Surat uz Zukhruf

Surah: 43

Verse: 44

سورة الزخرف

وَ اِنَّہٗ لَذِکۡرٌ لَّکَ وَ لِقَوۡمِکَ ۚ وَ سَوۡفَ تُسۡئَلُوۡنَ ﴿۴۴﴾

And indeed, it is a remembrance for you and your people, and you [all] are going to be questioned.

اور یقیناً یہ ( خود ) آپ کے لئے اور آپ کی قوم کے لئے نصیحت ہے اور عنقریب تم لوگ پوچھے جاؤ گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَّكَ وَلِقَوْمِكَ ... And verily, this is a Dhikr for you and your people, It was said that this means, `it is an honor for you and your people;' this was the view of Ibn Abbas, may Allah be pleased with him, Mujahid, Qatadah, As-Suddi and Ibn Zayd. This means that it is an honor for them in that it was revealed in their language, so they are the people who have the best understanding of it among mankind and hence are obliged to be the most steadfast in adhering to its commandments. This is how the best of them were, the first immigrants and those who emulated them and followed them. It was also said that the meaning of the phrase; وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَّكَ وَلِقَوْمِكَ (And verily, this is indeed a Dhikr for you and your people), was that `it was sent to remind you and your people.' The fact that they are singled out does not exclude others. This is like the Ayat: لَقَدْ أَنزَلْنَأ إِلَيْكُمْ كِتَـباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ أَفَلَ تَعْقِلُونَ Indeed, We have sent down for you (O mankind) a Book in which there is Dhikrukum (your Reminder). Will you not then understand? (21:10) وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الاٌّقْرَبِينَ And warn your tribe of near kindred, (26:214) ... وَسَوْفَ تُسْأَلُونَ and you will be questioned. means, `about this Qur'an, and how you acted upon it and what your response to it was.' وَاسْأَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رُّسُلِنَا أَجَعَلْنَا مِن دُونِ الرَّحْمَنِ الِهَةً يُعْبَدُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

44۔ 1 یعنی یہ قرآن تیرے لئے اور تیری قوم کے لئے شرف و عزت کا باعث ہے کہ یہ ان کی زبان میں اترا، اس کو وہ سب سے زیادہ سمجھنے والے ہیں اور اس کے ذریعے سے وہ پوری دنیا پر فضل و برتری پاسکتے ہیں اس لئے ہم کو چاہیے کہ اس کو اپنائیں اور اس پر سب سے زیادہ عمل کریں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٣] یعنی یہ کتاب قرآن کریم ایک بہت بڑی نعمت ہے جو آپ کو اور آپ کی قوم کو دی جارہی ہے۔ تمہاری اور تمہاری قوم کی اس سے زیادہ خوش نصیبی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ ہم آپ کی طرف وہ کتاب نازل کر رہے ہیں جو تاقیام قیامت ساری دنیا کے لیے ہدایت کا ذریعہ بنے گی اور دوسری قوموں کو چھوڑ کر آپ کی قوم اس پیغام الٰہی کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچانے کا ذریعہ بنے گی۔ لہذا اس وقت جو لوگ اس عظیم نعمت کا مذاق اڑاتے ہیں یا اسے سننا بھی گوارا نہیں کرتے ان سے یقیناً باز پرس ہونے والی ہے۔ اور اے مسلمانو ! تم سے بھی پوچھا جائے گا کہ کیا تم نے اللہ کا یہ پیغام دنیا والوں کو پہنچا دیا تھا ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) وانہ لذکر لک و لقومک : ذکر کا معنی نصیحت و یاد دہانی بھی ہے اور عز و شرف اور شہرت و ناموری بھی، یہاں دونوں مراد ہیں۔ یعنی یہ قرآن آپ کے لئے اور آپ کی قوم کے لئے نصیحت اور یاد دہانی ہے اور آپ کے لئے اور آپ کی قوم قریش اور عرب کے لئے عز و شرف کا باعث بھی ہے۔ یہ عربی زبان میں نازل ہوا اور اس کے اولین مخاطب اور سب سے پہلے عمل کرنے والے قریش اور عرب ہیں۔ جو عجمی قومیں اس پر ایمان لائیں گی انا کو قرآن کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے عربی زبان سیکھنا پڑے گی اور عربوں کا شاگرد بننا پڑے گا۔ قریش اور عربوں کے لئے یہ عزو شرف کیا کم ہے کہ بعد میں آنے والے تمام لوگ ان کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے۔ زمین کے مشرق و مغرب ان کے جہاد کے ساتھ فتح اور حلقہ بگوش اسلام ہونے اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی خلافت ان میں رکھی جب تک انہوں نے دین کو قائم رکھا، کیونکہ قرآن شرف کا باعث اسی کے لئے ہے جو اس پر عمل کرے، اس کے لئے محض عرب یا قریشی ہونا کافی نہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(والقرآن حجۃ لک او علیک ) (مسلم العطھارۃ ، باب فضل الوضو : ٢٢٣، عن ابی مالک الاشعری (رض) ” قرآن تیرے حق میں حجت ہے یا تیرے خلاف حجت ہے۔ “ آیت سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ نیک نامی کی خواہش اچھی چیز ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ اس کا ذکر اپنے نبی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر احسان کے طور پر نہ فرماتے اور ابراہیم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ سے یہ دعا نہ کرتے :(واجعل لی لسان صدق فی الاخرین) (الشعرائ : ٨٣)” اور پیچھے آنے والوں میں میرے لئے سچی ناموری رکھ۔ “ (٢) وسوف تسئلون : یعنی قیامت کے دن تم سے سوال کیا جائے گا کہ تم نے اپنے عز و شرف کا باعث بننے والی نصیحت کی اس کتاب کی کیا قدر کی، اس پر کہاں تک عمل کیا اور اسے تمام اقوام عالم تک پہنچانے کی ذمہ داری کہاں تک ادا کی ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Good Fame is liked by Islam وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ‌ لَّكَ وَلِقَوْمِكَ (And certainly this Qur&an is a word of honor for you and your people... 43:44) The original word used in the text is dhikr which here means &good name& or &fame&. The verse means that the Noble Qur&an is a matter of great honour and good fame for the Holy Prophet t and his people. Imam Razi has concluded from this verse that good fame is a desirable thing, because Allah Ta ala has stated this as a matter of favor and that is why Sayyidna Ibrahim& (علیہ السلام) had supplicated: وَاجْعَل لِّي لِسَانَ صِدْقٍ فِي الْآخِرِ‌ينَ ﴿٨٤﴾ (And destine for me a truthful description among the next generations) (26:84) But one must keep in mind that the good fame is praiseworthy only when it is received as an automatic result of virtuous deeds, but when virtuous deeds are done for the sake of good fame, then it becomes riya& (ostentation) which not only nullifies all the rewards of good deeds, but also renders one guilty of a major sin. In this verse the words &your people& have been taken by some exegetes to mean the tribe of Quraish only, thereby proving the superiority of Quraish, whereas ` Allamah Qurtubi says that, according to the correct view, these words refer to the whole Ummah of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، irrespective of color or race, and the Noble Qur&an is a matter of honor and good fame for the whole Ummah. (Qurtubi)

