Surat ud Dukhaan

Surah: 44

Verse: 7

سورة الدخان

رَبِّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ مَا بَیۡنَہُمَا ۘ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّوۡقِنِیۡنَ ﴿۷﴾

Lord of the heavens and the earth and that between them, if you would be certain.

جو رب ہے آسمانوں کا اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اگر تم یقین کرنے والے ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَالاَْرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ... (As) a mercy from your Lord. Verily, He is the All-Hearer, the All-Knower. The Lord of the heavens and the earth and all that is between them, means, the One Who sent down the Qur'an is the Lord, Creator and Sovereign of the heavens and the earth and everything in between them. ... إِن كُنتُم مُّوقِنِينَ if you (but) have a faith with certainty. Then Allah says: لاَا إِلَهَ إِلاَّ هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ رَبُّكُمْ وَرَبُّ ابَايِكُمُ الاْاَوَّلِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥] یعنی اگر تمہیں اس بات کا یقین ہے کہ کائنات میں موجود ساری مخلوق کی ربوبیت عامہ کی ذمہ داری صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے تو پھر تمہیں یہ بھی یقین کرلینا چاہئے کہ یہ رسول اللہ فی الواقع اللہ تعالیٰ نے ہی تمہاری ہدایت کے لیے بھیجا ہے۔ کیونکہ وہ صرف تمہاری جسمانی تربیت کا ہی ذمہ دار نہیں بلکہ تمہاری روحانی تربیت اور تمہیں ہدایت کی راہ بتانا بھی اس کے ذمہ ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

رب السموت والارض وما بینھما …: پچھلی آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب تھا۔ کفار مکہ یہ اقرار کرتے تھے کہ زمین و آسمان اور ساری کائنات کا رب اللہ تعالیٰ ہے، اس لئے اب ان سے دوبارہ خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تمہیں اس بات کا یقین ہے کہ کائنات میں موجود ساری مخلوق کی ربوبیت اور پرورش کی ذمہ دار صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے تو پھر تمہیں یہ بھی یقین کرلینا چاہیے کہ یہ رسول فی الواقع اللہ تعالیٰ ہی نے تمہاری ہدایت کے لئے بھیجا ہے، کیونکہ وہ صرف تمہاری جسمانی پرورش ہی کا ذمہ دار نہیں بلکہ تمہاری روحانی پرورش اور تمہیں سیدھا راستہ بتانا بھی اسی کے ذمے ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

رَبِّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَہُمَا۝ ٠ ۘ اِنْ كُنْتُمْ مُّوْقِنِيْنَ۝ ٧ سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے يقن اليَقِينُ من صفة العلم فوق المعرفة والدّراية وأخواتها، يقال : علم يَقِينٍ ، ولا يقال : معرفة يَقِينٍ ، وهو سکون الفهم مع ثبات الحکم، وقال : عِلْمَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 5] «2» ، وعَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 7] «3» وحَقُّ الْيَقِينِ [ الواقعة/ 95] وبینها فروق مذکورة في غير هذا الکتاب، يقال : اسْتَيْقَنَ وأَيْقَنَ ، قال تعالی: إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية/ 32] ، وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات/ 20] ، لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة/ 118] وقوله عزّ وجلّ : وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء/ 157] أي : ما قتلوه قتلا تَيَقَّنُوهُ ، بل إنما حکموا تخمینا ووهما . ( ی ق ن ) الیقین کے معنی کسی امر کو پوری طرح سمجھ لینے کے ساتھ اس کے پایہ ثبوت تک پہنچ جانے کے ہیں اسی لئے یہ صفات علم سے ہے اور معرفت اور وغیرہ سے اس کا در جہ اوپر ہے یہی وجہ ہے کہ کا محاورہ تو استعمال ہوات ہے لیکن معرفۃ الیقین نہیں بولتے اور قدر معنوی فرق پایا جاتا ہے جسے ہم اس کتاب کے بعد بیان کریں گے استیتن والقن یقین کرنا قرآن میں ہے : ۔ إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية/ 32] ہم اس کو محض ظن ہی خیال کرتے ہیں اور ہمیں یقین نہیں آتا ۔ وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات/ 20] اور یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة/ 118] یقین کرنے والوں کیلئے اور آیت کریمہ : ۔ وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء/ 157] اور انہوں نے عیسیٰ کو یقینا نہیں کیا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ انہیں ان کے قتل ہوجانے کا یقین نہیں ہے بلکہ ظن وتخمین سے ان کے قتل ہوجانے کا حکم لگاتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

