Surat Ha meem Assajdah

Surah: 41

Verse: 9

سورة حم السجدہ

قُلۡ اَئِنَّکُمۡ لَتَکۡفُرُوۡنَ بِالَّذِیۡ خَلَقَ الۡاَرۡضَ فِیۡ یَوۡمَیۡنِ وَ تَجۡعَلُوۡنَ لَہٗۤ اَنۡدَادًا ؕ ذٰلِکَ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۚ﴿۹﴾

Say, "Do you indeed disbelieve in He who created the earth in two days and attribute to Him equals? That is the Lord of the worlds."

آپ کہہ دیجئے! کہ تم اس ( اللہ ) کا انکار کرتے ہو اور تم اس کے شریک مقرر کرتے ہو جس نے دو دن میں زمین پیدا کر دی سارے جہانوں کا پروردگار وہی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Some Details of the Creation of this Universe Here Allah denounces the idolators who worship other gods apart from Him although He is the Creator, Subduer and Controller of all things. He says: قُلْ أَيِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الاَْرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَندَادًا ... Say: "Do you verily disbelieve in Him Who created the earth in two Days? And you set up rivals with Him." meaning, `false gods whom you worship alongside Him.' ... ذَلِكَ رَبُّ الْعَالَمِينَ That is the Lord of the that exists. the Creator of all things is the Lord of all the creatures. Here the Ayah; خَلَقَ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍ Who created the heavens and the earth in Six Days, (7:54) is explained in more detail; the creation of the earth and the creation of the heaven are discussed separately. Allah says that He created the earth first, because it is the foundation, and the foundation should be built first, then the roof. Allah says elsewhere: هُوَ الَّذِى خَلَقَ لَكُم مَّا فِى الاٌّرْضِ جَمِيعاً ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَأءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَـوَاتٍ He it is Who created for you all that is on the earth. Then He rose over (Istawa ila) the heaven and made them seven heavens. (2:29) With regard to the Ayat: أَءَنتُمْ أَشَدُّ خَلْقاً أَمِ السَّمَأءُ بَنَـهَا رَفَعَ سَمْكَهَا فَسَوَّاهَا وَأَغْطَشَ لَيْلَهَا وَأَخْرَجَ ضُحَـهَا وَالاٌّرْضَ بَعْدَ ذَلِكَ دَحَـهَا أَخْرَجَ مِنْهَا مَأءَهَا وَمَرْعَـهَا وَالْجِبَالَ أَرْسَـهَا مَتَـعاً لَّكُمْ وَلاًّنْعَـمِكُمْ Are you more difficult to create or is the heaven that He constructed? He raised its height, and has perfected it. Its night He covers with darkness and its forenoon He brings out (with light). And after that He spread the earth, And brought forth therefrom its water and its pasture. And the mountains He has fixed firmly, (to be) a provision and benefit for you and your cattle. (79:27-33) This Ayah states that the spreading out of the earth came after the creation of the heavens, but the earth itself was created before the heavens according to some texts. This was the response of Ibn Abbas, may Allah be pleased with him, as recorded by Al-Bukhari in his Tafsir of this Ayah in his Sahih. He recorded that Sa`id bin Jubayr said: "A man said to Ibn Abbas, may Allah be pleased with him, saying: `I find some things in the Qur'an which confuse me: فَلَ أَنسَـبَ بَيْنَهُمْ يَوْمَيِذٍ وَلاَ يَتَسَأءَلُونَ There will be no kinship among them that Day, nor will they ask of one another, (23:101) وَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَسَأءَلُونَ And they will turn to one another and question one another, (37:27) وَلاَ يَكْتُمُونَ اللَّهَ حَدِيثاً but they will never be able to hide a single fact from Allah, (4:42) وَاللَّهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ By Allah, our Lord, we were not those who joined others in worship with Allah, (6:23) But in this Ayah they did hide something. And Allah says: أَءَنتُمْ أَشَدُّ خَلْقاً أَمِ السَّمَأءُ بَنَـهَا (Are you more difficult to create or is the heaven that He constructed) until; وَالاٌّرْضَ بَعْدَ ذَلِكَ دَحَـهَا (And after that He spread the earth). (79:27-30) So He mentioned the creation of the heavens before the earth, then He said: قُلْ أَيِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الاَْرْضَ فِي يَوْمَيْنِ Say: "Do you verily disbelieve in Him Who created the earth in two Days..." until; طَأيِعِينَ (We come willingly). Here He mentioned the creation of the earth before the creation of the heavens. And He says: وَكَانَ اللَّهُ غَفُوراً رَّحِيماً verily, Allah (Kana) is Oft-Forgiving, Most Merciful. (4:23) عَزِيزاً حَكِيماً Most Powerful, All-Wise, (4:56) سَمِيعاً بَصِيراً All-Hearer, All-Seer. (4:58). It is as if He was and is no longer.' Ibn Abbas, may Allah be pleased with him, replied: فَلَ أَنسَـبَ بَيْنَهُمْ يَوْمَيِذٍ وَلاَ يَتَسَأءَلُونَ There will be no kinship among them that Day, nor will they ask of one another, (23:101), this will happen when the Trumpet is blown for the first time. فَصَعِقَ مَن فِى السَّمَـوَتِ وَمَن فِى الاٌّرْضِ إِلاَّ مَن شَأءَ اللَّهُ And all who are in the heavens and all who are on the earth will swoon away, except him whom Allah wills. (39:68), and at that time there will be no kinship among them, nor will they ask of one another. Then when the Sur will be blown again, وَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَسَأءَلُونَ And they will turn to one another and question one another. (37:27) With regard to the Ayat, وَاللَّهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ By Allah, our Lord, we were not those who joined others in worship with Allah, (6:23) and وَلاَ يَكْتُمُونَ اللَّهَ حَدِيثاً but they will never be able to hide a single fact from Allah. (4:42), Allah will forgive the sincere believers their sins, then the idolators will say, `Let us say that we never joined others in worship with Allah.' Then a seal will be placed over their mouths, and their hands will speak. Then it will be known that not a single fact can be hidden from Allah, and at that point, يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُواْ those who disbelieved will wish, (4:42) Allah created the earth in two days, then He created the heavens, then He (Istawa ila) the heaven and gave it its shape in two more days. Then He spread the earth, which means that He brought forth therefrom its water and its pasture. And He created the mountains, sands, inanimate things, rocks and hills and everything in between, in two more days. This is what Allah says: دَحَـهَا (He) spread (the earth), (79:30) And Allah's saying: خَلَقَ الاَْرْضَ فِي يَوْمَيْنِ ((He) created the earth in two Days), So He created the earth and everything in it in four days, and He created the heavens in two days. وَكَانَ اللَّهُ غَفُوراً رَّحِيماً verily, Allah (Kana) is Oft-Forgiving, Most Merciful, (4:23) This is how He described Himself, and this is how He still is. Whatever Allah wills comes to pass, so do not be confused about the Qur'an, for all of it comes from Allah."' This was recorded by Al-Bukhari. ... خَلَقَ الاَْرْضَ فِي يَوْمَيْنِ ... (He) created the earth in two Days, means, on Sunday and Monday. Allah says,

تخلیق کائنات کا مرحلہ وار ذکر ۔ ہر چیز کا خالق ہر چیز کا مالک ہر چیز پر حاکم ہر چیز پر قادر صرف اللہ ہے ۔ پس عبادتیں بھی صرف اسی کی کرنی چاہئیں ۔ اس نے زمین جیسی وسیع مخلوق کو اپنی کمال قدرت سے صرف دو دن میں پیدا کر دیا ہے ۔ تمہیں نہ اس کے ساتھ کفر کرنا چاہے نہ شرک ۔ جس طرح سب کا پیدا کرنے والا وہی ایک ہے ۔ ٹھیک اسی طرح سب کا پالنے والا بھی وہی ایک ہے ۔ یہ تفصیل یاد رہے کہ اور آیتوں میں زمین و آسمان کا چھ دن میں پیدا کرنا بیان ہوا ہے ۔ اور یہاں اس کی پیدائش کا وقت الگ بیان ہو رہا ہے ۔ پس معلوم ہوا کہ پہلے زمین بنائی گئی ۔ عمارت کا قاعدہ یہی ہے کہ پہلے بنیادیں اور نیچے کا حصہ تیار کیا جاتا ہے پھر اوپر کا حصہ اور چھت بنائی جاتی ہے ۔ چنانچہ کلام اللہ شریف کی ایک اور آیت میں ہے اللہ وہ ہے جس نے تمہارے لئے زمین میں جو کچھ ہے پیدا کرکے پھر آسمانوں کی طرف توجہ فرمائی اور انہیں ٹھیک سات آسمان بنا دیئے ۔ ہاں سورہ نازعات میں ( وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ دَحٰىهَا 30؀ۭ ) 79- النازعات:30 ) ہے پہلے آسمان کی پیدائش کا ذکر ہے پھر فرمایا ہے کہ زمین کو اس کے بعد بچھایا ۔ اس سے مراد زمین میں سے پانی چارہ نکالنا اور پہاڑوں کا گاڑنا ہے جیسے کہ اس کے بعد کا بیان ہے ۔ یعنی پیدا پہلے زمین کی گئی پھر آسمان پھر زمین کو ٹھیک ٹھاک کیا ۔ لہذا دونوں آیتوں میں کوئی فرق نہیں ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عباس سے پوچھا کی بعض آیتوں میں مجھے کچھ اختلاف سا نظر آتا ہے چنانچہ ایک آیت میں ہے ( فَلَآ اَنْسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَىِٕذٍ وَّلَا يَتَسَاۗءَلُوْنَ ١٠١؁ ) 23- المؤمنون:101 ) یعنی قیامت کے دن آپس کے نسب نہ ہوں گے اور نہ ایک دوسرے سے سوال کرے گا ۔ دوسری آیت میں ہے ( وَاَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰي بَعْضٍ يَّتَسَاۗءَلُوْنَ 27 ؀ ) 37- الصافات:27 ) یعنی بعض آپس میں ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر پوچھ گچھ کریں گے ۔ ایک آیت میں ہے ( وَلَا يَكْتُمُوْنَ اللّٰهَ حَدِيْثًا 42؀ۧ ) 4- النسآء:42 ) یعنی اللہ سے کوئی بات چھپائیں گے نہیں ۔ دوسری آیت میں ہے کہ مشرکین کہیں گے ( وَاللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِيْنَ 23؀ ) 6- الانعام:23 ) اللہ کی قسم ہم نے شرک نہیں کیا ۔ ایک آیت میں ہے زمین کو آسمان کے بعد بچھایا ( وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ دَحٰىهَا 30؀ۭ ) 79- النازعات:30 ) دوسری آیت ( قُلْ اَؤُنَبِّئُكُمْ بِخَيْرٍ مِّنْ ذٰلِكُمْ 15؀ۚ ) 3-آل عمران:15 ) ، میں پہلے زمین کی پیدائش پھر آسمان کی پیدائش کا ذکر ہے ۔ ایک تو ان آیتوں کا صحیح مطلب بتائے جس سے اختلاف اٹھ جائے ۔ دوسرے یہ جو فرمایا ہے ( اللّٰهُ عَزِيْزًا حَكِـيْمًا ١٥٨؁ ) 4- النسآء:158 ) تو کیا یہ مطلب ہے کہ اللہ ایسا تھا ؟ اس کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ جن دو آیتوں میں سے ایک میں آپس کا سوال جواب ہے اور ایک میں ان کا انکار ہے ۔ یہ دو وقت ہیں صور میں دو نفخے پھونکے جائیں گے ایک کے بعد آپس کی پوچھ گچھ کچھ نہ ہوگی ایک کے بعد آپس میں ایک دوسرے سے سوالات ہوں گے ۔ جن دو دوسری آیتوں میں ایک میں بات کے نہ چھپانے کا اور ایک میں چھپانے کا ذکر ہے یہ بھی دو موقعے ہیں جب مشرکین دیکھیں گے کہ موحدوں کے گناہ بخش دیئے گئے تو کہنے لگے کہ ہم مشرک نہ تھے ۔ لیکن جب منہ پر مہر لگ جائیں گی اور اعضاء بدن گواہی دینے لگیں گے تو اب کچھ بھی نہ چھپے گا ۔ اور خود اپنے کرتوت کے اقراری ہو جائیں گے اور کہنے لگیں گے کاش کے ہم زمین کے برابر کر دیئے جاتے ۔ آسمان و زمین کی پیدائش کی ترتیب بیان میں بھی دراصل کچھ اختلاف نہیں پہلے دو دن میں زمین بنائی گئی پھر آسمان کو دو دن میں بنایا گیا پھر زمین کی چیزیں پانی ، چارہ ، پہاڑ ، کنکر ، ریت ، جمادات ، ٹیلے وغیرہ دو دن میں پیدا کئے یہی معنی لفظ دحاھا کے ہیں ۔ پس زمین کی پوری پیدائش چار دن میں ہوئی ۔ اور دو دن میں آسمان ۔ اور جو نام اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے مقرر کئے ہیں ان کا بیان فرمایا ہے وہ ہمیشہ ایسا ہی رہے گا ۔ اللہ کا کوئی ارادہ پورا ہوئے بغیر نہیں رہتا ۔ پس قرآن میں ہرگز اختلاف نہیں ۔ اس کا ایک ایک لفظ اللہ کی طرف سے ہے ، زمین کو اللہ تعالیٰ نے دو دن میں پیدا کیا ہے یعنی اتوار اور پیر کے دن ، اور زمین میں زمین کے اوپر ہی پہاڑ بنا دیئے اور زمین کو اس نے بابرکت بنایا ، تم اس میں بیج بوتے ہو درخت اور پھل وغیرہ اس میں سے پیدا ہوتے ہیں ۔ اور اہل زمین کو جن چیزوں کی احتیاج ہے وہ اسی میں سے پیدا ہوتی رہتی ہیں زمین کی یہ درستگی منگل بدھ کے دن ہوئی ۔ چار دن میں زمین کی پیدائش ختم ہوئی ۔ جو لوگ اس کی معلومات حاصل کرنا چاہتے تھے انہیں پورا جواب مل گیا ۔ زمین کے ہر حصے میں اس نے وہ چیز مہیا کر دی جو وہاں والوں کے لائق تھی ۔ مثلاً عصب یمن میں ۔ سابوری میں ابور میں ۔ طیالسہ رے میں ۔ یہی مطلب آیت کے آخری جملے کا ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جس کی جو حاجت تھی اللہ تعالیٰ نے اس کیلئے مہیا کر دی ۔ اس معنی کی تائید اللہ کے اس فرمان سے ہوتی ہے ( وَاٰتٰىكُمْ مِّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْهُ 34؀ۧ ) 14- ابراھیم:34 ) تم نے جو جو مانگا اللہ نے تمہیں دیا ۔ واللہ اعلم ، پھر جناب باری نے آسمان کی طرف توجہ فرمائی وہ دھویں کی شکل میں تھا ، زمین کے پیدا کئے جانے کے وقت پانی کے جو ابخرات اٹھے تھے ۔ اب دونوں سے فرمایا کہ یا تو میرے حکم کو مانو اور جو میں کہتا ہوں ہو جاؤ خوشی سے یا ناخوشی سے ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں مثلاً آسمانوں کو حکم ہوا کہ سورج چاند ستارے طلوع کرے زمین سے فرمایا اپنی نہریں جاری کر اپنے پھل اگا وغیرہ ۔ دونوں فرمانبرداری کیلئے راضی خوشی تیار ہو گئے ۔ اور عرض کیا کہ ہم مع اس تمام مخلوق کے جسے تو رچانے والا ہے تابع فرمان ہے ۔ اور کہا گیا ہے کہ انہیں قائم مقام کلام کرنے والوں کیلئے کیا گیا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ زمین کے اس حصے نے کلام کیا جہاں کعبہ بنایا گیا ہے اور آسمان کے اس حصے نے کلام کیا جو ٹھیک اس کے اوپر ہے ۔ واللہ اعلم ۔ امام حسن بصری فرماتے ہیں اگر آسمان و زمین اطاعت گزاری کا اقرار نہ کرتے تو انہیں سزا ہوتی جس کا احساس بھی انہیں ہوتا ۔ پس دو دن میں ساتوں آسمان اس نے بنا دیئے یعنی جمعرات اور جمعہ کے دن ۔ اور ہر آسمان میں اس نے جو جو چیزیں اور جیسے جیسے فرشتے مقرر کرنے چاہے مقرر فرما دیئے اور دنیا کے آسمان کو اس نے ستاروں سے مزین کر دیا جو زمین پر چمکتے رہتے ہیں اور جو ان شیاطین کی نگہبانی کرتے ہیں جو ملاء اعلیٰ کی باتیں سننے کیلئے اوپر چڑھنا چاہتے ہیں ۔ یہ تدبیرو اندازہ اس اللہ کا قائم کردہ ہے جو سب پر غالب ہے جو کائنات کے ایک ایک چپے کی ہر چھپی کھلی حرکت کو جانتا ہے ۔ ابن جریر کی روایت میں ہے یہودیوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے آسمان و زمین کی پیدائش کی بابت سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ اتوار اور پیر کے دن اللہ تعالیٰ نے زمین کو پیدا کیا اور پہاڑوں کو منگل کے دن پیدا کیا اور جتنے نفعات اس میں ہیں اور بدھ کے دن درختوں کو پانی کو شہروں کو اور آبادی اور ویرانے کو پیدا کیا تو یہ چار دن ہوئے ۔ اسے بیان فرما کر پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی اور فرمایا کہ جمعرات والے دن آسمان کو پیدا کیا اور جمعہ کے دن ستاروں کو اور سورج چاند کو اور فرشتوں کو پیدا کیا تین ساعت کے باقی رہنے تک ۔ پھر دوسری ساعت میں ہر چیز میں آفت ڈالی جس سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ اور تیسری میں آدم کو پیدا کیا انہیں جنت میں بسایا ابلیس کو انہیں سجدہ کرنے کا حکم دیا ۔ اور آخری ساعت میں وہاں سے نکال دیا ۔ یہودیوں نے کہا اچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پھر اس کے بعد کیا ہوا ؟ فرمایا پھر عرش پر مستوی ہو گیا انہوں نے کہا سب تو ٹھیک کہا لیکن آخری بات یہ کہی کہ پھر آرام حاصل کیا ۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراض ہوئے اور یہ آیت اتری ( وَلَــقَدْ خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ڰ وَّمَا مَسَّنَا مِنْ لُّغُوْبٍ 38؀ ) 50-ق:38 ) یعنی ہم نے آسمان و زمین اور جو ان کے درمیان ہے سب کو چھ دن میں پیدا کیا اور ہمیں کوئی تھکان نہیں ہوئی ۔ تو ان کی باتوں پر صبر کر ۔ یہ حدیث غریب ہے ۔ اور روایت میں ہے حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں میرا ہاتھ پکڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مٹی کو ہفتے کے روز پیدا کیا اس میں پہاڑوں کو اتوار کے دن رکھا درخت پیر والے دن پیدا کئے مکروہات کو منگل کے دن نور کو بدھ کے دن پیدا کیا اور جانوروں کو زمین میں جمعرات کے دن پھیلا دیا اور جمعہ کے دن عصر کے بعد جمعہ کی آخری ساعت حضرت آدم کو پیدا کیا اور کل مخلوقات پوری ہوئی ۔ مسلم اور نسائی میں یہ حدیث ہے لیکن یہ بھی غرائب صحیح میں سے ہے ۔ اور امام بخاری نے تاریخ میں اسے معلل بتایا ہے اور فرمایا ہے کہ اسے بعض راویوں نے حضرت ابو ہریرہ سے اور انہوں نے اسے کعب احبار سے روایت کیا ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

