Surat uz Zukhruf

Surah: 43

Verse: 60

سورة الزخرف

وَ لَوۡ نَشَآءُ لَجَعَلۡنَا مِنۡکُمۡ مَّلٰٓئِکَۃً فِی الۡاَرۡضِ یَخۡلُفُوۡنَ ﴿۶۰﴾

And if We willed, We could have made [instead] of you angels succeeding [one another] on the earth.

اگر ہم چاہتے تو تمہارے عوض فرشتے کر دیتے جو زمین میں جانشینی کرتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

60۔ 1 یعنی تمہیں ختم کرکے تمہاری جگہ زمین پر فرشتوں کو آباد کردیتے، جو تمہاری ہی طرح ایک دوسرے کی جانشینی کرتے، مطلب یہ ہے کہ فرشتوں کا آسمان پر رہنا اشرف نہیں ہے کہ ان کی عبادت کی جائے یہ تو ہماری مشیت ہے اور قضا ہے کہ فرشتوں کو آسمان اور انسانوں کو زمین پر آباد کیا، ہم چاہیں تو فرشتوں کو زمین پر بھی آباد کرسکتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٩] قریش مکہ کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ اللہ کا رسول کوئی فرشتہ ہونا چاہئے تھا۔ اس اعتراض کے مختلف مقامات پر مختلف جواب مذکور ہیں۔ یہاں یہ جواب دیا جارہا ہے کہ اگر ہم چاہتے تو ہمیں یہ قدرت حاصل ہے کہ تم میں سے ہی فرشتے بنا دیتے۔ پھر جو فرشتہ رسول بن کر آتا سب اس کو دیکھ سکتے۔ اسکی بات سن سکتے اور سمجھ سکتے۔ مگر فرشتوں کی فطرت میں && اختیار && نہیں رکھا گیا۔ وہ تو حکم کے بندے ہوتے ہیں اور ان کی اطاعت اضطراری ہوتی ہے اختیاری نہیں ہوتی۔ اور یہ بات ہماری مشیئت کے خلاف ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ولونشآء لجعلنا منکم …: یعنی اس زمین پر انسان باپ اور ماں سے پیدا ہوتے ہیں، عیسیٰ (علیہ السلام) باپ کے بغیر پیدا ہوئے تو اس سے وہ معبود نہیں بن گئے، بلکہ وہ دوسرے انسانوں کی طرح مخلوق ہیں، جیسا کہ فرشتے ماں باپ کے بغیر پیدا ہونے اور آسمانوں پر رہنے کے باوجود مخلوق ہیں، معبود نہیں بن گئے۔ بلکہ اگر ہم چاہیں تو تمہاری جگہ ان کو زمین پر لا کر تمہارے جانشین بنادیں، نہ تم انکار کرسکتے ہو نہ انہیں انکار کی مجال ہے، تو وہ معبود کیسے بن گئے۔ اس آیت کی ایک تفسیر یہ بھی کی گئی ہے کہ اگر ہم چاہیں تو تمہیں ہلاک کردیں اور تمہاری جگہ فرشتوں کو لے آئیں جو زمین کو آباد کریں اور ہماری عبادت کریں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَلَوْ نَشَاءُ لَجَعَلْنَا مِنكُم مَّلَائِكَةً فِي الْأَرْ‌ضِ يَخْلُفُونَ (and if we will, We may create angels from you who succeed you on the earth...43:60) This is in reply to the gravely mistaken conclusion drawn by Christians from the miraculous birth of Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) without a father as a result of which they attributed godhead to him, and started worshipping him. Allah Ta ala states to controvert their argument that Sayyidna &Isa&s (علیہ السلام) birth was merely a demonstration of His power, and He has the power to do even more supernatural things like creating Sayyidna &Adam (علیہ السلام) without father and mother. And if He wills, He may do as unprecedented things as causing angels to be born out of human beings.

