Surat uz Zukhruf

Surah: 43

Verse: 2

سورة الزخرف

وَ الۡکِتٰبِ الۡمُبِیۡنِ ۙ﴿ۛ۲﴾

By the clear Book,

قسم ہے اس واضح کتاب کی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ha-Mim. By the manifest Book. means, plain and clear in both wording and meaning, because it was revealed in the language of the Arabs, which is the most eloquent language for communication among people. Allah says:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١] واضح کتاب کا لفظ بڑا وسیع مفہوم اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ کیونکہ یہ کتاب بہت سی باتوں کی وضاحت کرتی ہے۔ مثلاً یہ کتاب شرک کی جملہ اقسام کی وضاحت کرتی ہے۔ دین حق اور شریعت کے امور کی وضاحت کرتی ہے۔ احوال آخرت اور جنت و دوزخ کی وضاحت کرتی ہے۔ الغرض حق اور باطل کی ایک ایک چیز کو پوری وضاحت سے پیش کر رہی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

والکتب المبین : قسم اس بات کا یقین دلانے کے لئے اٹھائی جاتی ہے جو اس کے جواب میں کہی جاتی ہے پھر بعض اوقات کسی چیز کی قسم اس کی عظمت کے پیش نظر کھائی جاتی ہے، تاکہ مخاطب کو بات کا یقین آجائے، مثلاً اللہ تعالیٰ کی قسم اور بعض اوقات قسم جواب قسم کی دلیل ہوتی ہے۔ قرآن مجید کی اکثر قسمیں ایسی ہی ہیں۔ ” الکتب “ پر الف لام عہد کے لئے ہے ، اس لئے ترجمہ ” اس کتاب کی قسم “ کیا گیا ہے۔ یہاں قرآن مجید کی صفت ” المبین “ کو اس بات کی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے کہ اسے عربی قرآن بنا کر نازل کرنے والے ہم ہیں۔ اس کا ہر بات کو اتنے عمدہ طریقے سے کھول کر بیان کرنا شاہد ہے کہ یہ کسی انسان یا دوسری مخلوق کا کلام نہیں بلکہ رب العالمین کا نازل کردہ ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary This Surah is Makki, although Muqatil رحمۃ اللہ علیہ has said that the verse وَاسْأَلْ مَنْ أَرْ‌سَلْنَا (43:45) is Madam, and according to another view, this Surah was revealed in Heaven during Lailat-ul-Mi` raj (the Night of Ascention) (Ruh u1-Ma’ ani) - Allah knows best. Ha Meem- Only Allah knows its meaning. وَالْكِتَابِ الْمُبِينِ (By the manifest Book - 43:2) The book in this verse refers to the Holy Qur&an. Whenever Allah swears by anything, it is usually an argument for the statement that follows. Swearing by the Qur&an in this verse is an indication that the Qur&an, by virtue of being a miracle, is a proof in itself of its being a Divine Book. To call it a &manifest book& means that its subjects consisting of exhortations and advices are easily understandable; but as far as deduction of the precepts of &Shari&ah& is concerned, it certainly is a difficult job which cannot be performed without complete capability of &ijtihad&. This point has been clarified in Surah Alqamar, verse 17 وَلَقَدْ يَسَّرْ‌نَا الْقُرْ‌آنَ لِلذِّكْرِ‌ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ‌ (And indeed We have made the Qur&an easy for seeking advice. So, is there one to seek advice? - 54-17). Here, it has been stated that the Qur&an is easy for obtaining advice. Hence, it does not necessarily follow that ijtihad and inferring injunctions will be easy also; rather, it is proved through other evidences that full expertise in related subjects is a necessary condition for this exercise.