9۔ 1 قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا فرمایا یہاں اس کی کچھ تفصیل بیان فرما‏ئی گئی ہے فرمایا زمین کو دو دن میں بنایا اس سے مراد ہیں یوم الاحد اتوار اور یوم الاثنین سورة نازعات میں کہا گیا ہے والارض بعد ذلک دحہا جس سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ زمین کو آسمان کے بعد بنایا گیا ہے جب کہ یہاں زمین کی تخلیق کا ذکر آسمان کی تخلیق سے پہلے کیا گیا ہے حضرت ابن عباس (رض) نے اس کی وضاحت اس طرح فرمائی ہے کہ تخلیق اور چیز ہے اور دحی جو اصل میں دحو ہے بچھانا یا پھیلانا اور چیز زمین کی تخلیق آسمان سے پہلے ہوئی جیسا کہ یہاں بھی بیان کیا گیا اور دحو کا مطلب ہے کہ زمین کو رہائش کے قابل بنانے کے لیے اس میں پانی کے ذخائر رکھے گئے اسے پیداواری ضروریات کا مخزن بنایا گیا۔ (اَخْرَجَ مِنْهَا مَاۗءَهَا وَمَرْعٰىهَا) 79 ۔ النازعات :31) اس میں پہاڑ ٹیلے اور جمادات رکھے گئے یہ عمل آسمان کی تخلیق کے بعد دوسرے دو دنوں میں کیا گیا یوں زمین اور اس کے متعلقات کی تخلیق پورے چار دنوں میں مکمل ہوئی۔ (صحیح بخاری، تفسیر سورة حم) السجدۃ

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) قل ابنکم لتکفرون …: مشرکین کا آخرت کا انکار ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے اس پر قادر ہونے، بلکہ ہر چیز پر قادر ہونے کے دلائل کا ذکر شروع فرمایا اور دلیل میں ان چیزوں کے پیدا کرنے کا ذکر فرمایا جو ان کی آنکھوں کے سامنے تھیں اور جن کا خلاق وہ خود اللہ تعالیٰ کو مانتے تھے۔ بات کا آغاز ہمزہ استفہام، ” ان “ اور لام کی تاکید کے ساتھ ہوا ہے۔ اس میں ان کے شرک پر تعجب اور ڈانٹ بھی ہے اور اس بات کا اظہار بھی کہ یقیناً تم شرک کی کمینی حرکت کرتے ہو، حالانکہ کوئی عقل مند سوچ بھی نہیں سکتا کہ کوئی انسان زمین و آسمان کے خالق کے ساتھ کفر کرے گا اور اس کے ساتھ شریک بنئاے گا۔ تعجب اور ڈانٹ کے ساتھ ساتھ زمین و آسمان کی تخلیق کی تاریخ بھی بیان فرما دی ہے۔ ہمزہ استفہام اور تاکید کے دونوں حرفوں کو محلوظ رکھ کر ترجمہ کیا گیا ہے۔” کہہ کیا بیشک تم واقعی اس کا انکار کرتے ہو…“ (٢) لتکفرون : یہاں ماضی کا صیغہ ” کفرتم “ (تم نے انکار کیا) لانے کے بجائے فعل مضارع ” لتکفرون “ کا لفظ اس لئے استعمال فرمایا کہ صرف یہ نہیں کہ تم اس سے پہلے کفر کر بیٹھے جو کر بیٹھے، بلکہ اتنے دلائل دیکھ اور سن کر بھی کفر سے باز نہیں آئے، بلکہ کفر کرتے ہی چلے جاتے ہو۔ (٣) بالذی خلق الارض فی یومین : جب زمین و آسمان کو پیدا فرمایا اس وقت سورج کا وجود ہی نہیں تھا جس سے دن رات وجود میں آتے ہیں، تو پھر دونوں سے کیا مراد ہے ؟ اس کے لئے دیکھیے سورة اعراف کی آیت (٥٤) کی تفسیر۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The real objective of these eloquent verses is to warn the people who, denying the Oneness of Allah, associate others with Him. With reference to the great creations of Allah Almighty in the form of heavens and the earth, and the wisdom underlying their creation, the Mushriks are reprimanded that they are so irrational in their beliefs that they believe such a Great and Omni-potent Creator to be in need of having partners in carrying out His divine functions. A reprimanding statement with a similar nature has also appeared in Surah Al-Baqarah in the following words: كَيْفَ تَكْفُرُ‌ونَ بِاللَّـهِ وَكُنتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ۖ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْ‌جَعُونَ ﴿٢٨﴾ هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْ‌ضِ جَمِيعًا ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴿٢٩﴾ |"How is it that you deny Allah despite that you were lifeless and He gave you life, then He will make you die, then make you alive again, and then to Him you will be returned? It is He who created for you all that the earth contains; then He turned to the heavens and made them seven skies -- and He is the knower of all things.|" (Verses 2:28-29) The order of creation, the number of days in which this creation took place and other details are not given in the verses of Surah al-Baqarah; they are mentioned here in Surah Fussilat. The order of creation of the skies and the earth, and the Days of Creation Maulana Ashraf ` Ali Thanawi (رح) has stated in Bayan-ul-Qur&an that, although the creation of the earth and the skies has been mentioned briefly or in detail at hundreds of places in the Qur&an, yet the sequence of their creation is probably mentioned in three verses only. One is this verse of Ha Meem Sajdah, the second is the above mentioned verse of Surah Al-Baqarah, and the third is the following verse of Surah Nazi&at: أَأَنتُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَمِ السَّمَاءُ ۚ بَنَاهَا ﴿٢٧﴾ رَ‌فَعَ سَمْكَهَا فَسَوَّاهَا ﴿٢٨﴾ وَأَغْطَشَ لَيْلَهَا وَأَخْرَ‌جَ ضُحَاهَا ﴿٢٩﴾ وَالْأَرْ‌ضَ بَعْدَ ذَٰلِكَ دَحَاهَا ﴿٣٠﴾ أَخْرَ‌جَ مِنْهَا مَاءَهَا وَمَرْ‌عَاهَا ﴿٣١﴾ وَالْجِبَالَ أَرْ‌سَاهَا ﴿٣٢﴾ |"Are you more difficult to create, or the sky? He has built it, He has raised its height, then made it proper and darkened its night and brought forth its daylight and, after that, He spread out the earth. From it He brought out its water and its meadows, and firmly fixed the mountains.|" (79:27-32) During a cursory look into these three verses, one may feel a sort of apparent contradiction between them, because we find from Surah Al-Baqarah and Surah Ha Meem that the earth was created before the sky, whereas in Surah Naziat, earth appears to have been created after the sky. Maulana Thanawi has stated that after a careful study of all these verses, it appears to him that only the matter of the earth came into existence first, and before it was molded into shape, the matter of sky came into existence in the form of a smoke. After that, the earth was molded into shape with mountains, trees, etc. and then the seven skies were given form out of the floating smoky matter. He hopes that this clarification would explain the harmony between all the verses. Only Allah knows the truth. (Bayan-ul-Qur’ an - Surah Al-Baqarah, section 3). Some questions regarding this verse and their answers given by Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) have been reported in Sahih of Bukhari. The explanation of this verse given by Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) is about the same as that given above by Maulana Thanawi (رح) - the words quoted by Ibn Kathir are: وخلق الارض فی یومین ثم خلق السمآء ثم استوٰی الٰی السمآء فسوّٰبھُنَّ فی یومین اٰخرین ثم دحی الارض و دحیھا ان اخرج منھا المآء والمرعٰی وخلق الجبال والرمال والجماد والآکام وما بینھا فی یومین آخرن فذٰلِکَ قولہ تعالیٰ دَحٰھا۔ Hafiz Ibn Kathir has also quoted the following as explanation of this verse given by Sayyidna Ibn &Abbas (رض) with reference to Ibn Jarir:|" The Jews of Madinah came to see the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، and asked him about the creation of the earth and of the skies. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) told them that Allah Almighty created the earth on Sunday and Monday, the mountains and the minerals therein on Tuesday, and the trees, water springs, cities, buildings and desolate plains on Wednesday - all this in four days as stated in the verse. أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُ‌ونَ بِالَّذِي خَلَقَ الْأَرْ‌ضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَندَادًا ۚ ذَٰلِكَ رَ‌بُّ الْعَالَمِينَ وَجَعَلَ فِيهَا رَ‌وَاسِيَ مِن فَوْقِهَا وَبَارَ‌كَ فِيهَا وَقَدَّرَ‌ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْ‌بَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِّلسَّائِلِينَ Then He created the sky on Thursday. And on Friday, He created the stars, the sun, the moon and the angels. All this was completed on Friday when three hours were still left. All the disasters and troubles that everything is going to face were created in the second hour, and in the third period Sayyidna &Adam علیہ السلام was created and lodged in Paradise, Iblis was commanded to prostrate before Sayyidna &Adam (علیہ السلام) and turned out of Paradise when he refused to prostrate. All this was completed till the end of the third hour....(Ibn Kathir). At the end, Ibn Kathir says: |"This hadith has an element of gharabah|" (that is, the contents of this Hadith are not corroborated by other sources) The commencement of creation took place on Saturday according to a Hadith narrated by Sayyidna Abu Hurairah, reported in Sahih of Muslim. As per this Hadith, it took seven days for the creation of the earth and skies. But generally the explicit verses of the Qur&an mention the duration of creation to be six days. أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُ‌ونَ بِالَّذِي خَلَقَ الْأَرْ‌ضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَندَادًا ۚ ذَٰلِكَ رَ‌بُّ الْعَالَمِينَ ﴿٩﴾ وَجَعَلَ فِيهَا رَ‌وَاسِيَ مِن فَوْقِهَا وَبَارَ‌كَ فِيهَا وَقَدَّرَ‌ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْ‌بَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِّلسَّائِلِينَ |"And We created the heavens and the earth and all that is between them in six days, and no weariness even touched Us.|" (50:38) Because of this, and also because of its (weak) chain of narrators, this Hadith has been held as &ma` lul& (defective) by the leading muhaddithin. Ibn Kathir (رح) has stated that this Hadith is one of the strange ones of Sahih of Muslim, and then stated that Imam Bukhari, in his book Tarikh Kabir, has considered this narration to be ma` lul (defective). And some scholars have quoted this statement as a saying of Sayyidna Abu Hurairah (رض) narrated by Ka` b Ahbar, and not as a statement of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and have said that this is the most correct. (Ibn Kathir p. 94, vol. 4) Similarly, other masters of Hadith like Ibn-ul-Madini, Baihaqi, etc. have also considered it to be a statement of Ka&b Ahbar. (Foot note of Zad-ul-Masir by Ibn-ul-Jauzi, p. 273, vol. 7) The narration of Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) quoted above from Ibn Jarir has also an element of gharabah, (being against other sources) according to Ibn Kathir. One reason for its gharabah is that in this narration creation of Sayyidna &Adam (علیہ السلام) took place along with the creation of skies in the last hour of Friday, and the divine order for prostration and the exit of Iblis from the Paradise is also mentioned to have taken place in the same hour. But it is patently clear from the text of many verses of the Qur&an that creation of Sayyidna &Adam (علیہ السلام) took place a long time after the creation of the earth and skies, when the earth was provided with all the necessities, and it was inhabited by the Jinns and shaitans (devils). It was after all this that Allah Ta’ ala told the angels that He was going to make a vicegerent on the earth. (Mazhari) Briefly, of all the ahadith wherein the duration, days and sequence of creation of the earth and skies is narrated, no narration is such which can be said to be as absolutely certain as the Qur&an. Rather, it is very likely that these may be Israelite traditions, not noble ahadith, as clarified by Ibn Kathir about the Hadith quoted in Sahih of Muslim and Nasa&i. Therefore conclusions should be drawn from the verses of the Qur&an only. The one thing found absolutely certain from the verses of the Qur&an collectively is that the earth, the skies and whatever is inside them were created in six days only. The other thing found from the verses of Surah Ha Meem Sajdah is that the creation of the earth, its mountains, trees, etc. took full four days. The third thing found is that the creation of skies took two days - it is not clarified whether it took two full days. There is some indication that two full days were not used and some part of the last day, being Friday, was left unused. It appears from these verses that it took four days for the creation of the earth and the remaining two days for the creation of the skies, the earth having been created first. But the verse of Surah Nazi` at states clearly that the laying out of the earth and its completion took place after the creation of the skies. Therefore the sequence stated above, with reference to Bayan-ul-Qur&an, that the creation of the earth took place in two stages, is not beyond reason. In the first two days, the earth and the matter for mountains, etc. were created, in the next two days the skies were created, and in the last two days the laying out of the earth and the creation of the mountains, trees rivers, springs etc. was completed. In this way the four days of the creation of the earth were not continuous. As for the sequence mentioned in the present verse of Surah Ha Meem Sajdah, it is stated first that the creation of the earth took place in two days: خَلَقَ الْأَرْ‌ضَ فِي يَوْمَيْنِ (the One who has created the earth in two days, - 41:9), then after giving a reprimand to the mushrikin,

