Surat uz Zukhruf

Surah: 43

Verse: 15

سورة الزخرف

وَ جَعَلُوۡا لَہٗ مِنۡ عِبَادِہٖ جُزۡءًا ؕ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَکَفُوۡرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿ؕ٪۱۵﴾  7

But they have attributed to Him from His servants a portion. Indeed, man is clearly ungrateful.

اور انہوں نے اللہ کے بعض بندوں کو اس کا جز ٹھہرا دیا یقیناً انسان کھلم کھلا ناشکرا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Condemnation of the Idolators' attribution of Offspring to Allah Here Allah speaks of the lies and fabrications of the idolators, when they devoted some of their cattle to their false gods and some to Allah, as He described in Surah Al-An`am where He said: وَجَعَلُواْ لِلَّهِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالاٌّنْعَامِ نَصِيباً فَقَالُواْ هَـذَا لِلَّهِ بِزَعْمِهِمْ وَهَـذَا لِشُرَكَأيِنَا فَمَا كَانَ لِشُرَكَأيِهِمْ فَلَ يَصِلُ إِلَى اللَّهِ وَمَا كَانَ لِلَّهِ فَهُوَ يَصِلُ إِلَى شُرَكَأيِهِمْ سَأءَ مَا يَحْكُمُونَ And they assign to Allah share of the tilth and cattle which He has created, and they say: "This is for Allah" according to their claim," and this is for our partners." But the share of their partners reaches not Allah, while the share of Allah reaches their partners! Evil is the way they judge! (6:136). Similarly, out of the two kinds of offspring, sons and daughters, they assigned to Him the worst and least valuable (in their eyes), i.e., daughters, as Allah says: أَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الاٍّنثَى تِلْكَ إِذاً قِسْمَةٌ ضِيزَى Is it for you the males and for Him the females That indeed is a division most unfair! (53:21-22) And Allah says here: وَجَعَلُوا لَهُ مِنْ عِبَادِهِ جُزْءًا إِنَّ الاِْنسَانَ لَكَفُورٌ مُّبِينٌ Yet, they assign to some of His servants a share with Him. Verily, man is indeed a manifest ingrate! Then He says: أَمِ اتَّخَذَ مِمَّا يَخْلُقُ بَنَاتٍ وَأَصْفَاكُم بِالْبَنِينَ

مشرکین کا بدترین فعل اللہ تعالیٰ مشرکوں کے اس افترا اور کذب کا بیان فرماتا ہے جو انہوں نے اللہ کے نام منسوب کر رکھا ہے جس کا ذکر سورہ انعام کی آیت ( وَجَعَلُوْا لِلّٰهِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْاَنْعَامِ نَصِيْبًا فَقَالُوْا ھٰذَا لِلّٰهِ بِزَعْمِهِمْ وَھٰذَا لِشُرَكَاۗىِٕنَا ۚ فَمَا كَانَ لِشُرَكَاۗىِٕهِمْ فَلَا يَصِلُ اِلَى اللّٰهِ ۚ وَمَا كَانَ لِلّٰهِ فَهُوَ يَصِلُ اِلٰي شُرَكَاۗىِٕهِمْ ۭسَاۗءَ مَا يَحْكُمُوْنَ ١٣٦؁ ) 6- الانعام:136 ) میں ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے جو کھیتی اور مویشی پیدا کئے ہیں ان مشرکین نے ان میں سے کچھ حصہ تو اللہ کا مقرر کیا اور اپنے طور پر کہدیا کہ یہ تو اللہ کا ہے اور یہ ہمارے معبودوں کا اب جو ان کے معبودوں کے نام کا ہے وہ تو اللہ کی طرف نہیں پہنچتا اور جو ہر چیز اللہ کی ہوتی ہے وہ ان کے معبودوں کو پہنچ جاتی ہے ان کی یہ تجویز کیسی بری ہے ؟ اسی طرح مشرکین نے لڑکے لڑکیوں کی تقسیم کر کے لڑکیاں تو اللہ سے متعلق کر دیں جو ان کے خیال میں ذلیل و خوار تھیں اور لڑکے اپنے لئے پسند کئے جیسے کہ باری تعالیٰ کا فرمان ہے ( اَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الْاُنْثٰى 21؀ ) 53- النجم:21 ) کیا تمہارے لئے تو بیٹے ہوں اور اللہ کے لئے بیٹیاں ؟ یہ تو بڑی بےڈھنگی تقسیم ہے ۔ پس یہاں بھی فرماتا ہے کہ ان مشرکین نے اللہ کے بندوں کو اللہ کا جز قرار دے لیا ہے پھر فرماتا ہے کہ ان کی اس بدتمیزی کو دیکھو کہ جب یہ لڑکیوں کو خود اپنے لئے ناپسند کر تے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کے لئے کیسے پسند کرتے ہیں ؟ ان کی یہ حالت ہے کہ جب ان میں سے کسی کو یہ خبر پہنچتی ہے کہ تیرے ہاں لڑکی ہوئی تو منہ بسور لیتا ہے گویا ایک شرمناک اندوہ ناک خبر سنی کسی سے ذکر تک نہیں کرتا اندر ہی اندر کڑھتا رہتا ہے ذرا سا منہ نکل آتا ہے ۔ لیکن پھر اپنی کامل حماقت کا مظاہرہ کرنے بیٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ اللہ کی لڑکیاں ہیں یہ خوب مزے کی بات ہے کہ خود جس چیز سے گھبرائیں اللہ کے لئے وہ ثابت کریں ۔ پھر فرماتا ہے عورتیں ناقص سمجھی جاتی ہیں جن کے نقصانات کی تلافی زیورات اور آرائش سے کی جاتی ہے اور بچپن سے مرتے دم تک وہ بناؤ سنگھار کی محتاج سمجھی جاتی ہیں پھر بحث مباحثے اور لڑائی جھگڑے کے وقت ان کی زبان نہیں چلتی دلیل نہیں دے سکتیں عاجز رہ جاتی ہیں مغلوب ہو جاتی ہیں ایسی چیز کو جناب باری علی و عظیم کی طرف منسوب کرتے ہیں جو ظاہری اور باطنی نقصان اپنے اندر رکھتی ہیں ۔ جس کے ظاہری نقصان کو زینت اور زیورات سے دور کرنے کی کوشش کی جاتی جیسے کہ بعض عرب شاعروں کے اشعار ہیں ( وما الحلی الا زینۃ من نقیصۃ ، یتمم من حسن اذا الحسن قصرا ۔ واما اذا کان الجمال موفرا ، کحسنک لم یحتج الی ان یزورا ) یعنی زیورات کمی حسن کو پورا کرنے کے لئے ہوتے ہیں ۔ بھرپور جمال کو زیورات کی کیا ضرورت ؟ اور باطنی نقصان بھی ہیں جیسے بدلہ نہ لے سکنا نہ زبان سے نہ ہمت سے ان مضمون کو بھی عربوں نے ادا کیا ہے جبکہ یہ صرف رونے دھونے سے ہی مدد کر سکتی ہے اور چوری چھپے کوئی بھلائی کر سکتی ہے پھر فرماتا ہے کہ انہوں نے فرشتوں کو عورتیں سمجھ رکھا ہے ان سے پوچھو کہ کیا جب وہ پیدا ہوئے تو تم وہاں موجود تھے ؟ تم یہ نہ سمجھو کہ ہم تمہاری ان باتوں سے بےخبر ہیں سب ہمارے پاس لکھی ہوئی ہیں اور قیامت کے دن تم سے ان کا سوال بھی ہو گا جس سے تمہیں ڈرنا چاہیے اور ہوشیار رہنا چاہیے پھر ان کی مزید حماقت بیان فرماتا ہے کہ کہتے ہیں ہم نے فرشتوں کو عورتیں سمجھا پھر ان کی مورتیں بنائیں اور پھر انہیں پوج رہے ہیں اگر اللہ چاہتا تو ہم میں ان میں حائل ہو جاتا اور ہم انہیں نہ پوج سکتے پس جبکہ ہم انہیں پوج رہے ہیں اور اللہ ہم میں اور ان میں حائل نہیں ہوتا تو ظاہر ہے کہ ہماری یہ پوجا غلط نہیں بلکہ صحیح ہے پس پہلی خطا تو ان کی یہ کہ اللہ کے لئے اولاد ثابت کی دوسری خطایہ کہ فرشتوں کو اللہ کی لڑکیاں قرار دیں تیسری خطا یہ کہ انہی کی پوجا پاٹ شروع کر دی ۔ جس پر کوئی دلیل و حجت نہیں صرف اپنے بڑوں اور اگلوں اور باپ دادوں کی کورانہ تقلید ہے چوتھی خطا یہ کہ اسے اللہ کی طرف سے مقدر مانا اور اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ اگر رب اس سے ناخوش ہوتا تو ہمیں اتنی طاقت ہی نہ دیتا کہ ہم ان کی پرستش کریں اور یہ ان کی صریح جہالت و خباثت ہے اللہ تعالیٰ اس سے سراسر ناخوش ہے ۔ ایک ایک پیغمبر اس کی تردید کرتا رہا ایک ایک کتاب اس کی برائی بیان کرتی رہی جیسے فرمان ہے ( وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ هَدَى اللّٰهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلٰلَةُ ۭ فَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِيْنَ 36؀ ) 16- النحل:36 ) ، یعنی ہر امت میں ہم نے رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا دوسرے کی عبادت سے بچو ۔ پھر بعض تو ایسے نکلے جنہیں اللہ نے ہدایت کی اور بعض ایسے بھی نکلے جن پر گمراہی کی بات ثابت ہو چکی تم زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیسا براحشر ہوا ؟ اور آیت میں ہے ۔ ( وَسْـَٔــلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُّسُلِنَآ اَجَعَلْنَا مِنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِهَةً يُّعْبَدُوْنَ 45؀ۧ ) 43- الزخرف:45 ) ، یعنی تو ان رسولوں سے پوچھ لے جنہیں ہم نے تجھ سے پہلے بھیجا تھا کیا ہم نے اپنے سوا دوسروں کی پرستش کی انہیں اجازت دی تھی ؟ پھر فرماتا ہے یہ دلیل تو ان کی بڑی بودی ہے اور بودی یوں ہے کہ یہ بےعلم ہیں باتیں بنا لیتے ہیں اور جھوٹ بول لیتے ہیں یعنی یہ اللہ کی اس پر قدرت کو نہیں جانتے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