معارف ومسائل یہ سورت مکی ہے، البتہ حضرت مقاتل کا قول ہے کہ ( آیت) واسئل من ارسلنا الخ مدنی ہے، اور ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ سورت معراج کے وقت آسمان پر نازل ہوئی۔ (روح المعانی) واللہ اعلم (آیت) وَالْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ (قسم ہے کتاب واضح کی) اس سے مراد قرآن کریم ہے۔ اللہ تعالیٰ جب کسی چیز کی قسم کھاتے ہیں تو عموماً وہ چیز بعد کے دعوے کی دلیل ہوا کرتی ہے۔ یہاں قرآن کریم کی قسم کھا کر اس طرف اشارہ فرما دیا گیا ہے۔ قرآن بذات خود اپنے اعجاز کی وجہ سے اپنی حقانیت کی دلیل ہے اور قرآن کو واضح کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے وعظ و نصیحت پر مشتمل مضامین با آسانی سمجھ میں آجاتے ہیں لیکن جہاں تک اس سے احکام شرعیہ کے استنباط کا تعلق ہے وہ بلاشبہ ایک مشکل کام ہے، اجتہاد کی پوری صلاحیت کے بغیر انجام نہیں دیا جاسکتا۔ چناچہ دوسری جگہ یہ بات واضح کردی گئی ہے (آیت) ولقد یسرنا القرآن للذکر فھل من مد کر (اور بلاشبہ ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لئے آسان بنایا ہے، پس کیا ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا) اس میں فرما دیا گیا ہے کہ قرآن نصیحت اندوزی کے لئے آسان ہے لہٰذا اس سے اجتہاد واستنباط کا آسان ہونا لازم نہیں آتا بلکہ دوسرے دلائل سے ثابت ہے کہ اس کام کے لئے متعلقہ علوم میں پوری مہارت شرط ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢ { وَالْکِتٰبِ الْمُبِیْنِ } ” قسم ہے اس کتاب کی جو بالکل واضح ہے۔ “ یہاں پر چونکہ قرآن کی قسم کا ” جوابِ قسم “ یا مقسم علیہ محذوف ہے ‘ اس لیے اس قسم کا مقسم علیہ بھی سورة یٰسٓ کی آیت میں وارد الفاظ { اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ ۔ ہی کو مانا جائے گا۔ یہ نکتہ قبل ازیں سورة یٰسٓکی آیت ٣ کے ضمن میں واضح کیا جا چکا ہے کہ سورة یٰسٓ کے آغاز میں قرآن کی قسم چونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کی گواہی کے طور پر کھائی گئی ہے ‘ اس لیے قرآن کے ان تمام مقامات پر جہاں قرآن کی قسم کا مقسم علیہ محذوف ہے وہاں اس قسم کا مقسم علیہ منطقی طور پر ان ہی الفاظ { اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ ۔ کو ہونا چاہیے۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ کا مفہوم یوں ہوگا کہ یہ کتاب مبین گواہ ہے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اللہ کے رسول ہیں !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(43:2) والکتب المبین واؤ قسمیہ ہے الکتب المبین ۔ موصوف و صفت مل کر مقسم بہٖ ۔ اور اگلی آیت میں قرانا عربیا مقسم علیہ۔ قسم ہے قرآن مبین کی۔ الکتب سے مراد قرآن مجید ہے جیسا کہ اگلی آیت سے واضح ہے۔ مبین اسم فاعل واحد مذکر ابانۃ باب افعال سے مصدر ۔ یہ لفظ لازم و متعدی دونوں صورتوں میں استعمال ہوتا ہے بمعنی ظاہر یا ظاہر کرنے والا۔ پہلی صورت میں مطلب ہوگا :۔ اس کتاب کی قسم جو بالکل واضح ظاہر اور روشن ہے یعنی اس کے مطالب و معارف بالکل عیاں اور شک و شبہ سے بالا تر ہیں۔ اور متعدی ہونے کی صورت میں اس کا مطلب ہوگا : اس کتاب کی قسم جو حق و باطل کو اواضح کرنے والی ہے یہاں یہ دونوں صفات اس کتاب میں پائی جاتی ہیں یہ کتاب بذات خود بڑی واضح اور روشن ہے اور حو ق باطل کو نمایاں اور آشکارا کرنے والی ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 یعنی اپنے مدعا کو صاف صاف بیان کرنے والی ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن الشوریٰ کا اختتام اس ارشاد پر ہوا کہ ہم نے آپ پر وحی نازل فرمائی۔ اس سے پہلے آپ نہیں جانتے تھے کہ قرآن اور ایمان کیا ہے۔ الزّخرف کی ابتدا اس بات سے ہو رہی ہے کہ وحی کی صورت میں جو کتاب آپ پر نازل کی گئی ہے اس کا نام قرآن ہے جو عربی میں نازل کیا گیا ہے تاکہ لوگ اسے سمجھنے کی کوشش کریں۔ حٰمٓ حروف مقطعات میں سے تین حروف ہیں۔ اب تک یہ چار سورتوں کی ابتدا میں آچکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کا مختلف الفاظ میں تعارف کروایا ہے۔ یہاں قرآن مجید کی قسم اٹھا کر ارشار فرمایا کہ یہ کتاب مبین ہے۔ ہم نے اس کو عربی زبان میں نازل کیا تاکہ تم عقل و فکر سے کام لو۔ یہ ہمارے ہاں لوح محفوظ میں ثبت ہے۔ یہ بڑی ہی عالی مرتبت اور پُر حکمت کتاب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی قسم اٹھا کر اس کی عظمت و حرمت میں مزید اضافہ فرمادیا ہے۔ یاد رہے کہ انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی قسم اٹھانا جائز نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کو حق حاصل ہے کہ اپنی مخلوق میں سے جس کی چاہے قسم اٹھائے۔ قسم اٹھانے سے مقصود لوگوں کے یقین کو مضبوط بنانا اور اس چیز کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ کلام کرنا اللہ تعالیٰ کی صفات میں شامل ہے۔ اس لیے اس موقع پر قرآن مجید کی پانچ صفات کا ذکر کیا ہے۔ 1 قرآن مجید کتاب مبین ہے۔ مبین کا معنٰی ایسی کتاب جس کے ارشادات واضح اور اس کے احکام غیر مبہم ہیں۔ 2 قرآن مجید عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عربی تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پہلے مخاطب بھی عربی بولنے والے تھے۔ عربی زبان نزول قرآن کے وقت سے لے کر اب تک اور قیامت تک ہر اعتبار سے جامع ترین زبان ہے اور رہے گی۔ کیونکہ قرآن مجید عربی میں نازل ہوا ہے۔ اس لیے اہل مکہ کو سمجھایا گیا کہ تم اس کی مخالفت کرنے کی بجائے اس پر غور کرو کہ کیا کوئی انسان اس جیسا کلام کرسکتا ہے اور جو بعید ترین ماضی کے واقعات اور قوموں کے احوال اس میں بیان کیے گئے ہیں اس کا ریکارڈ کہیں موجود ہے ؟ پھر سوچو کہ قرآن مجید جو پیشین گوئیاں کررہا ہے اب تک کوئی اس میں ایک پیش گوئی غلط ثابت ہوئی ہے ؟ اس کے ساتھ ہی اس بات پر غور کرو کہ جنّت اور دوزخ کے بارے میں جو حقائق بیان کیے گئے ہیں کیا وہ اس سے پہلے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپ کے سامنے کبھی بیان کے تھے ؟۔ ظاہر ہے کہ اس سے پہلے کوئی بات بھی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی نہیں کہی تھی۔ کیا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے پہلے چالیس سال کی زندگی میں کبھی جھوٹ بولا ہے ؟ تم اقرار کرتے ہو کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم میں الصادق اور الامین ہیں۔ جب یہ مبنی علیٰ الحق حقائق اور دلائل ہیں تو پھر تمہیں ہر صورت عقل سے کام لینا چاہیے۔ اس کتاب کو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے اور یہ اس کے ہاں لوح محفوظ میں محفوظ ہے۔ یہ ہر اعتبار سے علوِّ مرتبت کی حامل اور پُر حکمت کتاب ہے۔ یہ اپنے اوصاف حمیدہ کے اعتبار سے لاریب اور جامع کتاب ہے۔” اُمِّ الْکِتَابَ “ کا لفظ استعمال فرما کر یہ بھی ارشارہ کردیا ہے کہ پہلی آسمانی کتابوں کی تعلیمات کی یہ کتاب ترجمان اور محافظ ہے۔” جَعَلْنَاہٗ “ کا معنٰی اہل زبان نے ” اَنْزَلْنَا “ کے ساتھ کیا ہے۔ ” جَعَلَ “ کا لفظ قرآن مجید نے پیدا کرنے، بنانے اور حکم لگانے کے معنٰی میں بھی استعمال کیا ہے۔ مسائل ١۔ ح م حروف مقطعات میں شامل ہیں۔ ٢۔ قرآن مجید ہر حوالے سے کتاب مبین ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو عربی زبان میں نازل فرمایا ہے۔ ٤۔ قرآن مجید لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔ ٥۔ عربی زبان جاننے والوں کو بالخصوص قرآن مجید پر غور وخوض کرنا چاہیے۔ ٦۔ قرآن مجید احکام اور ارشادات کے حوالے سے امّ الکتاب ہے۔ ٧۔ قرآن مجید ہر اعتبار سے عالی مرتبت اور پُر حکمت کتاب ہے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کے اوصاف حمید کی ایک جھلک : ١۔ قرآن مجید لاریب کتاب ہے۔ (البقرۃ : ٢) ٢۔ قرآن مجید رحمت اور ہدایت کی کتاب ہے۔ (لقمان : ٣) ٣۔ قرآن مجیدلوگوں کے لیے ہدایت و رہنمائی کی کتاب ہے۔ (البقرۃ : ١٨٥) ٤۔ قرآن مجید بابرکت اور پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے۔ (الانعام : ٩٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قرآن کتاب مبین ہے، عربی میں ہے، نصیحت ہے، انبیائے سابقین ( علیہ السلام) کی تکذیب کرنے والوں کو ہلاک کردیا اولاً قرآن ہی کی قسم کھا کر قرآن کی تعریف فرمائی کہ کتاب مبین کی قسم ہے ہم نے اپنی اسی کتاب کو عربی زبان کا قرآن بنایا یعنی یہ قرآن عربی زبان میں ہے اس کے اولین مخاطبین عرب ہیں یہ لوگ قرآن کو پڑھیں اور سمجھیں، سمجھنا چاہیں گے تو سمجھ لیں گے اور ہدایت پالیں گے۔ اس کے بعد قرآن کی برتری بیان فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ وہ ہمارے پاس ام الکتاب یعنی لوح محفوظ میں محفوظ ہے وہ بلند بھی ہے اور حکمتوں سے پر ہے اور بعض حضرات نے حکیم کا ترجمہ ” محکم “ کیا ہے مطلب یہ ہے کہ لفظی اور معنوی اعتبار سے استحکام ہے یعنی اس میں کوئی اختلاف اور تناقض نہیں ہے۔ سورة الواقعہ میں فرمایا ﴿اِنَّهٗ لَقُرْاٰنٌ كَرِيْمٌۙ٠٠٧٧ فِيْ كِتٰبٍ مَّكْنُوْنٍۙ٠٠٧٨﴾ اور سورة البروج میں فرمایا ﴿بَلْ هُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِيْدٌۙ٠٠٢١ فِيْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ (رح) ٠٠٢٢﴾ اس کے بعد فرمایا کہ ہم جو قرآن نازل کر رہے ہیں جس میں تمہارے لیے نصیحت ہے، یہ قرآن نازل ہوتا رہے گا تم یہ نہ سمجھنا کہ چونکہ ہم قرآن کو نہیں مانتے اس لیے قرآن کا نازل ہونا بند ہوجائے گا تمہارا یہ خیال غلط ہے اس میں تمہارے لیے نصیحت بھی ہے اور اس کے نازل ہونے میں تم پر حجت بھی قائم ہوتی ہے اور اہل ایمان کے لیے نافع اور مفید ہے۔ قال القرطبی وانتصب ” صفحًا “ علی المصدر لان معنی افنضرب افنصفح وقیل التقدیر افنضرب عنکم الذکر صافحین (علامہ قرطبی (رض) نے فرمایا ” صفحًا “ مفعول مطلق ہونے کی وجہ سے منصوب ہے کیونکہ اَفَنَضْرِبُ معنی ہے افَنَصْفَحُ بعض نے کہا اصل عبارت یوں ہے : اَفَنَضْرِبُ عَنْكمُ الذّكر صافحین۔ اس کے بعد فرمایا ہم نے تم سے پہلے لوگوں میں کتنے ہی نبی بھیجے ہیں (لفظ ” كم “ تکثیر کے لیے ہے) مطلب یہ ہے کہ ہم نے کثیر تعداد میں نبی بھیجے لیکن امتوں کا طریقہ یہ رہا کہ جو بھی نبی بھیجا جاتا اس کا مذاق بناتے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں جو لوگ بہت زیادہ زور آور تھے، موجودہ مخاطبین سے قوت میں بڑھ کر تھے ہم نے ان کو ہلاک کردیا، ان مخاطبین کی ان لوگوں کے سامنے کچھ حیثیت نہیں ﴿ وَّ مَضٰى مَثَلُ الْاَوَّلِيْنَ ٠٠٨﴾ اور پہلے لوگوں کی حالت گزر چکی ہے ان میں سے بعض کا انہیں علم بھی ہے پھر بھی قرآن کی تکذیب کر رہے ہیں اپنے انجام کی طرف نظر نہیں کرتے۔ وھذا مثل قولہ تعالیٰ ﴿وَ كَذَّبَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ١ۙ وَ مَا بَلَغُوْا مِعْشَارَ مَاۤ اٰتَيْنٰهُمْ فَكَذَّبُوْا رُسُلِيْ ١۫ فَكَيْفَ كَانَ نَكِيْرِ (رح) ٠٠٤٥﴾ (اور جو لوگ ان سے پہلے تھے انہوں نے جھٹلایا اور انہیں ہم نے جو کچھ دیا تھا یہ لوگ اس کے دسویں حصہ کو بھی نہیں پہنچے سو انہوں نے میرے رسولوں کو جھٹلایا سو کیسا عذاب ہوا میرا۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

