Surat uz Zukhruf

Surah: 43

Verse: 67

سورة الزخرف

اَلۡاَخِلَّآءُ یَوۡمَئِذٍۭ بَعۡضُہُمۡ لِبَعۡضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الۡمُتَّقِیۡنَ ﴿ؕ٪۶۷﴾  12

Close friends, that Day, will be enemies to each other, except for the righteous

اس دن ( گہرے ) دوست بھی ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے سوائے پرہیزگاروں کے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Friends on that Day will be foes one to another except those who have Taqwa. means, every friendship that exists for a purpose other than for the sake of Allah will turn to enmity on the Day of Resurrection, except for that which is for the sake of Allah, which will last forever. This is like the statement of Ibrahim, peace be upon him, to his people: إِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِّن دُونِ اللَّهِ أَوْثَـناً مَّوَدَّةَ بَيْنِكُمْ فِى الْحَيَوةِ الدُّنْيَا ثُمَّ يَوْمَ الْقِيَـمَةِ يَكْفُرُ بَعْضُكُمْ بِبَعْضٍ وَيَلْعَنُ بَعْضُكُمْ بَعْضاً وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِّن نَّـصِرِينَ You have taken (for worship) idols instead of Allah. The love between you is only in the life of this world, but on the Day of Resurrection, you shall disown each other, and curse each other, and your abode will be the Fire, and you shall have no helper. (29:25) Good News for Those with Taqwa on the Day of Resurrection, and Their entry into Paradise Allah says, يَا عِبَادِ لاَا خَوْفٌ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ وَلاَا أَنتُمْ تَحْزَنُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٥] قیامت کو دینی دوستی کے علاوہ سب قسم کے دوست باہم دشمن بن جائیں گے :۔ قیامت کے دن صرف وہ دوستی برقرار رہے گی جس کی بنیاد تقویٰ پر ہوگی اور جنہوں نے صرف اللہ کی خاطر اور اللہ کے دین کی خاطر ایک دوسرے سے دنیا میں دوستی رکھی ہوگی باقی سب قسم کی دوستیاں دشمنی میں تبدیل ہوجائیں گی۔ اور ایسی دوستیاں بھی کئی قسم کی ہوتی ہیں۔ مثلاً مشرکوں کی اپنے بتوں سے محبت اور آپس میں دوستی۔ اسلام کے خلاف متحدہ محاذ بنانے میں ہر قسم کے کافروں سے دوستی۔ مجرموں کی مجرموں سے جیسے ڈاکوؤں کی ڈاکوؤں سے دوستی، دنیوی مفادات کی خاطر دوستی۔ ایسی سب دوستیاں اور رشتے نہ صرف یہ کہ منقطع ہوجائیں گے بلکہ یہ سب ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے اور سب ایک دوسرے پر یہ الزام دھریں گے کہ فلاں میری گمراہی کا باعث بنا اور فلاں اپنے ساتھ مجھے بھی لے ڈوبا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) الا خلآء یومئذ بعضھم لبعض عدو : یہ اس دن کے عذاب الیم کی ہولناکی کا کچھ بیان ہے۔ اس دن متقین کے سوا تمام دلی دوستوں کے ایک دوسرے کے دشمن ہوجانے کا خاص طور پر ذکر کرنے کی مناسبت یہ ہے کہ مشرکین نے دنیا میں ایک دوسرے کی دوستی ہی کی وجہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دشمنی میں ایکا کیا ہوا تھا اور باہمی گٹھ جوڑ ہی کی وجہ سے شرک پر جمے ہوئے تھے۔ یہی دوستی قیامت کے دن دشمنی میں بدل جائے گی اور ہر شخص دور سے کو اپنی بربادی کا باعث قرار دے گا اور کہے گا :(یویلتی لیتنی لم اتخذ فلانا خلیلاً ) (الفرقان : ٢٨)” ہائے میری بربادی کاش کہ میں فلاں کو دلی دوست نہ بناتا۔ “ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنی قوم سے خطاب نقل فرمایا :(وقال انما اتخثم من دون اللہ اوثاناً مودۃ بینکم فی الحیوۃ الدنیا ثم یوم القیمۃ یکفر بعضکم ببعض ویلمن بعضکم بعضاً ، وماو لکم النار وما لکم من نصرین) (العنکبو : ٢٥)” اور اس نے کہا بات یہی ہے کہ تم نے اللہ کے سوا بت بنائے ہیں، دنیا کی زندگی میں آپ س کی دوستی کی وجہ سے، پھر قیامت کے دن تم میں سے بعض بعض کا انکار کرے گا اور تم میں سے بعض بعض پر لعنت کرے گا اور تمہارا ٹھکانا آگ ہی ہے اور تمہارے لئے کوئی مدد کرنے والے نہیں۔ “ (٢) الا المتقین : متقین کی دوستی اس دن بھی قائم رہے گی، کیونکہ اس کا باعث اللہ کی رضا کا حصول ہوتا ہے جو ہمیشہ باقی رہنے والی چیز ہے۔ دوسرے تمام دوستوں کی دوستی کا باعث کوئی نہ کوئی دنیوی مفاد ہوتا ہے جس کے ختم ہونے کے ساتھ دوستی بھی ختم ہوجائے گی بلکہ دشمنی میں بدل جائے گی، کیو کہ وہ دوستی ہی اس دن کے عذاب کا باعث بنی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The only real friendship is that which is in the sake of Allah الْأَخِلَّاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَ (Friends, on that day, will become enemies to one another, except the God-fearing 43:67). This verse tells us plainly that the friendly relations in which we take so much pride in this world, and for which we don&t even care about halal (permitted) and Haram (unlawful), will be of no use on the Day of judgment, rather they will turn into enmity. In this connection, Hafiz Ibn Kathir has reproduced a discourse of Sayyidna ` Ali (رض) narrated by ` Abdur Razzaq in his Musannaf and by Ibn Abi Hatim regarding two Muslim friends and two Non-Muslim friends. One of the Muslim friends died and when he was given the glad tidings of Paradise, he recollected his friend and supplicated in his favour: |"0 Allah! That friend of mine used to advise me to obey You and to obey the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، he used to direct me towards virtues and to prevent me from vices, and kept on reminding me that one day I would have to meet You. So 0 Allah! Do not misguide him after me, so that he may also see the scenes of Paradise as You have shown to me, and be pleased with him, as you have been with me.|" In reply, it will be said to him, |"Do not worry, if you know what reward I have stored for your friend, you will weep less and laugh more.|" Later, when the friend will also have died, both the souls will get together and Allah Ta` ala will direct them that each one of them should praise the other. Thereupon, each one of them will say about the other that he is the best brother, best companion and the best friend. As against this, when one of the Non-Muslim friends will die, and he will be told that he will go to Hell, he will recollect his friend and will supplicate thus |"0 Allah! That friend of mine used to insist upon me to disobey You and your messenger, used to direct me towards vices and used to prevent me from virtues and used to tell me that I would never meet You. So 0 Allah! Do not give him guidance after me, so that he may also see the scenes of Hell, as You have shown to me, and be displeased with him just as You have been displeased with me.|" Later, when the other friend will also have died, both their souls will be get together, and they will be directed to praise the other. Then each one of them will say about the other, |"He is the worst brother, worst companion and worst friend. (Ibn Kathir p. 134, v.4) Therefore the best friendship, in respect of this world as well as the Hereafter, is the one that is for the sake of Allah. Many are the merits stated in &ahadith& for those two Muslims who love each other purely for the sake of Allah. One of these merits is that they will be in the shade of the |"&Arsh|" (Throne) of Allah. And &love for the sake of Allah& means to love someone because he is a true follower of the religion prescribed by Allah. As such, it includes sincere love for teachers of religious subjects, spiritual guides, reformers, religious scholars and devotees of Allah, as well as for all the Muslims.

معارف ومسائل دوستی درحقیقت وہی ہے جو اللہ کے لئے ہو : (آیت) اَلْاَخِلَّاۗءُ يَوْمَىِٕذٍۢ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِيْنَ (تمام دوست اس روز ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں گے بجز خدا سے ڈرنے والوں کے) اس آیت نے یہ بات کھول کر بتادی کہ یہ دوستانہ تعلقات جن پر انسان دنیا میں ناز کرتا ہے اور جن کی خاطر حلال و حرام ایک کر ڈالتا ہے قیامت کے روز صرف یہ کہ کچھ کام نہ آئیں گی بلکہ عداوت میں تبدیل ہوجائیں گی۔ چناچہ حافظ ابن کثیر نے اس آیت کے تحت حضرت علی کا یہ ارشاد مصنف عبدالرزاق اور ابن ابی حاتم کی روایت سے نقل کیا ہے کہ دو دوست مومن تھے اور دو کافر، مومن دوستوں میں سے ایک کا انتقال ہوا اور اسے جنت کی خوشخبری سنائی گئی تو اسے اپنا دوست یاد آیا۔ اس نے دعا کی کہ یا اللہ، میرا فلاں دوست مجھے آپ کی اور آپ کے رسول کی اطاعت کی تاکید کرتا، بھلائی کا حکم دیتا اور برائی سے روکتا تھا اور یہ یاد لاتا رہتا تھا کہ مجھے ایک دن آپ کے پاس حاضر ہونا ہے، لہٰذا یا اللہ، اس کو میرے بعد گمراہ نہ کیجئے گا تاکہ وہ بھی (جنت کے) وہ مناظر دیکھ سکے جو آپ نے مجھے دکھائے ہیں، اور آپ جس طرح مجھ سے راضی ہوئے ہیں اسی طرح اس سے بھی راضی ہوجائیں۔ اس دعا کے جواب میں اس سے کہا جائے گا کہ جاؤ، اگر تمہیں معلوم ہوجائے کہ میں نے تمہارے اس دوست کے لئے کیا اجر وثواب رکھا ہے تو تم رؤو کم اور ہنسو زیادہ۔ اس کے بعد جب دوسرے دوست کی وفات ہوچکے گی تو دونوں کی ارواح جمع ہوں گی، باری تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ تم میں سے ہر شخص دوسرے کی تعریف کرے، تو ان میں سے ہر ایک دوسرے کے بارے میں یہ کہے گا کہ وہ بہترین بھائی، بہترین ساتھی اور بہترین دوست ہے۔ اس کے برخلاف جب دو کافر دوستوں میں سے ایک کا انتقال ہوگا اور اسے بتایا جائے گا کہ اس کو جہنم میں ڈالا جائے گا تو اسے بھی اپنا دوست یاد آئے گا اس وقت وہ یہ دعا کرے گا کہ یا اللہ، میرا فلاں دوست مجھے آپ کی اور آپ کے رسول کی نافرمانی کرنے کا حکم دیتا تھا، برائی کی تاکید کرتا اور بھلائی سے روکتا تھا، اور مجھ سے کہا کرتا تھا کہ میں کبھی آپ کے حضور حاضر نہ ہوں گا، لہٰذا یا اللہ، اس کو میرے بعد ہدایت نہ دیجئے گا، تاکہ وہ بھی (دوزخ کے) وہ مناظر دیکھے جو آپ نے مجھے دکھائے ہیں، اور آپ جس طرح مجھ سے ناراض ہوئے ہیں اسی طرح اس سے بھی ناراض ہوں۔ اس کے بعد دوسرے دوست کا بھی انتقال ہوجائے گا تو دونوں کی روحیں جمع کی جائیں گی اور ان سے کہا جائے گا کہ تم میں سے ہر شخص اپنے ساتھی کی تعریف کرے، تو ان میں سے ہر ایک دوسرے کے بارے میں کہے گا کہ یہ بدترین بھائی، بدترین ساتھی اور بدترین دوست ہے۔ (ابن کثیر 134 ج 4) اسی لئے دنیا و آخرت دونوں کے لحاظ سے بہترین دوستی وہ ہے جو اللہ کے لئے ہو۔ جن دو مسلمانوں میں صرف اللہ کے لئے محبت ہو ان کے بڑے فضائل احادیث میں وارد ہوئے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ میدان حشر میں یہ لوگ اللہ کے عرش کے سایہ میں ہوں گے۔ اور اللہ کے لئے محبت کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے سے اس بنا پر تعلق ہو کہ وہ اللہ کے دین کا سچا پیرو ہے۔ چناچہ علوم دین کے استاذ، شیخ و مرشد، علماء اور اہل اللہ سے نیز عالم اسلام کے تمام مسلمانوں سے بےلوث محبت اس میں داخل ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلْاَخِلَّاۗءُ يومئذبَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِيْنَ۝ ٦٧ ۭ ۧ خلیل : المودّة، إمّا لأنّها تتخلّل النّفس، أي : تتوسّطها، وإمّا لأنّها تخلّ النّفس، فتؤثّر فيها تأثير السّهم في الرّميّة، وإمّا لفرط الحاجة إليها، يقال منه : خاللته مُخَالَّة وخِلَالًا فهو خلیل، وقوله تعالی: وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْراهِيمَ خَلِيلًا [ النساء/ 125] ، قيل : سمّاه بذلک لافتقاره إليه سبحانه في كلّ حال الافتقار المعنيّ بقوله : إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ [ القصص/ 24] ، وعلی هذا الوجه قيل :( اللهمّ أغنني بالافتقار إليك ولا تفقرني بالاستغناء عنك) وقیل : بل من الخلّة، واستعمالها فيه کاستعمال المحبّة فيه، قال أبو القاسم البلخيّ : هو من الخلّة لا من الخلّة، قال : ومن قاسه بالحبیب فقد أخطأ، لأنّ اللہ يجوز أن يحبّ عبده، فإنّ المحبّة منه الثناء ولا يجوز أن يخالّه، وهذا منه اشتباه، فإنّ الخلّة من تخلّل الودّ نفسه ومخالطته، کقوله : قد تخلّلت مسلک الرّوح منّي ... وبه سمّي الخلیل خلیلا ولهذا يقال : تمازج روحانا . والمحبّة : البلوغ بالودّ إلى حبّة القلب، من قولهم : حببته : إذا أصبت حبّة قلبه، لکن إذا استعملت المحبّة في اللہ فالمراد بها مجرّد الإحسان، وکذا الخلّة، فإن جاز في أحد اللّفظین جاز في الآخر، فأمّا أن يراد بالحبّ حبّة القلب، والخلّة التّخلّل، فحاشا له سبحانه أن يراد فيه ذلك . وقوله تعالی: لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خُلَّةٌ [ البقرة/ 254] ، أي : لا يمكن في القیامة ابتیاع حسنة ولا استجلابها بمودّة، وذلک إشارة إلى قوله سبحانه : وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى [ النجم/ 39] ، وقوله : لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خِلالٌ [إبراهيم/ 31] ، فقد قيل : هو مصدر من خاللت، وقیل : هو جمع، يقال : خلیل وأَخِلَّة وخِلَال والمعنی كالأوّل . الخلتہ دوستی محبت اور دوستی کو خلتہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ دل کے اندر سرایت کر جاتی ہے ۔ اور یا اس لئے کہ وہ دل کے اندر داخل ہوکر اس طرح اثر کرتی ہے جس طرح تیر نشانہ پر لگ کر اس میں نشان ڈال دیتا ہے ۔ اور یا اس لئے کہ اس کی سخت احتیاج ہوتی ہے ۔ اسی لئے کہا جاتا ہے : اور آیت کریمہ : وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْراهِيمَ خَلِيلًا [ النساء/ 125] اور خدا نے ابراہیم کو اپنا دوست بنایا تھا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس لئے خلیل کہا ہے کہ وہ ہر حال میں باری تعالیٰ کے محتاج تھے اور یہ احتیاج ویسے ہی ہے ۔ جس کی طرف آیت ؛ إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ [ القصص/ 24] میں اس کا محتاج ہوں کہ تو مجھ پر اپنی نعمت نازل فرمائے ۔ میں اشارہ پایا جاتا ہے ۔ اسی معنی میں کہا گیا ہے ؛ اے اللہ مجھے اپنی احتیاج کے ساتھ غنی کر اور اپنی ذات سے بےنیاز کر کے کسی دوسرے کا محتاج نہ بنا ۔ بعض نے کہا ہے کہ خلیل خلتہ سے ہے اور اللہ کے حق میں خلتہ کے لفظ کے وہی معنی ہیں جو لفظ محبت کے ہیں ۔ ابو القاسم البلخی کا ذ کہنا کہ یہ خلتہ ( احتیاج ) سے ہے اور کلتہ ( دوستی ) سے نہیں ہے ۔ جو لوگ اسے حبیب پر قیاس کرتے ہیں وہ غلطی پر ہیں ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا کسی بندے سے محبت کرنا تو جائز ہے اسی لئے کہ محبت اس کی ثنا میں داخل ہے ۔ لیکن خلتہ کے معنی دوستی کے دل میں سرایت کر جانے کے ہیں ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع تم میرے لئے بمنزلہ روح کے ہوا ( اور اسی سبب سے خلیل کو خلیل کہا جاتا ہے اسی بنا پر مشہور محاورہ ہے ۔ تمازج روح ۔ ہماری روحیں باہم مخلوط ہیں ۔ اور محبت کے معنی ھبہ قلب میں دوستی رچ جانے کے ہیں یہ حبیبتہ سے مشتق ہے جس کے معنی حبہ پر مارنے کے ہیں ۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ کے متعلق محبت کا لفظ استعمال ہو تو اس سے مراد اھسان اور مہربانی کے ہوتے ہیں لہذا یہی معنی خلتہ سے مراد ہوں گے ۔ کیونکہ اگر ایک میں یہ تاویل صحیح ہے تو دوسرے میں بھی ہوسکتی ہے ۔ مگر حب سے حبتہ القلب مراد لینا اور خلتہ سے اللہ تعالیٰ کے حق میں تخلل کاز معنی لینا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ ذات باری تعالیٰ ان باتوں سے بلند ہے ۔ اور آیت کریمہ : لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خُلَّةٌ [ البقرة/ 254] جس میں نہ ( اعمال ) کا سودا ہوگا اور نہ دوستی کام آئے گی ۔ کے معنی یہ ہیں کہ قیامت کے دن نہ تو حسنات کی خرید وفروخت ہوگی اور نہ ہی یہ مودت کے ذریعہ حاصل ہوسکیں گی تو گویا یہ آیت : وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى [ النجم/ 39] اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے ) کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خِلالٌ [إبراهيم/ 31] جس میں نہ ( اعمال کا ) سودا ہوگا اور نہ دوستی کام آئیگی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ خلال باب معاعلہ سے مصدر ہے ۔ اور بعض کے نزدیک یہ خلیل کی جمع ہے کیونکہ اس کی جمع اخلتہ وخلال دونوں آتی ہیں اور یہ پہلی ایت کے ہم معنی ہے ۔ يَوْمَئِذٍ ويركّب يَوْمٌ مع «إذ» ، فيقال : يَوْمَئِذٍ نحو قوله عزّ وجلّ : فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر/ 9] وربّما يعرب ويبنی، وإذا بني فللإضافة إلى إذ . اور کبھی یوم کے بعد اذ بڑھا دیاجاتا ہے اور ( اضافت کے ساتھ ) یومئذ پڑھا جاتا ہے اور یہ کسی معین زمانہ کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس صورت میں یہ معرب بھی ہوسکتا ہے اور اذ کی طرف مضاف ہونے کی وجہ سے مبنی بھی ۔ جیسے فرمایا : وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ [ النحل/ 87] اور اس روز خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے ۔ فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر/ 9] وہ دن بڑی مشکل کا دن ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم/ 5] اور ان کو خدا کے دن یا ددلاؤ۔ میں ایام کی لفظ جلالت کی طرف اضافت تشریفی ہے اور ا یام سے وہ زمانہ مراد ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے فضلو انعام کے سمندر بہا دیئے تھے ۔ عدو العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ «3» ، أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال : رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] ( ع د و ) العدو کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ تَّقْوَى والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، ثمّ يسمّى الخوف تارة تَقْوًى، والتَّقْوَى خوفاً حسب تسمية مقتضی الشیء بمقتضيه والمقتضي بمقتضاه، وصار التَّقْوَى في تعارف الشّرع حفظ النّفس عمّا يؤثم، وذلک بترک المحظور، ويتمّ ذلک بترک بعض المباحات لما روي : «الحلال بيّن، والحرام بيّن، ومن رتع حول الحمی فحقیق أن يقع فيه» قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] ، إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا [ النحل/ 128] ، وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر/ 73] ولجعل التَّقْوَى منازل قال : وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة/ 281] ، واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء/ 1] ، وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ [ النور/ 52] ، وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسائَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحامَ [ النساء/ 1] ، اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران/ 102] . و تخصیص کلّ واحد من هذه الألفاظ له ما بعد هذا الکتاب . ويقال : اتَّقَى فلانٌ بکذا : إذا جعله وِقَايَةً لنفسه، وقوله : أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 24] تنبيه علی شدّة ما ينالهم، وأنّ أجدر شيء يَتَّقُونَ به من العذاب يوم القیامة هو وجوههم، فصار ذلک کقوله : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم/ 50] ، يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] . التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز سے بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ جس طرح کہ سبب بول کر مسبب اور مسبب بولکر سبب مراد لیا جاتا ہے اور اصطلاح شریعت میں نفس کو ہر اس چیز سے بچا نیکا نام تقوی ہے جو گناہوں کا موجب ہو ۔ اور یہ بات محظو رات شرعیہ کے ترک کرنے سے حاصل ہوجاتی ہے مگر اس میں درجہ کمال حاصل کرنے کے لئے بعض مباحات کو بھی ترک کرنا پڑتا ہے ۔ چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے ۔ ( 149 ) الحلال بین واحرام بین ومن وقع حول الحمی فحقیق ان یقع فیہ کہ حلال بھی بین ہے اور حرام بھی بین ہے اور جو شخص چراگاہ کے اردگرد چرائے گا تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس میں داخل ہوجائے ( یعنی مشتبہ چیزیں اگرچہ درجہ اباحت میں ہوتی ہیں لیکن ورع کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں بھی چھوڑ دایا جائے ) قرآن پاک میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا[ النحل/ 128] کچھ شک نہیں کہ جو پرہیز گار ہیں اللہ ان کا مدد گار ہے ۔ وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر/ 73] اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کو گروہ بناکر بہشت کی طرف لے جائیں گے ۔ پھر تقویٰ کے چونکہ بہت سے مدارج ہیں اس لئے آیات وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة/ 281] اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم خدا کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے ۔ واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء/ 1] اپنے پروردگار سے ڈرو ۔ اور اس سے ڈرے گا ۔ اور خدا سے جس کا نام کو تم اپنی حاجت برآری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو ۔ اور قطع مودت ارجام سے ۔ اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران/ 102] خدا سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔ میں ہر جگہ تقویٰ کا ایک خاص معنی مراد ہے جس کی تفصیل اس کتاب کے اور بعد بیان ہوگی ۔ اتقٰی فلان بکذا کے معنی کسی چیز کے ذریعہ بچاؤ حاصل کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 24] بھلا جو شخص قیامت کے دن اپنے منہ سے برے عذاب کو روکتا ہوا ۔ میں اس عذاب شدید پر تنبیہ کی ہے جو قیامت کے دن ان پر نازل ہوگا اور یہ کہ سب سے بڑی چیز جس کے ذریعہ وہ و عذاب سے بچنے کی کوشش کریں گے وہ ان کے چہرے ہی ہوں گے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے دوسری جگہ فرمایا : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم/ 50] اور ان کے مونہوں کو آگ لپٹ رہی ہوگی ۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] اس روز منہ کے بل دوزخ میں گھسٹیے جائیں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

تمام شرکیہ دوست جیسا کہ عقبہ بن ابی معیط اور ابی بن خلف قیامت میں ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٧ { اَلْاَخِلَّآئُ یَوْمَئِذٍم بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَ } ” بہت گہرے دوست اس دن ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے ‘ سوائے متقین کے۔ “ دنیا کی تمام دوستیاں اس دن دشمنیوں میں بدل جائیں گی ‘ سوائے مومنین ِصادقین کی باہمی دوستیوں کے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

59 In other words, only those friendships will remain unaffected which are based on righteousness and piety in the world; alI other friendships will turn into enmities, and those who are cooperating with one another in deviation, tyranny and wickedness today, will on the Day of Resurrection, put the blame on others and try to escape. This subject has been treated repeatedly at many places in the Qur'an so that every person in this very world may fully realize with whom it would be beneficial for him to cooperate and with whom it is harmful.

سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :59 دوسرے الفاظ میں صرف وہ دو ہستیاں باقی رہ جائیں گی جو دنیا میں نیکی اور خدا ترسی پر قائم ہیں ۔ دوسرے تمام دوستیاں دشمنی میں تبدیل ہو جائیں گی ، اور آج گمراہی ، ظلم و ستم اور معصیت میں جو لوگ ایک دوسرے کے یار و مدد گار بنے ہوئے ہیں ، کل قیامت کے روز وہی ایک دوسرے پر الزام ڈالنے اور اپنی جان چھڑانے کی کوشش کر رہے ہوں گے ۔ یہ مضمون قرآن مجید میں بار بار جگہ جگہ بیان کیا گیا ہے تاکہ ہر شخص اسی دنیا میں اچھی طرح سوچ لے کہ کن لوگوں کا ساتھ دینا اس کے لیے مفید ہے اور کن کا ساتھ تباہ کن ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(43:67) الاخلائ۔ دوست ۔ احاب ۔ خیل کی جمع ہے۔ الاخلا مبتدا ۔ عدو خبر۔ یومئذ یوم اسم ظرف منصوب اذ مضاف الیہ اس روز۔ اس واقعہ کے دن (ای یوم الساعۃ۔ روز قیامت) بعضہم مضاف مضاف الیہ۔ لبعض۔ لام حرف جار بعض مجرور۔ یومئذ اور بعضھم لبعض متعلق خبر۔ الاخلاء یومئذ بعضہم لبعض عدو مبتداء اپنی خبر اور متعلق خبر کے ساتھ مل کر جملہ اسمیہ ہے۔ اس روز ان میں سے بعض بعض کے دشمن ہوں گے۔ یعنی دنیوی دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں گے۔ الا المتقین۔ استثناء متصل۔ کلام مثبت تام میں مستثنیٰ منصوب آتا ہے لہٰذا المتقین منصوب آیا ہے اتقاء (افتعال) مصدر سے اسم فاعل جمع مذکر کا صیغہ منصوب ہے تقوی رکھنے والے۔ خدا سے ڈرنے والے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یعنی صرف انہی لوگوں کی دوستی باقی رہے گی جو دنیا میں صرف اللہ تعالیٰ کے لئے دوستی رکھتے تھے۔ دوسری تمام دوستیاں دشمنی میں تبدیل ہوجائیں گی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

8۔ یعنی اہل ایمان کے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : عیسائیوں میں شرک کی ابتدا حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی محبت میں غلو کی بنا پر ہوئی۔ جس وجہ سے قیامت کے دن کے بارے میں بتلایا ہے کہ اس دن متقین کی دوستی کے علاوہ کسی کی دوستی اور محبت باقی نہیں رہے گا۔ قیامت کے لمحات کے بارے میں قرآن مجید نے بڑی تفصیل کے ساتھ ذکر فرمایا ہے۔ قیامت کے تین مراحل جب کوئی کسی کو یاد نہیں کریگا : (عَنْ عَاءِشَۃ أَنَّہَا ذَکَرَتِ النَّارَ فَبَکَتْ فَقَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا یُبْکِیک قالَتْ ذَکَرْتُ النَّارَ فَبَکَیْتُ فَہَلْ تَذْکُرُونَ أَہْلِیکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَمَّا فِی ثَلاَثَۃِ مَوَاطِنَ فَلاَ یَذْکُرُ أَحَدٌ أَحَدًا عِنْدَ الْمِیزَانِ حَتَّی یَعْلَمَ أَیَخِفُّ میزَانُہُ أَوْ یَثْقُلُ وَعِنْدَ الْکِتَاب حینَ یُقَالُ (ہَاؤُمُ اقْرَءُ وا کِتَابِیَہْ ) حَتَّی یَعْلَمَ أَیْنَ یَقَعُ کِتَابُہُ أَفِی یَمِینِہِ أَمْ فِی شِمَالِہِ أَمْ مِنْ وَرَاءِ ظَہْرِہِ وَعِنْدَ الصِّرَاطِ إِذَا وُضِعَ بَیْنَ ظَہْرَیْ جَہَنَّمَ )[ رواہ ابوداؤد : باب فی ذکر المیزان ] ” سیدہ عائشہ (رض) ایک دن جہنم کو یاد کر کے رورہی تھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا اے عائشہ ! تجھے کس چیز نے رولایا ہے۔ سیدہ عائشہ نے کہا جہنم کی آگ یاد آئی تو میں رو پڑی۔ کیا قیامت کے دن آپ اپنے اہل و عیال کو یاد رکھ پائیں گے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تین مواقع ایسے ہیں جن میں کوئی کسی کو یاد نہیں کرے گا۔ 