Surat Ha meem Assajdah

Surah: 41

Verse: 45

سورة حم السجدہ

وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ فَاخۡتُلِفَ فِیۡہِ ؕ وَ لَوۡ لَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتۡ مِنۡ رَّبِّکَ لَقُضِیَ بَیۡنَہُمۡ ؕ وَ اِنَّہُمۡ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ مُرِیۡبٍ ﴿۴۵﴾

And We had already given Moses the Scripture, but it came under disagreement. And if not for a word that preceded from your Lord, it would have been concluded between them. And indeed they are, concerning the Qur'an, in disquieting doubt.

یقیناً ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام ) کو کتاب دی تھی ، سو اس میں بھی اختلاف کیا گیا اور اگر ( وہ ) بات نہ ہوتی ( جو ) آپ کے رب کی طرف سے پہلے ہی مقرر ہو چکی ہے تو ان کے درمیان ( کبھی کا ) فیصلہ ہو چکا ہوتا یہ لوگ تو اسکے بارے میں سخت بے چین کرنے والے شک میں ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَقَدْ اتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَاخْتُلِفَ فِيهِ ... And indeed We gave Musa the Scripture, but dispute arose therein. means, they disbelieved in him and did not show him any respect. فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُوْلُواْ الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ Therefore be patient as did the Messengers of strong will, (46:35) ... وَلَوْلاَ كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ ... And had it not been for a Word that went forth before from your Lord, i.e., to delay the Reckoning until the Day of Resurrection, ... لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ ... the matter would have been settled between them. means, the punishment would have been hastened for them. But they have an appointed time, beyond which they will find no escape. ... وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مُرِيبٍ But truly, they are in grave doubt thereto. means, their words of disbelief are not due to any wisdom or insight on their part; rather they spoke without any attempt at examining it thoroughly. This was also the interpretation of Ibn Jarir, and it is a plausible interpretation. And Allah knows best.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

45۔ 1 کہ ان کے عذاب دینے سے پہلے مہلت دی جائے گی۔ ولکن یوخرھم الی اجل مسمی فاطر 45۔ 2 یعنی فوراً عذاب دے کر ان کو تباہ کردیا گیا ہوتا۔ 45۔ 3 یعنی ان کا انکار عقل و بصیرت کی وجہ سے نہیں، بلکہ محض شک کی وجہ سے ہے جو ان کو بےچین کئے رکھتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٩] یعنی جو کتاب تورات موسیٰ کو دی گئی تھی اس میں بھی جامع ہدایات موجود تھیں۔ اور لوگوں نے اس میں اختلاف کیا تھا۔ کچھ ایمان لائے تھے اور بہت سے لوگوں نے اس کی مخالفت شروع کردی تھی۔ بالکل ایسی ہی صورت حال اب قرآن کے معاملہ میں پیش آرہی ہے اور اگر اللہ کی مشیئت میں یہ بات نہ ہوتی کہ یہ دنیا دار الامتحان ہے تو ابھی ان لوگوں کے درمیان فیصلہ چکا دیا جاتا جو اپنے بعض مفادات اور سرداریوں کی بقا کی خاطر دعوت حق کو بہرحال جھٹلانے پر تلے بیٹھے ہیں۔ اور پوری سرگرمیاں اس دعوت کو مٹانے پر صرف کر رہے ہیں۔ جبکہ اصل صورت حال یہ ہے کہ ان کے دل دعوت کو درست تسلیم کرتے ہیں اور انہیں اندر ہی اندر یہ خدشہ کھائے جارہا ہے کہ اگر اسلام کو غلبہ حاصل ہوگیا تو پھر ہماری خیر نہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) لوقد اتینا موسیٰ الکتب فاختلف فیہ : اس سے بھی مقصود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا ہے ، یعنی اس سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات نازل کی گئی، مگر لوگوں نے اس کے ماننے اور نہ ماننے میں اختلاف کیا، اسی طرح اگر یہ کفار مکہ قرآن کی مخالفت کر رہے ہیں تو آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں ؟ (قرطبی) (٢) ولولاکلمۃ سبقت من ربک لقضی بینھم : یعنی اگر پہلے یہ طے نہ ہوچکا ہوتا کہ کفار کے اعمال بد پر فوری گرفت کے بجائے دنیا میں ایک وقت تک انھیں مہلت دی جائے گی اور اصل فیصلہ آخرت میں ہوگا، تو ان کا فیصلہ ہوچکا ہوتا۔ دیکھیے سورة ابراہیم (٤٢) ، نحل (٦١) اور فاطر (٤٥) ” لولا کلمۃ سبقت من ربک “ میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے یہ طے نہ کردیا ہوتا کہ ان کفار سے پیدا ہونے والی نسلیں مسلمان ہوں گی، جو سالام کا علم بلند کریں گی تو ان کا قصہ تمام کردیا گیا وہتا، جیسا کہ طائف میں ہونے والی بدسلوکی پر اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دل جوئی کے لئے ملک الجبال (پہاڑوں کے فرشتے) کو بھیجا اور اس نے آکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پیشکش کی کہ اگر آپ کہیں تو میں ان کفار پر خشبین (دو پہاڑوں) کو ملا دوں۔ (یہ مکہ کے دو پہاڑ ہیں، ایک ابو قبیس ہے اور دوسرا اس کے بالمقابل قعیقعان ہے) تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(بل ار جو ان یخرج اللہ من اضلابھم من یعبد اللہ وحدہ لا یشرک بہ شیئاً ) (بخاری، بدء الخلق، باب اذا قال احد کم امین …3231 عن عائشۃ (رض) )” بلکہ میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی پشتوں سے ان لوگوں کو نکالے گا جو اکیلے اللہ عزو جل کی عبادت کریں گے، اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں بنائیں گے۔ “ ” لولا کلمۃ سبقت من ربک “ میں یہ بات بھی شامل ہے کہ فرعون کے غرق ہونے کے بعد طے کردیا گیا کہ اب پہلی اقوام پر آنے والے عذابوں کے بجائے دنیا میں کفار کو جہاد کے ذریعے سے مسلمانوں کے ہاتھوں سزا دی جائے گی اور آخری فیصلہ قیامت کے دن ہوگا۔ یہ پوری آیت اور اس کی تفسیر سورة ہود کی آیت (١١٠) میں گزر چکی ہے۔ وہاں ملاحظہ فرمائیں۔ (٣) وانھم لفی شک منہ مریب :” شک “ اور ” مریب “ کی لغوی تفسیر لئے دیکھیے سورة ہود (٦٢) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ فَاخْتُلِفَ فِيْہِ۝ ٠ ۭ وَلَوْلَا كَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَہُمْ۝ ٠ ۭ وَاِنَّہُمْ لَفِيْ شَكٍّ مِّنْہُ مُرِيْبٍ۝ ٤٥ آتینا وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة/ 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء/ 54] . [ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] . وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف/ 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني . { وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا } [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ { فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا } [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ { مُلْكًا عَظِيمًا } [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ { آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ } [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔ موسی مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته . كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو الاختلافُ والمخالفة والاختلافُ والمخالفة : أن يأخذ کلّ واحد طریقا غير طریق الآخر في حاله أو قوله، والخِلَاف أعمّ من الضّدّ ، لأنّ كلّ ضدّين مختلفان، ولیس کلّ مختلفین ضدّين، ولمّا کان الاختلاف بين النّاس في القول قد يقتضي التّنازع استعیر ذلک للمنازعة والمجادلة، قال : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم/ 37] ( خ ل ف ) الاختلاف والمخالفۃ الاختلاف والمخالفۃ کے معنی کسی حالت یا قول میں ایک دوسرے کے خلاف کا لفظ ان دونوں سے اعم ہے کیونکہ ضدین کا مختلف ہونا تو ضروری ہوتا ہے مگر مختلفین کا ضدین ہونا ضروری نہیں ہوتا ۔ پھر لوگوں کا باہم کسی بات میں اختلاف کرنا عموما نزاع کا سبب بنتا ہے ۔ اس لئے استعارۃ اختلاف کا لفظ نزاع اور جدال کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم/ 37] پھر کتنے فرقے پھٹ گئے ۔ كلم الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها، ( ک ل م ) الکلم ۔ یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔ سبق أصل السَّبْقِ : التّقدّم في السّير، نحو : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات/ 4] ، والِاسْتِبَاقُ : التَّسَابُقُ. قال : إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف/ 17] ، وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف/ 25] ، ثم يتجوّز به في غيره من التّقدّم، قال : ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف/ 11] ، ( س ب ق) السبق اس کے اصل معنی چلنے میں آگے بڑھ جانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات/ 4] پھر وہ ( حکم الہی کو سننے کے لئے لپکتے ہیں ۔ الاستباق کے معنی تسابق یعنی ایک دوسرے سے سبقت کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :َ إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف/ 17] ہم ایک دوسرے سے دوڑ میں مقابلہ کرنے لگ گئے ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف/ 25] اور دونوں دوڑتے ہوئے دروز سے پر پہنچنے ۔ مجازا ہر شے میں آگے بڑ اجانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف/ 11] تو یہ ہم سے اس کیطرف سبقت نہ کرجاتے ۔ قضی الْقَضَاءُ : فصل الأمر قولا کان ذلک أو فعلا، وكلّ واحد منهما علی وجهين : إلهيّ ، وبشريّ. فمن القول الإلهيّ قوله تعالی: وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] أي : أمر بذلک، ( ق ض ی ) القضاء کے معنی قولا یا عملا کیس کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں قضا الہیٰ اور قضاء بشری چناچہ قضاء الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ريب فَالرَّيْبُ : أن تتوهّم بالشیء أمرا مّا، فينكشف عمّا تتوهّمه، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ [ الحج/ 5] ، ( ر ی ب ) اور ریب کی حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز کے متعلق کسی طرح کا وہم ہو مگر بعد میں اس تو ہم کا ازالہ ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنا عَلى عَبْدِنا [ البقرة/ 23] اگر تم کو ( قیامت کے دن ) پھر جی اٹھنے میں کسی طرح کا شک ہوا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور ہم نے موسیٰ کو بھی توریت دی تھی تو اس کتاب موسیٰ میں بھی لوگوں نے اختلاف کیا بعض نے تصدیق کی اور بعض نے اس کو جھٹلایا اور اگر اس امت سے تاخیر عذاب کا فیصلہ نہ ہوچکا تھا۔ تو ان مشرکین اور یہود و نصاری کی ہلاکت کا فیصلہ ہوچکا ہوتا یعنی ان پر بھی جھٹلانے کی وجہ سے عذاب نازل ہوجاتا جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں پر تکذیب کے وقت عذاب نازل کیا گیا اور یہ یہود و نصاری اور مشرکین اس قرآن کریم یا یہ کہ کتاب موسیٰ کے بارے میں صاف شک میں پڑے ہوئے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٥{ وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ فَاخْتُلِفَ فِیْہِ } ” اور ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام) ٰ کو بھی کتاب دی تھی ‘ تو اس میں بھی اختلاف کیا گیا۔ “ { وَلَوْلَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّکَ لَقُضِیَ بَیْنَہُمْ } ” اور اگر آپ کے رب کی طرف سے ایک بات پہلے سے طے نہ ہوچکی ہوتی تو ان کے مابین فیصلہ کردیا جاتا۔ “ اللہ تعالیٰ کی تقویم میں ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے ‘ اسی طرح ان کے فیصلے کا بھی اللہ تعالیٰ نے ایک وقت طے کررکھا ہے۔ اگر یہ وقت پہلے سے طے نہ ہوتا تو ان کا فیصلہ اب تک چکا دیا جاتا۔ { وَاِنَّہُمْ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ مُرِیْبٍ } ” اور یقینا وہ اس کے بارے میں خلجان انگیز شک میں مبتلا ہیں۔ “ یہاں مِنْہُ سے مراد قرآن مجید ہے۔ یعنی پہلے انہوں نے خواہ مخواہ اختلافات کھڑے کیے۔ لیکن جب ہم نے ان اختلافات کی وضاحت کے لیے یہ کتاب بھیج دی تو اب وہ اس کے بارے میں ایسے شک و شبہ میں مبتلا ہوگئے ہیں جس نے انہیں سخت خلجان اور الجھن میں ڈال دیا ہے اور وہ اس میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

56 That is, some people had believed in it and some others had made up their minds to oppose it. 57 It has two meanings' (1) If Allah had not already decreed that the people would be given enough respite for consideration the disputants would have long been destroyed; (2) if AIlah had not already decreed that the disputes would finally be decided on the Day of Judgement, the reality would have been made plain as to who is in the right and who is in the wrong. 58 In this brief sentence the spiritual disease of the disbelievers of Makkah has been clearly diagnosed. It says that they are involved in doubt about the Qur'an and the Holy Prophet Muhammad (upon whom be Allah's peace ), and this doubt has caused them great anguish and confusion. That is, although apparently they deny the Qur'an's being Allah's Word and the Holy Prophet's being His Messenger very vehemently, yet this denial is not based on any conviction, but their minds arc afflicted with great vacillation, and doubt. On the one hand, their selfish motives, their interests and their prejudices demand that they should belie the Qur'an and the Prophet Muhammad (upon whom be Allah's peace) and oppose them strongly; on the other, their hearts are convened from within, that the Qur'an is, in fact, a unique and un-paralleled Word the like of which has never been heard from any literary man or poet. Neither can the insane utter such things in their madness, nor can devils come to teach God-worship, piety and righteousness to the people. Likewise, when they say that Muhammad (upon whom be Allah's peace) is a liar, their heaps from within put them to shame, and ask: Can such a person ever be a liar? When they brand him a madman, their hearts cry out from within and ask: Do you really think that he is mad? When they accuse that Muhammad (upon whom be Allah's peace) is not interested in the truth but is working for selfish motives, their hearts from within curse them and ask: Do you call this virtuous man selfish, whom you have never seen striving for the sake of wealth and power and fame, whose life has been free from every tract of self-interest, who has always been working to bring about goodness and piety, but has never acted from any selfish motives.

سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :56 یعنی کچھ لوگوں نے اسے مانا تھا اور کچھ مخالفت پر تل گئے تھے ۔ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :57 اس ارشاد کے دو مفہوم ہیں ۔ ایک یہ کہ اگر اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی یہ طے نہ کر دیا ہو تاکہ لوگوں کو سوچنے سمجھنے کے لیے کافی مہلت دی جائے گی تو اس طرح کی مخالفت کرنے والوں کا خاتمہ کر دیا جاتا ۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اگر اللہ نے پہلے ہی یہ طے نہ کر لیا ہوتا کہ اختلافات کا آخری فیصلہ قیامت کے روز کیا جائے گا تو دنیا ہی میں حقیقت کو بے نقاب کر دیا جاتا اور یہ بات کھول دی جاتی کہ حق پر کون ہے اور باطل پر کون ۔ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :58 اس مختصر سے فقرے میں کفار مکہ کے مرض کی پوری تشخیص کر دی گئی ہے ۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ وہ قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے شک میں پڑے ہوئے ہیں اور اس شک نے ان کو سخت خلجان و اضطراب میں مبتلا کر رکھا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بظاہر تو وہ بڑے زور شور سے قرآن کے کلام الہٰی ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے کا انکار کرتے ہیں ، لیکن درحقیقت ان کا یہ انکار کسی یقین کی بنیاد پر نہیں ہے ، بلکہ ان کے دلوں میں شدید تذبذب برپا ہے ۔ ایک طرف ان کے ذاتی مفاد ، ان کے نفس کی خواہشات ، اور ان کے جاہلانہ تعصبات یہ تقاضا کرتے ہیں کہ قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلائیں اور پوری طاقت کے ساتھ ان کی مخالفت کریں ۔ دوسری طرف ان کے دل اندر سے پکارتے ہیں کہ یہ قرآن فی الواقع ایک بے مثل کلام ہے جس کے مانند کوئی کلام کسی ادیب یا شاعر سے کبھی نہیں سنا گیا ہے ، نہ کوئی مجنون دیوانگی کے عالم میں ایسی باتیں کر سکتا ہے ، نہ کبھی شیاطین اس غرض کے لیے آ سکتے ہیں کہ لوگوں کو خدا پرستی اور نیکی و پاکیزگی کی تعلیم دیں ۔ اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جب وہ جھوٹا کہتے ہیں تو ان کا دل اندر سے کہتا ہے کہ خدا کے بندو کچھ شرم کرو ، کیا یہ شخص جھوٹا ہو سکتا ہے؟ جب وہ ان پر الزام رکھتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ سب کچھ حق کی خاطر نہیں بلکہ اپنی بڑائی کے لیے کر رہے ہیں تو ان کا دل اندر سے ملامت کرتا ہے کہ لعنت ہے تم پر ، اس نیک نفس انسان کو بندہ غرض کہتے ہو جسے کبھی تم نے دولت اور اقتدار اور نام و نمود کے لیے دوڑ دھوپ کرتے نہیں دیکھا ہے ، جس کی ساری زندگی مفاد پرستی کے ہر شائبے سے پاک رہی ہے ، جس نے ہمیشہ نیکی اور بھلائی کے لیے کام کیا ہے ، مگر کبھی اپنی کسی نفسانی غرض کے لیے کوئی بے جا کام نہیں کیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٥۔ ٤٧۔ اوپر ذکر تھا کہ مشرکین مکہ قرآن شریف کی آیتوں کے سننے اور ان کے مطلب کے سمجھنے میں ٹیڑھی ٹیڑھی باتیں کرتے تھے اس واسطے اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں تورات اور یہود کی پھوٹ اور ٹیڑھی باتوں کا ذکر فرمایا تاکہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی ہوجائے کہ مشرکین مکہ کی یہ حالت کچھ نئی نہیں ہے یہود کی بھی یہی حالت ہے سورة اعراف میں گزر چکا ہے کہ جب یہود نے تورات کے موافق عمل کرنے میں ٹیڑھی ٹیڑھی باتیں کیں تو ان کو ڈرایا گیا کہ ان پر طور پہاڑ پٹخ دیا جائے گا اس ڈر سے انہوں نے وہ ٹیڑھی باتیں چھوڑیں یہود کی ایسی اور مثالیں بھی قرآن شریف میں ہیں صحیح ١ ؎ بخاری میں عبد اللہ بن مسعود سے اور صحیح ٢ ؎ مسلم میں رافع بن خدیج سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ حنین کی غنیمت کا مال جب اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تقسیم کر رہے تھے تو ایک شخص نے کہا یہ تقسیم انصاف کے موافق نہیں ہے آپ نے جس وقت یہ بات سنی تو فرمایا اللہ تعالیٰ موسیٰ (علیہ السلام) پر رحمت کرے کہ وہ اس سے زیادہ ستائے گئے ہیں۔ ان روایتوں سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے کہ یہود نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کہاں تک ستایا ہے آگے فرمایا کہ اگر کارخانہ الٰہی میں ہر کام کا وقت مقرر نہ ہوتا تو ان قرآن کی آیتوں کے جھٹلانے والوں پر اب تک کوئی آفت ضرور آجاتی ‘ پھر فرمایا ان مشرکوں کے پاس شرک کی کوئی سند نہیں ہے اس واسطے یہ لوگ ایسے ناپائیدار شک اور دھوکہ کی حالت میں ہیں کہ کوئی بات ان کی پختہ طور پر نہیں راحت کے وقت مشرک بن جاتے ہیں اور مصیبت کے وقت خالص اللہ سے مصیبت کے ٹل جانے کی التجا کرتے ہیں سورة عنکبوت میں ان مشرکوں کی یہ حالت گزر چکی ہے کہ کشتی کی سواری کے وقت کشتی کے ڈوب جانے کے خوف سے اپنے بتوں کو یہ لوگ بھول جاتے اور خالص اللہ سے مدد چاہنے لگتے تھے۔ پھر فرمایا ایسے لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے جو کوئی ان میں سے راہ راست پر آ کر نیک کام کرے گا تو اچھے سے اچھا نیکی کا بدلہ اس کو ملے گا اور جو کوئی بدی کی حالت پر مرجائے گا تو سزا پائے گا کیونکہ گا رگاہ الٰہی میں کچھ ظلم نہیں ہے بلکہ ہر ایک فیصلہ انصاف کا ہے۔ صحیح ٣ ؎ مسلم کے حوالہ سے ابوذر کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ظلم اپنی ذات پر حرام ٹھہرا لیا ہے اس حدیث سے وما ربک بظلام للعبید کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جہاں مشرکین مکہ کی اور مسخراپن کی باتیں تھیں وہاں مسخراپن کے طور پر یہ لوگ اکثر قیامت کا حال پوچھا کرتے تھے کہ جس قیامت کے دن کی سزا سے ڈرایا جاتا ہے آخر وہ کب آئے گی مشرکوں کی اس بات کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ قیامت کے آنے کا وقت میووں کا درختوں کے غلافوں میں نکلنے کا وقت عورت کے حاملہ ہونے اور بچہ کے پیدا ہونے کا وقت یہ اللہ تعالیٰ کی علم غیب کی باتیں ہیں اس لئے اللہ کے رسول سے گھڑی گھڑی قیامت کے آنے کا وقت پوچھنا بےفائدہ ہے پھر فرمایا کہ وہ تمہارے جھوٹے معبود کہاں ہیں ان کو بلاؤ کہ تم کو دوزخ کے عذاب سے بچائیں تو ان لوگوں کو سوائے اس کے اور کوئی صورت عذاب سے رہائی کی نظر نہ آئے گی کہ یہ لوگ شرک سے بیزاری ظاہر کریں گے اور اپنے جھوٹے معبودوں کو بالکل بھول جائیں گے مگر اس وقت کی یہ باتیں ان لوگوں کے کچھ کام نہ آئیں مسند امام ١ ؎ احمد کے حوالہ سے حضرت عائشہ کی صحیح حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے منکر نکیر کے سوال و جواب کے بعد اچھے شخص کو جنت کا ٹھکانا اور برے شخص کو دوزخ کا ٹھکانہ اللہ کے فرشتے دکھا کر یہ کہتے ہیں کہ اس ٹھکانے میں رہنے کے لئے تجھ کو قیامت کے دن دوبارہ زندہ کیا جائے گا ابودائود مسند امام ٢ ؎ احمد کے حوالہ سے براء بن العازب کی صحیح حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ ہر شخص دوزخ میں اپنا ٹھکانہ دیکھ کر ایسے ڈر جاتا ہے کہ قیامت کے نہ آنے کی ہمیشہ دعا مانگتا رہتا ہے۔ ان حدیثوں کو آیت کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ مشرکین مکہ دنیا میں تو مسخراپن سے قیامت کے آنے کی جلدی کرتے ہیں دنیا کی تھوڑی سی زندگی کے بعد مرنے کے ساتھ ہی قیامت کا نتیجہ ان کی آنکھوں کے سامنے آگیا اور اس نتیجہ سے ایسے ڈر گئے کہ اب قیامت کے نہ آنے کی دعا مانگ رہے ہوں گے اور قیامت تک مانگتے رہیں گے۔ (١ ؎ صحیح بخاری ص ٤٨٣ ج ١ باب حدیث الخضر مع موسیٰ ) (٢ ؎ صحیح مسلم باب اعطاء المولفۃ الخ ص ٣٣٩ ج ١) (٣ ؎ صحیح مسلم باب تحریم الظلم ص ٣١٩ ج ٢) (١ ؎ و ٢ ؎ دیکھئے تفسیر ہذا جلد ہذا ص ١٣٢)

