Surat uz Zukhruf

Surah: 43

Verse: 66

سورة الزخرف

ہَلۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَّا السَّاعَۃَ اَنۡ تَاۡتِیَہُمۡ بَغۡتَۃً وَّ ہُمۡ لَا یَشۡعُرُوۡنَ ﴿۶۶﴾

Are they waiting except for the Hour to come upon them suddenly while they perceive not?

یہ لوگ صرف قیامت کے منتظر ہیں کہ وہ اچانک ان پر آپڑے اور انہیں خبر بھی نہ ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Resurrection will come suddenly, and Enmity will arise between close Friends among the Disbelievers Allah says, هَلْ يَنظُرُونَ ... Do they only wait `do these idolaters who disbelieve in the Messengers wait' ... إِلاَّ السَّاعَةَ أَن تَأْتِيَهُم بَغْتَةً وَهُمْ لاَ يَشْعُرُونَ only for the Hour that it shall come upon them suddenly while they perceive not? means, for it is real and will inevitably come to pass, and these negligent people are unprepared for it. When it comes, it will catch them unawares, and on that Day they will feel the utmost regret when regret will not benefit them in the slightest and will not afford them any protection. الاَْخِلَّأء يَوْمَيِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلاَّأ الْمُتَّقِينَ

جنت میں جنت کے حقدار اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دیکھو تو یہ مشرک قیامت کا انتظار کر رہے ہیں جو محض بےسود ہے اس لئے کہ اس کے آنے کا کسی کو صحیح وقت تو معلوم نہیں وہ اچانک یونہی بےخبری کی حالت میں آجائے گی اس وقت گو نادم ہوں لیکن اس سے کیا فائدہ ؟ یہ اسے ناممکن سمجھے ہوئے ہیں لیکن وہ نہ صرف ممکن بلکہ یقینا آنے ہی والی ہے اور اس وقت کا یا اس کے بعد کا کوئی عمل کسی کو کچھ نفع نہ دے گا اس دن تو جن کی دوستیاں غیر اللہ کے لئے تھیں وہ سب عدوات سے بدل جائیں گی یہاں جو دوستی اللہ کے واسطے تھی وہ باقی اور دائم رہے گی ۔ جیسے خلیل الرحمن علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ تم نے بتوں سے جو دوستیاں کر رکھی ہیں یہ صرف دنیا کے رہنے تک ہی ہیں قیامت کے دن تو ایک دوسرے کا نہ صرف انکار کریں گے بلکہ ایک دوسرے پر لعنت بھیجیں گے اور تمہارا ٹھکانہ جہنم ہو گا اور کوئی نہ ہو گا جو تمہاری امداد پر آئے ابن ابی حاتم میں مروی ہے کہ امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں دو ایماندار جو آپس میں دوست ہوتے ہیں جب ان میں سے ایک کا انتقال ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے جنت کی خوش خبری ملتی ہے تو وہ اپنے دوست کو یاد کرتا ہے اور کہتا ہے اے اللہ فلاں شخص میرا دلی دوست تھا جو مجھے تیرے اور تیرے رسول کی اطاعت کا حکم دیتا تھا بھلائی کی ہدایت کرتا تھا برائی سے روکتا تھا اور مجھے یقین دلایا کرتا تھا کہ ایک روز اللہ سے ملنا ہے پس اے باری تعالیٰ تو اسے راہ حق پر ثابت قدر رکھ یہاں تک کہ اسے بھی تو وہ دکھائے جو تو نے مجھے دکھایا ہے اور اس سے بھی اسی طرح راضی ہو جائے جس طرح مجھ سے راضی ہوا ہے اللہ کی طرف سے جواب ملتا ہے تو ٹھنڈے کلیجوں چلا جا اس کے لئے جو کچھ میں نے تیار کیا ہے اگر تو اسے دیکھ لیتا تو تو بہت ہنستا اور بالکل آزردہ نہ ہوتا پھر جب دوسرا دوست مرتا ہے اور ان کی روحیں ملتی ہیں تو کہا جاتا ہے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کا تعلق بیان کرو ، پس ہر ایک دوسرے سے کہتا ہے کہ یہ میرا بڑا اچھا بھائی تھا اور نہایت نیک ساتھی تھا اور بہت بہتر دوست تھا دو کافر جو آپس میں ایک دوسرے کے دوست تھے جب ان میں سے ایک مرتا ہے اور جہنم کی خبر دیا جاتا ہے تو اسے بھی اپنا دوست یاد آتا ہے اور کہتا ہے باری تعالیٰ فلاں شخص میرا دوست تھا تیری اور تیرے نبی کی نافرمانی کی مجھے تعلیم دیتا تھا برائیوں کی رغبت دلاتا تھا بھلائیوں سے روکتا تھا اور تیری ملاقات نہ ہونے کا مجھے یقین دلاتا تھا پس تو اسے میرے بعد ہدایت نہ کرتا کہ وہ بھی وہی دیکھے جو میں نے دیکھا اور اس پر تو اسی طرح ناراض ہو جس طرح مجھ پر غضب ناک ہوا ۔ پھر جب دوسرا دوست مرتا ہے اور ان کی روحیں جمع کی جاتی ہیں تو کہا جاتا ہے کہ تم دونوں ایک دوسرے کے اوصاف بیان کرو تو ہر ایک کہتا ہے تو بڑا برا بھائی تھا اور بدترین دوست تھا حضرت ابن عباس اور حضرت مجاہد اور حضرت قتادہ فرماتے ہیں ہر دوستی قیامت کے دن دشمنی سے بدل جائے گی مگر پرہیز گاروں کی دوستی ۔ ابن عساکر میں ہے کہ جن دو شخصوں نے اللہ کے لئے آپس میں دوستانہ کر رکھا ہے خواہ ایک مشرق میں ہو اور دوسرا مغرب میں لیکن قیامت کے دن اللہ انہیں جمع کر کے فرمائے گا کہ یہ جسے تو میری وجہ سے چاہتا تھا پھر فرمایا کہ ان متقیوں سے روز قیامت میں کہا جائے گا کہ تم خوف و ہراس سے دور ہو ۔ ہر طرح امن چین سے رہو سہو یہ ہے تمہارے ایمان و اسلام کا بدلہ ۔ یعنی باطن میں یقین و اعتقاد کامل ۔ اور ظاہر میں شریعت پر عمل ۔ حضرت معتمر بن سلیمان اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ قیامت کے دن جب کہ لوگ اپنی اپنی قبروں سے کھڑے کئے جائیں گے ۔ تو سب کے سب گھبراہٹ اور بےچینی میں ہوں گے اس وقت ایک منادی ندا کرے گا کہ اے میرے بندو! آج کے دن نہ تم پر خوشہ ہے نہ خوف تو تمام کے تمام اسے عام سمجھ کر خوش ہو جائیں گے وہیں منادی کہے گا وہ لوگ جو دل سے ایمان لائے تھے اور جسم سے نیک کام کئے تھے اس وقت سوائے سچے پکے مسلمانوں کے باقی سب مایوس ہو جائیں گے پھر ان سے کہا جائے گا کہ تم نعمت وسعادت کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ ۔ سورہ روم میں اس کی تفسیر گذر چکی ہے چاروں طرف سے ان کے سامنے طرح طرح کے ملذذ مرغن خوش ذائقہ مرغوب کھانوں کی طشتریاں رکابیاں اور پیالیاں پیش ہوں گی اور چھلکتے ہوئے جام ہاتھوں میں لئے غلمان ادھر ادھر گردش کر رہے ہوں گے آیت ( تشتھیہ الانفس ) اور ( تشتھی الانفس ) دونوں قرأت یں ہیں ۔ یونہی انہیں مزیدار خوشبو والے اچھی رنگت والے من مانے کھانے پینے ملیں گے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سب سے نیچے درجے کا جنتی جو سب سے آخر میں جنت میں جائے گا اس کی نگاہ سو سال کے راستے تک جاتی ہو گی لیکن برابر وہاں تک اسے اپنے ہی ڈیرے اور محل سونے کے زمرد کے نظر آئیں گے جو تمام کے تمام قسم قسم اور رنگ برنگ کے سازو سامان سے پر ہوں گے صبح شام ستر ستر ہزار رکابیاں پیالے الگ الگ وضع کے کھانے سے پر اس کے سامنے رکھے جائیں گے جن میں سے ہر ایک اس کی خواہش کے مطابق ہو گا ۔ اور اول سے آخر تک اس کے اشتہاء برابر اور یکساں رہے گی ۔ اگر وہ روئے زمین والوں کی دعوت کر دے تو سب کو کفایت ہو جائے اور کچھ نہ گھٹے ( عبدالرزاق ) ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جنتی ایک لقمہ اٹھائے گا اور اس کے دل میں خیال آئے گا کہ فلاں قسم کا کھانا ہوتا تو اچھا ہوتا چنانچہ وہ نوالہ اس کے منہ میں وہ چیز بن جائے گا جس کی اس نے خواہش کی تھی پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی ۔ مسند احمد میں ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سب سے ادنیٰ مرتبے کے جنتی کے بالا خانے کی سات منزلیں ہوں گی یہ چھٹی منزل میں ہو گا اور اس کے اوپر ساتویں ہو گی اس کے تیس خادم ہوں گے جو صبح شام تین سو سونے کے برتنوں میں اس کے طعام و شراب پیش کریں گے ہر ایک میں الگ الگ قسم کا عجیب و غریب اور نہایت لذیز کھانا ہو گا اول سے آخر تک اسے کھانے کی اشتہاء ویسی ہی رہے گی ۔ اسی طرح تین سو سونے کے پیالوں اور کٹوروں اور گلاسوں میں اسے پینے کی چیزیں دی جائیں گی ۔ وہ بھی ایک سے ایک سوا ہو گی یہ کہے گا کہ اے اللہ اگر تو مجھے اجازت دے تو میں تمام جنتیوں کی دعوت کروں ۔ سب بھی اگر میرے ہاں کھا جائیں تو بھی میرے کھانے میں کمی نہیں آسکتی اور اس کی بہتر بیویاں حور عین میں سے ہوں گی ۔ اور دنیا کی بیویاں الگ ہوں گی ۔ ان میں سے ایک ایک میل میل بھر کی جگہ میں بیٹھے گی پھر ساتھ ہی ان سے کہا جائے گا کہ یہ نعمتیں بھی ہمیشہ رہنے والی ہیں اور تم بھی یہاں ہمیشہ رہو گے ۔ نہ موت آئے نہ گھاٹا آئے نہ جگہ بدلے نہ تکلیف پہنچے پھر ان پر اپنا فضل و احسان بتایا جاتا ہے کہ تمہارے اعمال کا بدلہ میں نے اپنی وسیع رحمت سے تمہیں یہ دیا ہے ۔ کیونکہ کوئی شخص بغیر رحمت اللہ کے صرف اپنے اعمال کی بناء پر جنت میں نہیں جا سکتا ۔ البتہ جنت کے درجوں میں تفاوت جو ہو گا وہ نیک اعمال کے تفاوت کی وجہ سے ہو گا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جہنمی اپنی جنت کی جگہ جہنم میں دیکھیں گے اور حسرت و افسوس سے کہیں گے اگر اللہ تعالیٰ مجھے بھی ہدایت کرتا تو میں بھی متقیوں میں ہو جاتا ۔ اور ہر ایک جنتی بھی اپنی جہنم کی جگہ جنت میں سے دیکھے گا اور اللہ کا شکر کرتے ہوئے کہے گا کہ ہم خود اپنے طور پر راہ راست کے حاصل کرنے پر قادر نہ تھے ۔ اگر اللہ تعالیٰ نے خود ہماری رہنمائی نہ کرتا ۔ آپ فرماتے ہیں ہر ہر شخص کی ایک جگہ جنت میں ہے اور ایک جگہ جہنم میں ۔ پس کافر مومن کی جہنم کی جگہ کا وارث ہوگا ۔ اور مومن کافر کی جنت کی جگہ کا وارث ہو گا یہی فرمان باری ہے اس جنت کے وارث تم بہ سبب اپنے اعمال کے بنائے گئے ہو کھانے پینے کے ذکر کے بعد اب میووں اور ترکاریوں کا بیان ہو رہا ہے کہ یہ بھی بہ کثرت مرغوب طبع انہیں ملیں گی ۔ جس قسم کی یہ چاہیں اور ان کی خواہش ہو ۔ غرض بھرپور نعمتوں کے ساتھ رب کے رضامندی کے گھر میں ہمیشہ رہیں گے اللہ ہمیں بھی نصیب فرمائے ۔ آمین ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ھل ینظرون الا الساعۃ ان تاتیھم بغثہ : یہ اس سوال کا جواب ہے جو پچلھی آیت کے آخری جملے سے پیدا ہوسکتا ہے کہ ظالموں کے لئے ” ویل “ (ہلاکت) کا وہ دن کب ہوگا اور اس عذاب الیم کی کیفیت کیا ہوگی۔ جواب یہ ہے کہ اس کا آنا یقینی ہے ، جلدی آئے یا دیر سے، اس لئے اس کی تیاری کرو، اس بحث میں مت پڑو کہ وہ کب آئے گی۔” بغتہ “ (اچانک) کا مطلب ہی یہ ہے کہ ت میں اس کے آنے کا وقت معلوم نہیں ہوسکتا، کیونکہ جس کے آنے کا وقت معلوم ہوجائے وہ اچانک نہیں ہوتی۔ دیکھیے سورة اعراف (١٨٧) اور سورة یٰسین (٤٩، ٥٠) ۔ (٢) وھو لایشعرون، یہاں ایک سوال ہے کہ ” بغتۃ “ (اچانک) کے لفظ کے بعد ” وھو لایشعرون “ کی کیا ضرورت ہے ؟ جواب یہ ہے کہ بعض اوقات ایسی چیزیں بھی اچانک آجاتی ہیں جن کے متعلق انسان سوچ رہا ہوتا ہے اور ایک جواب پر ہے کہ یہ ” بغتتہ “ کی تاکید ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر یہ لوگ (حق واضح ہونے کے باوجود باطل پر اصرار کر رہے ہیں تو) بس قیامت کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ ان پر دفعتاً آ پڑے اور ان کو خبر بھی نہ ہو ( انکار کے باوجود انتظار سے مراد یہ ہے کہ ان کا دلائل کو نہ ماننا ایسا ہے جیسے کوئی شخص مشاہدہ کا منتظر ہو کہ جب آنکھوں سے دیکھ لوں گا تب مانوں گا، اور اس روز قیامت کے واقعات یہ ہیں کہ) تمام (دنیا کے دوست) اس روز ایک دوسرے کے دشمن ہوجاویں گے، بجز خدا سے ڈرنے والوں (یعنی اہل ایمان) کے (کیونکہ اس روز باطل کی دوستی کا نقصان محسوس ہوگا تو لا محالہ اس سے کراہت اور دوستوں سے نفرت ہوگی کہ یہ لوگ نقصان کا سبب ہوئے اور حق کی دوستی کا نفع اور ثواب محسوس ہوگا اس لئے وہ باقی رہے گی۔ اور ان مومنوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ندا ہوگی) اے میرے بندو تم پر آج کوئی خوف (کی بات واقع ہونے والی) نہیں، اور نہ تم غمگین ہو گے یعنی وہ بندے جو ہماری آیتوں پر ایمان لائے تھے اور (علماً وعملاً ہمارے) فرمانبردار تھے، تم اور تمہاری (ایمان دار) بیبیاں خوش بخوش جنت میں داخل ہوجاؤ (اور جنت میں جانے کے بعد ان کے لئے یہ ہوگا کہ) ان کے پاس سونے کی رکابیاں (کھانے کی چیزوں سے بھری ہوئی) اور گلاس (مشروبات سے بھرے ہوئے سونے کے یا اور کسی چیز کے) لائے جاویں گے (یعنی غلمان لائیں گے) اور وہاں وہ چیزیں ملیں گی جن کو جی چاہے گا اور جن سے آنکھوں کو لذت ہوگی اور (ان سے کہا جائے گا کہ) تم یہاں ہمیشہ رہو گے اور (یہ بھی کہا جائے گا) کہ یہ وہ جنت ہے جس کے تم مالک بنا دیئے گئے (تم سے کبھی نہ لی جاوے گی) اپنے (نیک) اعمال کے عوض میں (اور) تمہارے لئے اس میں بہت سے میوے ہیں جن میں سے کھا رہے ہو (یہ تو اہل ایمان کا حال ہوا۔ آگے کفار کا ذکر ہے کہ) بیشک نافرمان (یعنی کافر) لوگ عذاب دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے وہ (عذاب) ان (پر) سے ہلکا نہ کیا جاوے گا اور وہ اسی (عذاب) میں مایوس پڑے رہیں گے اور (آگے حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ) ہم نے ان پر (ذرا) ظلم نہیں کیا (کہ ناحق عذاب دیا ہو) لیکن یہ خود ہی ظالم تھے (کہ کفر و شرک کر کے اپنا نقصان کرلیا) اور (آگے ان کا باقی حال مذکور ہے کہ جب نجات سے بالکل مایوس ہوجائیں گے اس وقت موت کی تمنا کریں گے اور دوزخ کے داروغہ مالک نامی فرشتہ کو) پکاریں گے کہ اے مالک (تم ہی دعا کرو کہ) تمہارا پروردگار (ہم کو موت دے کر) ہمارا کام ہی تمام کر دے وہ (فرشتہ) جواب دے گا کہ تم ہمیشہ اسی حال میں رہو گے (نہ نکلو گے نہ مرو گے) ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ہَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّا السَّاعَۃَ اَنْ تَاْتِيَہُمْ بَغْتَۃً وَّہُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ۝ ٦٦ نظر النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب/ 53] أي : منتظرین، ( ن ظ ر ) النظر کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔ اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں «أَلَا»«إِلَّا»هؤلاء «أَلَا» للاستفتاح، و «إِلَّا» للاستثناء، وأُولَاءِ في قوله تعالی: ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران/ 119] وقوله : أولئك : اسم مبهم موضوع للإشارة إلى جمع المذکر والمؤنث، ولا واحد له من لفظه، وقد يقصر نحو قول الأعشی: هؤلا ثم هؤلا کلّا أع طيت نوالا محذوّة بمثال الا) الا یہ حرف استفتاح ہے ( یعنی کلام کے ابتداء میں تنبیہ کے لئے آتا ہے ) ( الا) الا یہ حرف استثناء ہے اولاء ( اولا) یہ اسم مبہم ہے جو جمع مذکر و مؤنث کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس کا مفرد من لفظہ نہیں آتا ( کبھی اس کے شروع ۔ میں ھا تنبیہ بھی آجاتا ہے ) قرآن میں ہے :۔ { هَا أَنْتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ } ( سورة آل عمران 119) دیکھو ! تم ایسے لوگ ہو کچھ ان سے دوستی رکھتے ہواولائک علیٰ ھدی (2 ۔ 5) یہی لوگ ہدایت پر ہیں اور کبھی اس میں تصرف ( یعنی بحذف ہمزہ آخر ) بھی کرلیا جاتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع (22) ھؤلا ثم ھؤلاء کلا اعطیتہ ت نوالا محذوۃ بمشال ( ان سب لوگوں کو میں نے بڑے بڑے گرانقدر عطیئے دیئے ہیں ساعة السَّاعَةُ : جزء من أجزاء الزّمان، ويعبّر به عن القیامة، قال : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر/ 1] ، يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف/ 187] ( س و ع ) الساعۃ ( وقت ) اجزاء زمانہ میں سے ایک جزء کا نام ہے اور الساعۃ بول کر قیامت بھی مراد جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر/ 1] قیامت قریب آکر پہنچی ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف/ 187] اے پیغمبر لوگ ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ «5» ، وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ «6» . والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل/ 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل/ 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر/ 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعر : 5- أتيت المروءة من بابها «7» فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة/ 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء/ 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) «1» فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم/ 27] . يقال : أتيته وأتوته الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو { أَتَى أَمْرُ اللَّهِ } [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ { فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ } [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت { وَجَاءَ رَبُّكَ } [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) |" اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ { وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى } [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ { يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ } [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ { لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا } [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ بغت البَغْت : مفاجأة الشیء من حيث لا يحتسب . قال تعالی: لا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً [ الأعراف/ 187] ، وقال : بَلْ تَأْتِيهِمْ بَغْتَةً [ الأنبیاء/ 40] ، وقال : تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً [يوسف/ 107] ( ب غ ت) البغت ( ف) کے معنی کسی چیز کا یکبارگی ایسی جگہ سے ظاہر ہوجانا کے ہیں ۔ جہاں سے اس کے ظہور کا گمان تک بھی نہ ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ لا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً [ الأعراف/ 187 اور ناگہاں تم پر آجائے گی ۔ تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً [يوسف/ 107] یا ان پر ناگہاں قیامت آجائے ۔ شعور الحواسّ ، وقوله : وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات/ 2] ، ونحو ذلك، معناه : لا تدرکونه بالحواسّ ، ولو في كثير ممّا جاء فيه لا يَشْعُرُونَ : لا يعقلون، لم يكن يجوز، إذ کان کثير ممّا لا يكون محسوسا قد يكون معقولا . شعور حواس کو کہتے ہیں لہذا آیت کریمہ ؛ وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات/ 2] اور تم کو خبر بھی نہ ہو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم حواس سے اس کا ادرک نہیں کرسکتے ۔ اور اکثر مقامات میں جہاں لایشعرون کا صیغہ آیا ہے اس کی بجائے ۔ لایعقلون کہنا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو محسوس تو نہیں ہوسکتی لیکن عقل سے ان کا ادراک ہوسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

یہ لوگ جب اپنی باتوں سے توبہ نہیں کرتے تو صرف قیامت ہی کے منتظر ہیں کہ ان پر اچانک آپڑے اور اس کے عذاب کی ان کو خبر بھی نہ ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٦ { ہَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا السَّاعَۃَ اَنْ تَاْتِیَہُمْ بَغْتَۃً وَّہُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ } ” یہ لوگ کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں سوائے قیامت کے کہ وہ آجائے ان پر اچانک اور انہیں خبر بھی نہ ہو ! “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(43:66) ہل ینظرون الا الساعۃ ان تاتیہم بغتۃ وہم لاتشعرون۔ ہل استفہام انکاری ہے۔ کلام عرب میں ینظرون کا استعمال بمعنی ینظرون معروف ہے۔ مثلا فہل ینظرون الا الساعۃ ان تاتیہم بغتۃ فقد جاء اشراطھا (47:18) سو یہ لوگ بس قیامت کے ہی انتظار میں ہیں کہ ان پر دفعۃ آپڑے سو اس کے آثار تو پیدا ہی ہوچکے ہیں۔ اور ما ینظرون الا صیحۃ واحدۃ تاخذھم وہم یخصمون (36:49) یہ لوگ بس ایک سخت آواز کے منتظر ہیں وہ انہیں آپکڑے گی اور یہ لوگ آپس میں لڑ جھگڑ رہے ہوں گے۔ وغیرہ۔ الا الساعۃ میں الساعۃ مستثنیٰ ہے جس کا مستثنیٰ منہ محذوف ہے جو حالت مفعول میں واقع ہے لہٰذا مستثنیٰ کا اعراب اسی کی موافقت میں منصوب ہے ان مصدریہ ہے اور بغتۃ حرف فجائیہ ہے یکایک ، اچانک، ایک دم۔ وہم لا یشعرون ۔ جملہ حالیہ ہے لایشعرون مضارع منفی جمع مذکر غائب ہے۔ شعور باب نصر مصدر۔ وہ شعور نہیں رکھتے۔ وہ سمجھتے ہی نہیں۔ ضمیر فاعل کا مرجع قریش میں یا وہ لوگ جنہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ ترجمہ : یہ لوگ بس قیامت کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ ان پر دفعتہ آن پڑے اور ان کو خبر بھی نہ ہو۔ تفسیر ماجدی میں ہے : ذکر منکرین قیامت کا ہے یہ منکرین اپنی غفلتوں میں پڑے ہوئے ہوں گے کہ قیامت یک بیک آواقع ہوگی

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ انتظار سے باوجود انکار کے مجازا یہ مراد ہے کہ ان کا استدلال کو نہ ماننا مشابہ اس شخص کی حالت کے ہے جیسے کوئی مشاہدہ کا منتظر ہو کہ اس وقت مانگوں گا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

جب ظالموں اور مشرکوں کے لئے ہلاکت کی خوشخبری دے دی گئی تو اب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ٹکڑے ٹکڑے ہونے والے ظالم احزاب کو اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ان احزاب کے غلط نظریات کی اساس پر مباحثہ اور مناظرہ کرنے والے ظالمین کو قیامت کے ایک منظر میں دکھایا جاتا ہے اور اس منظر میں ایک جھلک مومنین متقین کو بھی دکھائی جاتی ہے جو جنت کے گلستانوں میں نہایت ہی عزت سے ہوں گے۔ آیت نمبر ٦٦ تا ٧٧ یہ منظریوں شروع ہوتا ہے کہ قیامت اچانک برپا ہوجاتی ہے۔ جب وہ اس سے غافل اور لاپرواہ تھے۔ ان کو توقع نہ تھی کہ اچانک قیامت آجائے گی۔ ھل ینظرون ۔۔۔۔۔۔ لا یشعرون (٤٣ : ٦٦) ” کیا یہ لوگ بس اسی چیز کے منتظر ہیں کہ اچانک ان پر قیامت آجانے اور انہیں خبر بھی نہ ہو “۔ اور جب یہ آجاتی ہے تو دنیا کے تمام حالات کو بدل کر رکھ دیتی ہے ، دنیا کی تمام باتیں بدل جائیں گی اور یہ بہت بڑا حادثہ ہوگا۔ الاخلاء یومئذ بعضھم لبعض عدوالا المتقین (٤٣ : ٦٨) ” متقین کو چھوڑ کر باقی سب دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں گے “۔ ان کی دوستی کے سر چشمے ہی سے ان کی دشمنی پھوٹے گی۔ اس دنیا میں وہ شریر مجتمع تھے اور وہ گمراہی میں ایک دوسرے کے مشیر تھے۔ آج وہ ایک دوسرے پر ملامت کرنے والے ہوں گے اور اس شر اور گمراہی کی ذمہ داری وہ ایک دوسرے پر ڈال رہے ہوں گے۔ کبھی تو وہ باران ہمدم تھے اور آج وہ ایک دوسرے سے الجھنے والے مخالف۔ الا المتقین (٤٣ : ٦٨) ” ماسوائے متقین کے “۔ ان کی دوستی باقی ہوگی ، کیونکہ وہ دوستی ہدایت پر تھی ، باہم خیر خواہی پر تھی ، اور انجام کار ان کو نجات ملی۔ جہاں دوست باہم جھگڑیں گے اور الجھیں گے پوری کائنات سے آواز ہوگی اور یہ اللہ کریم کی جانب سے ہوگی اور متقین کے لئے ہوگی : یعباد لاخوف۔۔۔۔۔ تحزنون (٤٣ : ٦٨) الذین امنوا ۔۔۔۔۔ مسلمین (٤٣ : ٦٩) ادخلوا الجنۃ ۔۔۔۔۔ تحبرون (٤٣ : ٧٠) ” اس روز ان لوگوں سے جو ہماری آیات پر ایمان لائے تھے اور مطیع فرمان بن کر رہے تھے ، کہا جائے گا کہ ” اے میرے بندو ، آج تمہارے لیے کوئی خوف نہیں اور نہ تمہیں کوئی غم لاحق ہوگا۔ داخل ہوجاؤ جنت میں تم اور تمہاری بیویاں ، تمہیں خوش کردیا جائے گا “۔ یعنی تم اس قدر خوش ہو گے کہ سرور اور خوشی تمہارے پہلوؤں اور چہروں کو ڈھانپ لے گی یوں نظر آئے گا کہ تم پر ایک خوبصورت چادر بچھی ہوئی ہے۔ اب ہمارا تخیل کچھ اور عجیب چیز دیکھتا ہے۔ سونے اور چاندی کے تھال اور پیالے ان پر پھرائے جا رہے ہیں۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ جنت میں ان کے لئے وہ کچھ ہے جنہیں ان کا نفس چاہتا ہے اور نفوس جو کچھ چاہتے ہیں ان کے علاوہ آنکھیں جو کچھ چاہتی ہیں ، وہ بھی ہے اور یہ سب ضیافتیں ان کی کمال درجے کی عزت اور تکریم کے لئے ہوں گی۔ یطاف علیھم ۔۔۔۔ وتلذ الاعین (٤٣ : ٧١) ” ان کے آگے سونے کے تھال اور ساغر گردش کرائے جائیں گے اور ہر من بھاتی اور نگاہوں کو لذت دینے والی چیز وہاں موجود ہوگی “۔ اور ان نعمتوں کے علاوہ ، وہ چیز ہوگی جو ان سے بھی بڑی اور افضل ہے۔ یہ کہ اللہ خود مخاطب ہو کر ان کی عزت افزائی کرے گا اور یہ ایک بہت بڑا اعزاز ہوگا۔ وانتم فیھا خلدون (٤٣ : ٧١) وتلک الجنۃ ۔۔۔۔۔۔ تعملون (٤٣ : ٧٢) لکم فیھا فاکھۃ کثیرۃ منھا تاکلون (٤٣ : ٧٣) ” تم اب یہاں ہمیشہ رہو گے ، تم اس جنت کے وارث اپنے ان اعمال کی وجہ سے ہوئے ہو ، جو تم دنیا میں کرتے رہے۔ تمہارے لیے یہاں بکثرت فواکہ موجود ہیں جنہیں تم کھاؤ گے “۔ اور ان مجرمین یاران دنیا کا کیا حال ہے جنہیں ہم ابھی لڑتے جھگڑتے چھوڑ آئے ہیں : ان المجرمین فی عذاب جھنم خلدون (٤٣ : ٧٤) ” رہے مجرمین تو وہ ہمیشہ جہنم کے عذاب میں مبتلا رہیں گے “۔ جہنم کا عذاب ایک دائمی عذاب ہے اور یہ نہایت ہی شدید اور اعصاب شکن عذاب ہوتا ہے ، مسلسل ہوتا ہے اور ایک منٹ کے لئے بھی ٹھنڈا نہیں ہوتا۔ اور اس میں ان کے لئے امید کی کوئی چنگاری نہ ہوگی اور نہ دور دور رہائی کا کوئی نشان ہوگا۔ اور یہ بدبخت اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ لا یفتر عنھم وھم فیہ مبلسون (٤٣ : ٧٥) ” کبھی ان کے عذاب میں کمی نہ ہوگی اور وہ اس میں مایوس پڑے ہوں گے “۔ یہ کام انہوں نے خود اپنے خلاف کیا اور اپنے خلاف کیا اور اپنے آپ کو اس ہلاکت خیز گھاٹ پر اتارا۔ یہ خود ظالم ہیں اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے ، مظلوم نہیں ہیں۔ وما ظلمنھم ولکن کانوا ھم الظلمین (٤٣ : ٧٦) ” ان پر ہم نے ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کرتے رہے “۔ اب اس منظر میں دور سے ایک چیخ اٹھتی ہے۔ ایک ایسی دردناک پکار جس میں مایوسی ، تنگ دلی اور کربنا کی کی تمام علامات موجود ہیں۔ ونادوا یملک لیقض علینا ربک (٤٣ : ٧٧) ” اور پکاریں گے اے مالک ، تیرا رب ہمارا کام ہی تمام کر دے تو اچھا ہے “۔ یہ چیخ نہایت دور سے جہنم کی تہوں سے اٹھتی ہے۔ جس کے دروازے بھی اب بند ہوچکے ہیں۔ یہ انہی مجرمین اور ظالمین کی آواز ہے۔ اب ان کی یہ پکار نجات کے لئے نہیں ، نہ کسی امداد کے لئے ہے ، یہ تو اب جہنم میں مایوس پڑے ہوئے ہیں ، اب ان تجویز یہ ہے کہ اللہ ہمیں نیست و نابود کردے ، فوراً ختم کر دے تا کہ ہم آرام کرلیں۔ اور بہت سی آرزوئیں آرزوئیں ہی رہتی ہیں۔ لیکن اس پکار میں غضب کی تنگی اور بےتابی اور کربنا کی ہے۔ اس فریاد و فغان کے پیچھے ہمیں ایسے لوگ نظر آتے ہیں جن کی حالت عذاب نے خراب کردی ہے۔ ہوش ٹھکانے نہیں رہے ، درد کی حد ہوگئی اور یہ ان کی طاقت برداشت سے باہر ہوگیا ہے۔ اس لیے آخر میں مجبور ہو کر یہ چیخ بےساختہ نکل گئی۔ یملک لیقض علینا ربک (٤٣ : ٧٧) ” اے مالک ، تیرا رب ہمارا کام تمام ہی کر دے تو اچھا ہے “۔ لیکن اس پکار کا جواب نہایت ہی مایوس کن اور توہین آمیز ہے اور بغیر کسی لحاظ کے اور بغیر اس کے کہ ان کی کربناک پکار کو کوئی اہمیت دی گئی ہو۔ قال انکم مکثون (٤٣ : ٧٧) ” وہ جواب دے گا ، تم یونہی پڑے رہو گے “۔ اب رہائی کی کوئی امید نہیں ہے۔ نہ موت ہے اور نہ تم نیست و نابود کئے جاؤ گے۔ تم نے اب یہاں ہی ٹھہرنا ہے۔ اب سچائی کو ناپسند کرنے والوں اور منہ موڑنے والوں اور اس انجام تک پہنچنے والوں کو اس کربناک منظر کے متصلا بعد خطاب کیا جاتا ہے اور نہایت ہی سنجیدہ اور تعجب خیز انداز میں کہا جاتا ہے اور اس حیرت انگیز فضا میں ان کو ڈرایا جاتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿هَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّا السَّاعَةَ اَنْ تَاْتِيَهُمْ بَغْتَةً وَّ هُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ ٠٠٦٦﴾ (بس یہ لوگ اسی بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ ان کے پاس اچانک قیامت آجائے اور انہیں اس کی خبر بھی نہ ہو) ﴿ هَلْ يَنْظُرُوْنَ ﴾ کی ضمیر مستتر کے بارے میں بعض حضرات نے فرمایا کہ یہ احزاب کی طرف راجع ہے اور مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں جو لوگ اختلاف رکھتے ہیں راہ حق پر نہیں آتے حق کو قبول نہیں کرتے ان کا طریقہ کار ایسا ہے کہ انہیں قیامت کا انتظار ہے اچانک قیامت آجائے (جس کا انہیں پتہ بھی نہ ہو کیونکہ پہلے سے اس کی آمد کا وقت نہیں بتایا گیا) تو اس وقت توحید پر آئیں گے اور کفر و شرک چھوڑ دیں گے لیکن اس وقت ایمان لانا مفید نہ ہوگا۔ اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ فعل مضارع ینظرون کی ضمیر قریش کی طرف راجع ہے ان کے سامنے توحید کے دلائل ہیں قرآن کا معجزہ سامنے ہے پھر بھی توحید پر نہیں آتے انہیں اس کا انتظار ہے کہ اچانک قیامت قائم ہوجائے اور انہیں پتہ بھی نہ ہو کہ وہ بھی اچانک آنے والی ہے چونکہ وہ لوگ وقوع قیامت کو مانتے ہی نہ تھے۔ صاحب روح المعانی نے لکھا ہے کہ اس میں ان لوگوں کی کم فہمی بیان فرمائی، جیسے کوئی شخص اس چیز کے انتظار میں ہو جو ضرور واقع ہونے والی ہو اور جب وہ واقع ہوجائے تو مصیبت بن جائے حالانکہ وہ اس کے وقوع کو اپنے لیے خیر سمجھتا رہا ہو۔ قولہ تعالیٰ : ﴿اِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّوْنَ ﴾ قال القرطبی ج ١٦: ص ١٠٣ قرأ نافع وابن عامر الکسائی ” يَصِدُّوْنَ “ (بضم الصاد) ومعناہ یعرضون، قالہ النخعی، وکسر الباقون، قال الکسائی : ھما لغتان، مثل یَعْرُشون، وَینمُّون وینُموُّن، ومعناہ یضجُّون، قال الجوھری : وصَدّیَصُدّ صدیدا، ای ضَجّ وقیل انہ بالضم من الصدود وھو الاعراض، وبالکسر من الضجیج، قالہ قُطُرب، قال ابوعبید : لو کانت من الصدود عن الحق لکانت : اذا قومک عنہ یصدون قال الفراء ھما سواء، منہ وعنہ، ابن المسیب : یصدون یضجون، الضحاک یعجون، ابن عساس : یضحکون، ابو عبیدة : من ضم فمعناہ یعدلون، فیکون المعنی : من اجل المیل یعدلون ولا یُعَدّی ” یصدون “ بمن، ومن کسر فمعناہ یضجون، ” فمن “ متصلہ بہ ” یصدون “ والمعنی یضجون منہ، انتھٰی وقولہ تعالیٰ : وَ لِاُبَيِّنَ لَكُمْ متعلق بمقدر وجئتكم لِاُبین لكمْ (ذكرہ فی الروح)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

40:۔ ” ھل ینظرون “ یہ مشرکین قریش کے لیے تخویف اخروی ہے۔ یہ مشرکین ایمان نہیں لاتے۔ وہ قیامت کے انتظار میں ہیں کہ وہ اچانک ان پر آجائے۔ تمام مشرکین جو دنیا میں نہایت ہی گہرے دوست ہیں قیامت کے دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے اور ایک دوسرے کو طعن و ملامت کریں گے اور ہر ایک گمراہی کی ذمہ داری دوسرے پر ڈالے گا۔ یعادی بعضہم بعضا ویلعن بعضہم بعضا (قرطبی ج 16 ص 109) ۔ البتہ ایمان والوں کی باہمی دوستی قائم رہے گی اور اس میں کوئی فرق رونما نہیں ہوگا۔ ” الا المتقین “ استثناء منقطع ہے اور الا بمعنی لکن ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(66) یہ دین حق کے منکر نہیں انتظار کر رے ہیں مگر قیامت کا کہ وہ ان پر اچانک آپہنچنے اور ان کو اس کے آنے کی خبر بھی نہ ہو۔ یعنی جب دلائل واضحہ اور براہین ساطعہ کے بعد کفر کو ترک نہیں کرتے اور اسلام کے قائل نہیں ہوتے تو بس یہ لوگ قیامت کے منتظر ہیں کہ وہ ان پر بیخبر ی میں اچانک آپہنچے اس وقت یہ ایمان لائیں حالانکہ اس وقت ایمان لانا ان کو نفع نہ دے گا آگے اس دن کی مختصر سی تفصیل ہے۔