(آیت) وَلَوْ نَشَاۗءُ لَجَعَلْنَا مِنْكُمْ مَّلٰۗىِٕكَةً فِي الْاَرْضِ يَخْلُفُوْنَ ، یہ نصاریٰ کے اس مغالطہ کا جواب ہے جس کی بنا پر انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو معبود قرار دیا تھا۔ انہوں نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کے بغیر باپ کے پیدا ہونے سے ان کی خدائی پر استدلال کیا تھا۔ باری تعالیٰ ان کی تردید میں فرماتے ہیں کہ یہ تو محض ہماری قدرت کا ایک مظاہرہ تھا اور ہم تو اس سے بھی بڑھ کر خلاف عادت کاموں پر قادر ہیں۔ بغیر باپ کے پیدا ہونا تو کوئی بہت زیادہ خلاف عادت نہیں، کیونکہ حضرت آدم (علیہ السلام) تو بغیر ماں باپ کے پیدا ہوئے تھے، اگر ہم چاہیں تو ایسا کام بھی کرسکتے ہیں جس کی اب تک کوئی نظیر نہیں اور وہ یہ کہ انسانوں سے فرشتے پیدا کریں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لو لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 1 00] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ شاء والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] . ( ش ی ء ) الشیئ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔ فرشته الملائكة، ومَلَك أصله : مألك، وقیل : هو مقلوب عن ملأك، والمَأْلَك والمَأْلَكَة والأَلُوك : الرسالة، ومنه : أَلَكَنِي إليه، أي : أبلغه رسالتي، والملائكة تقع علی الواحد والجمع . قال تعالی: اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلائِكَةِ رُسُلًا [ الحج/ 75] . قال الخلیل : المَأْلُكة : الرسالة، لأنها تؤلک في الفم، من قولهم : فرس يَأْلُكُ اللّجام أي : يعلك . ( ا ل ک ) الملئکۃ ( فرشتے ) اور ملک اصل میں مالک ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ ملاک سے معلوب ہے اور مالک وما لکۃ والوک کے معنی رسالت یعنی پیغام کے ہیں اسی سے لکنی کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں اسے میرا پیغام پہنچادو ، ، ۔ الملائکۃ کا لفظ ( اسم جنس ہے اور ) واحد و جمع دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ { اللهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا } ( سورة الحج 75) خدا فرشتوں میں سے پیغام پہنچانے والے منتخب کرلیتا ہے ۔ خلیل نے کہا ہے کہ مالکۃ کے معنی ہیں پیغام اور اسے ) مالکۃ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ بھی منہ میں چبایا جاتا ہے اور یہ فرس یالک اللجام کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں گھوڑے کا منہ میں لگام کو چبانا ۔ خلف والخِلافةُ النّيابة عن الغیر إمّا لغیبة المنوب عنه، وإمّا لموته، وإمّا لعجزه، وإمّا لتشریف المستخلف . وعلی هذا الوجه الأخير استخلف اللہ أولیاء ه في الأرض، قال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلائِفَ فِي الْأَرْضِ [ فاطر/ 39] ، ( خ ل ف ) خلف ( پیچھے ) الخلافۃ کے معنی دوسرے کا نائب بننے کے ہیں ۔ خواہ وہ نیابت اس کی غیر حاضری کی وجہ سے ہو یا موت کے سبب ہو اور ریا اس کے عجز کے سبب سے ہوا دریا محض نائب کو شرف بخشے کی غرض سے ہو اس آخری معنی کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیاء کو زمین میں خلافت بخشی ۔ ہے چناچہ فرمایا :۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلائِفَ الْأَرْضِ [ الأنعام/ 165] اور وہی تو ہے جس نے زمین میں تم کو اپنا نائب بنایا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور اگر ہم چاہتے تو تمہاری جگہ یا تم میں سے فرشتوں کو پیدا کردیتے کہ وہ تمہاری جگہ زمین میں خلیفہ ہوتے یا یہ کہ تمہارے بجائے زمین پر چلتے پھرتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٠ { وَلَوْ نَشَآئُ لَجَعَلْنَا مِنْکُمْ مَّلٰٓئِکَۃً فِی الْاَرْضِ یَخْلُفُوْنَ } ” اور اگر ہم چاہیں تو تم میں سے فرشتے بنا دیں جو زمین میں تمہارے جانشین ہوں۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

