Surat us Shooraa

Surah: 42

Verse: 41

سورة الشورى

وَ لَمَنِ انۡتَصَرَ بَعۡدَ ظُلۡمِہٖ فَاُولٰٓئِکَ مَا عَلَیۡہِمۡ مِّنۡ سَبِیۡلٍ ﴿ؕ۴۱﴾

And whoever avenges himself after having been wronged - those have not upon them any cause [for blame].

اور جو شخص اپنے مظلوم ہونے کے بعد ( برابر کا ) بدلہ لے لے تو ایسے لوگوں پر ( الزام ) کا کوئی راستہ نہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And indeed whosoever takes revenge after he has suffered wrong, for such there is no way (of blame) against them. means, there is no sin on him for taking revenge against the one who wronged him.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ولمن انتصر بعدظلمہ…: یعنی مظلوم ظالم سے بدلا لے لے تو اس پر کوئی مواخذہ یا ملامت نہیں، کیونکہ اس نے اپنا حق لیا ہے ، کوئی زیادتی نہیں کی، بشرطیکہ اتنا ہی بدلا لے جتنا اس پر ظلم ہوا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِہٖ فَاُولٰۗىِٕكَ مَا عَلَيْہِمْ مِّنْ سَبِيْلٍ۝ ٤١ ۭ انْتِصَارُ والاسْتِنْصَارُ وَالانْتِصَارُ والاسْتِنْصَارُ : طلب النُّصْرَة وَالَّذِينَ إِذا أَصابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُونَ [ الشوری/ 39] ، وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ [ الأنفال/ 72] ، وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ [ الشوری/ 41] ، فَدَعا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ [ القمر/ 10] وإنما قال :«فَانْتَصِرْ» ولم يقل : انْصُرْ تنبيهاً أنّ ما يلحقني يلحقک من حيث إنّي جئتهم بأمرك، فإذا نَصَرْتَنِي فقد انْتَصَرْتَ لنفسک، وَالتَّنَاصُرُ : التَّعاوُن . قال تعالی: ما لَكُمْ لا تَناصَرُونَ [ الصافات/ 25] لا نتصار والانتنصار کے منعی طلب نصرت کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَالَّذِينَ إِذا أَصابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُونَ [ الشوری/ 39] اور جو ایسے ہیں کہ جب ان پر ظلم وتعدی ہو تو مناسب طریقے سے بدلہ لیتے ہیں ۔ وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ [ الأنفال/ 72] اور اگر وہ تم سے دین کے معاملات میں مدد طلب کریں تو تم کو مدد کرتی لا زم ہے ۔ وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ [ الشوری/ 41] اور جس پر ظلم ہوا ہو وہ اگر اس کے بعد انتقام لے ۔ فَدَعا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ [ القمر/ 10] تو انہوں نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ ( بار الہ میں ان کے مقابلے میں کمزور ہوں ان سے ) بدلہ لے ۔ میں انصر کی بجائے انتصر کہنے سے بات پر متنبہ کیا ہے کہ جو تکلیف مجھے پہنچ رہی ہے وہ گویا تجھے ذات باری تعالیٰ پہنچ رہی ہے وہ گویا تجھے ( ذات باری تعا لی پہنچ رہی ہے کیو ن کہ میں تیرے حکم سے ان کے پاس گیا تھا لہذا میری مدد فر مانا گو یا یا تیرا اپنی ذات کے لئے انتقام لینا ہے ۔ لتنا صر کے معنی باہم تعاون کرنے کے ہیں ۔ چنا نچہ قرآن میں ہے : ما لَكُمْ لا تَناصَرُونَ [ الصافات/ 25] تم کو کیا ہوا کہ ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور جو اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد پورا پورا بدلہ لے لے سو ایسے لوگوں پر کوئی الزام نہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤١ { وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِہٖ فَاُولٰٓئِکَ مَا عَلَیْہِمْ مِّنْ سَبِیْلٍ } ” اور جو کوئی بدلہ لے اس کے بعد کہ اس پر ظلم کیا گیا ہو تو ان لوگوں پر کوئی الزام نہیں ہے۔ “ سورة النساء کی آیت ١٤٨ میں یہی اصول ان الفاظ میں بیان ہوا ہے : { لاَ یُحِبُّ اللّٰہُ الْجَہْرَ بِالسُّوْٓئِ مِنَ الْقَوْلِ اِلاَّ مَنْ ظُلِمَط } یعنی اللہ تعالیٰ کو بالکل پسند نہیں کہ کوئی شخص کوئی بری بات بلند آواز سے کہے مگر مظلوم اس سے مستثنیٰ ہے ‘ بدلہ لینا بہرحال مظلوم کا حق ہے۔ اگر وہ اپنے اوپر ہونے والی زیادتی کا بدلہ ہی لینا چاہتا ہے تو اسے معاف کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ دیکھئے ان آیات کا اسلوب اور انداز سورة حٰمٓ السجدۃ کی مذکورہ آیات کے اسلوب سے کس قدر مختلف ہے۔ اسی ” تضاد “ کی بنیاد پر پروفیسر منٹگمری واٹ (١٩٠٩ ء۔ ٢٠٠٦ ء) نے Muhammad at Mecca اور Muhammad at Medina دو کتابیں لکھ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مکہ کے اندر جب محمد عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک حکمت عملی ناکام ہوگئی تو انہوں نے مدینہ جا کر اپنا لائحہ عمل بالکل ہی تبدیل کرلیا۔ اس بےچارے ” دانشور “ کی نظریں تعصب کی عینک کے باعث حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تحریک کے دو مراحل کے فرق کو نہیں دیکھ سکیں۔ وہ اس سادہ سی بات کو بھی نہیں سمجھ سکا کہ پہلا مرحلہ تیاری کا مرحلہ تھا جبکہ دوسرا عملی جدوجہد کا۔ مکی دور میں ” ہاتھ بندھے رکھنے “ کا حکم دراصل ایک سوچی سمجھی حکمت عملی (strategy) کا حصہ تھا ‘ جس کے تحت جاں نثارانِ توحید کو صبر و مصابرت کی بھٹی میں سے گزارنا مقصود تھا تاکہ میدانِ کارزار میں اترنے سے پہلے ان کے جذبے ضبط و برداشت کی آنچ سہہ سہہ کر پختہ اور ان کے دست وبازو آزمائش و ابتلا کی سختیاں جھیلنے کے عادی ہوجائیں۔ اقبال ؔنے اس حکمت عملی کو اس طرح بیان کیا ہے : ؎ نالہ ہے بلبل ِشوریدہ ترا خام ابھی اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی ! مدنی دور میں جب ” بندھے ہوئے ہاتھ “ کھول دیے گئے تو حالات یکسر بدل گئے۔ چناچہ میدانِ بدر میں جب حضرت بلال (رض) کا سامنا اپنے سابق آقا امیہ ّبن خلف سے ہوا تو چشم ِفلک کوئی اور ہی منظر دیکھ رہی تھی۔ اب امیہ کی گردن کا مقدر نشانہ بننا تھا جبکہ ” اقدام “ کا اختیار تیغ بلالی (رض) کے پاس تھا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(42:41) ولمن انتصر بعد ظلمہ فاولئک ما علیہم من سبیل واؤ عاطفہ لمن شرطیہ اور جملہ لمن انتصر بعد ظلمہ شرط۔ فاولئک ما علیہم من سبیل جواب شرط۔ انتصر ماضی واحد مذکر غائب انتصار (افتعال) مصدر۔ اس نے مدد طلب کی۔ انتصار کے معنی مدد طلب کرنے کے ہیں۔ ظالم سے انتصار کے معنی اس کو سزا دینا اور اس سے انتقام لینے کے ہیں باب استفعال سے بھی مدد مانگنا کے معنی آتے ہیں۔ مثلا وان استنصروکم فی الدین فعلیکم النصر (8:72) اور اگر وہ تم سے دین کے معاملات میں مدد طلب کریں تو تم کو مدد کرنی لازم۔ سبیل : راستہ ۔ واہ۔ سبیل اس راہ کو کہتے ہیں جو واضح ہو اور اس میں سہولت ہو۔ پھر سبیل کا لفظ ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے جو کسی دوسری چیز تک رسائی کا ذریعہ ہو عام اس سے کہ وہ چیز خبر ہو یا شر۔ قرآن مجید میں ہے ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ (16:125) اے پیغمبر (لوگوں کو) اپنے رب کے راستے کی طرف (یعنی راہ حق کی طرف) حکمت و دانش سے بلاؤ سبیل اللّٰہ سے مراد جہاد، حج۔ طلب علم اور وہ امور خیر جن کا اللہ نے حکم دیا ہے۔ محاورہ ہے لیس علی فی ھذا سبیل اس بارے میں مجھ پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہے یا لیس لک علی من سبیل تمہیں میرے سے مؤاخذہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اس صورت میں ترجمہ ہوگا :۔ اور جس نے اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد بدلہ لے لیا۔ پس یہ لوگ ہیں ان پر کوئی علامت نہیں (ان پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہے) ما نافیہ ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 بشرطیکہ اتنا ہی بدلہ لے جتنا اس پر ظلم ہوا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

