Surat uz Zukhruf

Surah: 43

Verse: 16

سورة الزخرف

اَمِ اتَّخَذَ مِمَّا یَخۡلُقُ بَنٰتٍ وَّ اَصۡفٰکُمۡ بِالۡبَنِیۡنَ ﴿۱۶﴾

Or has He taken, out of what He has created, daughters and chosen you for [having] sons?

کیا اللہ تعا لٰی نے اپنی مخلوق میں سے بیٹیاں تو خود رکھ لیں اور تمہیں بیٹوں سے نوازا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Or has He taken daughters out of what He has created, and He has selected for you sons? This is a denunciation of them in the strongest terms, as He goes on to say: وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُم بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحْمَنِ مَثَلًإ ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ام اتخذ بما یخلق بنت…: ان کی ناشکری کی انتہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اولاد ٹھہرائی تو بیٹیاں جو بیٹوں سے کم تر ہوتی ہیں، جب کہ اپنے لئے وہ بیٹوں کے خواہشمند ہیں۔” ام “ (یا) سے پہلے ایک جملہ محذوف ہے، یعنی (کیا اسے زبردستی لڑکیاں دے دی گئی ہیں جنھیں وہ ہٹا نہیں سکا) یا خود ہی اپنی ساری قدرت و اختیار کے باوجود لڑکیاں لینے پر راضی ہوگیا اور تمہیں بیٹے دینے کے لئے چن لیا ، حالانکہ کم تر چیز پر تو کوئی بیوقوف ہی راضی ہوتا ہے۔ سوچو ! تم اللہ کی کتنی بڑی گستاخی کر رہے ہو۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَمِ اتَّخَذَ مِمَّا يَخْلُقُ بَنٰتٍ وَّاَصْفٰىكُمْ بِالْبَنِيْنَ۝ ١٦ أَمْ»حرف إذا قوبل به ألف الاستفهام فمعناه : أي نحو : أزيد أم عمرو، أي : أيّهما، وإذا جرّد عن ذلک يقتضي معنی ألف الاستفهام مع بل، نحو : أَمْ زاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصارُ [ ص/ 63] أي : بل زاغت . ( ا م حرف ) ام ۔ جب یہ ہمزہ استفہام کے بالمقابل استعمال ہو تو بمعنی اور ہوتا ہے جیسے ازید فی الدار ام عمرو ۔ یعنی ان دونوں میں سے کون ہے ؟ اور اگر ہمزہ استفہام کے بعد نہ آئے تو بمعنیٰ بل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ { أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ } ( سورة ص 63) ( یا) ہماری آنکھیں ان ( کی طرف ) سے پھر گئی ہیں ۔ أخذ ( افتعال، مفاعله) والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» . الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے ( ابْنُ ) أصله : بنو، لقولهم في الجمع : أَبْنَاء، وفي التصغیر : بُنَيّ ، قال تعالی: يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف/ 5] ، يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات/ 102] ، يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان/ 13] ، يا بنيّ لا تعبد الشیطان، وسماه بذلک لکونه بناء للأب، فإنّ الأب هو الذي بناه وجعله اللہ بناء في إيجاده، ويقال لكلّ ما يحصل من جهة شيء أو من تربیته، أو بتفقده أو كثرة خدمته له أو قيامه بأمره : هو ابنه، نحو : فلان ابن الحرب، وابن السبیل للمسافر، وابن اللیل، وابن العلم، قال الشاعر أولاک بنو خير وشرّ كليهما وفلان ابن بطنه وابن فرجه : إذا کان همّه مصروفا إليهما، وابن يومه : إذا لم يتفكّر في غده . قال تعالی: وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة/ 30] وقال تعالی: إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود/ 45] ، إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف/ 81] ، وجمع ابْن : أَبْنَاء وبَنُون، قال عزّ وجل : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل/ 72] ، وقال عزّ وجلّ : يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف/ 67] ، يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف/ 31] ، يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] ، ويقال في مؤنث ابن : ابْنَة وبِنْت، وقوله تعالی: هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود/ 78] ، وقوله : لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود/ 79] ، فقد قيل : خاطب بذلک أکابر القوم وعرض عليهم بناته «1» لا أهل قریته كلهم، فإنه محال أن يعرض بنات له قلیلة علی الجمّ الغفیر، وقیل : بل أشار بالبنات إلى نساء أمته، وسماهنّ بنات له لکون کلّ نبيّ بمنزلة الأب لأمته، بل لکونه أكبر وأجل الأبوین لهم كما تقدّم في ذکر الأب، وقوله تعالی: وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل/ 57] ، هو قولهم عن اللہ : إنّ الملائكة بنات اللہ . الابن ۔ یہ اصل میں بنو ہے کیونکہ اس کی جمع ابناء اور تصغیر بنی آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف/ 5] کہ بیٹا اپنے خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا ۔ يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات/ 102] کہ بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ ( گویا ) تم کو ذبح کررہاہوں ۔ يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان/ 13] کہ بیٹا خدا کے ساتھ شریک نہ کرنا ۔ يا بنيّ لا تعبد الشیطانبیٹا شیطان کی عبادت نہ کرنا ۔ اور بیٹا بھی چونکہ اپنے باپ کی عمارت ہوتا ہے اس لئے اسے ابن کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ باپ کو اللہ تعالٰٰ نے اس کا بانی بنایا ہے اور بیٹے کی تکلیف میں باپ بمنزلہ معمار کے ہوتا ہے اور ہر وہ چیز جو دوسرے کے سبب اس کی تربیت دیکھ بھال اور نگرانی سے حاصل ہو اسے اس کا ابن کہا جاتا ہے ۔ نیز جسے کسی چیز سے لگاؤ ہوا است بھی اس کا بن کہا جاتا جسے : فلان ابن حرب ۔ فلان جنگ جو ہے ۔ ابن السبیل مسافر ابن اللیل چور ۔ ابن العلم پروردگار وہ علم ۔ شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) یہ لوگ خیر وزر یعنی ہر حالت میں اچھے ہیں ۔ فلان ابن بطنہ پیٹ پرست فلان ابن فرجہ شہوت پرست ۔ ابن یومہ جو کل کی فکر نہ کرے ۔ قرآن میں ہے : وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة/ 30] اور یہود کہتے ہیں کہ عزیز خدا کے بیٹے ہیں اور عیسائی کہتے میں کہ مسیح خدا کے بیٹے ہیں ۔ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود/ 45] میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں میں ہے ۔ إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف/ 81] کہ اب آپکے صاحبزادے نے ( وہاں جاکر ) چوری کی ۔ ابن کی جمع ابناء اور بنون آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل/ 72] اور عورتوں سے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کئے يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف/ 67] کہ بیٹا ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا ۔ يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف/ 31] ( 3 ) اے نبی آدم ہر نماز کے وقت اپنے تیئں مزین کیا کرو ۔ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] اے نبی آدم ( دیکھنا کہیں ) شیطان تمہیں بہکانہ دے ۔ اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع بنات آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود/ 78] ( جو ) میری ) قوم کی ) لڑکیاں ہیں تمہارے لئے جائز اور ) پاک ہیں ۔ لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود/ 79] تمہاری ۃ قوم کی ) بیٹیوں کی ہمیں کچھ حاجت نہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے اکابر قوم خطاب کیا تھا اور ان کے سامنے اپنی بیٹیاں پیش کی تھیں ۔ مگر یہ ناممکن سی بات ہے کیونکہ نبی کی شان سے بعید ہے کہ وہ اپنی چند لڑکیاں مجمع کثیر کے سامنے پیش کرے اور بعض نے کہا ہے کہ بنات سے ان کی قوم کی عورتیں مراد ہیں اور ان کو بناتی اس لئے کہا ہے کہ ہر نبی اپنی قوم کے لئے بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے بلکہ والدین سے بھی اس کا مرتبہ بڑا ہوتا ہے جیسا کہ اب کی تشریح میں گزر چکا ہے اور آیت کریمہ : وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل/ 57] اور یہ لوگ خدا کے لئے تو بیٹیاں تجویز کرتے ہیں ۔ کے مونی یہ ہیں کہ وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتی ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٦۔ ١٨) تو کیا اللہ نے اپنے لیے فرشتوں کو بیٹیاں بنا کر پسند کیا اور اے بنو ملیح تمہارے لیے بیٹوں کو منتخب کیا حالانکہ جب تم میں سے کسی کو لڑکی ہونے کی خبر دی جاتی ہے تو وہ مغموم اور پریشان ہوجاتا ہے اور دل ہی دل میں کڑھتا رہتا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اللہ کے لیے وہ چیز پسند کرتے ہو جسے اپنے لیے گوارا نہیں کرتے تو کیا جو عادتا بناؤ سنگھار میں نشو و نما پائے اور وہ مباحثہ میں قوت بیانیہ بھی نہ رکھے تو کیسے زیبا ہوسکتا ہے کہ اللہ اولاد بنانے کے لیے عورتوں ہی کو منتخب کرے۔ ان لوگوں نے فرشتوں ہی کو عورت قرار دے رکھا ہے کیا یہ فرشتوں کی پیدائش کے وقت موجود تھے کہ ان کو معلوم ہوگیا کہ وہ عورتیں ہیں تو ضرور اس بات سے انکار کریں گے تو آپ ان سے فرما دیجیے کہ ان کا یہ جھوٹا دعوی کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں لکھ لیا جاتا ہے اور قیامت میں ان سے اس کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٦ { اَمِ اتَّخَذَ مِمَّا یَخْلُقُ بَنٰتٍ وَّاَصْفٰٹکُمْ بِالْبَنِیْنَ } ” کیا اس نے بنا لی ہیں اپنی مخلوق میں سے بیٹیاں اور تمہیں پسند کرلیا ہے بیٹوں کے ساتھ ! “ یہ مضمون بہت تکرار کے ساتھ قرآن میں آیا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٦۔ ٣٠۔ مشرکین مکہ نے بت پرستی کے کفر میں یہ کفر جمع کئے تھے ایک تو اللہ تعالیٰ کو صاحب اولاد ٹھہرایا تھا دوسرے اولاد کی قسم میں لڑکیوں کو خود اپنے حق میں اچھا نہیں جانتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی طرف اس کو منسوب کرتے تھے تیسرے بغیر جانے بوجھے غیب کی باتوں میں دخل دیتے تھے کہ فرشتے مرد نہیں عورتیں ہیں اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں طرح طرح سے ان مشرکوں کو قائل کیا ہے پہلے فرمایا کہ کیا اللہ نے تم کو تو بیٹے دیئے اور اپنی ذات کے لئے بیٹیاں چھانٹیں خود تمہارا تو یہ حال ہے کہ لڑکی کے پیدا ہونے کی خبر سن کر منہ بنا لیتے ہو اور اللہ تعالیٰ کی طرف لڑکیوں کو نسبت دیتے ہو پھر فرمایا کہ لڑکی کی ذات جو گہنے پاتے میں پلے اور کام پڑے پر جس کے منہ سے پوری بات بھی نہ نکل سکے ایسی چیز کو اللہ کی طرف منسوب کرتے ہو۔ تفسیر قتادہ ١ ؎ میں عورتوں کی یہ ایک جبلی بات بیان کی گئی ہے کہ عورت جب کسی کو الزام لگانے کی غرض سے کوئی بات کہتی ہے تو اس طرح کی الٹی تقریر کرتی ہے کہ جس سے خود اسی پر الزام آتا ہے آخر کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے فرمایا کہ اے رسول اللہ کے ان مشرکوں سے یہ تو پوچھو کہ جس وقت اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو پیدا کیا اس وقت یہ مشرک لوگ کیا وہاں آسمان پر موجود تھے انہوں نے دیکھا ہے کہ اللہ کے فرشتے مرد نہیں عورتیں ہیں یا اللہ ان مشرکوں پر کوئی کتاب آسمان سے اتاری ہے جس میں لکھا ہے کہ اللہ کے فرشتے عورتیں ہیں پھر فرمایا کہ نہ فرشتوں کی پیدائش کے وقت یہ مشرک موجود تھے نہ قرآن شریف سے پہلے کوئی کتاب اللہ تعالیٰ نے ان پر اتاری ہے بلکہ اپنے بڑوں سے جو کچھ انہوں نے سنا ہے وہی کہتے ہیں اور جو کچھ انہوں نے اپنے بڑوں کو کرتے دیکھا ہے وہی کرتے ہیں اس واسطے سوا اس کے یہ لوگ اور کچھ جواب ہی نہیں دے سکتے کہ ہم اپنے بڑوں کی چال چلن پر ہیں اور یہ بات کچھ نہیں ہے جب سے دنیا میں شرک پھیلا ہے اور بت پرستی کی رسم پڑی ہے پچھلے لوگ بھی یہی کہتے آئے ہیں کہ بت پرستی اللہ کے ارادہ کے موافق نہ ہوتی تو ہم اور ہمارے بڑے اس بت پرستی پر کیوں جمے رہتے اور یہی کہہ کر اللہ کے رسولوں کو جھٹلاتے رہے ہیں اور جس طرح اب ان مشرکوں کو سمجھایا جاتا ہے اسی طرح ان کو بھی طرح طرح سے سمجھایا گیا کہ بت پرستی اللہ کو ناپسند نہ ہوتی تو مثلاً قوم ثمود سے پہلے قوم نوح اور قوم عاد پر عذاب کیوں آتا اور جب وہ سمجھانے سے نہ مانے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر کا ان سے بدلہ لے لیا اور طرح طرح کے عذابوں سے ان کو غارت کردیا اگر یہ لوگ سمجھانے سے نہ مانیں گے تو اخیر یہی انجام انکا ہوگا اللہ سچا ہے اللہ کا وعدہ سچا ہے اس وعدے کا جو ظہور بدر کی لڑائی کے وقت ہوا۔ صحیح بخاری ١ ؎ و مسلم کی انس (رض) بن مالک کی روایت سے اس کا ذکرجگہ جگہ گزر چکا ہے آگے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ ذکر فرما کر یوں ان مشرکوں کو قائل کیا کہ یہ مشرک اپنے آپ کو ملت ابراہیمی پر بتاتے ہیں اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا بڑا گنتے ہیں کیا ان لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ اس بت پرستی کے سبب سے حضرت ابراہیم اپنے باپ اپنی ساری قوم کے دشمن ہوگئے اگر یہ مشرک اپنے بڑوں کی چال پر چلتے ہیں تو اپنے بڑوں کے بڑے حضرت ابراہیم کی چال پر کیوں نہیں چلتے پھر فرمایا بات یہ ہے کہ عمرو بن لحی کے زمانہ سے جو دین ابراہیم و اسمعیل (علیہما السلام) بگڑا اور مکہ میں بت پرستی کی رسم پھیلی اس وقت سے نبی آخر الزمان کے عہد تک اللہ تعالیٰ نے ان مشرکوں کو اور ان کی چند پشتوں کو باوجود بت پرستی کے اس حکمت سے ان کے حال پر چھوڑ رکھا تھا کہ نبی آخر الزمان کی ہدایت سے یہ مکہ کے لوگ اپنے قدیم بزرگوں کی طرح ملت ابراہیمی پر قائم ہوجائیں اور چند پشت سے انہوں نے خانہ خدا میں بت پرستی جو پھیلا رکھی ہے وہ دور ہوجائے لیکن ان لوگوں کا یہ حال ہے کہ اللہ کے کلام کو جادو اور اللہ کے رسول کو جادوگر بتاتے ہیں عمرو بن لحی جس کا ذکر اس آیت کی تفسیر میں آیا ہے یہ وہی شخص ہے جس کو صحیح حدیثوں میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اسی شخص نے ملت ابراہیمی کو بگاڑا اس نے شام کے ملک سے اور جدہ سے بت لا کر مکہ میں بت پرستی پھیلائی اسی کو دوزخ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیکھا کہ وہ آگ میں جل رہا تھا اور اپنی انتڑیاں آگ میں کھینچے کھینچے پھرتا تھا۔ صحیح ١ ؎ بخاری و مسلم میں حضرت عائشہ اور ابوہریرہ (رض) سے روایتیں ہیں ان میں یہ ذکر تفصیل سے ہے کہ عمرو بن لحی کو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوزخ میں جلتے اپنی انتڑیاں آگ میں کھینچے کھینچے پھرتے ہوئے دیکھا اسی ذکر میں آپ نے یہ بھی فرمایا یہ وہی شخص ہے جس نے ملت ابراہیمی کو بگاڑا اور مکہ میں بت پرستی پھیلائی۔ (١ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ١٥ ج ٦۔ ) (١ ؎ صحیح بخاری باب قتل ابی جھل ص ٥٦٦ ج ٢۔ ) (١ ؎ صحیح بخاری تفسیر سورة مائدۃ ص ٢٦٦٥۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(43:16) ام : استفہام انکاری کے معنی میں آیا ہے۔ اتخذ ماضی واحد مذکر غائب (ضمیر فاعل اللہ کی طرف راجع ہے) اتخاذ (افتعال) مصدر اس نے اختیار کیا۔ اس نے پسند کیا۔ مما : من حرف جار۔ اور ما موصولہ سے مرکب ہے۔ یخلق صلہ ہے اپنے موصول کا نبات مفعول فعل اتخذ کا۔ کیا جو مخلوق اس نے پیدا کی ہے اس میں سے اس نے اپنے لئے بیٹیوں کو ہی پسند کیا ہے ؟ یہاں ام استفہام انکاری بطور زجر و توبیخ آیا ہے یعنی ایسا ہرگز ہرگز نہیں یہ تمہارا سراسر افتراء ہے۔ واصفکم : اصفی ماضی واحد مذکر غائب اصفاء (افعال) مصدر بمعنی منتخب کرنا۔ برگزیدہ کرنا۔ کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ اور تمہیں چن لیا (بیٹوں کے لئے) ۔ اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے الکم الذکر ولہ الانثی ۔ تلک اذا قسمۃ ضیزی (53:21 :22) کیا تمہارے لئے تو بیٹے ہوں اور اس (اللہ) کے لئے بیٹیاں یہ تو پھر بڑی ڈھنگی اور بھونڈی تقسیم ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی یہ انتہائی تعجب کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عمدہ چیز بیٹے تو تم کو دے دی اور نکمی چیز بیٹیاں اپنے لئے رکھ لی۔ مطلب یہ ہے کہ تم اپنے لئے بیٹے پسند کرتے ہو اور اللہ تعالیٰ کے لئے بیٹیاں ” تلک اذا اقسمد ضمیری) (النجم :22)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ١٦ تا ٢٥۔ اسرار ومعارف۔ اور جز یا اولاد بھی ایسی تجویز کی کہ گویا اللہ نے اپنے لیے بیٹیاں پسند کیں اور تمہیں بیٹے عطا کردیے کہ مشرکین عرب فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہا کرتے تھے اور اگر تم میں سے کسی کو ایسی خوش خبری سنائی جائے یعنی بیٹی پیدا ہونے کی اطلاع ملے تو تمہارے منہ لٹک جاتے ہیں چہرے کی رنگت سیاہ ہوجاتی ہے اور دل ہی دل میں بہت دکھ محسوس کرتے ہو حالانکہ بیٹیاں اس طرح کوئی ذلت کی بات نہیں مگر یہ ضرور ہے کہ وہ بناؤ سنگھار میں پرورش والی ہوتیں ہیں اور مردوں کے مقابل قوت بیانیہ میں کمزور۔ بناؤ سنگھار خواتین کے لیے۔ یہاں ثابت ہے کہ عورتوں کے لیے بناؤ سنگھار جائز ہے مگر اس میں اس قدر انہماک کہ ہمہ وقت اسی میں لگی رہے درست نہیں نیز ضعف عقل اور رائے کی کمزوری کی دلیل بھی ہے اور خواتین فطرتا مردوں کی نسبت قوت بیانیہ میں کمزور ہوتی ہیں بتانا کچھ ہوتا ہے مضمون کوئی اور ملادیتی ہیں یہ قاعدہ اکثریہ کے اعتبار سے ہے کسی ایک آدھ خاتون کا ایسا نہ ہونا اس کے منافی نہیں۔ اور انہوں نے فرشتوں تک کو جو اللہ کے بندے اور اس کی مخلوق عورتیں مان رکھا ہے حالانکہ انہیں نظر تک تو آتے نہیں اور کوئی اللہ کے بتانے سے ہی جان سکتا ہے تو کیا کسی نے ان میں سے انہیں بنتے اور پیدا ہوتے دیکھا ہے ہرگز نہیں تو جب انہوں نے دیکھا بھی نہیں اللہ نے کسی کتاب میں ایسی بات نہیں بتائی تو ان کا یہ دعوی کس قدر جھوٹا ہے نیز ان کا یہ جھوٹ لکھ دیا گیا ہے اور ان سے اس کی پرسش ہوگی پھر یہ کہتے ہیں کہ اگر اللہ نہ چاہتا تو ہم فرشتوں کو یا اللہ کے سوا دوسروں کو کیوں پوجتے اگر اس کے باوجود ہمیں رزق صحت مال واولاد دے رہا ہے تو اس کا مطلب ہے وہ اس پر خوش ہے اور انہیں اس بات تک کی خبر نہیں کہ ایک یہی اختیار تو انسان کے پاس ہے کہ وہ کس کا بندہ بن کر جیتا ہے اور کس عقیدے پر مرتا ہے ورنہ اور تو کچھ اس کے بس میں نہیں لہذا یہ فیصلہ ان کا اپنا ہے اور انہی کے حق میں ہے یہی خود بھگتیں گے اور اب بغیرعلم کے اٹکل پچو لگا رہے ہیں ورنہ کیا قرآن حکیم سے پہلے اللہ نے کوئی ایسی کتاب نازل فرمائی تھی جس کو مان کر ایسے عقیدے پر قائم ہیں ہرگز نہیں بلکہ اس بات کا تودعوی تک نہیں کرتے ہاں کہتے ہیں کہ باپ دادا کو اس عقیدے پر پایاہم نے لہذا ہم نے اسے اپنارکھا ہے اور یہی بات ان انبیاء سے جن کو ہم نے آپ سے پہلے مبعوث فرمایا۔ وہاں کے خوشحال لوگوں اور طبقہ امراء نے کہی تھی کہ ہمیشہ قیادت طبقہ امراء کے پاس ہوتی ہے اور غریب عموما پیچھے چلنے والے ہوتے ہیں انہوں نے بھی یہی کہا کہ ہم نے باپ دادا کو جس عقیدے اور مذہب پر پایا ہم اس پر قائم ہیں اور اللہ کے رسولوں نے ان سے کہا کہ محض باپ دادا کا اتباع کیے جاؤ گے یا حق اور ناحق میں فرق کرکے اگر تمہیں بہتر اور آسان راستہ ملے جو منزل مقصود پہ پہنچانے والا ہو اور یہی حق کی خصوصیت تو وہ اختیار کرو گے تب انہوں نے ماننے سے انکار کردیا کہ جو تم لائے اگرچہ وہ حق بھی ہے ہم قبول نہیں کریں گے جب وہ اس حد تک آگے بڑھ گئے تو پھر ہم نے ان سے انتقام لیا اور دیکھ لیجئے انبیاء کی تکذیب کرنے والوں کیسابرا انجام ہوا۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 16 تا 25 : اصفی ( اس نے چن لیا ، منتخب کرلیا) ظل ( ہوگیا ( ہوجاتا ہے) مسودا ( سیاہ تاریک) کظیم (گھٹنے والا) ینشوا ( پالا اور پرورش کیا جاتا ہے) الحلیۃ (زیور) الخصام ( جھگڑنا ، بحث کرنا) شھدوا (وہ حاضر تھے ، موجود تھے) یخرصون (وہ اٹل کی باتیں کرتے ہیں) مستمسکون ( تھامنے والے ، سنبھالنے والے) امۃ ( طریقہ ( امت ، جماعت) مترفون (عیش پسند ، مال دار) مقتدون ( پیروی کرنے والے) اھدی (زیادہ ہدایت) انتقمنا (ہم نے انتقام لیا) عاقبۃ (انجام ، نتیجہ) تشریح : آیت نمبر 16 تا 25 : ان آیات سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنی بہت سے نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے جیسے زمین و آسمان کی پیدائش اور ان کے درمیان انسان کی راحت و سکون کے بیشمار اسباب ، زمین میں چلنے پھرنے اور آنے جانے کے راستے ، بلندی سے پانی کے برسنے اور اس سے مردہ زمین میں نئی تر و تازگی پیدا کرنے جس سے زمین اور اس کی پیداوار سے زمین ہری بھری ہوجاتی ہے۔ ان بہت سی نعمتوں کا تقاضا تو یہ تھا کہ ان کی قدر کرتے ہوئے ہر آن اس کا شکریہ ادا کیا جاتا ۔ جن کے دلوں میں ایمان کی روشنی موجود ہے وہ تو اس کی قدر کرتے اور اس پر شکر ادا کرتے ہیں لیکن کفار و مشرکین کا یہ حال ہے کہ وہ نہ صرف نا شکری کرتے ہیں بلکہ انبیاء کرام (علیہ السلام) کے مقابلے میں اپنے گمراہ باپ دادا کی اندھی تقلید ، ضد ہٹ دھرمی اور نا فرمانیوں میں لگے ہوئے ہیں ۔ ان کی نافرمانی ، بےادبی اور گستاخی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ انہوں نے اللہ کے فرماں بردار بندوں اور فرشتوں کو اللہ کے وجود کا ایک حصہ ، جزو اور اولاد بنا کر پیش کرنا شروع کردیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ (نعوذ باللہ) یہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں جو قیامت میں اللہ کے سامنے ان کی سفارش کر کے ان کو اللہ کے غضب اور غصہ سے نجات دلا دئیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی ان جاہلانہ اور احمقانہ باتوں کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ ( اللہ کے نزدیک لڑکا اور لڑکی دونوں اس کی نعمتیں ہیں لیکن) ان کفار کا یہ حال ہے کہ خود تو وہ لڑکے چاہتے ہیں اور جب کبھی ان کو یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ ان کے گھر لڑکی پیدا ہوئی ہے تو ان کے چہرے سیاہ تاریک پڑجاتے ہیں ۔ دل ہی دل میں غم کے مارے گھٹتے رہتے ہیں۔ انہیں بیٹی کی پیدائش سے ایسی شرمندگی ہوتی ہے کہ وہ لوگوں سے چھپے چھپے پھرتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ وہ اس ذلت کو برداشت کرلیں یا اس لڑکی کو زندہ زمین میں گاڑ دیں ۔ فرمایا کیسی عجیب بات ہے کہ ان کے نزدیک تو لڑکی کا وجود ایک قابل نفرت چیز ہے اسے وہ انتہائی حقیر و ذلیل سمجھتے ہیں لیکن وہ اللہ کے لئے اسکے فرشتوں کو اس کی بیٹیاں ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں یہ کیسی بےانصافی اور نادانی کی بات ہے۔ فرمایا کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں کیسے ہو سکتی ہیں جن لڑکیوں کو زیور ، کپڑوں اور بنائو سنگھار سے فرصت نہیں ہوتی اور ان میں سے اکثریت ایسی ہے جو مردوں کی طرح نہ تو پر اعتماد انداز سے کلام کرسکتی ہیں اور نہ وہ اپنی بات منوا سکتی ہیں وہ اللہ کی اولاد کیسے ہو سکتی ہیں ۔ اللہ تو وہ ہے جو بیٹا ، بیٹی اور بیوی سے بےنیاز ہے اور فرشتے اللہ کی ایک مخلوق ہیں جو اللہ کے احکامات کی فرماں برداری کرنے والے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے گمراہ لوگوں سے سوال کیا ہے کہ جب اللہ نے ان فرشتوں کو پیدا کیا تھا تو کیا اس وقت یہ لوگ وہاں کھڑے ہوئے دیکھ رہے تھے ؟ یقینا یہ سب باتیں ان کے بےبنیاد خیالات ہیں جن پر وہ اپنے گمراہ باپ دادا کی اندھی تقلید کی وجہ سے ایسا کہتے اور سمجھتے ہیں ۔ فرمایا کہ اللہ ان کے تمام اعمال کو لکھ رہا ہے اور وہ ان کے کسی عمل سے بیخبر نہیں ہے۔ قیامت کے دن ان کے اعمال ان کے سامنے پیش کردیئے جائیں گے۔ کفار و مشرکین کی بےادبی ، گستاخی اور جہالت کی انتہاء یہ تھی کہ وہ اپنے گناہوں پر بھی یہ کہہ کر مطمئن ہوچکے تھے کہ ہم جو بھی گناہ اور شرک کے کام کرتے ہیں ان سے اللہ ناراض نہیں ہے کیونکہ اگر وہ ناراض ہوتا تو ہم یہ گناہ ہرگز نہ کرتے۔ گویا وہ یہ کہتے تھے کہ اس دنیا میں ہمارا کوئی اختیار نہیں ہے ہم جو بھی ثواب یا گناہ کا کام کرتے ہیں وہ اللہ کی مرضی سے کرتے ہیں ( نعوذ باللہ) انہوں نے کبھی یہ نہ سوچا کہ اگر ایک شخص چوری ، ڈاکہ ، قتل ، زنا اور بد کاری اور بڑے سے بڑے گناہ کو کرنے کے بعد یہ کہے کہ یہ سب کچھ میں نے خود نہیں کیا ہے بلکہ اللہ کی مرضی سے کیا ہے تو کیا دنیا کی کوئی عدالت یا کوئی انصاف پسند انسان اس کے اس جاہلانہ تصور کی حمایت کرسکے گا ؟ اگر دنیا کی عدالتیں اور انسان بھی ایسے لوگوں کا ساتھ نہیں دے سکتے تو وہ اللہ سے ایسی احمقانہ امیدیں کیوں باندھے ہوئے ہیں ۔ اللہ نے فرمایا کہ ان کی یہ باتیں بالکل بےبنیاد ہیں ۔ اگر اللہ نے ان باتوں کے ثبوت کے لئے کوئی کتاب نازل کی ہے تو وہ اس کو لے کر آئیں اور ثبوت کے طور پر پیش کریں ۔ دراصل ان کے پاس کوئی اس کی دلیل نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے فلاں فلاں کام کو کرتے ہوئے اپنے باپ دادا کو دیکھا ہے۔ فرمایا کہ یہ کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ان کے باپ دادا نے کوئی کام ایسا کیا ہو جو سراسر گناہ تھا اور ان کے پاس نہ تو کوئی علم ہدایت تھا نہ کوئی کتاب تھی ۔ اللہ نے اور اس کے پیغمبروں نے ہمیشہ یہی سوال کیا ہے کہ اگر ان کے باپ دادا کسی گناہ یا جہالت کی بات پر قائم تھے تو کیا وہ بےسوچے سمجھے ان کی اندھی تقلید کئے چلے جائیں گے ؟ کیا ان کے پاس عقل ، فہم اور سمجھ نہیں ہے ؟ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ تقلید بری چیز نہیں ہے کیونکہ اگر کوئی شخص ایسے آدمی کی تقلید کرتا ہے جس کی پوری زندگی اور اس کی زندگی کے اصولوں کی بنیاد کتاب و سنت پر ہے تو اس کے پیچھے چلنا یا اس کی تقلید کرنا تو عین ثواب ہے۔ دراصل دین اسلام میں اس تقلید کو اندھی تقلید کہا گیا ہے جو محض اپنے باپ ، دادا کی ہر بات کو اس لئے مان لیا جائے کہ اس کے باپ دادا نے ایسا کیا تھا خواہ اسکے باپ دادا گمراہ ہی کیوں نہ ہوں ۔ اگر غور کیا جائے تو دنیا میں ہر آدمی کسی نے کسی کی تقلید کرتا ہے اور اس کے طریقوں کو پسند کر کے اسی جیسا انداز اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ دین نے ہمیں اس کی ہدایت و رہنمائی فرمائی ہے کہ جس کی بھی تقلید کی جائے پہلے یہ دیکھ لیا جائے کہ اس کی زندگی کتاب و سنت یعنی اسلامی شریعت کے مطابق ہے یا نہیں ۔ اگر ہے تو نیک راہوں پر چلنے کے لئے اس کی بات مانی جائے اور اس کی تقلید کی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کے تمام پیغمبر ہمیشہ لوگوں کو برے اعمال کے برے نتائج اور اندھی تقلید سے بچاتے اور سمجھاتے رہے۔ جنہوں نے ان کی نافرمانی کی اللہ نے ان پر اپنا غضب نازل کیا اور ان سے شدید انتقام لے کر ان کو نشان عبرت بنا دیا ۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : ” اللہ “ کے بندوں میں کسی کو اس کا جز بنانے کا ثبوت۔ اہل مکہ نے خود ساختہ تصورات کی بنیاد پر کچھ شخصیات کو اللہ تعالیٰ کی ذات کا جز اور کچھ کو اس کی صفات کا مظہر بنا رکھا تھا۔ جن شخصیات کو اللہ تعالیٰ کا جز قرار دیتے تھے ان میں ملائکہ بھی شامل تھے۔ ملائکہ کے بارے میں ان کا عقیدہ تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ مشرکین کی مردہ فطرت کو بیدار کرنے کے لیے ان کی اپنی نفسانی خواہش پیش کر کے سوال کیا گیا ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے بیٹیاں پسند کی ہیں اور تمہارے لیے بیٹے پسند کرتا ہے ؟ حالانکہ تمہاری حالت یہ ہے کہ جب تم میں کسی کو بیٹی کی پیدائش کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ کالاہوجاتا اور وہ غم سے بھر جاتا ہے۔ کیا جو زیور میں پرورش پائے اور کسی بحث کے دوران اپنا مؤقف کھول کر بیان نہ کرسکے اسے ” الرحمن “ کے لیے پسند کرتے ہو اور اپنے لیے اسے عار سمجھتے ہو۔ غور کرو کہ یہ کیسی سوچ اور فیصلہ ہے ؟ جس بنا پر تم نے ملائکہ کو ” الرحمن “ کی بیٹیاں قرار دے رکھا ہے حالانکہ ملائکہ اس کے غلام ہیں۔ کیا یہ بات کہنے والے اس وقت موجود تھے ؟ کہ جب اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو اپنی بیٹیاں قرار دیا تھا کہ ان کی گواہی لکھ لی جائے۔ ایسی بات ہرگز نہیں ہوئی لہٰذا اس ہرزہ سرائی اور یہ عقیدہ رکھنے والوں کو قیامت کے دن پوچھا جائے گا۔ ملائکہ کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دینے والوں سے اللہ تعالیٰ نے پہلے تو بیٹیوں کی ولادت کے وقت جو ان کی حالت ہوتی ہے اس کا ذکر کیا ہے اور اس کے بعد ان سے دوسوال کیے ہیں۔ اولاد کی ضرورت انسان کو تین وجوہات کی بنا پر ہوتی ہے۔ 1 نسل کا تسلسل قائم رکھنا۔ 2 فطری جذبہ اور محبت کے تحت اولاد کی خواہش کرنا۔ 3 اولاد اپنے ماں باپ کا سہارا ہوتی ہے اس لیے ہر ماں باپ اولاد کا طلبگار ہوتا ہے لیکن والدین بیٹی کی بجائے بیٹے پسند کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تینوں قسم کے جذبات سے مبرّا ہے لہٰذا اسے اولاد کی ضرورت نہیں۔ جہاں تک فرشتوں کا معاملہ ہے وہ اس کی بیٹیاں نہیں بلکہ وہ اس کے عاجز اور تابع فرمان غلام ہیں جو اس کے حکم کے مطابق اس کی طرف سے تفویض کردہ کام سرانجام دیتے ہیں ان کی کیا مجال کہ وہ بال برابر بھی نافرمانی کر پائیں۔ 2 ۔ انسان اپنی فطرت اور ضرورت کے تحت بیٹیوں کی بجائے بیٹے پسند کرتا ہے۔ بیٹی پیدا ہونے سے والدین اپنی ذمہ داریوں میں اضافہ محسوس کرتے ہیں اور بیٹے کو اپنا مددگار اور سہارا سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان باتوں اور کمزوریوں سے مبرّا اور ماورأ ہے۔ اس لیے اسے بیٹے اور بیٹی کی ضرورت نہیں اور نہ اس کی شان ہے کہ وہ کسی کو بیٹا یا بیٹی بنائے۔ یہاں تک بیٹی کا معاملہ ہے وہ تو فطری طور پر مرد کے مقابلے میں ناتواں ہوتی ہے اور طبعی طور پر اچھے لباس اور زیور کو پسند کرتی ہے۔ وہ اپنی فطری حیا کی وجہ سے جھگڑے کے وقت اپنی بات کھل کر بیان نہیں کرسکتی۔ عورت میں فطری طور پر مرد کے مقابلے میں حیا زیادہ ہوتی ہے۔ اعصابی اور ذہنی اعتبار سے بھی عورت مرد کے مقابلے میں کمزور ہوتی ہے۔ اگر کسی وجہ سے کسی مرد کے ساتھ اس کا جھگڑا ہوجائے توحیا اور جذبات سے مغلوب ہو کر اپنا مؤقف بھی کھل کر بیان نہیں کرسکتی بیشک اس کا جھگڑا خاوند کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو۔ ایسا معاملہ بزرگوں کے سامنے پیش ہو تو اکثر عورتیں اپنی بات کرتے ہوئے رو پڑتی ہیں۔ بیٹیاں آزمائش ہیں : ماں، باپ کے لیے ساری اولاد آزمائش ہوتی ہے بالخصوص بیٹیاں بڑی آزمائش ہیں۔ (اِِنَّمَا اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلاَدُکُمْ فِتْنَۃٌ وَّاللّٰہُ عِنْدَہٗ اَجْرٌ عَظِیْمٌ) [ التغابن : ١٥] تمہارا مال اور تمہاری اولاد آزمائش ہے اور ” اللہ “ کے ہاں برا اجر ہے۔ “ (عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ عَالَ ثَلاَثَ بَنَاتٍ فَأَدَّبَہُنَّ وَزَوَّجَہُنَّ وَأَحْسَنَ إِلَیْہِنَّ فَلَہُ الْجَنَّۃُ ) [ رواہ ابو داؤد : باب فِی فَضْلِ مَنْ عَالَ یَتَامَی ] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے انہوں نے کہا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے تین بچیوں کی پرورش کی انہیں ادب سکھایا اور ان کی شادی کی اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا اس کے لیے جنت واجب ہوگئی۔ “ مسائل ١۔ بعض مشرک ملائکہ کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں سمجھتے ہیں حالانکہ اپنے لیے وہ بیٹوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ ٢۔ اکثر باپ بیٹی کی خوشخبری سن کر غم زدہ ہوجاتے ہیں۔ ٣۔ عورت فطری طور پر زیور کو پسند کرتی ہے اور جھگڑے کے وقت اپنا مؤقف کھل کر بیان نہیں کرسکتی۔ ٤۔ بعض مشرک ملائکہ کو خواہ مخواہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے ہیں۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کی اولاد ٹھہرانے والوں کو قیامت کے دن اچھی طرح پوچھ گچھ کی جائے گی۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دینے کا گناہ اور اس کی سزا : ١۔ ” اللہ “ اولاد سے پاک ہے۔ (الانعام : ١٠١) ٢۔ عیسیٰ (علیہ السلام) اور مریم [ خدا نہیں اللہ کے بندے تھے۔ (المائدۃ : ٧٥) ٣۔ کسی کو اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دینا سنگین ترین جرم ہے۔ (مریم : ٩١، ٩٢) ٤۔ اللہ تعالیٰ کی نہ بیوی ہے اور نہ اولاد۔ (الجن : ٣) ٥۔ اللہ تعالیٰ کو کسی نے جنم نہیں دیا نہ اس نے کسی کو جنم دیا ہے۔ (الاخلاص : ٣) ٦۔ کیا تمہارے رب نے تمہیں بیٹے دئیے ہیں اور خود فرشتوں کو بیٹیاں بنایا ہے ؟ یہ بڑی نامعقول بات ہے۔ (بنی اسرائیل : ٤٠) ٧۔ انہوں نے کہا اللہ کی اولاد ہے حالانکہ وہ اس سے پاک ہے۔ (البقرۃ : ١١٦) ٨۔ انہوں نے کہا ” الرحمن “ کی اولاد ہے حالانکہ وہ اولاد سے پاک ہے۔ (الانبیاء : ٢٦) ٩۔ اللہ تعالیٰ کی اولاد نہیں ہے نہ اس کے ساتھ کوئی اور الٰہ ہے۔ (المومنون : ٩١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

11:۔ ” ام تخذ مما یخلق۔ الایۃ “ استفہام انکاری ہے برائے تعجب۔ کیا تمہارے خیال باطل کے مطابق اللہ نے اپنی مخلوق میں سے اپنے لیے بیٹیاں منتخب کرلیں اور بیٹوں کو تمہارے لیے مختص کردیا ہے۔ یہ مشرکین کی جہالت و سرکشی پر اظہار تعجب ہے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف ایک ایسی چیز (بیٹیوں) کی نسبت کی جسے وہ خود نہایت ہی حقیر اور ذلیل سمجھتے ہیں ” واذا بشر احدہم الخ “ یہ ان کی حماقت و جہالت کا مزید بیان ہے۔ ضرب ای جعل مثلا ای صفۃ او حالا۔ قالہ الشیخ (رح) تعالیٰ یا مثلاً بمعنی شبھا ہے۔ ای بالجنس الذی جعلہ لہ مثلا ای شبھا (مدارک ج 4 ص 88) ۔ اور ان مشرکین کا اپنا حال یہ ہے کہ جس جنس (اناث) کو انہوں نے خداوند تعالیٰ کے مماث و مشابہ قرار دیا ہے اور اس کی طرف جس کی نسبت کی ہے جب وہ ان میں سے کسی کے گھر آ وارد ہو اور اسے یہ خبر ملے کہ اس کے گھر میں لڑکی پیدا ہوئی ہے تو حزن و ملال اور تاسف و ندامت سے اس کا چہرہ اتر جاتا اور وہ غم واندوہ میں ڈوب جاتا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(16) کیا اللہ تعالیٰ نے اپنی پیدا کردہ مخلوقات میں سے اپنے لئے بیٹیاں تجویز کیں اور تم کو بیٹوں کے ساتھ مخصوص کیا۔ یعنی کیا تم یہ کہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوقات میں سے اپنے لئے بیٹیاں تجویز کیں اور تم کو بیٹوں کے لئے چن لیا اور مخصوص کردیا یہ بہت ہی لغو بات ہے جو تم مہتے ہو اول تو اللہ تعالیٰ کے لئے اولاد کا قول بہت ہی نامناسب ہے کیونکہ اولاد جنسیت کو مستلزم ہے اور اللہ تعالیٰ کی کوئی جنس نہیں پھر اولاد میں سے بھی وہ ثابت کرتے ہو جو طبعاً ناقص ہے یعنی بیٹی اور خود اپنے لئے بیٹے چاہتے ہو خود تمہاری حالت ہے۔