Surat Ha meem Assajdah

Surah: 41

Verse: 54

سورة حم السجدہ

اَلَاۤ اِنَّہُمۡ فِیۡ مِرۡیَۃٍ مِّنۡ لِّقَآءِ رَبِّہِمۡ ؕ اَلَاۤ اِنَّہٗ بِکُلِّ شَیۡءٍ مُّحِیۡطٌ ﴿۵۴﴾٪  1

Unquestionably, they are in doubt about the meeting with their Lord. Unquestionably He is, of all things, encompassing.

یقین جانو! کہ یہ لوگ اپنے رب کے روبرو جانے سے شک میں ہیں یاد رکھو کہ اللہ تعالٰی ہرچیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَلاَ إِنَّهُمْ فِي مِرْيَةٍ مِّن لِّقَاء رَبِّهِمْ ... Lo, Verily, they are in doubt concerning the meeting with their Lord. means, they doubt that the Hour will come, they do not think about it or strive for it or pay heed to it; on the contrary, they regard it as irrelevant and do not care about it. But it will undoubtedly come to pass. Then Allah states that He is Able to do all things and He encompasses all things, and it is very easy for Him to bring about the Hour: ... أَلاَ إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُّحِيطٌ Verily, He is surrounding all things! means, all of creation is subject to His control, dominion and knowledge; He is controlling all things by His power, so whatever He wills happens, and whatever He does not will does not happen, and there is no god worthy of worship apart from Him. This is the end of the Tafsir of Surah Fussilat. To Allah be praise and blessings.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

