Surat us Shooraa

Surah: 42

Verse: 34

سورة الشورى

اَوۡ یُوۡبِقۡہُنَّ بِمَا کَسَبُوۡا وَ یَعۡفُ عَنۡ کَثِیۡرٍ ﴿۫۳۴﴾

Or He could destroy them for what they earned; but He pardons much.

یا انہیں ان کے کرتوتوں کے باعث تباہ کر دے وہ تو بہت سی خطاؤں سے درگزر فرمایا کرتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَوْ يُوبِقْهُنَّ بِمَا كَسَبُوا ... Or He may destroy them because of that which their (people) have earned. means, if He wills, He may destroy the ships and drown them, because of the sins of the people on board. ... وَيَعْفُ عَن كَثِيرٍ And He pardons much. means, of their sins; if He were to punish them for all of their sins, He would destroy everyone who sails on the sea. Some of the scholars interpreted the Ayah أَوْ يُوبِقْهُنَّ بِمَا كَسَبُوا (Or He may destroy them because of that which their (people) have earned). as meaning, if He willed, He could send the wind to blow fiercely so that it would take the ships and divert them from their courses, driving them to the right or the left, so that they would be lost and would not be able to follow their intended path. This interpretation also includes the idea of their being destroyed. This also fits the first meaning, which is that if Allah willed, He could cause the wind to cease, in which case the ships would stop moving, or He could make the wind fierce, in which case the ships would be lost and destroyed. But by His grace and mercy, He sends the wind according to their needs, just as He sends rain that is sufficient. If He sent too much rain, it would destroy their houses, and if He sent too little, their crops and fruits would not grow. In the case of lands such as Egypt, He sends water from another land, because they do not need rain; if rain were to fall upon them, it would destroy their houses and cause walls to collapse. وَيَعْلَمَ الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي ايَاتِنَا مَا لَهُم مِّن مَّحِيصٍ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

