Surat uz Zukhruf

Surah: 43

Verse: 11

سورة الزخرف

وَ الَّذِیۡ نَزَّلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءًۢ بِقَدَرٍ ۚ فَاَنۡشَرۡنَا بِہٖ بَلۡدَۃً مَّیۡتًا ۚ کَذٰلِکَ تُخۡرَجُوۡنَ ﴿۱۱﴾

And who sends down rain from the sky in measured amounts, and We revive thereby a dead land - thus will you be brought forth -

اسی نے آسمان سے ایک اندازے کے مطابق پانی نازل فرمایا ، پس ہم نے اس مردہ شہر کو زندہ کر دیا ۔ اسی طرح تم نکالے جاؤ گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَالَّذِي نَزَّلَ مِنَ السَّمَاء مَاء بِقَدَرٍ ... And Who sends down water from the sky in due measure, means, according to what is sufficient for your crops, fruits and drinking water for yourselves and your cattle. ... فَأَنشَرْنَا بِهِ بَلْدَةً مَّيْتًا ... then We revive a dead land therewith, means, a barren land, for when the water comes to it, it is stirred (to life), a... nd it swells and puts forth every lovely kind (of growth). By referring to the revival of the earth, Allah draws attention to how He will bring bodies back to life on the Day of Resurrection, after they have been dead. ... كَذَلِكَ تُخْرَجُونَ and even so you will be brought forth. Then Allah says:   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

11۔ 1 جس سے تمہاری ضرورت پوری ہو سکے، کیونکہ قدرت حاجت سے کم بارش ہوتی وہ تمہارے لئے مفید ثابت نہ ہوتی اور زیادہ ہوتی تو وہ طوفان بن جاتی، جس سے تمہارے ڈوبنے اور ہلاک ہونے کا خطرہ ہوتا۔ 11۔ 2 یعنی جس طرح بارش سے مردہ زمین شاداب ہوجاتی ہے۔ اسی طرح قیامت والے دن تمہیں بھی زندہ کر کے قبروں سے نکال لی... ا جائے گا۔   Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠] دنیا میں نازل ہونے والی بارش کی مجموعی مقدار یکساں رہتی ہے :۔ اس کے بھی دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ سمندر، جس سے آبی بخارات بن کر اوپر اٹھتے ہیں، کا رقبہ خشکی کے رقبہ سے تین گناہ زیادہ ہے۔ یہ بھی ممکن تھا کہ اس کا ایک کثیر حصہ آبی بخارات میں تبدیل ہوجاتا، پھر بارش کی صورت اختیار کرلیتا جس سے زمین ک... ا کثیر حصہ زیرآب آجاتا اور مخلوق تباہ ہوجاتی۔ لیکن اللہ تعالیٰ ایسا نہیں ہونے دیتا اور آبی بخارات اتنے ہی بنتے ہیں یا اتنی ہی بارش ہوتی ہے جو مخلوق کے لیے فائدہ بخش ہو۔ دوسرا پہلو یہ ہے زمین کے ہر علاقہ میں بارش کی سالانہ اوسط مقدار دوسرے علاقوں سے الگ ہوتی ہے۔ پھر اس اوسط مقدار میں کمی بیشی بھی ہوتی رہتی ہے۔ کہیں سیلاب آجاتا ہے اور کہیں خشک سالی ہوتی ہے۔ ان باتوں کے باوجود اللہ تعالیٰ پانی کی مجموعی مقدار اتنی ہی نازل فرماتا ہے جو ساری زمین کی مخلوق کی ضروریات کو پورا کرسکے۔ [١١] نباتات سے بعث بعد الموت پر دلیل :۔ اللہ تعالیٰ کے لیے نباتات کو زمین سے نکالنا یا اگانا اور تمہیں زمین سے نکالنا یا اگانا ایک ہی بات ہے اور اس میں کچھ فرق نہیں اور اس کی وضاحت سورة نوح میں یوں بیان فرمائی۔ ( وَاللّٰهُ اَنْۢبَتَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَبَاتًا 17؀ۙ ) 71 ۔ نوح :17) (اور اللہ نے تمہیں زمین سے نباتات کی طرح اگایا پھر اسی زمین میں تمہیں لوٹا دے گا۔ پھر تمہیں اسی زمین سے (قیامت کے دن) نکال بھی لے گا) یعنی زمین سے غلے پھل اور غذائیں اگتی ہیں۔ انہی سے انسان کا گوشت پوست & خون اور نطفہ بنتا ہے۔ جو انسان کی پیدائش کا ذریعہ بنتا ہے۔ اسی لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کو براہ راست زمین سے اگانے سے منسوب کردیا ہے۔ گویا جس طرح آج نباتات کو اور پھر تمہیں زمین سے اگا رہا ہے۔ اسی طرح قیامت کے دن بھی تمہیں زمین سے نکال کر اٹھا کھڑا کرے گا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) والذین نزل من السمآء مآء بقدر، اس کی تفسیر کے لئے دیکھیے سورة مومنون کی آیت (١٨) کی تفسیر۔ (٢) فانشرنا بہ بلدۃ میتاً : ” والذی نزل من السمآء مآء بقدر “ میں اپنا ذکر غائب کے صیغے سے کیا اور ” فانشرنا بہ “ میں جمع متکلم کے صیغے کے ساتھ فرمایا، اس سے مقصود اپنی شنہشاہی اور عظمت کا اظہار ہے کہ ہم ہی... ں جو بارش کے ساتھ مردہ شہر کو زندہ کردیتے ہیں، کسی دوسرے میں نہ یہ طاقت ہے اور نہ ہی کوئی دوسرا اس میں شریک ہے۔ (٣) کذلک تحرجون : بارش کیساتھ مردہ زمین زندہ کردینے کو قیامت کی دلیل کے طور پر پیش فرمایا کہ جس طرح ہم مردہ زمین کو بارش کے ساتھ زندہ اور آباد کردیتے ہیں ایسے ہی تمہیں زندہ کر کے قبروں سے نکال کھڑا کریں گے۔ مزید دیکھیے سورة نحل (٦٥) ، حج (٥، ٦) ، روم (٥٠) ، فاطر (٩) اور سورة یٰسین (٣٣، ٣٤) ۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْ نَزَّلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءًۢ بِقَدَرٍ۝ ٠ ۚ فَاَنْشَرْنَا بِہٖ بَلْدَۃً مَّيْتًا۝ ٠ ۚ كَذٰلِكَ تُخْـرَجُوْنَ۝ ١١ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بال... موضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا ماء قال تعالی: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] ، وقال : وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] ، ويقال مَاهُ بني فلان، وأصل ماء مَوَهٌ ، بدلالة قولهم في جمعه : أَمْوَاهٌ ، ومِيَاهٌ. في تصغیره مُوَيْهٌ ، فحذف الهاء وقلب الواو، ( م ی ہ ) الماء کے معنی پانی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] پاک ( اور نتھرا ہوا پانی اور محاورہ ہے : ۔ ماء بنی فلان فلاں قبیلے کا پانی یعنی ان کی آبادی ماء اصل میں موہ ہے کیونکہ اس کی جمع امراۃ اور میاہ آتی ہے ۔ اور تصغیر مویۃ پھر ہا کو حزف کر کے واؤ کو الف سے تبدیل کرلیا گیا ہے قدر تَقْدِيرُ اللہ علی وجهين : أحدهما بالحکم منه أن يكون کذا أو لا يكون کذا، إمّا علی سبیل الوجوب، وإمّا علی سبیل الإمكان . وعلی ذلک قوله : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق/ 3] . والثاني : بإعطاء الْقُدْرَةِ عليه . وقوله : فَقَدَرْنا فَنِعْمَ الْقادِرُونَ [ المرسلات/ 23] ، تنبيها أنّ كلّ ما يحكم به فهو محمود في حكمه، ، ، تقدیرالہی ِ ، ، کی دوصورتیں ہیں اللہ تعالیٰ کا اشیاء کو قدرت بخشنا یا اللہ تعالیٰ کا اشیاء کو مقدار مخصوص اور طرز مخصوص پر بنانا جیسا کہ اس کی حکمت کا تقاضا ہے اس لئے کہ فعل دوقسم پر ہے اول ایجاد بالفعل یعنی ابتداء سے کسی چیز کو ایسا کامل وجو عطا کرنا کی جب تک مشیت الہی اس کے فنا یا تبدیل کی مقتضی نہ ہو اس میں کمی بیشی نہ ہوسکے جیسے اجرام سماویہ اور ومافیما کی تخلیق ( کہ ان میں تاقیامت کسی قسم کا تغیر نہیں ہوگا ) دوم یہ کہ اصول اشیاء کو بالفعل اور ان کے اجزاء کو بالقوۃ وجو عطافرمانا اور ان کو اس ندازہ کے ساتھ مقدر کرنا کہ اس کی خلاف ظہور پزیر نہ ہوسکیں جیسا کہ خرما کی گھٹلی کے متعلق تقیدر الہٰی یہ ہے کہ اس سے خرما کا درخت ہی اگتا ہے اور سیب بازیتون کا درخت نہیں اگ سکتا اسی طرح انسان کی منی سے انسان پی پیدا ہوتا ہے دوسرے جانور پیدا نہیں ہوسکتے ۔ پس تقدیر الہی کے دو معنی ہوئے ایک یہ کہ کسی چیز کے متعلق نفی یا اثبات کا حکم لگانا کہ یوں ہوگا اور یوں نہیں ہوگا ۔ عام اس سے کم وہ حکم برسبیل وجوب ہو یا برسبیل امکان چناچہ آیت ؛ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق/ 3] خدا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے ۔ میں یہی معنی مراد ہیں دوم کی چیز پر قدرت عطا کرنے کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛فَقَدَرْنا فَنِعْمَ الْقادِرُونَ [ المرسلات/ 23] پھر اندازہ مقرر کیا اور ہم ہی خوب اندازہ مقرر کرنے والے ہیں ۔ میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ اللہ کا ہر حکم قابل ستائش ہے ۔ نشر النَّشْرُ ، نَشَرَ الثوبَ ، والصَّحِيفَةَ ، والسَّحَابَ ، والنِّعْمَةَ ، والحَدِيثَ : بَسَطَهَا . قال تعالی: وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ [ التکوير/ 10] ، وقال : وهو الّذي يرسل الرّياح نُشْراً بين يدي رحمته [ الأعراف/ 57] «2» ، وَيَنْشُرُ رَحْمَتَهُ [ الشوری/ 28] ، وقوله : وَالنَّاشِراتِ نَشْراً [ المرسلات/ 3] أي : الملائكة التي تَنْشُرُ الریاح، أو الریاح التي تنشر السَّحابَ ، ويقال في جمع النَّاشِرِ : نُشُرٌ ، وقرئ : نَشْراً فيكون کقوله :«والناشرات» ومنه : سمعت نَشْراً حَسَناً. أي : حَدِيثاً يُنْشَرُ مِنْ مَدْحٍ وغیره، ونَشِرَ المَيِّتُ نُشُوراً. قال تعالی: وَإِلَيْهِ النُّشُورُ [ الملک/ 15] ، بَلْ كانُوا لا يَرْجُونَ نُشُوراً [ الفرقان/ 40] ، وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلانُشُوراً [ الفرقان/ 3] ، وأَنْشَرَ اللَّهُ المَيِّتَ فَنُشِرَ. قال تعالی: ثُمَّ إِذا شاءَ أَنْشَرَهُ [ عبس/ 22] ، فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف/ 11] وقیل : نَشَرَ اللَّهُ المَيِّتَ وأَنْشَرَهُ بمعنًى، والحقیقة أنّ نَشَرَ اللَّهُ الميِّت مستعارٌ من نَشْرِ الثَّوْبِ. كما قال الشاعر : 440- طَوَتْكَ خُطُوبُ دَهْرِكَ بَعْدَ نَشْرٍ ... كَذَاكَ خُطُوبُهُ طَيّاً وَنَشْراً «4» وقوله تعالی: وَجَعَلَ النَّهارَ نُشُوراً [ الفرقان/ 47] ، أي : جعل فيه الانتشارَ وابتغاء الرزقِ كما قال : وَمِنْ رَحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ الآية [ القصص/ 73] ، وانْتِشَارُ الناس : تصرُّفهم في الحاجاتِ. قال تعالی: ثُمَّ إِذا أَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُونَ [ الروم/ 20] ، فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا[ الأحزاب/ 53] ، فَإِذا قُضِيَتِ الصَّلاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ [ الجمعة/ 10] وقیل : نَشَرُوا في معنی انْتَشَرُوا، وقرئ : ( وإذا قيل انْشُرُوا فَانْشُرُوا) [ المجادلة/ 11] «1» أي : تفرّقوا . والانْتِشَارُ : انتفاخُ عَصَبِ الدَّابَّةِ ، والنَّوَاشِرُ : عُرُوقُ باطِنِ الذِّرَاعِ ، وذلک لانتشارها، والنَّشَرُ : الغَنَم المُنْتَشِر، وهو للمَنْشُورِ کالنِّقْضِ للمَنْقوض، ومنه قيل : اکتسی البازي ريشا نَشْراً. أي : مُنْتَشِراً واسعاً طویلًا، والنَّشْرُ : الكَلَأ الیابسُ ، إذا أصابه مطرٌ فَيُنْشَرُ. أي : يَحْيَا، فيخرج منه شيء كهيئة الحَلَمَةِ ، وذلک داءٌ للغَنَم، يقال منه : نَشَرَتِ الأرضُ فهي نَاشِرَةٌ. ونَشَرْتُ الخَشَبَ بالمِنْشَارِ نَشْراً اعتبارا بما يُنْشَرُ منه عند النَّحْتِ ، والنُّشْرَةُ : رُقْيَةٌ يُعَالَجُ المریضُ بها . ( ن ش ر ) النشر کے معنی کسی چیز کو پھیلانے کے ہیں یہ کپڑے اور صحیفے کے پھیلانے ۔ بارش اور نعمت کے عام کرنے اور کسی بات کے مشہور کردیتے پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ [ التکوير/ 10] اور جب دفتر کھولے جائیں گے ۔ وهو الّذي يرسل الرّياح نُشْراً بين يدي رحمته [ الأعراف/ 57] اور وہی تو ہے جو لوگوں کے ناامیدہو جانیکے بعد مینہ برساتا اور اپنی رحمت ( یعنی بارش کے برکت ) کو پھیلا دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَالنَّاشِراتِ نَشْراً [ المرسلات/ 3] اور بادلوں کو ( بھاڑ ) ( پہلا دیتی ہے ۔ میں ناشرات سے مراد وہ فرشتے ہن جو ہواؤں کے پھیلاتے ہیں یا اس سے وہ ہوائیں مراد ہیں جو بادلون کو بکھیرتی ہیں ۔ چناچہ ایک قرات میں نشرابین یدی رحمتہ بھی ہے جو کہ وہ الناشرات کے ہم معنی ہے اور اسی سے سمعت نشرا حسنا کا محاورہ ہے جس کے معنی میں نے اچھی شہرت سنی ۔ نشرالمیت نشودا کے معنی ہیت کے ( ازسرنو زندہ ہونے کے ہیں ) چناچہ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ النُّشُورُ [ الملک/ 15] اسی کے پاس قبروں سے نکل کر جانا ہے بَلْ كانُوا لا يَرْجُونَ نُشُوراً [ الفرقان/ 40] بلکہ ان کو مرنے کے بعد جی اٹھنے کی امیدہی نہیں تھی ۔ وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان/ 3] اور نہ مرنا ان کے اختیار میں ہے ۔ اور نہ جینا اور نہ مرکراٹھ کھڑے ہونا ۔ انشر اللہ المیت ک معنی میت کو زندہ کرنے کے ہیں۔ اور نشر اس کا مطاوع آتا ہے ۔ جس کہ معنی زندہ ہوجانے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ إِذا شاءَ أَنْشَرَهُ [ عبس/ 22] پھر جب چاہے گا اسے اٹھا کھڑا کرے گا ۔ فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف/ 11] پھر ہم نے اس سے شہر مردہ کو زندہ کردیا ۔ بعض نے کہا ہے ک نشر اللہ المیت وانشرہ کے ایک ہی معنی میں ۔ لیکن درحقیقت نشر اللہ المیت نشرالثوب کے محاورہ سے ماخوذ ہے شاعر نے کہا ہے ( الوافر) (425) طوتک خطوب دھرک بعد نشر کذاک خطوبہ طیا ونشرا تجھے پھیلانے کے بعد حوادث زمانہ نے لپیٹ لیا اس طرح حوادث زمانہ لپیٹنے اور نشر کرتے رہتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف/ 11] اور دن کو اٹھ کھڑا ہونے کا وقت ٹھہرایا ۔ میں دن کے نشوربنانے سے مراد یہ ہے کہ اس کا روبار کے پھیلانے اور روزی کمانے کے لئے بنایا ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : وَمِنْ رَحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ الآية [ القصص/ 73] اور اس نے رحمت سے تمہارے لئے رات کو اور دن کو بنایا ۔ تاکہ تم اس میں آرام کرو اور اس میں اس کا فضل تلاش کرو ۔ اور انتشارالناس کے معنی لوگوں کے اپنے کاروبار میں لگ جانے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ثُمَّ إِذا أَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُونَ [ الروم/ 20] پھر اب تم انسان ہوکر جابجا پھیل رہے ہو ۔ فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا[ الأحزاب/ 53] تو جب کھانا کھا چکو تو چل دو ۔ فَإِذا قُضِيَتِ الصَّلاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ [ الجمعة/ 10] پھر جب نماز ہوچکے تو اپنی اپنی راہ لو ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ نشروا بمعنی انتشروا کے آتا ہے۔ چناچہ آیت کریمہ : وإذا قيل انْشُرُوا فَانْشُرُوا) [ المجادلة/ 11] اور جب کہاجائے کہ اٹھ کھڑے ہو تو اٹھ کھڑا ہوا کرو ۔ میں ایک قراءت فاذا قیل انشروافانشروا بھی ہے ۔ یعنی جب کہاجائے کہ منتشر ہوجاؤ تو منتشر ہوجایا کرو ۔ الانتشار کے معنی چوپایہ کی رگوں کا پھول جانا ۔۔ بھی آتے ہیں ۔ اور نواشر باطن ذراع کی رگوں کو کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ وہ بدن میں منتشر ہیں ۔ النشر ( ایضا) پھیلنے والے بادل کو کہتے ہیں ۔ اور یہ بمعنی منشور بھی آتا ہے جیسا کہ نقض بمعنی منقوض آجاتا ہے اسی سے محاورہ ہے ؛اکتسی البازی ریشا نشرا ۔ یعنی باز نے لمبے چوڑے پھیلنے والے پروں کا لباس پہن لیا ۔ النشر ( ایضا) خشک گھاس کو کہتے ہیں ۔ جو بارش کے بعد سرسبز ہوکر پھیل جائے اور اس سے سر پستان کی سی کونپلیں پھوٹ نکلیں یہ گھاس بکریوں کے لئے سخت مضر ہوتی ہے ۔ اسی سے نشرت الارض فھی ناشرۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی زمین میں نشر گھاس پھوٹنے کے ہیں ۔ شرت الخشب بالمنشار کے معنی آرے سے لکڑی چیرنے کے ہیں ۔ اور لکڑی چیر نے کو نشر اس لئے کہتے ہیں کہ اسے چیرتے وقت نشارہ یعنی پر ادہ پھیلتا ہے ۔ اور نشرہ کے معنی افسوں کے ہیں جس سے مریض کا علاج کیا جاتا ہے ۔ بلد البَلَد : المکان المحیط المحدود المتأثر باجتماع قطّانه وإقامتهم فيه، وجمعه : بِلَاد وبُلْدَان، قال عزّ وجلّ : لا أُقْسِمُ بِهذَا الْبَلَدِ [ البلد/ 1] ، قيل : يعني به مكة «1» . قال تعالی: بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ [ سبأ/ 15] ، فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف/ 11] ، وقال عزّ وجلّ : فَسُقْناهُ إِلى بَلَدٍ مَيِّتٍ [ الأعراف/ 57] ، رَبِّ اجْعَلْ هذا بَلَداً آمِناً [ البقرة/ 126] ، يعني : مكة و تخصیص ذلک في أحد الموضعین وتنکيره في الموضع الآخر له موضع غير هذا الکتاب «2» . وسمیت المفازة بلدا لکونها موطن الوحشیات، والمقبرة بلدا لکونها موطنا للأموات، والبَلْدَة منزل من منازل القمر، والبُلْدَة : البلجة ما بين الحاجبین تشبيها بالبلد لتمدّدها، وسمیت الکركرة بلدة لذلک، وربما استعیر ذلک لصدر الإنسان «1» ، ولاعتبار الأثر قيل : بجلده بَلَدٌ ، أي : أثر، وجمعه : أَبْلَاد، قال الشاعر : وفي النّحور کلوم ذات أبلاد وأَبْلَدَ الرجل : صار ذا بلد، نحو : أنجد وأتهم «3» . وبَلِدَ : لزم البلد . ولمّا کان اللازم لموطنه كثيرا ما يتحيّر إذا حصل في غير موطنه قيل للمتحيّر : بَلُدَ في أمره وأَبْلَدَ وتَبَلَّدَ ، قال الشاعر : لا بدّ للمحزون أن يتبلّدا ولکثرة وجود البلادة فيمن کان جلف البدن قيل : رجل أبلد، عبارة عن عظیم الخلق، وقوله تعالی: وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَباتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَالَّذِي خَبُثَ لا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِداً [ الأعراف/ 58] ، کنایتان عن النفوس الطاهرة والنجسة فيما قيل «5» . ( ب ل د ) البلد شہر ) وہ مقام جس کی حد بندی کی گئی ہو اور وہاں لوگ آباد ۔ اس کی جمع بلاد اور بلدان آتی ہے اور آیت : ۔ لا أُقْسِمُ بِهذَا الْبَلَدِ [ البلد/ 1] سے مکہ مکرمہ مراد ہے دوسری جگہ فرمایا رَبِّ اجْعَلْ هذا بَلَداً آمِناً [ البقرة/ 126] کہ میرے پروردگار اس شہر کو ( لوگوں کے لئے ) امن کی جگہ بنادے ۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ [ سبأ/ 15] پاکیزہ شہر ہے ۔ فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف/ 11] پھر ہم نے اس سے شہر مردہ کو زندہ کردیا ۔ فَسُقْناهُ إِلى بَلَدٍ مَيِّتٍ [ الأعراف/ 57] پھر ہم ان کو ایک بےجان شہر کی طرف چلاتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رَبِّ اجْعَلْ هذا بَلَداً آمِناً [ البقرة/ 126] پروردگار اس جگہ کو امن کا شہر بنا میں بھی مکہ مکرمہ مراد ہے لیکن ایک مقام پر اسے معرفہ اور دوسرے مقام پر نکرہ لانے میں جو لطافت اور نکتہ ملحوظ ہے اسے ہم دوسری کتاب میں بیان کرینگے اور بلد کے معنی بیابان اور قبرستان بھی آتے ہیں کیونکہ پہلاوحشی جانوروں دوسرا مردوں کا مسکن ہوتا ہی ۔ البلدۃ منازل قمر سے ایک منزل کا نام ہے اور تشبیہ کے طور پر ابرو کے درمیان کی جگہ اور اونٹ کے کے سینہ کو بھی بلدۃ کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ یہ بھی شہر کی طرح محدود ہوتے ہیں اور بطور استعارہ انسان کے سینہ پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے اور اثر یعنی نشان کے معنی کے اعتبار سے بجلدہ بلد کا محاورہ استعمال ہوتا ہے یعنی اس کی کھال پر نشان ہے اس کی جمع ابلاد آتی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے اور ان کے سینوں پر زخموں کے نشانات ہیں ۔ ابلد الرجل شہر میں چلاجانا جیسا کہ انجد اتھم کے معنی نجد اور تہمامہ میں چلے جانے کے ہیں ۔ بلد الرجل کے معنی شہر میں مقیم ہونے کے ہیں اور کسی مقام پر ہمیشہ رہنے والا اکثر اوقات دوسری جگہ میں جاکر متحیر ہوجاتا ہے اس لئے متجیر آدمی کے متعلق وغیرہ ہا کے محاورات استعمال ہوتے ہیں شاعر نے کہا ہے ( ع ) کہ اند وہ گیں لازما متحیر رہے گا ) ۔ اجد لوگ دام طور پر بلید یعنی کند ذہن ہوتے ہیں اس لئے ہر لئے جیم آدمی کو ابلد کہا جاتا ہے اور آیت کریمہ : وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَباتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَالَّذِي خَبُثَ لا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِداً [ الأعراف/ 58]( جو زمین پاکیزہ دے ) اس میں سے سبزہ بھی پروردگار کے حکم سے ( نفیس ہی ) نکلتا ہے اور جو خراب ہے ۔ اس میں سے جو کچھ نکلتا ہے ناقص ہوتا ہے ) میں بلد کے طیب اور خبیث ہونے سے کنایہ نفوس کا طیب اور خبیث ہونا مراد ہے ۔ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے هذا ( ذَاكَ ذلك) وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام/ 131] ، إلى غير ذلك . ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔ خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور جس نے ایک خاص اندز سے بارش برسائی اور پھر اس بارش سے خشک زمین کو زندہ کیا یعنی آباد کیا اسی طرح تم لوگ زندہ کر کے قبروں سے نکالے جاؤ گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١{ وَالَّذِیْ نَزَّلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً م بِقَدَرٍ } ” اور وہ جس نے اتارا آسمان سے پانی ایک اندازے کے مطابق۔ “ { فَاَنْشَرْنَا بِہٖ بَلْدَۃً مَّیْتًا } ” تو اس سے ہم نے ُ مردہ زمین کو اٹھا کھڑا کیا۔ “ اللہ تعالیٰ نے بارش کے پانی سے بنجر زمین میں زندگی کے آثار پھیلا دیے ‘ اسے حیات تازہ بخ... ش دی۔ { کَذٰلِکَ تُخْرَجُوْنَ } ” اسی طرح (ایک روز) تمہیں بھی نکال لیا جائے گا۔ “ تمہیں بھی روز محشر اسی طرح زندہ کر کے تمہاری قبروں سے نکال کھڑا کیا جائے گا۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

10 That is, "For each region He has ordained an average measure of the rain, which falls year after year for long ages regularly. It does not happen that an area may have two inches of the rainfall one year and 200 inches of it the next year. Then He spreads the rainfall over different places in different times in such a way that it becomes beneficial on the whole for the products of the earth. An... d this is also His wisdom that He has deprived some parts of the earth of the rainfall almost wholly and turned them into dry, barren deserts, and in some other parts, He sometimes causes famines w occur and sometimes sends torrential rains so that man may know what a great blessing the rain and its general regularity is for the populated areas, and he may also remember that this sysum is under the control of another power, whose decrees cannot be changed by anyone. No one has the power that he may change the general average of the rainfall of a country, or effect a variation in its distribution over vast areas of the earth, or avert an impending storm, or attract the displeased clouds towards one's own land and compel them to rain." (For further explanation, see AI Hijr: 21-22, Al-Mu'minun: 18-20). 11 Here, the birth of vegetation in the earth by means of water has been presented as an argument for two things simultaneously: (1) That these things are happening by the power and wisdom of One God; no one else is His associate in these works; and (2) that there can be life after death, and it will be. (For further explanation. see An-Nahl: 65-67, Al-Hajj: 5-7, An-Naml: 60, Ar-Rum: 19, 24; Fatir: E.N. 19 and Ya Sin: E.N. 29).  Show more

سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :10 یعنی ہر علاقے کے لیے بارش کی ایک اوسط مقدار مقرر کی جو مدت ہائے دراز تک سال بہ سال ایک ہی ہموار طریقے سے چلتی رہتی ہے ۔ اس میں ایسی بے قاعدگی نہیں رکھی کہ کبھی سال میں دو انچ بارش ہو اور کبھی دو سو انچ ہو جائے ۔ پھر وہ اس کو مختلف زمانوں میں اور مختلف اوقات میں جگ... ہ جگہ پھیلا کر اس طرح برساتا ہے کہ بالعموم وہ وسیع پیمانے پر زمین کی بار آوری کے لیے نافع ہوتی ہے ۔ اور یہ بھی اسکی حکمت ہی ہے کہ زمین کے بعض حصوں کو اس نے بارش سے قریب قریب بالکل محروم کر کے بے آب و گیاہ صحرا بنا دیے ہیں ، اور بعض دوسرے حصوں میں وہ کبھی قحط ڈال دیتا ہے اور کبھی طوفانی بارش کر دیتا ہے تاکہ آدمی یہ جان سکے کہ زمین کے آباد علاقوں میں بارش اور اس کے عام باقاعدگی کتنی بڑی نعمت ہے ، اور یہ بھی اس کو یاد رہے کہ اس نظام پر کوئی دوسری طاقت حکمراں ہے جس کے فیصلوں کے آگے کسی کی کچھ پیش نہیں جاتی ۔ کسی میں یہ طاقت نہیں ہے کہ ایک ملک میں بارش کے عام اوسط کو بدل سکے ، یا زمین کے وسیع علاقوں پر اس کی تقسیم میں فرق ڈال سکے ، یا کسی آتے ہوئے طوفان کو روک سکے ، یا روٹھے ہوئے بادلوں کو منا کر اپنے ملک کی طرف کھینچ لائے اور انہیں برسنے پر مجبور کر دے ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، صفحات 502 ۔ 503 ۔ جلد سوم ، المومنون ، حواشی ۱۷ ۔ ۱۸ ) ۔ سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :11 یہاں پانی کے ذریعہ سے زمین کے اندر روئیدگی کی پیدائش کو بیک وقت دو چیزوں کی دلیل قرار دیا گیا ہے ۔ ایک یہ کہ یہ کام خدائے واحد کی قدرت و حکمت سے ہو رہے ہیں ، کوئی دوسرا اس کار خدائی میں اس کا شریک نہیں ہے ۔ دوسرے یہ کہ موت کے بعد دوبارہ زندگی ہو سکتی ہے اور ہو گی ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، النحل ، حاشیہ ۵۳ الف ، جلد سوم ، الحج ، حاشیہ ۷۹ ، النمل ، حاشیہ ۷۳ ، الروم ، حواشی ۲۵ ۔ ۳٤ ۔ ۳۵ ، جلد چہارم ، سورہ فاطر ، حاشیہ ۱۹ ، سورہ یٰسٓ ، حاشیہ ۲۹ ) ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١١۔ ١٢۔ دنیا کی ضرورت کے موافق ہر برس موسم برات میں اللہ تعالیٰ مینہ برساتا ہے جب کبھی ضرورت سے کم مینہ برستا ہے تو قحط پڑجاتا ہے اور ضرورت سے زیادہ برستا ہے تو اس سے بھی ہر طرح کی پیداوار کو نقصان پہنچ جاتا ہے اسی واسطے فرمایا کہ اندازہ کے موافق اللہ تعالیٰ ہمیشہ مینہ برساتا ہے حدیث شریف سے معلوم ہ... وتا ہے کہ مینہ کے معمولی اندازہ میں فرق پڑ کر دنیا میں رزق کی تنگی لوگوں کے گناہوں کے سبب سے ہوتی ہے۔ چناچہ موطا میں ٢ ؎ حضرت عبد اللہ (رض) بن عباس سے روایت ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ بدکاری کے وبال سے عام وبا آتی ہے اور کم تولنے کے وبال سے قحط پڑتا ہے اور مسند امام ٣ ؎ احمد کی حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت اوپر گزر چکی ہے کہ مینہ برسنے میں زیادہ کڑک اور چمک بھی لوگوں کے گناہوں کے سبب سے ہوتی ہے صحیحین ٤ ؎ کی حضرت ابوہریرہ (رض) کی ہی حدیث بھی اوپر گزر چکی ہے کہ جس طرح اب مینہ سے اناج پیدا ہوتا ہے اسی طرح حشر کے دن ایک مینہ برسے گا جس سے لوگوں کے جسم بن کر تیارہوں گے اسی واسطے اللہ تعالیٰ کھیتی کو جگہ جگہ قرآن شریف میں حشر کے ساتھ تشبیہ دے کر ذکر فرمایا ہے اب آگے انسان چوپایہ ہر ایک چیز کے جوڑوں کے پیدا کرنے اور کشتی کے پیدا کرنے کا ذکر فرمایا کہ جو کوئی ان چوپایوں یا کشتی پر سوار ہو تو اس کو چاہئے کہ اللہ کی اس نعمت کا شکریہ ادا کرے اور اس کی نعمت کا شکریہ یہی ہے کہ آدمی خالص دل سے اس کی عبادت کرے۔ صحیح ١ ؎ بخاری و مسلم کے حوالہ سے معاذ (رض) بن جبل کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کریں اس حق کے ادا ہونے کے بعد بندوں کا حق اللہ پر یہ ہوگا کہ وہ اپنے بندوں کو دوزخ کے عذاب سے بچائے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو برت کر جو اس کی شکر گزاری کا حق اور اس حق کی ادائی کا جو طریقہ بندوں پر واجب ہے اس کی تفسیر اور اس کے نتیجہ کی تفسیر اس حدیث سے یہ سب کچھ اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے۔ (٢ ؎ بحوالہ مشکوٰۃ شریف باب فی تغیر الناس الفص الثالث ص ٤٥٩۔ ) (٣ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٥٠٥ ج ٢۔ ) (٤ ؎ صحیح مسلم باب مابین النفختین ص ٤٠٦ ج ٢ و صحیح بخاری تفسیر سورة زمر ص ٧١١ ج ٢۔ ) (١ ؎ صحیح مسلم باب الدلیل علی ان من مات علی التوحید دخل الجنۃ ص ٤٤ ج ١)  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(43:11) بقدر۔ بقدر حاجت۔ مقررہ مقدار میں۔ اندازہ کے مطابق : ق د ر مادہ۔ اس مادہ سے مختلف مصادر سے مختلف معانی آتے ہیں۔ نیز قدر بمعنی کسی پر تنگی کردینے کے معنی میں آتا ہے۔ جیسے اللّٰہ یبسط الرزق لمن یشاء ویقدر (13:26) خدا جس پر چاہتا ہے رزق فراخ کردیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے۔ فانشرنا ... بہ : ف تعقیب کا ہے انشرنا ماضی جمع متکلم۔ انساء (افعال) مصدر سے جس کے معنی زندہ کرنے اور اٹھا کھڑا کرنے کے ہیں۔ ہم نے زندہ کردیا۔ ہم نے کھڑا کردیا۔ بہ میں باء سببیہ ہے اور ہ ضمیر واحد مذکر غائب ماء کی طرف راجع ہے۔ بوجہ اس پانی کے ۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے ام اتخذوا الھۃ من الارض ہم ینشرون (21:21) بھلا لوگوں نے جو زمین کی چیزوں سے (بعض کو) معبود بنا لیا ہے (تو کیا) وہ ان کو (مرنے کے بعد) اٹھا کھڑا کریں گے۔ بلدۃ میتا۔ موصوف وصفت مل کر انشرنا کا مفعول ۔ مردہ بستی۔ اجڑا ہوا شہر جو پانی کے نہ ہونے سے اجڑ گیا ہو اور وہاں نباتات و حیوانات ختم ہوگئے ہوں (بارش ہونے پر نباتات اگ آئے حیوانات دوبارہ بس آئیں اور یوں اجڑی ہوئی بستی دوبارہ آباد و شاداب ہوجائے) ۔ کذلک : کاف حرف تشبیہ ذلک اسم اشارہ واحد مذکر۔ اجڑی ہوئی بستی کا آباد ہوجانا مثار الیہ، یعنی جس طرح ہم نے مردہ شہر کو زندہ کردیا یوں ہی تمہیں پھر (قبروں سے) اٹھا کھڑا کردیا جائے گا۔ تخرجون : مضارع مجہول جمع مذکر حاضر۔ اخراج (افعال) مصدر۔ تم نکالے جاؤ گے۔ (قبروں سے) فائدہ : بادل، بارش، کاشتکاری، باغبانی کے سلسلہ کے چھوٹے بڑے تغیرات ہیں سب اس میں شامل ہیں۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی تمہاری ضرورت اور مصلحت کے مطابق آسمان سے بارش کا انتظام فرمایا تاکہ تمہاری اور تمہارے جانوروں کی معیشت کا سامان مہیا ہو۔ اگر بےاندازہ مینہ برساتا تو کھیتیاں تباہ ہوجاتیں اور مکانات ڈھے جاتے اور اگر اندازہ سے کم برساتا تو تمہاری ضرورت پوری نہ ہوتی اور قحط پڑجاتا۔ (کذا قال ابن عباس (رض)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس ذات کبریا نے زمین و آسمانوں کو پیدا کیا اور زمین کو بچھونا بنایا اور اس میں راستے بنائے وہی آسمان سے بارش نازل کرتا ہے۔ قرآن مجید نے درجنوں مقامات پر بارش کو اللہ تعالیٰ کی قد رت کی نشانی کے طور پر پیش فرمایا ہے۔ بارش کے فوائد بتلانے کے ساتھ یہ استدلال بھی لوگوں کے سامنے رک... ھا کہ بارش پر غور کرو کہ اللہ تعالیٰ کس طرح اسے ایک خاص مقدار اور انداز میں نازل کرتا ہے۔ سورة الشوریٰ کی تفسیر میں یہ بات عرض کی ہے کہ کبھی نہیں ہوا کہ بادل پورے کا پورا پانی پرنالے کی طرح ایک ہی جگہ انڈیل دے۔ اللہ تعالیٰ ہواؤں کے ذریعے بادلوں کو نہ صرف ایک جگہ سے دوسری جگہ چلاتا ہے بلکہ پہاڑوں کی مانند دکھائی دینے والے بادلوں کو ہوائیں زمین پر گرنے نہیں دیتیں۔ بادلوں سے اس طرح پانی برستا ہے جس طرح آبشاریں پانی برساتی ہیں۔ اس طرح ہی اللہ تعالیٰ کے حکم کے ساتھ ہر علاقے میں ایک خاص کوٹہ کے مطابق پانی برسایا جاتا ہے۔ لوگوں کے پانی حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ بارش ہے۔ اسی کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ ویران زمین کو ہریالی کا لباس پہناتا ہے جس زمین پر ویرانی کی وجہ سے آنکھ نہیں ٹکتی تھی۔ بارش کے بعد وہی زمین اس طرح سرسبز و شاداب ہوجاتی ہے کہ آنکھ اسے بار بار دیکھ کر ٹھنڈک محسوس کرتی ہے۔ آدمی بارش پر غور کرے تو اسے فوراً اس بات پر یقین آجائے گا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ مردہ زمین سے سبز و شاداب کھیتیاں پیدا کرتا ہے اسی طرح ہی قیامت کے دن لوگوں کو قبروں سے اٹھالے گا۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا بَیْنَ النَّفْخَتَیْنِ اَرْبَعُوْنَ قَالُوْ یَا اَبَا ھُرَیْرۃَ اَرْبَعُوْنَ یَوْمًا قَالَ اَبَیْتُ قَالُوْا اَرْبَعُوْنَ شَھْرًا قَالَ اَبَیْتُ قَالُوْا اَرْبَعُوْنَ سَنَۃً قَالَ اَبَیْتُ ثُمَّ یُنْزِلُ اللّٰہُ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَیُنْبَتُوْنَ کَمَآ یَنْبُتُ الْبَقْلُ قَالَ وَلَیْسَ مِنَ الْاِنْسَانِ شَیْءٌ لَا یَبْلٰی اِلَّاعَظْمًا وَاحِدًا وَّھُوَ عَجْبُ الذَّنَبِ وَمِنْہُ یُرَکَّبُ الْخَلْقُ یَوْمَ الْقِیَا مَۃِ )[ متفق علیہ ] وَفِیْ رِوَایَۃٍ لِمُسْلِمِ قَالَ کُلُّ اِبْنِ اٰدَمَ یَاکُلُہٗ التُّرَاب الاَّ عَجْبَ الذَّنَبِ مِنْہُ خُلِقَ وَفِیْہِ یُرَکَّبُ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دو صور پھونکنے کا عرصہ چالیس ہوگا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے ان کے شاگردوں نے پوچھا چالیس دن ؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ میں یہ نہیں کہتا انہوں نے استفسار کیا چالیس ماہ ہیں ؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے جواباً فرمایا میں یہ نہیں کہتا انہوں نے پھر پوچھا چالیس سال ہیں ؟ ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں میں یہ بھی نہیں کہتا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ بارش نازل فرمائے گا۔ لوگ یوں اگیں گے جس طرح انگوری اگتی ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، انسان کی دمچی کے علاوہ ہر چیز بو سیدہ ہوجائے گی۔ قیامت کے دن اسی سے تمام اعضاء کو جوڑا جائے گا۔ (بخاری و مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انسان کے تمام اعضاء کو مٹی کھاجائے گی۔ لیکن دمچی کو نہیں کھائے گی انسان اسی سے پیدا کیا جائے گا اور جوڑا جائے گا۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ایک خاص مقدار اور انداز میں آسمان سے بارش نازل کرتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہی بارش کے ذریعے مردہ زمین کو ہریالی بخشتا ہے۔ ٣۔ جس طرح ایک مدت کے بعد بیج زمین سے اگتا ہے اسی طرح ہی قیامت کے دن لوگوں کو زمین سے زندہ کرکے نکالا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن بارش اور زمین کے حوالے سے انسان کی پیدائش اور اس کی موت کا ثبوت : ١۔ دانے اور گٹھلی کو پھاڑنا، زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ کرنا اللہ ہی کا کام ہے تم کہاں بہک گئے ہو ؟ (الانعام : ٩٥) ٢۔ اللہ سے بخشش طلب کرو وہ تمہیں معاف کردے گا اور بارش نازل فرمائے گا اور تمہارے مال و اولاد میں اضافہ فرمائے گا۔ (نوح : ١٠۔ ١٢) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا۔ (الروم : ٢٠) ٤۔ ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ (المومنون : ١٢) ٥۔ حضرت آدم بد بودار مٹی سے پیدا کیے گئے۔ (الحجر : ٢٦) ٦۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے، پھر تمہارے جوڑے جوڑے بنائے۔ (فاطر : ١١) ٧۔ کیا تو اس ذات کا کفر کرتا ہے جس نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے تجھے آدمی بنایا۔ (الکہف : ٣٧)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مزید فرمایا ﴿وَ الَّذِيْ نَزَّلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءًۢ بِقَدَرٍ ١ۚ﴾ (اور وہ ذات پاک ہے جس نے آسمان سے ایک خاص مقدار کے ساتھ پانی نازل فرمایا) ﴿فَاَنْشَرْنَا بِهٖ بَلْدَةً مَّيْتًا ١ۚ﴾ (پھر ہم نے اس کے ذریعے زمین کے مردہ حصہ کو زندہ کردیا) ﴿كَذٰلِكَ تُخْرَجُوْنَ ٠٠١١﴾ جیسے اس نے مردہ زمین کو زندگی ب... خشی خشک ہونے کے بعد سرسبز اور شاداب ہوگئی اسی طرح سے تم قبروں سے نکالے جاؤ گے یعنی قیامت کے دن زندہ کرکے اٹھائے جاؤ گے اس کا نمونہ تمہارے سامنے ہے زمین کی موت اور حیات کو دیکھ لو اور اس سے سمجھ لو کہ تمہارا زندہ فرمانا کوئی مشکل نہیں ہے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(11) اور جس نے آسمان سے ایک خاص اندازے کے ساتھ پانی اتارا پھر ہم نے اسی پانی سے ایک مرے ہوئے شہر اور مردہ دیس کو زندہ کردیا یعنی آبادی کی زرعی زمین جو خشک پڑ ی تھی اس کو زندہ کردیا اور اسی طرح تم بھی قبروں سے نکالے جائو گے۔ آسمان سے پانی برساتا ہے ایک خاص اندازے کے ساتھ یعنی حسب ضرورت تاکہ لوگ کھیتی...  باڑی کرسکیں اور پانی پینے کے لئے بھی کام میں لائیں۔ مری ہوئی زمین سے مراد خشک زمین جو بارش کے بعد کھیتی باڑی کے قابل ہوجاتی ہے اور ابھرنے لگتی ہے اسی طرح تم بھی نکالے جائو گے۔ یعنی جس طرح مری ہوئی زمین زندہ ہوجاتی ہے اور ہر قسم کی نباتات اس سے پیدا ہونے لگتی ہے اسی طرح تم بھی مرنے کے بعد اپنی قبروں سے نکل آئو گے اور قیامت کے دن زمین میں سے اٹھ کھڑے ہوگے۔  Show more