خلاصہ تفسیر آپ (ان لوگوں سے) فرمائیے کہ کیا تم لوگ ایسے خدا کا انکار کرتے ہو جس نے زمین کو (باوجود اس کی بڑی وسعت کے) دو روز (کی مقدار وقت) میں پیدا کردیا اور تم اس کے شریک ٹھہراتے ہو یہی (خدا جس کی قدرت معلوم ہوئی) سارے جہاں کا رب ہے اور اس نے زمین میں اس کے اوپر پہاڑ بنا دیئے اور اس (زمین) میں فائدہ کی چیزیں رکھ دیں (جیسے نباتات وحیوانات وغیرہ) اور اس (زمین) میں اس کے رہنے والوں کی غذائیں تجویز کردیں (جیسا کہ مشاہدہ ہے کہ ہر حصہ زمین کے رہنے والوں کے مناسب الگ الگ غذائیں ہیں یعنی زمین میں ہر قسم کے غلے میوے پیدا کردیئے کہیں کچھ کہیں کچھ جن کا سلسلہ برابر جاری ہے۔ یہ سب) چار دن میں (ہوا۔ دو دن میں زمین دو دن میں پہاڑ وغیرہ جو شمار ہیں) پورے ہیں پوچھنے والوں کے لئے (یعنی ان لوگوں کے لئے جو تخلیق کائنات کی کیفیت اور کمیت کے متعلق آپ سے سوالات کرتے ہیں جیسا کہ یہود نے آپ سے (آیت) خلق السموٰت والارض کے متعلق سوال کیا تھا کما فی الدر المنثور) پھر (یہ سب کچھ پیدا کر کے) آسمان (کے بنانے) کی طرف توجہ فرمائی اور وہ اس وقت دھواں سا تھا (یعنی آسمان کا مادہ جو زمین کے مادے کے بعد زمین کی موجودہ صورت سے پہلے بن چکا تھا وہ دھوئیں کی شکل میں تھا) سو اس سے اور زمین سے فرمایا کہ تم دونوں (کو ہماری اطاعت کی طرف آنا تو ضرور پڑے گا اب تم کو اختیار ہے کہ) خوشی سے آؤ یا زبردستی سے (مطلب یہ ہے کہ ہمارے تقدیری احکام جو تم دونوں میں جاری ہوا کریں گے ان کا جاری ہونا تو تمہارے اختیار سے خارج ہے وہ تو ہو کر رہیں گے۔ لیکن جو ادراک و شعور تم کو عطا ہوا ہے اس کے اعتبار سے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم ہمارے احکام تقدیری کو اپنی خوشی سے قبول کرو یا ان سے دل میں ناراض ہو، اور وہ زبردستی تمہارے اندر نافذ کئے جاویں۔ جسے انسان کے لئے امراض اور موت کا معاملہ ہے کہ ان کا ہونا تو امر تقدیری ہے جس کو انسان ٹال نہیں سکتا۔ مگر کوئی دانشمند اس کو راضی خوشی قبول کرتا ہے اور صبر و شکر کے فوائد حاصل کرتا ہے، کوئی ناراض و ناخوش رہتا ہے، گھٹ گھٹ کر مرتا ہے۔ تو اب تم دیکھ لو کہ ہمارے ان احکام پر راضی رہا کرو گے یا کراہت رکھو گے۔ اور مراد ان تقدیری احکام سے جو آسمان و زمین میں جاری ہونے والے تھے یہ ہیں کہ آسمان ابھی صرف مادہ دھوئیں کی شکل میں تھا، اس کا سات آسمانوں کی صورت میں بننا حکم تقدیری تھا اور زمین اگرچہ بن چکی تھی مگر اس میں بھی ہزاروں انقلابات وتغیرات قیامت تک چلنے والے تھے۔ ) دونوں نے عرض کیا کہ ہم خوشی سے (ان احکام کے لئے) حاضر ہیں، سو دو روز میں اس کے سات آسمان بنا دیئے اور (چونکہ ساتوں آسمانوں کو فرشتوں سے آباد ومعمور کردیا گیا تھا اس لئے) ہر آسمان میں اس کے مناسب اپنا حکم (فرشتوں کو) بھیج دیا (یعنی جن فرشتوں سے جو کام لینا تھا وہ ان کو بتلا دیا) اور ہم نے اس قریب والے آسمان کو ستاروں سے زینت دی اور (شیاطین کو آسمانی خبریں چوری کرنے سے روکنے کے لئے) اس کی حفاظت کی، یہ تجویز ہے (خدائے) زبردست عالم الکل کی طرف سے۔ معارف ومسائل ان آیات میں اصل مقصود منکرین توحید مشرکین کو ان کے کفر و شرک پر ایک بلیغ انداز میں تنبیہ کرنا ہے کہ اس میں حق تعالیٰ کی صفت تخلیق اور آسمان و زمین کی عظیم مخلوقات کو بیشمار حکمتوں پر مبنی پیدا کرنے کی تفصیل دے کر ان کو بطور زجر خطاب کیا گیا ہے، کہ کیا تم ایسے بےعقل ہو کہ ایسے عظیم خالق و قادر کے ساتھ دوسروں کو شریک خدائی قرار دیتے ہو۔ اس قسم کی تنبیہ و تفصیل سورة بقرہ کے تیسرے رکوع میں آ چکی ہے۔ (آیت) کیف تکفرون باللہ وکنتم امواتاً فاحیکم ثم یمیتکم ثم یحییکم ثم الیہ ترجعون۔ ھو الذی خلق لکم ما فی الارض جمیعاً ثم استویٰ الی السماء فسوھن سبع سموٰت وھو بکل شئی علیم۔ سورة بقرہ کی آیات میں ایام تخلیق کی تعیین اور تفصیل کا ذکر نہیں۔ سورة فصلت کی مذکورہ آیات میں بھی اس کا ذکر ہے۔ آسمان و زمین کی تخلیق میں ترتیب اور ایام تخلیق کی تعیین : بیان القرآن میں حضرت سیدی حکیم الامت قدس سرہ، نے فرمایا کہ یوں تو زمین و آسمان کی پیدائش کا ذکر مختصر و مفصل قرآن کریم میں سینکڑوں جگہ آیا ہے۔ مگر ان میں ترتیب کا بیان کہ پہلے کیا بنا پیچھے کیا بنا، یہ غالباً صرف تین ہی آیتوں میں آیا ہے۔ ایک یہ آیت حم سجدہ کی اور دوسری سورة بقرہ کی مذکورہ آیت، تیسری سورة نازعات (آیت) لیلھا و اخرج ضحھا والارض بعد ذلک دحھا اخرج منھا ماءھا ومرعھا والجبال ارسھا اور سرسری نظر میں ان سب مضامین میں کچھ اختلاف سا بھی معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ سورة بقرہ اور سورة حم سجدہ کی آیت سے زمین کی تخلیق آسمان سے مقدم ہونا معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ سورة بقرہ اور سورة حم سجدہ کی آیت سے زمین کی تخلیق آسمان سے مقدم ہونا معلوم ہوتا ہے اور سورة نازعات کی آیات سے اس کے برعکس بظاہر زمین کی تخلیق آسمان سے مقدم ہونا معلوم ہوتا ہے اور سورة نازعات کی آیات سے اس کے برعکس بظاہر زمین کی تخلیق آسمان کے بعد معلوم ہوتی ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ سب آیات میں غور کرنے سے میرے خیال میں تو یہ آتا ہے کہ یوں کہا جاوے کہ اول زمین کا مادہ بنا اور ہنوز اس کی موجودہ ہئیت نہ بنی تھی کہ اسی حالت میں آسمان کا مادہ بنا جو دخان یعنی دھوئیں کی شکل میں تھا، اس کے بعد زمین ہئیت موجودہ پر پھیلا دی گئی۔ پھر اس پر پہاڑ اور درخت وغیرہ پیدا کئے گئے۔ پھر آسمان کے مادہ دخانیہ سیالہ کے سات آسمان بنا دیئے۔ امید ہے کہ سب آیتیں اس تقریر پر منطبق ہوجاویں گی۔ آگے حقیقت حال سے اللہ تعالیٰ ہی خوب واقف ہیں (بیان القرآن۔ سورة بقرہ رکوع ٣) صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس سے اسی آیت کے تحت میں چند سوالات وجوابات مذکور ہیں۔ ان میں اس آیت کی جو تشریح حضرت ابن عباس نے فرمائی وہ تقریباً یہی ہے، جو حضرت نے تطبیق آیات کے لئے بیان فرمائی ہے۔ اس کے الفاظ جو ابن کثیر نے اسی آیت کے تحت میں نقل کئے ہیں یہ ہیں :۔ و خلق الارض فی یومین ثم خلق السماء ثم استویٰ الی السماء فسوھن فی یومین اخرین ثم دحی الارض ودحیھا ان اخرج منھا الماء والمرعیٰ وخلق الجبال والرمال والجہاد والآکام وما بینھما فی یومین اخرین فذلک قولہ تعالیٰ دحاھا۔ اور حافظ ابن کثیر نے بحوالہ ابن جریر حضرت ابن عباس سے آیت حم سجدہ کی تفسیر میں یہ روایت نقل کی ہے کہ :۔ یہود مدینہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچے اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق کے متعلق سوال کیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو اتوار اور پیر کے دن پیدا فرمایا، اور پہاڑ اور اس میں جو کچھ معدنیات وغیرہ ہیں ان کو منگل کے روز اور درخت اور پانی کے چشمے اور شہر اور عمارتیں اور ویران میدان بدھ کے روز، یہ کل چار روز ہوگئے، جیسا کہ اس آیت میں ہے (قُلْ اَىِٕنَّكُمْ لَتَكْفُرُوْنَ بالَّذِيْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِيْ يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُوْنَ لَهٗٓ اَنْدَادً آذٰلِكَ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ وَجَعَلَ فِيْهَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِهَا وَبٰرَكَ فِيْهَا وَقَدَّرَ فِيْهَآ اَقْوَاتَهَا فِيْٓ اَرْبَعَةِ اَيَّامٍ ۭ سَوَاۗءً لِّلسَّاۗىِٕلِيْنَ ) یعنی ان لوگوں کے لئے جو اس تخلیق کا سوال کریں۔ پھر فرمایا اور جمعرات کے روز آسمان بنائے اور جمعہ کے روز ستارے اور شمس و قمر اور فرشتے یہ سب کام جمعہ کے دن میں تین ساعت باقی تھیں جب پورے ہوئے۔ ان میں سے دوسری ساعت میں آفات و مصائب جو ہر چیز پر آنے والی ہیں وہ پیدا فرمائی ہیں اور تیسری ساعت میں آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرمایا اور ان کو جنت میں ٹھہرایا اور ابلیس کو سجدہ کا حکم دیا اور سجدہ سے انکار کرنے پر جنت سے نکال دیا گیا۔ یہ سب تیسری ساعت کے ختم ہوا۔ (الحدیث بطولہ، ابن کثیر) ابن کثیر نے اس روایت کو نقل کر کے فرمایا، ھذا الحدیث فیہ غرابة۔ اور صحیح مسلم میں ایک حدیث حضرت ابوہریرہ کی روایت سے آئی ہے جس میں تخلیق عالم کی ابتدا یوم السبت یعنی ہفتہ کے روز سے بتلائی گئی ہے۔ اس کے حساب سے آسمان و زمین کی تخلیق کا سات روز میں ہونا معلوم ہوتا ہے۔ مگر عام نصوص قرآن میں یہ تخلیق چھ روز میں ہونا صراحتہ مذکور ہے۔ (آیت) ولقد خلقنا السموٰت والارض وما بینھما فی سیتة ایام وما مسنا من لغوب۔ یعنی ہم نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے اندر ہے اس کو چھ دن میں، اور ہمیں کوئی تھکان پیش نہیں آیا۔ اس لئے نیز اس کی سند کے اعتبار سے بھی اکابر محدثین نے اس روایت کو معلول قرار دیا ہے۔ ابن کثیر نے اس کو بحوالہ مسلم و نسائی نقل کر کے فرمایا وھو من غرائب الصحیح المسلم کمانی زاد المسیر لابن الجوزی۔ یعنی یہ حدیث صحیح مسلم کے عجائب میں سے ہے۔ اور پھر فرمایا کہ امام بخاری نے اپنی کتاب تاریخ کبیر میں اس روایت کو معلول قرار دیا ہے، اور بعض لوگوں نے اس روایت کو حضرت ابوہریرہ سے بہ روایت کعب احبار نقل کیا ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد نہیں، اور فرمایا کہ یہی اصح ہے۔ (ابن کثیر ص ٤٩ ج ٤) اسی طرح ابن مدینی اور بیہقی وغیرہ حفاظ حدیث نے بھی اس کو کعب احبار کا قول قرار دیا ہے۔ (حاشیہ زاد المسیر لابن الجوزی ص ٣٧٢، ج ٧) پہلی روایت جو ابن جریر نے حضرت ابن عباس سے نقل کی ہے، ابن کثیر کے فیصلے کے مطابق اس میں بھی غرابت ہے۔ ایک وجہ غرابت کی یہ بھی ہے کہ اس روایت میں حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق آسمانوں کی تخلیق کے ساتھ آخری دن جمعہ کے آخری ساعت میں اور اسی ساعت میں حکم سجدہ اور ابلیس کا جنت سے اخراج مذکور ہے۔ حالانکہ متعدد آیات قرآنی میں جو قصہ تخلیق آدم (علیہ السلام) کا اور حکم سجدہ اور اخراج ابلیس کا مذکور ہے اس کے سیاق سے بدیہی طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ تخلیق آدم (علیہ السلام) کا واقعہ تخلیق ارض و سماء سے بہت زمانہ بعد ہوا ہے جبکہ زمین میں اس کی تمام ضروریات مکمل ہو چکیں اور جنات و شیاطین وہاں بسنے لگے۔ اس کے بعد فرمایا۔ (آیت) انی جاعل فی الارض خلیفة۔ (کذا قال فی المظہری) خلاصہ یہ ہے کہ تخلیق ارض و سماء کے اوقات اور دن اور ان میں ترتیب جن روایات حدیث میں آئی ہے ان میں کوئی روایت ایسی نہیں جس کو قرآن کی طرح قطعی یقینی کہا جاسکے، بلکہ یہ احتمال غالب ہے کہ یہ اسرائیلی روایات ہوں مرفوع احادیث نہ ہوں جیسا کہ ابن کثیر نے مسلم، نسائی کی حدیث کے متعلق اس کی تصریح فرمائی ہے۔ اس لئے آیات قرآنی ہی کو اصل قرار دے کر مقصود متعین کرنا چاہئے۔ اور آیات قرآنی کو جمع کرنے سے ایک بات تو یہ قطعی معلوم ہوئی کہ آسمان و زمین اور ان کے اندر کی تمام چیزیں صرف چھ دن میں پیدا ہوئی ہیں۔ دوسری بات سورة حم سجدہ کی آیت سے یہ معلوم ہوئی کہ زمین اور اس کے پہاڑ درخت وغیرہ کی تخلیق میں پورے چار دن لگے۔ تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ آسمانوں کی تخلیق میں دو دن صرف ہوئے۔ جس میں پورے دو دن ہونے کی تصریح نہیں بلکہ کچھ اشارہ اس طرف ملتا ہے کہ یہ دو دن پورے خرچ نہیں ہوئے آخری دن جمعہ کا کچھ حصہ بچ گیا۔ ان آیات کے ظاہر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ چھ دن میں سے پہلے چار دن زمین پر باقی دو دن آسمانوں کی تخلیق میں صرف ہوئے اور زمین کی تخلیق آسمان سے پہلے ہوئی۔ مگر سورة نازعات کی آیت میں زمین کے پھیلانے اور مکمل کرنے کو صراحتہ تخلیق آسمان کے بعد فرمایا ہے۔ اس لئے وہ صورت کچھ بعید نہیں جو اوپر بحوالہ بیان القرآن ہوئی ہے کہ زمین کی تخلیق دو حصوں میں منقسم ہے۔ پہلے دو دن میں زمین اور اس کے اوپر پہاڑوں وغیرہ کا مادہ تیار کردیا گیا۔ اس کے بعد دو دن میں سات آسمان بنائے، اس کے بعد دو دن میں زمین کا پھیلاؤ اور اس کے اندر جو کچھ پہاڑ، درخت، نہریں، چشمے وغیرہ بنائے تھے ان کی تکمیل ہوئی۔ اس طرح تخلیق زمین کے چار دن متصل نہیں رہے۔ اور آیت حم سجدہ میں جو ترتیب بیان یہ رکھی گئی کہ پہلے زمین کو دو دن میں پیدا کرنے کا ذکر فرمایا۔ (آیت) خَلَقَ الْاَرْضَ فِيْ يَوْمَيْنِ ۔ اس کے بعد مشرکین کو تنبیہ کی گئی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ اَىِٕنَّكُمْ لَتَكْفُرُوْنَ بِالَّذِيْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِيْ يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُوْنَ لَہٗٓ اَنْدَادًا۝ ٠ ۭ ذٰلِكَ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ۝ ٩ۚ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ يوم اليَوْمُ يعبّر به عن وقت طلوع الشمس إلى غروبها . وقد يعبّر به عن مدّة من الزمان أيّ مدّة کانت، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 155] ، ( ی و م ) الیوم ( ن ) ی طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کی مدت اور وقت پر بولا جاتا ہے اور عربی زبان میں مطلقا وقت اور زمانہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ خواہ وہ زمانہ ( ایک دن کا ہو یا ایک سال اور صدی کا یا ہزار سال کا ہو ) کتنا ہی دراز کیوں نہ ہو ۔ قرآن میں ہے :إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 155] جو لوگ تم سے ( احد کے دن ) جب کہہ دوجماعتیں ایک دوسرے سے گتھ ہوگئیں ( جنگ سے بھاگ گئے ۔ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ ندد نَدِيدُ الشیءِ : مُشارِكه في جَوْهَره، وذلک ضربٌ من المماثلة، فإنّ المِثْل يقال في أيِّ مشارکةٍ کانتْ ، فكلّ نِدٍّ مثلٌ ، ولیس کلّ مثلٍ نِدّاً ، ويقال : نِدُّهُ ونَدِيدُهُ ونَدِيدَتُهُ ، قال تعالی: فَلا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْداداً [ البقرة/ 22] ، وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْداداً [ البقرة/ 165] ، وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَنْداداً [ فصلت/ 9] وقرئ : (يوم التَّنَادِّ ) [ غافر/ 32] «2» أي : يَنِدُّ بعضُهم من بعض . نحو : يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ [ عبس/ 34] . ( ن د د ) ندید الشئی ۔ وہ جو کسی چیز کی ذات یا جوہر میں اس کا شریک ہو اور یہ ممانعت کی ایک قسم ہے کیونکہ مثل کا لفظ ہر قسم کی مشارکت پر بولا جاتا ہے ۔ اس بنا پر ہرند کو مثل کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن ہر مثل ند نہیں ہوتا ۔ اور ند ، ندید ندید ۃ تینوں ہم معنی ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْداداً [ البقرة/ 22] پس کسی کو خدا کا ہمسر نہ بناؤ ۔ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْداداً [ البقرة/ 165] اور بعض لوگ ایسے ہیں جو غیر خدا کو شریک خدا بناتے ہیں ۔ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَنْداداً [ فصلت/ 9] اور بتوں کو اس کا مد مقابل بناتے ہو ۔ اور ایک قرات میں یوم التناد تشدید دال کے ساتھ ہے اور یہ نذ یند سے مشتق ہے جس کے معنی دور بھاگنے کے ہیں اور قیامت کے روز بھی چونکہ لوگ اپنے قرابتدروں سے دور بھاگیں گے جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ [ عبس/ 34] میں مذکور ہے اس لئے روز قیامت کو یو م التناد بتشدید الدال کہا گیا ہے ۔ هذا ( ذَاكَ ذلك) وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام/ 131] ، إلى غير ذلك . ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔ عالَمُ والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، وقیل : إنما جمع هذا الجمع لأنه عني به أصناف الخلائق من الملائكة والجنّ والإنس دون غيرها . وقد روي هذا عن ابن عبّاس «2» . وقال جعفر بن محمد : عني به النّاس وجعل کلّ واحد منهم عالما «3» ، وقال «4» : العَالَمُ عالمان الکبير وهو الفلک بما فيه، والصّغير وهو الإنسان لأنه مخلوق علی هيئة العالم، وقد أوجد اللہ تعالیٰ فيه كلّ ما هو موجود في العالم الکبير، قال تعالی: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة/ 1] ، وقوله تعالی: وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة/ 47] ، قيل : أراد عالمي زمانهم . وقیل : أراد فضلاء زمانهم الذین يجري كلّ واحد منهم مجری كلّ عالم لما أعطاهم ومكّنهم منه، وتسمیتهم بذلک کتسمية إبراهيم عليه السلام بأمّة في قوله : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل/ 120] ، وقوله : أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر/ 70] . العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ چونکہ لفظ عالم سے خلائق کی خاص قسم یعنی فرشتے جن اور انسان ہی مراد ہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے ۔ اس لئے اس کی جمع واؤنون کے ساتھ لائی گئی ہے امام جعفر بن محمد کا قول ہے کہ عالیمین سے صرف انسان مراد ہیں اور ہر فرد بشر کو ایک عالم قرار دے کر اسے جمع لایا گیا ہے ۔ نیز انہوں نے کہا ہے کہ عالم دو قسم پر ہے ( 1 ) العالم الکبیر بمعنی فلک دمافیہ ( 2 ) العالم اصغیر یعنی انسان کیونکہ انسان کی تخلیق بھی ایک مستقل عالم کی حیثیت سے کی گئی ہے اور اس کے اندر قدرت کے وہ دلائل موجود ہیں جا عالم کبیر میں پائے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر/ 70] کیا ہم نے تم کو سارے جہاں ( کی حمایت وطر فداری سے ) منع نہیں کیا الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة/ 1] سب تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جو تمام مخلوقات کو پروردگار ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة/ 47] کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ تم یعنی بنی اسرائیل کو ان کی ہمعصراز قوام پر فضیلت دی اور بعض نے اس دور کے فضلا مراد لئے ہیں جن میں سے ہر ایک نواز شات الہٰی کی بدولت بمنزلہ ایک عالم کے تھا اور ان کو عالم سے موسم کرنا ایسے ہی ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل/ 120] بیشک حضرت ابراہیم ایک امہ تھے میں حضرت ابراہیم کو امۃ کہا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