34۔ 1 یعنی سمندر کو حکم دے اور اس کی موجوں میں طغیانی آجائے اور یہ ان میں ڈوب جائیں۔ 34۔ 2 ورنہ سمندر میں سفر کرنے والا کوئی بھی سلامتی کے ساتھ واپس نہ آسکے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٩] یعنی ہوا کو ایک دو دن کے لیے ساکن اور بند ہی رہنے دے یا باد مخالف چلا دے یا کشی کو بھنور میں پھنسا دے یا سمندر کی تلاطم خیز موجوں سے دو چار کر دے اور کشتی کو ڈبو کو تباہ کر دے تو اس کا سبب کشتی پر سوار لوگوں کی بداعمالیاں ہی ہوتی ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ ان کی بہت بد اعمالیوں سے تو درگزر ہی کرجاتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَوْ يُوْبِقْہُنَّ بِمَا كَسَبُوْا وَيَعْفُ عَنْ كَثِيْرٍ۝ ٣٤ ۡ وبق وَبَقَ : إذا تثبّط فهلك، وَبَقاً ومَوْبِقاً. قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُمْ مَوْبِقاً [ الكهف/ 52] وأَوْبَقَهُ كذا . قال تعالی: أَوْ يُوبِقْهُنَّ بِما كَسَبُوا[ الشوری/ 34] ( و ب ق ) وبق ( ض ) وبقا وموبقا کے معنی ضعیف اور گراں بار ہوکر ہلاک ہوجانے کے ہیں ۔ قرآن پا ک میں ہے ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُمْ مَوْبِقاً [ الكهف/ 52] اور ہم ان کے بیچ میں ہلاکت کی جگہ بنادیں گے ۔ اوبقتہ کذا ہلاک کرنا ۔ أَوْ يُوبِقْهُنَّ بِما كَسَبُوا[ الشوری/ 34] یا ان کے اعمال کے سبب ان کو تباہ کردے ۔ كسب ( عمل رزق) الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی: أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] ، وقوله : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] ( ک س ب ) الکسب ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔ عفو العَفْوُ : القصد لتناول الشیء، يقال : عَفَاه واعتفاه، أي : قصده متناولا ما عنده، وعَفَتِ الرّيحُ الدّار : قصدتها متناولة آثارها، وبهذا النّظر قال الشاعر : 323- أخذ البلی أبلادها «1» وعَفَتِ الدّار : كأنها قصدت هي البلی، وعَفَا النبت والشجر : قصد تناول الزیادة، کقولک : أخذ النبت في الزّيادة، وعَفَوْتُ عنه : قصدت إزالة ذنبه صارفا عنه، فالمفعول في الحقیقة متروک، و «عن» متعلّق بمضمر، فالعَفْوُ : هو التّجافي عن الذّنب . قال تعالی: فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری/ 40] ، وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة/ 237] ، ثُمَّ عَفَوْنا عَنْكُمْ [ البقرة/ 52] ، إِنْ نَعْفُ عَنْ طائِفَةٍ مِنْكُمْ [ التوبة/ 66] ، فَاعْفُ عَنْهُمْ [ آل عمران/ 159] ، وقوله : خُذِ الْعَفْوَ [ الأعراف/ 199] ، أي : ما يسهل قصده وتناوله، وقیل معناه : تعاط العفو عن الناس، وقوله : وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ [ البقرة/ 219] ، أي : ما يسهل إنفاقه . وقولهم : أعطی عفوا، فعفوا مصدر في موضع الحال، أي : أعطی وحاله حال العافي، أي : القاصد للتّناول إشارة إلى المعنی الذي عدّ بدیعا، وهو قول الشاعر : 324- كأنّك تعطيه الذي أنت سائله «2» وقولهم في الدّعاء : «أسألک العفو والعافية» «3» أي : ترک العقوبة والسّلامة، وقال في وصفه تعالی: إِنَّ اللَّهَ كانَ عَفُوًّا غَفُوراً [ النساء/ 43] ، وقوله : «وما أكلت العافية فصدقة» «4» أي : طلّاب الرّزق من طير ووحش وإنسان، وأعفیت کذا، أي : تركته يعفو ويكثر، ومنه قيل : «أعفوا اللّحى» «5» والعَفَاء : ما کثر من الوبر والرّيش، والعافي : ما يردّه مستعیر القدر من المرق في قدره . ( ع ف و ) العفو کے معنی کسی چیز کو لینے کا قصد کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ عفاہ واعتقادہ کسی کے پاس جو کچھ ہے وہ لینے کا قصد کیا عفت الریح الدرا ہوانے گھر کے نشانات مٹادیتے اسی معنی کے لحاظ سے شاعر نے کہا ہے ۔ ( 315 ) اخز البلی ایا تھا پوسید گی نے اس کے نشانات مٹا ڈالے عفت الدار گھر کے نشانات مٹ گئے گویا ان اثارنے ازخود مٹ جانے کا قصد کیا عفا النبت والشجرنباتات اور درخت بڑھ گئے جیسا کہ آخذ النبت فی الذیادۃ کا محاورہ ہے یعنی پودے نے بڑھنا شروع کیا ۔ عفوت عنہ کے معنی ہیں میں نے اس سے درگزر کرتے ہوئے اس کا گناہ متادینے کا قصد کیا ز لہذا یہاں اصل میں اس کا مفعول ترک کردیا گیا ہے اور عن کا متعلق مخذوف ہی یا قصدت ازالتہ ذنبہ سار فا عنہ پس عفو کے معنی گناہ سے درگزر کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری/ 40] مگر جو درگزر کرے اور معاملہ کو درست کرلے وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة/ 237] اور اگر تم ہی اپنا حق چھوڑ دو تو یہ پرہیز گاری کی بات ہے ۔ ثُمَّ عَفَوْنا عَنْكُمْ [ البقرة/ 52] ، پھر اس کے بعد ہم نے تم کو معاف کردیا ۔ إِنْ نَعْفُ عَنْ طائِفَةٍ مِنْكُمْ [ التوبة/ 66] اگر ہم تم میں سے ایک جماعت کو معاف کردیں ۔ فَاعْفُ عَنْهُمْ [ آل عمران/ 159] تو ان کی خطائیں معاف کردو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ خُذِ الْعَفْوَ [ الأعراف/ 199]( اے محمد ) عفو اختیار کرو میں العفو ہر اس چیز کو کہا گیا جس کا قصد کرنا اور لینا آسان ہو ۔ اور بعض نے اس کے معنی کئے ہیں درگزر کیجئے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ [ البقرة/ 219] ( اے محمد ) لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ خدا کی راہ میں کس طرح کا مال خرچ کریں کہہ دو جو مال خرچ کرو ۔ میں عفو سے ہر وہ چیز مراد ہے جو ضروریات سے زائد ہو اور اس کے خرچ سے تکلیف نہ ہو اور اعطی عفوا اس نے اسے بےمانگے دے دیا یہاں عفوا مصدر اسم فاعل کے معنی میں ہے اور حال واقع ہوا ہے یعنی بخشش کرتے وقت اس کی حالت یہ تھی کہ گویا خود لے رہا ہے اور اس میں اس عمدہ معنی کی طرف اشارہ ہے جسے شاعر نے بیان کرتے ہوئے کہا ہے ( الطویل ) ( 316 ) کانک تعطیہ الذی انت سائلہ یعنی جب سائل اس کے پاس آتا ہے تو اس طرح خوش ہوتا ہے گویا جو چیز تم اس سے لے رہے ہو وہ اسے دے رہے ہو ۔ اور دعائے ماثورہ میں ہے ( 43 ) اسئلک العفو والعافیتہ یعنی اے اللہ تجھ سے عفو اور تندرستی طلب کرتا ہوں اور قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو عفو کہا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ اللَّهَ كانَ عَفُوًّا غَفُوراً [ النساء/ 43] بیشک خدا معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے ۔ اور حدیث میں ہے ( 44 ) مااکلکت العافیتہ فھو صدقتہ یعنی کھیتی سے جو کچھ پرندہ چرندا اور ضرورت مند انسان کھا جائیں وہ وہ صدقہ ہے ،۔ اعفیت کذا یعنی میں نے اسے بڑھنے دیا اسی سے اعفوا الحیي ہے ( 45 ) یعنی ڈاڑھی کے بال بڑھنے دو ۔ العفاء اون یا پرند کے پر جو بڑھ جائیں اور کسی سے دیگ مستعار لینے والا جو شوربہ اس کی دیگ میں اسے بھیجتا ہے اس شوربہ کو المعافی کہا جاتا ہے ۔ كثر الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] ( ک ث ر ) کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

