Surat uz Zukhruf

Surah: 43

Verse: 56

سورة الزخرف

فَجَعَلۡنٰہُمۡ سَلَفًا وَّ مَثَلًا لِّلۡاٰخِرِیۡنَ ﴿٪۵۶﴾  11

And We made them a precedent and an example for the later peoples.

پس ہم نے انہیں گیا گزرا کر دیا اور پچھلوں کے لئے مثال بنا دی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And We made them a precedent, and an example to later generations. Abu Mijlaz said, "Precedent for others who do the same as they did." He and Mujahid said, "An example, i.e., a lesson to those who come after them." Allah is the One Who guides to the straight path, and unto Him is the final return.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

56۔ 1 یعنی ان کو بعد میں آنے والوں کے لئے نصیحت اور مثال بنادیا۔ کہ وہ اس طرح کفر و ظلم اور علو و فساد نہ کریں جس طرح فرعون نے کیا تاکہ وہ اس جیسے عبرت ناک حشر سے محفوظ رہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٤] یعنی انہیں صفحہ ہستی سے ایسا مٹا دیا کہ کوئی ان کا ذکر خیر کرنے والا باقی نہ رہ گیا۔ البتہ وہ پچھلے لوگوں کے لیے ایک نمونہ عبرت ضرور بن گئے کہ اللہ کے باغیوں اور نافرمانوں کا کیا انجام ہوتا ہے کیونکہ فرعون اور آل فرعون دراصل اللہ کے باغیوں کے پیش رو تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(فجعلنھم سلفاً و مثلاً للاخرین :” سلفاً “ ” سالف “ کی جمع ہے، جیسے ” خادم “ اور ” حارس “ کی جع ” خدم “ اور ” حرس “ ہے۔” سالف “ اسے کہتے ہیں جو وجود میں یا کسی عمل یا کسی جگہ میں دوسرے سے پہلے ہو۔ چونکہ یہاں ذکر انتقام کا آیا ہے، اس لئے ” سلفا “ سے مراد وہ ہیں جو انتقام میں پہلے ہیں، یعنی ان کے بعد والوں کو بھی ان جیسے انتقام کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ” مثلاً “ کا معنی مشابہ چیز ہے، مراد عبرت ہے جو اپنے جیسے لوگوں کو دیکھ کرلی جاتی ہے کہ اگر ہم نے ان جیسے عمل جاری رکھے تو ہمارا انجام بھی وہی ہوگا۔ “ للاخرین “ وہ لوگ جو اس کلام میں مذکور آل فرعون کے ساتھ آخری مشابہ ہیں۔ مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلانے والے مشرکین ہیں، کیونکہ بت پرستی اور رسول کو جھٹلانے میں ان کے آخری مشابہ ویہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نے انھیں ان آخری مشرکوں کے لئے عبرت بنادیا، اس لئے ان پر لازم ہے کہ ان کے انجام سے نصیحت حاصل کریں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا اِذَا قَوْمُكَ مِنْہُ يَصِدُّوْنَ۝ ٥٧ لَمَّا يستعمل علی وجهين : أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر . ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔ ضَرْبُ المَثلِ هو من ضَرْبِ الدّراهمِ ، وهو ذکر شيء أثره يظهر في غيره . قال تعالی: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر/ 29] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف/ 32] ، ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم/ 28] ، وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم/ 58] ، ضرب اللبن الدراھم سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں کسی بات کو اس طرح بیان کرنے کہ اس سے دوسری بات کی وضاحت ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر/ 29] خدا ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف/ 32] اور ان سے قصہ بیان کرو ۔ ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم/ 28] وہ تمہارے لئے تمہارے ہی حال کی ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم/ 58] اور ہم نے ہر طرح مثال بیان کردی ہے ۔ مریم مریم : اسم أعجميّ ، اسم أمّ عيسى عليه السلام» . إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] صدد الصُّدُودُ والصَّدُّ قد يكون انصرافا عن الشّيء وامتناعا، نحو : يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء/ 61] ، وقد يكون صرفا ومنعا نحو : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل/ 24] ( ص د د ) الصدود والصد ۔ کبھی لازم ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے رو گردانی اور اعراض برتنے کے ہیں جیسے فرمایا ؛يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء/ 61] کہ تم سے اعراض کرتے اور کے جاتے ہیں ۔ اور کبھی متعدی ہوتا ہے یعنی روکنے اور منع کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل/ 24] اور شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کردکھائے اور ان کو سیدھے راستے سے روک دیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٦ { فَجَعَلْنٰہُمْ سَلَفًا وَّمَثَلًا لِّلْاٰخِرِیْنَ } ” چناچہ ہم نے انہیں بنا دیا ماضی کی داستان اور بعد والوں کے لیے ایک نشان عبرت۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

51 That is, "They are a precedent for those who do not learn any lesson from their example, and an object lesson for those who are keen to learn a lesson. "

سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :51 یعنی جو ان کے انجام سے سبق نہ لیں اور انہی کی روش پر چلیں ان کے لیے وہ پیش رو ہیں ، اور جو سبق لینے والے ہیں ان کے لیے نمونہ عبرت ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(43:56) فجعلنھم سلفا ومثلا للاخرین : ف عاطفہ ہے ہم ضمیر جمع مذکر غائب۔ قوم فرعون کی طرف راجع ہے جس کا اوپر ذکر چلا آرہا ہے۔ ترجمہ :۔ اور ہم نے ان کو (قوم فرعون کو) پچھلے آنے والوں کے لئے سلف اور مثل بنادیا۔ سلفا۔ (باب نصر) مصدر۔ بمعنی واقعہ کا گزر جانا ہے۔ لیکن یہاں بطور اسم مفعول کے استعمال ہوا ہے یعنی گزرا ہوا واقعہ۔ یا یہ سالف کی جمع ہے جیسے خدم کی جمع خادم ہے اور اس کے معنی ہیں گزرا ہوا۔ گزشتہ۔ پہلے گزرا ہوا۔ پیش رو۔ یعنی آخرین میں سے جو ان کی روش پر چلتے رہے اور ان کے انجام (غرقابی) سے سبق حاصل نہ کیا ان کے لئے وہ جہنم کی طرف پیش رو ہوگئے۔ (تفہیم القرآن) مثلا تشبیہی قصہ۔ تمثیل۔ ایسا عجیب واقعہ جو کہاوت کے طور پر بیان کیا جائے ۔ ضرب المثل۔ چناچہ کہا جاتا ہے تمہاری حالت ایسی ہے جیسی قوم فرعون کی ۔ پندو موعظت اور عبرت کے لئے جس کا تذکرہ کیا جائے۔ مثل کے متعلق ملاحظہ ہو 43:8 متذکرۃ الصدر۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 دوسر ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” ہم نے انہیں بعد میں آنے والوں کیلئے پیش رو اور نمونہ عبرت بنادیا کہ ان کے انجام سے عبرت حاصل کریں “۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ مطلب یہ ہے کہ لوگ ان کا قصہ یاد کر کے عبرت دلاتے ہیں کہ دیکھو متقدمین میں ایسے ایسے ہوئے ہیں اور ان کا ایسا ایسا حال ہوا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(56) اور ہم نے پیچھے آنے والوں کے لئے ان لوگوں کو ایک گزری ہوئی قوم اور فسانہ عبرت بنادیا۔