نیک شہرت بھی دین میں پسندیدہ ہے : (آیت) وَاِنَّهٗ لَذِكْرٌ لَّكَ وَلِقَوْمِكَ (اور یہ قرآن آپ کے لئے اور آپ کی قوم کے لئے بڑے شرف کی چیز ہے) ” ذکر “ سے یہاں مراد نیک ناموری ہے۔ اور مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم آپ کے اور آپ کی قوم کے لئے شرف عظیم اور نیک شہرت کا باعث ہے۔ امام رازی فرماتے ہیں کہ اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ نیک شہرت ایک قابل رغبت چیز ہے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے یہاں اس کو ایک احسان کے طور پر ذکر فرمایا ہے اور اسی لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ دعا فرمائی تھی کہ (آیت) واجعل لی لسان صدق فی الآخرین (تفسیر کبیر) لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ نیک شہرت اس وقت مستحسن ہے جب وہ مقصد زندگی بنائے بغیر انسان کے اعمال صالحہ سے خود بخود حاصل ہوجائے اور اگر انسان نیکیاں صرف اسی مقصد سے کرے کہ اس سے دنیا میں نام ہوگا تو یہ ریا ہے جس سے نیکیوں کا سارا فائدہ جاتا رہتا ہے اور الٹا گناہ لازم ہوجاتا ہے۔ اس آیت میں ” آپ کی قوم “ سے مراد بعض مفسرین نے صرف قبیلہ قریش کو قرار دیا ہے اور اس سے قریش کی فضیلت ثابت کی ہے لیکن علامہ قرطبی فرماتے ہیں کہ صحیح یہ ہے کہ اس سے مراد آپ کی پوری امت ہے خواہ کسی رنگ و نسل سے تعلق رکھتی ہو۔ قرآن کریم ان سب کے لئے عظمت و شرف اور نیک ناموری کا باعث ہے۔ (قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِنَّہٗ لَذِكْرٌ لَّكَ وَلِقَوْمِكَ۝ ٠ ۚ وَسَوْفَ تُسْـَٔــلُوْنَ۝ ٤٤ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] سأل السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. ( س ء ل ) السؤال ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٤ { وَاِنَّـہٗ لَذِکْرٌ لَّکَ وَلِقَوْمِکَ وَسَوْفَ تُسْئَلُوْنَ ۔ } ” اور یہ (قرآن) آپ کے لیے بھی یاد دہانی ہے اور آپ کی قوم کے لیے بھی ‘ اور عنقریب آپ سب سے پوچھ گچھ ہوگی۔ “ یہ قرآن گویا آپ کا وظیفہ ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے ہمیشہ پڑھتے رہیے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قوم کی ہدایت و فلاح بھی اسی میں ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

39 That is, "There can be no greater good fortune for a person than that Allah should choose him from among all men to become the recipient of His Book, and there can be no greater good fortune also for a nation than that Allah should raise His Prophet in it, apart from all other nations of the world, and should send down His Book in its tongue, and give it the opportunity to rise as the standard-bearer of Divine Message in the world. If the Quraish and the people of Arabia have no sense of this great honour, and spurn it, a time will come when they will be called upon to account for it."