یا اگر وہ چاہے تو ان جہازوں کو سمندر میں ان کے سواروں کے اعمال بد کی وجہ سے تباہ کردے مگر وہ تو انتقام لینے میں جلدی نہیں کرتا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٤ { اَوْ یُوْبِقْہُنَّ بِمَا کَسَبُوْا وَیَعْفُ عَنْ کَثِیْرٍ } ” یا وہ (چاہے تو) تباہ کر دے ان (جہازوں) کو لوگوں کے گناہوں کی پاداش میں ‘ لیکن وہ بہت سی خطائوں سے درگزر فرماتا رہتا ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(42:34) او یوبقھن بما کسبوا۔ ای او ان یشاء یوبقھن بما کسبوا ۔ او حرف عطف۔ یوبق مضارع مجزوم (جواب شرط کی وجہ سے) واحد مذکر غائب۔ ایباق (افعال) مصدر وبق مادہ۔ وہ ہلاک کر دے وبق (باب ضرب) بمعنی ضعیف اور گراں ہوکر ہلاک ہونا۔ موبق اسم ظرف مکان۔ ہلاک ہونے کی جگہ جیسے کہ اور جگہ قرآن مجید میں ہے وجعلنا بینھم موبقا (18:52) اور ہم ان کے بیچ میں ہلاکت کی جگہ بنادیں گے۔ ھن ضمیر مفعول جمع مؤنث غائب کا مرجع الجوار ہے (اور اگر وہ چاہے تو ان کی کرتوتوں کے سبب ان کو ہلاک کر دے) ۔ اس جملہ کا عطف سابقہ جملہ ان یشا یسکن الریح پر ہے۔ ویعف عن کثیر : یہ جملہ معترضہ ہے یا اس کا عطف سابق جملہ ان یشا یسکن الریح پر ہے۔ یعنی اگر وہ چاہے تو ہوا کو روک دے کہ جہاز کھڑے رہ جائیں۔ یا طوفان بھیج دے کہ جہاز تباہ ہوجائیں اور آدمی ڈوب جائیں۔ یا موافق ہوائیں چلاتا رہے اور کثیر لوگوں سے درگزر فرمائے ۔ (مظہری) یعف مضارع مجزوم بوجہ جواب شرط ۔ واحد مذکر غائب کا صیغہ نیز ملاحظہ ہو 42:30 متذکرۃ الصدر۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿اَوْ يُوْبِقْهُنَّ بِمَا كَسَبُوْا وَ يَعْفُ عَنْ كَثِيْرٍٞ٠٠٣٤﴾ میں یہ فرمایا ہے کہ جیسے اللہ تعالیٰ کو یہ قدرت ہے کہ ہوا کو روک دے جس کی وجہ سے کشتیاں سمندر میں کھڑی رہ جائیں تو اسے یہ بھی قدرت ہے کہ جو لوگ کشتیوں میں سوار ہیں ان کے اعمال کی وجہ سے کشتیوں کو تباہ کر دے جس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہوائیں خوب تیز چلنے لگیں اور اس کی وجہ سے کشتیوں میں بھونچال آجائے اور جو لوگ کشتیوں میں سوار ہیں اپنے اعمال کی وجہ سے ہلاک ہوجائیں اور اسے یہ بھی اختیار ہے کہ بہت سوں کو معاف فرما دے یعنی غرق نہ فرمائے دنیا میں مواخذہ نہ فرمائے پھر اپنے قانون کے مطابق جسے چاہے آخرت میں سزا دے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(34) یا اگر چاہے تو اہل جہاز کے اعمال اور ان کی کمائی کی وجہ سے ان جہازوں کو تباہ کردے اور بہت سے آدمیوں کو معاف بھی کردیتا ہے۔