Surat uz Zukhruf

Surah: 43

Verse: 36

سورة الزخرف

وَ مَنۡ یَّعۡشُ عَنۡ ذِکۡرِ الرَّحۡمٰنِ نُقَیِّضۡ لَہٗ شَیۡطٰنًا فَہُوَ لَہٗ قَرِیۡنٌ ﴿۳۶﴾

And whoever is blinded from remembrance of the Most Merciful - We appoint for him a devil, and he is to him a companion.

اور جو شخص رحمٰن کی یاد سے غفلت کرے ہم اس پر ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں وہی اس کا ساتھی رہتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Shaytan is the Companion of the One Who turns away from Ar-Rahman Allah says, وَمَن يَعْشُ ... And whosoever Ya`shu (turns away blindly), means, whoever willfully ignores and turns away Al-`Asha (the root of Ya`sh) refers to weakness of vision; what is meant here is weakness of insight. ... عَن ذِكْرِ الرَّحْمَنِ ... from the remembrance of the Most Gracious, ... نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَانًا فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ We appoint for him Shaytan to be a Qarin (a companion) to him. This is like the Ayat: وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى And whoever contradicts and opposes the Messenger after the right path has been shown clearly to him, (4:115), فَلَمَّا زَاغُواْ أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ So when they turned away, Allah turned their hearts away, (61:5) وَقَيَّضْنَا لَهُمْ قُرَنَأءَ فَزَيَّنُواْ لَهُم مَّا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ And We have assigned for them intimate companions, who have made fair seeming to them, what was before them and what was behind them, (41:25) Allah says here: وَإِنَّهُمْ لَيَصُدُّونَهُمْ عَنِ السَّبِيلِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُم مُّهْتَدُونَ

شیطان سے بچو ارشاد ہوتا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ رحیم و کریم کے ذکر سے غفلت و بےرغبتی کرے اس پر شیطان قابو پا لیتا ہے اور اس کا ساتھی بن جاتا ہے آنکھ کی بینائی کی کمی کو عربی زبان میں ( عشی فی العین ) کہتے ہیں ۔ یہی مضمون قرآن کریم کی اور بھی بہت سی آیتوں میں ہے جیسے فرمایا آیت ( وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِهٖ جَهَنَّمَ ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًا ١١٥؁ۧ ) 4- النسآء:115 ) ، یعنی جو شخص ہدایت ظاہر کر چکنے کے بعد مخالفت رسول کر کے مومنوں کی راہ کے سوا دوسری راہ کی پیروی کرے ہم اسے وہیں چھوڑیں گے اور جہنم واصل کریں گے جو بڑی بری جگہ ہے اور آیت میں ارشاد ہے ( فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ ۭ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ Ĉ۝ ) 61- الصف:5 ) یعنی جب وہی ٹیڑھے ہوگئے اللہ نے ان کے دل بھی کج کر دئیے ۔ اور آیت میں فرمایا ( وقیضنا لھم قرناء ) الخ ، یعنی ان کے جو ہم نشین ہم نے مقرر کر دئیے ہیں وہ ان کے آگے پیچھے کی چیزوں کو زینت والی بنا کر انہیں دکھاتے ہیں یہاں ارشاد ہوتا ہے کہ ایسے غافل لوگوں پر شیطان اپنا قابو کر لیتا ہے اور انہیں اللہ تعالیٰ کی راہ سے روکتا ہے اور ان کے دل میں یہ خیال جما دیتا ہے کہ ان کی روش بہت اچھی ہے یہ بالکل صحیح دین پر قائم ہیں قیامت کے دن جب اللہ کے سامنے حاضر ہوں گے اور معاملہ کھل جائے گا تو اپنے اس شیطان سے جو ان کے ساتھ تھا برات ظاہر کرے گا اور کہے گا کاش کے میرے اور تمہارے درمیان اتنا فاصلہ ہوتا جتنا مشرق اور مغرب میں ہے ۔ یہاں بہ اعتبار غلبے کے مشرقین یعنی دو مشرقوں کا لفظ کہدیا گیا ہے جیسے سورج چاند کو قمرین یعنی دو چاند کہدیا جاتا ہے اور ماں باپ کو ابو ین یعنی دو باپ کہدیا جاتا ہے ۔ ایک قرأت میں ( جا انا ) بھی ہے یعنی شیطان اور یہ غافل انسان دونوں جب ہمارے پاس آئیں گے حضرت سعید جریری فرماتے ہیں کہ کافر کے اپنی قبر سے اٹھتے ہی شیطان آکر اس کے ہاتھ سے ہاتھ ملا لیتا ہے پھر جدا نہں ہوتا یہاں تک کہ جہنم میں بھی دونوں کو ساتھ ہی ڈالا جاتا ہے پھر فرماتا ہے کہ جہنم میں تم سب کا جمع ہونا اور وہاں کے عذابوں میں سب کا شریک ہونا تمہارے لئے نفع دینے والا نہیں اس کے بعد اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ ازلی بہروں کے کان میں آپ ہدایت کی آواز نہیں ڈال سکتے مادر زاد اندھوں کو آپ راہ نہیں دکھا سکتے صریح گمراہی میں پڑے ہوئے آپکی ہدایت قبول نہیں کر سکتے ۔ یعنی تجھ پر ہماری جانب سے یہ فرض نہیں کہ خواہ مخواہ ہر ہر شخص مسلمان ہو ہی جائے ہدایت تیرے قبضے کی چیز نہیں جو حق کی طرف کان ہی نہ لگائے جو سیدھی راہ کی طرف آنکھ ہی نہ اٹھائے جو بہکے اور اسی میں خوش رہو تجھے ان کی بابت کیوں اتنا خیال ہے ؟ تجھ پر ضروری کام صرف تبلیغ کرنا ہے ہدایت و ضلالت ہمارے ہاتھ کی چیزیں ہیں عادل ہیں ہم حکیم ہیں ہم جو چاہیں گے کریں گے تم تنگ دل نہ ہو جایا کرو پھر فرماتا ہے کہ اگرچہ ہم تجھے یہاں سے لے جائیں پھر بھی ہم ان ظالموں سے بدلہ لئے بغیر تو رہیں گے نہیں اگر ہم تجھے تیری آنکھوں سے وہ دکھا دیں جس کا وعدہ ہم نے ان سے کیا ہے تو ہم اس سے عاجز نہیں ۔ غرض اس طرح اور اسطرح دونوں سورتوں میں کفار پر عذاب تو آئے گا ہی ۔ لیکن پھر وہ صورت پسند کی گئی جس میں پیغمبر کی عزت زیادہ تھی ۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کو فوت نہ کیا جب تک کہ آپ کے دشمنوں کو مغلوب نہ کر دیا آپ کی آنکھیں ٹھنڈی نہ کر دیں آپ ان کی جانوں اور مالوں اور ملکیتوں کے مالک نہ بن گئے یہ تو ہے تفسیر حضرت سدی وغیرہ کی لیکن حضرت قتادہ فرماتے ہیں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے اٹھا لئے گئے اور انتقام باقی رہ گیا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو آپ کی زندگی میں امت میں وہ معاملات نہ دکھائے جو آپ کی ناپسندیدہ تھے بجز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اور تمام انبیاء کے سامنے ان کی امتوں پر عذاب آئے ہم سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ معلوم کرا دیا گیا کہ آپ کی امت پر کیا کیا وبال آئیں گے اس وقت سے لے کر وصال کے وقت تک کبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کھل کھلا کر ہنستے ہوئے دیکھے نہیں گئے ۔ حضرت حسن سے بھی اسی طرح کی روایت ہے ایک حدیث میں ہے ستارے آسمان کے بچاؤ کا سبب ہیں جب ستارے جھڑ جائیں گے تو آسمان پر مصیبت آجائے گی میں اپنے اصحاب کا ذریعہ امن ہوں میرے جانے کے بعد میرے اصحاب پر وہ آجائے گا جس کا یہ وعدہ دئیے جاتے ہیں پھر ارشاد ہوتا ہے کہ جو قرآن تجھ پر نازل کیا گیا ہے جو سراسر حق و صدق ہے جو حقانیت کی سیدھی اور صاف راہ کی راہنمائی کرتا ہے تو اسے مضبوطی کے ساتھ لئے رہ یہی جنت نعیم اور راہ مستقیم کا رہبر ہے اس پر چلنے والا اس کے احکام کو تھامنے والا بہک اور بھٹک نہیں سکتا یہ تیرے لئے اور تیری قوم کے لئے ذکر ہے یعنی شرف اور بزرگی ہے ۔ بخاری شریف میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ امر ( یعنی خلافت و امامت ) قریش میں ہی رہے گا جو ان سے جھگڑے گا اور چھینے گا اسے اللہ تعالیٰ اوندھے منہ گرائے گا جب تک دین کو قائم رکھیں اس لئے بھی آپ کی شرافت قومی اس میں ہے کہ یہ قرآن آپ ہی کی زبان میں اترا ہے ۔ لغت قریش میں ہی نازل ہوا ہے تو ظاہر ہے کہ سب سے زیادہ اسے یہی سمجھیں گے انہیں لائق ہے کہ سب سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ عمل بھی انہی کا اس پر رہے بالخصوص اس میں بڑی بھاری بزرگی ہے ان مہاجرین کرام کی جنہوں نے اول اول سبقت کر کے اسلام قبول کیا ۔ اور ہجرت میں بھی سب سے پیش پیش رہے اور جو ان کے قدم بہ قدم چلے ذکر کے معنی نصیحت نہ ہونے کے معنی میں نہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ كِتٰبًا فِيْهِ ذِكْرُكُمْ ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ 10۝ۧ ) 21- الأنبياء:10 ) یعنی بالیقین ہم نے تمہاری طرف کتاب نازل فرمائی جس میں تمہارے لئے نصیحت ہے کیا پس تم عقل نہیں رکھتے؟ اور آیت میں ہے ( وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ ٢١٤؀ۙ ) 26- الشعراء:214 ) یعنی اپنے خاندانی قرابت داروں کو ہوشیار کر دے ۔ غرض نصیحت قرآنی رسالت نبوی عام ہے کنبہ والوں کو قوم کو اور دنیا کے کل لوگوں کو شامل ہے پھر فرماتا ہے تم سے عنقریب سوال ہو گا کہ کہاں تک اس کلام اللہ شریف پر عمل کیا اور کہاں تک اسے مانا ؟ تمام رسولوں نے اپنی اپنی قوم کو وہی دعوت دی جو اے آخرالزمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ اپنی امت کو دے رہے ہیں کل انبیاء کے دعوت ناموں کا خلاصہ صرف اس قدر ہے کہ انہوں نے توحید پھیلائی اور شرک کو ختم کیا جیسے خود قرآن میں ہے کہ ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا اوروں کی عبادت نہ کرو حضرت عبداللہ کی قرأت میں یہ آیت اس طرح ہے ( واسئل الذین ارسلنا الیھم قبلک رسلنا ) پس یہ مثل تفسیر کے ہے نہ تلاوت کے واللہ اعلم ۔ تو مطلب یہ ہوا کہ ان سے دریافت کر لے جن میں تجھ سے پہلے ہم اپنے اور رسولوں کو بھیج چکے ہیں عبدالرحمن فرماتے ہیں نبیوں سے پوچھ لے یعنی معراج والی رات کو جب کہ انبیاء آپ کے سامنے جمع تھے کہ ہر نبی توحید سکھانے اور شرک مٹانے کی ہی تعلیم لے کر ہماری جانب سے مبعوث ہوتا رہا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

36۔ 1 عَشَا یَعْشُوْ کے معنی ہیں آنکھوں کی بیماری اس کی وجہ سے جو اندھا پن ہوتا ہے۔ یعنی جو اللہ کے ذکر سے اندھا ہوجائے۔ 36۔ 2 وہ شیطان، اللہ کی یاد سے غافل رہنے والے کا ساتھی بن جاتا ہے جو ہر وقت اس کے ساتھ رہتا ہے اور نیکیوں سے روکتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٦] یعش (مادہ عشو) عشا کے بنیادی معنی اندھیرے کی وجہ سے چیزوں کا واضح نظر نہ آنا اور کبھی یہ لفظ محض اندھیرے کے وقت کے لیے آجاتا ہے۔ اور بمعنی رات کو نظر نہ آنا، رتوندا ہونا، شب کو ری اور یہاں یعش سے مراد عمداً کسی چیز کو دیکھنے کی کوشش نہ کرنا اور آنکھیں بند کرلینا ہے۔ یعنی جو شخص اللہ کی یاد سے یا اس کی طرف سے آئی ہوئی نصیحت سے یا قرآن سے عمداً بےنیاز رہنا چاہتا ہے اس پر ایک شیطان خصوصی طور پر مسلط کردیا جاتا ہے جو ہر وقت اس کے ساتھ رہتا، اس کے دل میں وسوسے ڈالتا اور اللہ کی یاد سے غافل کئے رکھتا ہے حتیٰ کہ اسے دوزخ تک پہنچا کے چھوڑتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ومن یعش عن ذکر الرحمٰن : زمخشری نے فرمایا،” غشی یعشی “ (ع) جب نظر میں خرابی آجائے اور ” غشا یعشو “ (ن) جب اس شخص کی طرف دیکھے جس کی نظر خراب ہے، حالانکہ اس میں کوئی خرابی نہ ہو۔ دونوں میں ہے، اس کی طرف سے آئی ہوئی نصیحت بھی اور یہ قرآن بھی ۔ دنیا کی زیب و زینت میں ہمہ تن مشغول ہونے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی اللہ کے ذکر سے غافل ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے فرشتے اس سے نفرت کرتے ہیں اور شیطان اس سے چمٹ جاتے ہیں، جو اسے ہر برائی میں مبتلا کرنے کی سر توڑ کوشش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(یایھا الذین امنوا لاتلھکم اموالکم ولا اولادکم عن ذکر اللہ ومن یفعل ذلک فاؤلئک ھم الخسرون) (المنافقون : ٩)” اے لوگو جو ایمان لائے ہوچ تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کی یاد سے غافل نہ کردیں اور جو ایسا کرے تو وہی لوگ خسارہ اٹھانے والے ہیں۔ “ اور جو شخص خواہش نفس پر قابو رکھ کر دنیا کے فتنوں سے بچے اور اللہ کے ذکر پر دوام کرے تو شیطان اس سے دور ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ فرشتہ مقرر کردیتے ہیں جو اس کی مدد کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر سے جان بوجھ کر غفلت کے لئے اندھا بننے کا لفظ استعمال فرمایا اور لفظ ” الرحمٰن “ اس لئے ذکر فرمایا کہ انسان کے لائق نہیں کہ اس بےحد رحم والے کے ذکر سے غفلت کرے۔ (٢) نقیض لہ شیطناً فھولہ قرین : اس کی تفسیر کیلئے دیکھیے سورة حم السجدہ (٢٥) ۔ ” شیطناً “ نکرہ ہے، کوئی نہ کوئی شیطان، وہ انسانوں میں سے ہو یا ابلیس کی اولاد میں سے۔ شیطان مقرر کرنے کی نسبت اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف فرمائی، حالانکہ یہ انسان کے اللہ کے ذکر سے غافل ہونے کا نتیجہ ہوتا ہے، کیونکہ ہر کام کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور تمام امور اسی کی طرف لوٹتے ہیں، جیسا کہ فرمایا :(والی اللہ ترجع الامور) (البقرۃ : ٢١٠)” اور سب کام اللہ ہی طرف لوٹائے جاتے ہیں۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary وَمَن يَعْشُ عَن ذِكْرِ‌ الرَّ‌حْمَـٰنِ (And whoever makes himself blind against the advice of the Rahman, We assign for him a devil who accompanies him all the time - 43:36) It means that whoever knowingly turns a blind eye towards Allah&s advice i.e. the Holy Qur&an and wahy, Allah assigns to him a devil who accompanies him all the time in this world to prevent him from virtuous deeds, and to divert him towards evil. When such a man is resurrected in the Hereafter, his devil will also be with him, till they both are pushed in Hell. (Qurtubi). We learn from this that the punishment one gets even in this world for turning away from Allah&s remembrance is that he gets into bad company and &shaitans& (devils), whether from humans or from jinns, keep diverting him from virtues to vices. He commits vices but thinks that he is doing very well. (Qurtubi). This devil who is assigned to such a person, as mentioned here, is in addition to the &Shaitan& (Satan) who is attached to every believer and disbeliever, because that &shaitan& (Shaitan) does leave the man alone at certain specific times, whereas this devil accompanies him all the time. (Bayan-ul-Qur an)

خلاصہ تفسیر اور جو شخص اللہ کی نصیحت (یعنی قرآن اور وحی) سے (جان بوجھ کر) اندھا بن جاوے (جیسے یہ کفار ہیں کہ کافی شافی دلائل کے ہوتے ہوئے تجاہل سے کام لیتے ہیں) ہم اس پر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں، سو وہ (ہر وقت) اس کے ساتھ رہتا ہے اور وہ (ساتھ رہنے والے شیاطین) ان (قرآن سے اعراض کرنے والوں) کو (برابر) راہ (حق) سے روکتے رہتے ہیں (اور تسلط کا یہی اثر ہے) اور یہ لوگ (باوجود راہ حق سے دور ہونے کے) یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ (یعنی ہم) راہ (راست) پر ہیں (سو جس کی گمراہی کی یہ صورت اور یہ حالت ہو اس کے راہ پر آنے کی کیا امید ہے۔ سو غم کیوں کیا جائے اور یہ بھی تسلی رکھئے کہ ان کا یہ تغافل جلدی ہی ختم ہوگا اور جلد ہی ان کو اپنی غلطی ظاہر ہوجائے گی کیونکہ یہ تغافل صرف دنیا ہی دنیا تک ہے) یہاں تک کہ جب ایسا شخص ہمارے پاس آوے گا (اور اس کی غلطی ظاہر ہوگی) تو (اس شیطان قرین سے) کہے گا کہ کاش میرے اور تیرے درمیان میں (دنیا میں) مشرق ومغرب کے برابر فاصلہ ہوتا (کیوں) کہ (تو تو) برا ساتھی تھا (کہ تو نے مجھ کو گمراہ کیا، مگر یہ حسرت اس وقت کام نہ آئے گی) اور (نیز ان سے کہا جائے گا کہ) جب کہ تم (دنیا میں) کفر کرچکے تھے تو (جس طرح آج حسرت تمہارے کام نہیں آئی اسی طرح) آج یہ بات (بھی) تمہارے کام نہ آوے گی کہ تم (اور شیاطین) سب عذاب میں شریک ہو (جیسے دنیا میں بعض اوقات دوسرے کو شریک مصیبت دیکھ کر ایک گونہ تسلی ہوجاتی ہے وہاں چونکہ عذاب بہت زیادہ شدید ہوگا اس لئے دوسرے کی طرف التفات بھی نہ ہوگا، ہر شخص اپنے حال میں مبتلا ہوگا اور اپنے ہی کو سب سے زیادہ مبتلا سمجھے گا) سو (آپ کو جب ان کی یہ حالت معلوم ہوگئی کہ ان کی ہدایت کی کوئی امید نہیں تو) کیا آپ (ایسے) بہروں کو سنا سکتے ہیں یا (ایسے) اندھوں کو اور ان لوگوں کو جو کہ صریح گمراہی میں (مبتلا) ہیں راہ پر لا سکتے ہیں (یعنی ان کی ہدایت آپ کے اختیار سے خارج ہے آپ درپے نہ ہوں) پھر (ان کی یہ سرکشی خالی جانے والی نہیں، بلکہ اس پر