Surat ud Dukhaan

Surah: 44

Verse: 6

سورة الدخان

رَحۡمَۃً مِّنۡ رَّبِّکَ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ ۙ﴿۶﴾

As mercy from your Lord. Indeed, He is the Hearing, the Knowing.

آپ کے رب کی مہربانی سے ۔ وہ ہی ہے سننے والا جاننے والا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

6۔ 1 یعنی انزال کتب کے ساتھ (رسولوں کا بھیجنا) یہ بھی ہماری رحمت ہی کا ایک حصہ ہے تاکہ وہ ہماری نازل کردہ کتابوں کو کھول کر بیان کریں اور ہمارے احکام لوگوں تک پہنچائیں۔ اس طرح مادی ضرورتوں کی فراہمی کے ساتھ ہم نے اپنی رحمت سے لوگوں کے روحانی تقاضوں کی تکمیل کا بھی سامان مہیا کردیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤] آپ رحمۃ للعالمین تھے :۔ یعنی تمام اہل عالم کے لئے ایک خبردار کرنے والا رسول بھیجنا صرف ہماری حکمت کا ہی تقاضا نہ تھا بلکہ یہ اہل عالم پر ہماری رحمت کا بھی تقاضا تھا۔ وہ لوگوں کی پکار اور فریاد بھی سنتا ہے اور ان کے حالات کو جانتا بھی ہے۔ اسی لیے اس نے عین ضرورت کے مطابق خاتم النبییّن کو قرآن دے کر اور تمام اہل عالم کے لیے رحمت کبریٰ بناکر مبعوث فرمایا۔ تاکہ کفر و شرک کی گمراہیوں میں پھنسی اور ظلم و جور میں ڈوبی ہوئی انسانیت کو سیدھی راہ دکھا دی جائے کہ کس طرح وہ اپنی باہمی نہ ختم ہونے والی لڑائیوں، لوٹ مار اور قتل و غارت سے نجات حاصل کرکے دنیا میں امن و چین کے ساتھ زندگی بسر کرسکتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

٦(١) رحمۃ من ربک یہ ” مرسلین “ کا مفعول لہ ہے۔ یعنی ہم تیرے رب کی رحمت کی وجہ سے رسول کو بھی جنے والے اور کتاب کو نازل کرنے والے تھے۔” اپنی رحمت “ کے بجائے ” تیرے رب کی رحمت “ کا لفظ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے شرف کے اظہار کیلئے ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کا نہیں بلکہ کل کائنات کا رب ہے، جیسا کہ آگے یہ بات ابھی رہی ہے۔ (رب السموت والارض وما بینھما ان کنتم موقنین)” آسمانوں اور زمین اور ان چیزوں کا رب جو ان دونوں کے درمیان ہیں، اگر تم یقین کرنے والے ہو۔ “” رحمتہ من ربک “ میں لفظ ” رب “ کا مطلب یہ ہے کہ بندوں پر یہ رحمت ہمارے رب ہونے کا تقاضا ہے، کیونکہ ” رب “ کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے جسم کی پرورش کا انتظام کیا جائے اور ان کی روحانی پرورش کا انتظام نہ کیا جائے، بلکہ انہیں گمراہی میں بھٹکتا چھوڑ دیا جائے۔ (٢) انہ ھو السمیع العلیم :” ان “ پہلے جملے کی علت بیان کرنے کے لئے ہوتا ہے، یعنی ہم نے رسول اس لئے بھیجا کہ تیرا رب خوب سننے اور جاننے والا تھا کہ کس طرح مشرکین بتوں اور باطل معبودوں کی پرستش کر رہے ہیں، کفر کے امام لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں اور طاقتور کمزوروں پر ظلم کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ لوگوں کے تمام اقوال و افعال اور نیتوں کو جانتا تھا اور سن رہا تھا، اس لئے اس نے ان کی اصلاح کے لئے رسولوں کو بھیجا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّكَ۝ ٠ ۭ اِنَّہٗ ہُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۝ ٦ ۙ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦ { رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَط اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ } ” رحمت کے طور پر آپ کے رب کی طرف سے۔ یقینا وہی ہے سب کچھ سننے والا ‘ سب کچھ جاننے والا۔ “ یہ تمام فیصلے یقینا اللہ تعالیٰ کی رحمت پر مبنی ہوتے ہیں۔ خاص طور پر قرآن کا نزول اور نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت تو نوع انسانی کے لیے اللہ تعالیٰ کی عظیم رحمت کا مظہر ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

4 That is, "It was not only a demand of wisdom to send a Messenger with. this Book but also of Allah's mercy, for He is the Providence, and Providence requires that not only should arrangements be made for nourishing the servants' bodies but they should also be afforded right guidance by knowledge, that they should be made aware of the distinction between right and wrong and that they should not be left wandering in darkness." 5 The object of mentioning these two attributes of AIlah in this context is to warn the people of the truth that He alone can give correct knowledge for He alone knows aII the realities. Not to speak of one ntan, even if aII men join to determine a way of lift for themselves, there can be no guaranty of its being the right way, for even the whole of mankind together cannot become all-hearing and all-knowing. It does not lie in its power to comprehend aII those realities whose knowledge is essential for determining a correct way of life. This knowledge is only with AIlah: He alone is All-Hearing and AII-Knowing. Therefore, He alone can tell what is guidance for Tnan and what is falsehood, what is the Truth and what is wrong, what is good and what is evil.