15۔ 1 عِبَاد سے مراد فرشتے اور جُزْء سے مراد بیٹیاں یعنی فرشتے، جن کو مشرکین اللہ کی بیٹیاں قرار دے کر ان کی عبادت کرتے تھے۔ یوں وہ مخلوق کو اللہ کا شریک اور اس کا جزء مانتے تھے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤] یہ تو تھے اللہ کے بندوں پر احسانات & چاہئے تو یہ تھا کہ انسان اللہ کے ان احسانات اور انعامات کے بدلے اس کا ممنون احسان ہوتا اور اس کا شکر ادا کرتا۔ مگر اس نے نہ صرف یہ کہ اللہ کی ناقدر شناسی کی، بلکہ مزید ستم یہ ڈھایا کہ اس کی ذات اور صفات کے حصے بخرے کر ڈالے اور کئی چیزوں کو اس کی ذات وصفات میں اس کا حصہ دار اور ہمسر بنا ڈالا۔ اس نے اللہ کی اولاد قرار دی۔ حالانکہ اللہ ہر چیز کا خالق اور مالک ہے۔ جبکہ اولاد نہ مخلوق ہوتی ہے اور نہ مملوک۔ اولاد تو اسی کی جنس سے اور اس کا حصہ ہوتی ہے۔ اس طرح انہوں نے اللہ سبحانہ کی ذات کو کئی حصوں میں بانٹ ڈالا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) وجعلوا لہ من عبادہ جزئاً : اس آیت کا تعلق آیت (٩):(ولئن سالتھم من خلق السموت والارض لیقولن خلقھن العزیز العلیم) کے ساتھ ہے، اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو مشرکین کی جہالت پر تعجب دلاتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ دیکھو یہ لوگ مانتے ہیں کہ آسمان و زمین کا خلاق اور ان کی ہر چیز کا مدبر اللہ تعالیٰ ہے، جو مخلوق سے جدا ہے اور کسی طرح محتاج نہیں، پھر اس کے لئے شریک اور اس کی اولاد بناتے ہیں۔ اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ جو آسمان و زمین کو پیدا کرنے کی طاقت رکھتا ہے وہ مدد کے لئے یا دل لگانے کے لئے کسی کا محتاج نہیں، کیونکہ یہ دونوں نقص کی علامتیں ہیں۔ پھر ظلم دیکھو کہ عباد (غلاموں) کو اولاد قرار دے رہے ہیں، جب کہ اولاد غلام ہو ہی نہیں سکتی، کیونکہ وہ تو باپ کا جزو ہوتی ہے۔ جب کوئی اللہ کا جزو ثابت ہوگیا تو اللہ تعالیٰ کا اس کا محتاج ہونا بھی ثابت ہوگیا ۔ ” عبادہ “ میں فرشتے، جن اور انسان سبھی داخل ہیں۔ یہود و نصاریٰ نے عزیز و مسیح کو ابن اللہ قرار دیا، تو کچھ نام نہاد مسلمانوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کے نور کا ٹکڑا قرار دیا اور بعض نے کہا کہ پنج تن اللہ کے نور سے پیدا ہوئے ہیں۔ دیکھیے سورة توبہ کی آیت (٣٠) کی تفسیر۔ مشرکین فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ انہوں نے ان کے بت عورتوں کی شکل میں بنا رکھے تھے۔ یہی دیویاں تھیں جن کی وہ عبادت کرتے تھے۔ (٢) ان الانسان لکفور مبین : صریح ناشکرا اس لئے کہ جس پروردگار نے اسے پیدا کیا، زمین و آسمان اور کل کائنات پیدا فرمائی، اس کا شکر ادا کرتے ہوئے اس کو ایک مان کر اس اکیلے کی بندگی کرنے کے بجائے اس نے اس کے بندوں کو اس کی اولاد قرار دے کر صفات ہی میں نہیں اس کی ذات میں بھی شریک ٹھہرا دیا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَجَعَلُوا لَهُ مِنْ عِبَادِهِ جُزْءًا (And they have attributed to Him [ that He is composed on parts [ and that too ] out of His slaves...43:15) &parts& in this verse means &offspring&, because the polytheists used to say that angels are daughters of Allah, and by using the word &parts& instead of &offspring& the fallacy of their claim has been pointed out on pure logical ground. The gist of the argument is that had Allah any offspring, that offspring will have been His part, because a son is a part of his father, and it is a rule of logic that an entity that consists of parts is dependent upon its parts for its full existence. This will then necessarily mean that Allah Ta’ ala is also dependent on His offspring, which is obviously impossible, because dependence of any kind, being a negation of the Divine Majesty, is out of question in Allah&s case.