54۔ 1 اس لئے اس کی بابت غورو فکر نہیں کرتے، نہ اس کے لئے عمل کرتے ہیں اور نہ اس دن کا کوئی خوف ان کے دلوں میں ہے۔ 54۔ 2 بنابریں اس کے لیے قیامت کا وقوع قطعا مشکل امر نہیں کیونکہ تمام مخلوقات پر اس کا غلبہ وتصرف ہے وہ اس میں جس طرح چاہے تصرف کرے کرتا ہے کرسکتا ہے اور کرے گا کوئی اس کو روکنے والا نہیں ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٣] یعنی کافروں کی فتنہ انگیزیوں اور شرارتوں کی اصل وجہ یہ ہے کہ انہیں نہ روزآخرت پر ایمان ہے اور نہ اللہ کے حضور جواب دہی کے تصور پر۔ اگر انہیں یہ یقین ہوتا تو کبھی ایسی حرکتیں نہ کرتے۔ لیکن انہیں یہ سمجھ نہیں آرہی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احاطہ اختیار میں کس طرح گھرے ہوئے اور مجبور محض ہیں اور اس کی گرفت سے بچ کر کہیں جا نہیں سکتے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) الا انھم فی مریۃ من لقآء ربھم : یعنی یہ لوگ قرآن اور اللہ کے رسول کو اس لئے جھٹلا رہے ہیں کہ انہیں قیامت کا یقین نہیں، بلکہ وہ اپنے رب کی ملاقات کے بارے میں شک میں مبتلا ہیں۔ (٢) الا انہ بکل شیء محیط : یعنی وہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا احاطہ کرنے والا ہے، کوئی چیز اس کے علم اور قدرت سے باہر نہیں، اس لئے وہ اس کی گرفت سے کسی طرح نہیں بچ سکتے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَآ اِنَّہُمْ فِيْ مِرْيَۃٍ مِّنْ لِّقَاۗءِ رَبِّہِمْ۝ ٠ ۭ اَلَآ اِنَّہٗ بِكُلِّ شَيْءٍ مُّحِيْطٌ۝ ٥٤ ۧ «أَلَا»«إِلَّا»هؤلاء «أَلَا» للاستفتاح، و «إِلَّا» للاستثناء، وأُولَاءِ في قوله تعالی: ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران/ 119] وقوله : أولئك : اسم مبهم موضوع للإشارة إلى جمع المذکر والمؤنث، ولا واحد له من لفظه، وقد يقصر نحو قول الأعشی: هؤلا ثم هؤلا کلّا أع طيت نوالا محذوّة بمثال الا) الا یہ حرف استفتاح ہے ( یعنی کلام کے ابتداء میں تنبیہ کے لئے آتا ہے ) ( الا) الا یہ حرف استثناء ہے اولاء ( اولا) یہ اسم مبہم ہے جو جمع مذکر و مؤنث کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس کا مفرد من لفظہ نہیں آتا ( کبھی اس کے شروع ۔ میں ھا تنبیہ بھی آجاتا ہے ) قرآن میں ہے :۔ { هَا أَنْتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ } ( سورة آل عمران 119) دیکھو ! تم ایسے لوگ ہو کچھ ان سے دوستی رکھتے ہواولائک علیٰ ھدی (2 ۔ 5) یہی لوگ ہدایت پر ہیں اور کبھی اس میں تصرف ( یعنی بحذف ہمزہ آخر ) بھی کرلیا جاتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع (22) ھؤلا ثم ھؤلاء کلا اعطیتہ ت نوالا محذوۃ بمشال ( ان سب لوگوں کو میں نے بڑے بڑے گرانقدر عطیئے دیئے ہیں مری المِرْيَةُ : التّردّد في الأمر، وهو أخصّ من الشّكّ. قال تعالی: وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ [ الحج/ 55] والامتراء والممَارَاة : المحاجّة فيما فيه مرية . قال تعالی: قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ [ مریم/ 34] ( م ر ی) المریۃ کے معنی کسی معاملہ میں تردد ہوتا ہے ۔ کے ہیں اور یہ شک سے خاص قرآن میں ہے : وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ [ الحج/ 55] اور کافر لوگ ہمیشہ اس سے شک میں رہیں گے۔ الامتراء والمماراۃ کے معنی ایسے کام میں جھگڑا کرنا کے ہیں ۔ جس کے تسلیم کرنے میں تردد ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے : قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ [ مریم/ 34] یہ سچی بات ہے جس میں لوگ شک کرتے ہیں ۔ لقی اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف/ 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] ( ل ق ی ) لقیہ ( س) یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔ حيط الحائط : الجدار الذي يَحُوط بالمکان، والإحاطة تقال علی وجهين : أحدهما : في الأجسام نحو : أَحَطْتُ بمکان کذا، أو تستعمل في الحفظ نحو : إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت/ 54] ، والثاني : في العلم نحو قوله : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق/ 12] ( ح و ط ) الحائط ۔ دیوار جو کسی چیز کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہو اور احاطۃ ( افعال ) کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) اجسام کے متعلق جیسے ۔ احطت بمکان کذا یہ کبھی بمعنی حفاظت کے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت/ 54] سن رکھو کہ وہ ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ یعنی وہ ہر جانب سے ان کی حفاظت کرتا ہے ۔ (2) دوم احاطہ بالعلم ہے جیسے فرمایا :۔ أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق/ 12] اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٣۔ ٥٤) یہاں تک کہ ان پر یہ ظاہر ہوجائے گا کہ نبی اکرم جو ان سے فرماتے ہیں وہ سچ ہے۔ آپ کے پروردگار نے ان لوگوں کے سامنے جو گزشتہ قوموں کے واقعات بیان کیے ہیں بغیر ان کو دکھائے ہوئے کیا یہ بات ان کے لیے کافی نہیں کہ وہ ان کے اعمال سے باخبر ہے مگر مکہ والے بعث بعد الموت کے بارے میں شک و شبہ میں پڑے ہوئے ہیں۔ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال اور ان کی سزا سے خوب واقف ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٤{ اَلَآ اِنَّہُمْ فِیْ مِرْیَۃٍ مِّنْ لِّقَآئِ رَبِّہِمْ } ” آگاہ ہو جائو ! یہ لوگ اپنے رب کے ساتھ ملاقات سے متعلق شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ “ { اَلَآ اِنَّہٗ بِکُلِّ شَیْئٍ مُّحِیْطٌ } ” آگاہ ہو جائو ! بیشک وہ ہرچیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

