیس ذلک من کلام العرب . والثاني في لفظ ذو : لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد نحو : وبئري ذو حفرت وذو طویت ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب ) یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ اور مونث کے لئے ذات کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اس کا تثنیہ ذواتا اور جمع ذوات آتی ہے ۔ اور یہ تمام الفاظ مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] ( یعنی جبرئیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے ۔ وَذِي الْقُرْبى [ البقرة/ 83] اور رشتہ داروں ۔ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود/ 3] اور ہر ساحب فضل کو اسکی بزرگی ( کی داو ) دیگا ۔ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة/ 177] رشتہ داروں اور یتیموں ۔ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال/ 43] تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے ۔ وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 18] اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے ہیں ۔ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال/ 7] اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بےشان و شوکت ( یعنی بےہتھیار ) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے ۔ ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن/ 48] ان دونوں میں بہت سے شاخیں یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں ۔ علمائے معانی ( منطق وفلسفہ ) ذات کے لفظ کو بطور استعارہ عین شے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ جو ہر اور عرض دونوں پر بولاجاتا ہے اور پھر کبھی یہ مفرد یعنی بدون اضافت کت استعمال ہوتا ہے ۔ اور کبھی اسم ضمیر کی طرف مضاف ہو کر اور کبھی معرف بلالم ہوکر ۔ اور یہ لفظ بمنزلہ نفس اور خاصہ کے بولا جاتا ہے ۔ اور نفسہ وخاصتہ کی طرح ذاتہ بھی کہاجاتا ہے ۔ مگر یہ عربی زبان کے محاورات سے نہیں ہے ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( الوافر ) یعنی کنواں جسے میں نے کھودا اور صاف کیا ہے ۔ حظَّ الحَظُّ : النصیب المقدّر، وقد حَظِظْتُ وحُظِظْتُ فأنا مَحْظُوظ، وقیل في جمعه : أَحَاظّ وأُحُظّ ، قال اللہ تعالی: فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة/ 14] ، وقال تعالی: لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ [ النساء/ 11] . ( ح ظ ظ ) الحظ کے معنی معین حصہ کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ حظظ واحظ فھو محظوظ ۔ حط کی جمع احاظ و احظ آتی ہے قرآن میں ہے ۔ فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة/ 14] مگر انہوں نے بھی اس نصیحت کا جوان کو کی گئی تھی ایک حصہ فراموش کردیا (5 ۔ 14) لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ [ النساء/ 11] کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے ۔ عظیم وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] ، ( ع ظ م ) العظم عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا معنو ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور آخرت میں جنت ان ہی لوگوں کو ملتی ہے جو مشقتوں اور دشمن کی تکلیفوں پر دنیا میں صبر کرتے ہیں اور یہ بدی کو نیکی سے ٹال دینے کی توفیق ان ہی کو نصیب ہوتی ہے جو جنت میں ثواب کامل کے اعتبار سے بڑے نصیب والے ہوتے ہیں جیسا کہ رسول اکرم اور آپ کے صحابہ کرام۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٥{ وَمَا یُلَقّٰٹہَآ اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا } ” اور یہ مقام نہیں حاصل ہوسکتا مگر ان ہی لوگوں کو جو بہت صبر کرتے ہوں۔ “ اس خاص مقام تک صرف وہی لوگ پہنچ سکتے ہیں جن میں صبر کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہو اور وہ اپنی عملی زندگی میں بھی ہمیشہ صبر کی روش پر کاربند ہوں۔ { وَمَا یُلَقّٰٹہَا اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ ” اور یہ نہیں دیا جاتا مگر ان ہی کو جو بڑے نصیب والے ہوں۔ “ یہ حَظٍّ عَظِیْمٍ کیا ہے اور اس کا حقیقی معیار کیا ہے ؟ ہر انسان کے لیے اس کا صحیح ادراک حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ اس سے پہلے یہ لفظ ہم سورة القصص کے آٹھویں رکوع میں قارون کے حوالے سے بھی پڑھ آئے ہیں۔ قارون کے ٹھاٹھ باٹھ اور خدم و حشم سے متاثر ہو کر دنیا دار لوگوں نے حسرت بھرے انداز میں کہا تھا : { اِنَّہٗ لَذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ ۔ } ( القصص) کہ یقینا یہ شخص بڑا صاحب نصیب ہے۔ لیکن پھر جب وہ اپنے گھر بار سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا تو ان ہی لوگوں نے اس پر شکر و اطمینان کا اظہار کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر بڑی مہربانی کی کہ انہیں قارون جیسا مال و منال نہ دیا ‘ ورنہ انہیں بھی اسی طرح زمین میں دھنسا دیا جاتا۔ چناچہ ایک بندئہ مومن کے لیے اصل کامیابی ‘ حقیقی فوزو فلاح اور ” حظ ِعظیم “ اسی عمل اور اسی کردار میں ہے جس کی نشاندہی اس آیت میں کی گئی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

38 Although a very efficacious recipe, it is not easy to use. It requires a great will power, resolution, courage, power of endurance and full control over one's own self. A man may act benevolently in response to an evil done, on an impulse, and there is nothing extraordinary in it. But when a person has to fight for years and years, for the sake of the Truth, those mischievous worshippers of falsehood, who do not feel any hesitation in violating any bond of morality, and are also intoxicated with power, it requires extraordinary grit to go on resisting the evil with good, and that too with the superior good, without ever showing any lack of restraint and self-control. Such a work can be accomplished only by him who has resolved with a cool mind to work for the cause of upholding the Truth, who has subdued his self to intellect and sense and in whom good and righteousness have taken such deep roots that no malice and mischief of the opponents can succeed in deposing him from his high position. 39 This is a law of nature. Only a man of very high rank is characterised by. these qualities; and the one who possesses these qualities cannot be prevented by any power of the world from attaining to his goal of success. It is in no way possible that the depraved people may defeat him with their mean machinations and shameless devices.

سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :38 یعنی یہ نسخہ ہے تو بڑا کارگر ، مگر اسے استعمال کرنا کوئی ہنسی کھیل نہیں ہے ۔ اس کے لیے بڑا دل گردہ چاہیے ۔ اس کے لیے بڑا عزم ، بڑا حوصلہ ، بڑی قوت برداشت ، اور اپنے نفس پر بہت بڑا قابو درکار ہے ۔ وقتی طور پر ایک آدمی کسی بدی کے مقابلے میں بڑی نیکی برت سکتا ہے ۔ یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے ۔ لیکن جہاں کسی شخص کو سالہا سال تک ان باطل پرست اشرار کے مقابلے میں حق کی خاطر لڑنا پڑے جو اخلاق کی کسی حد کو پھاند جانے میں تامل نہ کرتے ہوں ، اور پھر طاقت اور اختیارات کے نشے میں بھی بد مست ہو رہے ہوں ، اور وہاں بدی کا مقابلہ نیکی اور وہ بھی اعلیٰ درجے کی نیکی سے کرتے چلے جانا ، اور کبھی ایک مرتبہ بھی ضبط کی باگیں ہاتھ سے نہ چھوڑنا کسی معمولی آدمی کے بس کا کام نہیں ہے ۔ یہ کام وہی شخص کر سکتا ہے جو ٹھنڈے دل سے حق کی سربلندی کے لیے کام کرنے کا پختہ عزم کر چکا ہو ، جس نے پوری طرح سے اپنے نفس کو عقل و شعور کے تابع کر لیا ہو ، اور جس کے اندر نیکی و راستی ایسی گہری جڑیں پکڑ چکی ہو کہ مخالفین کی کوئی شرارت و خباثت بھی اسے اس کے مقام بلند سے نیچے اتار لانے میں کامیاب نہ ہو سکتی ہو ۔ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :39 یہ قانون فطرت ہے ۔ بڑے ہی بلند مرتبے کا انسان ان صفات سے متصف ہوا کرتا ہے ، اور جو شخص یہ صفات رکھتا ہو اسے دنیا کی کوئی طاقت بھی کامیابی کی منزل تک پہنچنے سے نہیں روک سکتی ۔ یہ کسی طرح ممکن ہی نہیں ہے کہ گھٹیا درجے کے لوگ اپنی کمینہ چالوں ، ذلیل ہتھکنڈوں اور رکیک حرکتوں سے اس کو شکست دے دیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(41:35) مایلقھا۔ مضارع منفی مجہول واحد مذکر غائب ۔ تلقیۃ (تفعیل) مصدر وہ نہیں عطا کی جائے گی۔ لقی یلقی تلقیۃ ۔۔ فلان الشیء کوئی چیز کسی کی طرف پھینکنا دینا۔ عطا کرنا۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے وانک لتلقی القرآن (27:6) اور تم کو قرآن عطا کیا جاتا ہے۔ لقی مادہ۔ ذوحظ عظیم : ذو مضاف حظ عظیم موصوف و صفت مل کر مضاف الیہ۔ حظ حصہ ۔ نصیب۔ خوش قسمتی۔ ذوحظ عظیم بڑا خوش نصیب، یعنی جس کو تجلیات ذاتی و صفاتی کا بڑا حصہ ملتا ہے اسی کو یہ اعلیٰ خصلت عطا ہوتی ہے نفس پر جب اعلیٰ صفات جلوہ پاش ہوجاتی ہیں تو بری صفات نکل جاتی ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی جو اپنے اندر بڑا حوصلہ، عزم، قوت برداشت اور ضبط نفس رکھتے ہیں۔2 یعنی جو اللہ تعالیٰ کے ہاں بلند مرتبہ اور اعلیٰ صفات کے مالک ہیں۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : حوصلہ کشادہ چاہیے کہ بری بات سہار کر سامنے سے بھلی بات کہیے، یہ اقبال مندوں کو ملتا ہے۔ (موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وما یلقھا الا الذین صبروا وما یلقھا الا ذو حظ عظیم (٤١ : ٣٥) ” اور یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر ان لوگوں کو جو بڑے نصیبے والے ہوتے ہیں “ ۔ یہ اس حد تک بلند درجہ ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو ذاتی معاملات میں بھی کبھی غصے میں نہیں آتے تھے اور اگر غصے میں آتے تھے تو ان کے مقابلے میں کوئی کھڑا نہیں ہو سکتا تھا ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ ہر داعی کو یہ کہا جاتا ہے :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد اچھی خصلت یعنی حلم اور بردباری، حسن خلق عفو اور درگزر کے بارے میں فرمایا کہ یہ بہت عمدہ اور بہت بلند صفت ہے جو ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی۔ (وَمَا یُلَقَّاھَا اِِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَمَا یُلَقَّاھَا اِِلَّا ذو حَظٍّ عَظِیْمٍ ) (اور یہ بلند اخلاقوں کی صف انہیں لوگوں کو دی جاتی ہے جو صبر کرنے والے ہوتے اور انہی کو دی جاتی ہے جو بڑے نصیب والے ہیں) (حَظٍّ عَظِیْمٍ ) (بڑا نصیب) کیا ہے بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اس سے ثواب کا بڑا حصہ مراد ہے اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے جنت مراد ہے۔ (ذکر ہما فی الروح)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(35) اور یہ بات سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے صبر کا شیوہ اختیار کررکھا ہے کسی اور کو میسر نہیں ہوتی اور نہ یہ بات سوائے اس کے کسی کو ملتی اور میسر ہوتی ہے جو بڑے نصیبے والا ہو۔ یعنی یہ بات ہر ایک کے بس کی نہیں اور نہ یہ خصلت ہر ایک کو ملتی ہے مگر ہاں جو لوگ نصیبے والے ہیں اور جنہوں نے صبروسہار کا شیوہ اختیار کررکھا ہے ان کو اس خصلت سے سرفراز کیا جاتا ہے اور انہیں کو یہ خصلت تلقین کی جاتی ہے جو بڑے صاحب نصیب ہیں ورنہ اس وصف سے ہر شخص متصف نہیں ہوا کرتا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی حوصلہ کشادہ چاہیے کہ بری بات سہار کر بھلی کہے یہ اقبال مندوں کو ملتا ہے۔ خلاصہ : یہ کہ یہ مرتبہ صرف صبر کرنے والے اور نصیبے والے کا حصہ ہے جو مزاج کا بہت مستقل اور ثواب کے اعتبار سے بڑا نصیبے والا ہو۔