ضرور سزا مرتب ہونے والی ہے خواہ آپ کی حیات میں ہو خواہ آپ کی وفات کے بعد ہو، پس) اگر ہم (دنیا سے) آپ کو اٹھا لیں تو بھی ہم ان (کافروں) سے بدلہ لینے والے ہیں یا اگر ان سے جو ہم نے عذاب کا وعدہ کر رکھا ہے وہ (آپ کی حیات میں ان پر نازل کر کے) آپ کو (بھی) دکھلا دیں تب بھی (کچھ بعید نہیں کیونکہ) ہم کو ان پر ہر طرح کی قدرت ہے (مطلب یہ ہے کہ عذاب ضرور ہوگا خواہ کب ہی ہو اور جب یہ بات ہے) تو آپ (تسلی رکھئے اور اطمینان سے) اس قرآن پر قائم رہئے جو آپ پر وحی کے ذریعہ سے نازل کیا گیا ہے (کیونکہ) آپ بیشک سیدھے رستہ پر ہیں (مطلب یہ کہ اپنا کام کئے جائیے اور دوسروں کے کام کا غم نہ کیجئے) اور یہ قرآن (جس پر قائم رہنے کو ہم کہتے ہیں) آپ کے لئے اور آپ کی قوت کے لئے بڑے شرف کی چیز ہے (آپ کے لئے تو اس لئے کہ آپ بلاواسطہ مخاطب ہیں اور قوم کے لئے اس واسطے کہ وہ بالواسطہ مخاطب ہیں، عام بادشاہوں سے ہم کلامی بڑا شرف سمجھی جاتی ہے چہ جائیکہ ملک الموت کا مخاطب بننا) اور عنقریب (قیامت کے دن) تم سب (اپنے اپنے ذمہ کے واجب حقوق سے) پوچھے جاؤ گے (پس آپ سے صرف تبلیغ کے متعلق سوال ہوگا جس کو آپ خوب ادا کرچکے ہیں اور عمل کے متعلق ان سے سوال ہوگا، پس جب آپ سے ان کے اعمال کے بارے میں باز پرس نہ ہوگی تو آپ غم کیوں کرتے ہیں) اور (ہم نے جو آپ پر نازل ہونے والی وحی کو حق قرار دیا ہے اس میں کفار کو سب سے بڑا اعتراض عقیدہ توحید پر ہے جس کے حق ہونے میں ان کو بڑا کلام ہے، سو درحقیقت وہ ایسا امر حق ہے کہ اس پر تمام انبیاء (علیہم السلام) کا اجماع ہے اور چونکہ انبیاء عقلی و نقلی دلائل کے جامع ہیں اس لئے گویا اس پر ہزاروں عقلی و نقلی دلائل قائم ہیں، چناچہ اگر آپ کا جی چاہے تو) آپ ان سب پیغمبروں سے جن کو ہم نے آپ سے پہلے بھیجا ہے پوچھ لیجئے (یعنی ان کی کتابوں اور صحیفوں سے جن کا کچھ بقیہ موجود ہے، تحقیق کرلیجئے) کہ کیا ہم نے خدائے رحمان کے سوا (کبھی بھی) دوسرے معبود ٹھہرا دیئے تھے کہ ان کی عبادت کی جاوے (اس سے دوسروں کو سنانا منظور ہے کہ جس کا جی چاہے تحقیق کرلے اور کتابوں میں دیکھنے کو رسولوں سے پوچھنا مجازاً کہہ دیا) معارف و مسائل یاد خدا سے اعراض بری صحبت کا سبب ہے : (آیت) وَمَنْ يَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ الخ۔ مطلب یہ ہے کہ جو شخص اللہ کی نصیحت یعنی قرآن اور وحی سے جان بوجھ کر اعراض کرے تو ہم اس پر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں جو دنیا میں بھی اس کے ساتھ لگا رہتا ہے اور اسے نیکیوں سے روک کر برائیوں پر ابھارتا رہتا ہے اور آخرت میں بھی جب یہ شخص قبر سے اٹھے گا تو یہ شیطان اس کے ساتھ ساتھ ہوگا یہاں تک کہ دونوں جہنم میں داخل ہوجائیں۔ (قرطبی) اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کی یاد سے اعراض کی اتنی سزا دنیا میں مل جاتی ہے کہ انسان کی صحبت خراب ہوجاتی ہے اور شیاطین، خواہ انسانوں میں سے ہوں یا جنات میں سے، اس کو بھلائیوں سے دور اور برائیوں سے قریب کرتے رہتے ہیں وہ کام سارے گمراہی کے کرتا ہے مگر سمجھتا یہ ہے کہ بہت اچھا کر رہا ہے (قرطبی) اور یہاں جس شیطان کو مسلط کرنے کا ذکر ہے وہ اس شیطان کے علاوہ ہے جو ہر مومن و کافر کے ساتھ لگایا گیا ہے کیونکہ مومن سے خاص اوقات میں ہٹ بھی جاتا ہے، اور یہ ہمیشہ ساتھ لگا رہے گا۔ (بیان القرآن) ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَنْ يَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ نُـقَيِّضْ لَہٗ شَيْطٰنًا فَہُوَلَہٗ قَرِيْنٌ۝ ٣٦ عيش العَيْشُ : الحیاة المختصّة بالحیوان، وهو أخصّ من الحیاة، لأنّ الحیاة تقال في الحیوان، وفي الباري تعالی، وفي الملک، ويشتقّ منه المَعِيشَةُ لما يُتَعَيَّشُ منه . قال تعالی: نَحْنُ قَسَمْنا بَيْنَهُمْ مَعِيشَتَهُمْ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا[ الزخرف/ 32] ، مَعِيشَةً ضَنْكاً [ طه/ 124] ، لَكُمْ فِيها مَعايِشَ [ الأعراف/ 10] ، وَجَعَلْنا لَكُمْ فِيها مَعايِشَ [ الحجر/ 20] . وقال في أهل الجنّة : فَهُوَ فِي عِيشَةٍ راضِيَةٍ [ القارعة/ 7] ، وقال عليه السلام : «لا عَيْشَ إلّا عَيْشُ الآخرة ( ع ی ش ) العیش خاص کر اس زندگی کو کہتے ہیں جو حیوان میں پائی جاتی ہے اور یہ لفظ الحیاۃ سے اض ہے کیونکہ الحیاۃ کا لفظ حیوان باری تعالیٰ اور ملائکہ سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور العیش سے لفظ المعیشۃ ہے جس کے معنی ہیں سامان زیست کھانے پینے کی وہ تمام چیزیں جن زندگی بسر کی جاتی ہے قرآن میں ہے : ۔ نَحْنُ قَسَمْنا بَيْنَهُمْ مَعِيشَتَهُمْ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا[ الزخرف/ 32] ہم نے ان میں ان کی معیشت کو دنیا کی زندگی میں تقسیم کردیا ۔ مَعِيشَةً ضَنْكاً [ طه/ 124] اس کی زندگی تنگ ہوجائے گی ۔ وَجَعَلْنا لَكُمْ فِيها مَعايِشَ [ الحجر/ 20] اور ہم ہی نے تمہارے لئے اس میں زیست کے سامان پیدا کردیئے ۔ لَكُمْ فِيها مَعايِشَ [ الأعراف/ 10] تمہارے لئے اس میں سامان زیست ۔ اور اہل جنت کے متعلق فرمایا : ۔ فَهُوَ فِي عِيشَةٍ راضِيَةٍ [ القارعة/ 7] وہ دل پسند عیش میں ہوگا ۔ اور (علیہ السلام) نے فرمایا ( 55 ) الا عیش الا عیش الاخرۃ کہ حقیقی زندگی تو آخرت کی زندگی ہی ہے ۔ ذكر الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل : الذّكر ذکران : ذكر بالقلب . وذکر باللّسان . وكلّ واحد منهما ضربان : ذكر عن نسیان . وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء/ 10] ، وقوله تعالی: وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء/ 50] ، وقوله : هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء/ 24] ، وقوله : أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص/ 8] ، أي : القرآن، وقوله تعالی: ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص/ 1] ، وقوله : وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف/ 44] ، أي : شرف لک ولقومک، وقوله : فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل/ 43] ، أي : الکتب المتقدّمة . وقوله قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق/ 10- 11] ، فقد قيل : الذکر هاهنا وصف للنبيّ صلّى اللہ عليه وسلم «2» ، كما أنّ الکلمة وصف لعیسی عليه السلام من حيث إنه بشّر به في الکتب المتقدّمة، فيكون قوله : ( رسولا) بدلا منه . وقیل : ( رسولا) منتصب بقوله ( ذکرا) «3» كأنه قال : قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلو، نحو قوله : أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد/ 14- 15] ، ف (يتيما) نصب بقوله (إطعام) . ومن الذّكر عن النسیان قوله : فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ [ الكهف/ 63] ، ومن الذّكر بالقلب واللّسان معا قوله تعالی: فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة/ 200] ، وقوله : فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة/ 198] ، وقوله : وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء/ 105] ، أي : من بعد الکتاب المتقدم . وقوله هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر/ 1] ، أي : لم يكن شيئا موجودا بذاته، ( ذک ر ) الذکر ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء/ 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔ وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء/ 50] اور یہ مبارک نصیحت ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ؛هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء/ 24] یہ میری اور میرے ساتھ والوں کی کتاب ہے اور مجھ سے پہلے ( پیغمبر ) ہوئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص/ 8] کیا ہم سب میں سے اسی پر نصیحت ( کی کتاب ) اتری ہے ۔ میں ذکر سے مراد قرآن پاک ہے ۔ نیز فرمایا :۔ ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص/ 1] اور ایت کریمہ :۔ وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف/ 44] اور یہ ( قرآن ) تمہارے لئے اور تمہاری قوم کے لئے نصیحت ہے ۔ میں ذکر بمعنی شرف ہے یعنی یہ قرآن تیرے اور تیرے قوم کیلئے باعث شرف ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل/ 43] تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ میں اہل ذکر سے اہل کتاب مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق/ 10- 11] خدا نے تمہارے پاس نصیحت ( کی کتاب ) اور اپنے پیغمبر ( بھی بھیجے ) ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں الذکر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وصف ہے ۔ جیسا کہ عیسیٰ کی وصف میں کلمۃ قسم ہے اس قرآن کی جو نصیحت دینے والا ہے ۔ کا لفظ وارد ہوا ہے ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الذکر اس لحاظ سے کہا گیا ہے ۔ کہ کتب سابقہ میں آپ کے متعلق خوش خبردی پائی جاتی تھی ۔ اس قول کی بنا پر رسولا ذکرا سے بدل واقع ہوگا ۔ بعض کے نزدیک رسولا پر نصب ذکر کی وجہ سے ہے گویا آیت یوں ہے ۔ قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلوجیسا کہ آیت کریمہ ؛ أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد/ 14- 15] میں کی وجہ سے منصوب ہے اور نسیان کے بعد ذکر کے متعلق فرمایا :َفَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ [ الكهف/ 63] قو میں مچھلی ( وہیں ) بھول گیا اور مجھے ( آپ سے ) اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ اور ذکر قلبی اور لسانی دونوں کے متعلق فرمایا :۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة/ 200] تو ( مبی میں ) خدا کو یاد کرو جسطرح اپنے پاب دادا کیا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة/ 198] تو مشعر حرام ( یعنی مزدلفہ ) میں خدا کا ذکر کرو اور اسطرح ذکر کرو جس طرح تم کو سکھایا ۔ اور آیت کریمہ :۔ لَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء/ 105] اور ہم نے نصیحت ( کی کتاب یعنی تورات ) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا ۔ میں الذکر سے کتب سابقہ مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر/ 1] انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے کہ وہ کوئی چیز قابل ذکر نہ تھی ۔ قيض قال تعالی: وَقَيَّضْنا لَهُمْ قُرَناءَ [ فصلت/ 25] ، وقوله : وَمَنْ يَعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطاناً [ الزخرف/ 36] أي : نُتِحْ ، ليستولي عليه استیلاء القیض علی البیض، وهو القشر الأعلی ( ق ی ض ) القیض کے معنی انڈے کے اوپر کا چھلکا کے ہیں اور چھلکا چونکہ اس کے باقی منادہ اجزار پر محیط اور مستولی ہوتا ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَقَيَّضْنا لَهُمْ قُرَناءَ [ فصلت/ 25] اور ہم نے شیطانوں کو ہم نشین مقرر کردیا ہے اسی طرح ایت کریمہ : ۔ وَمَنْ يَعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطاناً [ الزخرف/ 36] اور جو کوئی خدا کی یاد سے آنکھیں بند کرلے ( یعنی تغافل کرے ) ہم اس پر ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں ۔ میں نقیض لہ شیطان کے معنی یہ ہیں کہ ہم اس سے الگ ہوجاتے ہیں تاکہ شیطان اس پر اس طرح مسلط ہوجائے جیسے انڈے کا اوپر کا چھلکا اپنے مافیھا پر مستولی رہتا ہے ۔. شطن الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] ( ش ط ن ) الشیطان اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو قرین الِاقْتِرَانُ کالازدواج في كونه اجتماع شيئين، أو أشياء في معنی من المعاني . قال تعالی: أَوْ جاءَ مَعَهُ الْمَلائِكَةُ مُقْتَرِنِينَ [ الزخرف/ 53] . يقال : قَرَنْتُ البعیر بالبعیر : جمعت بينهما، ويسمّى الحبل الذي يشدّ به قَرَناً ، وقَرَّنْتُهُ علی التّكثير قال : وَآخَرِينَ مُقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفادِ [ ص/ 38] وفلان قِرْنُ فلان في الولادة، وقَرِينُهُ وقِرْنُهُ في الجلادة «1» ، وفي القوّة، وفي غيرها من الأحوال . قال تعالی: إِنِّي كانَ لِي قَرِينٌ [ الصافات/ 51] ، وَقالَ قَرِينُهُ هذا ما لَدَيَّ [ ق/ 23] إشارة إلى شهيده . قالَ قَرِينُهُ رَبَّنا ما أَطْغَيْتُهُ [ ق/ 27] ، فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ [ الزخرف/ 36] وجمعه : قُرَنَاءُ. قال : وَقَيَّضْنا لَهُمْ قُرَناءَ [ فصلت/ 25] . ( ق ر ن ) الا قتران ازداواج کی طرح اقتران کے معنی بھی دو یا دو سے زیادہ چیزوں کے کسی معنی میں باہم مجتمع ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوْ جاءَ مَعَهُ الْمَلائِكَةُ مُقْتَرِنِينَ [ الزخرف/ 53] یا یہ ہوتا کہ فر شتے جمع کر اس کے ساتھ آتے دو اونٹوں کو ایک رسی کے ساتھ باندھ دینا اور جس رسی کے ساتھ ان کو باندھا جاتا ہے اسے قرن کہا جاتا ہے اور قرنتہ ( تفعیل ) میں مبالغہ کے معنی پائے جاتے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَآخَرِينَ مُقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفادِ [ ص/ 38] اور اور روں کو بھی جو زنجروں میں جکڑ ی ہوئی تھے ۔ اور آدمی جو دوسرے کا ہم عمر ہو یا بہادری قوت اور دیگر اوصاف میں اس کا ہم پلہ ہوا سے اس کا قرن کہا جاتا ہے اور ہم پلہ یا ہم سر کون قرین بھی کہتے ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ فلان قرن فلان او قرینہ فلاں اس کا ہم عمر ہم سر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنِّي كانَ لِي قَرِينٌ [ الصافات/ 51] کہ میرا ایک ہم نشین تھا ۔ وَقالَ قَرِينُهُ هذا ما لَدَيَّ [ ق/ 23] اور اس کا ہم نشین ( فرشتہ ) کہے گا یہ ( اعمال مانہ ) میرے پاس تیار ہے ۔ یہاں قرین سے مراد وہ فرشتہ ہے جسے دوسری جگہ شہید ( گواہ ) کہا ہے ۔ قالَ قَرِينُهُ رَبَّنا ما أَطْغَيْتُهُ [ ق/ 27] ، اس کا ساتھی ( شیطان ) کہے گا کہ اے ہمارے پروردگار میں نے اس کو گمراہ نہیں کیا ۔ فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ [ الزخرف/ 36] تو وہ اس کا ساتھی ہوجا تا ہے ۔ قرین کی جمع قرنآء ہے قرآن میں ہے : ۔ وَقَيَّضْنا لَهُمْ قُرَناءَ [ فصلت/ 25] اور ہم نے شیبان کو ان کا ہم نشین مقرر کردیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور جو شخص اللہ کی توحید اور اس کی کتاب سے منہ پھیرے تو ہم دنیا و آخرت میں ایک شیطان کو اس کا ساتھی بنا دیتے ہیں۔ شان نزول : وَمَنْ يَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ (الخ) ابن ابی حاتم نے محمد بن عثمان مخزومی سے روایت کیا کہ قریش نے اپنے لوگوں سے کہا کہ ہر ایک شخص اصحاب محمد میں سے ایک شخص کو پکڑے۔ چناچہ حضرت ابوبکر کو طلحہ نے پکڑ لیا اور اپنے ساتھیوں کے پاس لے کر آئے اور وہ طاقت میں بڑھ کر تھے، حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا کہ مجھے کیوں بلاتے ہو انہوں نے کہا کہ لات اور عزی کی عبادت کی طرف بلاتے ہیں، حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا کہ لات کیا ہے وہ بولے ہمارا رب، حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا تو پھر عزی کون ہے، وہ بولے کہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں، حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا تو پھر ان کی ماں کون ہے، تو طلحہ خاموش ہوگئے، کچھ جواب نہ دے کسے اور پھر اپنے ساتھیوں سے کہنے لگے کہ ان کو جواب دو ، مگر وہ بھی جواب نہ دے سکے، تب طلحہ بولے، ابوبکر چلو کھڑے ہو، اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمد الرسول اللہ یعنی طلحہ مشرف بااسلام ہوگئے۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی یعنی جو شخص اللہ کی نصیحت سے اندھا بن جائے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٦ { وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَـیِّضْ لَـہٗ شَیْطٰنًا فَہُوَ لَہٗ قَرِیْنٌ} ” اور جو کوئی ُ منہ پھیر لے رحمان کے ذکر سے ‘ اس پر ہم ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں ‘ تو وہ اس کا ساتھی بنا رہتا ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

34 "Dhikr of the Merciful" : His remembrance as well as His admonition and the Qur'an.

سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :34 وسیع المعنیٰ لفظ ہے ۔ رحمان کے ذکر سے مراد اس کی یاد بھی ہے ، اس کی طرف سے آئی ہوئی نصیحت بھی ، اور یہ قرآن بھی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

11: اس سے معلوم ہوا کہ بے فکری کے ساتھ گناہ کئے جانے اور اس پر شرمندہ نہ ہونے کا ایک عذاب یہ ہوتا ہے کہ ایسے شخص پر شیطان مسلط ہوجاتا ہے جو اسے نیکی کی طرف آنے نہیں دیتا، اور گناہ کی زندگی پر ہی مگن رکھتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٦۔ ٤١۔ صحیح ٥ ؎ مسلم اور ترمذی میں حضرت عبد اللہ (رض) بن مسعود سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ہر شخص کے ساتھ ایک فرشتہ اور ایک شیطان تعینات ہے فرشتہ ہر وقت نیک کام کی صلاح دیتا رہتا ہے اور شیطان برے کام کی صلاح دیتا رہتا ہے صحیح ١ ؎ بخاری میں حضرت عبد اللہ (رض) بن عباس سے روایت ہے کہ جس کا حاصل یہ ہے کہ جس وقت آدمی اللہ تعالیٰ کی کچھ یاد اور ذکر الٰہی کرتا ہے تو آدمی کے ساتھ جو شیطان رہتا ہے وہ آدمی کی ہم نشینی سے الگ ہوجاتا ہے اور جب آدمی یاد الٰہی سے غافل ہوجاتا ہے تو وہ شیطان پھر آ کر آدمی کی ہم نشینی کو مستعد ہوجاتا ہے اور طرح طرح کے وسوسے آدمی کے دل میں ڈالنے شروع کردیتا ہے ان صحیح حدیثوں سے معلوم ہوا کہ ہر آدمی کے ساتھ جو شیطان ہے وہ سوا یاد الٰہی کے وقت میں آدمی کی ہم نشینی سے جدا نہیں رہتا اب ان صحیح حدیثوں کے موافق آیت کی تفسیر یہ ہوئی کہ جو لوگ یاد الٰہی سے غافل ہیں ان کے ساتھ کا شیطان کبھی ان کی ہم نشینی سے الگ نہیں ہوتا اور ہمیشہ ایسے لوگوں کے دل میں برے کاموں کے وسوسے ڈالتا رہتا ہے اور نیک کاموں سے روکتا رہتا ہے اسی واسطے باوجود اللہ کے رسول کی ہر وقت کی نصیحت اور ہر روز اللہ کا کلام نازل ہونے کے یہ مکہ کے مشرک لوگ نیک راستہ پر نہیں آتے کیونکہ یاد الٰہی اور نصیحت الٰہی سے دور رہنے کے سبب سیان کے شیاطین ان پر ایسے غالب ہوگئے ہیں کہ ایک دم ان کا پیچھا نہیں چھوڑتے اور نصیحت الٰہی سننے کی ان کو مہلت نہیں دیتے حاصل کلام یہ ہے کہ جو لوگ کبھی یاد الٰہی اور کبھی دنیا کے کاموں میں مصروف رہتے ہیں ان کو فرشتے اور شیاطین دونوں کی ہم نشینی کا موقع حاصل رہتا ہے اور جو جو لوگ ہمیشہ یاد الٰہی سے غافل اور بیخبر رہتے ہیں شیاطنی کسی وقت انکا پیچھا نہیں چھوڑتے اور ہمیشہ کے لئے خدا کی طرف سے شیطان ان کا ہم نشین قرار دیا جاتا ہے کس لئے کہ فرشتہ کی ہم نشینی کا کوئی موقع ہی ایسے لوگوں کے لئے باقی نہیں رہتا تفسیر عبد الرزاق میں جو روایتیں ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کے بد لوگ جب قبروں سے اٹھیں گے اس وقت بھی ان کے شیاطین ان کے ساتھ ہوں گے پھر جب دونوں دوزخ میں داخل ہوجائیں گے تو ایک دوسرے سی بیزاری ظاہر کریں گے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں فرمایا ہے پھر فرمایا شیاطین کے غلبہ کے سبب سے یہ لوگ بہرے اور اندھے ہو رہے ہیں نہ کچھ سنتے ہیں نہ کچھ دیکھتے ہیں پھر فرمایا اے رسول اللہ کے تمہاری موجودگی میں جو لوگ ان میں سے راہ راست پر نہ آئے تو بہت جلد اس غفلت کا بدلہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے لے گا ذرا وقت مقررہ آنے کی دیر ہے۔ اللہ سچا ہے اللہ کا وعدہ سچا ہے چناچہ مثلاً مسیلمہ کذاب اور اس کے ساتھی اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت میں مارے گئے اسی طرح اہل دمشق بصرہ وغیرہ حضرت عمر (رض) کی خلافت میں اسلام کے تابع ہوگئے جن کی تفصیل کیفیت تاریخ کی کتابوں میں ہے۔ صحیح ١ ؎ بخاری کے حوالہ سے حضرت عبد اللہ (رض) بن عباس کی روایت ایک جگہ گزر چکی ہے کہ قوم نوح میں کے کچھ نیک لوگ مرگئے تھے جن کے مرنے کا غم قوم کے لوگوں کے دل میں بہت تھا شیطان نے قوم کے لوگوں کے دل میں یہ وسوسہ ڈالا کہ ان نیک لوگوں کی شکل کے بت بنا کر رکھ لئے جائیں تاکہ ان بتوں کی نگاہ کے سامنے رہنے سے ان نیک لوگوں کی جدائی کا رنج کچھ کم ہوجائے۔ قوم کے لوگوں نے اس وسوسہ کے موافق عمل کیا اور پھر چند پشت کے بعد شیطان نے ان بتوں کی پوجا دنیا میں پھیلا دی۔ ویحسبون انھم مھتدون کا مطلب اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ شیطان برے کام کا وسوسہ اس ڈھنگ سے لوگوں کے دل میں ڈالتا ہے کہ اس کام کی برائی لوگوں کو نظر نہیں آتی عربی کے محاورہ میں ایک چیز کو دوسری چیز کا تابع ٹھہرا کر بولتے ہیں مثلاً والد اور والدہ کو ملا کر والدین کہتے ہیں بعد المشرقین اس محاورہ کے موافق مشرق اور مغرب کو کہا گیا ہے بہکنے والے اور بہکانے والے دونوں ایک جگہ دوزخ میں رہیں گے اس لئے فرمایا کہ آج کے دن کی بیزاری اور بعدا لمشرقین کی تمنا سے کچھ فائدہ نہیں۔ (٥ ؎ بحوالہ مشکوٰۃ شریف باب ذکر اللہ والتقرب الیہ الفصل الثالث ص ١٩٥۔ ) (١ ؎ تفسیر الدر المنثورص ١٧ ج ٦ و تفسیر ابن کثیر ص ١٢٨ ج ٤۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(43:36) ومن یعش واؤ عاطفہ اور من شرطیہ ہے اگلا جملہ نقیض ۔۔ جواب شرط ہے۔ یعش مضارع واحد مذکر غائب عشو (باب نصر) مصدر۔ یعش اصل میں یعشو تھا۔ بوجہ جواب شرط واؤ ساقط ہوگیا۔ اس کے اصل معنی رات میں کہیں جانے کا قصد کرنے کے ہیں تو سیع استعمال کے بعد ہر قاصد کو عاشی کہا جانے لگا۔ عشو مصدر کے معنی کمزور نظر سے دیکھنا کے بھی ہیں اور رتوندی۔ تاریکی جو آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے۔ اسے العشاء کہتے ہیں۔ رجل اعشی جسے رتوندی کی بیماری ہو۔ مثل مشہور ہے ھو یخبط خبط عشواء وہ اندھی اونٹنی کی طرح ہاتھ پاؤں مارتا ہے یعنی بلا سوچے سمجھے معاملات سرانجام دیتا ہے۔ مختلف صلات کے ساتھ مختلف معانی دیتا ہے عشوت الیہ میں اس کی طرف مائل ہوگیا۔ عشوت عنہ میں نے اس سے منہ پھیرلیا۔ اس سے اعراض کیا۔ عشی عن۔ کسی چیز سے آنکھیں بند کر لیان۔ اندھا ہوجانا۔ آیت ہذا میں یہی معنی ہیں۔ ومن یعش عن ذکر الرحمن اور جو کوئی خدا کی یاد سے آنکھیں بند کرلے۔ (ع ش و، ع ش ی مادہ) نقیض : مضارع جمع متکلم ، نقیض (تفعیل) مصدر ق ی ض مادہ۔ ہم مقدر کرتے ہیں القیض کے معنی انڈے کے اوپر کے چھلکا کے ہیں اور چھلکا چونکہ اس کے باقی ماندہ اجزاء پر محیط اور مستولی ہوتا ہے لہٰذا اس سے قبض (فعل) کسی چیز پر غالب اور مستولی ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے لام کے صلہ کے ساتھ بمعنی مقدر کرنے۔ مقرر کرنے سبب بنا دینے اور تخلیہ کردینے ، کے استعمال ہوتا ہے۔ مثلا اور جگہ قرآن مجید میں ہے وقیضنا لہم قرناء (41:25) اور ہم نے (شیطانوں کو) ان کا ساتھی مقرر کردیا تھا۔ آیت ہذا میں نقض لہ شیطانا (ہم اس پر ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں) کے معنی ہیں کہ ہم اس سے الگ ہوجاتے ہیں تاکہ شیطان اس پر اس طرح سے مسلط ہوجائے جیسے انڈے کے اوپر چھلکا اپنے مافیہا پر مستولی رہتا ہے۔ فھولہ قرین۔ پس شیطان اس کا ساتی بن جاتا ہے اور اس سے الگ نہیں ہوتا۔ قرین۔ ساتھی ۔ ہم نشین۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 (ذکر الرحمن) سے مراد اللہ تعالیٰ کی یاد بھی ہے اور قرآن بھی جو نصیحت و حکمت سے لبریز ہے۔ 