72 That is, "The basic cause of their attitude and conduct is that they are not sure that they will ever have to appear before their Lord and be held accountable for their deeds and actions." 73 That is, "They cannot escape His grasp nor can anything of their deeds be prevented from being recorded by Him. "

سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :72 یعنی ان کے اس رویہ کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انہیں اس بات کا یقین نہیں ہے کہ کبھی ان کو اپنے رب کے سامنے جانا ہے اور اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے ۔ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :73 یعنی اس کی گرفت سے بچ کر یہ کہیں جا نہیں سکتے اور اس کے ریکارڈ سے ان کی کوئی حرکت چھوٹ نہیں سکتی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(41:54) الا۔ حرف تنبیہ واستفتاح (یعنی کلام کے شروع کرنے کے لئے) ہے اور ہمزہ استفہام اور لا نافیہ سے مرکب نہیں بلکہ بسیط ہے۔ ہاں یہ تنبیہ استفتاح ، عرض اور تحضیض میں مشترک ہے۔ جب یہ تنبیہ اور استفتاح کے لئے استعمال ہوتا ہے تو جملہ اسمیہ اور فعلیہ دونوں پر داخل ہوتا ہے۔ اور جب عرض اور تحضیض کے لئے آتا ہے تو صرف افعال کے ساتھ مخصوص ہوتا ہے خواہ وہ افعال لفظا مذکور ہوں یا تقدیرا۔ (لغات القرآن) الا : خبر دار ہوجاؤ۔ جان لو۔ سن رکھو۔ مریۃ۔ اسم مصدر۔ تردد۔ یہ شک اور ریب سے خاص ہے گویا جس شک سے تردد پیدا ہوجائے اسے مریۃ کہا جاتا ہے۔ م ر ی مادہ (باب افتعال) الاممراء اور باب مفاعلہ المماراۃ کے معنی ایسے کام میں جھگڑا کرنے کے ہیں جس کے تسلیم کرنے میں تردد ہو مثلاً قرآن مجید میں ہے قول الحق الذی فیہ یمترون (19:33) یہ سچی بات ہے جس میں لوگ شک کرتے ہیں۔ اور افتمارونہ علی ما یری (53:12) کیا جو کچھ وہ دیکھتے ہیں تم اس میں ان سے جھگڑتے ہو۔ لقاء ربھم : ربھم مضاف مضاف الیہ مل کر لقاء (مضاف کا) مضاف الیہ پیشی۔ اپنے رب سے ملاقات کرنا۔ اپنے روردگار کے روبرو ہونا۔ لقاء (ب فاعلہ سے) حاصل مصدر ہے۔ محیط : اسم فاعل مرفوع۔ ہر طرف سے گرفت رکھنے والا۔ ایسا قابو یافتہ کہ اس سے چھوٹ جانا ناممکن ہے ۔ احاطہ کرنے والا۔ گھیرنے والا۔ گھیرے میں لے لینے والا۔ پورا پورا قابو میں رکھنے والا۔ ہر طرف سے گھیر لینے والا۔ احاطۃ (باب افعال) مصدر۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی انہیں آخرت کے آنے کا یقین نہیں ہے اسی لئے وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کر رہے ہیں۔ 4 یعنی ان کی ایک ایک حرکت کا اسے علم ہے، لہٰذا یہ اس کی گرفت سے بچ نہیں سکتے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