آپ اہل مکہ سے فرما دیجیے کہ کیا تم لوگ ایسے اللہ کی توحید کا انکار کرتے ہو جس نے زمین کو اتوار اور پیر کے دن میں پیدا کیا اور تم بتوں کو اس کا شریک ٹھہراتے ہو اور وہ ہر ایک جاندار کا پروردگار ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩ { قُلْ اَئِنَّکُمْ لَـتَـکْفُرُوْنَ بِالَّذِیْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِیْ یَوْمَیْنِ } ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) آپ ان سے کہیے کہ کیا تم لوگ کفر کر رہے ہو اس ہستی کا جس نے زمین کو بنایا دو دنوں میں ؟ “ { وَتَجْعَلُوْنَ لَہٗٓ اَنْدَادًاط ذٰلِکَ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ } ” اور تم اس کے لیے مدمقابل ٹھہرا رہے ہو ! وہ ہے تمام جہانوں کا رب۔ “ اَنْدَاد کا واحد ” نِدّ “ ہے جس کے معنی مد مقابل کے ہیں۔ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ نے زمین کو پیدا کیا ہے تو اس کا مالک اور اصل حاکم بھی وہی ہے۔ لہٰذا دنیا میں اگر کوئی حاکم بنے گا تو اسے اللہ کا تابع اور ماتحت بن کر رہنا ہوگا۔ اس حیثیت سے وہ اللہ کا خلیفہ ہوگا۔ لیکن اگر کوئی اللہ کی اطاعت سے آزاد ہو کر حاکم بن بیٹھے اور خود کو مطلق اقتدار (sovereignty) کا حق دار سمجھنے لگے تو وہ گویا اللہ کا مدمقابل ہے ‘ چاہے وہ ایک فرد ہو یا کسی ملک کے کروڑوں عوام ہوں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٩۔ ١٢۔ ان آیتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ زمین اور پہاڑ اور جو کچھ زمین میں پیداوار کی چیزیں ہیں پہلے چار روز میں یہ سب کچھ پیدا کیا گیا ہے اور پھر دور و زمین آسمان پیدا کئے گئے اور دالنازعات کی آیت ولارض بعد ذلک دحھا سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آسمان کے پیدا ہونے کے بعد زمین پھیلائی گئی ہے اسی واسطے اکثر مفسرین نے ان دونوں آیتوں کو ملا کر یہ اعتراض کیا ہے کہ ایک آیت سے زمین کا آسمان سے پہلے پیدا کرنا معلوم ہوتا ہے اور دوسری آیت سے آسمان کے بعد پھر طرح طرح سے اس اعتراض کا جواب بھی دیا ہے اور یہ اعتراض کچھ آج کل کا نیا اعتراض نہیں ہے کیونکہ صحیح بخاری ١ ؎ میں (١ ؎ بخاری شریف تفسیر سورة حم السجدۃ ص ٧١٢ ج ٢) سعید بن جبیر سے اور مستدرک حاکم میں عکرمہ سے جو روایتیں ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ فرقہ خارجیہ کے سرگروہ ایک شخص نافعبن ارزق نے حضرت عبد اللہ بن عباس سے قرآن شریف کی چند آیتوں کے اختلاف کو مکہ میں اعتراض کے طور پر پوچھا تھا اور حضرت عبد اللہ بن عباس نے نافع بن ارزق کو حضرت عبد اللہ بن عباس نے یہی دیا ہے کہ زمین کا پیدا ہونا آسمان سے مقدم ہے اور زمین کا پھیلایا جانا آسمان کی پیدائش کے بعد ہے اس لئے دونوں آیتوں میں کچھ اختلاف نہیں ہے کیونکہ ایک آیت میں زمین کی پیدائش کا ذکر ہے اور دوسری آیت میں زمین کے پھیلانے کا ذکر ہے حضرت عبد اللہ بن عباس کے اس جواب کو حافظ ابن حجر نے اور علما نے قابل اعتماد ٹھہرایا ہے اور صحیح بخاری کی اس روایت کے برخلاف تفسیر عبد الرازق وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس سے اور روایتیں جو ہیں ان کو حافظ ابن حجر اور علما نے ضعیف قرار دیا ہے۔ صحیح ٢ ؎ مسلم اور نسانئی میں حضرت ابوہریرہ (رض) کی جو (٢ ؎ صحیح مسلم باب صفۃ القیامۃ و الجنۃ و النار ص ٣٧١ ج ٢) ایک حدیث ہے جس کا حاصل یہ ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوہریرہ (رض) کا ہاتھ پکڑ کر ہفتہ اتوار ہر ایک دن کا نام لے کر زمین پہاڑ درخت چوپائے ہر ایک چیز کی پیدائش کی تفصیل بتائی ہے امام بخاری نے اپنی تاریخ میں اس حدیث پر اعتراض کیا ہے اور یہ بات ثابت کی ہے کہ یہ مرفوع حدیث نہیں ہے بلکہ کعب احبار کا قول ہے معتبر علما نے امام بخاری کے اس اعتراض کو صحیح قرار دیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس صاحب قدرت اور صاحب علم نے اپنی قدرت اور اپنے علم سے دو دن میں آسمان اور چار دن میں زمین اور اس میں کی سب ضرورت کی چیزوں کو اس طرح پیدا کیا کہ جس میں اس کا کوئی شریک نہیں تو پھر یہ لوگ اس کی تعظیم میں دوسروں کو جو شریک کرتے ہیں یہ ان لوگوں کی بڑی نادانی ہے کیونکہ جو زمین اللہ تعالیٰ نے دو دن میں پیدا کی اسی کی مٹی لے کر ان سب کے باپ آدم (علیہ السلام) کو اس سے بنایا جن کی نسل سے سب اولاد آدم کو پیدا کیا اور جو آسمان اللہ تعالیٰ نے دو دن میں پیدا کئے ان آسمانوں میں کے فرشتے بھی اس نے پیدا کئے اب جن نیک لوگوں کی یا فرشتوں کی مورتوں کو یہ لوگ پوجتے ہیں وہ زمین اور آسمان کی اللہ کی مخلوقات میں سے ہیں ان لوگوں کو اتنی سمجھ نہیں کہ خالق کی تعظیم میں مخلوق کو شریک کرنا کتنی بڑی غلطی کی بات ہے پھر فرمایا اس صاحب قدرت نے زمین میں پہاڑوں کی بوجھل میخیں ٹھونک دیں جس سے زمین خوب جم گئی اور یہ پہاڑوں کی میخیں زمین کے اوپر کے رخ سے اس لئے ٹھونکی گئیں کہ ان کا بڑا حصہ بڑا باہر نکلا رہے جس سے دریا اور ندیاں ان میں سے جاری ہوں اور سورج کی شعاع ان پر پڑ کر ان میں طرح طرح کے جواہرات پیدا ہوتے رہیں اور زمین کی پیداوار میں یہ برکت رکھی کہ ایک اناج کے دانے سے ہزاروں دانے اور ایک میوہ کی گٹھلی سے ہزاروں پھل پیدا ہوتے رہیں یہی انسان کی خوراکیں ہیں جن کا زمین سے نکلنا ٹھہرایا گیا ہے بیہقی کی اسماء وصفات اور مستدرک حاکم میں حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آسمان اور زمین کی پیدائش کا حال پوچھا تھا اسی واسطے آسمان و زمین کی پیدائش کے ذکر میں سواء للسائلین فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ ان آیتوں میں آسمان و زمین کی پیدائش کا حال پوچھنے والوں کا پورا جواب ہے حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے زمین کی پیدائش کے ذکر کے بعد فرمایا پھر وہ صاحب قدرت پانی کی بھاپ سے آسمان کے پیدا کرنے کی طرف متوجہ ہوا اور اس پانی کی بھاپ اور زمین سے فرمایا کہ تم دونوں سے جو کام لینا ہے اس کو تم دونوں یا تو خوشی سے منظور کرو نہیں تو تمہیں مجبور کیا جائے گا ان دونوں نے خوشی سے اللہ کا حکم منظور کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس پانی کی بھاپ سے سات آسمان دو دن میں بنائے اور ہر ایک آسمان میں فرشتے دریا جو کچھ پیدا کرنا تھا اس کے پیدا ہوجانے کا حکم دیا اول آسمان کی رونق اور شیاطین کو آسمان کی خبروں سے باز رکھنے کے لئے تارے پیدا کئے۔ صحیح بخاری ١ ؎ کے حوالہ سے حضرت عائشہ کی حدیث گزر چکی ہے کہ جو شخص ظلم سے کسی دوسرے شخص کی بالشت بھر زمین بھی دبا لے گا تو قیامت کے دن ساتوں زمینوں کا اتنا ہی ٹکڑا لے کر اس شخص کی گردن میں اس کا طوق ڈال دیا جائے گا اس حدیث سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے کہ سات آسمانوں کی طرح زمینیں بھی سات ہیں ترمذی ٢ ؎ اور مسند امام احمد کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث بھی گزر چکی ہے کہ ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک اور اسی طرح ایک زمین سے دوسری زمین تک پانسو برس کی راہ کا فاصلہ ہے مسند احمد اور ترمذی ٣ ؎ میں ابورزین عقیلی سے روایت ہے کہ سب چیزوں سے پہلے اللہ تعالیٰ نے پانی کو پیدا کیا پھر عرش معلی کو پھر اور مخلوقات کو ترمذی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ (١ ؎ صحیح بخاری باب اثم من ظلم شیئا من الارض ص ٣٣١ ج ١) (٢ ؎ جامع ترمذی تفسیر سورة الحدید ص ١٨٥ ج ٢) (٣ ؎ جامع ترمذی تفسیر سورة ھود ص ١٦٠)