سورة الدُّخَان حاشیہ نمبر :4 یعنی یہ کتاب دے کر ایک رسول کو بھیجنا نہ صرف حکمت کا تقاضا تھا ، بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا تقاضا بھی تھا ، کیونکہ وہ رب ہے اور ربوبیت صرف اسی بات کی متقاضی نہیں ہے کہ بندوں کے جسم کی پرورش کا سامان کیا جائے اور انہیں تاریکی میں بھٹکتا نہ چھوڑ دیا جائے ۔ سورة الدُّخَان حاشیہ نمبر :5 اس سیاق و سباق میں اللہ تعالیٰ کی ان دو صفت کو بیان کرنے سے مقصود لوگوں کو اس حقیقت پر متنبہ کرنا ہے کہ صحیح علم صرف وہی دے سکتا ہے ، کیونکہ تمام حقائق کو وہی جانتا ہے ۔ ایک انسان تو کیا ، سارے انسان مل کر بھی اگر اپنے لیے کوئی راہ حیات متعین کریں تو اس کے حق ہونے کی کوئی ضمانت نہیں ، کیونکہ پوری نوع انسانی یکجار ہوکر بھی ایک سمیع و علیم نہیں بنتی ۔ اس کے بس میں یہ ہے ہی نہیں کہ ان تمام حقائق کا احاطہ کرے جن کا جاننا ایک صحیح راہ حیات متعین کرنے کے لیے ضروری ہے ۔ یہ علم صرف اللہ کے پاس ہے ۔ وہی سمیع و علیم ہے ، اس لیے وہی یہ بتا سکتا ہے کہ انسان کے لیے ہدایت کیا ہے اور ضلالت کیا ، حق کیا ہے اور باطل کیا ، خیر کیا ہے اور شر کیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(44:6) رحمۃ من ربک : مفعول لہ۔ (تیرے پروردگار کی طرف سے) بطور رحمت کے ۔ مطلب یہ کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیرے پروردگار نے تجھے اور تیرے سے قبل جملہ پیغمبروں کو بقضائے رحمت بمعہ کتب الٰہیہ کے اپنے بندوں کی طرف بھیجا کہ تیرے اور تجھ سے قبل پیغمبروں کے ذریعہ اپنے بندوں کو عواقب امور سے مطلع اور متنبہ کر دے۔ السمیع : بروزن فعیل صفت مشبہ کا سیغہ اسماء حسنی میں سے ہے۔ جب یہ حق تعالیٰ کی صفت واقع ہو۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ : ایسی ذات جس کی سماعت ہر شے پر حاوی ہو ۔ العلیم : بروزن فعیل مبالغہ کا صیغہ ہے علم سے اسماء حسنی میں سے ہے۔ قرآن مجید میں اس کا استعمال بیشتر اللہ تعالیٰ ہی کی صفت ہی میں ہوا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 یعنی پیغمبروں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خصوصاً حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرانے کے لئے بھیجنا اللہ تعالیٰ کی بڑی رحمت ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ ١ؕ﴾ یعنی اس قرآن کا نازل فرمانا آپ کے رب کی طرف سے رحمت فرمانے کی وجہ سے ہے اللہ تعالیٰ شانہٗ نے اپنی مخلوق پر رحم فرمایا ان کی ہدایت کے لیے اپنی کتاب نازل فرمائی، فی معالم التنزیل ناقلاً عن الزجاج انزلنہ فی لیلة مبٰركة للرحمة ﴿اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُۙ٠٠٦﴾ (بلاشبہ وہ سننے والا، جاننے والا ہے)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

7:۔ ” انہ ہو السمیع العلیم “ یہ سورت کا مقصود دعوی ہے اور مشرکین کے ایک شب ہے کا جواب ہے۔ جیسا کہ ربط میں ذکر کیا گیا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(6) بوجہ آپ کے پروردگار کی رحمت کے بیشک وہ بڑا سننے والا جاننے والا ہے۔ یعنی یہ قرآن کا نازل فرمانا اور خیر و شر سے مطلع کرنا اور آپ کو پیغمبر بنا کر بھیجنا یہ آپ کے پروردگار کی رحمت کے سبب ہے کہ اس کی رحمت کا یہ مقتضا ہے کہ بندوں کو ہر بات سے آگاہ کردیا جائے اور پیغمبر کو بھیج کر ان کو ان کا انجام سمجھا دیا جائے اور ان کو عمل کرنے کے لئے احکام کی ایک مکمل کتاب دی جائے تاکہ وہ تاریکی میں نہ رہیں اور قیامت میں یہ نہ کہیں لو لا ارسلت الینا رسولا یہ حضرت حق تعالیٰ کی رحمت ہے اس نے ابتداء آفرینش سے یہ سلسلہ جاری کیا اور خاتم البنیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک اس سلسلہ کو پہنچایا بیشک وہ اپنی تمام مخلوق کی باتوں کو سنتا اور ان کے تمام احوال کو جانتا ہے۔