Surat uz Zukhruf

Surah: 43

Verse: 81

سورة الزخرف

قُلۡ اِنۡ کَانَ لِلرَّحۡمٰنِ وَلَدٌ ٭ۖ فَاَنَا اَوَّلُ الۡعٰبِدِیۡنَ ﴿۸۱﴾

Say, [O Muhammad], "If the Most Merciful had a son, then I would be the first of [his] worshippers."

آپ کہہ دیجئے! کہ اگر بالفرض رحمٰن کی اولاد ہو تو میں سب سے پہلے عبادت کرنے والا ہوتا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah has no Offspring Allah says: Allah says, قُلْ ... Say, -- (`O Muhammad') -- ... إِن كَانَ لِلرَّحْمَنِ وَلَدٌ فَأَنَا أَوَّلُ الْعَابِدِينَ If the Most Gracious had a son, then I am the first of the worshippers. meaning, `if this were so, then I would worship Him on that basis, because I am one of His servants; I obey all that He commands me and I am not too arrogant or proud to worship Him.' This conditional phrase does not mean that what is described could happen nor that is possible as Allah says: لَّوْ أَرَادَ اللَّهُ أَن يَتَّخِذَ وَلَداً لاَّصْطَفَى مِمَّا يَخْلُقُ مَا يَشَأءُ سُبْحَـنَهُ هُوَ اللَّهُ الْوَحِدُ الْقَهَّارُ Had Allah willed to take a son, He could have chosen whom He willed out of those whom He created. But glory be to Him! He is Allah, the One, the Irresistible. (39:4). Allah says here: سُبْحَانَ رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَالاَْرْضِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ

جہالت و خباثت کی انتہاء اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک ہے اے نبی آپ اعلان کر دیجئے کہ اگر بالفرض اللہ تعالیٰ کی اولاد ہو تو مجھے سر جھکانے میں کیا تامل ہے ؟ نہ میں اس کے فرمان سے سرتابی کروں نہ اس کے حکم کو ٹالوں اگر ایسا ہوتا تو سب سے پہلے میں اسے مانتا اور اس کا اقرار کرتا لیکن اللہ کی ذات ایسی نہیں جس کا کوئی ہمسر اور جس کا کوئی کفو ہو یاد رہے کہ بطور شرط کے جو کلام وارد کیا جائے اس کا وقوع ضروری نہیں بلکہ امکان بھی ضروری نہیں ۔ جیسے فرمان باری ہے آیت ( لَوْ اَرَادَ اللّٰهُ اَنْ يَّتَّخِذَ وَلَدًا لَّاصْطَفٰى مِمَّا يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ ۙ سُبْحٰنَهٗ ۭ هُوَ اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ Ć۝ ) 39- الزمر:4 ) ، یعنی اگر حضرت حق جل و علا اولاد کی خواہش کرتا تو اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا چن لیتا لیکن وہ اس سے پاک ہے اس کی شان وحدانیت اس کے خلاف ہے اس کا تنہا غلبہ اور قہاریت اس کی صریح منافی ہے بعض مفسریں نے ( عابدین ) کے معنی انکاری کے بھی کئے ہیں جیسے سفیان ثوری ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ ( عابدین ) سے مراد یہاں ( اول الجاحدین ) ہے یعنی پہلا انکار کرنے والا اور یہ ( عبد یعبد ) کے باب سے ہے اور جو عبادت کے معنی میں ہوتا ہے ۔ وہ ( عبد یعبد ) سے ہوتا ہے ۔ اسی کی شہادت میں یہ واقعہ بھی ہے کہ ایک عورت کے نکاح کے چھ ماہ بعد بچہ ہوا حضرت عثمان نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا لیکن حضرت علی نے اس کی مخالفت کی اور فرمایا اللہ تعالیٰ کی کتاب میں ہے آیت ( وَحَمْلُهٗ وَفِصٰلُهٗ ثَلٰثُوْنَ شَهْرًا 15؀ ) 46- الأحقاف:15 ) یعنی حمل کی اور دودھ کی چھٹائی کی مدت ڈھائی سال کی ہے ۔ اور جگہ اللہ عزوجل نے فرمایا آیت ( وفصالہ فی عامین ) دو سال کے اندر اندر دودھ چھڑانے کی مدت ہے حضرت عثمان ان کا انکار نہ کر سکے اور فوراً آدمی بھیجا کہ اس عورت کو واپس کرو یہاں بھی لفظ ( عبد ) ہے یعنی انکار نہ کر سکے ۔ ابن وہب کہتے ہیں ( عبد ) کے معنی نہ ماننا انکار کرنا ہے ۔ شاعر کے شعر میں بھی ( عبد ) انکار کے اور نہ ماننے کے معنی میں ہے ۔ لیکن اس قول میں نر ہے اس لئے کہ شرط کے جواب میں یہ کچھ ٹھیک طور پر لگتا نہیں اسے ماننے کے بعد مطلب یہ ہو گا کہ اگر رحمان کی اولاد ہے تو میں پہلا منکر ہوں ۔ اور اس میں کلام کی خوبصورتی قائم نہیں رہتی ۔ ہاں صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ ( ان ) شرط کے لئے نہیں ہے ۔ بلکہ نفی کے لئے ہے جیسے کہ ابن عباس سے منقول بھی ہے ۔ تو اب مضمون کلام یہ ہو گا کہ چونکہ رحمان کی اولاد نہیں پس میں اس کا پہلا گواہ ہوں حضرت قتادہ فرماتے ہیں یہ کلام عرب کے محاورے کے مطابق ہے یعنی نہ رحمان کی اولاد نہ میں اس کا قائل و عابد ۔ ابو صخر فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ میں تو پہلے ہی اس کا عابد ہوں کہ اس کی اولاد ہے ہی نہیں اور میں اس کی توحید کو ماننے میں بھی آگے آگے ہوں مجاہد فرماتے ہیں میں اس کا پہلا عبادت گذار ہوں اور موحد ہوں اور تمہاری تکذیب کرنے والا ہوں ۔ امام بخاری فرماتے ہیں میں پہلا انکاری ہوں یہ دونوں لغت میں ( عابد ) اور ( عبد ) اور اول ہی زیادہ قریب ہے اس وجہ سے کہ یہ شرط و جزا ہے لیکن یہ ممتنع اور محال محض ناممکن ۔ سدی فرماتے ہیں اگر اس کی اولاد ہوتی تو میں اسے پہلے مان لیتا کہ اس کی اولاد ہے لیکن وہ اس سے پاک ہے ابن جریر اسی کو پسند فرماتے ہیں اور جو لوگ ( ان ) کو نافیہ بتلاتے ہیں ان کے قول کی تردید کرتے ہیں اسی لئے باری تعالیٰ عزوجل فرماتا ہے کہ آسمان و زمین اور تمام چیزوں کا حال اس سے پاک بہت دور اور بالکل منزہ ہے کہ اس کی اولاد ہو وہ فرد احمد صمد ہے اس کی نظیر کفو اولاد کوئی نہیں ارشاد ہوتا ہے کہ نبی انہیں اپنی جہالت میں غوطے کھاتے چھوڑو اور دنیا کے کھیل تماشوں میں مشغول رہنے دو اسی غفلت میں ان پر قیامت ٹوٹ پڑے گی ۔ اس وقت اپنا انجام معلوم کرلیں پھر ذات حق کی بزرگی اور عظمت اور جلال کا مزید بیان ہوتا ہے کہ زمین و آسمان کی تمام مخلوقات اس کی عابد ہے اس کے سامنے پست اور عاجز ہے ۔ وہ خبیر و علیم ہے جیسے اور آیت میں ہے کہ زمین و آسمان میں اللہ وہی ہے ہر پوشیدہ اور ظاہر کو اور تمہارے ہر ہر عمل کو جانتا ہے وہ سب کا خالق و مالک سب کو بسانے اور بنانے والا سب پر حکومت اور سلطنت رکھنے والا بڑی برکتوں والا ہے ۔ وہ تمام عیبوں سے کل نقصانات سے پاک ہے وہ سب کا مالک ہے بلندیوں اور عظمتوں والا ہے کوئی نہیں جو اس کا حکم ٹال سکے کوئی نہیں جو اس کی مرضی بدل سکے ہر ایک پر قابض وہی ہے ہر ایک کام اس کی قدرت کے ماتحت ہے قیامت آنے کے وقت کو وہی جانتا ہے اس کے سوا کسی کو اس کے آنے کے ٹھیک وقت کا علم نہیں ساری مخلوق اسی کی طرف لوٹائی جائے گی وہ ہر ایک کو اپنے اپنے اعمال کا بدلہ دے گا پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ان کافروں کے معبودان باطل جنہیں یہ اپنا سفارشی خیال کئے بیٹھے ہیں ان میں سے کوئی بھی سفارش کے لئے آگے بڑھ نہیں سکتا کسی کی شفاعت انہیں کام نہ آئے گی اسکے بعد استثناء منقطع ہے یعنی لیکن جو شخص حق کا اقراری اور شاہد ہو اور وہ خود بھی بصیرت و بصارت پر یعنی علم و معرفت والا ہو اسے اللہ کے حکم سے نیک لوگوں کی شفاعت کار آمد ہو گی ان سے اگر تو پوچھے کہ ان کا خالق کون ہے ؟ تو یہ اقرار کریں گے کہ اللہ ہی ہے افسوس کہ خالق اسی ایک کو مان کر پھر عبادت دوسروں کی بھی کرتے ہیں جو محض مجبور اور بالکل بےقدرت ہیں اور کبھی اپنی عقل کو کام میں نہیں لاتے کہ جب پیدا اسی ایک نے کیا تو ہم دوسرے کی عبادت کیوں کریں ؟ جہالت و خباثت کند ذہنی اور بےوقوفی اتنی بڑھ گئی ہے کہ ایسی سیدھی سی بات مرتے دم تک سمجھ نہ آئی ۔ بلکہ سمجھانے سے بھی نہ سمجھا اسی لئے تعجب سے ارشاد ہوا کہ اتنا مانتے ہوئے پھر کیوں اندھے ہو جاتے ہو ؟ پھر ارشاد ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا یہ کہنا کہا یعنی اپنے رب کی طرف شکایت کی اور اپنی قوم کی تکذیب کا بیان کیا کہ یہ ایمان قبول نہیں کرتے جیسے اور آیت میں ہے ( وَقَالَ الرَّسُوْلُ يٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا 30؀ ) 25- الفرقان:30 ) یعنی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ شکایت اللہ کے سامنے ہو گی کہ میری امت نے اس قران کو چھوڑ رکھا تھا ۔ امام ابن جریر بھی یہی تفسیر بیان کرتے ہیں امام بخاری فرماتے ہیں ابن مسعود کی قرأت لام کے زیر کیساتھ بھی نقل کی ہے اس کی ایک توجیہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ آیت ( اَمْ يَحْسَبُوْنَ اَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَنَجْوٰىهُمْ ۭ بَلٰى وَرُسُلُنَا لَدَيْهِمْ يَكْتُبُوْنَ 80؀ ) 43- الزخرف:80 ) پر معطوف ہے دوسرے یہ کہ یہاں فعل مقدر مانا جائے یعنی ( قال ) کو مقدر مانا جائے ۔ دوسری قرأت یعنی لام کے زیر کیساتھ جب ہو تو یہ عجب ہو گا آیت ( وَعِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ وَاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ 85 ؀ ) 43- الزخرف:85 ) پر تو تقدیر یوں ہو گی ۔ کہ قیامت کا علم اور اس قول کا علم اس کے پاس ہے ختم سورہ پر ارشاد ہوتا ہے کہ مشرکین سے منہ موڑ لے اور ان کی بدزبانی کا بد کالمی سے جواب نہ دو بلکہ ان کے دل پر چانے کی خاطر قول میں اور فعل میں دونوں میں نرمی برتو کہہ دو کہ سلام ہے ۔ انہیں ابھی حقیقت حال معلوم ہو جائے گی ۔ اس میں رب قدوس کی طرف سے مشرکین کو بڑی دھمکی ہے اور یہی ہو کر بھی رہا ۔ کہ ان پر وہ عذاب آیا جو ان سے ٹل نہ سکا حضرت حق جل و علا نے اپنے دین کو بلند و بالا کیا اپنے کلمہ کو چاروں طرف پھیلا دیا اپنے موحد مومن اور مسلم بندوں کو قوی کر دیا اور پھر انہیں جہاد کے اور جلا وطن کرنے کے احکام دے کر اس طرح دنیا میں غالب کر دیا اللہ کے دین میں بیشمار آدمی داخل ہوئے اور مشرق و مغرب میں اسلام پھیل گیا فالحمدللہ ۔ واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