8۔ پس ان کے شک و انکار کو بھی جانتا ہے، اور اس پر سزا دے گا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کفار اپنے رب کی قدرتیں دیکھنے کے باوجود اس کی ذات اور ملاقات سے انکار کرتے ہیں۔ انسان کا ذہن آخرت کے فکر سے خالی ہوجائے تو وہ بڑے سے بڑے حقائق اور دلائل کو ٹھکراتا چلا جاتا ہے۔ یہی حالت اہل مکہ کی تھی۔ ان کے سامنے اللہ کی الوہیّت کے دلائل پیش کیے جاتے تو وہ انہیں مسترد کردیتے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا ثبوت دیا جاتا تو وہ مذاق کا نشانہ بناتے۔ فکر آخرت کی بات ہوتی تو اہل مکہ یہ کہہ کر انکار کرتے کہ جب انسان مر کر مٹی کے ساتھ مٹی ہوجائے گا تو اسے کس طرح دوبارہ زندہ کیا جاسکتا ہے ؟ ان کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ دیکھیں یہ لوگ کس طرح اپنے رب کی ملاقات کے بارے میں متردّد اور شک کا شکار ہیں۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ جو رب انہیں آفاق اور ان کے نفوس میں اپنی قدرتیں دکھلاتا ہے۔ جنہیں دیکھ کر یہ لوگ بےبس ہوجاتے ہیں اور اکثر مرتبہ ان کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ پھر غور کرو ! کہ جس نے زمین و آسمان، صحراء، دریا، شجرو حجر اور انسان کو پیدا کیا۔ کیا وہ انسان کو مارنے کے بعد اسے زندہ کرنے پر قادر نہیں ہے ؟ بلاشبہ وہ اس بات پر قاد رہے اور اس نے انسان کو ہر حالت میں دوبارہ زندہ کرنے کے بعد اپنی بارگاہ میں حاضر کرنا ہے۔ کوئی اس کا اقرار کرے یا انکار کرے اللہ تعالیٰ ایسا کرنے پر قادر ہے۔ کیونکہ اس نے اپنے علم، اختیار اور اقتدار کے حوالے سے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ انسان جل کر مرے یا پانی میں تحلیل ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ ہر صورت اسے اپنے حضور حاضر کرے گا۔ مسائل ١۔ آخرت کے منکرکے پاس کوئی عقلی اور نقلی دلائل موجود نہیں۔ ٢۔ کوئی چاہے یا نہ چاہے اس کی اپنے رب کے ساتھ ملاقات ضرور ہوگی۔ ٣۔ یقین کریں ! کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

الا انھم فی مریۃ من لقاء ربھم (٤١ : ٥٤) “ آگاہ رہو یہ لوگ اپنے رب کی ملاقات میں شک رکھتے ہیں ”۔ یہی وجہ ہے کہ یہ غلطیاں کرتے ہیں کیونکہ ان کو اللہ کی ملاقات پر پورا یقین نہیں ہے۔ یہ نہایت ہی تاکیدی امر ہے۔ الا انہ بکل شییء محیط (٤١ : ٥٤) “ سن رکھو وہ ہر چیز پر محیط ہے ”۔ لہٰذا تم اس کی ملاقات سے کیسے بچ سکتے ہو۔ تم مکمل طور پر اس کے گھیرے میں ہو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(اَلَآ اِنَّهُمْ ) الایۃ۔ خبردار یہ لوگ اپنے رب کی ملاقات کی طرف سے شک میں پڑے ہیں انہیں وقوع قیامت کا یقین نہیں اس لیے انکار پر کمر باندھ رکھی ہے لیکن یہ نہ سمجھیں کہ ان کی حرکتوں کا اللہ تعالیٰ کو علم نہیں ہے وہ ہر چیز کو اپنے احاطہ علمی میں لیے ہوئے ہے لہذا وہ ان کی حرکتوں اور کرتوتوں پر سزا دے گا۔ وھذا آخر ما یسر اللہ تعالیٰ لنا فی تفسیر سورة حم السجدہ۔ لیلۃ الثانی والعشرین فی محرم الحرام سنۃ ١٣١٨ ھ۔ من ھجرۃ سید الانام البدر التمام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الی یوم القیام و علی الہ و اصحابہ البررۃ الکرام

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

54:۔ ” الا انھم “ یہ چوتھی عقلی دلیل کے بعد تخویف اخروی ہے۔ یہ لوگ قیامت کے بارے میں شک و تردد اور نزاع وجدال میں پڑے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اور کوئی چیز اس کے علم وقدرت سے باہر نہیں اور ان کے تمام اعمال پر بھی اس کا علم حاوی ہے اس لیے وہ ان کو ان کے تمام اعمال بد کی سزا دے گا۔ واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔ سجاد بخاری عفا اللہ تعالیٰ عنہ۔ سورة حم السجدہ میں آیات توحید اور اس کی خصوصیات 1 ۔ ” قل ائنکم لتکفرون “ تا ” ذلک تقدیر العزیز العلیم “ (رکوع 2) ۔ نفی شرک فی التصرف۔ 2 ۔ ” وقیضنا لھم قرناء “ الایۃ۔ (رکوع 3) ۔ شیاطین انسانوں کو بیداری میں اور خواب میں مختلف طریقوں سے گمراہ کرتے ہیں۔ 3 ۔ ” ومن ایتہ الیل والنھار “ تا ” انہ علی کل شیء قدیر۔ (رکوع 5) ۔ نفی شرک فی التصرف و اثبات حشر و نشر۔ 4 ۔ ” الیہ یرد علم الساعۃ “ تا ” ولا تضع الا بعلمہ “ (رکوع 6) ۔ نفی شرک فی العلم۔ 5 ۔ ” اولم یکف بربکم انہ علی کل شیء شہید “ (رکوع 6) نفی شرک فی العلم۔ بحث متعلقہ مرکزی مضمون سورة حم السجدہ : سورة مومن میں مذکور ہوا کہ اللہ کے سوا حاجات میں کسی کو مت پکارو۔ اس پر یہ شبہہ ہوسکتا تھا کہ یہ دیکھا گیا ہے کہ غیر اللہ کو پکارنے سے بعض اوقات انسان مصائب سے بچ جاتا ہے۔ نیز بعض اوقات جن کو پکارا جائے وہ خواب یا بیداری میں مل کر مدد کرتے ہیں۔ تو سورة حم السجدہ میں اس کا جواب دیا گیا۔ ” وقیضنا لہم قرناء۔ الایۃ “ جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ سب شیاطین کی کارستانی ہے جو مختلف شکلوں میں متمثل ہو کر ان کو گمراہ کرتے ہیں۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ مصیبت زدہ انسان دفع مصیبت کے لیے اپنے زندہ یا فوت شدہ پیر و مرشد کو پکارتا ہے۔ تو شیاطین اس کی شکل میں متمثل ہو کر سامنے آجاتے ہیں اور سے مصیبت سے بچالیتے ہیں۔ وہ آدمی سمجھتا ہے کہ سچ مچ اس کا پیر ظاہر ہو کر اس کی مدد کر گیا ہے۔ حالانکہ وہ شیطان تھا۔ اس کو مشرکانہ عقیدے میں پختہ کرنے کے لیے اس کے پیر کی شکل میں ظاہر ہوا تھا۔ جیسا کہ امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں۔ وکثیرا ما یسغیث الرجل بشیخہ الحی او المیت، فیاتونہ فی صورۃ ذلک الشیخ وقد یخلصونہ مما یکرہ، فلا یشک ان الشیخ نفسہ جاء، ولا یعلم ان ذلک الذی تمثل انما ھو الشیطان، لما اشرک باللہ اضلتہ الشیاطین (الفرقان بین الحق والباطل ص 66) ۔ عمدۃ المفسرین علامہ سید محمود آلوسی فرماتے ہیں۔ وقد یتمثل الشیطان للمستغیث فی صورۃ الذی استغاث بہ۔ فیظن ان ذلک کر امۃ لمن استغاث بہ، ھیھات ھیھات انما ھو شیطان اضلہ واغواہ، وزین لہ ھواہ (روح المعانی ج 6 ص 169) ۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی آدمی اپنے شیخ کو غائبانہ پکارتا ہے تو شیطان اس کے کلام کو انسانی آواز اور لہجے میں اس کے پیر کے کانوں میں ڈال دیتا ہے جس سے اس کا پیر بھی دھوکہ کھا جاتا ہے کہ اس نے اتنی مسافت سے اپنے مرید کی بات سن لی ہے اور جب پیر اس کی پکار کا جواب دیتا ہے اور اس کی مصیبت ٹالنے کے لیے کوئی اشارہ کرتا ہے تو شیطان اس کے کلام کو اس کی آواز کے مماثل آواز میں مرید کے کانوں میں ڈال دیتا ہے جس سے وہ سمجھ لیتا ہے کہ اس کے پیرو مرشد نے اس کی پکار سن کر اس کی مدد کی ہے اور اس طرح دونوں پیر و مرشد اور مرید گمراہی میں پڑے رہتے ہیں چناچہ امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں۔ وتارۃ یکون التابع قل نادی لشیخہ و ھتف بہ یا سیدی فلان فینقل الجنی ذلک الکلام الی الشیخ بمثل صوت الانسی حتی یظن الشیخ انہ صوت الانسی بعینہ ثم ان الشیخ یقول نعم ویشیر اشارۃ یدفع بہا ذلک المکروہ، فیاتی الجنی بمثل ذلک الصوت والفعل یظن ذلک الشخص انہ شیخہ نفسہ وھو الذی اجابہ، وھو الذی فعل ذلک (الفرقان بین الحق والباطل ص 61) ۔ ایک اور جگہ لکھتے ہیں بعض دفعہ بعض لوگوں کو صرف آواز سنائی دیتی ہے اور بعض اوقات آدمی بھی نظر آتا ہے۔ جو خلاف شریعت بات کہتا ہے۔ تو لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی ولی اللہ تھا۔ حالانکہ وہ شیطان ہوتا ہے۔ فمن ھؤلاء من یسمع خطابا او یری من یامرہ بقضیۃ ویکون ذلک الخطاب من الشیطان ویکون ذلک الذی یخاطبہ الشیطان وھو یحسب انہ من اولیاء اللہ من رجال الغیب (الفرقان ص 52) ۔ بعض اوقات شیطان انسانی شکل میں نمودار ہو کر لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے دعوی کرتا ہے کہ وہ فلاں بزرگ ہے مثلاً کہتا ہے میں خضر ہوں۔ یا الیاس ہوں یا شیخ عبدالقادر جیلانی ہوں وغیرہ وغیرہ، تو اس طرح لوگ دھوکے میں آ کر سمجھتے ہیں کہ اولیاء اللہ زندہ ہیں۔ اور ہر جگہ موجود ہں۔ قالوا ھذا ھو الخضر وھذا ھو الیاس وھذا ھو ابوبکر عمر وھذا ھو الشیخ عبدالقادر او الشیخ عدی او الشیخ احمد الرفاعی او غیر ذلک ظن ان الامر کذلک فھنا لم یغلط، لکن غلط عقلہ حیث لم یعرف ان ھذہ شیاطین تمثلت علی صور ھؤلاء (الفرقان ص 57) ۔ اس سے معلوم ہوا کہ خوابوں، غیبی آوازوں اور اولیاء اللہ کی طرف منسوب اشکال و امثال سے جو غیر اللہ کی پکار پر استدلال کیا جاتا ہے۔ وہ سراسر باطل ہے اور یہ سب شیطانی افعال ہیں جن کے ذریعے سے شیاطین انسانوں کو گمراہ کرتے اور ان کو شرک سکھاتے ہیں۔ سورة حم السجدہ ختم ہوئی

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(54) آگاہ رہو اور یادرکھو کہ یہ لوگ اپنے پروردگار کے روبرو حاضر ہونے اور اس سے ملنے اور اس کی ملاقات سے شک میں پڑے ہوئے ہیں آگاہ ہوا اور یاد رکھو اللہ تعالیٰ کے علم اور قدرت نے ہر چیز کو گھیر رکھا ہے یعنی ان کو تو اپنے پروردگار کے روز و حاضر ہونے کا یقین ہی نہیں ہے اور یہ شک میں مبتلا ہیں یہ یادرکھو کہ اس نے یعنی اس کے علم اور اس کی قدرت نے سب کو گھیرے میں لے رکھا ہے اس سے بچ کر کہیں نہیں جاسکتے اور وہ ان کو ان کے گناہوں پر سے سزا دے گا۔ تم سورة حٰم ٓ السجدۃ