1 اعمال تولے جانے کے وقت جب تلک یہ نہ پتہ چل جائے کہ اس کا نیکیوں والا پلڑا بھاری ہوا یا ہلکا۔ 2 نامہ اعمال دئیے جانے کے وقت جب کہنے والا کہے آؤ میرے نامہ اعمال کو پڑھ کر دیکھو حتٰی کہ اسے علم ہوجائے کہ اس کو نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا جا رہا ہے یا پیٹھ کے پیچھے سے بائیں ہاتھ میں 3 جب جہنم پر پل صراط کو رکھا جائے گا۔ “ ” اس دن گنہگار آرزو کرے گا کہ کاش ! اپنے بیٹے، اپنی بیوی، اپنے بھائی اور اپنے کنبے والوں کو جو اس کو پناہ دیا کرتے تھے اور زمین کو فدیے میں دے دے اور خود نجات پاجائے “ (المعارج : ١١ تا ١٤) ” اس دن آدمی اپنے بھائی، اپنے والدین، اپنی بیوی، اور اپنی اولاد سے بھاگ جائے گا۔ “ (عبس : ٣٤ تا ٣٦) متقین کی دوستی اور محبت قائم رہے گی : اس میں کوئی شک نہیں کہ قیامت کے دن کافر اور مشرک کے بارے میں کوئی سفارش نہیں کرسکے گا۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ قیامت کے دن کچھ مراحل ایسے ہوں گے جب متقین تو درکنار انبیائے کرام (علیہ السلام) بھی نفسا نفسی کے عالم میں ہوں گے۔ لیکن جب لوگوں کا حساب و کتاب ہوجائے گا تو اللہ تعالیٰ متقین کی سفارشات کو ایسے لوگوں کے حق میں قبول فرمائے گا جو کفر و شرک سے بچے ہوئے ہوں گے۔ ان کے لیے ان کے فوت ہونے والے نابالغ بچوں اور کچھ لوگوں کی سفارش کو قبول کیا جائے گا جن میں آخری اور سب سے بڑی سفارش نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہوگی۔ مسائل ١۔ قیامت کے دن متقین کے سوا سب کے تعلقات ختم ہوجائیں گے۔ ٢۔ قیامت کے دن متقین کے سوا سب لوگ آپس میں دشمن بن جائیں گے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ متقین کو ارشاد فرمائے گا۔ اے میرے بندو ! تم اور تمہاری نیک بیویاں جنت میں تشریف لے جاؤ۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن اللہ کے بندوں کو کوئی خوف نہیں ہوگا بلکہ ملائکہ انہیں سلام کریں گے : ١۔ اللہ کی ہدایت پر عمل کرنے والا بےخوف ہوگا۔ (البقرۃ : ٣٨) ٢۔ اولیاء اللہ پر کوئی خوف نہیں ہوگا۔ (یونس : ٦٢) ٣۔ اللہ اور آخرت پر یقین رکھنے والے کو کوئی ڈر نہیں ہوگا۔ (المائدۃ : ٦٩) ٤۔ ایمان لانے کے بعد استقامت دکھلانے والوں پر کوئی خوف نہیں ہوگا۔ (الاحقاف : ١٣) ٥۔ رب کے سامنے اپنے آپ کو مطیع کردینے والا بےخوف ہوگا۔ (البقرۃ : ١١٢) ٦۔ جب فرشتے پاکباز لوگوں کی روحیں قبض کرتے ہیں تو انھیں سلام کہتے ہیں اور جنت کی خوشخبری دیتے ہیں۔ (النحل : ٣٢) ٧۔ داخل ہوجاؤ جنت میں سلامتی کے ساتھ آج تمہارے لیے داخلے کا دن ہے۔ (ق : ٣٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قیامت کے دن دنیا والے دوست آپس میں دشمن ہوں گے، نیک بندوں کو کوئی خوف اور رنج لاحق نہ ہوگا انہیں جنت میں جی چاہی نعمتیں ملیں گی جن سے آنکھوں کو بھی لذت حاصل ہوگی ان آیات میں قیامت کے دن کے بعض انعامات کا اور اہل جنت کی نعمتوں کا تذکرہ فرمایا ہے ارشاد فرمایا کہ جو لوگ دنیا میں دوست تھے قیامت کے دن آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہوجائے گے ایک دوسرے پر لعنت کریں گے ﴿ يَلْعَنُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا ﴾ یہ جو دنیا میں دوستی ہے جس کی وجہ سے ایک دوسرے کو ایمان پر نہیں آنے دیتے قیامت کے دن وبال بن جائے گی اور آپس کی دوستی کرنے والے ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں گے ﴿اِلَّا