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(41:9) ائنکم لتکفرون : ائنکم استفہام زجری ہے یہ جملہ جواب ہے ایک سوال محذوف کا۔ گویا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سوال کیا کہ اگر وہ استقامت نہ اختیار کریں اور استغفار نہ کریں تو میں ان سے کیا کہوں ؟ (ارشاد ہوا) آپ کہہ دیجئے کہ کیا تم ایسے خدا (کی توحید) کا انکار کرتے ہو جس نے ۔۔ الخ (تفسیر مظہری) ۔ لتکفرون میں لام تاکید کفر کے لئے ہے۔ اندادا : ند کی جمع ہے بمعنی مقابل ۔ برابر۔ ند اور مثل میں فرق یہ ہے کہ مثل عام ہے اس کا استعمال ہر قسم کی شرکت میں ہوتا ہے اور ند خاص ہے اور اس کا استعمال کسی شے کی ذات اور جوہر میں شرکت کے لئے ہوتا ہے۔ منصوب بوجہ مفعول ہے۔ ذلک رب العلمین : ذلک اسم اشارہ بعید اس کا مشار الیہ الذی خلق الارض فی یومین۔ ہے یعنی وہ ذات جس نے زمین کو دو روز میں پیدا کیا۔ رب العلمین مضاف مضاف الیہ۔ اس ذات کی صفت ہے۔ یعنی وہ ذات رب العالمین (تمام جہانوں کو پالنے والی) ہے۔ فائدہ : یہاں یومین (دو دن) میں یوم سے مراد وہ متعارف چوبیس گھنٹوں والا تو ہو نہیں سکتا۔ کہ یہ خود نتیجہ ہے حرکت ارض یا حرکت شمس کا اور بیان اس وقت کا ہو رہا ہے جب یہ چاند۔ سورج۔ زمین ۔ آسمان سرے سے موجود ہی نہ تھے۔ بلکہ مراد یہاں مطلق زمانہ ہے یعنی دو مختلف اوقات میں (ملاحظہ ہو تفسیر ماجدی حاشیہ نمبر 75 بر آیت 7:54 ۔ و آیت ہذا : 41:9)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 دو دنوں سے مراد دو عہد زمانے ہیں یا اتنی مقدار جو دو دن کے برابر ہو۔ کیونکہ زمین کی پیدائش سے پہلے موجود دن رات کا وجود نہ تھا بلکہ ان کا وجود زمین اور سورج کی پیدائش کے بعد نمل میں آیاد۔ ( شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٩ تا ١٧۔ اسرار ومعارف۔ ان سے کہیے کہ تم اس ذات کو ماننے سے انکار کر رہے ہو جس نے دو روز میں زمین کو پیدا فرمایا اور اس کے مقابل دوسروں کو لاتے ہو اور انہیں معبود مانتے ہو جو کچھ پیدا تو کیا کرتے الٹا خود مخلوق کو یہی ذات سارے جہانوں کی پیدا کرنے والی بھی ہے اور پالنے والی بھی یہ اس کی حکمت کہ اس نے دوروز میں زمین بنائی پھر اس میں بھاری پہاڑ اور بیشمار برکات بےحساب نعمتیں رکھیں اپنی ہر ہرمخلوق کے لیے اس میں غذائیں سمودیں اور یہ ساراکام چار روز میں مکمل فرمایا کہ ساری مخلوق کی ہر ضرورت کو ہمیشہ پورا کرتی رہے گی اور یہ معنی بھی ہے کہ یہود مدینہ نے آپ سے زمین وآسمان کی تخلیق کے بارے میں جو سوال کیا ہے اس کا شافی جواب ہے پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو ابتداء ایک دھواں سا تھا ، اور زمین وآسمان سے ان کے شعور ادراک کے مطابق سوال فرمایا کہ تمہارے اندر میرے فیصلے نافذ ہوں گے جو تم نہیں روک سکو گے ہاں یہ اختیار ہے کہ خوشی سے یہ صورت حال قبول کرویامجبورا کرنا پڑے تو دونوں نے جوابا عرض کیا کہ ہمیں بصد خوشی قبول ہے بعض حضرات نے یہاں مجازی معنی مراد لیا ہے مگر حق یہ ہے کہ اللہ کی ساری مخلوق اس کی بارگاہ میں ہم کلام ہوتی ہے لہذا زمین وآسمان نے بھی اقرار اطاعت سے کیا چناچہ اس نے فیصلہ فرمایا اور دونوں میں سات آسمان بنادیے اور ہر آسمان میں وہاں کے امور مکمل فرمادیے اور اس قریبی آسمان کو چراغوں سے مزین کردیا جوا س کی حفاظت کا کام بھی کرتے تھے اور یہ سب تجویز کردہ ہے اس قادر مطلق کا جو سب پر غالب ہے اور ہر بات کا علم رکھتا ہے۔ زمین وآسمان کی تخلیق میں ترتیب۔ یہود مدینہ جو اکثر سوال کیا کرتے تھے انہوں نے یہ بھی سوال کیا کہ ارض وسماء کی تخلیق اور اس کی ترتیب بتائیے کہ کس طرح سے ہے تو یہ آیات اس کا جواب دے رہی ہیں کہ پہلے زمین کا مادہ بنایا جس پر دوروز کا وقت منظور تھا حالانکہ وہ قادر مطلق آن واحد میں کرسکتا ہے مگر یہ اس کی حکمت تھی کہ پھر آسمان کا مادہ بنایا جو دھویں کی شکل میں تھا پھر زمین کی موجودہ ہئیت پہاڑ دریا اور ہرچیز مکمل فرمائی اور پھر آسمانوں کو مکمل فرمایا اور یوں چھ روز میں یہ سب عمل مکمل ہوگیا اب اگر اس جواب کے بعد بھی وہ بات نہ سمجھنا چاہیں تو ان سے کہہ دیجئے کہ انکارپرمتب ہونے والے سخت عذاب کی اطلاع میں نے تمہیں پہنچادی جس طرح عاد وثمود پر عذاب ٹوٹ پڑا تھا۔ عتبہ بن ربیعہ کا واقعہ۔ ایک روز سرداران قریش میں سے عتبہ بن ربیعہ بیت اللہ کے ایک طرف بیٹھا تھا جس کے ساتھ بہت سے لوگ تھے اور آپ بیت اللہ کے ساتھ اکیلے تشریف رکھتے تھے تو اس نے کہا کہ اگر تم لوگ اجازت دوت میں ان سے بات کروں اور انہیں لالچ دوں کہ جب اسلام میں سیدناعمر اور حضرت حمزہ جیسے بہادروں کا آنا ہوا تو قریش نے پالیسی اور لالچ دینے لگے انہوں نے کہا ابوالولید بہت اچھی بات ہے وہ آپ کے پاس اور کہنے لگا اے بھتیجئے اگر سنناپسند کرو تو بات کروں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اجازت دی تو کہنے لگا کہ ہم بہت عزت دار لوگ ہیں اور آپ ہم میں عالی نسب ہیں ایک شاندار نظام چل رہا ہے مگر اب آپ کی دعوت سے سب ابتر ہوگیا عقیدہ وغلط ٹھہرا طریقہ عدل بھی ظلم بن گیا اور باپ دادا تک کفر کی زد میں آگئے اگر آپ اس طرح دولت جمع کرنا چاہتے ہیں تو ہم دولت جمع کردیتے ہیں اگر اقتدار کی طلب ہوتوہم آپ کو بادشاہ قبول کرتے ہیں اور اگر آپ پر کوئی آسیب ہے توکہیے ہم اس کا علاج کرادیں غرض بہت طویل بات کی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سنتے رہے جب چپ ہوا تو فرمایا اب سنو۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حم سے تلاوت شروع کی جب ان آیات پہ پہنچے ، مثل صعقۃ عاد وثمود تو اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منہ مبارک پر ہاتھ رکھ دیا اور کہا بس بس اپنی قوم کو ایسی تباہی کی خبر نہ دو اور اٹھ کر چلا گیا لوگوں نے پوچھا کیا ہواتوکہنے لگا کہ میں نے وہ کلام سنا جو نہ شاعری ہے نہ کہانت۔ اے قریش اگر ایمان نہیں لاتے تو ان کا راستہ نہ روکو۔ عربوں کو ان سے نبٹ لینے دو اگر انہیں شکست ہوئی تو تمہارا کام بن گیا اور اگر انہوں نے فتح کرلیا تو وہ حکومت تمہاری بھی ہوگی مگر وہ کہنے لگے کہ تم پر بھی ان کا جادوچل گیا ہے ۔ عاد وثمود کی تباہی کا سبب یہ تھا کہ ان کے پاس پے درپے اللہ کے رسول آئے اور یہ پیغام پہنچاتے رہے کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ عبادت۔ عبادت سے مراد مکمل اطاعت بھی ہے محض نماز روزہ ہی نہیں بلکہ نظام حیات اور طرز عمل بھی شامل ہے اور یہی بات سب کو مشکل لگا کرتی تھی چناچہ کہنے لگے کہ انسان تو کوئی ہم سے بہتر نہیں سوچ سکتا ہاں اگر اللہ کو منظور ہوتا اور اسے ہمارا طریقہ پسند نہ ہوتا جو انسانوں میں سب سے اعلی ہے تو وہ فرشتے روانہ کرتا غالبا وہ کوئی بہتر معاشرت یاسیاست یا نظام عدل بیان کرتے ورنہ جو کچھ آپ کہتے ہو ہم اسے تو ماننے سے انکار کرتے ہیں اور عاد تو ناحق اکڑے ہوئے تھے متکبرانہ انداز میں بولے بھلا ہم سے بھی کوئی طاقتور ہوگاجس کے عذاب سے ہمیں ڈراتے ہو اور یہ تک نہ سمجھے کہ جس نے انہیں پیدا کیا ہے اور ایک طاقتور قوم بنایا ہے بھلاخود اس کی طاقت کس قدر عظیم ہوگی بلکہ عقلی اور علمی اعتبار سے جانتے تھے صرف ضد میں آکرماننے سے انکار کیے ہوئے تھے۔ لہذاہم نے ان پر بڑے زوروں کی ہوامسلط کردی کہ اب ان کے برے دن آچکے تھے۔ منحوس دن۔ کوئی بھی دن منحوس نہیں ہے یہاں مراد ان کے زندگی کے وہ ایام ہیں جو ان کی بداعمالی کے باعث ان کے لیے منحوس ثابت ہوئے اور یہ عذاب انہیں دنیا میں سزا دے کر ذلیل و خوار کرنے کے لیے تھا کہ آخرت کا عذاب تو بہت ہی بڑی رسوائی کا سبب بھی ہوگا اور وہاں کوئی ان کی مدد بھی نہ کرسکے گا۔ ہم نے ثمود کو راستہ دکھایا مگر انہوں نے حق کے راستے پر چلنے کی بجائے اپنے اندھے پن اور ظالمانہ رویے پہ ، اصرار کیا اور اسے پسند کرلیا چناچہ اس قدر تباہی ہوئی کہ نیست ونابود ہوگئے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 9 تا 18 : رواسی ( بھاری پہاڑ ، بوجھ) اقوات ( قوت) ( کھانے کی چیزیں) قدر (اس نے مقرر کیا ، اندازہ کیا) دخان ( دھواں) طوعا (خوشی خوشی) کرھا ( زبردستی) طالعین (کہا ماننے والے) قضی (اس نے فیصلہ کیا) زینا (ہم نے زینت دی ، خوبصورت بنایا) مصابیح (چراغ) صعقۃ (کڑک) اشد (زیادہ طاقت والا) یجحدون (وہ انکار کرتے ہیں) ریح (ہوا) صرصر (سخت ، تند و تیز) نحسات (آفتوں والا) اخزی (زیادہ ذلیل کرنے والا) استحبوا (انہوں نے پسند کیا) الھون ( ذلیل و رسوال کرنا) تشریح : آیت نمبر 9 تا 18 : ان آیات میں کفار و مشرکین کو ان کے کفر و شرک پر آگاہ کرتے ہوئے زمین ، آسمان اور ان کے درمیان جتنی بھی بےشمارمخلوقات ہیں ان کی تفصیل ارشاد فرماتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ انسان کی انتہائی بےعقلی اور ناسمجھی کی بات ہے کہ جس اللہ نے اتنے عظیم الشان آسمان اور زمین کو پیدا کرکے انسان کی تمام ضروریات کو ان میں رکھ دیا ہے وہ اس کی ذات اور صفات میں دوسروں کو شریک کر کے ان کی عبادت و بندگی کرتے ہیں حالانکہ ہر طرح کی عبادت اور بندگی کا حق دار صرف وہی ایک خالق حقیقی ہے جس نے چھ دن میں اس پورے نظام کائنات کو بنایا ہے۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ مدینہ کے یہودیوں نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زمین و آسمان کی پیدائش کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ (1) اللہ تعالیٰ نے زمین کو اتوار اور پیر کے دن پیدا کیا (2) پہاڑوں اور ان میں جو بھی مع دنیات اور ذخائر ہیں ان کو منگل کے دن میں (3) درخت ، پانی کے چشمے ، شہر ، اس کی عمارتیں اور ویران میدانوں کو بدھ کے دن پیدا کیا (4) جمعرات کے دن آسمان بنائے (5) اور جمعہ کے دن ستارے ، چاند ، سورج اور فرشتے اس وقت پیدا کئے کہ جب جمعہ کے دن میں تین ساعتیں باقی تھیں۔ ان میں سے دوسری ساعت میں تمام آفتوں اور مصیبتوں کو پیدا کیا جو ہر چیز پر آنے والی ہیں ۔ اور تیسری ساعت میں حضرت آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا ۔ ان کو جنت میں ٹھہرایا ، ابلیس کو سجدہ کا حکم دیا اور انکار پر اس کو جنت سے نکال دیا گیا ۔ یہ سب تیسری ساعت کے ختم ہونے تک ہوا۔ ( ابن کثیر) یہودیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ نے چھ دن میں دنیا بنائی لیکن ساتویں دن آرام کیا ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے عقیدہ کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ ” بیشک ہم نے آسمانوں ، زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے چھ دن میں پیدا کیا اور ان کے بنانے میں ہمیں کوئی تکان نہیں ہوئی “ یعنی ساتویں دن اللہ نے تھکن کی وجہ سے آرام نہیں کیا کیونکہ کسی کام کے کرنے کے بعد تھک جانا یہ انسان کی عادت تو ہے لیکن اللہ کے تھک جانے کا تصور انتہائی غلط اور باطل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو چھ دن میں بنانے کے متعلق جن آیات کو نازل کیا ہے ان کا مقصد یہودیوں کے غلط عقیدہ کی اصلاح ہے۔ اب اس بات پر بحث کرنا کہ پہلے زمین پیدا ہوئی یا آسمان تو یہ وقت کو ضائع کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے کیونکہ قرآن کریم کسی جگہ بھی کائنات کی تخلیق کا ذکر کسی طبیعاتی ذکر یا کچھ علوم سکھانے کے لئے نہیں کرتا بلکہ توحید و رسالت اور فکر آخرت پیدا کرنے کی دعوت دیتا ہے تا کہ بھٹکے ہوئے لوگوں کی اصلاح ہو سکے اور وہ غور و فکر سے کام لے کر اللہ کی ذات وصفات کو پہچان سکیں اور تکبر و غرور سے بچ سکیں چناچہ قوم عاد اور قوم ثمود کا ذکر کرنے ہوئے فرمایا کہ دنیا کی ان ترقی یافتہ قوموں نے فکر آخرت کے بجائے دنیا ہی کو سب کچھ سمجھ لیا تھا اور اپنے اچھے اعمال ادا کرنے کے بجائے اپنی بڑائی کا اظہار کرتے رہے اور جان بوجھ بوجھ کر سچائیوں سے وہ اندھے بنے رہے آخر کار ان پر وہ عذاب آیا جو ان کی ترقیات اور مال و دولت کو تباہ و برباد کر کے چٹ کر گیا اور ان کی زندگیوں کو ایک فسانہ بنا کر رکھ دیا۔ ان تمام بانوں کو اللہ نے ارشاد فرمایا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان سے کہئے کہ کیا تم اس ذات کا انکار کرتے ہوے جس نے زمین کو دو دنوں میں پیدا کیا ۔ اس کی ذات وصفات میں کوئی شریک نہیں ہے وہ جہانوں کا پروردگار ہے۔ یہ اسی کا کرم ہے کہ اس نے زمین پر پہاڑوں کے بوجھ رکھ دیئے تا کہ زمین اپنی جگہ ٹھہری رہے۔ اللہ ہی نے اس زمین میں برکت عطاء فرمائی اور چار دنوں میں اس نے برکت کی تمام چیزیں اس سر زمین میں رکھ دیں اور تمام ان لوگوں کی طلب و خواہش کے مطابق ہر طرح کا رزق مہیا کردیا جو وہ مانگ سکتے تھے۔ فرمایا کہ جب اللہ نے آسمان کی طرف توجہ فرمائی تو وہ ایک دھواں سا تھا پھر اس نے اس دھوئیں اورز میں سے کہا کہ تم دونوں خوشی سے یا زبردستی آ جائو یعنی تمہیں آنا تو پڑے گا ۔ دونوں نے کہا ہم خوشی سے حاضر ہیں ۔ پھر اس نے دونوں میں سات آسمان بنا دیئے۔ پھر اس نے ہر آسمان کے فرشتوں اور صلاحیتوں کو ان کے کاموں کی وحی کردی ۔ فرمایا کہ ہم نے ہی آسمان دنیا کو ستاروں سے زبردست و خوبصورتی عطاء کر کے ان کی حفاظت کا سامان کردیا ۔ یہ سارے فیصلے غالب حکمت والے اللہ کی طرف سے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر وہ کفار ان تمام سچائیوں کے باوجود ان حقائق سے منہ پھیر لیتے ہیں تو آپ اعلان کر دیجئے کہ میں تمہیں ایسی زبردست چنگھاڑ ( عذاب الٰہی) سے آگاہ کر رہا ہوں جیسی قوم عاد اور قوم ثمود پر آئی تھی ، حالانکہ ان کو سمجھانے کے لئے اللہ نے اپنے رسولوں کو بھیجا تھا اور بتایا تھا کہ اللہ کے سوا عبادت و بندگی کے لائق کوئی نہیں ہے مگر ان کی بات ماننے کے بجائے انہوں نے اعتراض کرنا شروع کردیئے کہ اگر اللہ کو ہماری ہدایت کے لئے بھیجنا تھا تو فرشتوں کو بھیج دیا ہوتا ۔ ہم جیسے بشر کے ذریعہ ہمیں یہ پیغام کیوں دیا گیا لہٰذا ہم اس ( دعوت حق) کا انکار کرتے ہیں ۔ قوم عاد نے ناحق غرور وتکبر کرتے ہوئے کہا کہ ہم سے زیادہ قوت و طاقت والا کون ہے جو ہمیں عذاب دے گا ؟ اللہ نے فرمایا کہ یہ لوگ اس بات کو بھول گئے کہ اللہ وہ ہے جس نے انہیں پیدا کیا جو طاقت و قوت میں ان سے بڑھ کر ہے ۔ لیکن وہ لوگ اللہ کی نشانیوں پر ایمان لانے کے بجائے ان کا انکار کرتے رہے ، اللہ نے فرمایا کہ پھر ہم نے ان پر ایسی زبردست طوفانی ہواؤں کو بھیجا کہ جس سے ان کے حق میں ان کے دن منحوس دن ثابت ہوئے یہ اس لئے تھا کہ ان جیسے لوگوں کو دنیا کے عذاب کا مزا چکھا دیا جائے اور انہیں بتا دیا جائے کہ آخرت کا عذاب تو اس سے بھی زیادہ سخت ہے کیونکہ وہ ان کو آخرت میں ذلیل و رسوا کر کے رکھ دے گا ۔ رہے قوم ثمود تو اگرچہ ہم نے ہی انہیں راہ ہدایت دکھائی تھی مگر وہ ہدایت کے مقابلے میں اندھے بنے رہے۔ آخر کار ان کو بھی ایک زبردست چنگھاڑ نے تباہ کردیا اور اللہ نے اہل ایمان کو اور اللہ سے ڈرنے والوں کو پوری طرح نجات عطاء فرما دی تھی۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 9 تا 12 اے پیغمبر ان سے کہو کہ تم جب کفر کرتے ہو اور لاپرواہی میں یہ عظیم بات کہہ جاتے ہو ، یہ تو تم ایک بہت ہی بڑے جرم کا ارتکاب کرتے ہو ، یہ نہایت ہی قبیح اور ناپسندیدہ فعل ہے ، تم ایک ایسی ذات کا انکار کرتے ہو ، جس نے زمین کو پیدا کیا ، اس کے اندر پہاڑ پیدا کیے ، ان کے اندر برکات پیدا کیں ، اس زمین کے اندر رزق کی تمام ضروریات پوری پوری رکھ دیں ، جس نے آسمانوں کو پیدا کیا اور یہ سب کام اس نے چار دنوں میں سرانجام دیئے اور تمام مانگنے والوں کے لیے ان کی ضروریات مہیا کردیں جس نے آسمانوں کو پیدا کیا ، منظم کیا ، خصوصاً دنیا سے قریب والے آسمان کو خوب مزین کیا ، زمین اور آسمان نے اس کے قوانین قدرت اور احکام کے سامنے سر تسلیم خم کردیا ، لیکن اے اہل زمین تم ہو کہ تم انکار کرتے ہو اور تکبر کرتے ہو۔ لیکن قرآن کی عبارت نے ، قرآن کے انداز بیان کے مطابق ان مضامین کو اس انداز میں پیش کیا ہے کہ بات فوراً دل میں اتر جاتی ہے اور دل کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ ذرا اس قرآن کے الفاظ دوبارہ پڑھئے اور غور کیجئے ۔ قل ائنکم۔۔۔۔ سوآء للسبآئلین (41: 9 تا 10) ” اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، ان سے کہو ، کیا تم اس خدا سے کفر کرتے ہو اور دوسروں کو اس کا ہمسر ٹھیراتے ہو ، جس نے زمین کو دودنوں میں بنادیا۔ وہی تو سارے جہان والوں کا رب ہے ، اس نے اوپر سے اس میں پہاڑ جما دیئے اور اس میں برکتیں رکھ دیں اور اس کے اندر سب مانگنے والوں کے لیے ہر ایک کی طلب و حاجت کے مطابق ٹھیک انداز سے خوارک کا سامان مہیا کردیا۔ یہ سب کام چار دن میں ہوگئے “۔ یہاں زمین کی تخلیق کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اسے دو دنوں میں پیدا کیا گیا۔ زمین کی پیدائش کی مزید بات سے پہلے اس پر تبصرہ کرکے شرک کی نفی کی گئی اور بتایا گیا کہ ذٰلک رب العٰلمین (41: 9) ” یہی جہاں والوں کا رب ہے “۔ تم اس رب کا انکار کررہے ہو ، اور اس کے ساتھ لوگوں کو شریک کررہے ہو ، جس زمین پر تم چل پھر رہے ہو ، وہ تو اس نے بنائی ہے لہٰذا تکبر اور لاپرواہی تمہیں زیب نہیں دیتی ۔ یہ تو بہت ہی قبیح فعل ہے۔ اس کے بعد باقی بات۔ سوال یہ ہے کہ یہ دودن کون سے دن ہیں ، جس کے اندر زمین پیدا کی گئی اور جن دودنوں میں پہاڑ پیدا کیے اور زمین کے اندر زندگی پیدا کی گئیں اور یوں یہ چار دن ہوگئے ؟ یہ ایام دراصل ایام اللہ ہیں اور ان کی طوالت کے بارے میں اللہ ہی جانتا ہے۔ یہ ایام اس زمین کے ایام بہرحال نہیں ہیں۔ کیونکہ زمین کے ایام تو وہ زمانی معیار ہے جو زمین کے پیدا ہونے اور اس کی گردش متعین ہونے کے بعدوجود میں آیا ہے۔ جس طرح اس زمین کے ایام ہیں۔ اور یہ گردش محوری اور سورج کے گرد سالانہ گردش کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں اسی طرح کواکب میں سے ہر ایک کے اپنے اپنے ایام ہیں۔ ستاروں کے اپنے ایام ہیں یہ زمین کے ایام سے مختلف ہیں۔ بعض زمین کے ایام سے چھوٹے اور بعض طویل ہیں۔ وہ ایام جن میں ابتداء زمین پیدا ہوئی ، پھر اس میں پہاڑ پیدا ہوئے ، پھر اس کے اندر حسب ضرورت رزق اور ضروریات رکھی گئیں ، یہ کوئی اور ہی ایام تھے اور ان کا معیار بھی اور تھا۔ ہمیں اس کا علم نہیں ہے ، لیکن اس قدر ضرور معلوم ہے کہ یہ ایام ان دونوں کے مقابلے میں بہت ہی طویل تھے۔ آج تک انسانی علم جہاں تک پہنچ سکا ہے ، اس کے مطابق ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس سے مراد وہ زمانے ہیں جن سے یہ زمین گزرتی رہی ، یہاں تک کہ وہ اپنے موجودہ مدار میں ٹھہری ، اس کا چھلکا سخت ہوگیا اور یہ زندگی کے قیام کے لیے قابل ہوگیا ، جس زندگی کو ہم جانتے ہیں اور آج تک جو نظریات پیش ہوئے ہیں ان کے مطابق اس پر ہمارے زمین کے معیار ایام کے مطابق نو ہزار ملین سالوں کا وقت لگا۔ یہ بھی علمی نظریات ہیں اور ان کو تبصروں اور چٹانوں کے مطالعہ کے بعد مرتب کیا گیا ہے۔ قرآن کے مطالعہ میں ہم ان عملی نظریات کو آخری بات نہیں کہتے کیونکہ یہ فائنل تو ہیں نہیں۔ یہ نظریات ہیں اور ان میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ ہم قرآن کو انکا تابع تو نہیں کرسکتے۔ ہاں اگر ان نظریات اور نص قرآنی کے درمیان قرب اور موافقت ہو تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ نظریہ درست ہوسکتا ہے۔ اور ایسا نظریہ تشریح قرآن کا معاون بھی ہوسکتا ہے اور اسکے ذریعہ ہم قرآن کے مفہوم کے قریب جاسکتے ہیں آج کل کے نظریات کے مطابق راجح قول یہی سمجھا جا ات ہے کہ زمین بھی کسی وقت ایک آگ کا گولا تھی جس طرح اس وقت سورج ہے اور گیس کی شکل میں تھی۔ اور یہ زمین بھی سورج ہی کا حصہ تھی ، اس سے جدا ہوگئی ، اس کے بارے میں سائنس دانوں کا اتفاق نہیں ہے کہ کیوں ہوئی اور کس طرح ہوئی البتہ اسے ٹھنڈا ہونے کے لیے طویل وقت لگا جبکہ اس کا پیٹ ابھی تک اسی حالت میں ہے۔ جہاں بڑے بڑے پہاڑ پگھل جاتے ہیں۔ اور کھولنے لگتے ہیں۔ ” جب زمین کا چھلکا ٹھنڈا ہوا تو یہ سخت ہوگیا “۔ پہلے پہل یہ سخت پتھر تھا اور پتھر کے پھر طبقے تھے۔ اوپر اور نیچے پتھر۔ اور نہایت ہی ابتدائی دور میں بخارات پیدا ہوئے جن کا 3/2 حصہ ہائیڈروجن اور 3/1 حصہ آکسیجن تھا۔ ان کے اتحاد کی وجہ سے زمین پر پانی پیدا ہوگیا۔ ” ہوا اور پانی نے باہم تعاون کرکے چٹانوں کو توڑا اور ٹکڑے ٹکڑے کرکے ان کو ایک جگہ سے اٹھایا اور دوسری جگہ ڈھیر لگا دیا اور اس کی وجہ سے مٹی پیدا ہوئی جس میں فصل اگنا ممکن ہوا ، اس طرح ہوا اور پانی نے پہاڑوں کو توڑا اور اونچی جگہوں کو پست کیا اور گڑہوں اور نیچی جگہوں کی پھرائی کا کام کیا۔ لہٰذا زمین کے اندر جو بھی چیز ہے یا ہونے والی ہے۔ اس میں ہمیں تعمیر وتخریب ساتھ ساتھ چلتی نظر آتی ہیں “۔ ” زمین کا اوپر کا حصہ جسے چھلکا کہہ سکتے ہیں ، دائمی طور پر حرکت اور تغیر میں رہتا ہے۔ سمندر میں جب موجیں اٹھتی ہیں تو یہ چھلکا متاثر ہوتا ہے۔ سورج کی گرمی سے سمندر کا پانی بخارات بن جاتا ہے ، آسمانوں کی طرف اٹھتا ہے ، بادلوں کی شکل اختیار کرتا ہے ، زمین پر میٹھا پانی برستا ہے۔ موسلادھار بارشیں ہوتی ہیں ، سیلاب آتے ہیں ، دریا بہتے ہیں ، اور یہ اس زمین کے چھلکے کے اوپر چلتے ہیں اور اس میں اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہ ایک پتھر اور چٹان پر یوں اثر انداز ہوتے ہیں کہ اسے ایک چٹان سے دوسری قسم کی چٹان میں بدل دیتے ہیں۔ اور پھر یہ سیلاب اور دریا اسے اٹھا کر دوسری جگہ بھی لیجاتے ہیں اور صدیوں کے بعد پھر زمین کا چہرہ بدل جاتا ہے۔ اور ہزاروں اور لاکھوں سولوں کے بعد وسیع تغیرات پیدا ہوتے ہیں ، پھر پہاڑوں پر برف جمتی ہے۔ یہ وہی کام کرتی ہے جو ہوا اور پانی کرتے ہیں اور سورج بھی زمین کی چھلکے پر ویسے ہی اثرات ڈالتا ہے جس طرح ہوا اور پانی ڈالتے ہیں۔ یہ اسے گرم کرتا ہے پھر زمین کے اوپر زندہ جانور بھی زمین کے اس چہرے کو بدلتے رہتے ہیں اور آتش فشانی کا عمل بھی زمین پر تغیرات پیدا کرتا ہے۔ ” اس زمین کے چٹانوں کے بارے میں آپ کسی بھی جیالوجسٹ سے پوچھ سکتے ہیں ، وہ چٹانوں کے بارے میں آپ کو بہت سی معلومات دے گا اور وہ اس کی تین بڑی اقسام بتائے گا۔۔۔۔ مثلاً ” ناری چٹانیں (Igneous Rocks) جو زمین کے پیٹ کے پگھلے ہوئے مادے کی شکل میں باہر آئیں۔ یہ مادہ پھر ٹھنڈا ہوگیا۔ وہ آپ کو لاوا کی چٹان (Granites) بطور مثال پیش کرے گا اور پتھر دکھا کر آپ کو بتائے گا کہ اس کے اندر سفید ، سرخ اور سیاہ چمکدار مادے ہیں۔ یہ کیمیاوی مرکبات ہیں اور ان کا اپنا وجود ہے کیونکہ یہ مخلوط دھاتوں کے پتھر ہیں۔ وہ یہ بتائے گا کہ تمام روئے زمین کا چھلکا انہی پتھروں سے بنا ہوا ہے۔ جب یہ زمین تیار ہوئی ، بہت زمانہ پہلے ، بارشیں شروع ہوئیں ، زمین پر دریاب ہے ، یا برف پگھلی ، طوفان چلے ، سورج نے اثر دکھایا۔ ان موثرات نے ان ناری چٹانوں کے اندر توڑ پوڑ کا عمل کیا۔ ان کے ملبے اور ان کے اندر کی کیمیاوی مواد سے یہ جدید چٹانیں تیار ہوگئیں اور لاوے کی ان چٹانوں سے کئی اور رنگ اور قسم کی چٹانیں تیار ہوگئیں۔ ” اب چٹانوں کی ایک دوسری اہم قسم ہے جس کو جیالوجی کی زبان میں گارے (Sedimentary Rocks) کی چٹانیں کہتے ہیں یہ وہ چٹانیں ہیں جو پانی ، ہوا ، سورج یا زندہ چیزوں کے عمل سے زمین کی اصلی سخت چٹانوں سے ٹوٹ پھوٹ کر بنیں اور ان کو Sedimentary اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ اپنی اصلی جگہ میں نہیں ہوتی ہیں۔ یہ اپنی اصلی چٹانوں سے ٹوٹ پھوٹ کر اور پانی ، ہوا اور طوفان کی وجہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتی ہیں اور وہاں گارے کی شکل میں جمع ہوکر جم جاتی ہیں “۔ ” ان گارے کی چٹانوں کی مثال جبری پتھر ہیں جن سے پورا ” مقطم “ پہاڑ بنا ہوا ہے اس پہاڑ سے اہل قاہرہ پتھر توڑ کر اپنے مکانات بناتے ہیں۔ ماہرین بتائیں گے کہ یہ کیلشیم کاربونیٹ (Calcium Carbonate) ہے اور یہ زمین سے زندہ چیزوں یا کیمیاوی عمل سے جدا ہوا ، پھر ریت بھی اسی قسم کے پتھروں سے نبی ہوئی ہے نیز کیلشیم ایسڈ بھی اس قسم سے بنا ہے۔ یہ بھی دوسری چٹانوں سے نکلا ہے۔ مثلاً خشک گارے کے پتھر اور خشک بچنے والی مٹی کے پتھر۔ یہ تمام سابقہ اصول کے مطابق بنتے ہیں “۔ یہ سابقہ اصلی چٹانیں ہیں جن سے گارے کی (Sedimentary) چٹانیں بنیں جن کی اقسام مختلف ہیں۔ تو معلوم ہوا کہ اصلی چٹانیں لاوے کی چٹانیں ہیں ، جب زمین کی سطح جم گئی اور اس کی مائع حالت جاتی رہی اور یہ عمل بہت ہی پہلے ہوا ، اس وقت سطح زمین پر لاوے کی چٹان کے سوا کچھ نہ تھا۔ پھر بخارات اور پانی پیدا ہوا اور اس نے لاوے کی چٹان پر توڑ پھوڑ کا عمل شروع کیا۔ اس میں ہوا اور مختلف قسم کی گیسوں نے بھی کام کیا۔ سخت طوفانوں اور سورج کی گرمی نے بھی امداد دی ۔ یہ سب مراحل جمع ہوئے اور اپنے اپنے طبیعی اور مزاج کے مطابق کام کیا اور یہ لاوے کے پتھروں کی شکل میں بدلے۔ اب ان پتھروں سے عمارات بنتی ہیں۔ معدنیات نکالی جاتی ہیں۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس سخت لاوے کے پتھر ہی سے مٹی نکالی گئی ، جو سطح زمین پر مختلف مقامات پر جمع ہوئی اور یہی مٹی نباتات وحیوانات کے لیے تمید بنی۔ ” لاوے کی چٹانیں کھتی ، فصل اور آبپاشی کے لیے مفید نہیں ہے۔ لیکن اس سے ، نرم وملائم مٹی نکلتی ہے یا اس جیسی دوسری چٹانوں سے یہ مٹی جمع ہوتی ہے اور اس مٹی سے پھر نباتات وحیوانات پیدا ہوئے۔ اور یوں اس زمین کے رئیس المخلوقات انسان کی پیدائش کے لیے راہ ہموار ہوئی۔ یہ طویل سفر جس کا انکشاف علم جدید نے کیا ہے ، اس کی مدد سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ زمین و آسمان کی تخلیق میں جو ایام لگے ، زمین کی تخلیق ، اس کے اوپر پہاڑوں کی تنصیب ، اس کے اندر برکات و ضروریات کی تشکیل پر جو چار دن لگے ، یہ ایام اللہ کے چار دن تھے جن کی طوالت کا ہمیں علم نہیں کہ ان کی طوالت کا کیا معیار ومقیاس ہے۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ وہ یقیناً ہماری اس زمین کے ایام نہ تھے۔ اب ہم نص قرآنی کے ایک ایک فقرے پر غور کریں گے ، قبل اس کے کہ ہم زمین کے موضوع کو چھوڑ کر آسمان کی طرف چلیں : وجعل فیھا رواسی من فوقھا (41: 10) ” اور اوپر سے اس پر پہاڑ جما دیئے “۔ بعض اوقات ان پہاڑوں کے لیے رواسی کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے۔ رواسی کے معنی لنگرانداز ہونے والی کشتی اور پہاڑ ہیں اور بعض جگہ پہاڑوں کو رواسی کہہ کر ان تمیدبکم ” کہ تم ڈھلک نہ جاؤ “۔ یعنی زمین لنگر انداز ہے۔ یہ پہاڑ اسے ایک جگہ ٹکاتے ہیں ، تاکہ انسان ڈھلک نہ جائیں۔ ایک وقت ایسا تھا کہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ زمین ایک جگہ جمی ہوئی ہے اور مستحکم بنیادوں پر ٹھہری ہوئی ہے۔ اب ایسا وقت آگیا ہے کہ یہ زمین تو ایک کرہ ہے ، چھوٹی سی گیند جو فضا میں تیر رہی ہے اور کسی چیز کا سہارا نہیں لے رہی ہے۔ جب انسانوں کو سب سے پہلے یہ بتائی گئی ہوگی تو وہ پریشان ہوکر دائیں بائیں دیکھ رہے ہوں گے کہ واقعی کہیں ہم گرنہ جائیں۔ ڈھلک نہ جائیں ۔ یا ہم فضا کی گہرائیوں میں نہ اڑجائیں۔ اطمینان رکھو ، اللہ نے اس کو فضا ہی میں تھامے رکھا ہے اور زمین و آسمان دونوں اپنی جگہ سے ہٹ یا پھسل نہیں سکتے ۔ اگر ان کا توازن کبھی بگڑ گیا تو پھر اللہ کے سوا کوئی اسے قائم بھی نہیں کرسکتا ۔ اطمینان کیجئے ! اللہ نے جو قوانین فطرت کائنات میں جاری کیے ہیں وہ بہت ہی پختہ ہیں اور اللہ قوی و عزیز ہے۔ ذرا پہاڑوں کا مزید مطالعہ درکار ہے انکو اللہ نے ” رواسی “ کہا ہے۔ یہ زمین کو باندھتے ہیں کہ وہ ڈھلک نہ جائے جیسا کہ ظلال القرآن میں ہم نے دوسری جگہ یہ نکتہ بیان کیا کہ سمندروں کے اندر جو گہرائیاں ہیں اور زمین کے اوپر جو بلندیاں ہیں یہ دونوں حصوں کا توازن برابر کرتی ہیں۔ یوں زمین کے دونوں حصے سمندری اور خشکی متوازن ہوجاتے ہیں۔۔۔ ایک سائنس دان کی سنئے ! ” زمین کے اندر جو حادثہ ہوتا ہے اس کی سطح پر ای اندر ، اس کی وجہ سے زمین کا مادہ ایک جگہ سے دوسری جگہ کو منتقل ہوتا ہے ، یہ اس کی گردش کو متاثر کرتا ہے۔ اس میں صرف مدوجزر ہی واحد عامل نہیں ہے۔ یعنی زمین کی رفتار میں کمی کے بارے میں ، یہاں تک کہ دریا ایک جگہ سے جو پانی دوسری جگہ کو منتقل کرتے ہیں اس کا بھی زمین کی رفتار پر اثر ہوتا ہے۔ ہوائیں جو ادھر جاتی ہیں ، یہ بھی اثرانداز ہوتی ہیں۔ سمندروں کے اندر کی سطح کا جگہ جگہ کرنا اور خشکی کی سطح کا جگہ جگہ سے اٹھنا بھی گردش زمین کی رفتار کو متاثر کرتا ہے اور یہ چیز بھی زمین کی گردش کی رفتار کو متاثر کرتی ہے کہ کسی جگہ سے زمین پھیلے یا سکڑے۔ اگرچہ یہ سکڑنا اور پھیلنا چند اقدام تک محدود کیوں نہ ہو “۔ غرض یہ حساس زمین ، جس کی حساسیت کے بارے میں ہم نے یہ مطالعہ کیا ، کیا بعید کہ اس کی رفتار کی تیزی میں یہ اونچے اونچے پہاڑ توازن قائم کرتے ہوں اور وہ اس کی غیر متوازن ہونے سے روکتے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے آج سے چودہ سو سال قبل یہ بات کہہ دی ” ان تمیدبکم “” کہ وہ تمہیں لے کر ڈھلک نہ جائے “۔ وبٰرک فیھا وقدر فیھآ اقواتھا (41: 10) ” اور اس میں برکتیں رکھ دیں اور اس میں ٹھیک اندازے سے خوراک کا سامان مہیا کردیا “۔ یہ فقرہ ہمارے اسلاف کے ذہنوں میں یہ مفہوم منتقل کرتا ہوگا کہ فصلیں اگا دیں اور زمین کے اندر بعض مفید جمادات اور دھاتیں رکھ دیں مثلاً سونا چاندی اور لوہا وغیرہ۔ لیکن آج اللہ تعالیٰ نے انسان پر زمین کی جو برکات کھول دی ہیں اور جو صدیوں پہلے اس زمین میں رکھ دی گئی تھیں اور ہم ان سے استفادہ کرتے ہیں تو اس فقرے کا مفہوم بہت ہی وسیع ہوگیا ہے۔ اب ہم نے دیکھ لیا کہ کس طرح ہوا کے عناصر نے تعاون کیا اور پانی تشکیل ہوا اور کس طرح پانی اور ہوانے تعاون کیا اور سورج اور طوفان نے تعاون کیا اور مٹی کی تشکیل ہوئی جو قابل زراعت بن گئی۔ اور پانی ، سورج ، ہواؤں کے باہم تعاون سے بارشیں برسیں ، یہ بارش ہی ہے جس کے ذریعہ سے تمام پانی فراہم ہوتے ہیں۔ میٹھی نہروں کے ذریعے ، دریاؤں اور ندیوں کے ذریعے اور زمین کے اندر کے ذخیروں اور چشموں کے ذریعہ ، یہ سب برکات وارزاق ہی تو ہیں۔ اور پھر ہوا اور ہمارا اور تمام حیوانات کا نظام تنفس اور ہمارے جسم۔ ” زمین ایک کرہ اور گیند ہے۔ اس کے اوپر چٹان کی ایک تہہ ملفوف ہے اور اس چٹان کی تہہ کے اکثر حصے کے اوپر پانی کی تہہ ہے جس سے یہ چٹان ملفوف ہے۔ پھر اس پانی اور چٹان کی تہہ کے اوپر ایک ہوائی کرہ ہے جو دبیزگیس کی شکل میں دنیا کو ملفوف کیے ہوئے ہے۔ یہ ہوائی کرہ سمندر کی طرح ہے۔ اس کی سمندر کی طرح گہرائی ہے۔ ہم انسان اور حیوان اور نباتات ہوا کے اس سمندر کی تہہ میں زندہ رہ رہے ہیں اور بڑے مزے سے رہ رہے ہیں “۔ ” ہوا میں ہم سانس لیتے ہیں ، آکسیجن لیتے ہیں ، ہوا ہی سے بناتات اپنا جسم بناتے ہیں ، ہوا ہی سے کاربن لیتے ہیں بلکہ آکسائیڈ سے کاربن لیتے ہیں جسے اہل کیمیا کا ربن ڈائی آکسائیڈ کہتے ہیں۔ نباتات اپنا جسم کوئلے کے آکسائیڈ سے بناتے ہیں۔ ہم نباتات کھاتے ہیں اور ہم حیوانات کو بھی کھاتے ہیں۔ اور حیوانات نباتات کو کھاتے ہیں۔ دونوں سے ہمارا جسم تیار ہوتا ہے۔ ہوا میں نائٹروجن ہے ، یہ آکسیجن کو خفیف بناتی ہیں۔ ورنہ ہم سانس لیتے ہی جل جائیں ۔ پانی کے بخارات ہوا کے اندر رطوبت پیدا کرتے ہیں۔ کچھ دوسری گیس ہیں جو قلیل مقدار میں پائی جاتی ہیں اور غیر مرتب ہیں۔ ان میں ہیلیم ، نیون وغیرہ اور ہائیڈروجن گیس ، یہ ہوا میں ابتدائی تخلیق کے وقت سے موجود ہیں۔ وہ مواد جو ہم کھاتے ہیں اور اپنی زندگی میں اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں ، جبکہ رزق اس مواد سے وسیع مفہوم رکھتا ہے جو صرف پیٹ میں جاتا ہے ، یہ سب چیزیں اس اصلی مواد اور عناصر پر مشتمل ہیں جو یہ زمین اپنے پیٹ میں رکھتی ہے یا فضا میں رکھتی ہے۔ مثلاً چینی کیا چیز ہے۔ یہ کاربن ہائیڈروجن اور آکسیجن کا مرکب ہے اور پانی ہائیڈروجن اور آکسیجن سے مرکب ہے۔ یہ دونوں چیزیں ہمارے کھانے اور پینے کی چیزوں کے بڑے مرکبات ہیں۔ نیز لباس اور آلات بھی انہیں عناصر سے بنتے ہیں ، جو اس زمین کے اندر اللہ نے ودیعت کیے ہیں۔ یہ ہیں وہ امور جو اس زمین کی برکات اور اس کے اندر ذرائع رزق کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن کو چار دنوں یا چار طویل ادوار ، یعنی ایام اللہ میں بنایا گیا جن کی مقدار ہمیں معلوم نہیں ہے۔ ثم استوٰی۔۔۔۔۔ العزیز العلیم (41: 11 تا 12) ” پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا ، جو اس وقت محض دھواں تھا۔ اس نے آسمان اور زمین سے کہا ” وجود میں آجاؤ، خواہ تم چاہو یا نہ چاہو “۔ دونوں نے کہا ” ہم آگئے فرمانبرداروں کی طرح “۔ تب اس نے دودن کے اندر آسمان بنا دیئے اور ہر آسمان میں اس کا قانون وحی کردیا۔ اور آسمان دنیا کو ہم نے چراغوں سے آراستہ کیا اور اسے خوب محفوظ کردیا ۔ یہ سب کچھ ایک زبردست علیم ہستی کا منصوبہ ہے “۔ استواء کا مفہوم یہاں ارادہ کرنا ہے۔ اور اللہ کی طرف سے قصد کرنا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی طرف اپنے ارادے کو متوجہ کردے۔ ثم بعض اوقات ترتیب زمانی کے لیے نہیں ہوتا بلکہ معنوی ارتقاء کے لیے بھی آتا ہے۔ آسمان چونکہ انسانوں کو ارفع اور بلند نظر آتے ہیں اس لیے اس کے لیے ثم کا لفظ آیا۔ ثم استوٰی الیٰ السمآء وھی دخان (41: 11) ” پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ اس وقت محض دھواں تھا “۔ یہ کہا جاتا ہے کہ ستاروں کی تخلیق سے قبل ایک حالت تھی جیسے ” سدم “ کی حالت ہوتی ہے اور یہ ایک قسم کا گیس تھا ، جیسے دھواں ہوتا ہے۔ ” سدم (Black Whole) میں جو گیس اور غبار ہوتا ہے وہ وہی ہوتا ہے ، جو ستاروں کی تخلیق سے بچ گیا ہوتا ہے۔ نظریہ تخلیق کائنات یہ ہے کہ کہکشاں گیس اور غبار سے مرکب ہوتی ہے۔ جب یہ گیس اور غبار زیادہ کثیف ہوگئے تو اس کے نتیجے میں ستارے پیدا ہوئے۔ کچھ ملبہ رہ گیا۔ یہ بقیہ ملبہ سدم کی شکل اختیار کرگیا۔ اس وسیع کہکشاں میں اس کا جو حصہ باقی ہے وہ منتشر ہے۔ گیس اور غبار کی شکل میں ۔ اس کی مقدار اتنی ہے جتنے ستارے بن گئے ۔ یہ ستارے اس بقیہ گیس اور غبار کو اپنی جاذبیت کے ذریعے کھینچتے رہتے ہیں۔ چناچہ اس عمل سے آسمانوں کی صفائی ہورہی ہے مگر اس غبار کو جذب کرنے والے ستارے اس ہولناک فضا میں بہت تھوڑے ہیں۔ اور جن علاقوں کو اس سے صاف کرنا ہے وہ بہت ہی وسیع ہیں “۔ یہ بات صحیح ہوسکتی ہے کیونکہ یہ اس مفہوم سے زیادہ قریب ہے۔ جو اس آیت میں ہے۔ ثم استوٰی الی السمآء وھی دخان (41: 11) ” پھر وہ آسمانوں کی طرف متوجہ ہوا ، اور وہ اس وقت دھواں تھا “۔ یہاں تک کہ اس سے آسمان بنائے اور ان میں دوایام اللہ صرف ہوئے یعنی طویل عرصہ۔ اس کے بعد اب ہم اس حقیقت پر غور کریں گے۔ فقال لھا۔۔۔۔ طآئعین (41: 11) ” اس نے آسمان اور زمین سے کہا : وجود میں آجاؤ، خواہ تم چاہو یا نہ چاہو “۔ دونوں نے کہا ” ہم آگئے فرمانبرداروں کی طرح “۔ اس آیت میں عجب اشارہ ہے اس قانون قدرت اور ناموس فطرت کی طرف جو اس کائنات میں چلایا گیا ہے اور اس کائنات کا تعلق اپنے خالق کے ساتھ اطاعت اور سرتسلیم خم کردینے کا تعلق ہے۔ پوری کائنات اللہ کی مشیت اور حکم کے مطابق چل رہی ہے۔ یہاں صرف انسان ہی ایسی مخلوق ہے جو اللہ کے ناموس کے سامنے مجبور ہو کر سرطاعت خم کرتا ہے اور اکثر ایسا ہوتا ہے۔ یہ انسان بھی یقینی طور پر اس ناموس فطرت کا مطیع فرمان ہے ، اس سے نکل نہیں سکتا ۔ یہ اس عظیم کائنات نہایت ہی معمولی پرزہ ہے۔ اور اس کائنات کے کلی قوانین اس پر بھی نافذ ہیں خواہ وہ راضی ہو یا نہ ہو ، لیکن اس کائنات میں یہ انسان واحد ذات شریف ہے جو اللہ کی اطاعت اس طرح نہیں کرتا جس طرح ارض وسما کرتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو اطاعت سے آزاد کرنا چاہتا ہے یا راہ حق سے انخراف چاہتا ہے جو مستقیم اور آسان ہے ، لہٰذا وہ قوانین فطرت سے ٹکراتا ہے اور یہ بات لازمی ہے کہ یہ بات لازمی ہے کہ یہ قوانین اس پر غالب آکر اسے پاش پاش کردیتے ہیں۔ اس وقت یہ پھر کر مطیع فرمان ہوتا ہے۔ ہاں اللہ کے وہ بندے جن کے دل ، جن کا وجود ، جن کی حرکات ، جن کے تصورات ، جن کا ارادہ ، جن کی خواہشات اور جن کا رخ نوامیس فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہوجائے تو ایسے بندے پھر خوشی خوشی سے سر تسلیم خم کردیتے ہیں اور اس کائنات کے ساتھ ہمقدم ہوکر نہایت تعاون سے چلتے ہیں اور جس طرح یہ پوری کائنات اللہ کی سمت چلتی ہے۔ وہ بھی اسی سمت رواں دواں ہوتے ہیں۔ وہ کائناتی قوتوں کے ساتھ لڑتے ہیں ، جب مومن اس مقام تک پہنچ جاتا ہے تو پھر اس کے ہاتھوں معجزات کا صدور ہوتا ہے کیونکہ اس نے ناموس قدرت کے ساتھ اتحاد کرلیا ہے۔ اس کائنات کی عظیم قوتیں اس کی پشت پت آجاتی ہیں۔ اور یہ عظیم قوت جب اللہ کی راہ میں چلتی ہے تو مطیع فرمان ہوکر چلتی ہے۔ ہم اگر اللہ کی اطاعت کرتے ہیں تو مجبور ہوکر کرتے ہیں۔ کاش کہ ہم خوشی سے مطیع فرمان ہوتے ۔ کاش ہم بھی زمین و آسمان کی طرح خوشی سے اطاعت کرتے ، رضا اور خوشی سے۔ اس حال میں کہ ہم روح کائنات کے ساتھ ہم آہنگ ہوچکے ہوں اور نہایت خوشی اور خضوع وخشوع کے ساتھ لبیک کہتے ہوئے اور سر تسلیم خم کرتے ہوئے اللہ رب العالمین کی طرف چلیں۔ بعض اوقات ہم سے بڑی مضحکہ خیز حرکات سرزد ہوتی ہیں ، تقدیر کی گاڑی اپنی شاہراہ پرچلتی ہے ، تیزی سے چلتی ہے۔ اپنی سمت پر چلتی ہے ، یہ پوری کائنات اس کے ساتھ چلتی ہے۔ مستقل قوانین فطرت کے مطابق چلتی ہے۔ ہم آتے ہیں اور ہمارا یہ مطالبہ ہوتا ہے کہ ہم تقدیر سے بھی آگے ہوجائیں یا تقدیر سے ست روی اختیار کرلیں حالانکہ ہم اس عظیم کائنات کا حصہ ہیں۔ ہم اپنی نفساتی کمزوریوں کی وجہ سے جب قافلہ کائنات سے الگ ہوجاتے ہیں تو ہمارے سفر کی سمت ہی بدل جاتی ہے اور یہ سمت اس لیے بدلتی ہے کہ ہم بےچین ، جلد باز ، لالچی ، مطلب پرست اور ڈرپوک ہوجاتے ہیں۔ اور قافلہ ایمان اور قافلہ کائنات سے ادھر ادھر ہوجاتے ہیں ، ہم کبھی اس طرف ٹکراتے ہیں ، کبھی ادھر لڑھکتے ہیں اور درد پاتے ہیں ، ادھر گرتے ہیں ، ادھر حادثہ کرتے ہیں ، اور پاش پاش ہوجاتے ہیں۔ جبکہ کائنات کی گاڑی اپنے راستے پر ، اپنی مقررہ رفتار کے ساتھ اپنی منزل مقصود کی طرف جارہی ہے۔ اور اس طرح ہماری تمام قوتیں ، تمام جدوجہد بےکار ہوجاتی ہیں لیکن جب ہمارے دل ایمان سے لبریز ہوں ، ہم اللہ کے سامنے سرتسلیم خم کردیں ، روح کائنات کے ساتھ ہم آہنگ ہوجائیں ، اس وقت ہمیں معلوم ہوگا کہ ہمارا کردار کس قدر حقیقی ہے۔ پھر ہم اپنے قدموں اور تقدیر کی رفتار کے درمیان توازن پیدا کردیں گے۔ اور ہم مناسب وقت میں مناسب رفتار سے مناسب سمت کی طرف حرکت کریں گے۔ ہمارے ساتھ اس پوری کائنات کی قوت شامل ہوگی۔ اور ہم عملاً عظیم کام کرسکیں گے ، سوائے اس کے کہ ہم پر کبر و غرور کا اثر ہو ، کیونکہ ہمیں تو اصل حقیقت معلوم ہوگی کہ جس قوت کے ذریعے ہم یہ کارہائے نمایاں کررہے ہیں ، اس کا درچشمہ تو دراصل کوئی اور ہے ۔ یہ ہماری ذاتی قوت نہیں ہے۔ ہماری قوت میں یہ برکت اس لیے پیدا ہوگئی کہ یہ اس کائنات کے اندر ودیعت کردہ اللہ کی قوت کے ساتھ یکجا ہوگئی ہے۔ کیا ہی سعادت مندی ہوگی ، کیا رضا مندی ہوگی ، کس قدر راحت ہوگی اور کس قدر اطمینان ہوگا ، کہ ہم اس کرۂ ارض پر جو اللہ کو لبیک کہنے والا ہے ، اپنا یہ مختصر سفر اس خوشی میں ، اس کرۂ ارض کی معیت میں طے کریں اور آخر کار رب تعالیٰ کے ہاں ایک بڑے سفر کے آغاز کے لیے پہنچ جائیں۔ وہ کیا عظیم امن وسلامتی ہوگی جب ہم ایک کائنات میں زندہ رہ رہے ہوں جو ہماری دوست ہو ، سب کی سب اللہ کے سامنے سرتسلیم خم کرنے والی ہو اور ہم بھی اللہ کے مطیع فرمان ہوں۔ ہم دونوں ہمقدم ہوں ، دشمنی پر نہ ہوں ، دوست ہوں ، کیونکہ ہم اس کائنات کا حصہ ہیں اور اسی کے ہمہ رخ ہیں۔ قالتآ اتینا طآئعین (41: 11) ” ہم آگئے فرمانبرداروں کی طرح “۔ فقضھن سبع سمٰوات فی یومین (41: 12) ” تب اس نے دو دن کے اندر سات آسمان بنا دیئے “۔ واوحی فی کل سمآء امرھا (41: 12) ” اور ہر آسمان میں اس کا قانون وحی کردیا “۔ یہ دو دن وہی ہوسکتے ہیں جن میں سدم سے ستارے تیار ہوئے یا جن میں ان کی تشکیل مکمل ہوئی۔ حقیقت اللہ ہی جانتا ہے۔ ہر آسمان کی طرف اس کے امور کی وحی کے معنی یہ ہیں کہ اس پر قوانین قدرت نافذ کردیئے۔ اور ہدایت کردی کہ یوں چلو ، پھر آسمان کے حدود کیا ہیں تو اس کا تعین فی الحال ہم نہیں کرسکتے ۔ دوری کا ایک درجہ ایک آسمان ہوسکتا ہے۔ ایک کہکشاں ایک آسمان ہوسکتی ہے ، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک دوری تک جس قدر کہکشاں ہیں وہ ایک آسمان ہوں یا اس کا اور بھی ہوسکتا ہے۔ البتہ یہ بلندیاں سات ہیں۔ وزینا السمآء الدنیا بمصابیح وحفطا (41: 12) ” اور آسمان دنیا کو ہم نے چراغوں سے آراستہ کیا اور اسے محفوظ کردیا “۔ سماء دنیا کا بھی کوئی متعین مفہوم نہیں ہے ، اس سے مراد قریب تر کہکشاں بھی ہو سکتی ہے جو ہمارے ہاں شمسی کہکشاں کے نام سے مشہور ہے اور جس کا قطر ایک لاکھ ملین نوری سال ہے۔ یا کوئی اور معیار ہو اللہ کے نزدیک جس پر لفظ سما کا اطلاق ہوا ہو۔ اس میں ستارے اور ستارے ہیں جو ہمارے لیے چراغ ہیں اور بہت خوبصورت ہیں۔ حفاظت کس چیز سے ؟ شیطانوں سے۔ قرآن میں دوسری جگہ اس کی تصریح ہے۔ پھر سیاطین کی حقیقت کیا ہے ؟ قرآن کریم میں جو افعال ان کی طرف منسوب ہیں اور جو اشارے ہیں ، ان کے بارے میں ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ ان کی حقیقت اور ماہیت کا علم اللہ کو ہے۔ ذٰلک تقدیر العزیزالعلیم (41: 12) ” یہ سب کچھ ایک زبردست اور علیم ہستی کا منصوبہ ہے۔ کون ہے اللہ کے سوا جو اس عظیم اور ہولناک کائنات کو چلا سکتا ہے ؟ صرف اللہ زبردست اور علیم و حکیم ، اس کام کو کرسکتا ہے ، جو ہر چیز سے باخبر ہے۔ ایک عظیم کائناتی سفر کے بعد اللہ انکار کرنے والوں کے موقف کی کیا وقعت رہ جاتی ہے اور جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک کرتے ہیں ان کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے ، جبکہ آسمان و زمین بیک زبان کہتے ہیں کہ ہم ہیں مطیع فرمان ۔ لیکن انسان ہے اور کیا انسان ؟ اس کائنات کے اعتبار سے ایک نہایت چھوٹی سی چیونٹی بلکہ جرثومہ ، بےوقعت ، جو زمین پر رینگتا ہے۔ یہ نہایت ہی لاپرواہی ، غرور کے ساتھ کہتا ہے کہ میں نہ مانوں !۔۔۔۔ کیا سزا ہونی چاہئے ایسے لوگوں کی ، ایسے لاپرواہ متکبرین کی !