(آیت) وَجَعَلُوْا لَهٗ مِنْ عِبَادِهٖ جُزْءًا۔ (اور انہوں نے خدا کے بندوں میں سے خدا کا جزو ٹھہرایا) یہاں جزو سے مراد اولاد ہے کہ مشرکین فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہا کرتے تھے اور اولاد کے بجائے جزو کا لفظ اختیار کر کے مشرکین کے اس دعوائے باطل کی عقلی تردید کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے۔۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر اللہ کے کوئی اولاد ہو تو وہ اس کی جزو ہوگی کیونکہ بیٹا باپ کا جزو ہوتا ہے، اور یہ عقلی قاعدہ ہے کہ ہر کل اپنے وجود میں جزو کا محتاج ہوتا ہے تو اس سے لازم آئے گا کہ معاذ اللہ خدا تعالیٰ بھی اپنی اولاد کا محتاج ہو۔ اور ظاہر ہے کہ کسی بھی قسم کی احتیاج شان خداوندی کے بالکل منافی ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَجَعَلُوْا لَہٗ مِنْ عِبَادِہٖ جُزْءًا۝ ٠ ۭ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَكَفُوْرٌ مُّبِيْنٌ۝ ١٥ ۧ عبد والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب : الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] . الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] . والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة، والناس في هذا ضربان : عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] . العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے وہ دوقسم پر ہیں ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔ ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔ جزء جُزْءُ الشیء : ما يتقوّم به جملته، كأجزاء السفینة، وأجزاء البیت، وأجزاء الجملة من الحساب قال تعالی: ثُمَّ اجْعَلْ عَلى كُلِّ جَبَلٍ مِنْهُنَّ جُزْءاً [ البقرة/ 260] ، وقال عزّ وجل : لِكُلِّ بابٍ مِنْهُمْ جُزْءٌ مَقْسُومٌ [ الحجر/ 44] ، أي : نصیب، وذلک جزء من الشیء، وقال تعالی: وَجَعَلُوا لَهُ مِنْ عِبادِهِ جُزْءاً [ الزخرف/ 15] ، وقیل : ذلک عبارة عن الإناث، من قولهم : أَجْزَأَتِ المرأة : أتت بأنثی «1» . وجَزَأَ الإبل : مَجْزَءاً وجَزْءاً : اکتفی بالبقل عن شرب الماء . وقیل : اللّحم السمین أجزأ من المهزول «2» ، وجُزْأَة السکين : العود الذي فيه السیلان، تصوّرا أنه جزء منه . ( ج ز ء) جزء الشئی چیز کا وہ ٹکڑا جس سے وہ چیز مل کر بنے ۔ جیسے اجزاء السفینۃ اجزاء البیت اور حساب میں اجزا الجملۃ ( یعنی کل مجموعہ کے اجزاء ) وغیرہ محاورات بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ ثُمَّ اجْعَلْ عَلى كُلِّ جَبَلٍ مِنْهُنَّ جُزْءاً [ البقرة/ 260] پھر ان کا ایک ایک ٹکڑا ہرا یک پہاڑ پر رکھو اور ۔ لِكُلِّ بابٍ مِنْهُمْ جُزْءٌ مَقْسُومٌ [ الحجر/ 44] ہر ایک دروازے کے لئے ان میں ایک حصہ تقسیم کردیا گیا ہے ۔ وَجَعَلُوا لَهُ مِنْ عِبادِهِ جُزْءاً [ الزخرف/ 15] اور انہوں نے اس کے بندوں میں سے اس کے لئے اولاد مقرر کی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ جزاء ا سے مراد انا ث ہیں میں انہوں نے فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیا اور یہ اجزات المرءۃ کے محاورہ سے مشتق ہے جس کے معنی مادیتہ اولاد کو جنم دینا کے ہیں ۔ جزء الابل مجزء وجزا اونٹ ترگھاس کھانے کی وجہ سے پانی سے بےنیاز ہوگئے محاورہ ہے :۔ الحم السمین اجزء من المھزول موٹا گوشت وبلے گوشت سے زیادہ کفایت کرنے والا ہوتا ہے ۔ جزءۃ السلین چھری کا وستہ کیونکہ وہ اس کا ایک حصہ ہوتا ہے ۔ إنس الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب «1» ، وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی: وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان/ 49] . وقیل ابن إنسک للنفس «2» ، وقوله عزّ وجل : فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء/ 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه/ 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور/ 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه «3» ، وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي . ( ان س ) الانس یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ { وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا } ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ { فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا } ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا } ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔ كفر ( ناشکري) الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وكُفْرُ النّعمة وكُفْرَانُهَا : سترها بترک أداء شكرها، قال تعالی: فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء/ 94] . وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ، فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان/ 50] ويقال منهما : كَفَرَ فهو كَافِرٌ. قال في الکفران : لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] ، وقال : وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة/ 152] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ کفر یا کفر ان نعمت کی ناشکری کر کے اسے چھپانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء/ 94] ؂ تو اس کی کوشش رائگاں نہ جائے گی ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان/ 50] مگر اکثر لوگوں نے انکار کرنے کے سوا قبول نہ کیا ۔ اور فعل کفر فھوا کافر ہر دو معانی کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ معنی کفران کے متعلق فرمایا : ۔ لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] تاکہ مجھے آز مائے کر میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت کرتا ہوم ۔ اور جو شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے ۔ اور جو ناشکری کرتا ہے ۔ تو میرا پروردگار بےپروا اور کرم کر نیوالا ہے ۔ وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة/ 152] اور میرا احسان مانتے رہنا اور ناشکری نہ کرنا ۔ مبینبَيَان والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم : البیان يكون علی ضربین : أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة . والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم/ 10] . وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] ، وسمّي الکلام بيانا لکشفه عن المعنی المقصود إظهاره نحو : هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 138] . وسمي ما يشرح به المجمل والمبهم من الکلام بيانا، نحو قوله : ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة/ 19] ، ويقال : بَيَّنْتُهُ وأَبَنْتُهُ : إذا جعلت له بيانا تکشفه، نحو : لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] ، وقال : نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص/ 70] ، وإِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات/ 106] ، وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف/ 52] ، أي : يبيّن، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] . البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر ( بھیجا تھا ۔ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] اور ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادات ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ اور کلام کو بیان کہا جاتا ہے کیونکہ انسان اس کے ذریعہ اپنے مافی الضمیر کو ظاہر کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 138] ( قرآن لوگوں کے لئے بیان صریح ہو ۔ اور مجمل مہیم کلام کی تشریح کو بھی بیان کہا جاتا ہے جیسے ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة/ 19] پھر اس ( کے معافی ) کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے ۔ بینہ وابنتہ کسی چیز کی شروع کرنا ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] تاکہ جو ارشادت لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص/ 70] کھول کر ڈرانے والا ہوں ۔إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات/ 106] شیہ یہ صریح آزمائش تھی ۔ وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف/ 52] اور صاف گفتگو بھی نہیں کرسکتا ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] . اور جهگڑے کے وقت بات نہ کرسکے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