2 صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ ہر شخص کے لئے ایک جن ہے جو اس کے ساتھ لگا رہتا ہے۔ ( شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٣٦ تا ٤٥۔ اسرار ومعارف۔ اور جو کوئی اس عظیم ذات جو کہ بہت بڑا رخم کرنے والا ہے اس کی یاد سے منہ پھیرے جیسے یہ کفار اللہ کے قرآن سے منہ پھیر رہے ہیں تو اس پر ایک شیطان مسلط کردیاجاتا ہے جو ہمیشہ اس کے ساتھ رہتا ہے اور اسے نیکی اور بھلائی کے راستے سے روکتا ہے نیز وہ اپنی گمراہی کو ہدایت اور برائی کو کمال خیال کرنے لگتا ہے۔ ذکر الٰہی اور شیطان۔ ذکر الٰہی کی بنیاد ایمان ہے دوسرا درجہ عمل ہے اور تیسرا السانی کہ فرائض وواجبات کے بعد زبانی تسبیحات اور تلاوت کی جائے اور کامل درجہ ذکر قنبی ہے کہ کوئی لمحہ ضائع نہ جائے اور ترک ذکر پر جو شیطان مسلط ہوتا ہے یہ اس سے الگ ہے جوہر انسان کے ساتھ پہلے سے ہوتا ہے نیز بری مجلس نصیب ہوتی ہے تو لامحالہ ذکر کرنے پر نیک مجلس اچھے ساتھی اور شیطان سے حفاظت بھی نصیب ہوتی ہے۔ مگر اس کی آنکھ جلد ہی کھل جائے گی کہ بعد موت جب حشر میں حاضری ہوگی تو یہ کافر کہہ اٹھیں گے کہ کاش ہم میں اور اس شیطان میں مشرق ومغرب کی دوری ہوتی یعنی ہم کبھی نہ ملے ہوتے تو یہ تو بہت ہی برا ساتھی ثابت ہوا اور ارشاد ہوگا کہ اب ان باتوں کا کوئی فائدہ نہیں کہ تم اس کے کہنے پر گناہ اور کفر تو کرچکے اور اب یہ شیطان بھی اور تم بھی اکٹھے عذاب ہی میں ڈالے جاؤ گے جن لوگوں کو شیاطین نے اس طرح بہرا بنا رکھا بھلا آپ اسے کیا سنائیں گے یا جن کو اندھا کردیا ہے آپ انہیں کیسے راہ دکھاسکتے ہیں جبکہ یہ ایسی گمراہی میں ہیں جس پر خود ان کے پاس کوئی دلیل نہیں اور جس کے گمراہی ہونے میں کوئی شبہ نہیں انہیں اس کی سزا بھگتنا ہوگی دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی وہ اگر آپ دنیا سے پر وہ فرماچکے ہوں تب ہو یا آپ کے سامنے ان پر واقع ہو اس کا توفیصلہ ہوچکا کہ ان پر عذاب ہوگا اور ہم اس پر پوری طرح قادر ہیں آپ پر جو وحی نازل ہوتی ہے آپ اس پوری طرح سے اپنائے رکھیں اور ان کی قطعا پرواہ نہ کریں کہ آپ سیدھے راستے پر ہیں۔ اسلام کیا ہے ۔ احکام الٰہی کو من وعن قبول کرنا ان پر عمل کے لیے پوری کوشش اور ان پر فخر کرنا انہیں کفار کے مقابلے میں باعث عار نہ سمجھنا۔ کہ یہ قرآن آپ کے لیے اور آپ کی قوم کے لیے باعث افتخار ہے اور اس کے بارے پرسش بھی ہوگی جہاں تک توحید باری کا تعلق ہے جس سے یہ کفار بھڑک اٹھتے ہیں تو اس پر تو سب نبیوں اور رسولوں کا اتفاق ہے کہ آپ بیشک پہلے انبیاء کی تعلیمات سے تحقیق فرمالیجئے یابطور معجزہ ان سے ملاقات ہو (جیسے شب معراج ہوئی) تو پوچھ لیجئے کہ کیا ان میں سے کسی نے بھی اللہ بہت بڑے مہربان کے علاوہ کسی دوسرے کے لیے کے لیے کہا تھا کہ اس کی عبادت کی جائے ہرگز نہیں بلکہ سب کے سب ہی توحید باری تعالیٰ کی تبلیغ فرماتے رہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 36 تا 45 : یعش (جو اندھا بنتا ہے ( آنکھیں بند کرلیتا ہے) نقیض (ہم ساتھ لگا دیتے ہیں ، ہم مقرر کردیتے ہیں) قرین ( ساتھی) یصدون ( وہ روکتے ہیں) یلیت (اے کاش) استمسک (مضبوط تھام لے) تسئلون ( تم پوچھے جائو گے) ۔ تشریح : آیت نمبر 36 تا 45 : اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت و فرماں برداری اور دین کے سچے اصولوں کی پابندی انسان کی دنیا اور آخرت میں کامیابی اور نجات دلانے کا یقینی ذریعہ ہے لیکن جو لوگ ان سچائیوں سے منہ موڑ کر اللہ کی یاد سے غفلت اور کوتاہی اختیار کرتے ہیں ان پر قدرت کی طرف سے ایک ایسے شیطان کو مسلط کردیا جاتا ہے جو ہر وقت ان کے ساتھ رہ کر برے خیالات اور وسوسوں کے ذریعہ انہیں راہ حق و صداقت سے بھٹکانے کی کوشش کرتا رہتا ہے جس سے ان کے سوچنے کا اندازہ بدل جاتا ہے اور انہیں صرف ایسے ہی کاموں میں کامیابی نظر آتی ہے جو غلط اور گمراہی کے خوبصورت راستے ہیں ۔ ان کے نزدیک نیکی اور برائی میں کوئی خاص فرق باقی نہیں رہتا اور اس طرح شیطان ان کے ذہن و فکر کے ہر تصور کو مسخ کر کے رکھ دیتا ہے۔ اللہ نے ایسے ہی لوگوں کے لئے فرمایا ہے کہ ان کو اپنی گمراہی اور بد نصیبی کا اندازہ شاید اس دنیا میں نہ ہو لیکن کل قیامت کے دن جب وہ اللہ کے سامنے حاضر ہوں گے اور عذاب کی شدت کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے تو انہیں اپنی غلطیوں ، گناہوں اور خطاؤں کا شدت سے احساس پیدا ہوگا اور وہ زندگی بھر جس شیطان کو اپنا مخلص دوست اور ساتھی سمجھتے رہے ہوں گے اس کی دھوکے بازی ، جھوٹ ، فریب اور بےوفائی پوری طرح کھل کر ان کے سامنے آجائے گی اور وہ قیامت کے ہولناک دن میدان حشر میں اس طرح تنہاء کھڑے ہوں گے کہ کوئی ان کے کام نہ آسکے گا ۔ وہ اپنی شرمندگی اور احساس ندامت کے سمندر میں غرق ہو کر یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ کاش ان کے اور ان کے برے ساتھی شیطان کے درمیان اتنا ہی فاصلہ ہوتا جتنا مشرق اور مغرب کے درمیان فاصلہ ہے۔ وہ کہہ اٹھیں گے کہ اگر وہ شیطان کو اپنا دوست اور ساتھی نہ بناتے تو ان کو اس ذلت اور رسوائی سے واسطہ نہ پڑتا اور یہ بد قسمت دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا لیکن عمل کا وقت نکل جانے کے بعد ان کا پچھتانا ان کے کام نہ آسکے گا ۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ جس سچائی کے راستے پر اپنی جدوجہد اور کوشش کر رہے ہیں وہی راہ حق ہے اور آپ صراط مستقیم پر ہیں ۔ آپ لوگوں کی نا فرمانیوں اور انکار کی وجہ سے مایوس نہ ہوں اور اپنا مشن جاری رکھے جو سعادت مند اور خوش نصیب ہیں وہ آپ کی بات سن کر عمل کریں گے لیکن جو لوگ آنکھیں رکھنے کے باوجود اندھے اور کان رکھنے کے باوجود بہرے بنے ہوئے ہیں ان کو آپ دکھانا اور سنانا بھی چاہیں تب بھی وہ راہ ہدایت کو اختیار نہ کریں گے۔ اللہ نے فرمایا ہو سکتا وہ ایسے ضدی ، ہٹ دھرم اور نافرمان لوگوں کو آپ کی دنیاوی زندگی ہی میں یا بعد میں سخت سے سخت سزا دیدیے بہر حال یہ بات بالکل واضح اور صاف ہے کہ جب بھی ان کو سزا دی جائے گی تو وہ ان کی زندگی کا بد نصیب دن ہوگا ۔ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ خود اور اپنے کے مخلص صحابہ کرام (رض) کے لئے جو ہدایت و رہنمائی عطاء کی گئی ہے اس پر قائم رہیے کیونکہ اللہ کے ہاں ہر ایک سے اس کے اعمال کے متعلق ضرور پوچھا جائے گا اور جیسا جس کا عمل ہوگا اس کو ویسی ہی جزا اور سزا بھی دی جائے گی ۔ یہ توحید کا وہ راستہ ہے جس پر سارے نبی چلتے آئے ہیں جنہوں نے توحید کی تعلیم دی اور کفر و شرک سے نفرت سکھائی اور انہوں نے اللہ کے سوا کسی کی عبادت و بندگی نہیں کی ۔ فرمایا کہ اس پر تمام انبیاء کی تعلیمات گواہ ہیں اور اگر آپ ان منکرین و مشرکین سے پوچھیں تو یہ بھی اس حقیقت کو چھپا نہیں سکتے کہ اللہ کے سارے پیغمبر اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے تھے اور عبادت و بندگی کے تمام طریقے صرف اللہ کے ساتھ ہی خاص کئے ہوئے تھے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : دنیا کو سب کچھ سمجھنے والا شخص نہ صرف آخرت کو فراموش کرتا ہے بلکہ اپنے رب کی یاد سے بھی غافل ہوتا ہے۔ جس کے نتیجے میں شیطان اس کا ساتھی بنا دیا جاتا ہے۔ جو شخص اپنے رب کی یاد سے غافل ہوجائے اللہ تعالیٰ اس پر شیطان مسلط کردیتا ہے اور وہ اس کا مستقل ساتھی بن جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کو شیطان نیکی کے کاموں سے روک لیتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ سمجھتے ہیں۔ ہم صحیح راستہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ موت کے بعد جب اس کی حاضری اپنے رب کے حضور ہوگی تو وہ افسوس کے ساتھ اس بات کا اظہار کرے گا کہ کاش ! دنیا میں میرے اور شیطان کے درمیان مشرق اور مغرب کی دوری ہوتی۔ اس کے ساتھ ہی شیطان کو مخاطب کرتے ہوئے کہے گا کہ تو میرا بدترین ساتھی ثابت ہوا۔ اس موقعہ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان ہوگا کہ تمہارا ایک دوسرے سے جھگڑنا اور اپنے کیے پر افسوس کا اظہار کرنا۔ آج کے دن اس کا تمہیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ تم نے ہر قسم کے مظالم کیے ہیں لہٰذا عذاب میں بھی تم ایک دوسرے کے ساتھی ہوگے۔ ان آیات میں تین باتوں کی طرف خصوصی طور پر توجہ دینا چاہیے۔ 1” ذکر الرحمن “ سے مراد صرف زبانی ذکر نہیں بلکہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا حکم ماننا اور اس کو یاد رکھنا ہے۔ 2 اللہ تعالیٰ کا کسی پر شیطان مسلط کرنے کا یہ معنٰی ہے کہ جب کوئی شخص اپنے لیے برا راستہ اختیار کرلیتا اور اس پر اصرار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو شیطان کے حوالے کردیتا ہے۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ نے ناراض ہو کر اس پر شیطان کو مسلط کردیا ہے۔ جس پر شیطان مسلط کردیا جائے وہ مرتے دم تک نیکی اختیار کرنے کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔ 3 شیطان پہلا کام یہ کرتا ہے کہ وہ برائی اور بےحیائی کو لوگوں کے سامنے فیشن کے طور پر پیش کرتا ہے۔ برائی کو فیشن کے طور پر اختیار کرنے والے لوگوں کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ترقی یافتہ سمجھتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ اپنے طرز زندگی کو صحیح تصور کرتے ہیں۔ ایسے شخص کا صحیح راستے کی طرف آنا ممکن نہیں ہوتا۔ قیامت کے دن یہ لوگ ایک دوسرے کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکیں گے۔ یہاں تک کہ شیطان بھی ان سے برأت کا اعلان کر دے گا۔[ ابراہیم : ٢٢] مسائل ١۔ الرحمن کے ذکر سے غفلت کرنے والے پر شیطان مسلط کردیا جاتا ہے ٢۔ جس پر شیطان مسلط کردیا جائے وہ برائی کو اچھائی سمجھتا ہے۔ ٣۔ قیامت کے دن مجرم اس بات کی خواہش کرے گا کہ کاش ! دنیا میں میرے اور شیطان کے درمیان بُعْدَ الْمَشْرِقَیْنِہوتا۔ ٤۔ قیامت کے دن ظالم ایک دوسرے کی مدد نہیں کرسکیں گے اور جہنّم میں اکٹھے ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن مجرمین کی خواہش اور آرزو : ١۔ جہنمی کہیں گے اے اللہ ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب ہم کو واپس لوٹا دے۔ (السجدۃ : ١٢) ٢۔ جب بھی جہنم سے نکلنے کا ارادہ کریں گے تو دوبارہ جہنم میں لٹادئیے جائیں گے۔ (السجدۃ : ٢٠) ٣۔ جب بھی ارادہ کریں گے کہ ہم نکلیں جہنم سے تو اس میں واپس لٹائے جائیں گے۔ (الحج : ٢٢) ٤۔ جہنمی کی خواہش ہوگی کہ دنیا میں واپس بھیج دیا جائے۔ (الانعام : ٢٧ تا ٢٨) ٥۔ اے رب ہمارے ! ہمیں یہاں سے نکال ہم پہلے سے نیک عمل کریں گے۔ (الفاطر : ٣٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 36 تا 39 العشی کے معنی ہوتے ہیں نظر کا دیکھ نہ سکنا ، بالعموم یہ حالت اس وقت ہوتی ہے جب تیز روشنی سے آنکھیں دو چار ہوں ، جس میں آنکھوں کو کھولنا ممکن نہ ہو۔ نیز عشی کی وجہ سے شام کے اندھیرے میں کمزور نظر کے لوگ صحیح طرح معلوم نہیں کرسکتے۔ اور ایک خاص بیماری کی وجہ سے بھی یہ ہوتا ہے۔ یہاں مقصد غفلت اور اللہ کی یاد سے منہ موڑنا اور دل سے یہ شعور محو کردینا کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔ ومن یعش عن ذکر الرحمٰن نقیض لہ شیطنا فھو لہ قرین (٤٣ : ٣٦) “ جو شخص رحمٰن کے ذکر سے تغافل برتتا ہے ، ہم اس پر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں اور وہ اس کا رفیق بن جاتا ہے ”۔ اللہ کی مشیت نے فطرت انسان میں یہ بات رکھ دی ہے کہ جب اس کا دل ذکر الٰہی سے غافل ہوا اس کی طرف ایک شیطان راہ پالیتا ہے۔ وہ اس کے ساتھ لگ جاتا ہے ، ہر وقت اس کے دل میں وسوسے ڈالتا ہے۔ اور اس کے لئے برائی کو خوبصورت بناتا رہتا ہے۔ یہ شرط اور اس کا جواب دونوں مل کر اللہ کے نظام مشیت کی خوبصورت تعبیر کرتے ہیں۔ اللہ کی سنت کے مطابق سبب آتے ہی نتیجہ سامنے آجاتا ہے۔ یہی فیصلہ پہلے سے اللہ کے علم کے مطابق طے ہوتا ہے اور اسے قضا اور قدر کہتے ہیں۔ اور شیطانی برے دوستوں کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے انسانی برے دوستوں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔ یوں یہ انسان خیال کرتے ہیں کہ وہ ہدایت پر ہیں۔ وانھم لیصدونھم عن السبیل ویحسبون انھم مھتدون (٤٣ : ٣٧) “ اور یہ شیاطین ایسے لوگوں کو راہ راست پر آنے سے روکتے ہیں اور وہ اپنی جگہ یہ سوچتے ہیں کہ ہم ٹھیک جا رہے ہیں ”۔ ایک دوست کی طرف سے ایک دوست کے ساتھ یہ نہایت ہی برا سلوک ہے کہ وہ دوست کو سیدھے راستے سے روک کر غلط راہ پر ڈال دے اور پھر اسے مسلسل غافل رکھے کہ وہ انسانی دوست کبھی یہ سوچ بھی نہ سکے کہ وہ غلطی پر ہے بلکہ اسے یہ تسلی دیتا رہے کہ وہ سیدھی راہ پر جارہا ہے۔ یہاں تک کہ وہ برے انجام کے ساتھ متصادم ہوجاتا ہے۔ یہاں انداز تعبیر کے لئے فعل مضارع استعمال ہوا ہے ، مطلب یہ ہے کہ ہر عمل جاری ہے۔ لیصدونھم “ وہ روکتے ہیں ”۔ یحسبون “ وہ گمان کرتے ہیں ”۔ اور دیکھا جاسکتا ہے بلکہ دوسرے لوگ دیکھ رہے ہیں اس تماشہ کو ، جبکہ وہ خود اسے تمہیں دیکھ رہے جو جہنم کی طرف رواں ہیں لیکن انجام سے بیخبر اور جس راہ پر وہ جارہے ہیں ، اچانک ہی وہ انجام بد تک پہنچ جائیں گے۔ حتی اذا جاء ۔۔۔۔ فبئس القرین (٤٣ : ٣٨) “ آخر کار جب یہ شخص ہمارے ہاں پہنچے گا تو اپنے شیطان سے کہے گا ، “ کاش میرے اور تیرے درمیان مشرق و مغرب کا بعد ہوتا تو ، تو بدترین ساتھی نکلا ”۔ چشم زدن میں ہم دنیا سے آخرت میں چلے جاتے ہیں ، ہماری اس زندگی کا دفتر لپیٹ لیا جاتا ہے اور یہ اندھا پن اس کو شیطان کی رفاقت میں آخری انجام تک پہنچا دیتا ہے۔ یہاں اب ہوش آجائے گا ، جس طرح شرابی کا نشہ اترتا ہے اور اندھے پن اور مدہوشی کے بعد یہ نظریں اٹھا کر دیکھیں گے۔ اب یہ شخص اپنے ساتھی کو غور سے دیکھے گا جو اسے یہ یقین دہائیاں کرا رہا تھا کہ میں تو آپ کو صحیح راہ پر لے جا رہا ہوں ، لیکن تھا وہ بربادی و ہلاکت کا راہبر۔ اس لیے وہ جل بھن کر اسے کہے گا۔ یلیت بینی وبینک بعد المشرقین ( ٤٣ : ٣٧) “ کاش میرے اور تیرے درمیان شرق و مغرب کا بعد ہوتا ”۔ کاش کہ ہم ملتے ہی نہ اور ہمارے درمیان یہ دوریاں ہوتیں اور پھر قرآن مجید کہتا ہے۔ فبئس القرین (٤٣ : ٣٨) “ یہ تو بہت ہی برا ساتھی ہے ”۔ اب دونوں کی حالت پر مایوس کردینے والا تبصرہ۔ اور پھر اس منظر پر پردہ کرتا ہے۔ ولن ینفعکم الیوم اذ ظلمتم انکم فی العذاب مشترکون (٤٣ : ٣٩) “ اور اس وقت ان لوگوں سے کہا جائے گا کہ جب تم ظلم کرچکے تو آج یہ بات تمہارے لئے کچھ نافع نہیں ہے کہ تم اور تمہارے شیطان عذاب میں مشترک ہیں ” ۔ عذاب سب کے لئے برابر ہے اور اس کو باہم تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔ ٭٭٭٭ اب روئے سخن ان لوگوں سے بھر جاتا ہے۔ ان لوگوں کو اس بری حالت میں چھوڑ کر کہ ایک دوسرے کو ملامت کریں ، الزامات کی بوچھاڑ کریں ، برا بھلا کہیں ، خطاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شروع ہوجاتا ہے کہ آپ ان لوگوں کے اس انجام بد سے پریشان نہ ہوں اور ان کے اعراض اور کفر کی پرواہ بھی نہ کریں جو حق آپ کی طرف آرہا ہے اس پر جم جائیں اور سچائی قدیم زمانے سے مسلسل آرہی ہے اور ہر رسول نے اسی کو پیش کیا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

جو رحمٰن کے ذکر سے غافل ہو اس پر شیطان مسلط کردیا جاتا ہے، قیامت کے دن اس سے کچھ فائدہ نہ پہنچے گا کہ دوسروں کو بھی تو عذاب ہو رہا ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں بھی ان پر عذاب آسکتا ہے لفظ ﴿یَعْشُ﴾ عَشیٰ یَعْشَوْ سے ﴿یَدْعُوْ﴾ کے وزن پر مضارع کا صیغہ ہے من شرطیہ داخل ہونے کی وجہ سے مجزوم ہے جس کی وجہ سے واؤ حذف ہوگیا اس کا لغوی معنی یہ ہے کہ آنکھوں میں کوئی بیماری نہ ہو تب بھی نظر نہ آئے اور بعض حضرات نے اس کا یہ معنی بتایا ہے کہ نظر کمزور ہوجائے جس سے اچھی طرح نظر نہ آئے آیت کا مطلب یہ ہے بہت سے لوگوں کے پاس حق آیا اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصیحت آئی یعنی انہوں نے قرآن کو سنا اور سمجھا لیکن قصداً و ارادۃً اس کی طرف سے اندھے بن گئے جو لوگ اس طریقے کو اختیار کرلیتے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر ایک شیطان مسلط کردیا جاتا ہے اب یہی شیطان ان کا ساتھی بنا رہتا ہے اور ان کو حق قبول نہیں کرنے دیتا اور حق پر نہیں آنے دیتا یہ شیاطین جو اس قسم کے لوگوں کے ساتھی بن جاتے ہیں ان گمراہی اختیار کرنے والے لوگوں کو راہ حق سے روکتے رہتے ہیں اور یہ لوگ جن کے ساتھی شیاطین بن جاتے ہیں راہ حق سے ہٹ جانے اور گمراہی میں پڑجانے کے باوجود یہی سمجھتے رہتے ہیں کہ ہم ہدایت پر ہیں، یہ شیطان اس قرین کے علاوہ ہے جس کا حدیث شریف میں ذکر ہے کہ تم میں سے ہر ایک کے ساتھ ایک قرین فرشتہ اور ایک قرین شیطان مقرر ہے۔ (رواہ مسلم) ان گمراہوں کی دنیا میں تو شیاطین سے دوستی ہے لیکن جب قیامت کے دن حاضر ہوں گے تو گمراہ ہونے والا آدمی اپنے ساتھی یعنی شیطان سے کہے گا کہ تو نے میرا ناس کھویا کاش دنیا میں میرے اور تیرے درمیان اتنا فاصلہ ہوتا جتنا مغرب اور مشرق کے درمیان ہے تو میرا برا ساتھی تھا تو نے مجھے گمراہ کیا اور کفر و شرک اور برے اعمال کو اچھا کرکے بتایا۔ كما فی السورۃ حم السجدہ ﴿وَقَيَّضْنَا لَهُمْ قُرَنَآءَ فَزَيَّنُوْا لَهُمْ مَّا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ ﴾ (اور ہم نے ان کے لیے کچھ ساتھ رہنے والے مقرر کر رکھے تھے سو انہوں نے ان کے اگلے پچھلے اعمال ان کی نظر میں اچھے بنا کر دکھا رکھے تھے۔ ) دنیا میں تو گمراہوں کا دوستانہ تھا شیاطین بھی کافر تھے اور جن انسانوں کو بہکاتے تھے وہ بھی ان کے بہکانے کی وجہ سے کفر پر جمے رہتے تھے پھر جب قیامت کے دن موجود ہوں گے تو سب کو دوزخ میں ڈال دیا جائے گا وہاں ایک دوسرے کو عذاب میں دیکھیں گے لیکن اس بات سے کسی کو کچھ نفع نہ ہوگا کہ سب دوزخ میں ہیں اور سب عذاب میں ہیں یعنی جس طرح دنیا میں ایک دوسرے کو مصیبت میں دیکھ کر تسلی ہوجاتی ہے کہ ہم تنہا مصیبت میں نہیں ہیں، دوسرے لوگ بھی اس مصیبت میں مبتلا ہیں جو ہم پر آئی ہے وہاں اس بات سے کسی کو کچھ نفع نہ ہوگا کہ سب عذاب میں شریک ہیں کیونکہ وہاں کا عذاب بہت سخت ہے۔ دنیا میں جو بہت سے لوگوں کو ایمان کی دعوت دی جاتی ہے تو حق کو جانتے اور پہچانتے ہوئے اسلام قبول نہیں کرتے اور نفس و شیطان ان کو یہ سمجھا دیتا ہے کہ اور بھی تو کروڑوں ایسے لوگ ہیں جو مسلمان نہیں ہیں جو ان کا حال ہوگا وہی ہمارا ہوجائے گا ایسے لوگوں کو بتادیا کہ عذاب میں پڑنے والوں کے ساتھ عذاب میں جانا یہ کوئی سمجھداری نہیں ہے جب سب عذاب میں جائیں گے تو یہ دیکھ کر کچھ فائدہ نہ ہوگا کہ دوسرے لوگ بھی عذاب میں ہیں۔ بہت سے وہ لوگ جو مسلمان ہونے کے دعویدار ہیں ان کا بھی یہ طریقہ ہے کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ فرائض انجام دو ، حرام سے بچو اور گناہوں کو چھوڑو تو کہہ دیتے ہیں کہ اور کون شریعت پر چل رہا ہے جو ہم چلیں، یہ جاہلانہ جواب ہے یہاں تو گنہگاروں کی جماعت میں شریک ہونا نفس کو اچھا لگ رہا ہے لیکن روز قیامت جب گنہگاروں کی صف میں کھڑے ہوں گے اور عذاب میں مبتلا ہوں گے اس وقت اس بات سے کسی کو کچھ فائدہ نہ ہوگا کہ ہم بھی عذاب میں ہیں تو کیا ہوا اور ہزاروں آدمی بھی تو عذاب میں ہیں اس بات کا خیال کرنے سے کسی کا عذاب ہلکا نہیں ہوجائے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

24:۔ ” ومن یعش “ یہ زجر مع تخویف اخروی ہے اور مشرکین کے نہ ماننے کی وجہ کا بیان ہے۔ جو شخص جان بوجھ کر اللہ کے قرآن سے اندھا بن جائے گا اور محض ضد وعناد کی وجہ سے اس کا انکار کرے، تو ہم اس سے قبول حق کی صلاحیت سلب کرلیتے ہیں اور شیاطین کو ان پر مسلط کرلیتے ہیں اور شیاطین کو ان پر مسلط کردیتے ہیں جو ہر وقت ان کے ساتھ رہتے اور انہیں راہ توحید سے گمراہ کرتے ہیں مختلف حیلوں سے اور جھوٹی آزوئیں دلا کر انہیں غیر اللہ کی عبادت اور پکار پر اکساتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہدایت ایفتہ ہیں اور سیدھی راہ پر چل رہے ہیں ہیں۔ ” حتی اذا جاءنا الخ “ یعنی اب تو مشرکین آنکھیں بند کر کے شیاطین کی پیروی کر رہے ہیں اور حق کو نہیں مانتے اور اللہ کی توحید سے اعراض کرتے ہوئے اس کے لیے نائب تجویز کرتے ہیں، لیکن جب قیامت کے دن ہمارے سامنے حاضر ہوں گے اور ان پر حقیقت حال واضح ہوجائے گی، تو ہر کافر اپنے شیطان قرین سے کہے گا اے کاش دنیا میں، میں تیرا منہ بھی نہ دیکھتا، میرے اور تیرے درمیان مشرق و مغرب کا فاصل ہوتا، تو کیسا ہی بد ترین ساتھی تھا۔ تو نے مجھے گمراہ کر کے میری عاقبت برباد کردی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(36) اور جو رحمن کے ذکر اور اس کی نصیحت سے آنکھیں بند کرلے اور آنکھ چرائے تو ہم اس پر ایک شیطان متعین کردیتے ہیں سو وہ شیطان اس کے ساتھ رہتا ہے۔ سورة فصلت میں تفصیل گزر چکی ہے مطلب وہی ہے کہ رحمان کے ذکر سے جو شخص آنکھیں چرانے کا خوگر ہوجائے تو پھر اس کو کسی ایک شیطان کے سپرد کردیا جاتا ہے اور وہ شیطان خواہ جن ہو یا آدمی کی شکل میں ہو اس پر مسلط رہتا ہے اور ٹھیک بات کی طرف اس کو آنے نہیں دیتا۔