وہ آسمانوں اور زمین اور تمام مخلوقات کا پیدا کرنے والا ہے اور وہی معبود حقیقی ہے اگر تم اس کا یقین کرنا چاہو کہ اس کے سوا اور کوئی آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا نہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧ { رَبِّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَہُمَا ٧ اِنْ کُنْتُمْ مُّوْقِنِیْنَ } ” آسمانوں اور زمین کا رب اور جو کچھ ان کے مابین ہے۔ اگر تم یقین کرنے والے ہو ! “ یقینا ساری کائنات کا پروردگار اور مالک اللہ ہی ہے۔ اس حقیقت کو مان لینا تو آسان ہے لیکن دل کی گہرائیوں میں اس کا یقین بٹھانا انسان کے لیے بہت مشکل ہے۔ انسان کا نفس اس سلسلے میں اسے قدم قدم پر دھوکہ دیتا ہے کہ فلاں چیز میری ہے اور فلاں چیز کا مالک میں ہوں۔ بہر حال ہمیں دل سے یقین کرلینا چاہیے کہ ہرچیز اللہ کی ہے اور وہی ہر شے کا مالک ہے : ؎ ایں امانت چند روزہ نزد ماست در حقیقت مالک ِ ہر شے خدا ست ! گویا ہر انسان کی جان ‘ اس کا جسم ‘ جسم کے اعضاء اور زیر استعمال اشیاء وغیرہ اس کے پاس چند روز کے لیے امانت ہیں۔ حقیقت میں ان سب کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ آخرت میں ان میں سے ایک ایک امانت کا حساب لیا جائے گا اور اس حساب کے دوران انسان کے اپنے اعضاء اپنے مالک حقیقی کے سامنے اس کے خلاف گواہیاں دیں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

6 The Arabs themselves admitted that Allah alone is the Lord (Master and Providencc) of the Universe and of everything in it. Therefore, it has been said to them: "If you arc not admitting only verbally but are really conscious of His being the Providence and are convinced of His being the Master, you should admit that: (I) It is the very demand of His Mercifulness and Providence that He should send a Hook and a Messenger for the guidance of man; and (2) it is His right as the Master and your duty as His servants that you should obey every Guidance and submit to every Command that comes from Him. "