مگر بنو ملیح والوں نے تو فرشتوں ہی کو اللہ کی بیٹیاں بنا ڈالا حقیقتا یہ لوگ صاف طور پر اللہ تعالیٰ کے منکر ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥{ وَجَعَلُوْا لَـہٗ مِنْ عِبَادِہٖ جُزْئً ا } ” اور انہوں نے اس کے بندوں میں سے اس کا ایک ُ جزوٹھہرایا۔ “ یعنی اس کے بعض بندوں کو اس کی اولاد قرار دے دیا۔ انسان کی اولاد دراصل اس کا جزو ہی ہوتا ہے۔ باپ کے جسم سے ایک سیل (spermatozone) نکل کر ماں کے جسم کے سیل (ovum) سے ملتا ہے اور ان دو cells کے ملاپ سے بچے کی تخلیق ہوتی ہے ۔ - ۔ - cells ماں اور باپ کے اپنے اپنے جسموں کے جزوہی ہوتے ہیں۔ { اِنَّ الْاِنْسَانَ لَـکَفُوْرٌ مُّبِیْنٌ } ” یقینا انسان بہت کھلا نا شکرا ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

15 "To make part of Allah" implies declaring a servant of Allah His offspring, for an offspring inevitably is homogeneous with and a part of the father's body, and regarding somebody as Allah's son or daughter means that he or she is being made a partner in Allah's Being. Besides, another form of making a creature a part of Allah is that it should be regarded as possessor of the attributes and powers as are specifically Allah's own, and it should be invoked under the same concept, or rites of worship performed before it, or its sanctities observed and regarded as imperative and binding, for in that case man divides divinity and providence between Allah and His servants and hands over a part of it to the servants.

سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :15 جُزء بنا دینے سے مراد یہ ہے کہ اللہ کے کسی بندے کو اس کی اولاد قرار دیا جائے ، کیونکہ اولاد و لامحالہ باپ کی ہم جنس اور اس کے وجود کا ایک جزء ہوتی ہے ، اور کسی شخص کو اللہ کا بیٹا یا بیٹی کہنے کے معنی ہی یہ ہیں کہ اسے اللہ کی ذات میں شریک کیا جا رہا ہے ۔ اس کے علاوہ کسی مخلوق کو اللہ کا جزء بنانے کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ اسے ان صفات اور اختیارات کا حامل قرار دیا جائے جو اللہ ہی کے ساتھ مخصوص ہیں ، اور اسی تصور کے تحت اس سے دعائیں مانگی جائیں ، یا اس کے آگے عبودیت کے مراسم ادا کیے جائیں ، یا اس کی تحریم و تحلیل کو شریعت واجب الاتباع ٹھہرا لیا جائے ۔ کیونکہ اس صورت میں آدمی اُلوہیت و ربوبیت کو اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان بانٹتا ہے اور اس کا ایک جز بندوں کے حوالے کر دیتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

5: مشرکینِ عرب یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ فرشتے اﷲ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ یہاں سے اُن کے اِس عقیدے کی تردید کی جارہی ہے، اور اُس کے خلاف چار دلیلیں اگلی آیتوں میں (آیت نمبر ۲۱ تک) پیش کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ اﷲ تعالیٰ کے لئے کوئی اولاد ہونا ناممکن ہے، اس لئے کہ اولاد ماں باپ کا جز ہوتی ہے، کیونکہ وہ اُن کے نطفے سے پیدا ہوتی ہے، اور اﷲ تعالیٰ کا کوئی جز نہیں ہوسکتا، وہ ہر قسم کے اجزاء سے پاک ہے، لہٰذا اس کی کوئی اولاد نہیں ہوسکتی۔ دوسرے یہ کہ ان مشرکین کا اپنا حال یہ ہے کہ وہ اپنے لئے بیٹیوں کی ولادت کو عار سمجھتے ہیں، اور اگر کسی کے یہاں کوئی لڑکی پیدا ہوجاتی ہے تو وہ اس پر بہت مغموم ہوتا ہے، اب یہ عجیب بات ہے کہ بیٹی کو خود اپنے لئے تو عیب سمجھتے ہیں، اور اﷲ تعالیٰ کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اُس کی بیٹیاں ہیں۔ تیسرے اِس عقیدے کی رو سے فرشتے مونث قرار پاتے ہیں۔ حالانکہ وہ مونث نہیں ہیں۔ چوتھے اگرچہ عورت ہونا حقیقت میں کوئی عیب یا عار کی بات نہیں ہے، لیکن عام طور سے عورتوں کی صلاحیتیں مردوں کے مقابلے میں کم ہوتی ہیں، کیونکہ اُن کی زیادہ توجہ زیورات اور زیب وزینت کی طرف رہتی ہے، اور اپنی بات کو خوب واضح کرکے کہنے کی صلاحیت بھی اکثر اُن میں کم ہوتی ہے۔ لہٰذا اگر بالفرض اﷲ تعالیٰ کو کوئی اولاد رکھنی منظور ہوتی تو وہ مونث ہی کا کیوں انتخاب فرماتا؟

