Surat ul Jasiya
Surah: 45
Verse: 1
سورة الجاثية
حٰمٓ ۚ﴿۱﴾
Ha, Meem.
حم
حٰمٓ ۚ﴿۱﴾
Ha, Meem.
حم
A Directive to contemplate over Allah's Ayat Allah says, حم Ha Mim. تَنزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ
اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو ہدایت فرماتا ہے کہ وہ قدرت کی نشانیوں میں غور و فکر کریں ۔ اللہ کی نعمتوں کو جانیں اور پہچانیں پھر ان کا شکر بجا لائیں دیکھیں کہ اللہ کتنی بڑی قدرتوں والا ہے جس نے آسمان و زمین اور مختلف قسم کی تمام مخلوق کو پیدا کیا ہے فرشتے ، جن ، انسان ، چوپائے ، پرند ، جنگلی جانور ، درندے ، کیڑے ، پتنگے سب اسی کے پیدا کئے ہوئے ہیں ۔ سمندر کی بیشمار مخلوق کا خالق بھی وہی ایک ہے ۔ دن کو رات کے بعد اور رات کو دن کے پیچھے وہی لا رہا ہے رات کا اندھیرا دن کا اجالا اسی کے قبضے کی چیزیں ہیں ۔ حاجت کے وقت انداز کے مطابق بادلوں سے پانی وہی برساتا ہے رزق سے مراد بارش ہے اس لئے کہ اسی سے کھانے کی چیزیں اگتی ہیں ۔ خشک بنجر زمین سبز و شاداب ہو جاتی ہے اور طرح طرح کی پیداوار اگاتی ہے ۔ شمالی جنوبی پروا پچھوا ترو خشک کم و بیش رات اور دن کی ہوائیں وہی چلاتا ہے ۔ بعض ہوائیں بارش کو لاتی ہیں بعض بادلوں کو پانی والا کر دیتی ہیں ۔ بعض روح کی غذا بنتی ہیں اور بعض ان کے سوا کاموں کے لئے چلتی ہیں ۔ پہلے فرمایا کہ اس میں ایمان والوں کے لئے نشانیاں ہیں پھر یقین والوں کے لئے فرمایا پھر عقل والوں کے لئے فرمایا یہ ایک عزت والے کا حال سے دوسرے عزت والے حال کی طرف ترقی کرنا ہے ۔ اسی کے مثل سورہ بقرہ کی آیت ( اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّھَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ ١٩٠ڌ ) 3-آل عمران:190 ) ، ہے امام ابن ابی حاتم نے یہاں پر ایک طویل اثر وارد کیا ہے لیکن وہ غریب ہے اس میں انسان کو چار قسم کے اخلاط سے پیدا کرنا بھی ہے ۔ واللہ اعلم ۔
حم : حروف مقطعات کی وضاحت کے لئے دیکھیے سورة بقرہ کی پہلی آیت۔
حم، یہ نازل کی ہوئی کتاب ہے، اللہ غالب حکمت والے کی طرف سے (اور جب یہ ایسی کتاب ہے تو اس کے مضامین کو خوب توجہ سے سننا چاہیے، چناچہ اس مقام پر ایک مضمون تو توحید کا ہے جس کا بیان یہ ہے کہ) آسمانوں اور زمین میں اہل ایمان کے (استدلال کے) لئے بہت سے دلائل (قدرت اور توحید کے) ہیں اور (اسی طرح) خود تمہارے اور ان حیوانات کے پیدا کرنے میں جن کو (زمین پر) پھیلا رکھا ہے (نیز) دلائل (قدرت و توحید) ہیں ان لوگوں کے (سمجھنے کے) لئے جو یقین رکھتے ہیں اور (اسی طرح) یکے بعد دیگرے رات اور دن کے آنے جانے میں اور (اسی طرح) اس (مادہ) رزق میں جس کو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے اتارا (مراد بارش ہے) پھر اس (بارش) سے زمین کو تروتازہ کیا اس کے خشک ہوئے پیچھے اور (اسی طرح) ہواؤں کے بدلنے میں (باعتبار سمت اور کیفیت کے کہ کبھی پروا ہے کبھی پچھوا، کبھی گرم ہے