سورة الدُّخَان حاشیہ نمبر :6 اہل عرب خود اقرار کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہی کائنات اور اس کی ہر چیز کا رب ( مالک و پروردگار ) ہے ۔ اس لیے ان سے فرمایا گیا کہ اگر تم بے سوچے سمجھے محض زبان ہی سے یہ اقرار نہیں کر رہے ہو ، بلکہ تمہیں واقعی اس کی پروردگاری کا شعور اور اس کے مالک ہونے کا یقین ہے ، تو تمہیں تسلیم کرنا چاہیے کہ ( 1 ) انسان کی رہنمائی کے لیے کتاب اور رسول کا بھیجنا اس کی شان رحمت و پروردگاری کا عین تقاضا ہے ، اور ( 2 ) مالک ہونے کی حیثیت سے یہ اس کا حق اور مملوک ہونے کی حیثیت سے یہ تمہارا فرض ہے کہ اس کی طرف سے جو ہدایت آئے اسے مانو اور جو حکم آئے اس کے آگے سر اطاعت جھکا دو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(44:7) رب السموت والارض وما بینھما : بدل ہے ربک (آیۃ 6 متذکرۃ الصدر) سے ما موصولہ بینھما مضاف مضاف الیہ ان دونوں کے درمیان ھما تثنیہ غائب ہے اس کا مرجع سموت والارض ہے۔ ان کنتم موقنین۔ ان شرطیہ ہے۔ موقنین اسم فاعل جمع مذکر بحالت نصب بوجہ خبر کان۔ ایقان (افعال) مصدر ایمان لانے والے۔ یقین رکھنے والے۔ یہ جملہ شرط ہے جواب شرط محذوف ہے۔ یا اس کی ایسی توضیح کی جاسکتی ہے۔ مشرکین اپنے منہ سے کہتے تھے کہ اللہ زمین ومافیہا کا مالک ہے (23:8485) وہ ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کا رب ہے (23:8687) ہر چیز کی بادشاہت اس کے ہاتھ میں ہے (23:8889) فرمایا اگر تمہیں یقین اور ایمان ہے تو حقیقت یہی ہے کہ وہ رب السموت والارض وما بنیہما ہے) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 13 کفار مکہ یہ اقرار کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہی ان کا اور اس ساری کائنات کا مالک ہے۔ اس لئے ان سے فرمایا جا رہا ہے اگر تم یہ اقرار دلی یقین سے کرتے ہو تو تمہیں تسلیم کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہی تمام پیغمبروں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا ہے اور کتابیں اتاری ہیں کیونکہ ایسا کرنا اس کی رحمت کا عین تقاضا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس رب نے مبارک رات میں قرآن مجید نازل کیا ہے وہی زمین و آسمانوں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان کو پیدا کرنے والا اور مالک ہے۔ قرآن مجید کا پہلا اور مرکزی پیغام ” اللہ “ کی ذات اور اس کی صفات کی پہچان کروانا ہے۔” اللہ “ ہی سب کا رب ہے اور اسی نے زمین و آسمانوں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کو پیدا کیا ہے۔ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور وہی کائنات کی موت اور زندگی پر اختیار رکھنے والا ہے۔ وہ تمہارا اور تمہارے آباؤ اجداد کا رب ہے۔ اگر واقعی تم اس پر یقین کرنے والے ہو۔ لیکن اکثر لوگ اپنے رب کی ذات اور اس کی صفات میں شک کرتے ہیں۔ اہل علم کی تقسیم کے مطابق یہ توحید کی دوسری بڑی قسم ہے جسے توحید ربوبیت کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید نے اکثر مقامات پر توحید ربوبیت کو توحید الوہیت کے اثبات کے لیے ذکر فرمایا ہے۔ توحید کی اقسام میں توحید الوہیت ہی مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ جو شخص توحید الوہیت کا انکاریا اس میں ملاوٹ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا کوئی عمل قبول نہیں کرتا۔ توحید الوہیت کا مختصر مفہوم یہ ہے کہ انسان اپنے رب کی ذات اور اس کی صفات کا پوری طرح اقرار کرئے اور بلاشرکت غیرے اس کی عبادت کرے۔ لیکن لوگوں کی غالب اکثریت کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے رب کی ذات اور اس کی صفات کے بارے میں شک کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو سمجھایا جائے تو وہ اس بات کو شغل کے طور پر لیتے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم نے انہیں یہی کہا تھا ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے تین مرتبہ اپنا تعارف رب کہہ کر کروایا ہے۔ لفظِ رب کے چار معانی ہے اور اس نام میں قربت اور شفقت پائی جاتی ہے۔ 1 ۔ پوری کائنات کو پیدا کرنے والا۔ 2 ۔ مخلوق کی تمام ضروریات کو پورا کرنے والا۔ 3 ۔ پوری کائنات کا مالک 4 ۔ پوری کائنات کا بادشاہ۔ (قَالُوْٓا اَجِءْتَنَا بالْحَقِّ اَمْ اَنْتَ مِنَ اللّٰعِبِیْنَ )[ الانبیاء : ٥٥] ” انہوں نے کہا کیا تو ہمارے سامنے حقیقت پیش کر رہا ہے یا مذاق کر رہا ہے ؟ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہی زمین و آسمانوں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اس کا رب ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہی تمام انسانوں کا رب ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہی عبادت کے لائق ہے وہی کائنات کی موت وحیات پر اختیار رکھنے والا ہے۔ ٤۔ لوگوں کی اکثریت اللہ تعالیٰ کو حقیقی رب ماننے کی بجائے دوسروں کو بھی رب کا درجہ دیتی ہے۔ تفسیر بالقرآن زمین و آسمانوں میں صرف ایک ہی الٰہ ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور پھر آسمان سے پانی اتار کر باغات اگائے کیا اس کے ساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہے ؟ (النمل : ٦٠) ٢۔ تمہارا الٰہ ایک ہے وہ رحمن اور رحیم ہے۔ (البقرۃ : ١٦٣) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو جائے قرار بنایا اس میں پہاڑ اور دو سمندروں کے درمیان پردہ بنایا۔ کیا اس کے ساتھ اور بھی الٰہ ہے ؟ (النمل : ٦١) ٤۔ کون ہے جو لاچار کی فریاد رسی کرتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کرتا ہے کیا کوئی اور بھی الٰہ ہے ؟ (النمل : ٦٢) ٥۔ خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں اللہ کے سواکون رہنمائی کرتا ہے کیا کوئی اور بھی اس کے ساتھ الٰہ ہے۔ (النمل : ٦٣) ٦۔ پہلے اور دوبارہ پیدا کرنا اور زمین و آسمان سے تمہارے لیے روزی کا بندوبست کرنے والا اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ ہے ؟ (النمل : ٦٤) ٧۔ آپ فرما دیں سوائے ایک الٰہ کے آسمان وز میں کے غیب کو کوئی نہیں جانتا۔ (النمل : ٦٥) ٨۔ کیا کوئی ہے اس الٰہ کے سوا ہے جو رات ختم کرکے دن لائے ؟ (القصص : ٧١) ٩۔ کیا اس الٰہ کے علاوہ کوئی اور الٰہ ہے جو دن ختم کرکے رات لے آئے ؟ (القصص : ٧٢) ١٠۔ بس اس ایک الٰہ کے سوا کسی دوسرے الٰہ کو نہ پکارو۔ (القصص : ٨٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿ رَبِّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَيْنَهُمَا ١ۘ﴾ (وہ آسمانوں کا اور زمین کا رب ہے اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان کا بھی رب ہے) ﴿ اِنْ كُنْتُمْ مُّوْقِنِيْنَ ٠٠٧﴾ اگر تم یقین کرنے والے ہو تو سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کو بھیجا اور کتابوں کو نازل فرمایا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