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(41:45) کلمۃ اس سے مراد وہ حکم ازلی ہے جس کے متعلق فیصلہ ہوچکا کہ وہ قیامت کے روز چکایا جائے گا۔ سبقت ماضی واحد مؤنث غائب۔ پہلے سے طے ہوچکی۔ ولولا کلمۃ سبقت من ربک اور اگر تیرے پروردگار کی طرف سے حکم پہلے ہی طے نہ ہوچکا ہوتا (کہ پورا عذاب آخرت میں ملے گا روز قیامت تک کامل عذاب نہیں آئیگا یا مقررہ مدت سے پہلے عذاب نہیں آئے گا) ۔ لقضی بینھم لام جواب شرط کا ہے قضی فعل ماضی مجہول واحد مذکر غائب تو ان کا فیصلہ (دنیا میں ہی) ہوچکا ہوتا۔ بینھم میں ہم ضمیر جمع مذکر غائب کفار مکہ کی طرف راجع ہے۔ انھم ای کفار قومک۔ منہ ای من القران۔ شک مریب : موصوف و صفت مریب اسم فاعل واحد مذکر ارابۃ (افعال) مصدر ریب مادہ۔ بےچین بنا دینے والا۔ بےچین کردینے والا۔ ای موجب للقلق والاضطراب۔ بےچین اور مضطرب کردینے والا۔ یعنی یہ لوگ اس کی طرف سے ایسے شک میں پڑے ہوئے ہیں کہ جس نے ان کو تردد میں ڈال رکھا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 اس سے مقصود بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا ہے۔ یعنی اس سے پہلے موسیٰ ( علیہ السلام) پر توارۃ نازل کی گئی مگر لوگوں نے اسے ماننے اور نہ ماننے میں اختلاف کیا۔ اسی طرح اگر یہ کفار مکہ قرآن کی مخالفت کر رہے ہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیوں کبیدہ خاطر ہوتے ہیں۔ ( قرطبی)8 شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں، بات وہی نکل چکی کہ فیصلہ ہے آخرت میں ( موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٤٥ تا ٤٦۔ اسرار ومعارف۔ ایسے ہی موسیٰ (علیہ السلام) پر جب کتاب نازل ہوئی تھی تویہی سلوک ان سے کیا گیا تھا کہ کسی نے مانا اور کسی نے محض اعتراضات کیے اور انکار کیا وہی سلوک آپ سے کر رہے ہیں کہ یہوداکثر اعتراضات دوسروں کو بھی سکھاتے ہیں تو یہ کوئی نئی بات نہیں اگر یہ مقدور نہ کردیا گیا ہوتا کہ عذاب وثواب کا فیصلہ میدان محشر میں ہوگا تو انہیں ابھی فیصلہ سنادیاجاتا کہ انہیں ان کی غلط فہمیاں چین نہیں لینے دیتیں بہرحال جو نیکی کرتا ہے وہ خود اس کے اپنے کام آئے گی اور جو برائی کرتا ہے وہ خود اس کا نتیجہ بھگت لے گا تیرا پروردگار اپنے بندوں اور اپنی مخلوق میں سے کسی کے ساتھ کبھی زیادتی نہیں کرتا۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی کسی نے مانا کسی نے نہ مانا، یہ کوئی نئی بات آپ کے لئے نہیں ہوئی، پس آپ مغموم نہ ہوں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لانے والوں کا صرف قرآن کے بارے میں یہ رویہ نہیں بلکہ ایسے لوگوں کا تورات کے بارے میں بھی یہی رویہ تھا۔ قرآن مجید سے پہلے نازل ہونے والی کتابوں میں سب سے جامع اور مفصّل کتاب تورات ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کی گئی۔ اس کے بارے میں بھی اختلاف کیا گیا۔ کچھ لوگ ایمان لائے اور باقی نے انکار کردیا۔ اگر اللہ تعالیٰ کا فیصلہ طے شدہ نہ ہوتا تو ان کا دنیا میں ہی فیصلہ کردیا جاتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے طے کر رکھا ہے کہ لوگوں کو دنیا میں اچھے، برے عمل کے لیے مہلت دی جائے۔ اور آخرت میں حساب و کتاب کیا جائے۔ اس مہلت کی وجہ سے ہی لوگوں تورات کے بارے میں اختلاف کیا اور اسی مہلت سے غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ لوگ قرآن اور قیامت کے بارے میں شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ بالآخر قیامت کے دن ان لوگوں سے ان کے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ لیکن کسی پر کوئی زیادتی نہ ہوگی کیونکہ آپ کا رب اپنے بندوں پر زیادتی نہیں کرتا۔ مکہ والوں کے سامنے یہ حقیقت بالکل واضح ہوچکی تھی کہ یہ قرآن من جانب اللہ ہے اور اس کے دلائل ناقابل تردید ہیں۔ اس لیے ان کے دل میں یہ بات سخت اضطراب پیدا کیے ہوئے تھی۔ لیکن ضد کی بنا پر ایمان لانے کے لیے تیار نہ تھے۔ کیونکہ جو کتاب اللہ کو نہیں مانتا وہ یقین کی دولت سے تہی دامن ہوتا ہے۔ جو یقین کی دولت سے محروم ہوتا ہے وہ ذہنی کشمکش کا شکار رہتا ہے۔ جسے یوں بھی بیان کیا گیا ہے یہ لوگ اپنی سرکشی میں پریشان پھرتے ہیں۔ ( البقرۃ : ١٥) یہ کیفیت انسان کے لیے بڑی تکلیف دہ ہوتی ہے۔ قیامت پر یقین ہی انسان کو نیکی میں اطمینان دلاتا اور برائی سے خوف پیدا کرتا ہے۔ لہٰذا جو شخص اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قیامت پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے گا۔ اس کے اعمال کا اسے ہی فائدہ ہوگا۔ جس نے ایمان لانے سے انکار کیا اور برے اعمال کرتا رہاوہ اس کا خمیازہ بھگتے گا۔ ” حضرت ابوذر (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں۔ آپ نے اللہ تعالیٰ سے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندو ! یقیناً میں نے اپنے آپ پر ظلم کرنا حرام کرلیا ہے اور تمہارے درمیان بھی حرام قرار دیتا ہوں پس تم آپس میں ظلم نہ کیا کرو۔ “ [ رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ، باب تحریم الظلم ] مسائل ١۔ جس طرح لوگ قرآن مجید کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں اسی طرح تورات کے بارے میں بھی اختلاف کیا گیا تھا۔ ٢۔ کتاب اللہ اور اس کی تعلیم کے بارے میں اختلاف کرنے والے ہمیشہ اضطراب میں رہتے ہیں۔ ٣۔ نیکی کا فائدہ اور برائی کا نقصان اس کے کرنے والے کو ہی ہوگا۔ ٤۔ رب کریم اپنے بندوں پر زیادتی نہیں کرتا۔ تفسیر بالقرآن رب کریم اپنے بندوں پر زیادتی نہیں کرتا : ١۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا لیکن لوگ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔ (التوبۃ : ٧٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا لیکن وہ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ (الروم : ٩) ٣۔ اللہ تعالیٰ لوگوں پر ذرہ بھر ظلم نہیں کرتا لیکن لوگ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔ (یونس : ٤٤) ٤۔ قیامت کے دن لوگ اپنے اعمال کو اپنے روبرو پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔ (الکھف : ٤٩) ٥۔ قیامت کے دن انصاف کا ترازو قائم کیا جائیگا اور کسی پر کچھ ظلم نہیں ہوگا۔ (الانبیاء : ٤٧) ٦۔ آج کے دن کسی پر ظلم نہیں کیا جائیگا اور ہر کسی کو اس کے اعمال کا صلہ دیا جائیگا۔ (یس : ٥٤) ٧۔ اللہ تعالیٰ بلاوجہ عذاب دینا پسند نہیں کرتا۔ (النساء : ١٤٧) ٨۔ اللہ تعالیٰ ذرّہ برابر ظلم نہیں کرتا۔ (النساء : ٤٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اور یہی فیصلہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کے بارے میں کیا گیا۔ قیامت میں اس کے بارے میں بھی فیصلہ ہوجائے گا ، لوگ جس طرح چاہیں عمل کریں ، قیامت میں جزاء وسزا ہوگی ان کے اعمال پر۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ہر شخص کا نیک عمل اس کے لیے مفید ہے اور برے عمل کا وبال برا عمل کرنے والے ہی پر ہے اوپر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ معاندین کی طرف سے آپ کے بارے میں وہی باتیں کہی جاتی ہیں جو آپ سے پہلے رسولوں سے کہی گئیں اس کے بعد گذشتہ رسولوں میں سے ایک رسول یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا تذکرہ فرمایا ارشاد فرمایا کہ ہم نے موسیٰ کو کتاب یعنی توریت شریف دی اس کتاب میں اختلاف کیا گیا کسی نے اس کی تصدیق کی اور کسی نے اسے جھٹلایا آپ کے ساتھ اور قرآن کے ساتھ جو آپ کے مخاطبین کا معاملہ ہے یہ پہلے بھی ہوچکا ہے پھر فرمایا کہ آپ کے رب کی طرف سے ایک بات طے ہوچکی ہے اور وہ یہ کہ جھٹلانے والوں پر مقررہ وقت پر عذاب آئے گا اگر یہ طے شدہ بات نہ ہوتی تو ان کے درمیان فیصلہ کردیا جاتا یعنی گزشتہ امتوں کی طرح عذاب بھیج کر ان کو ختم کردیا جاتا (وَاِِنَّہُمْ لَفِیْ شَکٍّ مِنْہُ مُرِیبٍ ) اور یہ لوگ قرآن کے بارے میں شک میں پڑے ہوئے ہیں اور یہ شک باعث تردد اور باعث اضطراب بنا ہوا ہے۔ بعض حضرات نے مِنْہُ کی ضمیر عذاب کے فیصلے کی طرف راجع کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ عذاب موعود کے بارے میں شک میں پڑے ہوئے ہیں اس شک نے ان کو تردد میں ڈال رکھا ہے عذاب کی وعید سنتے ہیں لیکن یقین نہیں کرتے۔ (مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِہٖ ) (جو شخص نیک کام کرے گا اس کا یہ عمل اس کے لیے نفع مند ہوگا اور اس پر ثواب ملے گا) (وَمَنْ اَسَاءَ فَعَلَیْہَا) (اور جو شخص برا عمل کرے گا تو اس کا وبال اسی پر پڑے گا) (وَمَا رَبُّکَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِیدِ ) (اور آپ کا رب بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے) وہ ہر چھوٹی بڑی نیکی کا بدلہ دے گا اور ایسا نہ ہوگا کہ جو کوئی برائی نہ کی ہو وہ اس کے اعمال نامہ میں لکھ دی جائے اور پھر اس کی وجہ سے عذاب دیا جائے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

43:۔ ” ولقد اتینا موسیٰ “ یہ معاندین کے دوسرے شبہہ کا جواب ہے۔ مشرکین کہتے ہیں قرآن دفعۃً سارا کیوں نازل نہیں ہوا۔ شاید محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھوڑا تھوڑا کر کے خود ہی بنا لاتا ہے۔ جیسا کہ سورة فرقان (رکوع 3) میں ان کا قول نقل کیا گیا ہے۔ ” وقالوا لولا نزل علیہ القران جملۃ واحدۃ “ نیز وہ کہتے، اگر یہ قرآن سچا ہوتا تو سب لوگ اسے مان لیتے، لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ اکثر لوگ جن میں علماء اہل کتاب بھی شامل ہیں اس کو نہیں مانتے۔ اس کا جواب دیا گیا کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) پر جو کتاب نازل کی تھی وہ ساری ایک ہی بار نازل کی اور وہ تھی بھی سچی کتاب۔ لیکن پھر بھی اس میں اختلاف کیا گیا۔ اس لیے تمہارا نکار محض عناد اور ضد پر مبنی ہے۔ 44:۔ ” ولولا کلمۃ “ یہ تیسرے شب ہے کا جواب ہے۔ معاندین کہتے اگر یہ قرآن سچا ہے اور ہم اس کو نہیں مانتے۔ تو ہم پر عذاب کیوں نہیں آتا۔ فرمایا : عذاب کے لیے ایک وقت معین ہے، وہ اس سے پہلے نہیں آسکتا، اگر اس کا وقت معین نہ ہوتا تو ان کا قصہ کبھی کا پاک ہوچکا ہوتا۔ یہ لوگ عذاب کے بارے میں مسلسل شک میں پڑے ہیں اور انہیں اس پر یقین نہیں آتا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(45) اور بلا شبہ ہمنے موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی کتاب عطا کی تھی پھر اس کتاب میں بھی اختلاف کیا گیا اور اگر آپ کے پروردگار کی ایک بات پہلے سے مقدر نہیں ہوچکی ہوتی تو ان کے مابین اور ان کے درمیان فیصلہ ہوچکا ہوتا اور یہ کفار مکہ بھی اس قرآن کی طرف سے ایک تردد انگیز شک میں مبتلا ہیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ سنا کر کہ ان کو بھی ہم نے توریت عطا کی تھی پھر اس کو بھی کسی نے مانا کسی نے نہ مانا یہی آپ کے ساتھ ہورہا ہے اگر مہلت اور میعا کی بات آپ کے پروردگار کی طرف سے طے نہ ہوچکی ہوتی تو ان کے مابین فیصلہ کردیا جاتا یعنی فیصلہ قیامت کے دن ہوتا اس لئے اس وقت فیصلہ نہیں ہوسکتا ان کو ایک وقت مقررہ تک کے لئے ڈھیل دے دی گئی ہے اور یہ منکر ایک ایسے شک میں مبتلا ہیں جوان کو چین نہیں دیتا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں بات وہی نکل چکی کہ فیصلہ ہے آخرت میں۔ اور فرماتے ہیں یہ ان پر اندھا پا یعنی ان پر پوشیدہ ہے۔ خلاصہ : یہ کہ عذاب موعود کی طرف سے یا قرآن کی صداقت اور اسلام کی حقانیت کی طرف سے شک میں مبتلا ہیں۔