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(43:15) وجعلوا لہ میں جعلوا کی ضمیر فاعل جمع مذکر غائب کا مرجع کفار ہیں اور لہ میں ہ کا مرجع اللہ ہے۔ انہوں نے بنادیا اس کیلئے من عبادہ : من تبعیضیہ ہے عبادہ مضاف مضاف الیہ۔ جزئ۔ حصہ۔ اولاد۔ جزء الشیء چیز کا وہ ٹکڑا جس سے وہ چیز مل کر بنے۔ اولاد کو بھی جس کا ٹکڑا کہتے ہیں کیونکہ اولاد باپ کے نطفہ سے بنتی ہے اور نطفہ انسان کا جزو ہوتا ہے اس لئے اولاد کو بھی جسم کا ٹکڑا کہتے ہیں۔ بخاری (رح) نے حضرت مسور بن مخرمہ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ :۔ فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس نے اس کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔ ترجمہ آیت :۔ اور انہوں نے اس (اللہ) کے لئے اس کے بعض بندوں کو (اس کا) جزو قرار دیا۔ یا بنادیا۔ اس کلام کا تعلق آیت : ولئن سئالتھم ۔۔ الخ (آیت 9 سورة ہذا) سے ہے۔ دونوں آیتوں میں نہایت تضاد ہے۔ سابق کلام میں جب اقرار کرلیا کہ اللہ ارض و سماوات کا خالق ہے تو پھر کسی مخلوق کو اس کا جزو کہنا بالکل ممکن نہیں۔ جو ذات قابل تجزیہ ہوتی ہے وہ نہ واجب الوجود ہوسکتی ہے اور نہ خالق ۔ (تفسیر مظہری) ان الانسان : ان حرف مشبہ بالفعل بمعنی تحقیق، بلاشک، یقینا، الانسان بمعنی القائل ما تقدم (جلالین) یہاں انسان سے مراد برعایت ال : وہ لوگ ہیں جن کا پہلے ذکر ہوچکا ہے یعنی کفار۔ لکفور میں لام تاکید کا ہے کفور صفت مشبہ کا صیغہ واحد مذکر ، بہت ناشکرا کفروان و کفور (نصر) سے مصدر بھی ہے۔ مبین : اسم فاعل واحد مذکر ، ظاہر کرنے والا۔ ابانۃ (باب افعال) مصدر۔ اس مصدر سے فعل لازم بھی آتا ہے اور متعدی بھی ، اس لئے مبین کے معنی ظاہر بھی ہے اور ظاہر کرنے والا بھی، یہاں بطور لازم آیا ہے بمعنی ظاہر، کھلا ہوا۔ صریحا۔ یہاں کفار کی حد سے بڑھی ہوئی جہالت کو بیان کرنے کے لئے ان حرف تحقیق لام تاکید۔ (صفت مشبہ) اور مبین بیک وقت استعمال کیا گیا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 جزء سے شریک یا اولاد میں سے خا ص طور پر بیٹیاں مراد ہیں اور محاورہ میں ( اجزات المراہ) کے معنی ہیں عورت نے مادین اولاد کو جنم دیا۔ ( قرطبی) 1 جو اپنے مالک کی شان اور عظمت کو نہیں سمجھتا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ اس لئے کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ اتنا بڑا کفر کرتا ہے کہ اس کو صاحب جزو قرار دیتا ہے جو مستلزم حدوث کو ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : ” اللہ “ کی توحید کا اقرار کرنے کے باوجود مشرک دوسروں کو اللہ تعالیٰ کا شریک بناتا ہے۔ یہ اس کی واضح طور پر ناشکری کی دلیل ہے۔ اس جاری خطاب میں اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے مشرکین کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا کہ اگر ان سے پوچھا جائے کہ زمین و آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے ؟ تو ان کا جواب ہوتا ہے اور ہوگا کہ زمین و آسمانوں کو صرف ایک ” اللہ “ نے پیدا کیا ہے۔ اس کے بعد اپنی آٹھ قدرتوں اور نعمتوں کا ذکر فرمایا جس سے تمام انسان مستفید ہوتے ہیں۔ مشرکین اللہ تعالیٰ کی خالقیّت کا اعتراف کرنے اور اس کی نعمتوں سے مستفید ہونے کے باوجود ” اللہ “ کے بندوں میں سے کچھ بندوں کو اس کا حصہ بناتے ہیں۔ جو مشرک کفر اور اس کی ناشکری کی واضح نشانی ہے۔ قوم نوح (علیہ السلام) نے پانچ فوت شدگان کو اللہ تعالیٰ کا جز بنایا۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم نے اپنے بادشاہ کو رب تسلیم کیا۔ فرعون نے اپنے آپ کو ” رب الاعلیٰ “ کے طور پر منوایا۔ یہودیوں نے عزیر (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا قرار دیا۔ عسائیوں نے عیسیٰ ( علیہ السلام) اور ان کی والدہ مریم (علیہ السلام) کو رب کا جز بنایا۔ امت مسلمہ اس حد تک گراوٹ کا شکار ہوئی کہ ایک فرقہ پنچتن پاک کی محبت میں شرک کا ارتکاب کر رہا ہے۔ امت مسلمہ کی کثیر تعداد نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ” نور من نور اللہ “ کے طور پر متعارف کروایا اور یارسول اللہ کہہ کر آپ سے مدد مانگتے ہیں۔ کسی کو داتا گنج بخش کہا، کسی کو دستگیر کے لقب سے یاد کیا۔ کسی کو گنج بخش کے طور پر اور کسی کو امام بری، میری قسمت کردے ہری بھری کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ کسی کو عزت کا مالک سمجھتے ہوئے اس طرح پکارا جاتا ہے کہ شہباز قلندرمیری پت رکھنا۔ کسی کو لجپال کہا جاتا ہے نہ معلوم مشرکین نے کس کس کو کیا کیا اختیارات سونپ رکھے ہیں۔ یہاں شرک کو پرلے درجے کی ناشکری قراردیا گیا ہے۔ شرک کرنے والا اس لیے ناشکرا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی عزت و عظمت کی خاطر اسے صرف اپنے سامنے جھکنے اور دردر کی ٹکروں سے بچنے کا حکم دیا۔ لیکن مشرک عقیدہ توحید پر راضی اور شکرگزار ہونے کی بجائے دردر کی ٹھوکروں کو اختیار کرتا ہے۔ اس سے بڑھ کر انسان کی ناشکری کیا ہوسکتی ہے ؟ اسی حالت کے بارے میں ارشاد فرمایا۔ ” یکسو ہو کر اللہ کے بندے بن جاؤ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شریک بنائے گا گویا وہ آسمان سے گرپڑا۔ اسے پرندے اچک لے جائیں گے یا ہوا اس کو ایسی جگہ لے جا کر پھینک دے گی جہاں اس کے چیتھڑے اڑ جائیں گے۔ “ [ الحج : ٣١]