الْمُتَّقُوْنَ ﴾ ہاں جو لوگ متقی تھے کفر و شرک سے بچتے تھے یعنی اہل ایمان تھے ان لوگوں کی دوستی قائم رہے گی خاص کر وہ متقی حضرات جو چھوٹے بڑے گناہوں سے پرہیز کرتے تھے وہ تو مسلمانوں کو بخشوانے کی کوشش کریں گے اور ان کے لیے سفارش کریں گے، مومنین قیامت کے دن حاضر ہوں گے اللہ تعالیٰ شانہٗ کا اپنے بندوں کے لیے مہربانی کا اعلان ہوگا کہ اے میرے بندو ! آج تمہارے اوپر کوئی خوف نہیں اور نہ تم رنجیدہ ہوگے نہ غمگین ہوگے آئندہ خوشی ہی خوشی ہے ﴿ اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاٰيٰتِنَا وَ كَانُوْا مُسْلِمِيْنَۚ٠٠٦٩﴾ (یہ وہ لوگ ہوں گے جو ہماری آیات پر ایمان لائے اور فرمانبردار تھے) پھر فرمایا ﴿ اُدْخُلُوا الْجَنَّةَ اَنْتُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ تُحْبَرُوْنَ ٠٠٧٠﴾ (یعنی فرمانبرداروں سے کہا جائے گا کہ تم اور تمہاری بیویاں خوشی خوشی جنت میں داخل ہوجاؤ) وہاں داخل ہوکر جو بہت سے انعامات سے نوازے جائیں گے ان میں سے ایک یہ انعام بھی ہوگا کہ نو عمر لڑکے ان کے پاس ماکولات سے بھری ہوئی سونے کی رکابیاں (پلیٹیں) اور مشروبات سے بھرے ہوئے سونے کے آبخورے لے کر آتے جاتے رہیں گے یہ تو ایک جزوی نعمت ہوئی پھر ایک قاعدہ کلیہ کے ارشاد فرمایا ﴿وَ فِيْهَا مَا تَشْتَهِيْهِ الْاَنْفُسُ وَ تَلَذُّ الْاَعْيُنُ ﴾ (اور جنت میں وہ سب کچھ ملے گا جس کی نفسوں کو خواہش ہو اور جس سے آنکھیں لذت پائیں) دنیا میں کوئی شخص کتنا بھی مالدار اور صاحب اقتدار ہوجائے اسے یہ بات حاصل نہیں ہوسکتی کہ جو بھی کوئی نفس چاہے وہ سب کچھ مل جائے بلکہ یہ لوگ تو مختلف احوال کی وجہ سے بہت زیادہ پریشان رہتے ہیں ان کو کھانے پینے اور اوڑھنے بچھانے کی چیزیں منگانی پڑتی ہیں جو بعض مرتبہ حاصل بھی نہیں ہوتیں اور حاصل ہو بھی جائیں تو صحت کی خرابی کی وجہ سے اچھی نہیں لگتیں اور ہر خواہش کے پورا ہونے کا تو کسی کے لیے بھی دنیا میں موقعہ نہیں ہے، یہاں سونے کی پلیٹوں اور پیالیوں کا ذکر ہے اور سورة الدھر میں چاندی کے برتنوں کا بھی تذکرہ فرمایا ہے یہ سونا چاندی وہاں کا ہوگا یہاں کے حقیر سونے چاندی پر قیاس نہ کیا جائے جسے صاف کرنا اور مانجھنا پڑتا ہے دنیا میں مردوں اور عورتوں کے لیے سونے چاندی کے برتن استعمال کرنا حرام ہے جنت میں اہل ایمان کے لیے ماکولات اور مشروبات سونے چاندی کے برتنوں میں پیش کیے جائیں گے۔ ام المومنین ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ سونے چاندی کے برتنوں میں مت پیو اور نہ ان میں کھاؤ اور یہ بھی فرمایا کہ جو شخص سونے چاندی کے برتن میں کھاتا پیتا ہے وہ اپنے پیٹ میں دوزخ کی آگ ہی بھرتا ہے۔ حضرت حذیفہ (رض) سے روایت ہے کہ سونے چاندی کے برتن میں نہ کھاؤ نہ پیو کیونکہ وہ کافروں کے لیے دنیا میں ہیں اور تمہارے لیے آخرت میں ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(67) اس دن تمام دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے مگر اہل تقویٰ اس سے مستثنیٰ ہوں گے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں اس دن دوست سے دوست بھاگے گا کہ اس کے سبب سے میں نہ پکڑا جائوں۔ یعنی اہل ایمان کی دوستیاں باقی رہیں گی دنیا کے دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے دوستیاں اور دوستانے اہل دنیا کے دشمنیوں سے بدل جائیں گے کیونکہ اس دن باطل کی دوستی کا ضرر اور حق کی دوستی کا نفع ظاہر ہوجائے گا۔