2:۔ ” والکتب المبین “ یہ تمہید مع ترغیب ہے اور قرآن کی عظمت شان کا بیان ہے۔ واؤ قسمیہ ہے ور جواب محذوف ہے ای انک لمن المرسلین او انک لرسول صادق، اور، انا جعلناہ الخ، استیناف ہے یعنی یہ واضح اور روشن کتاب اس پر شاہد ہے کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ قالہ الشیخ (رح) یا انا جعلناہ الخ۔ جواب قسم مذکور ہے۔ یعنی یہ کتاب جو واضح اور فسیح وبلیغ عربی زبان میں ہے بذات خود اس پر شاہد ہے کہ ہم نے اس کو عربی زبان میں نازل کیا ہے تاکہ تم اسے اپنی مادری زبان میں اچھی طرح سمجھ سکو۔ (روح) ۔ گویا یہ قرآن خود ہی اپنا شاہد ہے۔ (ع) آفتا بآمد دلیل آفتاب۔ تائید : ” لکن اللہ یشہد بما انزل الیک انزلہ بعلمہ “ قسم کی دو قسمیں ہیں 1 ۔ جس میں مقسم بہ کو مافوق الاسباب قادر اور عالم الغیب سمجھ کر قسم کھائی جاتی ہے اور اس میں یہ تصور ہوتا ہے کہ اگر اس کی مخالفت کی گئی تو وہ ضرر پہنچائے گا یہ قسم غیر اللہ کی جائز نہیں۔ 2 ۔ مقسم بہ کو جواب قسم پر بطور شاہد پیش کیا جاتا ہے یہاں قسم اسی قبیل سے ہے اور یہ قسم غیر اللہ کی جائز ہے۔ ” وانہ فی ام الکتب الخ “ ام الکتاب سے لوح محفوط مراد ہے یعنی قرآن کی عظمت شان کا یہ حال ہے کہ لوح محفوظ میں وہ تمام کتابوں پر فائق اور حاکم ہے اور ہر قسم کی لفظی اور معنوی فساد و خلل سے پاک ہے۔ وھذا فیہ تشریف للقران وترفیع بکونہ لدیہ علیا علی جمیع الکتب وعالیا عن وجوہ الفساد حکیما ای حاکما علی سائر الکتب او محکما بکونہ فی غایۃ البلاغۃ والفصاحۃ وصحۃ المعانی (بحر ج 8 ص 5) ۔ یا مطلب یہ ہے کہ لوح محفوط میں اس قرآن کا نام علی حکیم ہے۔ قالہ الشیخ (رح) تعالی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(2) قسم ہے اس واضح اور صاف کتاب کی۔