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ١٥ تا ٢٥ قرآن مجید اس افسانوی عقیدے پر اس طرح حملہ آور ہوتا ہے کہ اس کا ہر طرف سے محاصرہ کرلیا جاتا ہے اور ان کی اپنی دنیا میں ہر طرف سے اس کا مقابلہ کیا جاتا ہے یہاں تک ان کے ذہنوں تک اس کے پہنچنے کی ہر راہ بند کردی جاتی ہے۔ اور پھر قرآنی استدلال خود ان کی منطق اور ان کے مسلمات کی اساس پر ہے اور یہ دلائل ان کی زندگی کے واقعات پر ہیں۔ نیز قرآن مجید ان کے سامنے اقوام سابقہ کی مثال بھی پیش کرتا ہے کہ جس نے بھی یہ عقیدہ اختیار کیا ہے ہم نے اس سے عبرت آموز انتقام لیا ہے۔ آغاز اس عقیدے کی کمزوری سے کیا جاتا ہے اور یہ کہ خدا کے نزدیک یہ ایک عظیم گناہ ہے اور صریح کفر ہے۔ وجعلوا لہ ۔۔۔۔۔ لکفور مبین (٤٣ : ١٥) “ ان لوگوں نے اس کے بندوں میں سے بعض کو اس کا جزء بنا ڈالا حقیقت یہ ہے کہ انسان کھلا احسان فراموش ہے ”۔ فرشتے تو اللہ کے بندے ہیں اور ان کو اللہ کی بیٹیاں کہنے کا مطلب یہ ہوا کہ ان کو اللہ کی صفت عبودیت سے محروم کردیا گیا۔ اور ان کو اللہ کی قریبی رشتہ داری کا مقام دے دیا گیا۔ حالانکہ وہ ساری مخلوقات کی طرح مخلوق ہیں۔ اور اللہ کے بندے ہیں۔ کوئی ایسی دلیل نہیں ہے کہ ہم ان کو اللہ کی بندگی کے بجائے کوئی اور صفت دیں۔ اور ان کا اور ان کے رب کا کوئی اور تعلق بتائیں۔ جبکہ اللہ کی تمام مخلوقات۔۔۔ اس کے بندے بندیاں ہیں۔ لہٰذا جو لوگ اس قسم کے دعوے کرتے ہیں وہ بلاشبہ کفر کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ان الانسان لکفور مبین (٤٣ : ١٥) “ بیشک انسان کھلا احسان فراموش ہے ”۔ اس کے بعد ان کے خلاف ان کے عرف اور ان کی ذہنیت سے دلیل دی جاتی ہے اور اس طرح یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ ان کو دعویٰ کس قدر غلط اور اللہ کے حق میں کس قدر توہین آمیز ہے کہ تم فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہتے ہو۔ ام اتخذ مما یخلق بنت واصفکم بالبنین (٤٣ : ١٦) “ کیا اللہ نے اپنی مخلوق میں سے اپنے لیے بیٹیاں انتخاب کیں اور تمہیں بیٹوں سے نوازا ”۔ اگر اللہ نے اولاد پیدا ہی کرنی تھی تو یہ کیسے ہوا کہ خود تو بیٹیاں پیدا کیں اور تم کو بیٹوں سے نوازا۔ اور کیا ان کے لئے ایسی بات کہنا مناسب ہے کہ خود وہ بیٹی پیدا ہونے سے بہت سخت کبیدہ خاطر ہوتے ہیں۔ واذا بشر احدھم ۔۔۔۔۔۔ وھو کظیم (٤٣ : ١٧) “ اور حال یہ ہے کہ جس اولاد کو یہ لوگ اس خدائے رحمٰن کی طرف منسوب کرتے ہیں اس کی ولادت کا مژدہ جب خود ان میں سے کسی کو دیا جاتا ہے تو اس کے منہ پر سیاہی چھا جاتی ہے اور وہ غم سے بھر جاتا ہے ” ۔ کیا ادب ، احترام اور انسانیت کا تقاضا یہ نہ تھا کہ جس اولاد کی پیدائش سے وہ خود کبیدہ خاطر ہوتے ہیں اس کی نسبت رحمٰن کی طرف نہ کریں۔ خود تو یہ لوگ لڑکیاں ہونے پر اس قدر خفا ہوتے ہیں کہ چہرے سیاہ ہوجاتے ہیں اور کسی کو منہ نہیں دکھاتے اور ولادت کو چھپاتے پھرتے ہیں اور قریب ہوتا ہے کہ اس غم کی وجہ سے مر ہی جائیں۔ کیا وہ کمزور مخلوق جو زیورات میں پلتی ہے اور نہایت ہی ناز اور نخرے میں زندہ رہتی ہے اور اپنا ما فی الضمیر بھی پیش نہیں کرسکتی اور نہ جنگ و قتال میں حصہ لیتی ہے ، اس کی نسبت خدا کی طرف کرتے ہیں ، جبکہ خود اپنے لیے ایسی اولاد چاہتے ہیں جو تیز و طرار ہو اور جنگ کے موقعے پر گھوڑ سوار ہو۔ غرض قرآن یہاں ان کی نفسیات کو سامنے رکھ کر بحث کرتا ہے اور ان کو شرمندہ کرتا ہے کہ جس اولاد کو تم اپنے لیے پسند نہیں کرتے وہ اللہ کے لئے پسند کرتے ہو۔ اگر تم نے یہ حماقت کرنی ہی تھی تو تم اللہ کے لئے ایسی نسبت کرتے جسے تم خود بھی اپنے لیے پسند کرتے ہو اگر یہ کفر تم نے کرنا ہی تھا۔ اب ان کے اس افسانوی عقیدے کو اس دوسرے زاویہ سے گھبرا جانا ہے۔ دعویٰ یہ ہے کہ فرشتے لڑکیاں ہیں۔ آخر کس بنیاد پر وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں۔ وجعلوا الملئکۃ ۔۔۔۔۔۔۔ ویسئلون (٤٣ : ١٩) “ انہوں نے فرشتوں کو جو خدائے رحمٰن کے خاص بندے ہیں ، عورتیں قرار دیا کیا ان کے جسم کی ساخت انہوں نے دیکھی ہے۔ ان کی گواہی لکھ لی جائے گی اور انہیں اس کی جوابدہی کرنی ہو گی ”۔ کیا جب فرشتے پیدا کئے جا رہے تھے تو یہ لوگ وہاں موجود تھے کہ وہ بیٹیاں ہیں کیونکہ جو شخص ایک دعویٰ کرتا ہے اس کے پاس چشم دید شہادت ہونی چاہئے جو اس کے دعوے کو ثابت کرے۔ وہ یہ دعویٰ تو نہ کرتے تھے اور نہ کرسکتے تھے کہ انہوں نے فرشتوں کے جسم کی ساخت دیکھی ہے ۔ لیکن باوجود اس کے کہ انہوں نے یہ ساخت نہیں دیکھی پھر بھی یہ دعویٰ کرتے ہیں اور شہادت دیتے ہیں لہٰذا اب اس جھوٹی شہادت کے نتائج برداشت کرنے کے لئے تیار ہوجائیں۔ ستکتب شھادتھم ویسئلون (٤٣ : ١٩) “ ان کی گواہی لکھ لی جائے گی اور انہیں اس کی جواب دہی کرنی ہوگی ”۔ اس کے بعد ان کی اس افتراء پردازی پر مزید بحث کی جاتی ہے اور اس کے لئے وہ جو جھوٹے دلائل لاتے تھے ان کا رد کیا جاتا ہے۔ وقالوا لو شاء ۔۔۔۔۔ الا یخرصون (٤٣ : ٢٠) “ وہ کہتے ہیں کہ اگر خدائے رحمٰن چاہتا تو ہم کبھی ان کو نہ پوجتے ، یہ اس معاملے کی حقیقت کو قطعی نہیں جانتے۔ محض تیز تکے لڑاتے ہیں ”۔ جب ان کو قوی دلائیل کے ذریعہ سے ہر طرف سے گھیرا جاتا ہے۔ اور ان کا یہ افسانوی عقیدہ ان کے سامنے تہس نہس ہوجاتا ہے تو پھر وہ نظریہ مشیت الٰہی کا سہارا لیتے ہیں یہ کہ اللہ دراصل فرشتوں کی عبادت پر خوش ہے۔ اگر اللہ راضی نہ ہوتا تو ان کے لئے یہ عبادت کرنا ممکن ہی نہ ہوتا۔ اللہ سختی سے ہمیں منع کردیتا۔ یہ دراصل ایک دھوکہ ہے ، یہ در ست ہے کہ اس کائنات کی ہر چیز اللہ کی مشیت سے واقع ہوتی ہے لیکن اللہ کی مشیت کے دائرے میں تو یہ بات بھی ہے کہ انسان ہدایت بھی لے سکتا ہے اور گمراہی کا راستہ بھی لے سکتا ہے اور اللہ نے انسان پر یہ فریضہ قرار دیا ہے کہ وہ ہدایت اختیار کرے اور اس پر اللہ راضی ہوتا ہے۔ اور اگر انسان گمراہ اور کافر ہو تو اللہ ناراض ہوتا ہے۔ اگرچہ اللہ کی مشیت نے اسے ہدایت و گمراہی دونوں کے قابل بنایا ہے۔ وہ مشیت الہٰیہ کے نظریہ سے دھوکہ دیتے ہیں۔ خود ان کا بھی یہ عقیدہ نہیں ہے کہ اللہ نے یہ ارادہ فرمایا ہے کہ لوگ فرشتوں کی پوجا کریں۔ یہ یقین وہ تو نہیں رکھتے۔ ما لھم بذلک من علم ان ھم الا یخرصون (٤٣ : ٢٠) “ یہ اس معاملے کی حقیقت کو نہیں جانتے محض تیر تکے اڑاتے ہیں ”۔ اور اوہام و خرافات پر یقین کرتے ہیں۔ ام اتینھم کتبا من قبلہ فھم بہ مستمسکون (٤٣ : ٢١) “ کیا ہم نے ان سے پہلے کوئی کتاب ان کو دی تھی جس کی سند یہ اپنے پاس رکھتے ہیں ”۔ اور ان کا دعویٰ اس کتاب کے نصوص پر مبنی ہے۔ اور اپنی یہ عبادت انہوں نے اس کتاب سے اخذ کی ہے۔ اور اس کے دلائل ان کے پاس موجود ہیں ؟ یوں ان لوگوں کے لئے نقلی دلیل کی راہ بھی بند کردی جاتی ہے۔ اور یہ بتایا جاتا ہے کہ عقائد و نظریات ، واہی تباہی باتوں اور اندھیرے میں تیر تکے چلانے سے ثابت نہیں ہوتے ، محض ظن وتخمین سے عقائد ثابت نہیں ہوتے۔ عقائد تو اللہ کی کتابوں سے صریح طور پر ثابت ہوتے ہیں۔ اب آخر میں بتایا جاتا ہے کہ ان کے پاس اپنے اس افسانوی عقیدے پر واحد دلیل جو عینی شہادت پر مبنی نہیں ہے اور کسی کتاب سے بھی ماخوذ نہیں بلکہ صرف یہ ہے کہ : بل قالوا انا ۔۔۔۔۔ مھتدون (٤٣ : ٢٢) “ نہیں بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایا اور ہم انہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں ”۔ یہ ایک نہایت مضحکہ خیز استدلال ہے۔ پھر دلیل کے اعتبار سے بھی یہ ایک گری ہوئی بات ہے۔ یہ محض نقالی اور تقلید ہے اور اس پر کوئی غوروفکر انہوں نے نہیں کیا ہے ۔ اور صحیح استدلال اور منطقی انداز میں اس پر غور نہیں کیا ۔ ان کی مثال ایک ریوڑ کی طرح ہے جسے ہانکنے والا جس طرف چاہتا ہے ، لے جاتا ہے۔ کوئی پوچھتا نہیں کہ اس طرف ہمیں کیوں چلایا جا رہا ہے ، ہم کہاں جا رہے ہیں اور کیوں جا رہے ہیں ؟ اسلام فکری اور آزادی کا بھی ایک پیغام ہے اور شعور و نظریہ کی آزادی کی ایک تحریک ہے۔ اسلام اس قسم کی جامد تقلید کو تسلیم نہیں کرتا۔ وہ گناہ اور گمراہی کو محض اس لیے برداشت نہیں کرتا کہ ہمارے آباؤ اجداد ایسا کرتے تھے۔ ہر کام ، ہر سند ار ہر بات پر دلیل چاہئے۔ ہر اقدام سے پہلے غوروفکر کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد اسے علم و یقین پر مبنی خود مختاری دی گئی ہے۔ آخر میں بتایا جاتا ہے کہ اس قسم کے افسانوی عقائد جنہوں نے اختیار کئے اور محض نقالی اور جامد تقلید کی راہ اختیار کی ایسے لوگوں کا انجام تاریخ میں کیا ہوا ، جن کے سامنے حقیقت بیان کردی گئی اور ان کو یہ بہانہ بھی ختم کردیا گیا کہ ہم تک تو صحیح بات ہی نہیں پہنچی اور پھر بھی انہوں نے حقیقت کو تسلیم کرنے سے منہ موڑا۔ وکذلک ما ارسلنا۔۔۔۔۔۔ مقتدون (٤٣ : ٢٣) قال اولو ۔۔۔۔۔ بہ کفرون (٤٣ : ٢٤) فانتقمنا ۔۔۔۔۔ عاقبۃ المکذبین (٤٣ : ٢٥) “ اسی طرح تم سے پہلے جس بستی میں بھی ہم نے کوئی نذیر بھیجا ، اس کے کھاتے پیتے لوگوں نے یہی کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایا ہے اور ہم انہی کے نقش قدم کی پیروی کر رہے ہیں۔ ہر نبی نے ان سے پوچھا ، کیا تم اسی ڈگر پر چلے جاؤ گے خواہ میں تمہیں اس راستے سے زیادہ صحیح راستہ بتاؤں جس پر تم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے ؟ انہوں نے سارے رسولوں کو یہی جواب دیا کہ جس دین کی طرف بلانے کے لئے تم بھیجے گئے ہو ، ہم اس کے کافر ہیں۔ آخرت کا ہم نے ان کی خبر لے ڈالی اور دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا ”۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ تمام روگردانی کرنے والوں کی دلیل و مزاج ایک ہوتے ہیں۔ یہ کہ “ ہم نے اپنے باپ دادا کو اس طریقہ پر پایا اور ہم ان کے نقش قدم پر چلتے ہیں ”۔ بس نقالی آنکھیں بند کر کے ، عقل اندھی ہوجاتی ہے جو لوگ غوروفکر کے بغیر تقلید کرتے ہیں۔ اگرچہ ان کے سامنے جو بات پیش کی جاتی ہے وہ تقلیدی نظریات و اعمال سے زیادہ معقول کیوں نہ ہو۔ اس کی پشت پر دلائل و شواہد کا انبار کیوں نہ ہو۔ ایسی فطرت کے لوگوں کو ہلاک کرنا ہی بہتر ہے جو آنکھ نہیں کھولتے کہ دیکھیں ، دل نہیں کھولتے کہ سمجھیں دماغ نہیں کھولتے کہ دلائل کا وزن کریں۔ اس قسم کے لوگوں کا یہی انجام ہوتا ہے اور ان کے سامنے اسے پیش کیا جاتا ہے کہ سمجھ کر اس سے بچیں اور اس راہ کے انجام سے خبردار ہوں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد تجویز کرنے والوں کی تردید، فرشتوں کو بیٹیاں بتانے والوں کی جہالت اور حماقت مشرکین عرب اور دیگر مشرکین جو دنیا میں پھیلے ہوئے تھے اور اب بھی پائے جاتے ہیں جن میں نصاریٰ بھی ہیں انہوں نے اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد تجویز کرلی، سب جانتے ہیں کہ اولاد اپنے باپ کا جزو ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد تجویز کرنا اس کے لیے جزو تجویز کرنا ہوا۔ اہل عرب فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں بتاتے تھے جیسا کہ نصاریٰ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اور یہود حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا بتاتے ہیں، اللہ تعالیٰ شانہٗ نے مشرکین کا یہ عقیدہ بیان فرما کر ارشاد فرمایا ﴿ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَكَفُوْرٌ مُّبِيْنٌؕ (رح) ٠٠١٥﴾ (بلاشبہ انسان صریح ناشکرا ہے) اس پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرے لیکن وہ تو توحید کے خلاف بات کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد تجویز کرتا ہے۔ یہ منعم حقیقی کی شکر گزاری کے تقاضوں کے خلاف ہے اور صریح ناشکری ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

