Surat us Shooraa

Surah: 42

Verse: 8

سورة الشورى

وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ لَجَعَلَہُمۡ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ لٰکِنۡ یُّدۡخِلُ مَنۡ یَّشَآءُ فِیۡ رَحۡمَتِہٖ ؕ وَ الظّٰلِمُوۡنَ مَا لَہُمۡ مِّنۡ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیۡرٍ ﴿۸﴾

And if Allah willed, He could have made them [of] one religion, but He admits whom He wills into His mercy. And the wrongdoers have not any protector or helper.

اگر اللہ تعالٰی چاہتا تو ان سب کو ایک ہی امت کا بنا دیتا لیکن وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کر لیتا ہے اور ظالموں کا حامی اور مددگار کوئی نہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَوْ شَاء اللَّهُ لَجَعَلَهُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً ... And if Allah had willed, He could have made them one nation, means, either all following guidance or all following misguidance, but He made them all different, and He guides whomsoever He wills to the truth and He sends astray whomsoever He wills, and He has complete wisdom and perfect proof. Allah says: ... وَلَكِن يُدْخِلُ مَن يَشَاء فِي رَحْمَتِهِ وَالظَّالِمُونَ مَا لَهُم مِّن وَلِيٍّ وَلاَا نَصِيرٍ but He admits whom He wills to His mercy. And the wrongdoers will have neither a protector nor a helper.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

8۔ 1 اس صورت میں قیامت والے دن صرف ایک ہی گروہ ہوتا یعنی اہل ایمان اور اہل جنت کا لیکن اللہ کی حکمت و مشیت نے اس جبر کو پسند نہیں کیا بلکہ انسانوں کو آزمانے کے لئے اس نے انسانوں کو ارادہ و اختیار کی آزادی دی، جس نے آزادی کا صحیح استعمال کیا، وہ اللہ کی رحمت کا مستحق ہوگیا، اور جس نے اس کا غلط استعمال کیا، اس نے ظلم کا ارتکاب کیا کہ اللہ کی دی ہوئی آزادی اور اختیار کو اللہ ہی کی نافرمانی میں استعمال کیا۔ چناچہ ایسے ظالموں کا قیامت والے دن کوئی مددگار نہیں ہوگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧] انسان کو اختیار دینے کا نتیجہ اختلاف اور گروہ بندی :۔ اس کی بڑی آسان صورت یہ تھی کہ اللہ انسانوں کو قوت ارادہ و اختیار نہ بخشتا۔ پھر جس طرح کائنات کی باقی سب چیزیں اللہ کی مطیع فرمان ہیں اور ان کی یہ اطاعت اضطراری ہے انسان بھی اسی طرح اللہ کا مطیع فرمان ہوتا۔ اور اختلاف یا فرقوں میں بٹنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا۔ مگر اللہ کی مشیئت تو یہ تھی کہ ایک ایسی مخلوق پیدا کی جائے جس کو اختیار دیا جائے اور پھر دیکھا جائے کہ کون اپنے اختیار سے اس کی اطاعت کرتا ہے اور کون نافرمانی کرتا ہے۔ اور یہ اختیار ہی وہ چیز ہے جو اختلاف کا سبب بنتا ہے۔ پھر جو لوگ اپنے اختیار سے اللہ کے فرمانبردار بن جاتے ہیں۔ اللہ انہیں رحمت میں داخل کرلیتا ہے۔ دنیا میں بھی مہربان اور آخرت میں بھی۔ لیکن جو نافرمانی اختیار کرتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ دنیا کی زندگی میں ان کا محاسبہ کیا جائے۔ بلکہ آخرت میں ان کا ضرور محاسبہ کیا جائے گا۔ پھر اس دن ان کا کوئی ایسا سرپرست یا مددگار نہ ہوگا جو انہیں ان کے اعمال کی سزا سے بچا سکے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ولو شآء اللہ لجعلھم امۃ واحدۃ : یہ اس سوال کا جواب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک فریق جنتی اور ایک جہنمی کیوں بنایا، سبھی کو ایک جیسا کیوں نہیں بنادیا۔ یعنی اللہ تعالیٰ چاہتا تو جس طرح اس نے کائنات کی تمام چیزوں کو بےاختیار بنایا ہے وہ جن وانس کو بھی کسی قسم کا اختیار نہ دیتا۔ اگر وہ ایسا کرتا تو وہ سب دین حق پر ہوتے، مگر اس نے انہیں اختیار اور ارادہ میں آزادی دے کر پیدا فرمایا، تاکہ ان کا امحتان ہو اور اس کی صفات رحمت، غضب اور عدل کا ظہور ہو۔ یہ اس کی مشینت ہے، جس میں بیشمار حکمتیں ہیں، جنہیں پوری طرح وہی جانتا ہے، انسان چاہے بھی تو ان کی تہ تک نہیں پہنچ سکتا، وہ اتنا ہی جان سکتا ہے جتنا پروردگار چاہے۔ (٢) ولکن یدخل من یشآء فی رحمتہ : نیکی و بدی کی تمیز اور ان میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کی آزادی دینے کے بعد وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرلیتا ہے، مگر اس کی یہ مشینت اندھی نہیں کہ اس کا کوئی قاعدہ نہ ہو، بلکہ اس سے اگلے جملے سے ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جو اللہ کی رحمت کے حق دار بنتے ہیں اور وہ کون ہیں جو اس سے محروم رہتے ہیں۔ (٣) والظلمون مالھم من ولی ولا نصیر : قرآن مجید کی اصطلاح میں ” ظلم “ اور ” ظالمین “ کا لفظ شرک اور مشرکین کے لئے استعمال ہوتا ہے (دیکھیے انعام : ٨٢) اور ” قسط “ اور ” عدل “ کا لفظ توحید کیلئے آیا ہے، کیونکہ سب سے بڑا ظلم شرک ہے اور سب سے بڑا عدل توحید ہے، جیسا کہ فرمایا :(شھد اللہ انہ لا الہ الا ھو و المئکۃ و اولو العلم قآئما بالقسط) (آل عمران :18)” اللہ نے گواہی دی کہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں نے اور علم والوں نے بھی، اس حال میں کہ وہ انصاف پر قائم ہے۔ “ ارادہ و عمل کا اختیار ملنے کے بعد جن لوگوں نے اپنی جان پر ظلم کیا، اپنے خالق ومالک اور رازق کو اکیلا معبود بنانے اور اسی کی عبادت پر قائم رہنے کے بجائے غیروں ک و معبود بنایا، جن کے اختیار میں کچھ بھی نہیں، تو ان کا نہ کوئی دوست ہے اور نہ کوئی مددگار ۔ معلوم ہوا ایسے لوگ اللہ کی رحمت میں داخل نہیں ہوں گے، کیونکہ انہیں اپنی رحمت میں داخل کرنا اللہ تعالیٰ کے عدل اور مشیت کے خلاف ہے اور وہ خود بھی اللہ کی رحمت سے ناامید ہیں، ورنہ کبھی غیروں کی طرف نہ جاتے، جیسا کہ فرمایا :(اولئک یسوا من رحمتی) (العنکبو : ٢٣)” وہ میری رحمت سے ناامید ہوچکے ہیں۔ “ یہی بات نہایت وضاحت کے ساتھ سورة دہر (٢٩، ٣٠) میں بیان فرمائی گئی ہے۔ ہاں جو لوگ ایمان لائیا ور اس میں ظلم عظیم یعنی شرک کی آمیزش نہیں کی وہی اللہ تعالیٰ کی رحمت میں داخل ہوں گے اور وہی اس کی امید رکھ سکتے ہیں، جیسا کہ فرمایا :(اولئک یرجون رحمت اللہ) (البقرۃ :218)” وہی اللہ کی رحمت کی امید رکھتے ہیں۔ “ (٤) اس آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو تسلی بھی دی گی ہے کہ اگر کچھ لوگ حق واضح ہونے کے بعد بھی ایمان نہیں لاتے اور کفر و شرک پر اڑے رہتے ہیں تو آپ کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں، اللہ تعالیٰ چاہتا تو سب لوگوں کو ہدایت دے دیتا، مگر یہ جبر ہوتا جو اللہ تعالیٰ کی مشیت نہیں۔ اس نے اپنی حکمت اور مشیت کے تحت انسان کو اختیار دے رکھا یہ، جو چاہے ایمان لائے جو چاہے کفر کرے، اس لئے لوگوں میں یہ اختلاف ہمیشہ رہے گا۔ یہ مضمون متعدد آیات میں بیان ہوا ہے، دیکھیے سورة یونس (٩٩، ١٠٠) ، ہود (١١٨، ١١٩) اور سورة سجدہ (١٣) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَوْ شَاۗءَ اللہُ لَجَعَلَہُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّلٰكِنْ يُّدْخِلُ مَنْ يَّشَاۗءُ فِيْ رَحْمَتِہٖ۝ ٠ ۭ وَالظّٰلِمُوْنَ مَا لَہُمْ مِّنْ وَّلِيٍّ وَلَا نَصِيْرٍ۝ ٨ لو لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] . ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ شاء والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] . ( ش ی ء ) الشیئ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ دخل الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] ( دخ ل ) الدخول ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں ولي والوَلَايَةُ : تَوَلِّي الأمرِ ، وقیل : الوِلَايَةُ والوَلَايَةُ نحو : الدِّلَالة والدَّلَالة، وحقیقته : تَوَلِّي الأمرِ. والوَلِيُّ والمَوْلَى يستعملان في ذلك كلُّ واحدٍ منهما يقال في معنی الفاعل . أي : المُوَالِي، وفي معنی المفعول . أي : المُوَالَى، يقال للمؤمن : هو وَلِيُّ اللهِ عزّ وجلّ ولم يرد مَوْلَاهُ ، وقد يقال : اللهُ تعالیٰ وَلِيُّ المؤمنین ومَوْلَاهُمْ ، فمِنَ الأوَّل قال اللہ تعالی: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة/ 257] ( و ل ی ) الولاء والتوالی الوالایتہ ( بکسر الواؤ ) کے معنی نصرت اور والایتہ ( بفتح الواؤ ) کے معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دلالتہ ودلالتہ کی طرح ہے یعنی اس میں دولغت ہیں ۔ اور اس کے اصل معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ الوالی ولمولی ۔ یہ دونوں کبھی اسم فاعل یعنی موال کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اسم مفعول یعنی موالی کے معنی میں آتے ہیں اور مومن کو ولی اللہ تو کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مولی اللہ کہنا ثابت نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰٰ کے متعلق ولی المومنین ومولاھم دونوں طرح بول سکتے ہیں ۔ چناچہ معنی اول یعنی اسم فاعل کے متعلق فرمایا : ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة/ 257] جو لوگ ایمان لائے ان کا دوست خدا ہے نصر النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] وَما لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة/ 74] ، وَكَفى بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفى بِاللَّهِ نَصِيراً [ النساء/ 45] ، ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة/ 116] ( ن ص ر ) النصر والنصر کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر/ 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور اگر اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا تو یہود و نصاری اور مشرکین سب کو ایک طریقہ کا یعنی دین اسلام کو قبول کرنے والا بنا دیتا۔ باقی وہ جس کو چاہتا ہے دین اسلام کی دولت نصیب کرتا ہے اور یہود و نصاری اور مشرکین کا نہ کوئی فائدہ پہنچانے والا دوست ہوگا اور نہ کوئی مددگار کہ ان کو اس عذاب سے بچا سکے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨ { وَلَوْ شَآئَ اللّٰہُ لَجَعَلَہُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً } ” اور اگر اللہ چاہتا تو انہیں ایک ہی امت بنا دیتا “ اللہ ایسے بھی کرسکتا تھا کہ دنیا کے تمام انسان مومن ہوتے۔ { وَّلٰکِنْ یُّدْخِلُ مَنْ یَّشَآئُ فِیْ رَحْمَتِہٖ } ” لیکن اللہ داخل کرتا ہے اپنی رحمت میں جس کو چاہتا ہے۔ “ ان الفاظ کا ترجمہ یوں بھی ہوسکتا ہے : ” لیکن اللہ داخل کرتا ہے اپنی رحمت میں اس کو جو چاہتا ہے “۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی رحمت یا مغفرت اور جنت کی نعمتیں صرف اسی کو عطا کرتا ہے جو ان کی خواہش رکھتا ہو اور اپنی محنت کی صورت میں ان کی قیمت بھی ادا کرنے کو تیار ہو۔ اس حوالے سے سورة التوبہ کی آیت ١١١ کے یہ الفاظ بھی ہر اہل ِایمان کے پیش نظررہنے چاہئیں : { اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَہُمْ وَاَمْوَالَہُمْ بِاَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَط } ” یقینا اللہ نے خرید لی ہیں اہل ایمان سے ان کی جانیں بھی اور ان کے مال بھی اس قیمت پر کہ ان کے لیے جنت ہے ۔ “ { وَالظّٰلِمُوْنَ مَا لَہُمْ مِّنْ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیْرٍ } ” اور جو ظالم (کافر و مشرک) ہوں گے ان کے لیے نہ کوئی حمایتی ہوگا اور نہ کوئی مددگار۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