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(43:44) وانہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب سے مراد القرآن ہے۔ لذکر میں لام تاکید کے لئے ہے ذکر شرف عظیم ۔ بیشک یہ تمہارے لئے شرف عظیم ہے۔ سوف تسئلون : سوف مضارع پر آنے سے اس کو مستقبل کے معنی میں خاص کردیتا ہے۔ عنقریب تم سے پوچھا جائے گا (کہ تم نے اس کے حقوق کو کہاں تک قائم رکھا ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ قرآن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قوم ( قریش) کے لئے شرف ہے کیونکہ یہ عربی زبان میں نازل ہوا ہے اور اس کے اولین مخاطب قریش ہیں اور جو عجمی قومیں اس پر ایمان لائیں گی ان کو قرآن کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے عربی زبان حاصل کرنی پڑے گی۔ مگر قرآن شرف کا سبب اسی کے لئے ہے جو اس پر عمل پیرا ہوگا ( القرآن حجۃ لک اوعلیک) حدیث میں ہے ( لیس لاحد علی احد فضل الا بالتقوی) کہ کسی کو کسی پر کچھ فضلیت حاصل نہیں ہے الایہ کہ تقویٰ اختیار کرے۔ ( قرطبی) 11 یعنی قیامت کے دن کہ اس نصیحت کی کتاب پر عمل کر کے کسی حد تک اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ پس آپ سے صرف تبلیغ کے متعلق سوال ہوگا، جس کو آپ خوب ادا کرچکے ہیں اور عمل کے متعلق ان سے سوال ہوگا جس میں انہوں نے اخلال کیا، پس جب آپ سے ان کے اعمال کے بارے میں باز پرس نہ ہوگی تو پھر آپ کیوں غم کرتے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمسک کرنے کا حکم ہوا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی وحی ہے جو آپ اور آپ کی قوم کے لیے نصیحت ہے اس کا پہلا نقطہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ قرآن مجید وحی کے ذریعے نازل کیا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کا ذریعہ اور اس کی طرف سے نصیحت ہے۔ جسے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور لوگوں کی راہنمائی کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ اب لوگوں کا فرض ہے وہ اس کے مطابق اپنی زندگی بسر کریں۔ اللہ تعالیٰ ان سے بات پرس کرے گا۔ جو لوگ قرآن مجید کی آمد اور اس کے منع کرنے کے باوجود شرک کرتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے استفسار فرمائیں جنہیں ہم نے آپ سے پہلے رسول بنایا تھا۔ کیا ہم نے الرحمن کے سوا کوئی اور الٰہ بنایا ہے کہ اس کی عبادت کی جائے ؟ ان آیات میں پہلا ارشاد یہ ہے کہ جو قرآن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا گیا ہے وہ آپ اور آپ کی قوم کے لیے نصیحت ہے جو لوگ اسے تسلیم نہیں کرتے اور اس کے بتلائے ہوئے راستے پر گامزن نہیں ہوتے ہم انہیں بہت جلد پوچھ لیں گے۔ پھر ارشاد ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے سے پہلے انبیاء سے پوچھ لیں کہ کیا اللہ تعالیٰ نے اپنے علاوہ کوئی معبود بنایا تھا یا بنایا ہے جس کی یہ لوگ عبادت کریں اس حقیقت کو ہر کوئی جانتا تھا اور مانتا ہے کہ پہلے انبیاء آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری سے پہلے فوت ہوچکے تھے۔ اس کے باوجود یہاں یہ الفاظ استعمال کیے گئے ہیں کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! پہلے انبیاء سے سوال کریں۔ اس کا یہ ہرگز معنٰی نہیں کہ پہلے انبیائے کرام (علیہ السلام) جسمانی یا روحانی طور پر دنیا میں موجود تھے۔ جن سے جاکر آپ پوچھتے۔ اس کا معنٰی یہ ہے کہ جو لوگ پہلے انبیائے کرام (علیہ السلام) کی اتباع اور ان کی نبوت کا حوالہ دیتے ہیں آپ ان لوگوں سے سوال کریں کہ اپنے انبیائے کرام (علیہ السلام) کی صحیح تعلیم کے مطابق بتاؤ کہ رب الرّحمن نے کسی آسمانی کتاب میں یہ بات ذکر فرمائی ہے کہ اس نے اپنے سوا یا اپنے ساتھ کسی اور کو الٰہ بنایا ہے کہ جس کی عبادت کی جائے ؟ ظاہر بات ہے کہ کسی آسمانی کتاب میں رب رحمن کے سوا کوئی الٰہ نہیں کہ جس کی عبادت کرنا جائز تھی اور نہ ہی قرآن مجید میں رب رحمن کے سوا کسی کو معبود بنانے کا اشارہ ملتا ہے۔ الٰہ کا معنٰی ہے کہ جس کی عبادت کی جائے اور جسے حاجت روا اور مشکل سمجھا جائے وہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں۔ لہٰذاصرف اسی کی عبادت کرنا اور اسی کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا اور ماننا چاہیے۔ مسائل ١۔ قرآن مجید وحی کے ذریعے نازل ہوا اور یہ اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کی طرف سے نصیحت ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ اپنی نصیحت کے بارے میں ہر شخص سے باز پرس کرے گا۔ ٣۔ الرحمن کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں کہ جس کی عبادت کی جائے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہی عبادت کے لائق، حاجت روا اور مشکل کشا ہے۔ تفسیر بالقرآن الٰہ کے معانی اور مفہوم : ١۔ اللہ کے ساتھ دوسرا الٰہ نہ بناؤ ورنہ بدحال بےیارومددگار ہوجاؤ گے۔ (بنی اسرائیل : ٢٢) ٢۔ اللہ کے سوا کسی اور کو نہ پکارو اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہ عرش عظیم کا مالک ہے۔ (القصص : ٨٨) ٣۔ اگر یہ اِلٰہ ہوتے تو جہنم میں داخل نہ ہوتے۔ (الانبیاء : ٩٩) ٤۔ انہوں نے اللہ کے سوا اِلٰہ بنا لیے ہیں جنہوں نے کچھ بھی پیدا نہیں کیا۔ (الفرقان : ٣) ٥۔ کیا انہوں نے اللہ کے سوا اپنی مدد کے لیے الٰہ بنا لیے ہیں ؟ (یٰس : ٢٣) ٦۔ زمین و آسمان بنانے اور بارش اتارنے والا اللہ ہے کیا اس کے ساتھ دوسرا الٰہ ہے ؟ (النمل : ٦٠) ٧۔ اللہ نے زمین کو جائے قرار بنایا اس میں پہاڑ اور دو سمندروں کے درمیان پردہ بنایا کیا اس کے ساتھ اور بھی الٰہ ہے ؟ (النمل : ٦١) ٨۔ کون ہے جو لاچار کی فریاد رسی کرتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کرتا ہے کیا کوئی اور بھی الٰہ ہے ؟ (النمل : ٦٢) ٩۔ خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں اللہ کے سواکون رہنمائی کرتا ہے کیا کوئی اس کے ساتھ الٰہ ہے۔ (النمل : ٦٣) ١٠۔ پہلے اور دوبارہ پیدا کرنا اور زمین و آسمان سے تمہارے لیے روزی کا بندوبست کرنے والا اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ ہے ؟ (النمل : ٦٤) ١١۔ تمہارا اِلٰہ ایک ہی ہے اس کے سوا کوئی اِلٰہ نہیں وہ بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔ (البقرۃ : ١٦٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿وَ اِنَّهٗ لَذِكْرٌ لَّكَ وَ لِقَوْمِكَ ﴾ (اور بلاشبہ یہ قرآن شرف ہے آپ کے لیے اور آپ کی قوم کے لیے ہے) اس آیت میں اللہ جل شانہٗ نے امتنان فرمایا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب فرمایا ہے کہ یہ قرآن آپ کے لیے اور آپ کی قوم کے لیے باعث شرف ہے اللہ تعالیٰ شانہٗ مالک الملک ہے اور ملک الملوک ہے سب کا بادشاہ ہے اس کا کسی سے خطاب فرمانا یہ بہت بڑا شرف ہے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب نازل فرمائی اور بار بار آپ کو مخاطب فرمایا اس میں آپ کے لیے بڑے شرف اور فخر کی بات ہے پھر آپ کے واسطہ سے آپ کی قوم کو خطاب فرمایا اور ان کی زبان میں اور ان کی لغت میں قرآن مجید نازل فرمایا ان کے لیے بھی یہ بات بڑے شرف کی ہے بہت سوں نے اس کی قدر دانی نہ کی اور کفر پر مرگئے اور بہت سوں نے قدر دانی کی اس پر ایمان لائے اس کی تلاوت کی اس کو پڑھا اور پڑھایا اور آگے بڑھایا یہ سب اہل عرب کے لیے بڑے شرف اور فخر کی چیز ہے، نزول قرآن سے لے کر آج تک پورے عالم میں قرآن مجید پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے جتنے بھی پڑھانے والے ہیں سب کی سند حضرات صحابہ تک پہنچی ہے جنہوں نے قرآن کو سیکھا اور سکھایا اور اس کی قرات اور روایات اور طرق ادا کو آگے بڑھایا۔ قرآن مجید کی وجہ سے عربی زبان کی پوری دنیا میں اہمیت ہوگئی اس کے قواعد لکھے گئے بلاغت پر کتابیں تصنیف کی گئیں قرآن کی وجہ سے خود عرب بھی بلند ہوگئے ورنہ نزول قرآن سے پہلے دنیا میں ان کی کوئی حیثیت نہ تھی یمن میں کسریٰ کا اقتدار تھا اور شام میں قیصر نصرانی کا اور مدینہ منورہ میں یہودی صاحب اقتدار بنے ہوئے تھے۔ ﴿لِقَوْمِكَ ﴾ سے بعض حضرات نے قریش مکہ کو مراد لیا کیونکہ قرآن مجید ان کی لغت میں نازل ہوا اور بعض حضرات نے مطلقاً عربی بولنے والوں کو مراد لیا ہے یہ تفسیر اس صورت میں ہے جبکہ ذکر سے تذکرہ مراد لیا جائے جس کا حاصل ترجمہ شرف اور فخر کیا گیا۔ بعض حضرات نے فرمایا ہے ﴿ لِقَوْمِكَ ﴾ سے عام مومنین مراد ہیں اور مطلب یہ ہے کہ قرآن آپ کے لیے اور آپ کی قوم یعنی اہل ایمان کے لیے نصیحت ہے۔ ﴿وَ سَوْفَ تُسْـَٔلُوْنَ ٠٠٤٤﴾ (اور تم لوگوں سے سوال ہوگا) کہ اس قرآن کا کیا حق ادا کیا اور اس پر کیا عمل کیا اور اس کی کیا قدر کی۔ ﴿وَ سْـَٔلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُّسُلِنَاۤ ﴾ (اور جو رسول ہم نے آپ سے پہلے بھیجے ان سے دریافت کرلیجیے کیا ہم نے رحمٰن کے علاوہ معبود ٹھہرائے جن کی عبادت کی جائے) یعنی ایسا نہیں ہے اس میں بظاہر آپ کو خطاب ہے لیکن اصل مخاطب یہود اور نصاریٰ اور مشرکین ہیں اور انبیائے کرام سے دریافت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی کتابوں کے بعض حصے جو موجود ہیں انہیں دیکھ کر تحقیق کرلی جائے تحقیق کریں گے تو یہ واضح ہوجائے کہ کسی بھی نبی نے شرک کی تعلیم نہیں دی ہے، اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ توریت اور انجیل جاننے والوں میں سے جو حضرات ایمان لے آئے تھے ان سے سوال کرنا مراد ہے۔ كما ذکر القرطبی : وقال ایضًا والخطاب للنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) والمراد امتہ (جیسا کہ علامہ قرطبی (رض) نے فرمایا اور یہ بھی کہ خطاب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے اور مراد امت محمدیہ ہے۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(44) اور قرآن آپ کے لئے اور آپ کی قوم کے لئے ایک نصیحت ہے اور عنقریب تم سب سوال کئے جائو گے۔ اس آیت میں ذکر کا ترجمہ دو طرح کیا گیا ہے ایک نصیحت ایک شرف ہم نے دونوں ذکر کردیئے ہیں نصیحت کی بات تو ظاہر ہی ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے بھی نصیحت ہے اور قوم کے لئے بھی۔ البتہ شرف کا مطلب یہ ہے کہ یہ قرآن جو آپ پر نازل کیا ہے تو چونکہ بلاواسطہ آپ مخاطب ہیں یہ آپ کے لئے بڑے شرف کی بات ہے اور آپ کی قوم سے بالواسطہ خطاب ہے اس لئے دونوں ہی کے لئے موجب شرف اور موجب عزت ہے ۔ حضرت حق تعالیٰ جس کو کلام کی عزت سے نوازیں اس کے اعزاز اور شرافت کا کیا ٹھکانا۔ سوال کئے جانے کا مطلب یہ ہے کہ اس قرآن اور اس شرف کا کیا حق ادا کیا اور کیسی تعظیم کی یہ پوچھا جائے گا قوم سے مراد بعض نے قریش اور بعض نے عرب اور بعض نے تمام امت لی ہے۔ بہرحال ! یہ قرآن جس پر اترا وہ بھی قابل احترام اور جس قوم کے لئے اترا وہ بھی دنیا کی قوموں میں بلند پا یہ قوم ہے۔ و صلی اللہ علیٰ رسولہ والہ و اصحابہ اجمعین