10:۔ ” وجعلوا لہ “ تا ” عقبۃ المکذبین “ شکوی ہے۔ مشرکین کے اعتراف (دلیل عقلی) سے اور پھر دلیل پر تنویر سے ثابت ہوگیا کہ ہر چیز کا خالق اور سب کچھ کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے اب مشرکین مکہ پر شکوی کیا گیا جو فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں اور اس کے نائب متصرف مانتے تھے۔ جزءا ای ولدا، ولد کو جزء سے تعبیر کیا گیا اور مراد اس سے نائب متصرف ہے نہ کہ حقیقی ولد جیسا کہ کئی جگہوں میں اس مضمون کو اتخاذ ولد (بیٹا بنا لینا) سے تعبیری کیا گیا ہے۔ ای قالوا الملائکۃ بنات اللہ (مدارک ج 4 ص 87) ۔ یا جزء کے معنی برابر اور ہمسر کے ہیں۔ امام قتادہ فرماتے ہیں۔ جزء سے معبود غیر اللہ مراد ہے۔ حاصل یہ ہے کہ اس اعتراف کے باوجود کہ ساری کائنات کا خالق اللہ ہے، پھر بھی مشرکین اس کی مخلوق کو اور اس کے بندوں کو اس کی عبادت و تعظیم میں اور اس کی صفات میں اس کا شریک بناتے ہیں۔ جزءا ای عدلا ؟ عن قتادۃ یعنی ما عبد من دون اللہ عز و جل (قرطبی ج 16 ص 69) ۔ وقال قتدۃ جزءا ای ندا (بحر ج 8 ص 8) ۔ بیشک انسان نہایت ہی نا شکگر گذار ہے اور اس کی ناشکر گذاری بالکل واضح اور ظاہر ہے کہ وہ اپنے خالق ومالک کو اور ساری کائنات کے بادشاہ کو بھی اپنی صفات میں یگانہ اور وحدہٗ لا شریک لہ نہیں مانتا اور العیاذ باللہ اسے نائبین کا محتاج سمجھتا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(15) اور دین حق کے منکروں نے اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے بعض بندوں کو اس جزو اور حصہ اور ٹکڑا بنارکھا ہے واقعی انسان کھلا ہوا ناسپاس اور ناشکرگزار ہے۔ یعنی ایک طرف بندوں پر اس کے یہ احسانات اور دوسری طرف بندوں کی یہ جرات اور دلیری کو اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے بعض بندوں کو اللہ تعالیٰ کی اولاد اور بیٹیاں کہتے ہیں حالانکہ اولاد تو باپ کا حصہ اور جز ہوتی ہے یہ کتنی بڑی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ جو ہر قسم کے عیوب سے پاک ہے یہ اس کا تجزیہ کررہے ہیں اور اس کو بانٹ رہے ہیں۔ نعوذ باللہ من ذلک