11 This theme has three objects in this context: First, it is meant to instruct and console the Holy Prophet, as if to say: "Do not grieve so much at the ignorance and deviation of the disbelievers of Makkah and their stubbornness and obduracy. It is Allah's will that man should be granted the freedom of choice and action: then whoever desires to have guidance should be given guidance, and whoever wants to remain. astray should be allowed to go astray. Had this not been Allah's will, there was no need whatever of sending the Prophets and the Book; for this only a creative hint of Allah Almighty's was enough: all human beings would have become as obedient as the rivers, mountains, trees, stones, and alI other creatures. " (In this connection, please also see AI-An'am: 35-36, 107). Secondly, its addressees arc all those people who were involved in the confusion, and even now are, that if Allah really had wanted to show guidance to human beings and He did not like the differences of creed and practice that were prevalent among the people, and wanted to have the people adopt the way of the Faith and Islam, there was no need of the Revelation and the Book and the Prophethood. He could have easily achieved this object by creating everyone a believer and Muslim by birth. Another result of this confusion was also this reasoning: "When Allah has not done so, the different ways that we are following, are approved by Him, and whatever we are doing, is according to His wilt. Therefore, nobody has any right to object to it. " (To remove this misunderstanding also this theme has been mentioned at several places in the Qur'an. Please see Al-An'am: 112, 137, 148-149; Yunus : 99; Hud: 118-119; An-Nahl: 9, 35 and the relevant E.N.'s). Thirdly, its object is to make the believers realize the truth about the difficulties that one generally faces in the way of preaching religion and reforming the people. Those people who do not understand the reality of the God, given freedom of choice and will and of the resulting differences of temperament and methods, sometimes become despondent at the slow progress of the reformatory work and wish that some supernatural things should appear from Allah, which should change the hearts of the people, and are sometimes inclined to adopt unsound methods of bringing about reformation, owing to excessive enthusiasm. (For this object also this theme has occurred at some places in the Qur'an, for which see Ar-Ra'd: 31, An-Nahl: 91-93). To highlight these objects a very important theme has been expressed in these brief sentences. Allah's real vicegerency in the world and His Paradise in the Hereafter is not an ordinary blessing, which may be distributed over creatures of the rank of the earth and stones and donkeys and horses as a common blessing. This is indeed a special blessing and a blessing of a very high order for which even the angels were not considered fit. That in why Allah created man as a creature endowed with power and authority and placed vast means of His earth under his control and blessed him with these special powers so that he may pass through the test, success in which alone can entitle a servant to His blessings. This blessing, is Allah's own; no one has a monopoly over it, nor can anyone claim to have it on the basis of a personal right, nor has anyone the power to take it by force. He who presents service before Allah, who takes Him as his Guardian and comes under His protection, alone can have it. Then Allah blesses him with help, guidance and grace to pass this test, so that he may enter His Mercy. As for the unjust Tnan who turns away from Allah Himself and instead takes others as his patrons, Allah-Has no need that he should become his guardian by force. And the others whom He takes as his guardians do not possess any knowledge and power and authority that they may enable him to achieve success by dint of their guardianship of him.

سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :11 یہ مضمون اس سلسلہ کلام میں تین مقاصد کے لیے آیا ہے : اولاً ، اس سے مقصود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تعلیم اور تسلی دینا ہے ۔ اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ آپ کفار مکہ کی جہالت و ضلالت اور اوپر سے ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کو دیکھ دیکھ کر اس قدر زیادہ نہ کڑھیں ، اللہ کی مرضی یہی ہے کہ انسانوں کو اختیار و انتخاب کی آزادی عطا کی جائے ، پھر جو ہدایت چاہے اسے ہدایت ملے اور جو گمراہ ہی ہونا پسند کرے اسے جانے دیا جائے جدھر وہ جانا چاہتا ہے ۔ اگر یہ اللہ کی مصلحت نہ ہوتی تو انبیاء اور کتابیں بھیجنے کی حاجت ہی کیا تھی ، اس کے لیے تو اللہ جل شانہ کا ایک تخلیقی اشارہ کافی تھا ، سارے انسان اسی طرح مطیع فرمان ہوتے جس طرح دریا ، پہاڑ ، درخت ، مٹی ، پتھر اور سب حیوانات ہیں ( اس مقصد کے لیے یہ مضمون دوسرے مقامات پر بھی قرآن مجید میں بیان ہوا ہے ۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، الانعام ، حواشی۲۳ تا ۲۵ ، ۷۱ ) ۔ ثانیاً ، اس کے مخاطب وہ تمام لوگ ہیں جو اس ذہنی الجھن میں گرفتار تھے اور اب بھی ہیں کہ اگر اللہ فی الواقع انسانوں کی رہنمائی کرنا چاہتا تھا ، اور اگر عقیدہ و عمل کے یہ اختلافات ، جو لوگوں میں پھیلے ہوئے ہیں ، اسے پسند نہ تھے ، اور اگر اسے پسند یہی تھا کہ لوگ ایمان و اسلام کی راہ اختیار کریں ، تو اس کے لیے آخر وحی اور کتاب اور نبوت کی کیا ضرورت تھی؟ یہ کام تو وہ بآسانی اس طرح کر سکتا تھا کہ سب کو مومن و مسلم پیدا کر دیتا ۔ اسی الجھن کا ایک شاخسانہ یہ استدلال بھی تھا کہ جب اللہ نے ایسا نہیں کیا ہے تو ضرور وہ مختلف طریقے جن پر ہم چل رہے ہیں ، اس کو پسند ہیں ، اور ہم جو کچھ کر رہے ہیں اسی کی مرضی سے کر رہے ہیں ، لہٰذا اس پر اعتراض کا کسی کو حق نہیں ہے ( اس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے بھی یہ مضمون قرآن میں متعدد مقامات پر بیان کیا گیا ہے ۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، الانعام ، حواشی ۸۰ ۔ ۱۱۰ ۔ ۱۲٤ ۔ ۱۲۵ ۔ جلد دوم ، یونس ، حاشیہ ۱۰۱ ، ہود ، حاشیہ۱۱٦ ، النحل ، حواشی ۱۰ ۔ ۳۱ ۔ ۳۲ ) ثالثاً ، اس کا مقصد اہل ایمان کو ان مشکلات کی حقیقت سمجھانا ہے جو تبلیغ دین اور اصلاح خلق کی راہ میں اکثر پیش آتی ہیں جو لوگ اللہ کی دی ہوئی آزادی انتخاب و ارادہ ، اور اس کی بنا پر طبائع اور طریقوں کے اختلاف کی حقیقت کو نہیں سمجھتے ، وہ کبھی تو کار اصلاح کی سست رفتاری دیکھ کر مایوس ہونے لگتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ کرامتیں اور معجزات رو نما ہوں تاکہ انہیں دیکھتے ہی لوگوں کے دل بدل جائیں ، اور کبھی وہ ضرورت سے زیادہ جوش سے کام لے کر اصلاح کے بے جا طریقے اختیار کرنے کی طرف مائل ہو جاتے ہیں ( اس مقصد کے لیے بھی یہ مضمون بعض مقامات پر قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے ۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الرعد ، حواشی ٤۷ تا ٤۹ ، النحل ، حواشی ۸۹ تا ۹۷ ) ۔ ان مقاصد کے لیے ایک بڑا اہم مضمون ان مختصر سے فقروں میں بیان فرمایا گیا ہے ۔ دنیا میں اللہ کی حقیقی خلافت اور آخرت میں اسکی جنت کوئی معمولی رحمت نہیں ہے جو مٹی اور پتھر اور گدھوں اور گھوڑوں کے مرتبے کی مخلوق پر ایک رحمت عام کی طرح بانٹ دی جائے ۔ یہ تو ایک خاص رحمت اور بہت اونچے درجے کی رحمت ہے جس کے لیے فرشتوں تک کو موزوں نہ سمجھا گیا ۔ اسی لیے انسان کو ایک ذی اختیار مخلوق کی حیثیت سے پیدا کر کے اللہ نے اپنی زمین کے یہ وسیع ذرائع اس کے تصرف میں دیے اور یہ ہنگامہ خیز طاقتیں اس کو بخشیں تاکہ یہ اس امتحان سے گزر سکے جس میں کامیاب ہو کر ہی کوئی بندہ اس کی یہ رحمت خاص پانے کے قابل ہو سکتا ہے ۔ یہ رحمت کی اپنی چیز ہے ۔ اس پر کسی کا اجارہ نہیں ہے ۔ نہ کوئی اسے اپنے ذاتی استحقاق کی بنا پر دعوے سے لے سکتا ہے ، نہ کسی میں یہ طاقت ہے کہ اسے بزور حاصل کر سکے ۔ اسے وہی لے سکتا ہے جو اللہ کے حضور بندگی پیش کرے ، اس کو اپنا ولی بنائے اور اس کا دامن تھامے ۔ تب اللہ اس کی مدد اور رہنمائی کرتا ہے ، اور اسے اس امتحان سے بخیریت گزرنے کی توفیق عطا فرماتا ہے تاکہ وہ اس کی رحمت میں داخل ہو سکے ۔ لیکن جو ظالم اللہ ہی سے منہ موڑ لے اور اس کے بجائے دوسروں کو اپنا ولی بنا بیٹھے ، اللہ کو کچھ ضرورت نہیں پڑی ہے کہ خواہ مخواہ زبردستی اس کا ولی بنے ، اور دوسرے جن کو وہ ولی بناتا ہے ، سرے سے کوئی علم ، کوئی طاقت اور کسی قسم کے اختیارات ہی نہیں رکھتے کہ اس کی ولایت کا حق ادا کر کے اسے کامیاب کرا دیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

2: یعنی سب کو زبردستی مسلمان بنا دیتا، لیکن انسان کو پیدا کرنے کا اصل مقصد ہی یہ تھا کہ لوگ زبردستی نہیں، بلکہ خود اپنے اختیار سے سوچ سمجھ کر حق قبول کریں۔ اسی میں ان کا امتحان ہے جس پر آخرت کی جزا اور سزا مرتب ہونے والی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے کسی کو زبردستی مسلمان بنانا نہیں چاہا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨۔ ١٢۔ اکثر علما کے نزدیک مشیت اور ارادے کے ایک ہی معنی ہیں۔ اس تفسیر میں ایک جگہ گزر چکا ہے کہ ارادہ علم کا تابع ہوتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے ہر ایک کام کا انجام جان لیا جاتا ہے پھر اس کام کا ارادہ کیا جاتا ہے مثلاً کھیتی کرنے اور باغ لگانے سے پہلے یہ انجام سوچ لیا جاتا ہے کہ جس زمین میں کھیتی یا باغ کا ارادہ ہے اس زمین میں کھیتی اور باغ کی پیداوار ہوجائے گی تو پھر اس زمین میں کھیتی کے کرنے کا یا باغ کے لگانے کا ارادہ کیا جاتا ہے اس بنا پر پہلی آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ چاہتا تو سب نافرمان لوگوں کو فرمان بردار بنا کر تمام مخلوقات کو نیک کردیتا لیکن اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں جو لوگ نافرمان قرار پا چکے ہیں اپنے اس علم کے برخلاف کسی کو مجبور کرکے راہ راست پر لانا اللہ تعالیٰ کے ارادہ میں نہیں ہے اس واسطے اللہ تعالیٰ انہی لوگوں کو نیک توفیق دے کر اپنی رحمت میں داخل کرنا چاہتا ہے جو اس کے علم غیب میں نیک ٹھہر چکے ہیں اور یہ نافرمان لوگ شرک میں گرفتار ہیں اور کہتے ہیں کہ اول تو ہم حشر کے قائل نہیں اور اگر ایسا ہوا تو جن بتوں کی ہم پوجا کرتے ہیں وہ ہم کو اس دن کے عذاب سے بچا لیں گے ان مشرکوں کی اب بات کے جواب میں یہاں مختصر طور پر اتنا ہی فرمایا کہ اس دن اللہ کی مرضی کے برخلاف کوئی کسی کا رفیق اور مددگار نہ ہوگا اور جگہ اس کی تفصیل گزر چکی ہے کہ جن فرشتوں اور نیک لوگوں کی مورتوں کو یہ لوگ پوجتے ہیں حشر کے دن وہ فرشتے اور نیک لوگ ان مشرکوں کی صورت سے بیزار ہوجائیں گے۔ پھر فرمایا یہ ان لوگوں کی نادانی ہے جو یہ لوگ بتوں کو اپنا مددگار سمجھتے ہیں دنیا میں تو مکہ کے قحط کے وقت ان لوگوں کو بتوں کا حال معلوم ہوگیا کہ انہوں نے اپنے بتوں سے بہت کچھ التجا کی اور ایک بوند پانی نہ پڑا حشر کے دن جب ان کی آنکھوں کے سامنے مرے ہوئے لوگ زندہ ہوجائیں گے تو ان لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے گا کہ کوئی چیز اللہ کی قدرت سے باہر نہیں ہے اور جب ان کے جھوٹے معبود اس دن ان لوگوں سے بیزاری ظاہر کریں گے تو ان کو یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ اس دن سوا اللہ تعالیٰ کے اور کوئی کسی کا مددگار نہیں ہے۔ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ تسلی فرمائی ہے کہ اگر یہ مشرک لوگ تمہاری نصیحت کو نہیں مانتے تو اس کا کچھ رنج نہ کرنا چاہئے بلکہ یہ سمجھ لینا چاہئے کہ جو لوگ اللہ کے علم غیب میں نافرمان ٹھہر چکے ہیں ان کے دل پر کسی نصیحت کا کچھ اثر نہ ہوگا۔ پھر مشرکین مکہ کو یہ تنبیہ فرمائی ہے کہ تم لوگ جھگڑے کی باتیں جو کر رہے ہو کہ تمہارا طریقہ اچھا ہے اور دین اسلام اچھا نہیں تو اس کا فیصلہ اللہ کے ہاتھ ہے وقت مقررہ پر وہ اس کا فیصلہ کر دے گا پھر اپنے رسول کو ارشاد فرمایا اے رسول اللہ کے تم ان مشرکوں سے کہہ دو کہ میں نے تو ہر طرح سے اپنا بھروسہ اللہ ہی پر کیا اور سب کو چھوڑ کر اس کی طرف میں رجوع ہوا۔ اب آگے منکرین قدرت الٰہی کو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی چند نشانیاں یاد دلائیں کہ اس صاحب قدرت نے آسمان زمین مرد عورت نر مادہ چوپاؤں کو پیدا کیا اور پھر انسان اور چوپاؤں کی نسل بڑھائی اب جب ان باتوں اس جیسا کوئی نہیں تو لائق تعظیم بھی وہی وحدہ لا شریک ٹھہرتا ہے کیونکہ وہ ہر ایک کی التجا کو سنتا اور ہر ایک کے عمل کو دیکھتا ہے کوئی چیز اس کے علم سے باہر نہیں اپنے علم کے موافق اس نے کسی کو خوشحال کیا ہے اور کسی کو تنگدست تاکہ خوشحال لوگوں کو تنگدست لوگوں کے کام کاج کی ضرورت رہے اور تنگدست لوگوں کو خوشحال لوگوں کے روپے پیسے کی اور اسی طرح سے دنیا کا انتظام قائم رہے۔ صحیح ١ ؎ بخاری و مسلم کے حوالہ سے حضرت علی (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ دنیا کے پیدا کرنے سے پہلے اپنے علم غیب کے نتیجہ کے طور پر اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد کون شخص جنت میں جانے کے قابل کام کرے گا اور کون شخص دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل۔ صحیح ٢ ؎ بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابو موسیٰ (رض) اشعری کی وہ حدیث بھی گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کی نصیحت کی مثال مینہ کے پانی کی اور اچھے برے لوگوں کی مثال اچھی بری زمین کی بیان فرمائی ہے ان حدیثوں کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ دنیا کے پیدا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے موافق لوح محفوظ میں جو لوگ نافرمان لکھے جا چکے ہیں ان کے حق میں قرآن کی نصیحت اللہ کی قدرت کی سب نشانیاں اسی رائیگاں ہیں جس طرح بری زمین میں مینہ کا پانی رائیگاں جاتا ہے اور تبارک الذے میں آئے گا کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس علم غیب کا امتحان کے طور پر ظہور ہوجائے کسی کو مجبور کرکے راہ راست پر لانے میں یہ امتحان کی حالت باقی نہ رہتی اس لئے اپنے علم غیب کے برخلاف مجبور کرکے کسی کو راہ راست پر لانا نہ اللہ تعالیٰ کو منظور ہے نہ مجبوری کی حالت کی کوئی نیکی اس کی بارگاہ میں مقبول ہے۔ (١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٤٩٩ ج ٤) (٢ ؎ صحیح مسلم باب حجاج ادم و موسیٰ (علیہما السلام) ص ٣٣٥ ج ٢۔ ) (١ ؎ صحیح بخاری باب وکان امر اللہ قدر امقدورا۔ ص ٩٧٧ ج ٢۔ ) (٢ ؎ صحیح بخاری باب فضل من علم و علم ص ١٨ ج ١۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(42:8) ولوشاء اللّٰہ لجعلہم امۃ واحدۃ۔ پہلا جملہ شرط اور دوسرا جواب شرط ہے۔ لو حرف شرط ہے دو جملوں پر آتا ہے۔ اور دونوں جملے ماضیہ ہوتے ہیں ۔ اگر ایسا ہوگیا ہوتا ۔ لام جواب شرط کے لئے ہے۔ ترجمہ ہوگا :۔ اور اگر خدا چاہتا تو ان کو ایک ہی جماعت کردیتا ۔ (لو پر مزید تفصیل کے لئے ملاحظ ہو 3:159) ۔ امۃ واحدۃ موصوف صفت ہوکر مفعول ہے جعل کا۔ امۃ واحدۃ یعنی سب کو دین اسلام پر کردینا۔ جیسا کہ اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :۔ ولو شاء اللّٰہ لجمعھم علی الھدی اور اگر خدا چاہتا تو سب کو ہدایت پر جمع کردیتا۔ والظلمون مالہم من ولی ولا نصیر : الظلمون مبتدا۔ باقی جملہ اس کی خبر ہے۔ الظلمون ظلم کرنے والے۔ ظلم سے اسم فاعل جمع مذکر۔ ظلم کے معنی ہیں وضع الشیء فی غیر محلہ۔ کسی جگہ کو اپنی اصلی جگہ سے دوسری جگہ رکھنا۔ (عبادت صرف اللہ کا حق ہے غیر اللہ کی عبادت ظلم ہے۔ ولی : مددگار۔ محافظ، نگہبان، بچانے والا۔ صفت مشبہ کا صیغہ بروزن فعیل۔ ولایۃ مصدر۔ نصیر : صیغہ صفت مجرور۔ نصر مصدر سے بچانے والا۔ محافظ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی اللہ تعالیٰ کو یہ قدرت تو تھی کہ دوسری مخلوقات کی طرح انسانوں کو بھی بےاختیار پیدا کرتا۔ اگر وہ ایسا کرتا تو تمام انسان ایک ہی دین ( دین حق) پر ہوتے اور ان میں اختلاف نہ ہوتا، مگر اس نے انسان کو اختیار و ارادہ میں آزادی دیکر پیدا کیا تاکہ امتحان ہو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی سب کو ایمان نصیب کردیتا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو لوگ جہنّمی نہ بنتے اور سب کے سب لوگ جنت میں داخل ہوتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو حق پر مجبور کرنے کی بجائے اس نے لوگوں کو حق و باطل میں انتخاب کا اختیار دے رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر زمین میں حکمرانی عطا فرمائی اور ہر چیز کو اس کی خدمت پر لگا دیا۔ اشرف المخلوقات اور زمین پر خلیفہ ہونے کی حیثیت سے اسے اس کی ذات کے بارے میں ایک حد تک اختیارات عطا فرمائے ہیں۔ جس میں سب سے بڑا اختیار یہ دیا کہ یہ چاہے تو ” اللہ “ کی نازل کردہ ہدایت قبول کرے نہ چاہے تو گمراہی کا راستہ اختیار کرلے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کے سامنے ہدایت اور گمراہی کو کھول کر بیان کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا تو وہ لوگوں کو ایک ہی امت یعنی ہدایت پر جمع کرسکتا تھا۔ لیکن وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت سے سرفراز کرتا ہے اور جو لوگ اس کی ہدایت کو قبول نہیں کرتے وہ ظالم ہیں اور ظالموں کے لیے قیامت کے دن کوئی خیر خواہ اور مددگار نہیں ہوگا۔ ظالم سے پہلی مراد مشرک ہیں۔ مشرک کا سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو اپنا کارساز اور حقیقی خیرخواہ سمجھ رکھا ہے۔ حالانکہ موت وحیات صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے جو ہر چیز پر اقتدار اور اختیار رکھتا ہے۔ لفظ ولی کی تشریح اس پہلے آیت ٦ میں کردی گئی ہے۔ شرک کی حمایت کرنے والے مفسّرین نے یہاں بھی من دونہٖ اولیاء سے مراد بت لیے ہیں۔ حالانکہ ان سے مرادوہ بزرگ ہیں جن کی زندگی میں یا ان کے فوت ہونے کے بعد لوگوں نے انہیں حاجت روا اور مشکل کشا بنا لیا ہے۔ یہاں اولیاء سے مراد اس لیے بزرگ لیے گئے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موت وحیات کے الفاظ استعمال فرما کر کھلا اشارہ دیا ہے کہ جن بزرگوں اور اولیاء کے سامنے لوگ فریادیں کرتے ہیں وہ تو اپنی موت اور زندگی پر بھی اختیار نہیں رکھتے۔ جب کسی کو اپنی موت اور زندگی کے بارے میں اختیار نہیں تو وہ کسی کی بگڑی کس طرح سنوار سکتا ہے۔ جو لوگ ہر مقام پر من دون اللہ سے مراد بت لیتے ہیں۔ انہیں انصاف سے سوچنا اور اقرار کرنا چاہیے کہ کیا بت میں روح ہوتی ہے ؟ اس کے بارے میں موت اور زندگی کا لفظ استعمال کیا جاسکتا ہے ؟ کیا بتوں کو قیامت کے دن زندہ کرکے ان سے حساب لیا جائے گا ؟ یہاں پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو لوگوں کو ایک ہی امت بنا دیتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل فرماتا ہے۔ یہاں رحمت سے مراد دین کا فہم اور اس پر عمل کرنا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ جسے اپنی رحمت میں شامل کرنا چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا کرتا ہے۔[ رواہ البخاری : کتاب العلم ] مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ چاہتا تو تمام لوگوں کو ہدایت پر جمع کردیتا۔ ٢۔ جسے اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے سرفراز فرمانا ہے اسے دین کی سمجھ عطا کرتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مشرک دور ہوتا ہے۔ ٤۔ قیامت کے دن ظالموں کا کوئی خیر خواہ اور مددگار نہیں ہوگا۔ ٥۔ مشرک اللہ تعالیٰ کے سوا بتوں اور بزرگوں کو اپنا مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتے ہیں۔ ٦۔ صرف اللہ تعالیٰ ہی موت وحیات کا مالک ہے اور ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ تفسیر بالقرآن مشرک اللہ کے سوا اور اس کے ساتھ دوسروں کو اپنا کارساز سمجھتے ہیں : ١۔ کیا کافر لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ وہ میرے بندوں کو میرے سوا کار ساز بنا لیں گے۔ (الکہف : ١٠٢) ٢۔ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تمہاری طرح کے ہی بندے ہیں۔ (الاعراف : ١٩٤) ٣۔ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تمہاری مدد کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ (الاعراف : ١٩٧) ٤۔ سوال کیجیے کہ جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو انہوں نے زمین میں کیا پیدا کیا ہے ؟ (الاحقاف : ٤) ٥۔ جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے۔ (الحج : ٧٣) ٦۔ تم بعل (بت) کو پکارتے ہو اور احسن الخالقین کو چھوڑدیتے ہو۔ (الصّٰفٰت : ١٢٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد فرمایا ﴿وَ لَوْ شَآء اللّٰهُ ﴾ (الآیۃ) یعنی ہر فیصلہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق ہوتا ہے اگر وہ چاہتا تو سب کو ایک ہی جماعت بنا دیتا یعنی سب اہل ایمان ہی ہوتے، وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل فرما دیتا ہے اس کی حکمت کا تقاضا ہے کہ اس دنیا میں اہل ایمان بھی رہیں اور اہل کفر بھی۔ سورة الم سجدۃ میں فرمایا ﴿وَ لَوْ شِئْنَا لَاٰتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدٰىهَا ﴾ اور اگر ہم چاہتے ہر نفس کو اس کی ہدیات دے دیتے۔ ﴿وَ الظّٰلِمُوْنَ مَا لَهُمْ مِّنْ وَّلِيٍّ وَّ لَا نَصِيْرٍ ٠٠٨﴾ (اور ظالموں کے لیے کوئی دوست اور مددگار نہ ہوگا) اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مشیت اپنی جگہ ہے لیکن انسانوں کو ہوش اور گوش اختیار دیا ہے اور ایمان و کفر کا فرق بتادیا ہے اور دونوں کی جز و سزا بھی بتادی ہے اس لیے قیامت کے دن اپنے اختیار کو غلط استعمال کرنے کی وجہ سے پکڑے جائیں گے کفر شرک ظلم ہے جب ظلم کی سزا ملے گی تو کوئی بھی حمایتی اور مددگار نہ ملے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

7:۔ ” ول شاء اللہ۔ الایۃ “۔ اللہ تعالیٰ قادر و متصرف ہے، اگر وہ چاہتا تو تمام بنی آدم کو جبراً توحید پر قائم کردیتا اور اس طرح ساری انسانیت ایک ہی امت ہوتی، لیکن جبری ایمان مطلوب نہیں، اس طرح جزاء و سزا کی حکمت فوت ہوجاتی ہے اور امتحان وابتلاء کا سلسلسہ ختم ہوجاتا ہے جس کی خاطر انسان کو پیدا فرمایا۔ ” الذی خلق الموت والحیوۃ لیبوکم ایکم احسن عملا (ملک رکوع 1) ۔ اور سورة مائدہ (رکوع 7) میں ارچشاد ہے۔ ” ولو شاء اللہ لجعلکم امۃ واحدۃ ولکن لیبلوکم فی ما اتاکم۔ الایۃ “ ” ولکن یدخل الخ “ یہ اسی امتحان وابتلاء کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی انسان کو اختیار دیدیا اور دونوں راستے اس پر واضح کردئیے گئے۔ اب وہ دونوں راستوں میں جو بھی اختیار کرے گا، اسی کے مطابق اس کا انجام ہوگا۔ اگر صراط مستقیم کو اختیار کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے اپنی رحمت میں داخل کرے گا، کیونکہ ایسے لوگوں ہی کو وہ اپنی رحمت میں داخل کرنا چاہتا ہے۔ اور جو کفر و شرک اختیار کرے گا ایسے ظالم اور بےانصاف اس کے غضب کے مستحق ہوں گے اور ان کا کوئی یار و مددگار نہیں ہوگا جو ان کو اللہ کے غضب سے بچا سکے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(8) اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا اور اس کو منظور ہوتا تو ان سب کو ایک فرقہ ایک ہی جماعت اور ایک ہی طریقہ کا بنادیتا لیکن وہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرلیتا ہے اور جو ظالم اور نافرمان ہیں ان کا نہ کوئی یارہوگا نہ مددگار۔ یعنی یہ کفرو اسلام مشیت الٰہی پر موقوف ہے وہ چاہتا تو سب کو ایک طریقہ کا بناکر ایک ہی فرقہ کردیتا لیکن وہ جس کو چاہے اپنی رحمت و ہدایت کے سائے میں داخل فرمالیتا ہے اور جو لوگ کافر ہیں اور جن کا شیوہ ہی کفر ہے ان کا نہ کوئی دلی جو ان کی شفاعت کرے اور نہ کوئی مددگار جو عذاب کو دفع کرے۔