34:۔ ” ولمن انتصر بعد ظلمہ “ یہ گذشتہ آیت کے مضمون کی تنویر ہے جو شخص مظلوم ہو اگر وہ ظالم سے ظلم کا بدلہ لے لے تو وہ طعن وملامت کا مستحق نہیں، ” انما السبیل الخ “ یہ ظالم و طاغی کیلئے تخویف اخروی ہے اور یہ پہلی صورت کے مقابلہ میں انتقام کی دوسری صورت ہے۔ یا بتداء ظلم وتعدی کرنے والے مراد ہیں۔ جو لوگ اپنا انتقام لیتے وقت یا ابتداء ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق شر و فساد بپا کرتے اور شرک پھیلاتے ہیں ایسے لوگ قابل مواخذہ ہیں اور ان کے لیے نہایت دردناک عذاب تیار ہے۔ ” ولمن صبر وغفر الخ “ اس میں عفو و درگذر کی ترغیب ہے جو شخص ظالم سے درگذر کرے اور صبر کرے اور اس سے انتقام نہ لے، تو یہ ایک عمل ہے جو شرعاً مطلوب ہے اور اللہ نے اس کا حکم دیا ہے (مظہری، جلالین) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(41) اور جو اپنے ظلم کئے جانے کے بعد مناسب بدلا لے لے تو ایسے لوگوں پر کوئی الزام نہیں۔ یعنی جب برابر سرابر بدلہ لینے کی اجازت ہے تو بدلا لینے والوں پر کوئی الزام نہیں۔ یعنی جب برابرسرابربدلہ لینے کی اجازت ہے تو بدلا لینے والوں پر کوئی الزام نہیں بشرطیکہ مثل سے زیادہ نہ ہو اور بہرحال معاف کردینے سے ثواب کا وعدہ ہے۔