Surat us Shooraa

Surah: 42

Verse: 30

سورة الشورى

وَ مَاۤ اَصَابَکُمۡ مِّنۡ مُّصِیۡبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتۡ اَیۡدِیۡکُمۡ وَ یَعۡفُوۡا عَنۡ کَثِیۡرٍ ﴿ؕ۳۰﴾

And whatever strikes you of disaster - it is for what your hands have earned; but He pardons much.

تمہیں جو کچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ ہے ، اور وہ تو بہت سی باتوں سے درگزر فرما دیتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ ... And whatever of misfortune befalls you, it is because of what your hands have earned. means, `whatever disasters happen to you, O mankind, are because of sins that you have committed in the past.' ... وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ And He pardons much. means, of sins; `He does not punish you for them, rather He forgives you.' وَلَوْ يُوَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُواْ مَا تَرَكَ عَلَى ظَهْرِهَا مِن دَابَّةٍ And if Allah were to punish men for that which they earned, He would not leave a moving creature on the surface of the earth. (35:45) According to a Sahih Hadith: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا يُصِيبُ الْمُوْمِنَ مِنْ نَصَبٍ وَلاَا وَصَبٍ وَلاَا هَمَ وَلاَا حَزَنٍ إِلاَّ كَفَّرَ اللهُ عَنْهُ بِهَا مِنْ خَطَايَاهُ حَتْى الشَّوْكَةِ يُشَاكُهَا By the One in Whose Hand is my soul, no believer is stricken with fatigue, exhaustion, worry or grief, but Allah will forgive him for some of his sins thereby -- even a thorn which pricks him. Imam Ahmad recorded that Mu`awiyah bin Abi Sufyan, may Allah be pleased with him, said, "I heard the Messenger of Allah say: مَا مِنْ شَيْءٍ يُصِيبُ الْمُوْمِنَ فِي جَسَدِهِ يُوْذِيهِ إِلاَّ كَفَّرَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ بِهِ مِنْ سَيِّيَاتِه No physical harm befalls a believer, but Allah will expiate for some of his sins because of it." Imam Ahmad also recorded that `A'ishah, may Allah be pleased with her, said, "The Messenger of Allah said: إِذَا كَثُرَتْ ذُنُوبُ الْعَبْدِ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ مَا يُكَفِّرُهَا ابْتَلَهُ اللهُ تَعَالَى بِالْحَزَنِ لِيُكَفِّرَهَا If a person commits many sins and has nothing that will expiate for them, Allah will test him with some grief that will expiate for them." وَمَا أَنتُم بِمُعْجِزِينَ فِي الاَْرْضِ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ مِن وَلِيٍّ وَلاَ نَصِيرٍ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

30۔ 1 بعض گناہوں کا کفارہ تو وہ مصائب بن جاتے ہیں، جو تمہیں گناہوں کی پاداش میں پہنچتے ہیں اور کچھ گناہ وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ یوں ہی معاف فرما دیتا ہے اور اللہ کی ذات بڑی کریم ہے، معاف کرنے کے بعد آخرت میں اس پر مؤاخذہ نہیں فرمائے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٥] مصائب کی قسمیں اور مختلف اسباب :۔ یہاں ایک عام اصول بیان کردیا گیا ہے کہ اکثر عذاب مثلاً قحط، وبائیں، زلزلے اور سیلاب وغیرہ لوگوں کے اپنے ہی شامت اعمال کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ ایسا ہی ایک قحط کا عذاب اہل مکہ پر بھی نازل ہوا تھا۔ جو سات سال تک مسلط رہا۔ بارشیں بھی بند ہوگئیں اور باہر سے غلہ آنا بھی بند ہوگیا تھا۔ اس عرصہ میں لوگوں کا یہ حال ہوگیا کہ جانوروں کے چمڑے اور ہڈیاں کھانے تک مجبور ہوگئے۔ شدت بھوک کی وجہ سے یہ حال ہو رہا تھا کہ آسمان کی طرف دیکھتے تو دھواں ہی دھواں نظر آتا تھا۔ اور یہ قحط کفار مکہ پر رسول اللہ کی دعا کی وجہ سے نازل ہوا تھا۔ آخر ابو سفیان نے آپ کے پاس آکر قرابت کا واسطہ دیا اور بارش کے لئے دعا کرنے کی درخواست کی تو آپ کی دعا سے یہ مصیبت دور ہوئی۔ گویا جب اکثر لوگوں کی بداعمالیوں کی وجہ سے عذاب آتا ہے توہ سب مخلوق کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ انسان کو اکثر بیماریاں غذا میں بد پرہیزی کی وجہ سے لاحق ہوتی ہیں اور دودھ پیتے بچوں کو ماں کی بدپرہیزی کی وجہ سے۔ تاہم اس اصول میں بھی چند مستثنیات موجود ہیں۔ مثلاً ایماندار بندوں پر جو تکلیفیں آتی ہیں وہ ان کی شامت اعمال کا نتیجہ نہیں بلکہ ان کے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ مومن کو اگر ایک کانٹا بھی چبھے تو وہ بھی کسی خطا کا کفارہ بن جاتا ہے۔ پھر مصیبتوں اور تکلیفوں کی ایک قسم وہ ہے جو اللہ کے پیغمبروں اور مخلص بندوں کو حق کے راستے میں پیش آتی ہیں۔ ان کے متعلق گناہوں کے کفارہ کا تصور ہی غلط ہے۔ ان کے ذریعہ تو اللہ تعالیٰ ان بزرگ ہستیوں کے درجات بلند کرتا ہے اور ایسے مصائب سب سے زیادہ اللہ کے نبیوں کو پھر درجہ بدرجہ دوسرے مخلص بندوں کو پیش آتے ہیں۔ [٤٦] یعنی اگر اللہ بندوں کے سب برے اعمال کے بدلے ان پر مصائب نازل کرتا تو وہ چند دن بھی جی نہ سکتے تھے۔ یہ تو اللہ کی رحمت ہے کہ وہ اکثر گناہوں پر مؤاخذہ ہی نہیں کرتا ورنہ یہ زمین بھی انسانوں سے بےآباد ہوجاتی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) وما اصابکم من نصیبہ فما کسبت ایدیکم :: اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور نشانیوں کا تذکرہ ہو رہا ہے اس سلسلے میں لوگوں کے بارش سے ناامید ہونے کے بعد بارش برسانے کا ذکر ہوا ہے۔ اس پر سوال ہوسکتا تھا ہ اللہ تعالیٰ اس قدر مہربان ہے تو وہ بارش روک کیوں دیتا ہے ؟ فرمایا، تم پر جو مصیبت بھی آتی ہے وہ تمہاری کمائی کا نتیجہ ہے۔ وہ گناہ بھی ہوسکتے ہیں اور اونچی شان والے حضرات پر اللہ تعالیٰ کے جس قدر انعامات ہیں ان کا حق ادا کرنے میں کسی طرح کی کمی تھی۔ اس لئے پیغمبر بھی اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے ہیں۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ::(واللہ انی لاستغفر اللہ واتوب الیہ فی الیوم اکثر من سبعین مرۃ) (بخاری، الدعوات، باب استغفار النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فی ال یوم واللیلۃ :6308)” اللہ کی قسم ! میں دن میں ستر (٧٠) بارے زیادہ اللہ سے استغفار اور اس کی طرف توبہ کرتا ہوں۔ “ انسان پر آنے والی ان مصیبتوں کا انجام مومن و کافر کے حق میں ایک جیسا نہیں ہوتا، بلکہ وہ کافر کے لئے عذاب ہوتی ہیں، جیسا کہ فرمایا :(ولنذیفنھم من العذاب الادنی دون العذاب الاکبر لعلھم یرجعون) (السجدۃ : ٢١)” اور یقیناً ہم انہیں قریب ترین عذاب کا کچھ حصہ سب سے بڑے عذاب سے پہلے ضرور چکھائیں گے، تاکہ وہ پلٹ آئیں۔ “ اور مومن کے ل ئے گناہوں کی معافی، اجر اور درجات کی بلندی کا باعث بنتی ہیں۔ ابو سعید خدری اور ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(مایصیب المسلم من نصب، ولا وصب ولا ھم ، ولا حزن، ولا ادی، ولا عم ، حتی الشوکۃ یشاکھا، الا کفر اللہ بھما من خطاباہ) (بخاری، المضری، باب ما جاء فی کفارۃ المرض :05631، 5636)” مومن کو جو بھی دکھ یا چوٹ یا فکر یا حزن یا تکلیف یا غم پہنچتا ہے ، حتی کہ کانٹا بھی جو اسے لگتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے اس کے کچھ گناہ دور فرما دیتا ہے۔ “ یہاں ایک مشہور سوال ہے کہ بچے اور دیوانے پر آنے والی مصیبتیں بھی کیا ان کے اعمال کا نتیجہ ہیں ؟ جواب یہ ہے کہ آیت میں خطاب ان لوگوں سے ہے جو مکلف ہیں، بچے اور دیوانے مکلف ہی نہیں، نہ ان پر آنے والی مصیبتیں ان کے گناہوں کی وجہ سے آتی ہیں، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کے تحت آتی ہیں، جسے وہی بہتر جانتا ہے۔ بیماری اور مصیبت کے اجر اور درجات کی بلندی کا باعث بننے کی دلیل قرآن مجید کی آیات، مثلاً سورة توبہ کی آیت (١٢٠) کے علاوہ بہت سی احادیث بھی ہیں۔ عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں، میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بخار میں تپ رہے تھے۔ میں نے کہا :” یا رسول اللہ ! آپ کو بہت سخت بخار ہوتا ہے۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(اجل، انی اوعک کما یوعک رجلان منکم ، قلت ذلک بان لک اجرین ؟ قال اجل ذلک کذلک ، مامن مسلم بصییہ اذی، شوکۃ فما فوقھا الا کفر اللہ بھا سیاتہ، کما تحط الشجرۃ ورقھا) (بخاری، المضریٰ ، باب اشد الناس، بلاء الانبیاء ثم الامثل فالا مثل :5678)” ہاں، مجھے اتنا بخار ہوتا ہے جتنا تم میں سے دو آدمیوں کو ہوتا ہے۔ “ میں نے کہا :” یہ اس لئے کہ آپ کو دو اجر ملتے ہیں ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” ہاں ! یہی بات ہے، جس مسلم کو بھی کوئی تکلیف پہنچے، کاٹنا ہو یا اس سے اوپر، اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ اس کی برائیاں گرا دیتا ہے جیسے درخت اپنے پتے گرا دیتا ہے۔ “ (٢) ویعفوا عن کثیر : اس کی تفسیر کے لئے دیکھیے سورة نحل (٦١) اور سورة فاطر (٤٥) کی تفسیر۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ‌ (And whatever hardship befalls you is because of what your own hands have committed, while He overlooks many [ of your faults ].... 42:30) means exactly the same. Sayyidna Hasan (رض) has narrated that when this verse was revealed, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said |"I swear by the Being Who holds my life, that anyone who gets scratched by a piece of wood, or his nerve shivers or his step falters is all due to his sins, and Allah Ta’ ala does not punish for every sin, rather the number of sins He overlooks far exceeds those for which any punishment is given.|" Maulana Ashraf Ali Thanavi (رح) has stated that just as the physical hardships and tortures befall due to sins, the inner ailments are also caused by sins. One sin committed by a person becomes the cause for getting involved in other sins. Hafiz Ibn Qayyim has written in his book Ad-Dawa-&ush- Shafi that one prompt punishment of a sin is that one gets involved in other sins; similarly the prompt reward of a virtuous deed is that it attracts another virtue. Baidawi and others have stated that this verse is specifically meant for those people who are likely to commit sins. The hardships and the troubles that befall prophets who are innocent of sins, children who have not reached the age of puberty and mad persons, who do not commit any sin, are not covered by this verse. There are other reasons for them, for example, they are upgraded in their rewards. And in reality a man cannot fathom the depths of wisdom behind them. (Allah knows best). It is proved from some narrations of Hadith, as reproduced by Hakim in Mustadrak and by Baghawi on the authority of Sayyidna ` Ali (رض) that those sins for which punishment is given in this world are forgiven for Muslims in the Hereafter. (Mazhari)

(آیت) وَمَآ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ ۔ کا یہی مطلب ہے۔ حضرت حسن سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی کہ جس کے قبضہ میں میری جان ہے، جس شخص کو کسی لکڑی سے کوئی خراش لگتی ہے، یا کوئی رگ دھڑکتی ہے یا قدم کو لغزش ہوتی ہے، یہ سب اس کے گناہوں کے سبب سے ہوتا ہے اور ہر گناہ کی سزا اللہ تعالیٰ نہیں دیتے بلکہ جو گناہ اللہ تعالیٰ معاف کردیتے ہیں وہ ان سے بہت زیادہ ہیں جن پر کوئی سزا دی جاتی ہے۔ حضرت اشرف المشائخ نے فرمایا کہ جس طرح جسمانی اذیتیں اور تکلیفیں گناہوں کے سبب آتی ہیں اسی طرح باطنی امراض بھی کسی گناہ کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ آدمی سے کوئی ایک گناہ سرزد ہوگیا تو وہ سبب بن جاتا ہے دوسرے گناہوں میں مبتلا ہونے کا، جیسا کہ حافظ ابن قیم نے الدواء الشافی میں لکھا ہے کہ گناہ کی ایک نقد سزا یہ ہوتی ہے کہ اس کے ساتھ دوسرے گناہوں میں مبتلا ہوجاتا ہے، اسی طرح نیکی کی ایک نقد جزاء یہ ہے کہ ایک نیکی دوسری نیکی کو کھینچ لاتی ہے۔ بیضاوی نے فرمایا کہ یہ آیت ان لوگوں کے لئے مخصوص ہے جن سے گناہ سرزد ہو سکتے ہیں۔ انبیاء (علیہم السلام) جو گناہوں سے معصوم ہیں یا نابالغ بچے اور مجنون جن سے کوئی گناہ نہیں ہوتا، ان کو جو تکلیف و مصیبت پہنچتی ہے وہ اس حکم میں داخل نہیں۔ اس کے دوسرے اسباب اور حکمتیں ہوتی ہیں۔ مثلاً رفع درجات اور درحقیقت ان کی حکمتوں کا احاطہ انسان نہیں کرسکتا۔ واللہ اعلم۔ فائدہ : بعض روایات حدیث سے ثابت ہے کہ جن گناہوں پر کوئی سزا دنیا میں دے دی جاتی ہے مومن کے لئے اس سے آخرت میں معافی ہوجاتی ہے۔ جیسا کہ حاکم نے مستدرک میں اور بغوی نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مرفوعاً نقل کیا ہے۔ (مظہری)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَآ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيْبَۃٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ۝ ٣٠ ۭ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» . الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ ( صاب) مُصِيبَةُ والمُصِيبَةُ أصلها في الرّمية، ثم اختصّت بالنّائبة نحو : أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران/ 165] ، فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌالنساء/ 62] ، وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 166] ، وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری/ 30] ، وأصاب : جاء في الخیر والشّرّ. قال تعالی:إِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ [ التوبة/ 50] ، وَلَئِنْ أَصابَكُمْ فَضْلٌ مِنَ اللَّهِ [ النساء/ 73] ، فَيُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشاءُ وَيَصْرِفُهُ عَنْ مَنْ يَشاءُ [ النور/ 43] ، فَإِذا أَصابَ بِهِ مَنْ يَشاءُ مِنْ عِبادِهِ [ الروم/ 48] ، قال : الإِصَابَةُ في الخیر اعتبارا بالصَّوْبِ ، أي : بالمطر، وفي الشّرّ اعتبارا بِإِصَابَةِ السّهمِ ، وکلاهما يرجعان إلى أصل . مصیبۃ اصل میں تو اس تیر کو کہتے ہیں جو ٹھیک نشانہ پر جا کر بیٹھ جائے اس کے بعد عرف میں ہر حادثہ اور واقعہ کے ساتھ یہ لفظ مخصوص ہوگیا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران/ 165]( بھلا یہ ) کیا بات ہے کہ ) جب ( احد کے دن کفار کے ہاتھ سے ) تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ ( جنگ بدر میں ) اس سے دو چند مصیبت تمہارے ہاتھ سے انہیں پہنچ چکی تھی ۔ فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ [ النساء/ 62] تو کیسی ( ندامت کی بات ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے ۔ وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 166] اور جو مصیبت تم پر دونوں جماعتوں کے مابین مقابلہ کے دن واقع ہوئی ۔ وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری/ 30] اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے اعمال سے ۔ اور اصاب ( افعال ) کا لفظ خیرو شر دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ [ التوبة/ 50] اے پیغمبر اگر تم کو اصائش حاصل ہوتی ہے تو ان کی بری لگتی ہے اور اگر مشکل پڑتی ہے ۔ وَلَئِنْ أَصابَكُمْ فَضْلٌ مِنَ اللَّهِ [ النساء/ 73] ، اور اگر خدا تم پر فضل کرے فَيُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشاءُ وَيَصْرِفُهُ عَنْ مَنْ يَشاءُ [ النور/ 43] تو جس پر چاہتا ہے اس کو برسادیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے پھیر دیتا ہے ۔ فَإِذا أَصابَ بِهِمَنْ يَشاءُ مِنْ عِبادِهِ [ الروم/ 48] پھر جب وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اسے برسا دیتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ جباصاب کا لفظ خیر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے تو یہ صوب بمعنی بارش سے مشتق ہوتا ہے اور جب برے معنی میں آتا ہے تو یہ معنی اصاب السمھم کے محاورہ سے ماخوز ہوتے ہیں مگر ان دونوں معانی کی اصل ایک ہی ہے ۔ كسب ( عمل رزق) الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی: أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] ، وقوله : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] ( ک س ب ) الکسب ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔ يد الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] ، ( ی د ی ) الید کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ عفو العَفْوُ : القصد لتناول الشیء، يقال : عَفَاه واعتفاه، أي : قصده متناولا ما عنده، وعَفَتِ الرّيحُ الدّار : قصدتها متناولة آثارها، وبهذا النّظر قال الشاعر : 323- أخذ البلی أبلادها «1» وعَفَتِ الدّار : كأنها قصدت هي البلی، وعَفَا النبت والشجر : قصد تناول الزیادة، کقولک : أخذ النبت في الزّيادة، وعَفَوْتُ عنه : قصدت إزالة ذنبه صارفا عنه، فالمفعول في الحقیقة متروک، و «عن» متعلّق بمضمر، فالعَفْوُ : هو التّجافي عن الذّنب . قال تعالی: فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری/ 40] ، وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة/ 237] ، ثُمَّ عَفَوْنا عَنْكُمْ [ البقرة/ 52] ، إِنْ نَعْفُ عَنْ طائِفَةٍ مِنْكُمْ [ التوبة/ 66] ، فَاعْفُ عَنْهُمْ [ آل عمران/ 159] ، وقوله : خُذِ الْعَفْوَ [ الأعراف/ 199] ، أي : ما يسهل قصده وتناوله، وقیل معناه : تعاط العفو عن الناس، وقوله : وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ [ البقرة/ 219] ، أي : ما يسهل إنفاقه . وقولهم : أعطی عفوا، فعفوا مصدر في موضع الحال، أي : أعطی وحاله حال العافي، أي : القاصد للتّناول إشارة إلى المعنی الذي عدّ بدیعا، وهو قول الشاعر : 324- كأنّك تعطيه الذي أنت سائله «2» وقولهم في الدّعاء : «أسألک العفو والعافية» «3» أي : ترک العقوبة والسّلامة، وقال في وصفه تعالی: إِنَّ اللَّهَ كانَ عَفُوًّا غَفُوراً [ النساء/ 43] ، وقوله : «وما أكلت العافية فصدقة» «4» أي : طلّاب الرّزق من طير ووحش وإنسان، وأعفیت کذا، أي : تركته يعفو ويكثر، ومنه قيل : «أعفوا اللّحى» «5» والعَفَاء : ما کثر من الوبر والرّيش، والعافي : ما يردّه مستعیر القدر من المرق في قدره . ( ع ف و ) العفو کے معنی کسی چیز کو لینے کا قصد کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ عفاہ واعتقادہ کسی کے پاس جو کچھ ہے وہ لینے کا قصد کیا عفت الریح الدرا ہوانے گھر کے نشانات مٹادیتے اسی معنی کے لحاظ سے شاعر نے کہا ہے ۔ ( 315 ) اخز البلی ایا تھا پوسید گی نے اس کے نشانات مٹا ڈالے عفت الدار گھر کے نشانات مٹ گئے گویا ان اثارنے ازخود مٹ جانے کا قصد کیا عفا النبت والشجرنباتات اور درخت بڑھ گئے جیسا کہ آخذ النبت فی الذیادۃ کا محاورہ ہے یعنی پودے نے بڑھنا شروع کیا ۔ عفوت عنہ کے معنی ہیں میں نے اس سے درگزر کرتے ہوئے اس کا گناہ متادینے کا قصد کیا ز لہذا یہاں اصل میں اس کا مفعول ترک کردیا گیا ہے اور عن کا متعلق مخذوف ہی یا قصدت ازالتہ ذنبہ سار فا عنہ پس عفو کے معنی گناہ سے درگزر کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری/ 40] مگر جو درگزر کرے اور معاملہ کو درست کرلے وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة/ 237] اور اگر تم ہی اپنا حق چھوڑ دو تو یہ پرہیز گاری کی بات ہے ۔ ثُمَّ عَفَوْنا عَنْكُمْ [ البقرة/ 52] ، پھر اس کے بعد ہم نے تم کو معاف کردیا ۔ إِنْ نَعْفُ عَنْ طائِفَةٍ مِنْكُمْ [ التوبة/ 66] اگر ہم تم میں سے ایک جماعت کو معاف کردیں ۔ فَاعْفُ عَنْهُمْ [ آل عمران/ 159] تو ان کی خطائیں معاف کردو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ خُذِ الْعَفْوَ [ الأعراف/ 199]( اے محمد ) عفو اختیار کرو میں العفو ہر اس چیز کو کہا گیا جس کا قصد کرنا اور لینا آسان ہو ۔ اور بعض نے اس کے معنی کئے ہیں درگزر کیجئے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ [ البقرة/ 219] ( اے محمد ) لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ خدا کی راہ میں کس طرح کا مال خرچ کریں کہہ دو جو مال خرچ کرو ۔ میں عفو سے ہر وہ چیز مراد ہے جو ضروریات سے زائد ہو اور اس کے خرچ سے تکلیف نہ ہو اور اعطی عفوا اس نے اسے بےمانگے دے دیا یہاں عفوا مصدر اسم فاعل کے معنی میں ہے اور حال واقع ہوا ہے یعنی بخشش کرتے وقت اس کی حالت یہ تھی کہ گویا خود لے رہا ہے اور اس میں اس عمدہ معنی کی طرف اشارہ ہے جسے شاعر نے بیان کرتے ہوئے کہا ہے ( الطویل ) ( 316 ) کانک تعطیہ الذی انت سائلہ یعنی جب سائل اس کے پاس آتا ہے تو اس طرح خوش ہوتا ہے گویا جو چیز تم اس سے لے رہے ہو وہ اسے دے رہے ہو ۔ اور دعائے ماثورہ میں ہے ( 43 ) اسئلک العفو والعافیتہ یعنی اے اللہ تجھ سے عفو اور تندرستی طلب کرتا ہوں اور قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو عفو کہا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ اللَّهَ كانَ عَفُوًّا غَفُوراً [ النساء/ 43] بیشک خدا معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے ۔ اور حدیث میں ہے ( 44 ) مااکلکت العافیتہ فھو صدقتہ یعنی کھیتی سے جو کچھ پرندہ چرندا اور ضرورت مند انسان کھا جائیں وہ وہ صدقہ ہے ،۔ اعفیت کذا یعنی میں نے اسے بڑھنے دیا اسی سے اعفوا الحیي ہے ( 45 ) یعنی ڈاڑھی کے بال بڑھنے دو ۔ العفاء اون یا پرند کے پر جو بڑھ جائیں اور کسی سے دیگ مستعار لینے والا جو شوربہ اس کی دیگ میں اسے بھیجتا ہے اس شوربہ کو المعافی کہا جاتا ہے ۔ كثر الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] ( ک ث ر ) کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

یعنی تمہیں جو بھی کچھ مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے ہی خود کے اعمال سے ہی پہنچتی ہے اور وہ تمہارے بہت سے گناہوں کو معاف کردیتا ہے کہ ان پر وہ تم سے کچھ باز پرس نہیں کرتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٠ { وَمَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ } ” اور تم پر جو بھی مصیبت آتی ہے وہ درحقیقت تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی (اعمال) کے سبب آتی ہے اور (تمہاری خطائوں میں سے) اکثر کو تو وہ معاف بھی کرتا رہتا ہے۔ “ اللہ تعالیٰ انسانوں کے ساتھ عمومی طور پر عفو و درگزر کا معاملہ فرماتا ہے اور ہر کسی کو ہر غلطی پر نہیں پکڑتا۔ البتہ بعض اوقات بعض نا فرمانیوں کی سزا وہ متعلقہ افراد کو دنیا ہی میں دے دیتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

52. One should note that here the cause of all human afflictions is not being stated but the address is directed to the people who were at that time committing disbelief and disobedience at Makkah. They are being told: Had Allah seized you for all your sins and crimes, He would not have even allowed you to live. But the calamities (probably the allusion is to the famine of Makkah) that have descended on you, are only a warning so that you may take heed and examine your actions and deeds to see as to what attitude and conduct you have adopted as against your Lord. And you can try to understand how helpless you actually are against God against Whom you are rebelling, and know that those whom you have taken as your patrons and supporters, or the powers that you have relied upon, cannot avail you anything against the punishment of Allah. For further explanation it is necessary to state that as regards to the sincere believer, Allah’s law for him is different. All the calamities and hardships that befall him go on becoming an atonement for his sins, errors and deficiencies. There is an authentic Hadith to the effect: Whatever sorrow and suffering, distress and grief, and affliction and worry that a Muslim experiences, even if it be a thorn prick, it is made an atonement by Allah for one or the other of his errors. (Bukhari, Muslim). As for the hardships that a believer faces in the way of raising Allah’s Word, they do not merely become an atonement for his deficiencies but also a means of the exaltation of ranks with Allah. In this connection, it cannot even be imagined that they descend as a punishment for sins.

سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :52 واضح رہے کہ یہاں تمام انسانی مصائب کی وجہ بیان نہیں کی جا رہی ہے ، بلکہ روئے سخن ان لوگوں کی طرف ہے جو اس وقت مکہ معظمہ میں کفر و نافرمانی کا ارتکاب کر رہے تھے ۔ ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ اگر اللہ تمہارے سارے قصوروں پر گرفت کرتا تو تمہیں جیتا ہی نہ چھوڑتا ، لیکن یہ مصائب جو تم پر نازل ہوئے ہیں ( غالباً اشارہ ہے مکہ کے قحط کی طرف ) یہ محض بطور تنبیہ ہیں تا کہ تم ہوش میں آؤ ، اور اپنے اعمال کا جائزہ لے کر دیکھو کہ اپنے رب کے مقابلے میں تم نے کیا روش اختیار کر رکھی ہے اور یہ سمجھنے کی کوشش کرو کہ جس خدا سے تم بغاوت کر رہے ہو اس کے مقابلے میں تم کتنے بے بس ہو ، اور یہ جانو کہ جنہیں تم اپنا ولی و کارساز بنائے بیٹھے ہو ، یا جن طاقتوں پر تم نے بھروسہ کر رکھا ہے ، وہ اللہ کی پکڑ سے بچانے میں تمہارے کسی کام نہیں آ سکتیں ۔ مزید توضیح کے لیے یہ بیان کر دینا بھی ضروری ہے کہ جہاں تک مومن مخلص کا تعلق ہے اس کے لیے اللہ کا قانون اس سے مختلف ہے ۔ اس پر جو تکلیفیں اور مصیبتیں بھی آتی ہیں وہ سب اس کے گناہوں اور خطاؤں اور کوتاہیوں کا کفارہ بنتی چلی جاتی ہیں ۔ حدیث صحیح میں ہے کہ : مَا یُصیبُ المُسلمَ مِنْ نَصَبٍ ولا وَصَبٍ ولا ھمٍّ ولا حزن ولا اذًی ولا غمٍّ حتی الشوکۃُ یُشاکھُا الا کفّر اللہ بھا من خطایاہ ۔ ( بخاری و مسلم ) مسلمان کو جو رنج اور دکھ اور فکر اور غم اور تکلیف اور پریشانی بھی پیش آتی ہے ، حتیٰ کہ ایک کانٹا بھی اگر اس کو چبھتا ہے تو اللہ اس کو اس کی کسی نہ کسی خطا کا کفارہ بنا دیتا ہے ۔ رہے وہ مصائب جو اللہ کی راہ میں اس کا کلمہ بلند کرنے کے لیے کوئی مومن برداشت کرتا ہے ، تو وہ محض کوتاہیوں کا کفارہ ہی نہیں ہوتے بلکہ اللہ کے ہاں ترقی درجات کا ذریعہ بھی بنتے ہیں ۔ ان کے بارے میں یہ تصور کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ وہ گناہوں کی سزا کے طور پر نازل ہوتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٠۔ بعض مفسروں نے لکھا ہے کہ یہ آیت خاص کافروں کی شان میں ہے اور معنی آیت کے ان مفسروں نے یہ بیان کئے گئے ہیں کہ کافروں کے کفر اور مشرکوں کے شرک سے فوراً جو عذاب الٰہی نہیں آتا بلکہ ایک وقت مقررہ پر ان کی شامت اعمال سے کوئی مصیبت آتی ہے اس کا سبب یہ ہے کہ اللہ ان لوگوں کے بہت سے برے کاموں کو درگزر فرما کر معاف فرما دیتا ہے لیکن یہ قول مرفوع تفسیر کے مخالف ہے کیونکہ مسند امام ٣ ؎ احمد مستدرک حاکم مسند اسحاق بن راہویہ مسند ابو یعلی موصلی وغیرہ میں حضرت علی (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت علی (رض) نے فرمایا مسلمانوں کے لئے قرآن شریف میں یہ آیت بڑی فضیلت کی آیت ہے کیونکہ میں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس آیت کی تفسیر یوں سنی ہے کہ مسلمانوں کو دنیا میں جو کچھ دکھ درد پہنچتا ہے وہ دنیا میں ہی ان کے گناہوں کا بدلہ ہوجاتا ہے اور بہت سے گناہ اللہ تعالیٰ یونہی بغیر بدلہ کے معاف فرما دیتا ہے اگرچہ حضرت علی (رض) کی روایت کی سند میں ایک راوی ازہر (رض) بن راشد ضعیف ہے۔ لیکن صحیح ١ ؎ بخاری و مسلم میں ابو سعید (رض) خدری اور ابوہریرہ (رض) سے جو روایتیں ہیں کہ ایماندار شخص کو ایک کانٹا چبھنے کی تکلیف ہو تو وہ بھی گناہوں کا کفارہ ہے ان روایتوں سے حضرت علی (رض) کی روایت کو تقویت ہوجاتی ہے غرض صحیح تفسیر آیت کی یہ ہے کہ آیت خاص کافروں کے حق میں نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے حق میں بھی یہ بڑی فضیلت کی آیت ہے مسند ٢ ؎ امام احمد میں حضرت عائشہ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مسلمان آدمی کے جب گناہ بہت ہوجاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان گناہوں کے کفارہ کے طور پر اس شخص کو کسی رنج میں مبتلا کردیتا ہے اس حدیث کی سند کے ایک راوی لیث بن ابی سلیم کو اگرچہ بعض علماء نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن ابن معین نے معتبر قرار دیا ہے صحیح بخاری ٣ ؎ میں حضرت عبد اللہ (رض) بن مسعود کی حدیث مشہور ہے جس کا حاصل یہ ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک دفعہ بخار تھا حضرت عبد اللہ (رض) بن مسعود نے عرض کیا کہ حضرت آپ کو بڑا سخت بخار آیا کرتا ہے آپ نے فرمایا کہ مجھ کو دو آدمیوں کے بخار کے برابر ہمیشہ بخار آتا کرتا ہے۔ حضرت عبد اللہ (رض) بن مسعود نے کہا کہ آپ کو یہ شدت بخار کی اس لئے ہوا کرتی ہے کہ اجر زیادہ ملے آپ نے فرمایا کہ ہاں ہر مسلمان کو جب کوئی مرض یا کوئی رنج یا غم دنیا میں ہوتا ہے تو اس کے گناہ اس طرح جھڑ جاتے ہیں جس طرح خزاں کے موسم میں درخت کے پتے جھڑتے ہیں۔ صحیح ٤ ؎ مسلم میں حضرت جابر (رض) کی حدیث ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بخار کو برا نہیں کہنا چاہئے انسان کے گناہ جھڑتے ہیں۔ حاصل مطلب یہ ہے کہ دنیا میں انسان کو جانی مالی جو کچھ مصیبت پہنچتی ہے وہ اس کے بعض گناہوں کے سبب سے ہوتی ہے کیونکہ بنی آدم کے بہت سے گناہ بغیر کسی مواخذہ کے اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے۔ سورة الفاطر میں گزر چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ بنی آدم کے ہر ایک گناہ پر مواخذہ کرے تو ساری دنیا ویران ہوجائے۔ سورة الفاطر کی آیت ولویو اخذ اللہ الناس بما کسبوا کو اس آیت کے ساتھ ملانے سے اگر گناہوں کے معاف ہوجانے اور بعض گناہوں پر مواخذہ کے طور پر مصیبت کے آنے کی حکمت اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے اور یہ بات بھی سمجھ میں آسکتی ہے کہ اس آخری زمانہ میں گناہوں کی کثرت ہے اس لئے طاعون وبا اور قحط کی بلا اکثر آتی ہے اگر لوگ پچھلے گناہوں سے توبہ کر کے آئندہ گناہوں سے باز آئیں گے تو ان بلاؤں سے امن میں رہنے کی پوری امید ہے۔ (٣ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ١١٦ ج ٤) (١ ؎ صحیح بخاری کتاب المرضی ص ٨٤٣ ج ٢۔ ) (٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ١١٦ ج ٤۔ ) (٣ ؎ صحیح بخاری باب شدۃ المرض ص ٨٤٣ ج ٢۔ ) (٤ ؎ صحیح مسلم باب ثواب المومن فیما یصیبہ من مرض الخ ص ٣١٩ ج ٢۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(42:30) وما اصابکم من مصیبۃ فیما کسبت ایدیکم : ما اسم موصول مبتداء اصابکم من مصیبۃ اس کا صلہ۔ جب مبتداء اسم موصول ہو اور اس صلہ جملہ فعلیہ ہو تو اس کی خبر پر اکثر ف لاتے ہیں کیونکہ اس (ما) کے اندر شرط کے معنی پائے جاتے ہیں اسی وجہ سے یہاں خبر پر ف استعمال ہوا ہے۔ اصابکم : اصاب ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب۔ کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر اصابۃ (افعال) مصدر۔ تم کو پہنچے۔ تم کو پہنچا۔ تم کو پیش آیا۔ من مصیبۃ جار مجرور۔ کوئی مصیبت۔ بما میں ب سببیہ ہے اور ما موصولہ ہے ۔ یہ سبب (اس گناہ کے) جو تمہارے ہاتھوں نے کیا۔ کسبت : ماضی کا صیغہ واحد مؤنث غائب۔ کسب (باب ضرب) مصدر۔ بمعنی گناہ اٹھانا کمانا۔ حاصل کرنا۔ ایدیکم مضاف مضاف الیہ۔ تمہارے ہاتھ۔ یعفوا عن کثیر یعفوا مضارع واحد مذکر غائب۔ عفو (باب نصر) مصدر وہ معاف کردیتا ہے۔ کثیر : ای کثیر من الذنوب۔ اکثر گناہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی تمہارے اپنے برے اعمال کا نتیجہ ہوتا ہے۔ 7 یہ اس کی رحیمی اور کریمی ہے۔ اگر وہ ہر قصور پر گرفت کرتا تو زمین پر کوئی جاندار باقی نہ رہتا۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : یہ خطاب عاقل بالغ لوگوں کو ہے گنار گاہ ہوں یا نیک، مگر بنی ( اس میں) نہیں داخل اور لڑکے ان کے واسطے اور کچھ ہوگا اور سختی دنیا کی بھی آگئی اور قبر کی اور آخرت کی “۔ بھی ( موضح) حضرت ابو موسیٰ ( علیہ السلام) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” بندے کو کوئی چھوٹی یا بڑی مصیبت نہیں پہنچتی مگر وہ اس کے گناہ کی بدولت ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے جو درگزر فرماتا ہے وہ اس سے زیادہ ہوتا ہے “۔ اور پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ (شوکانی بحوالہ ترمذی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٣٠ تا ٤٣۔ اسرار ومعارف۔ اور جو مصیبت بھی لوگوں پر آتی ہے وہ ان کے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے اگرچہ بہت سے گناہوں سے درگزر کی جاتی ہے تو اکثر مصائب گناہ کی سزا کے طور پر آتے ہیں اور مومن کے لیے گناہ سے توبہ اور گزشتہ کی بخشش کا سبب بن جاتے ہیں اسی طرح باطنی اور قلبی طور پر بھی ایک گناہ ہوجائے تو وہ دوسرے کا سبب بن جاتا ہے تاآنکہ اس سے توبہ نصیب ہو یہ عام قاعدہ ہے اور اگر اللہ کریم معاف نہ فرماتے اور درگزر کا معاملہ نہ فرماتے تو لوگ زمین میں بھاگ بھاگ کر یا کہیں چھپ چھپ کر اس کے عذاب سے نہیں بچ سکتے تھے اور نہ ہی انہیں کوئی ایسامدد کرنے والایادوست ہاتھ آتا جو انہیں بچاسکتا۔ اور اس کی عظمت کی دلیل ہے کہ انسان کو جہاز سازی کا شعور بخشا اور بڑے بڑے پہاڑوں جیسے جہاز سمندروں کے سینوں پر رواں ہیں اور اگر وہ چاہے تو موسم کو ان کے خلاف کردے اور ہواؤں کو روک دے تو وہ پھنس کر رہ جائیں ان سب امور میں ایسے لوگوں کے لیے جو ٹھنڈے دل سے سوچے ہیں اور احسان ماننے والے ہیں بہت دلائل ہیں کہ اللہ قادر ہے اگر وہ چاہے تو ان کے کفر اور کردار بد کے باعث انہیں تباہ وبرباد کردے مگر وہ بہت سی باتوں سے درگزر فرماتا ہے مگر اس کی آیات میں جھگڑا کرنے والے یہ ضرور جان لیں کہ اگر توبہ نہ کرسکے تو آخر وہ پکڑے جائیں گے اور کوئی بھاگنے کی جگہ نہ مل سکے گی۔ پھر بھی جو نعمتیں دنیا میں ملتی ہیں یہ محض وقتی اور عارضی ہیں کہ ہمیشہ تو دنیا کو رہنا نہیں دوسرے کتنے لوگ ہیں کہ دولت پاس ہے اور استعمال نہیں کرسکتے ہزاروں کھانے موجود مگر کھا نہیں سکتے اور اس کے مقابل جو اخروی نعمتیں ہیں ان سب سے بہتر بھی ہیں اور ہمیشہ رہنے والی بھی ، اپنی لذت وکیف میں بھی ان سے بہت ہی زیادہ بڑھ کر ہیں اور اسب کی سب استفادہ بھی کرے گا نیز کبھی ضائع نہیں ہوں گی جو صرف ان لوگوں کے لیے ہیں جنہیں ایمان نصیب ہوا کافر ہرگز نہ پاسکے گا جبکہ مومن کو نصیب ہوگی اگر ایمان وعمل دونوں میں ٹھیک ہواتوفورا اور اگر عمل میں کمی ہوئی تو بخشش پا گیا یا سزا کے بعد مگر ضرور پالے گا اور سیدھے سیدھے پالینے والے وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور پھر انہوں نے اپنے رب پر بھروسہ کیا کسی لالچ یارعب میں آکر اللہ کی نافرمانی نہ کی۔ اور وہ لوگ جو بڑے بڑے گناہوں سے بچتے ہیں اور فواحش سے فواحش وہ گناہ جو ڈھٹائی سے سرعام کیے جائیں اور کبائر سے بچنے کا معنی یہ ہیں کہ گناہ کا راستہ ہی اختیار نہ کیا جائے یہ نہیں کہ بڑے بڑے گناہوں سے بچے اور چھوٹے چھوٹے کرتا رہے بلکہ صغیرہ بھی مل کر کبیرہ ہی بن جاتے ہیں اور غصے سے مغلوب ہونے والے نہ ہوں بلکہ کسی پر غصہ آئے تو معافی کا معاملہ کرنے والے ہوں اور مغلوب ہوکر کسی سے زیادتی نہ کریں۔ اور ایسے لوگ جو اپنے رب کا حکم بےچون وچرا اور فورا قبول کرلیں اور اس پر عمل کرنے کے لیے کمربستہ ہوجائیں یعنی تمام فرائض کی ادائیگی اور مکروہات ومحرمات سے اجتناب کریں اور نماز کو قائم کریں کہ یہ ایسا فریضۃ ہے جس میں مومن اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوتا ہے تو اس حضوری سے حاصل ہونے والی کیفیت دوسرے گناہوں سے بچنے کا سبب بن جاتی ہے نیز ان کے کام آپس میں مشورہ سے ہوتے ہیں۔ شوری یامشورہ۔ جن امور میں کوئی طے شدہ ضابطہ یا شریعت کا حکم موجود نہ ہو ان میں باہم مشورہ سے فیصلہ کرتے ہیں اور کوئی راہ متعین کرتے ہیں اور اس میں امور مملکت اور حکومت بھی داخل ہیں کہ اسلام نے امیر کا انتخاب بھی باہمی مشورہ پر رکھا اور عہد جاہلیت کی موروثی بادشاہتوں کو ختم کردیا اور حقیقی جمہوریت کی بنیاد ڈالی جسے مغرب کی ملاوٹ شدہ اور نقلی جمہوریت نے لوگوں کے لیے عذاب بنادیا۔ اسلام میں اہل شوری بھی ضابطوں کے پابند ہیں اور ہر کوئی مشورہ دینے کا اہل نہیں بلکہ حدیث شریف میں وارد ہے کہ مشورہ کے لیے نیک اور عبادت گزار لوگوں کو جمع کرلو اور ان سے مشورہ لونیز فرمایا جو شخص کوئی کام کرنے کا ارادہ کرے اور اس میں مشورہ لے کر عمل کرے تو اللہ اس کو بہتر طریقے کی طرف ہدایت فرمائے گا نیز ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ جب تک تمہارے امر ا اور حکام بہتر لوگ ہوں اور امور مشورے سے طے پائیں اس وقت تک زمین کے اوپر رہنا تمہارے حق میں بہتر ہے اور جب امر اور حکام برے لوگ ہوجائیں مالدار ہوجائیں اور کام عورتوں کے سپر د ہوجائیں تو تمہارے لیے زمین کی پیٹھ کی بجائے زمین کا پیٹ بہتر ہے۔ اس سے مراد خود کشی نہیں بلکہ حالات کی اصلاح کے لیے جہاد اور شہادت ہے اور انہیں جو نعمت اللہ کریم کی طرف سے نصیب ہوتی ہے اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں دولت ہو یا علم یا کوئی ہنر یہ سب اس کی عطا ہے مال سے زکوۃ ادا کرتے ہیں نفلی صدقات وغیرہ اور خرچ بھی حدود شرعی کے اندر کرتے ہیں۔ اسی طرح ا کے علوم و مخلوق کی بہتری کے کام آتے ہیں اور اگر کوئی ان سے زیادتی کرتا ہے تو وہ اس کا بدلہ لیتے ہیں کہ زیادتی کرنے والے کو زیادتی کرنے سے روکا جاسکے۔ لیکن اس میں بھی حد سے تجاوز نہیں کرتے بلکہ جرم اور زیادتی کی سزا اتنی ہے جس قدر کسی نے زیادتی اور برائی کی ہو اور اس کے باوجود معاف کردے اور اس طرح اصلاح کی صورت پیدا ہواتو اللہ اسے بہت اجر دے گا کہ بیشک اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ معافی و درگزر۔ علماء کے مطابق جہاں درگزر کرنے سے اصلاح کی امید ہو تو وہاں درگزر کرنا بہت اعلی کام ہے مگر جہاں کسی فتنہ گر کے اور برائی میں بڑھ جانے کا اندیشہ ہو وہاں انتقام لیاجائے گا۔ اور جس کے ساتھ زیادتی ہو اور وہ اس زیادتی کا بدلہ لے لے یا انتقام لے تو اس پر کوئی الزام نہیں آئے گا الزام تو ان پر ہے جو دوسروں پر ظلم و زیادتی کرتے ہیں اگر بدلہ لینے میں بھی زیادتی کرے تو مجرم ہوگایاناحق فساد بپا کرنے کا باعث بنتے ہیں ایسے لوگوں کے لیے بڑی دردناک سزائیں ہیں لیکن جس شخص کو صبر نصیب ہو اور درگزر سے کام لے تو یہ بہت ہی بڑا کام ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 30 تا 43 : اصاب (پہنچا) کسبت (اس نے کمایا) معجزین ( عاجز ، بےبس کرنے والے) الجوار ( جاری) چلنے والے) الاعلام ( علم) پہاڑ ، اونچی چیز) یسکن ( وہ ٹھہراتا ہے) رواکدا ( راکد) (ٹھہرنے والے) ظھر ( پیٹھ) صبار ( بہت صبر کرنے والا) یوبق ( وہ تباہ کرتا ہے) محیص (چھٹکارا پانے کی جگہ) یجتنبوا ( وہ بچتے ہیں ، پرہیز کرتے ہیں) کبائر الاثم ( بڑے بڑے گناہ) شوریٰ (مشورہ کرنے کا راستہ سمجھانا) ینتصرون (وہ روکتے ہیں) انتصر (اس نے بدلہ لیا ، انتقام لیا) عزم الامور (بڑی بات ، بڑا کام) تشریح : آیت نمبر 30 تا 43 : دیکھا یہ گیا ہے کہ دنیا میں انسان جیسا عمل کرتا ہے اس کا اچھا یا برا نتیجہ ضرور نکلتا ہے۔ ہمیں جو بھی مشکل پریشانی یا مصیبت پہنچتی ہے اس کے پیچھے یا تو نیت کی خرابی ، کوتاہی ، غفلت ، گناہ اور بےعملی ہوتی ہے یا دین اسلام کی سربلندی ، اس کے فروغ کی جدوجہد اور پر خلوص ایثارکا جذبہ ہوتا ہے ۔ اگر ایمان ، عمل صالح ، تقویٰ ، پرہیز گاری اور دیانت و امانت کی وجہ سے مشکلات پیش آتی ہیں تو وہ ایک مومن کے گناہوں کا کفار ہ ، درجات اور آخرت کی کامیابی کا سبب بن جاتی ہیں لیکن اگر محض دنیاوی لالچ ، خود غرضی ، دنیاپسندی اور گناہوں کی وجہ سے مصائب آتے ہیں تو یہ ان کے اعمال کی سزا ہوتی ہے۔ کبھی تو اس کی سزا دنیا میں مل جاتی ہے لیکن آخرت میں تو یقینی سزا ہے۔ حضرت حسن بصری (رض) سے روایت ہے کہ جب مذکورہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جس شخص کو کوئی لکڑی کی خراش لگتی ہے یا اس کی رگ پھڑکتی ہے یا اس کے قدموں میں لغزش پیدا ہوتی ہے تو یہ سب اس کے گناہوں کی وجہ سے ہوتا ہے ( یہ اللہ کا فضل و کرم ہے کہ) وہ ہر گناہ پر اسی وقت سزا نہیں دیتا بلکہ جو گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں وہ ان سے بہت زیادہ ہوتے ہیں جن پر سزا دی جاتی ہے۔ ہمارا دین ہمیں عمل ، حسن عمل اور جدوجہد سے نہیں روکتا بلکہ اس بات کو ذہنوں میں بٹھانا چاہتا ہے کہ اس دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے اس کے لئے اللہ نے ایسے قوانین مرتب کردیئے ہیں جن کو اپنانے سے کبھی کامیابی ملتی ہے اور کبھی سخت ناکامی مثلاً آدمی رزق تلاش کرنے کے لئے سمندر کے سینے کو چاک کرتا ہوا اس میں جہاز اور کشتیاں چلاتا ہے ، سڑکوں پر دوڑتا اور ہواؤں کے دوش پر اڑا پھرتا ہے۔ یہ سب کچھ اس لئے ممکن ہوا ہے کہ اللہ نے قوانین فطرت کو اس کے لئے مسخر کردیا ہے اور فضاؤں کو ہواؤں کو اس کا تابع بنا دیا ہے ۔ اگر اللہ چاہتا تو ان ہواؤں اور فضاؤں کو روک دیتا جس سے آدمی کی ساری کوششیں اور بھاگ دوڑ دھری کی دھری رہ جاتیں اور وہ دو قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتا ۔ یہ پورا نظام کائنات اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے وہ جب اور جیسے چاہتا ہے اپنے نظام کو چلاتا ہے۔ اس دنیا میں بسنے والوں کو کبھی راحت و آرام ملتا ہے کبھی تکلیفیں اور مشکلات ، کبھی صحت و تندرستی اور کبھی بیماری آزادی ، کبھی خوش حالی اور کبھی بد حالی اور فقر و فاقہ ۔ پوری جدوجہد اور کوششوں کے باوجود کبھی کبھی نتیجہ بالکل الٹا نکلتا ہے کیونکہ ہر چیز کا نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ کے نزدیک پسندیدہ اور بہتر لوگ وہ ہیں جو ہر حال میں صبر و شکر کا دامن تھامے رہتے ہیں ۔ انہیں اس بات پر پورا یقین و اطمینان ہوتا ہے کہ بیشک جدوجہد اور کوشش کرنا آدمی کا کام ہے لیکن اس کا بہتر یا بدتر نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ انہیں اس بات کا بھی یقین ہوتا ہے کہ دنیا کی یہ زندگی اور اس کے اسباب محض وقتی ، عارضی اور زندگی گزارنے کا ذریعہ ہیں لیکن اصل زندگی اور کامیابی آخرت کی زندگی ہے۔ یہی وہ حقیقی جذبہ ہے جس سے اس کو سکون وقلب کی دولت نصیب ہوتی و ہے اور اس انقلابی فکر سے اس کو صاف ستھری نکری ہوئی شخصیت ابھر کر دنیا کے سامنے آتی ہے۔ تکبر ، غرور ، ظلم ، سرکشی ، ضد اور ہٹ دھرمی کی بجائے اس میں تواضع ، انکساری اور عاجزی پیدا ہوتی ہے۔ وہ زندگی کے اجتماعی معاملات میں دوسروں کے مشوروں سے فائدے حاصل کرتا ہے اور وہ اپنی رائے اور شخصیت کے رعب کو دوسروں پر ٹھونسنے کے بجائے لوگوں سے بہتر سلوک کو رواج دیتا ہے ۔ وہ دوسروں کے حقوق چھیننے کے بجائے دوسروں کے حقوق کا محافظ بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک چونکہ اس طرح کے لوگ پسندیدہ شخصیات ہیں اس لئے ان کی چند خصوصیات بتائی گئی ہیں مثلاً (1) وہ اللہ سے اپنی امیدوں کے پورا ہونے کی توقع کر کے صرف اس کی ذات پر مکمل بھروسہ ، اعتماد اور توکل اختیار کرتے ہیں ۔ ان کے نزدیک ترقی ، عزت اور سر بلندی دینے والا اللہ ہوتا ہے اور وہی ان کی مشکل کشائی کرتا ہے۔ (2) وہ صغیرہ ، کبیرہ ، ظاہری اور پوشیدہ ہر طرح کے گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں اور کسی بےحیائی اور گناہ کے کاموں کے قریب جانے سے گھبراتے ہیں۔ (3) جب ان کو کسی بات پر غصہ اور طیش آجاتا ہے تو اپنے اوپر قابو رکھتے ہوئے اور اس کا بدلہ لینے کی طاقت رکھنے کے باوجود وہ انتقام نہیں لیتے بلکہ اپنی عالی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسروں کی خطاؤں کو معاف کردیتے ہیں۔ (4) انہیں جب بھی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے کوئی حکم پہنچتا ہے وہ ان کے مزاج اور حالات کے مطابق ہو یا نہ ہو تو وہ اس کے کرنے میں بےتابا نہ آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں وہ حکم کی تعمیل میں کسی سستی ، کاہلی یا بےعملی کو قریب نہیں آنے دیتے۔ (5) وہ ” قیام صلوٰۃ “ کا حق ادا کرنے کے لئے نمازوں کے فرائض ، واجبات ، سنتوں اور مستحب باتوں کا پورا اہتمام کرتے ہیں۔ (6) آپس کے اجتماعی معاملات میں وہ ہمیشہ ” باہمی مشورہ “ کرنا ضروری سمجھتے ہیں اور مشورہ کے بعد جو بھی فیصلہ ہوجائے خواہ ان کی رائے کے بر خلاف ہی کیوں نہ ہو تو وہ اس پر عمل کرنے کے لئے تن ، من اور دھن سے پر خلوص جدوجہد کرتے ہیں ۔ ’ ’ مشاورت “ دراصل اسلامی طرز زندگی کا ایک اہم ستون ہے جس کے احادیث میں بہت فضائل آئے ہیں اور جب تک اہل ایمان نے باہمی مشورے کا طریقہ اختیار کیا اس وقت تک وہ زندگی کے ہر میدان میں آگے بڑھتے چلے گئے اور کامیابیاں ان کے قدم چومتی رہیں لیکن جب ہم نے اس طرز زندگی کو چھوڑ دیا تو ہم میں سے ہر شخص اپنی رائے کو اجتماعی مفادات سے زیادہ بلند سمجھنے کی غلطی میں مبتلا ہوگیا اور ملت کا شیرازہ بکھر گیا اور زندگی کے معاملات کا فیصلہ ان لوگوں کے ہاتھوں میں چلا گیا جن کی زندگیاں نیکی اور تقویٰ سے خالی ہوتی ہیں۔ حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بعض مرتبہ ایسے معاملات اور امور پیش آجاتے ہیں کہ ان کا کوئی حکم قرآن کریم میں نہیں ہوتا ( اس وقت ہم کیا کریں) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب کوئی ایسا واقعہ پیش آجائے تو میری امت میں سے عبادت گزار بندوں کو جمع کر کے مشورہ کرلینا اور اس پر عمل کرنا ۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے بھی ایک ایسی ہی روایت ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم اہل عقل سے مشورہ کرلیا کرو تم راہ پا جائو گے اور مشورے سے جو بات طے پا جائے اس کی مخالفت نہ کرو ورنہ ندامت و شرمندگی اٹھائو گے۔ (7) وہ اللہ کے دیئے ہوئے رزق میں سے نیک اور بھلے کاموں میں اپنا مال خرچ کر کے دلی اور روحانی سکون حاصل کرتے ہیں۔ (8) وہ لوگ اچھے یا برے حالات میں صبر و شکر کا دامن تھامے رہتے ہیں اور کسی موقع پر بےصبری اور نا شکری کے بجائے بڑے عزم و حوصلے اور جواں مردی کا اظہار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین اسلام کے ان سچے اصولوں پر عمل کر کے دنیا اور آخرت کی کامیابیاں حاصل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ خواہ دونوں جہان میں یا صرف دنیا میں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ صرف قیامت کے دن لوگوں کو جمع کرنے پر قادر نہیں بلکہ وہ دنیا میں بھی لوگوں پر ہر قسم کا اختیار رکھتا ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے اسکی کوتاہی پر پکڑ لیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اس سے درگزر کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے اپنی مخلوق پر قادر ہے۔ یہ اس کی قدرت کی نشانی اور اختیار ہے کہ جسے چاہے اس کے گناہوں کی پاداش میں پکڑ لے اور جسے چاہے معاف کردے۔ اکثر انسانوں میں ہمیشہ سے یہ کوتاہی اور کمزوری رہی ہے کہ وہ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے کی بجائے اپنے گناہوں، پر اصرار اور ان کا جواز تلاش کرتے ہیں۔ بسا اوقات خدا کے باغی یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں یہ تو لیل ونہار کی گردش اور حالات کے تغیر وتبدل کا نتیجہ ہے گویا ان کے نزدیک ایسا ہوا ہی کرتا ہے۔ (وَقَالُوا مَا ھِیَ إلاّ حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَنَحْیَا وَمَا یُھْلِکُنَا إلاّ الدَّھْرُ وَمَا لَھُمْ بِذَلِکَ مِنْ عِلْمٍ إنْ ھُمْ إلاّیَظُنُّوْنَ ) [ الجاثیۃ : ٢٤] ” وہ کہتے ہیں ہماری اس زندگی کے علاوہ کوئی دوسری زندگی نہیں ہمیں یہیں زندہ رہنا اور مرنا ہے، اور ہماری ہلاکت گردش زما نہ کی وجہ سے ہے۔ حالانکہ انہیں اس حقیقت کا کوئی علم نہیں، یہ محض ان کے خیالات ہیں۔ “ ایسے انسان بھی ہر دور میں موجود رہے ہیں جو اپنے احوال کی درستگی کے برعکس اس کی ذمہ داری ان لوگوں پر ڈالتے رہے ہیں جو حالات کو بدلنے اور ان کو برے اعمال چھوڑنے کی تلقین کرتے ہیں۔ (قَالُوْا إنَّا تَطَیَّرْنَا بِکُمْ لَءِنْ لَّمْ تَنْتَھُوْا لَنَرْجُمَنَّکُمْ وَلَیَمَسَّنَّکُمْ مِّنَّا عَذَابٌ ألِیْمٌ) [ یٰس : ١٨] ” وہ مصلحین کو کہنے لگے کہ ہم تمہیں اپنے لیے منحوس خیال کرتے ہیں، اگر تم باز نہ آئے تو ہم تمہیں ضرور سنگسار کردیں گے اور تمہیں ہماری طرف سے درد ناک سزا کا سامنا کرنا ہوگا۔ “ ان کا کہنا تھا کہ یہ مشکلات و مصائب ہماری وجہ سے نہیں، تمہاری وجہ سے آیا کرتی ہیں جب ان کے سامنے حقائق کے پردے کھلتے ہیں تو تسلیم و اعتراف کی گردن جھکا نے کی بجائے سب کچھ تقدیر کے حوالے کرتے ہوئے اپنے آپ کو پاک دامن اور معصوم خیال کرتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جو کچھ تمہارے ساتھ بیت رہی ہے وہ تمہارے گناہوں کی ہلکی سی سرزنش ہے۔ جبکہ تمہاری بیشمار غلطیوں اور زیادتیوں سے صرف نظر کیا جاتا ہے۔ دنیا میں تمہارے دامن کو تھوڑا سا کھینچا اور گریبان کو ہلکا سا جھنجھوڑا جاتا ہے تو اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی شفقت و مہربانی پنہاں ہے تاکہ تمہارے قدم بغاوت ونا فرمانی سے رک جائیں اور تم مالک حقیقی کی طرف پلٹ آؤ۔ سمجھدار اور نیکو کار لوگ اپنی کمزوریوں اور ان کے بدلے میں پیدا ہونے والے حا لات کو اپنے کردار کے حوالے سے ہی دیکھا کرتے ہیں۔ (ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَھُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ )[ الروم : ٤١] ” لوگوں کے اپنے ہاتھوں کے کیے کی وجہ سے خشکی اور سمندر میں فساد برپا ہوگیا ہے تاکہ ان کو ان کے بعض اعمال کا مزا چکھایاجائے شاید کہ وہ باز آجائیں۔ “ (وَ لَنُذِیْقَنَّھُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰی دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَکْبَرِ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ ) [ السجدۃ : ٢١] ” اس بڑے عذاب سے پہلے ہم اسی دنیا میں کسی نہ کسی چھوٹے عذاب کا مزا انہیں چکھاتے رہیں گے، شاید وہ اپنی باغیانہ روش سے باز آجائیں۔ “ (فَلَنُذِیقَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا عَذَابًا شَدِیْدًا وَّلَنَجْزِیَنَّہُمْ اَسْوَاَ الَّذِیْ کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ) [ حٰم السجدۃ : ٢٧] ” ان کافروں کو ہم سخت عذاب کا مزا چکھائیں گے اور ہم ان کے برے اعمال کی پوری پوری سزا دیں گے۔ “

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