81۔ 1 کیونکہ اللہ کا مطیع اور فرماں بردار ہوں اگر واقع اس کی اولاد ہوتی تو سب سے پہلے میں ان کی عبادت کرنے والا ہوتا۔ مطلب مشرکین کے عقیدے میں اللہ کی اولاد ثابت کرتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٦] یعنی تم کہتے ہو کہ اللہ کی اولاد ہے۔ اگر مجھے تمہاری یہ بات دل لگتی اور مجھے ایسا یقین حاصل ہوجاتا تو میں یقیناً سب سے پہلے اس کی عبادت کرنے والا ہوتا۔ لیکن یہ بات میری عقل اور سمجھ سے باہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی اولاد ہو۔ اور کائنات کے تصرف میں اس کا بھی کچھ اختیار ہو۔ وجہ یہ ہے کہ اگر ایسی صورت ہوتی تو کائنات کے پورے کے پورے نظام میں جو ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ ایک سے زیادہ خداؤں کی صورت میں یہ کبھی برقرار نہیں رہ سکتی تھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قل ان کان للرحمن ولد…: کفار فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے، پچھلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے اس کا رد فرمایا۔ اب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ ان سے کہہ دیں کہ اگر رحمان کی کوئی اولاد ہو تو میں سب سے پہلے اس کی عبادت کرنے والا ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ میرا اللہ تعالیٰ کی اولاد نہ ماننا اور جنھیں تم اللہ کی اولاد قرار دیتے ہو ان کی عبادت سے انکار کسی ضد یا ہٹ دھرمی کی بنا پر نہیں، بلکہا س وجہ سے ہے کہ ممکن ہی نہیں کہ اس ذات پاک کی اولاد ہو جس کا نام رحمان ہے۔ تفصیل کے لئے سورة مریم کی آیات (٨٨ تا ٩٨) کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ مطلب یہ ہے کہ اگر رحمان کی کوئی اولاد ہو، جیسا کہ کفار کہتے ہیں، تو سب سے پہلے اس اولاد کی عبادت کرنے والا میں ہوں، کیونکہ میرا اس کے ساتھ بندگی کا تعلق سب سے زیادہ ہے، جیسا کہ بادشاہ کے نوکر چاکر بادشاہ کی اولاد کی تعظیم ان کے والد کی تعظیم کی وجہ سے کرتے ہیں، لیکن رحمان کی اولاد ہے ہی نہیں، اس لئے میں اللہ واحد کے سوا کسی کی عبادت کرنے والا نہیں۔ یاد رہے کہ یہ جملہ شرطیہ ہے، اس میں شرط کا وجود بلکہ اس کا امکان بھی ضروری نہیں ہوتا۔ بعض اوقات ناممکن چیز کو بھی بفرض محال شرط کے طور پر ذکر کردیا جاتا ہے، جیسا کہ فرمایا :(لو اراد اللہ ان یتخذ ولذدا لاصطفی مما یخلق مایشآء سبحنہ ھو اللہ الواحد القھار) (الزمر : ٣)” اگر اللہ چاہتا کہ (کسی کو) اولاد بنئاے تو ان میں سے جنھیں وہ پیدا کرتا ہے جسے چاہتا ضرور چن لیتا، وہ پاک ہے۔ وہ تو اللہ ہے، جو اکیلا ہے، بہت غلبے والا ہے۔ “ اور فرمایا :(لوکان فیھمآ الھۃ الا اللہ لفسدتا) (الانبیائ : ٢٢)” اگر ان دونوں میں اللہ کے سوا کوئی اور معبود ہوتے تو وہ دونوں ضرور بگڑ جاتے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary قُلْ إِن كَانَ لِلرَّ‌حْمَـٰنِ وَلَدٌ فَأَنَا أَوَّلُ الْعَابِدِينَ (Had there been a son for the Rahman, I would have been the first to worship - 43:81) It does not mean that, God forbid, there is any possibility of Rahman (Allah) having offspring. What is really being said is that the Holy Prophet t is not denying your beliefs due to enmity or obstinacy, but because they are illogical. If precise logical arguments could prove the existence of offspring of Allah, he would certainly have accepted it. But every intellectual argument contradicts this possibility, and therefore there is no question of accepting it. This tells us that it is lawful, rather desirable, to declare during a debate with erring people that if their claim had been proved by strong arguments, it would have been accepted, because such a manner of speech may sometimes soften the heart of the opponent and may persuade him to accept the truth.

معارف ومسائل (آیت) قُلْ اِنْ كَان للرَّحْمٰنِ وَلَدٌ ڰ فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِيْنَ (اگر خدائے رحمن کی کوئی اولاد ہوتی تو میں سب سے پہلے اس کی عبادت کرتا) اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ معاذ اللہ خدا کی اولاد ہونے کا کسی بھی درجہ میں کوئی امکان ہے، بلکہ مقصد دراصل یہ بتانا ہے کہ میں تمہارے عقائد کا انکار کسی عناد یا ہٹ دھرمی سے نہیں کر رہا ہوں بلکہ دلائل کی وجہ سے کر رہا ہوں، اگر صحیح دلائل سے خدا کی اولاد کا وجود ثابت ہوجاتا تو میں اسے ضرور مان لیتا، لیکن عقل ونقل کی ہر دلیل اس کی تردید کرتی ہے، اس لئے ماننے کا کوئی سوال نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہل باطل کے ساتھ مباحثہ کے وقت اپنی حق پسندی جتلانے کے لئے یہ کہنا جائز اور مناسب ہے کہ اگر تمہارا دعویٰ صحیح دلائل کے ساتھ ثابت ہوتا تو میں اسے تسلیم کرلیتا، کیونکہ بعض اوقات اس انداز کلام سے مخالف کے دل میں ایسی نرمی پیدا ہو سکتی ہے جو اسے قبول حق پر آمادہ کر دے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ اِنْ كَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدٌ۝ ٠ ۤۖ فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِيْنَ۝ ٨١ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ كان كَانَ «3» : عبارة عمّا مضی من الزمان، وفي كثير من وصف اللہ تعالیٰ تنبئ عن معنی الأزليّة، قال : وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً [ الأحزاب/ 40] ، وَكانَ اللَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيراً [ الأحزاب/ 27] وما استعمل منه في جنس الشیء متعلّقا بوصف له هو موجود فيه فتنبيه علی أن ذلک الوصف لازم له، قلیل الانفکاک منه . نحو قوله في الإنسان : وَكانَ الْإِنْسانُ كَفُوراً [ الإسراء/ 67] وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء/ 100] ، وَكانَ الْإِنْسانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا [ الكهف/ 54] فذلک تنبيه علی أن ذلک الوصف لازم له قلیل الانفکاک منه، وقوله في وصف الشّيطان : وَكانَ الشَّيْطانُ لِلْإِنْسانِ خَذُولًا [ الفرقان/ 29] ، وَكانَ الشَّيْطانُ لِرَبِّهِ كَفُوراً [ الإسراء/ 27] . وإذا استعمل في الزمان الماضي فقد يجوز أن يكون المستعمل فيه بقي علی حالته كما تقدّم ذكره آنفا، ويجوز أن يكون قد تغيّر نحو : كَانَ فلان کذا ثم صار کذا . ولا فرق بين أن يكون الزمان المستعمل فيه کان قد تقدّم تقدما کثيرا، نحو أن تقول : کان في أوّل ما أوجد اللہ تعالی، وبین أن يكون في زمان قد تقدّم بآن واحد عن الوقت الذي استعملت فيه کان، نحو أن تقول : کان آدم کذا، وبین أن يقال : کان زيد هاهنا، ويكون بينک وبین ذلک الزمان أدنی وقت، ولهذا صحّ أن يقال : كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم/ 29] فأشار بکان أنّ عيسى وحالته التي شاهده عليها قبیل . ولیس قول من قال : هذا إشارة إلى الحال بشیء، لأنّ ذلك إشارة إلى ما تقدّم، لکن إلى زمان يقرب من زمان قولهم هذا . وقوله : كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران/ 110] فقد قيل : معنی كُنْتُمْ معنی الحال «1» ، ولیس ذلک بشیء بل إنما ذلک إشارة إلى أنّكم کنتم کذلک في تقدیر اللہ تعالیٰ وحكمه، وقوله : وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة/ 280] فقد قيل : معناه : حصل ووقع، والْكَوْنُ يستعمله بعض الناس في استحالة جو هر إلى ما هو دونه، وكثير من المتکلّمين يستعملونه في معنی الإبداع . وكَيْنُونَةٌ عند بعض النّحويين فعلولة، وأصله : كَوْنُونَةٌ ، وكرهوا الضّمة والواو فقلبوا، وعند سيبويه «2» كَيْوِنُونَةٌ علی وزن فيعلولة، ثم أدغم فصار كَيِّنُونَةً ، ثم حذف فصار كَيْنُونَةً ، کقولهم في ميّت : ميت . وأصل ميّت : ميوت، ولم يقولوا كيّنونة علی الأصل، كما قالوا : ميّت، لثقل لفظها . و «الْمَكَانُ» قيل أصله من : كَانَ يَكُونُ ، فلمّا كثر في کلامهم توهّمت المیم أصليّة فقیل : تمكّن كما قيل في المسکين : تمسکن، واسْتَكانَ فلان : تضرّع وكأنه سکن وترک الدّعة لضراعته . قال تعالی: فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون/ 76] . ( ک و ن ) کان ۔ فعل ماضی کے معنی کو ظاہر کرتا ہے پیشتر صفات باری تعا لےٰ کے متعلق استعمال ہو تو ازلیت ( یعنی ہمیشہ سے ہے ) کے معنی دیتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً [ الأحزاب/ 40] اور خدا ہر چیز واقف ہے ۔ وَكانَ اللَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيراً [ الأحزاب/ 27] اور خدا ہر چیز پر قادر ہے ۔ اور جب یہ کسی جنس کے ایسے وصف کے متعلق استعمال ہو جو اس میں موجود ہو تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ یہ وصف اس اسم کے ساتھ لازم وملزوم رہتا ہے اور بہت ہی کم اس علیحدہ ہوتا ہے ۔ چناچہ آیات : ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ كَفُوراً [ الإسراء/ 67] اور انسان ہے ہی ناشکرا ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء/ 100] اور انسان دل کا بہت تنگ ہے ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا [ الكهف/ 54] اور انسان سب چیزوں سے بڑھ کر جھگڑا لو ہے ، میں تنبیہ کی ہے کہ یہ امور انسان کے اوصاف لازمہ سے ہیں اور شاذ ونا ور ہی اس سے منفک ہوتے ہیں اسی طرح شیطان کے متعلق فرمایا : ۔ كانَ الشَّيْطانُ لِلْإِنْسانِ خَذُولًا[ الفرقان/ 29] اور شیطان انسان کی وقت پر دغا دینے والا ہے ۔ وَكانَ الشَّيْطانُ لِرَبِّهِ كَفُوراً [ الإسراء/ 27] اور شیطان اپنے پروردگار کی نعمتوں کا کفران کرنے والا یعنی نا قدرا ہے ۔ جب یہ فعل زمانہ ماضی کے متعلق استعمال ہو تو اس میں یہ بھی احتمال ہوتا ہے کہ وہ چیز تا حال اپنی پہلی حالت پر قائم ہو اور یہ بھی کہ اس کی وہ حالت متغیر ہوگئی ہو مثلا کان فلان کذا ثم صار کذا ۔ یعنی فلاں پہلے ایسا تھا لیکن اب اس کی حالت تبدیل ہوگئی ہے نیز یہ ماضی بعید کے لئے بھی آتا ہے جیسے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فلاں چیز پیدا کی تھی اور ماضی قریب کے لئے بھی حتی کہ اگر وہ حالت زمانہ تکلم سے ایک لمحہ بھی پہلے ہوتو اس کے متعلق کان کا لفظ استعمال ہوسکتا ہے لہذا جس طرح کان ادم کذا کہہ سکتے ہیں اسی طرح کان زید ھھنا بھی کہہ سکتے ہیں ۔ اس بنا پر آیت : ۔ كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا[ مریم/ 29]( وہ بولے کہ ) ہم اس سے کہ گود کا بچہ ہے کیونکہ بات کریں ۔ کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ جو ابھی گو د کا بچہ تھا یعنی کم عمر ہے اور یہ بھی کہ جو ابھی گود کا بچہ ہے یعنی ماں کی گود میں ہے لیکن یہاں زمانہ حال مراد لینا بےمعنی ہے اس میں زمانہ قریب ہے جیسے آیت : ۔ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران/ 110] جتنی امتیں ہوئیں تم ان سب سے بہتر ہو ۔ میں بھی بعض نے کہا ہے کہ کنتم زمانہ حالپر دلالت کرتا ہے لیکن یہ معنی صحیح نہیں ہیں بلکہ معنی یہ ہیں کہ تم اللہ کے علم اور حکم کے مطابق بہتر تھے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة/ 280] اور اگر ( قرض لینے والا ) تنگ دست ہو ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں کان کے معنی کسی چیز کا واقع ہوجانا کے ہیں اور یہ فعل تام ہے ۔ یعنی اگر وہ تنگدست ہوجائے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کون کا لفظ کسی جوہر کے اپنے سے پست تر جو میں تبدیل ہونے کے لئے آتا ہے اور اکثر متکلمین اسے معنی ابداع میں استعمال کرتے ہیں بعض علامائے نحو کا خیال ہے کہ کینونۃ کا لفظ اصل میں کو نو نۃ بر وزن فعلولۃ ہے ۔ ثقل کی وجہ سے واؤ سے تبدیل ہوگئی ہے مگر سیبو کے نزدیک یہ اصل میں کیونو نۃ بر وزن فیعلولۃ ہے ۔ واؤ کو یا میں ادغام کرنے سے کینونۃ ہوگیا پھر ایک یاء کو تخفیف کے لئے گرادیا تو کینونۃ بن گیا جیسا کہ میت سے میت بنا لیتے ہیں جو اصل میں میوت ہے ۔ فرق صرف یہ ہے ۔ کہ کینو نۃ ( بتشدید یاء کے ساتھ اکثر استعمال ہوتا ہے المکان ۔ بعض کے نزدیک یہ دراصل کان یکون ( ک و ن ) سے ہے مگر کثرت استعمال کے سبب میم کو اصلی تصور کر کے اس سے تملن وغیرہ مشتقات استعمال ہونے لگے ہیں جیسا کہ مسکین سے تمسکن بنا لیتے ہیں حالانکہ یہ ( ص ک ن ) سے ہے ۔ استکان فلان فلاں نے عاجز ی کا اظہار کیا ۔ گو یا وہ ٹہھر گیا اور ذلت کی وجہ سے سکون وطما نینت کو چھوڑدیا قرآن میں ہے : ۔ فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون/ 76] تو بھی انہوں نے خدا کے آگے عاجزی نہ کی ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) ولد الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] ، ( و ل د ) الولد ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔ عبادت العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . والعِبَادَةُ ضربان : عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود . وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ عبادۃ دو قسم پر ہے (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨١۔ ٨٢) اور آپ نضر بن حارث اور علقمہ سے کہیے کہ اللہ کے کوئی اولاد نہیں کیونکہ سب سے پہلے تو میں ہی اس کے وحدہ لاشریک ہونے کا اقرار کرنے والا ہوں وہ ان کے ان جھوٹے دعو وں سے پاک ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨١ { قُلْ اِنْ کَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَـدٌق فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِیْنَ } ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) آپ ان سے کہیے کہ اگر رحمن کا کوئی بیٹا ہوتا تو سب سے پہلا اس کی عبادت کرنے والا میں ہوتا۔ “ کہ جب میں خدائے رحمان کو اپنا معبود مانتا ہوں اور اس کی پرستش کرتا ہوں ‘ اگر واقعتا اس کا کوئی بیٹا ہوتا تو اس کی پرستش کرنے میں مجھے بھلا کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔ یہ نفی کا بہت تیکھا انداز ہے۔ اس اسلوب کو ” تعلیق بالمحال “ کہا جاتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ نہ تو اللہ تعالیٰ کی کوئی اولاد ہے اور نہ ہی ایسا ہونے کا کوئی امکان ہے ‘ اس لیے اس کی اولاد کو پوجنے کا بھی کوئی امکان نہیں۔ ” تعلیق بالمحال “ کا یہی اسلوب اس حدیث میں بھی پایا جاتا ہے : (لَوْ عَاشَ اِبْرَاہِیْمُ لَکَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا) (١) ” اگر ابراہیم زندہ رہتا تو وہ صدیق نبی ہوتا۔ “ ایک دفعہ ٹورنٹو (کینیڈا) میں ایک قادیانی نے میرے ساتھ بحث کے دوران نبوت کے تسلسل کو ثابت کرنے کے لیے اسی حدیث کا حوالہ دیا تھا۔ اس حدیث میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیٹے حضرت ابراہیم (رض) کا ذکر ہے ‘ جو حضرت ماریہ قبطیہ (علیہ السلام) کے بطن سے پیدا ہوئے اور بچپن میں ہی فوت ہوگئے۔ ان کے بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ اگر وہ زندہ رہتے تو وہ نبی ہوتے۔ اللہ کی مشیت کے مطابق ان کے زندہ رہنے کا کوئی امکان نہیں تھا ‘ اس لیے نہ تو انہوں نے زندہ رہنا تھا اور نہ ہی نبوت کے سلسلے کو آگے چلنا تھا۔ بہر حال مذکورہ قادیانی نے اس حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ نبوت ختم نہیں ہوئی۔ میں نے اس کے جواب میں دلیل کے طور پر اسی آیت کا حوالہ دیا تھا : { قُلْ اِنْ کَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدٌق فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِیْنَ 4 } کہ یہاں جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہلوایا جا رہا ہے کہ اگر رحمان کا کوئی بیٹا ہوتا تو میں سب سے پہلے اس کی عبادت کرنے والا ہوتا۔ تو کیا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اللہ کے علاوہ کسی اور کو پوجنے کا کچھ بھی امکان تھا ؟ اس پر اس نے تسلیم کیا کہ آپ کی یہ دلیل واقعتا مضبوط ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

64 It means: "My rejection of somebody's being God's offspring and my refusal to worship those whom you regard as His offspring is not due to any stubbornness and obduracy. My reason for the refusal is only this that God has no son or daughter, and your such beliefs are against the reality; otherwise I am such a faithful servant of my Lord that if at all the reality had been the same as you state I would have submitted myself in worship before you. "

سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :64 مطلب یہ ہے کہ میرا کسی کو خدا کی اولاد نہ ماننا ، اور جنہیں تم اس کی اولاد قرار دے رہے ہو ان کی عبادت سے انکار کرنا کسی ضد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر نہیں ہے ۔ میں جس بنا پر اس سے انکار کرتا ہوں وہ صرف یہ ہے کہ کوئی خدا کا بیٹا یا بیٹی نہیں ہے اور تمہارے یہ عقائد حقیقت کے خلاف ہیں ۔ ورنہ میں تو خدا کا ایسا وفادار بندہ ہوں کہ اگر بالفرض حقیقت یہی ہوتی تو تم سے پہلے میں بندگی میں سر جھکا دیتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

21: اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اولاد ہونے کا کوئی امکان ہے، بلکہ یہ بات فرض محال کے طور پر کہی گئی ہے، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ میں تمہارے عقائد کا جو انکار کر رہا ہوں، وہ کسی ہٹ دھرمی یا عناد کی وجہ سے نہیں کر رہا، بلکہ دلائل کی بنا پر کر رہا ہوں، اور اگر دلیل سے اللہ تعالیٰ کی کسی اولاد کا کوئی ثبوت ہوتا تو میں اس سے کبھی انکار نہ کرتا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨١۔ ٨٤۔ علاوہ ان فرشتوں کے جو ہر آدمی کے ساتھ ہر طرح کی آفت سے حفاظت کرنے کے لئے مقرر ہیں جن کا ذکر سورة رعد میں گزر چکا ہے۔ یہ دو فرشتے نیکی اور بدی لکھنے کی غرض سے ہر شخص کے ساتھ تعینات ہیں۔ صحیحین ١ ؎ کی اور حدیث کی کتابوں میں ابوہریرہ (رض) کی روایت سے جو ایک حدیث مشہور ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آدمی کے دل میں جو وسوسہ آتا ہے جب تک اس وسوسہ کے موافق آدمی کوئی بات منہ سے نہ نکالے یا ہاتھ پیر سے کوئی کام نہ کرے تو وسوسہ معاف ہے اس صحیح حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سوا دل کے وسوسہ کے اور جو کچھ زبان سے نکلے یا ہاتھ پیروں سے کیا جائے وہ سب لکھا جاتا ہے بعض مفسروں نے حضرت عبد اللہ بن عباس ٢ ؎ سے ایک روایت بیان کی ہے کہ سوا ان باتوں اور کاموں کے جن سے ثواب اور عذاب متعلق ہے اور عام باتیں دنیا کے کام کی نامہ اعمال میں نہیں لکھی جاتیں لیکن علی بن طلحہ کی سند سے صحیح قول حضرت عبد اللہ بن عباس کا یہی ٣ ؎ ہے کہ پہلے سب کچھ لکھا جاتا ہے اور پھر عذاب وثواب کے قابل باتیں اور کام چھانٹ لئے جاتے ہیں مسند برار ٤ ؎ وغیرہ میں جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ پاخانہ کے وقت اور ناپاکی کے وقت یہ کراماً کا بتیں فرشتے انسان سے ذرا سرک کر الگ ہوجاتے ہیں نہیں تو ہر حالت میں آدمی کے ساتھ رہتے ہیں اور سارے دن کا نامہ اعمال جو لکھ کر یہ فرشتے لے جاتے ہیں اگر اس نامہ اعمال میں کہیں استغفار ہو تو اللہ تعالیٰ اس دن کے سب گناہ معاف کردیتا ہے اگرچہ بعض علما نے لکھا ہے کہ دل کا وسوسہ جب تک محض وسوسہ ہے تو معاف ہے لیکن اس وسوسہ پر جب دل مضبوط ہوجائے تو اس کو عزم کہتے ہیں اور دل کے عزم پر شریعت میں مواخذہ ہے لیکن صحیح مذہب یہ ہے کہ دل کا عزم اگر ان مسئلوں کے خاص دل سے اعتقاد کے طور پر متعلق ہیں مثلاً دل میں خدا کی وحدانیت کا یقین کرنا آنحضرت کی رسالت کا یقین کرنا ان مسئلوں کا دلی شک بلا شک قابل مواخذہ ہے کیونکہ کفر و شرک کا اعتقاد اسی کا نام ہے ہاں فقط ہاتھ پیروں کے یا زبان کے متعلق جو مسئلے ہیں ان میں ہر طرح کا دل کا وسوسہ صحیح حدیثوں کی رو سے معاف ہے ان آیتوں میں یہ جو فرمایا کہ اے رسول اللہ کے ان مشرکوں سے کہہ دو کہ اگر اللہ کے اولاد ہوتی تو سب سے پہلے میں اس اولاد کو پوجتا صحیح معنی اس کے یہی ہیں کہ جب میں اللہ کا رسول ہو کر سوا اللہ کے کسی کی عبادت نہیں کرتا اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک کرنے کی وحی مجھ کو نہیں آئی تو اس سے معلوم ہوگیا کہ اللہ کا کوئی شریک اور اولاد نہیں ہے پھر تم لوگ بغیر سند کے اللہ کا شریک اور اللہ کی اولاد کیونکر ٹھہراتے ہو۔ اب آگے فرمایا کہ اللہ ان مشرکوں سے پاک ہے اور ایسا صاحب تخت بادشاہ ہے کہ آسمان و زمین میں اسی کی بادشاہت ہے نہ کوئی اسکا ولی عہد ہے نہ وزیر پھر اپنے رسول کو مخاطب ٹھہرا کر فرمایا کہ سزا کا وقت مقررہ آنے تک ان مشرکوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے کیونکہ مجبور کرکے کسی کو راہ راست پر لانا اللہ کو منظور نہیں ہے پھر فرمایا اگرچہ یہ مشرک آسمان پر رہنے کے سبب سے فرشتوں کی یہاں تک عزت کرتے ہیں کہ فرشتوں کی مورتوں کی پوجا کرتے ہیں لیکن اللہ کی وہ شان ہے کہ آسمان و زمین میں اس کے سوا کوئی دوسرا بندگی کے قابل نہیں ہے کیونکہ وہ سب کا خالق ہے اور سب اس کی مخلوق اس کی حکمت اور اس کا علم ایسیوسیع ہیں کہ کسی انتظام میں وہ اولاد کی مدد کا محتاج نہیں۔ (١ ؎ صحیح مسلم باب تجاوز اللہ عن حدیث النفس الخ ص ٧٨ ج ١۔ ) (٢ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ١٠٣ ج ٦ و تفسیر ابن کثیر ص ٢٢٤ ج ٤۔ ) (٣ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ١٠٣ ج ٦ و تفسیر ابن کثیر ص ٢٢٤ ج ٤۔ ) (٤ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ٣٢٣ ج ٥۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(43:81) قل : ای قل یا محمد للکفار : ای محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کفار مکہ کو کہہ دیجئے۔ ان۔ شرطیہ ہے اگر خدا وند تعالیٰ کا کوئی بچہ ہوتا تو سب سے پہلے میں اس کی پوجا کرنے والا ہوتا ۔ بعض کے نزدیک ان نافیہ ہے اور عابدین بمعنی گواہی دینے والے ہیں۔ اس صورت میں ترجمہ ہوگا :۔ رحمن کی کوئی اولاد نہیں اور میں سب سے پہلے اس کی شہادت دینے والا ہوں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 کیونکہ میں خدا کا بندہ اور اس کا تابعدار ہوں لیکن اللہ کے لئے اولاد کا ہونا محال ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ مطلب یہ کہ مجھ کو تمہاری طرح حق بات کے ماننے سے اباء و انکار نہیں تم اگر ثابت کردو تو تب سے اول اس کو میں مانوں، مگر چونکہ یہ امر باطل محض ہے اس لئے میں یہ نہ مانوں اور نہ عبادت کروں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مکہ والوں کا بنیادی اختلاف ” اللہ “ کی توحید پر تھا۔ ان کا عقیدہ تھا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے کچھ ہستیوں کو اپنی خدائی میں شریک کر رکھا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو بیٹیاں بنا کر انہیں اپنی خدائی میں شریک کرلیا ہے۔ قرآن مجید نے کئی بار اس بات کی نفی کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نہ تو کسی کو اپنی خدائی میں شریک کیا ہے اور نہ ہی کسی کو اپنی اولاد بنایا ہے۔ اس موقع پر اس بات کا صرف یہ جواب دیا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان سے ارشاد فرمائیں کہ اگر الرّحمن کی اولاد ہوتی تو سب سے پہلے میں اس کی عبادت کرتا یعنی اسے تسلیم کرتا۔ مطلب یہ ہے کہ نہ اس کی اولاد ہے اور نہ میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں۔ یہ بھی ارشاد فرمائیں کہ جو کچھ الرّحمن کے بارے میں یہ یا وہ گوئی کرتے ہیں وہ اس سے پاک اور مبرّا ہے۔ وہ زمین و آسمانوں کا پیدا کرنے والا اور عرش کا مالک ہے۔ اگر یہ لوگ اتنی بڑی حقیقت کو نہیں مانتے تو انہیں ان کی یا وہ گوئی اور بےہودگی کے لیے چھوڑ دیجیے ! یہاں تک کہ یہ اس دن کو پالیں جس دن کا ان کے ساتھ وعدہ کیا جاتا ہے۔ الرحمن ہی زمین و آسمانوں کا اکیلا الٰہ ہے۔ وہ سب کچھ جانتا ہے اور اس کے ہر فرمان میں حکمت پنہاں ہوتی ہے۔ مشرکین کی یا وہ گوئی کے باوجود اس نے انہیں ڈھیل دے رکھی ہے تو اس میں بھی اس کی حکمت پوشیدہ ہے کہ یہ لوگ کھل کر گناہ کرلیں تاکہ ان کے دل میں کوئی حسرت باقی نہ رہے اور قیامت کے دن انہیں ٹھیک، ٹھیک سزا دی جائے۔ یہ بات پہلے بھی عرض کی جا چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اولاد اور کسی شریک کی اس لیے ضرورت نہیں کیونکہ وہ زمین و آسمانوں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان سب کا خالق، مالک، رازق اور بلاشرکت غیرے بادشاہ ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ اور کسی کو اپنی اولاد نہیں بنایا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ زمین و آسمانوں کا اکیلا ہی رب ہے۔ ٣۔ مشرکین اپنی یا وہ گوئی سے باز نہیں آتے تو انہیں ان کی حالت پر چھوڑیں۔ ٤۔ اللہ ہی زمین و آسمانوں میں اکیلا الٰہ ہے جو بڑا حکمت والا اور سب کچھ جانتا ہے۔ تفسیر بالقرآن زمین و آسمانوں میں صرف ایک ہی الٰہ ہے : ١۔ ” اللہ “ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور پھر آسمان سے پانی اتار کر باغات اگائے کیا اس کے ساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہے ؟ (النمل : ٦٠) ٢۔ ” اللہ “ نے زمین کو جائے قرار بنایا اس میں پہاڑ اور دو سمندروں کے درمیان پردہ بنایا کیا اس کے ساتھ اور بھی الٰہ ہے ؟ (النمل : ٦١) ٣۔ کون ہے جو لاچار کی فریاد رسی کرتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کرتا ہے کیا کوئی اور بھی الٰہ ہے ؟ (النمل : ٦٢) ٤۔ خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں اللہ کے سواکون رہنمائی کرتا ہے کیا کوئی اور بھی اس کے ساتھ الٰہ ہے۔ (النمل : ٦٣) ٥۔ پہلے اور دوبارہ پیدا کرنا اور زمین و آسمان سے تمہارے لیے روزی کا بندوبست کرنے والا اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ ہے ؟ (النمل : ٦٤) ٦۔ آپ فرما دیں سوائے ایک الٰہ کے آسمان وز میں کے غیب کو کوئی نہیں جانتا۔ (النمل : ٦٥) ٧۔ کیا کوئی ہے اس الٰہ کے سوا ہے جو رات ختم کرکے دن لائے ؟ (القصص : ٧١) ٨۔ کیا کوئی ہے اس الٰہ کے علاوہ الٰہ ہے جو دن ختم کرکے رات لے آئے ؟ (القصص : ٧٢) ٩۔ بس اس ایک الٰہ کے سوا کسی دوسرے الٰہ کو نہ پکارو۔ (القصص : ٨٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٨١ تا ٨٣ یہ لوگ فرشتوں کی عبادت اس تصور پر کرتے تھے کہ یہ اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ اگر اللہ کی اولاد ہوتی تو اس کے ساتھ جان پہچان اور اس کی بندگی کا حق دار سب سے پہلے نبی ہوتا۔ کیونکہ انسانوں میں سے خدا کے قریب نبی اور رسول ہی ہوتے ہیں۔ اور پھر اللہ کی بندگی اور اطاعت میں بھی وہ سب سے آگے ہوتے ہیں اور اگر کوئی اولاد ہوتی تو اس کی عزت بھی سب سے پہلے نبی کرتے۔ لہٰذا ان لوگوں کا یہ تصور اور زعم ہی محض افسانہ ہے۔ اس پر کوئی دلیل نہیں ہے ۔ اور اس قسم کی صفات کی اللہ کی طرف نسبت کرنا اس کے شایان شان نہیں ہے ، وہ پاک ہے۔ سبحن رب السموت والارض رب العرش عما یصفون (٤٣ : ٨٢) “ پاک ہے آسمان اور زمین کا فرماں روا ، عرش عظیم کا مالک ان ساری باتوں سے جو یہ لوگ اس کی طرف منسوب کرتے ہیں ”۔ جب انسان ان آسمانوں اور زمین پر غور کرتا ہے ، ان کے نظام پر غور کرتا ہے ، ان کی رفتار اور آثار کے اندر غایت درجہ ہم آہنگی دیکھتا ہے ، اور اس نظام کے پیچھے جب بلند اور عظیم قوت کی عظمت کو دیکھتا ہے اور پھر اس پورے نظام پر اس کے قبضے اور کنٹرول کو دیکھتا ہے ، جس کی طرف رب العرش کا لفظ اشارہ کرتا ہے تو انسان کے ذہن سے اس قسم کے افسانوی خیالات و خرافات خود بخود محو ہوجاتے ہیں۔ اور یہ غور کرنے والا انسان خود اپنی فطرت کے ذریعہ یہ معلوم کرلیتا ہے کہ ایسی ذات بےمثال ہی ہو سکتی ہے۔ اس کی کوئی مثال نہیں ہو سکتی جس طرح مخلوق کی اولاد ہوتی ہے اور نسلیں چلتی ہیں۔ یہ اللہ کے لائق نہیں ہے۔ وہ اس سے پاک ہے۔ اس قسم کے عقائد اس سوچ کے بعد خود بخود لغو نظر آتے ہیں ۔ یہ فضول کلام اور ناجائز جسارت ہے۔ اس لیے کلام کرنا ہی فضول ہے۔ مناسب یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ فذرھم یخوضوا ۔۔۔۔۔۔ یوعدون (٤٣ : ٨٣) “ انہیں اپنے باطل خیالات میں غرق اور اپنے کھیل میں منہمک رہنے دو یہاں تک کہ یہ اپنا وہ دن دیکھ لیں جن کا انہیں خوف دلایا جا رہا ہے ”۔ اور وہ دن کیسا ہوگا ، اس کی ایک تصویر تو ابھی انہوں نے دیکھ لی ہے۔ ٭٭٭

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ جل شانہٗ کی صفات جلیلہ کا بیان اور شرک سے بیزاری کا اعلان چند آیات پہلے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر تھا اور اس سے پہلے یہ ذکر آیا تھا کہ مشرکین فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں بتاتے ہیں ان لوگوں کی تردید وہیں کردی گئی تھی یہاں مکرر تردید فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ آپ ان سے کہہ دیجیے کہ اگر رحمن جل شانہٗ کی اولاد ہوتی تو میں سب سے پہلے اس کی عبادت کرنے والا ہوتا رحمن جل شانہٗ کے لیے کوئی اولاد نہیں ہے اس لیے صرف رحمن جل مجدہٗ ہی کی عبادت کرتا ہوں اور اسی کی دعوت دیتا ہوں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی تنزیہہ بیان کی کہ وہ آسمانوں کا اور زمین کا اور عرش کا رب ہے وہ ان سب باتوں سے پاک ہے جو مشرکین اس کی طرف منسوب کرتے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

46:۔ ” قل ان کان “ یہ ابتدائے سورت میں ” وجعلوا لہ من عبادہ جزءا “ سے متعلق ہے۔ قرآن مجید کا یہ قاعدہ ہے کہ کبھی ابتدائے سورت کے مضمون کو آخر سورت میں بھی بانداز دیگر ذکر کیا جاتا ہے۔ تاکہ سورت کی ابتدا اور انتہا میں اتحاد و مناسبت ہوجائے۔ دلائل واضحہ اور براہین قاطعہ سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی ولد اور نائب نہیں، لیکن اگر بالفرض مشرکین مکہ کے قول کے مطابق اللہ کے لیے ولد اور نائب ثابت ہوجائے تو میں سب سے پہلے اسے مانوں گا اور اس کی تعظیم بجا لاؤں گا۔ اور اس کے مطابق اللہ کی عبادت کروں گا یہ تمثیل نفی ولد میں بطور مبالغہ ذکر کی گئی ہے۔ معنی الایۃ ان کان للرحمن ولد و صح وثبت ذلک ببرھان صحیح توردونہ وحجۃ واضحۃ تدلون بہا فانا اول من یعظم ذلک الولد واسبقکم الی طاعتہ والانقیاد لہ کما یعظم الرجل ولد الملک لتعظیم ابیہ وھذا کلام وارد علی سبیل الفرض والتمثیل لغرض وھو المبالغۃ فی نفی الولد والاطناب فیہ (کشاف) ” سبحن رب السموات الخ “ لیکن اللہ تعالیٰ جو زمین و آسمان اور عرش عظیم کا مالک ہے اور ساری کائنات میں مدبر و متصرف ہے وہ ولد اور نائب سے پاک اور منزہ ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(81) پیغمبر آپ ان سے فرمادیجئے اگر بفرض محال خدائے رحمن کے کوئی اولاد ہو تو سب عبادت کرنے والوں سے پہلے میں اس کی عبادت کروں۔ یعنی اگر تم ثابت کرو کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی اولاد ہے تو میں سب سے پہلے اس کے ماننے اور قبول کرنے کو تیار ہوں کیونکہ خدا کی اولاد بھی خدا ہی ہوگی اور جس طرح خدا عبادت کا مستحق ہے وہ اولاد بھی عبادت کے مستحق ہے لیکن یہ امر چونکہ محض باطل ہے اس لئے میں اس نام سے کسی کی عبادت کرنے کو تیار نہیں یا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے عبادت کو معلق فرمایا فرزند اور ولد کے ساتھ اور یہ ظاہر ہے کہ فرزند کا ہونا محال ہے لہٰذا عبادت بھی محال۔ یا یہ کہ واجب الوجود ہونا خواص ہے معبودیت کا اور واجب الوجود کا لڑکا بھی واجب الوجود ہوگا اگر وہ واجب الوجود نہ ہو تو غیر جنس کا ولد اللہ تعالیٰ کے لئے عیب ہوگا اور وہ مستحق عبودیت بھی نہ ہوگا پس فرشتوں کو اس کی اولادکہنا تمارا محض جہل اور ناواقفیت کی بنا پر ہے یا ہ کہ اگر تمہارے گمان میں اللہ کی اولاد ہو تو میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی توحید کا اعلان کرنے والا اور تمہاری تکذیب کرنے والا ہوں۔ غرض لوگوں نے اس آیت کے کئی طرح معنی کئے ہیں ہم نے دو تین قول نقل کردیئے ہیں راجح اور صحیح قول وہی ہے جو ہم نے اختیار کیا ہے آگے حضرت حق تعالیٰ اس نسبت ولد اور کفار کے بہتان سے اپنی پاکی بیان فرماتا ہے۔