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

زمین و آسمان کی تخلیق کا تذکرہ، ان دونوں سے اللہ تعالیٰ کا خطاب، اور ان کا فرمانبرداری والا جواب ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے توحید کی دعوت دی ہے اور شرک کی شناعت اور قباحت بیان فرمائی نیز آسمان اور زمین کے پیدا فرمانے اور آسمان اور زمین سے متعلقہ امور بیان فرمائے۔ ارشاد فرمایا کیا تم اس ذات پاک کی توحید کا انکار کرتے ہو جس نے زمین کو دو دن میں پیدا فرما دیا اتنی بڑی زمین کا وجود سمجھدار عقلمند انسان کے لیے یہ یقین دلانے کے لیے کافی ہے کہ اس کا پیدا فرمانے والا وحدہ لا شریک ہے اس کی توحید کے قائل ہونے کی بجائے تم نے یہ کر رکھا ہے کہ اس کے لیے شریک ٹھہرا دئیے جنہیں تم اس کے برابر سمجھتے ہو انہوں نے کچھ بھی پیدا نہیں کیا اور وہ خود پیدا فرمانے والے کے پیدا کرنے سے وجود میں آئے ہیں وہ اپنے خالق کا برابر اور ہمسر اور شریک اور مقابل کیسے ہوسکتا ہے جس نے اس کو پیدا کیا ہے جس ذات پاک نے زمین کو پیدا فرمایا ہے وہ سارے جہانوں کا مالک ہے اور پروردگار ہے تم اور تمہارے باطل معبود اسی خالق جل مجدہٗ کی مخلوق اور مملوک ہیں۔ خالق کائنات جل مجدہ نے صرف زمین ہی کو پیدا نہیں فرمایا زمین میں طرح طرح کی چیزیں پیدا فرمائیں دیکھو اس نے زمین کے اوپر بوجھل اور بھاری پہاڑ پیدا فرما دئیے اور زمین میں برکت رکھ دی۔ صاحب روح المعانی ارشاد فرماتے ہیں : (قدر سبحانہ ان یکثر خیرھا بان یکثر فیھا النباتات و انواع الحیوانات التی من جمل تھا الانسان) (یعنی اللہ تعالیٰ نے زمین میں خیر و برکت رکھ دی اور وہ اس طرح سے کہ اس میں طرح طرح کے نباتات اور حیوانات پیدا فرما دئیے جاندار چیزوں میں انسان بھی ہے۔ زمین میں غذائیں بھی رکھ دیں جو انسان اور حیوانوں کے کام آتی ہیں یہ غذائیں زمین سے نکلتی ہیں نیز اللہ تعالیٰ نے طرح طرح کے پھل میوے سبزیاں اور دیگر کھانے کی چیزیں پیدا فرمائیں اور پہلے سے تجویز فرما دیا کہ کتنی کتنی چیزیں پیدا ہوں گی اور کہاں کہاں کس کس علاقہ میں پائی جائیں گی اور کس کے حصہ میں کتنی خوراک آئے گی (فی روح المعانی بین کمی تھا واقدارھا وقال فی الارشاد ای حکم بالفعل بأن یوجد فیما سیأتی لاھلھا من الانواع المختلفۃ اقواتھا المناسبۃ لھا علی مقدار معین تقتضیہ الحکمۃ) (روح المعانی میں ہے کہ روزی کی مقدار و اندازہ واضح فرما دیا اور الارشاد میں ہے یعنی بالفعل حکم دے دیا کہ اہل زمین کے لیے مختلف انواع کی روزی جو ان کے مناسب ہوگی حکم کے مطابق معین مقدار میں موجود رہے گی۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

7:۔ ” قل ائنکم “ تا ” ذلک تقدیر العزیز العلیم “ یہ پہلی عقلی دلیل ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی متصرف اور مالک و مختار نہیں۔ حاصل دلیل یہ ہے کہ کیا تم اس قادر و مطلق کے ساتھ کفر کرتے اور غیروں کو اس کے شریک ٹھہراتے ہو جو یہ سب کام سرانجام دینے والا ہے اور جن کو تم اس کے سوا متصرف اور کارساز سمجھ کر پکارتے ہو وہ ان کاموں میں سے کوئی کام بھی نہیں کرسکتے۔ ” وتجعلون لہ اندادا “ یہ تکفرون بالذی الخ “ کی تفسیر ہے واؤ تفسیر یہ ہے اور دوسرے جملے کا پہلے جملے پر عطف تفسیری ہے کیونکہ مشرکین مکہ ذات باری تعالیٰ کے منکر نہیں تھے۔ جیسا کہ ” لیقولن اللہ “ سے ان کا اعتراف ظاہر ہے۔ ” ذلک رب العلمین “ یعنی جس طرح پیدا کرنے والا وہی ہے اسی طرح مربی اور پرورش کنندہ بھی وہی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(9) آپ ان سے کہئے کیا تم اس خدا کی توحید کا انکار کرتے ہو جس نے دو دن میں زمین کو پیدا کردیا تم دوسروں کو اس کا ہمسر ٹھہراتے ہو یہی اللہ تعالیٰ تمام جہانوں اور تمام عالموں کا پروردگار ہے۔ یعنی جس زمین پر تم آباد ہو اس کے باوجود وسعت کے صرف اتنے وقت میں پیدا کردیا جو دو دن کی مقدار ہے اور بلا کسی کی شرکت کے پیدا کردیا پھر بھی اس کی توحید کا انکار کرتے ہو اور دوسروں کو اس کا شریک ٹھہراتے ہو یہ اللہ تعالیٰ جس کے وصف بیان کئے گئے ہیں یہی تو رب العالمین ہے جس کا کوئی شریک نہیں ہے۔