جو بھی کوئی مصیبت تمہیں پہنچتی ہے تمہارے اعمال کی وجہ سے ہے پھر فرمایا کہ تم سے جس کسی کو جو بھی کوئی تکلیف پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے اعمال کی وجہ سے پہنچ جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ ہر گناہ پر تکلیف نہیں بھیجتا اگر ہر گناہ کی وجہ سے مصیبت بھیجی جائے تو ہوسکتا ہے کہ آرام و راحت کا نمبر ہی نہ آئے بہت سے گناہوں سے اللہ تعالیٰ در گزر فرماتا ہے لہٰذا ان کی وجہ سے کوئی مصیبت نہیں آتی۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ کسی بھی بندہ کو کوئی ذرا سی تکلیف یا بڑی تکلیف پہنچ جاتی ہے تو وہ گناہ کی وجہ سے ہوتی ہے، اور اللہ تعالیٰ جن گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے وہ ان گناہوں سے زیادہ ہوتے ہیں جن پر مواخذہ ہوتا ہے۔ (رواہ الترمذی) اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے کہ مومن مرد اور مومن عورت کو جان و مال اور اولاد میں تکلیف پہنچتی رہتی ہے یہاں تک کہ جب وہ (قیامت کے دن) اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے گا تو اس کا کوئی گناہ بھی باقی نہ ہوگا۔ (رواہ الترمذی) معلوم ہوا کہ اہل ایمان پر جو تکلیفیں آتی ہیں ہیں ان سے گناہ معاف ہوتے رہتے ہیں اور یہ بہت بڑا فائدہ ہے کیونکہ آخرت میں گناہوں پر جو عذاب ہے وہ بہت سخت ہے دنیا میں جو تکلیفیں پہنچتی رہتی ہیں وہ معمولی چیزیں ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ بھی ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی بندہ کے لیے کوئی بلند مرتبہ دینے کا فیصلہ فرما دیتا ہے لیکن وہ اپنے عمل سے اس مرتبہ تک پہنچنے سے قاصر رہ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے تکلیف میں مبتلا فرما دیتا ہے یہ تکلیف اس کے مال جان اور اولاد میں پہنچ جاتی ہے پھر اللہ تعالیٰ اس پر صبر عطا فرما دیتا ہے یہاں تک کہ اس مرتبہ پر پہنچا دیتا ہے جو اللہ کی طرف سے اس کے لیے پہلے سے مقرر کردیا گیا تھا۔ (مشکوٰۃ المصابیح ١٢٨ از احمد و ابو داؤد) یاد رہے کہ ﴿وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ﴾ میں جو خطاب ہے یہ عام مومنین سے ہے لہٰذا یہ اشکال پیدا نہیں ہوتا کہ حضرات انبیاء کرام تو معصوم تھے ان پر تکلیفیں کیوں آئیں ان حضرات کو جو تکلیفیں پہنچیں گناہوں کی وجہ سے نہیں بلکہ رفع درجات کی وجہ سے پہنچیں۔ اس کے بعد فرمایا کہ تم زمین میں عاجز کرنے والے نہیں ہو یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں جس حال میں رکھے اس میں رہو گے اس سے بھاگ کر کہیں نہیں جاسکتے، اور غیر اللہ سے امیدیں باندھنا بھی فائدہ مند نہیں ہوسکتا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ولی (یعنی کارساز) نصیر (یعنی مددگار) نہیں ہے پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے کشتیاں بھی ہیں، پہاڑوں کے برابر بڑی بڑی کشتیاں سمندر میں چلتی ہیں جنہیں آج کل باخرہ اور بحری جہاز کہتے ہیں ان کشتیوں میں خود بھی سوار ہوکر سفر کرتے ہیں اور ان پر مال بھی لے جاتے ہیں بھاری بھاری کشتیاں سامان سے لدی ہوئی سمندر میں جا رہی ہیں کشتیاں ہوا کے ذریعہ ان کو چلاتے ہیں یہ ہوائیں اللہ تعالیٰ کے حکم سے چلتی ہیں اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ہوا کو روک دے اور یہ کشتیاں سمندر میں کھڑی کھڑی رہ جائیں اس میں صبر اور شکر کرنے والے بندوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔ شاید کسی کے دل میں وسوسہ آئے کہ اب تو بڑے بڑے جہاز پٹرول سے چلتے ہیں، ہواؤں کا ان کے چلنے میں دخل نہیں ہے اس وسوسہ کا جواب یہ ہے کہ مقصود اللہ تعالیٰ کی عظمت اور قدرت اور بندوں کو احتیاج بیان کرنا ہے پٹرول بھی تو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہے اور اس کے استعمال کا طریقہ بھی بتایا اور مشینوں اور انجنوں کی سمجھ اور ان کے چلانے کے طریقہ بھی تو اللہ تعالیٰ نے الہام فرمائے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

29:۔ ” وما اصابکم “ تا ” فمتاع الحیوۃ الدنیا “ یہ تخویف دنیوی ہے۔ مصیبت سے مراد مشرکین کے لیے عذاب دنیوی ہے جو ان کے عناد و تعنت اور مشرکانہ اعمال کی سزا ہے اور مؤمن کے لیے وہ تکلیفیں مراد ہیں جو بطور امتحان و ابتلاء یا بطور کفارہ گناہ اس پر آتی ہیں۔ یہ مضمون قرآن مجید کی متعدد آیتوں میں مذکور ہے۔ (1) ظہر الفساد فی البرو البحر بما کسبت ایدی الناس لیذیقہم بعض الذی عملوا لعلہم یرجعون (روم رکوع 5) ۔ (2) ما اصاب من مصیبۃ الا باذن اللہ (تغابن رکوع 2) ۔ (3) وما اصاب من مصیبۃ قد اصبتم مثلیھا (آل عمران رکوع 17) ۔ (5) ۔ وما اصابکم یوم التقی الجمعان فباذن اللہ۔ ان تمام آیتوں سے مراد یا مشرکین کے لیے عذاب دنیوی ہے یا مومنوں کے لیے تکالیف مراد ہیں جو بطور امتحان و ابتلاء ان پر آتی ہیں۔ لیکن وہ گناہ جن سے اللہ تعالیٰ درگذر فرماتا اور ان کی سزا دنیا میں نہیں دیتا وہ ان گناہوں سے کہیں زیادہ ہیں جن کی سزا دنیا میں مل گئی۔ ” وما انتم بمعجزین “ اور تم اللہ تعالیٰ کو مصائب وآفات سے عاجز و درماندہ نہیں کرسکتے اور جب اس کی طرف سے مصائب آجائیں، تو اس کے سوا کوئی تمہارا حمایتی اور مددگار نہیں جو تمہیں ان مصائب سے نجات دلا سکے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(30) اور تم کو جو مصیبت اور سختی پہنچتی ہے سو وہ تمہارے ہی ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے پہنچتی ہے اور بہت سے گناہ تو وہ معاف ہی کردیتا ہے اور درگزر فرمادیتا ہے۔ یہ خطاب مکلفین کو ہے کہ جو مصیبت یا آلام تم کو پہنچتے ہیں وہ تمہاری تقصیرات اور خطائوں کی وجہ سے پہنچتے ہیں خواہ وہ نافرمانی کا کوئی گناہ ہو یا طاعات میں کسی کوتاہی کی پاداش ہو ان تکالیف سے ان تقصیرات کا کفارہ ہوجاتا ہے تکالیف میں دنیا قبر اور حشر مراد ہوسکتے ہیں ہم پانچویں پارے میں من یعمل سوء ایجزبہ کی تسہیل میں مفصلاً عرض کرچکے ہیں اگر کسی مومن کو کانٹا چھبتا ہے یا وہ کوئی چیز رکھ کر بھول جاتا ہے اور اس چیز کے تلاش کرنے میں پریشانی ہوتی ہے تو یہ باتیں بھی تقصیرات کی معافی کا سبب بن جاتی ہیں۔ عام طور سے ایسا ہوتا ہے اور کبھی رفع درجات کے لئے بھی اس قسم کی تکالیف کا اللہ تعالیٰ کے بندوں کو سامنا کرنا پڑتا ہے تو اس کی بحث یہاں نہیں ہے۔ بہرحال معمولی سی تکلیف بھی گناہ سیات کا موجب ہوتی ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قسم کھا کر فرمایا ہے کہ کوئی کھر نیچ لگ جائے یا پائوں پھسل جائے یا بخار ہوجائے یہ سب چیزیں کسی گناہ کی پاداش میں ہوتی ہیں۔ حضرت علی کرم علی وجہہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت قرآن میں بڑی امید کی آیت ہے کیونکہ دنیا میں اللہ تعالیٰ جب کسی گناہ کی سزا دیدے گا تو آخر ت میں اس کا مواخذہ نہیں فرمائے گا مومنوں کے لئے اس آیت میں بڑی بشارت ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یہ خطاب عاقل بالغ لوگوں کو ہے گنہگار ہوں یا نیک مگر نبی داخل نہیں اور سختی دنیا کی بھی آگئی اور قبر کی اور آخرت کی۔ خلاصہ : یہ ہے کہ یہ خطاب بالغوں کو ہے نابالغوں کو یہ خطاب شامل نہیں اور اسی طرح نبی بھی اس سے مستثنا ہے دنیا میں خواہ کوئی دیکھ پہنچے یا قبر میں کچھ پریشانی ہو یا میدان حشر کی کوئی پریشانی ہو مومن کے لئے یہ تمام تکلیف اور پریشانیاں کفارہ ہیں اس کے گناہوں سے۔ اب آگے ارشاد ہوتا ہے کہ اگر کہیں اہل زمین سے مواخذہ شروع ہوجائے تو پھر نجات کی کوئی صورت نہیں اور نہ بھاگ کر ہی بچ نکلنے کی شکل ہے۔