8:۔ ” رب السموات “ اس میں دو قراءتیں ہیں۔ اول جر اس صورت میں یہ ” من ربک “ سے بدل ہے۔ دوم رفع اس صورت میں یہ ان کی دوسری خبر ہوگی یا مبتدا محذوف کی خبر ہوگی۔ ای ھو رب السموات الخ۔ اس قراءت پر لا الہ الا ھو یحییٰ ویمیت اور ربکم ورب اباء کم الاولین، سب اِنَّ کی خبریں ہوں گی یا جمل مستانفہ یا مبتداءات محذوفہ کی خبریں ہوں گی اور پہلی قراءت پر یہ جمل مستانفہ ہیں یا مبتداءات محذوفہ کی خبریں (کل ذلک من الروح) ۔ وہ زمین و آسمان اور ساری کائنات کا مالک ہے اگر واقعی تمہارا اس پر ایمان ہے جیسا کہ تم اس کا اقرار کرتے ہو اور تمہارا اقرار ایمان وایقان سے ناشی ہے تو پھر اس سے جو مدعا ثابت ہوتا ہے اسے بھی تمہیں ماننا چاہئے کہ اس کے سوا کوئی متصرف و کارساز اور عالم لغیب نہیں۔ ان ھذا الرب ھو السمیع العلیم الذی انتم مقرون بہ و معترفون بانہ رب السموات والارض وما بینہما ان کان اقرار کم عن علم وایقان (مدارک ج 4 ص 97) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(7) آسمانوں کا اور زمین کا اور جو کچھ ان دونوں کے مابین ہے اس سب کا مالک ہے اور اگر تم یقین رکھتے ہو۔ یعنی وہ پروردگار ہے تمام مخلوقات کا اگر تم کو اس کا یقین ہے جیسا کہ تم اے اہل مکہ اس کو جانتے ہو تو تم اس امر کا بھی یقین کرو کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی کے بھیجے ہوئے رسول ہیں۔