54 Another translation can be: ".............make some of you angels.

سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :54 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم میں سے بعض کو فرشتہ بنا دیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

17: جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر آیا تو اللہ نے واضح فرما دیا کہ نہ خود انہوں نے اپنی خدائی کا دعویٰ کیا تھا اور نہ ہم نے انہیں اپنا بیٹا قرار دیا تھا، بلکہ انہیں اپنی قدرت کی ایک نشانی بنا کر بھیجا تھا کہ وہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے۔ عیسائی لوگ اس بنا پر انہیں خدا کہنے لگے، حالانکہ بغیر باپ کے پیدا ہونا خدائی کی کوئی دلیل نہیں ہے، کیونکہ حضرت آدم (علیہ السلام) ماں باپ دونوں کے بغیر پیدا ہوئے تھے، اور انہیں کوئی بھی خدا نہیں مانتا، در حقیقت ان کی پیدائش اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ایک مظاہرہ تھا، اور اگر اللہ تعالیٰ چاہیں تو اس سے بھی زیادہ عجیب کام کردیں کہ انسانوں سے فرشتے پیدا کردیں جو اسی طرح ایک دوسرے کے جانشین ہوں جیسے انسان ایک دوسرے کے جانشین ہوتے ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(43:60) ولو نشائ۔ جملہ شرط ہے اور اگر ہم چاہیں لجعلنا منکم ملئکۃ فی الارض یخلفون۔ واجب شرط۔ لام جواب شرط کے لئے ہے یخلفون مضارع کا صیغہ جمع مذکر غائب خلف باب نصر مصدر۔ (تمہارے) خلیفہ (ہوکر) رہتے۔ اگر ہم چاہیں تو تم سے فرشتے پیدا کردیں جو زمین میں تمہارے جانشین ہوں۔ اس کا دوسرا ترجمہ یوں بھی ہوسکتا ہے کہ تم میں سے بعض کو فرشتہ بنادیں (ہر دو ترجمے تفہیم القرآن سے لئے ہیں) حضرت تھانوی صاحب (رح) اس کا ترجمہ کرتے ہیں : یکے بعد دیگرے رہا کریں۔ (یہ جملہ معترضہ ہے)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی ایک عیسیٰ کو بن باپ پیدا کرنا کیا مشکل ہے، تم تو اگر چاہیں تمہاری نسل سے فرشتے پیدا کردیں۔ یا تم میں سے بعض کو فرشتے بنادیں جو زمین میں تمہارے قائم مقام ہوں۔ آیت کے یہ دونوں مطلب اس صورت میں ہیں جب منکم کا ترجمہ تم میں کیا جائے اور اگر اس کا ترجمہ تمہارے بجائے کیا جائے جو دراصل بدلا منکم کا ترجمہ ہے تو مطلب یہ ہوگا کہ اگر ہم چاہیں تو تم سب کو ہلاک کر کے تمہارے بجائے زمین میں فرشتوں کو بسا دیں جو تمہاری طرح آپس میں ایک دوسرے وارث ہوں۔ یعنی فرشتوں کے آسمان میں رہنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کی عبادت کی جائے یا ان کو اللہ کی بیٹیاں کہہ کر پکارا جائے۔ ( قرطبی وغیرہ)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اہل مکہ کے ایک اور اعتراض کا جواب۔ جس طرح فرعون نے اپنی قوم سے کہا کہ میں موسیٰ (علیہ السلام) پر اسے لیے بھی ایمان نہیں لاتا کہ اس کی معاونت کے لیے ملائکہ مقرر نہیں کیے گئے۔ اعتراض کی شکل میں اہل مکہ کا بھی یہ مطالبہ تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تائید میں ملائکہ مقرر کیوں نہیں کیے گئے۔ جس کا اس موقع پر یہ جواب دیا گیا کہ اگر ہم چاہیں تو زمین میں فرشتے تمہارے جانشین بنا دیں۔ دوسرے موقع پر کفار کے اعتراض کے یہ جواب دیئے گئے۔ (قُلْ لَوْ کَانَ فِی الْأَرْضِ مَلَاءِکَۃٌ یَمْشُونَ مُطْمَءِنِّینَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْہِمْ مِنَ السَّمَاءِ مَلَکًا رَسُولًا) [ بنی اسرائیل : ٩٥] ” اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو ہم ضرور ان پر آسمان سے کوئی فرشتہ رسول بناتے۔ “ (وَقَالُوا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَیْہِ مَلَکٌ وَلَوْ أَنْزَلْنَا مَلَکًا لَقُضِیَ الْأَمْرُ ثُمَّ لَا یُنْظَرُونَ وَلَوْ جَعَلْنَاہُ مَلَکًا لَجَعَلْنَاہُ رَجُلًا وَلَلَبَسْنَا عَلَیْہِمْ مَا یَلْبِسُونَ )[ الانعام : ٨، ٩ ] ” اور انہوں نے کہا اس پر کوئی فرشتہ کیوں نہ اتارا گیا ؟ اور اگر ہم کوئی فرشتہ اتارتے تو ضرور کام تمام کردیا جاتا، پھر انہیں مہلت نہ دی جاتی۔ اور اگر ہم اسے فرشتے بناتے تو یقیناً اسے آدمی بناتے اور یہ اس پر وہی مغالطہ دیتے جو وہ معالطہ اب ڈال رہے ہیں۔ “ (الانعام : ٨، ٩) یعنی یہ کہتے کہ ہم انسان میں ہمارے لیے انسان رسول کیوں نہ بھیجا گیا۔ جہاں تک عیسیٰ ( علیہ السلام) کی ذات کا تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں قیامت کی نشانی بنایا ہے۔ لوگوں کی اس میں شک نہیں کرنا چاہیے۔ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! لوگوں سے فرمادیں کہ بس میری اتباع کرو یہی سیدھا راستہ ہے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت اور قیامت کی نشانی کا ذکر فرماکر واضح کیا ہے کہ یہ عقیدہ اور سوچ صراط مستقیم ہے۔ لوگوں کو اس کے مطابق ہی چلنا چاہیے۔ اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات کہلوائی گئی کہ لوگوں کو یہ بھی سمجھائیں کہ تمہیں شیطان صراط مستقیم سے نہ بہکائے اور پوری طرح جان لو ! کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ (عَنْ أبی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَیُوشِکَنَّ أَنْ یَنْزِلَ فیکُمْ ابْنُ مَرْیَمَ حَکَمًا عَدْلًا فَیَکْسِرَ الصَّلِیبَ وَیَقْتُلَ الْخِنْزِیرَ وَیَضَعَ الْجِزْیَۃَ وَیَفِیضَ الْمَالُ حَتّٰی لَا یَقْبَلَہٗ أَحَدٌ حَتّٰی تَکُون السَّجْدَۃُ الْوَاحِدَۃُ خَیْرًا مِنْ الدُّنْیَا وَمَا فیہَا) [ رواہ البخاری : کتاب احادیث الانبیاء ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! عنقریب تم میں عیسیٰ ابن مریم عادل حکمران کی حیثیت میں آئیں گے۔ صلیب کو توڑ دیں گے۔ خنزیر کو قتل کر ڈالیں گے اور جزیہ ختم کریں گے مال و دولت کی اس قدر بہتات ہوگی کوئی اس کو لینے والا نہ ہوگا یہاں تک کہ ایک سجدہ کرنا دنیا ومافیہا سے بہتر ہوگا۔ “ مسائل ١۔ اگر زمین میں بسنے والے فرشتے ہوتے تو اللہ تعالیٰ کسی فرشتے کو نبی منتخب کرتا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ ( علیہ السلام) کو قیامت کی نشانی بنایا ہے اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں۔ ٣۔ لوگوں کو شیطان کے پیچھے چلنے کی بجائے صراط مستقیم پر چلنا چاہیے۔ ٤۔ شیطان لوگوں کا کھلادشمن ہے۔ تفسیر بالقرآن شیطان کی لوگوں کے ساتھ دشمنی : ئ ١۔ شیطان انسان کا دشمن ہے۔ (البقرۃ : ١٦٨) ٢۔ شیطان کی رفاقت کا بدترین انجام ہوگا۔ (الفرقان : ٢٩) ٣۔ شیطان بےوفائی کرتا ہے۔ (الحشر : ١٦) ٤۔ شیطان بدترین ساتھی ہے۔ (النساء : ٣٨) ٥۔ شیطان نے حضرت آدم (علیہ السلام) کے ساتھ دشمنی کی۔ (الاعراف : ٢٠ تا ٢٢) ٦۔ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ (یوسف : ٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد فرمایا ﴿ وَ لَوْ نَشَآءُ لَجَعَلْنَا مِنْكُمْ ﴾ (الآیۃ) (اور اگر ہم چاہتے تو زمین میں تم سے فرشتے پیدا کردیتے جو یکے بعد دیگرے زمین میں رہا کرتے) یعنی انسانوں سے فرشتے پیدا کردیتے جو زمین میں رہتے ان کی پیدائش بھی آدمیوں کی طرح ہوتی اور موت بھی یعنی وہ دنیا میں آتے جاتے رہتے یہ الفاظ کا ظاہری ترجمہ ہے وھو قبول فی تفسیرہ اس کا دوسرا مطلب مفسرین نے یہ لکھا ہے کہ اگر ہم چاہتے تو فرشتوں کو زمین میں آباد کردیتے اپنی مخلوق کو ہم جہاں چاہیں آباد کریں مخلوق مخلوق ہی ہے، کہیں بھی رہے وہ عبادت کے لائق نہیں ہوسکتی فرشتوں کا آسمان میں ٹھہرانا کوئی ایسا شرف نہیں ہے کہ وہ معبود ہوگئے یا یہ کہ انہیں اللہ کی بیٹیاں کہا جاسکے والمعنی لو نشآء لا سکنا الارض الملئكة ولیس فی اسکاننا ایاھم السماء شرف حتیٰ یعبدوا اویقال لھم بنات اللّٰہ (معنی یہ ہے کہ اگر ہم چاہتے تو ہم فرشتوں کو زمین میں ٹھہرا دیتے، ان کے آسمان میں ٹھہرانے میں کوئی ان کا ایسا شرف نہیں ہے کہ ان کی عبادت شروع کردی جائے یا انہیں اللہ کی بیٹیاں قرار دیا جائے۔ آیت بالا کا ایک مطلب معالم التنزیل ج ٤: ص ١٤٣ میں یہ لکھا ہے کہ اگر ہم چاہیں تو تمہیں ہلاک کردیں اور تمہارے بدلہ زمین میں فرشتے پیدا کردیں جو زمین کے آباد کرنے میں تمہارے خلیفہ ہوجائیں اور میری عبادت اور فرمانبرداری کریں۔ فیکون لفظة منکم بمعنی بدلا منکم قال القرطبی ناقلا عن الزھری ان من قدتکون للبدل بدلیل ھذہ الایة

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(60) اور اگر ہم چاہیں تو تم میں سے فرشتے پیدا کردیں جو زمین میں تمہارے قائم مقام ہوں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی عیسیٰ میں آثار فرشتے کے سے تھے اس سے معبود نہیں ہوگیا اگر چاہیں تمہاری نسل سے ایسے لوگ پیدا کریں۔ یعنی اگر ہم چاہتے تو تمہارے ہاں فرشتے پیدا کرتے پھر جس طرح تم رہتے ہو اور مرتے ہو اسی طرح وہ بھی پیدا ہوتے اور مرتے اور فرشتوں کا آدمیوں سے پیدا ہونا یہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا بغیر باپ کے پیدا ہونے سے زیادہ عجیب ہوتا یا یہ مطلب ہے کہ ہم اس پر قادر ہیں کہ تمہاری بجائے تمہارے بدلے زمین میں فرشتے پیدا کرتے۔ بہرحال ! ابن مریم (علیہ السلام) کا بغیر باپ کے پیدا ہونا اور اس منعم علیہ ہونا اور اس کا دنیا کے لئے نمونہ قدرت ہونا کچھ تعجب کی بات نہیں ہماری قدرت اس سے بھی کہیں زیادہ وسیع ہے۔