کبھی سرد، غرض ان سب چیزوں میں) دلائل (قدرت و توحید موجود) ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل (سلیم) رکھتے ہیں (اس سے توحید پر استدلال کا طریقہ پارہ دوم (آیت) ان فی خلق السموات الخ میں گزر چکا ہے اور دوسرا مضمون نبوت کا ہے جس کا بیان یہ ہے کہ) یہ اللہ کی آیتیں ہیں جو صحیح صحیح طور پر ہم آپ کو پڑھ کر سناتے ہیں (جس سے نبوت ثابت ہوتی ہے لیکن اتنی بڑی دلیل معجز کے باوجود بھی اگر یہ لوگ نہیں مانتے) تو پھر اللہ اور اس کی (ایسی) آیتوں کے بعد اور کون سی بات (اس سے بڑھ کر ہوگی جس) پر یہ لوگ ایمان لاویں گے (اور تیسرا مضمون آخرت کا ہے جس میں ان مخالفین حق کو سزا بھی ہوگی جس کا بیان یہ ہے کہ) بڑی خرابی ہوگی ہر ایسے شخص کے لئے جو (عقائد سے متعلق اقوال میں) جھوٹا ہو (اور اعمال میں) نافرمان ہو جو (باوجودیکہ) خدا کی آیتوں کو سنتا (بھی) ہے جبکہ وہ اس کے روبرو پڑھی جاتی ہیں (اور) پھر بھی وہ تکبر کرتا ہوا (اپنے کفر پر) اس طرح اڑا رہتا ہے جیسے اس نے ان (آیتوں) کو سنا ہی نہیں، سو ایسے شخص کو ایک دردناک عذاب کی خبر سنا دیجیے (اور اس شخص کی شرارت کا یہ حال ہے کہ) جب وہ ہماری آیتوں میں سے کسی آیت کی خبر پاتا ہے تو اس کی ہنسی اڑاتا ہے ایسے لوگوں کے لئے (آخرت میں) ذلت کا عذاب (ہونے والا) ہے (مطلب یہ کہ جن آیتوں کو تلاوت میں سنتا ہے ان کی بھی تکذیب کرتا ہے اور جن آیتوں کی ویسے ہی خبر سن لیتا ہے ان کی بھی تکذیب کرتا ہے غرض تکذیب آیات میں بہت بڑھا ہوا ہے، آگے اس عذاب کی تعیین ہے یعنی) ان کے آگے جہنم (آرہا) ہے اور (اس وقت) نہ تو اس کے وہ چیزیں ذرا کام آویں گی جو (دنیا میں) کما گئے تھے (اس میں اموال اور اعمال سب آگئے) اور نہ وہ (کام آویں گے) جن کو انہوں نے اللہ کے سوا کار ساز (اور معبود) بنا رکھا تھا اور ان کے لئے بڑا عذاب ہوگا (اور وجہ اس عذاب کی یہ ہے کہ) یہ قرآن سراسر ہدایت (اور واجب التسلیم ہے) اور (اس کا مقتضا یہی ہے کہ) جو لوگ اپنے رب کی (ان) آیتوں کو نہیں مانتے ان کے لئے سختی کا دردناک عذاب ہوگا۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ حٰـمۗ ١ ۚ تَنْزِيْلُ الْكِتٰبِ مِنَ اللہِ الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ ٢ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله» وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) عزیز ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] ( ع ز ز ) العزیز العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) حكيم والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی: معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم «2» ، فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] ( ح ک م ) الحکمتہ کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لہزا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟
(١۔ ٢) یعنی جو کچھ ہونے والا ہے اس کو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ یہ لفظ ایک قسم ہے جو کہ تاکیدا کھائی گئی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی ہوئی کتاب ہے جو کہ کافر کو سزا دینے میں غالب اور حکمت والا ہے کہ اس نے اس بات کا حکم دیا کہ اس کے علاوہ اور کسی کی عبادت نہ کی جائے یا یہ کہ اپنی بادشاہت اور سلطنت میں غالب اور اپنے حکم و فیصلہ میں حکمت والا ہے۔
١۔ ٢۔ حم حروف مقطعات میں سے ہے ان حروف کی تفسیر کا ذکر سورة بقر اور سورة آل عمران میں گزر چکا ہے مشرکین مکہ یہ جو کہتے تھے کہ قرآن اللہ کا کلام نہیں ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی طرف سے روز قرآن کی آیتیں بنا لیتے ہیں اور ان کو اللہ کا کلام بتاتے ہیں اسی کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے کئی جگہ قرآن میں یہ فرمایا ہے کہ یہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور اللہ کی طرف سے اتارا گیا ہے العزیز کا یہ مطلب ہے کہ قرآن سے پہلے جو اللہ کا کلام اور انبیاء پر اترا اور ان انبیاء کی امتوں نے اس کو نہیں مانا تو اللہ تعالیٰ نافرمان لوگوں سے بدلہ لینے میں ایسا زبردست ہے کہ اس نے ایسے نافرمان لوگوں کو طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک کردیا اگر یہ حال کے لوگ بھی قرآن کی آیتوں کے جھٹلانے پر اڑے رہیں گے تو یہی انجام ان کا ہوگا اللہ سچا ہے اللہ کا وعدہ سچا ہے اس وعدہ کا ظہور کئی برس کے بعد بدر کی لڑائی کے وقت ہوا کہ اس لڑائی میں قرآن کے بڑے بڑے جھٹلانے والے دنیا میں نہایت ذلت سے مارے گئے اور مرتے ہی عذاب آخرت میں گرفتار ہوگئی جس عذاب کے جتانے کے لئے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر یہ فرمایا کہ اب تو تم لوگوں نے اللہ کے وعدہ کو سچا پا لیا صحیح بخاری ١ ؎ و مسلم کی انس (رض) بن مالک کی روایت کے حوالہ سے یہ بدر کا قصہ کئی جگہ گزر چکا ہے الحکیم اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن ان پڑھ رسول پر اترا ہے اور باتیں اس میں ایسی ہیں کہ ان پڑھ آدمی تو درکنا کوئی پڑھا لکھا آدمی بھی ایسی باتیں بغیر تائید غیبی کے نہیں کہہ سکتا اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ کلام اللہ تعالیٰ صاحب حکمت کا اترا ہوا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی طرف سے نہیں سنایا۔ (١ ؎ صحیح بخاری باب قتل ابی جھل ص ٥٦٦ ج ٢۔ )
آیات ١ تا ١١۔ اسرار ومعارف۔ یہ کتاب اللہ کی طرف سے نازل کی گئی جو سب پر غالب ہے اور زبردست حکمتوں والا ہے یہ اسکی عظمت کی مظہر ہے اور چاہیے تھا کہ اس کو قبول کرتے اور مان جاتے اپنی نجات کا سامان کرتے اس کتاب کی عظمت یہ بھی ہے کہ محض حکماء ہی ماننے کو نہیں کہہ رہی بلکہ دلائل سے حق کو ثابت کرتی ہے ماننے والوں کے لیے آسمانوں اور زمین میں بیشمار دلائل ہیں کہ جیسے جیسے عقل انسانی تخلیق میں اور حیوانات کی حیات میں کسی قدر دلائل ہیں تخلیق کے فطری طریقے صحت وبیماری کے راز غذا اور حیات کا رابطہ اور ایک خلیے کی تعمیر وتخریب بھلاکس قدر دلائل سے بھرپور ہے اگر علم نصیب ہوتوشب وروز کا اختلاف باعتبار اوقات کے بھی اور اثرات کے بھی پھر بارش کا نزول اس کے اثرات اور مردہ زمین میں زندگی کا لہرکادوڑنا پھر ہواؤں کا اختلاف اور مختلف ہواؤں کے مختلف اثرات اور ہر شے اور ہر اثر کاٹھیک اپنے اپنے وقت پر اپنا اپنا کام کرنا یہ سب اس خالق کل کی عظمت کے گواہ ہیں اہل خرد کے لیے ۔ اور آپ کی نبوت خود بہت بڑا کرم بھی ہے اور بہت بڑی دلیل بھی کہ آپ پر اللہ کا کلام برحق نازل ہوکرسب کی رہنمائی فرمارہا ہے اگر اس سب کے باوجود یہ ایمان نہیں لاتے تو اللہ اور اس کی آیات کے بعدا س سے بڑی بات کا کوئی تصور نہیں کہ پھر اسے یہ مانیں گے بلکہ ہرجھوٹے اور بدکار کے لیے بہت بڑی خرابی ہے کہ اللہ کی آیات اسے سنائی جائیں اور وہ تکبر سے منہ پھیر کر اور سنی ان سنی کرکے چل دے ایسے لوگوں کو دردناک عذاب کی خوش خبری سنائیے کہ جو لوگ ہماری آیات کو سن کر انکار کرتے اور ان کا مذاق اڑاتے ہیں ان کے لیے ایسے ہی ذلت کے عذاب بھی ہیں اور ان کے طرز عمل کے پیچھے یا اس کا انجام اور حاصل جہنم ہے جہاں ان کا کچھ کیا دھرا کسی کام نہ آئے گا اور نہ مال اور نہ ہی اعمال یہ سب اکارت جائے گا اور جن کو اللہ کے سواپنامددگار سمجھ رکھا ہے وہاں وہ بھی کوئی مدد نہ کرسکیں گے اور انہیں بہت ہی بڑا عذاب ہوگا یہ کتاب سراسر ہدایت ہے اس نے راستہ بتادیا اب جن لوگوں نے اس کونہ مانا اور کفر کی راہ اختیار کی اللہ کی آیات کا انکار کیا ان کے لیے بہت بڑا دردناک عذاب ہے۔
لغات القرآن آیت نمبر 1 تا 11 : یبت (وہ پھیلاتا ہے) تصریف ( الٹتا پلٹتا ہے) حدیث (بات) افاک ( جھوٹ بولنے والا) بصر (وہ ضد کرتا ہے ، اڑجاتا ہے) رجز ( سزا ، عذاب) تشریح : آیت نمبر 1 تا 11 : سورة الجاثیہ مکہ مکرمہ میں ہجرت سے کچھ عرصے پہلے ہی نازل ہوئی ۔ مکی سورتوں کی طرح اس میں بھی انسان کے بنیادی عقیدوں کی اصلاح ، توحیدخالص ، نبوت و رسالت اور فکر آخرت کو مختلف انداز سے بیان کیا گیا ہے تا کہ ایمان ، یقین اور عقل و فہم رکھنے والے جو کائنات میں غور و فکر کرتے ہیں اور صاحب بصیرت ہیں وہ حقیقی کامیابی حاصل کرسکیں ۔ زمین و آسمان کا مرتب نظام ، چاند سورج کا باقاعدگی سے نکلنا ، انسان اور جان داروں کی پیدائش ، دن رات کا ایک دوسرے کے پیچھے آنا ، وقت پر بارشوں کا برسنا پھر ان بارشوں کے ذریعہ مردہ زمین میں سر سبزی و شادابی ، نکھار اور تر و تازگی کا ابھرنا ، انسان اور جان داروں کی غذاؤں کا پیدا ہونا یہ عقل و فہم رکھنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں جو کائنات میں بکھیر دی گئی ہیں ۔ اتنی واضح اور کھلی ہوئی نشانیوں کے باوجود ان سچائیوں سے منہ موڑنا اور اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر قائم رہنا سوائے بد نصیبی کے اور کیا ہے۔ اس کائنات میں ہر آن ایک انقلاب اور تبدیلی آتی رہتی ہے یہاں کسی چیز کو قرار نہیں ہے جو چیز آج ہے وہ کل نہیں رہے گی۔ یہ سب اللہ کی کھلی نشانیاں ہیں ۔ کیا ان نشانیوں کے بعد بھی ایمان و یقین نہ رکھنے والوں کو کسی اور نشانی کی ضرورت ہے ؟ یہ وہ سوال ہے جو اللہ تعالیٰ نے دنیا کے تمام جیتے جاگتے لوگوں سے کیا ہے اور بتایا ہے کہ اس دنیا کا وقتی عیش و آرام ، مال و دولت ، بیوی بچے اور گھر بار سب کچھ یہیں رہ جائے گا ۔ آخرت میں انسان کے کام آنے والی چیزیں صرف انسان کے بہتر اور پسندیدہ اعمال ہیں ۔ اللہ نے اس طرف بھی متوجہ کیا ہے کہ انسان پر اللہ کے بیشمار احسانات ہیں جن پر اسے شکر ادا کرنا چاہیے یہی انسان کی کامیابی کا راز ہے۔ آخرت کی کامیابیاں صرف ان لوگوں کے لئے ہیں جو اللہ کی ذات وصفات کو مان کر اس کا شکر ادا کرتے اور اسی کی عبادت و بندگی کرتے ہیں ۔ اور قرآن کریم جو سراسر رحمت ہی رحمت ہے اس کی رہنمائی میں زندگی گزارتے ہیں ۔ وہی لوگ آخرت کی ابدی راحتوں کے مستحق ہیں لیکن جن لوگوں نے اللہ کی ہر نشانی اور رحمت سے آنکھیں بند کرکے اپنی پسندیدہ زندگی گزارنے کا اندازہ اختیار کر رکھا ہے کہ سخت گھاٹے اور نقصان میں رہیں گے اور آخرت کی ابدی زندگی کی ہر راحت سے محروم رہیں گے۔
درس نمبر ٢٣٥ تشریح آیات ١۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔ ٢٣ آیت نمبر ١ تا ٥ حا۔ میم کے بعد ، یہ آتا ہے کہ یہ کتاب اللہ عزیز اور حکیم کی طرف سے ہے اور اس کتاب کا مصدر اور فبع اللہ کی ذات ہے اور دوسرا اشارہ اس میں یہ ہے کہ یہ معجزہ کتاب انہی حروف سے بنائی گئی ہے۔ جیسا کہ حروف مقطعات کے بارے میں ہماری رائے ہے اور یہ کہ یہ چیلنج ہے ان کو کہ تم ان حروف سے ایسی کتاب نہیں بنا سکتے۔ لہٰذا حا میم دلیل ہے تنزیل الکتب پر کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ زبردست قدرت والا ہے اور اس کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا اور حکیم ہے جس نے اس پوری کائنات کو حکمت سے بنایا اور تمام معاملات اس ذات کے حکم سے طے ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسا تبصرہ ہے جو سورت کی فضا کے ساتھ مناسب ہے ، جس میں طرح طرح کے نفوس اور ان کی ذہنیت دکھائی گئی ہے۔ قبل اس کے کہ لوگوں کے سامنے ، اس کتاب کے حوالے سے ان کا موقف رکھاجائے ، ان کو ان آیات و نشانات کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے جو اس کائنات میں جگہ جگہ بکھرے ہوئے ہیں۔ یہ آیات اور یہ نشانیاں اس بات کے لئے کافی تھیں کہ یہ لوگ ایمان لاتے اور یہ لوگ اپنے دلوں کو اگر ان کی طرف متوجہ کرتے تو ان کے دل کھل جاتے اور اس کتاب کے نازل کرنے والے عظیم اللہ کی طرف ان کا احساس تیز ہوجاتا جو اس کائنات کا ایک عظیم خالق ہے۔ ان فی السموت والارض لایت للمومنین (٤٥ : ٣) “ حقیقت یہ ہے کہ آسمانوں اور زمین میں بیشمار نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو ایمان لاتے ہیں ”۔ اور وہ نشانیاں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں وہ کسی چیز تک محدود نہیں ہیں ، کسی حال تک محدود نہیں ہیں ، اس کائنات کی جس چیز کو بھی انسان دیکھے اور مطالعہ کرے تو دل گواہی دیتا ہے کہ یہی پہلو ایک معجزہ ہے گویا “ جا اینجا است ”۔ سوال یہ نہیں ہے کہ نشانی کہاں ہے ، سوال یہ ہے کہ کون سی چیز نشانی نہیں ہے ؟ ذرا دیکھو ان آسمانوں اور ان کے اندر تیرنے والے عظیم الجثہ اجرام فلکی کو ، پھر اس کی طویل و عریض وسعتوں کو ، یہ اس طرح پھیلے ہوئے ہیں جس طرح ذرات اور رائی کے دانے ، بمقابلہ اس فضا اور خوفناک حد تک عریض و طویل فضا کے نیز یہ نہایت ہی خوبصورت ہیں۔ پھر ذرا اس بات کو دیکھو کہ ان اجرام کی گردش اپنے اپنے مدار میں کس قدر تسلسل کے ساتھ قائم ہے۔ نہایت ہی خوبصورت ہم آہنگی کے ساتھ ، انسان یہ چاہتا ہے کہ دیکھتا ہی رہ جائے اور اس کے ملاحظے سے جی بھرتا ہی نہیں۔ بعض گردشیں کروڑوں سالوں میں مکمل ہوتی ہیں اور ایک سیکنڈ کا فرق نہیں پڑتا۔ اور یہ زمین جسے انسان بہت ہی طویل و عریض سمجھتا ہے ، یہ ایک نہایت ہی چھوٹا سا ذرہ ہے ، بمقابلہ ان بڑے ستاروں کے (صرف مشتری اس سے ایک ہزار گنا زیادہ بڑا ستا ہے ) پھر یہ ذرہ یعنی زمین ، اس وسیع فضائے کائنات کے اندر تیر رہی ہے۔ اگر اللہ کی قدرت نہ ہوتی جس نے اسے تھام رکھا ہے اور اپنے مدار میں بند کر رکھا ہے تو یہ اس فضائے بسیط میں اپنی راہ گم کردیتی لیکن اللہ کی قدرت کا یہ کمال ہے کہ اس کائنات کا ذرہ بھی یہاں گم نہیں ہو سکتا۔ پھر وہ سازوسامان جو اللہ نے اس زمین میں ، اس کے ایک خاص مقام اور نظام کی وجہ سے ودیعت کیا اور جس کی وجہ سے اس کے اوپر زندگی ممکن ہوئی ، اس کا تو ہر ہر پہلو ایک نشانی ہے۔ اس سازو سامان کی ہر چیز کے اپنے اپنے خواص ، نہایت باریک بینی کے ساتھ ، بڑی کثرت اور ہم آہنگی کے ساتھ یہاں جمع کئے گئے ہیں۔ اگر کسی ایک چیز کی خاصیت و ماہیت شمہ برابر بدل جائے تو زندگی کا پورا نظام خلل پذیر ہوجائے یا سرے سے ختم ہوجائے۔ غرض اس زمین کی ہر زندہ شے ایک علیحدہ نشانی ہے۔ ہر چیز کا ایک ایک جزء اور ایک ایک عضو ایک الگ نشانی ہے۔ اس معاملے میں عظیم الجثہ اشیاء اور ذرہ برابر کی اشیاء نشانی ہیں۔ ایک عظیم درخت سے ایک چھوٹا سا پتہ اٹھا لو ، اس کائنات کی پہنائیوں میں ایک چھوٹا سا نباتاتی پودا لے لو اور تجریہ کرو ، اپنے حکم اور اپنی شکل کے اعتبار سے یہ ایک نشانی ہے۔ رنگ میں بھی اور چھوٹے پن میں بھی ۔ اپنے مقاصد کے لئے بھی نشانی اور اپنے جسم میں بھی نشانی۔ انسان یا حیوان کے جسم کا ایک بال ہی لے لو ، یہ بھی ایک نشانی ہے ، اس کی ترکیب ، اس کا رنگ نشانی ہے ، ہر پرندے کا ہر پر ایک نشانی ہے ، اس کا مادہ ترکیب ، اس کے مقاصد ، اور اس کی ہم آہنگی۔ اگر انسان اس زمین و آسمان میں چشم بصیرت کے ساتھ دیکھے تو اسے نشانات الٰہیہ کا اژدہام نظر آئے اور انسان اعلان کر دے کہ اس کی فکر و نظر سے یہ تمام نشانات و راء ہیں۔ لیکن یہ نشانیاں کس کے لئے ہیں ؟ خود یہ آیات بنا دیتی ہے ، یہ نشانیاں کس کے سامنے پردہ افگند ہوتی ہیں ۔ ان کا احساس کس کو ہو سکتا ہے لقوم یوقنون (٤٥ : ٤) “ ان لوگوں کے لئے جو یقین رکھتے ہیں ”۔ جو مومن ہیں اور مومن ہی نور ربی سے دیکھتا ہے۔ پس ایمان ہی وہ قوت ہے جو دلوں کے دروازے کھولتا ہے ، پھر انسان پکار سنتا ہے ، کوئی روشنی دلوں کو اندر آکر منور کرسکتی ہے ، کوئی تازہ باد نسیم کے جھونکے دنیائے دل پر ترو تازگی بکھیر سکتے ہیں اور ایمان ہی کی وجہ سے انسان ، اس کائنات میں ہر طرف بکھری ہوئی نشانیاں دیکھ سکتا ہے ، یہ ایمان ہی ہے جو دلوں کو ایسی فرحت بخش تازگی عطا کرتا ہے اور ان کے اندر رقت اور لطاقت پیدا کرتا ہے ، جس کے نتیجے میں یہ دل وہ اشارات وصول کرتے ہیں جو اس کائنات میں سے ہر طرف سے آرہے ہیں ، جو یہ بتاتے ہیں کہ یہ اشارے دست قدرت کی طرف سے ہیں اور دست قدرت جن جن چیزوں کو بناتی ہے ان کے اندر یہ اشارات موجود ہوتے ہیں۔ اللہ کی پیدا کردہ ہر چیز معجز ہے اور مخلوق اس کی نقل بھی نہیں کرسکتی۔ اب اس کائنات کی طویل اور دور دراز وادیوں سے واپس لا کر انسان کو اس کی اپنی ذات کی طرف لایا جاتا ہے ، جو اس کے قریب ہے۔ اور وہ جانور جو انسان کے قریب ہیں ان پر غوروفکر کی دعوت ! وفی خلقکم ۔۔۔۔۔ یوقنون (٤٥ : ٤) “ اور تمہاری اپنی پیدائش میں اور ان حیوانات میں جن کو اللہ زمین میں پھیلا رہا ہے بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو یقین لانے والے ہیں ”۔ انسان کو یہ عجیب ساخت عطا کرنا ، پھر اسے ایسی عجیب خصوصیات عطا کرنا ، اور نہایت ہی گہرے ، لطیف اور پیچیدہ فرائض اس کے حوالے کرنا جن میں سے ہر ایک معجزانہ ہے۔ جسم انسانی کے ایسے اندرونی معجزات ہیں کہ رات اور دن دیکھتے دیکھتے وہ ہمارے لئے عجوبے ہی نہیں ہرے۔ اس لیے کہ ہمارے اندر اور ہمارے قریب ہیں لیکن صرف ایک عضو کا تجربہ کیا جائے تو انسان کا سر چکرا جاتا ہے اور انسان اس پیچیدہ ترکیب کی ہولناکیوں سے مبہوت رہ جاتا ہے۔ زندگی ، چاہے وہ اپنی سادہ ترین صورت میں کیوں نہ ہو وہ تو ایک معجزہ ہے۔ امیبا جس کا ایک ہی خلیہ ہوتا ہے اور امیبا سے بھی چھوٹی زندگی بھی معجزہ ہے۔ رہا انسان تو اس کی زندگی تو بہت ہی پیچیدہ اور سخت اور عجیب و غریب ہے۔ نفسیاتی لحاظ سے بھی وہ نہایت ہی پیچیدہ اور معجزاتی ہے۔ عضوی ترکیب سے اس کی نفسیات زیادہ پیچیدہ ہیں۔ اور وہ مخلوقات جو اس زمین پر ہر طرف رینگتی ہے ، اور جس کی لاتعداد انواع و اقسام ہیں ، بیشمار جسم اور اشکال ہیں جن کی تعداد اللہ ہی کو معلوم ہے۔ اس زندگی میں سے چھوٹی سے چھوٹی چیز اور بڑی سے بڑی چیز سب اپنی اپنی جگہ معجزاتی ہیں ، یہ اپنی عمر اور جنس کے اعتبار سے بھی معجزاتی شان رکھتی ہیں۔ اور یہ قدرتی طور پر اپنی نوع کی حفاظت کرتی ہیں اور کوئی نوع دوسری انواع کو فنا کرنے پر قادر نہیں ہے۔ اور دست قدرت نے ان انواع و اقسام کی تعداد اپنے پاس رکھی ہوئی ہے کسی میں کمی کرتا ہے اور کسی میں اضافہ ۔ اور ہر ایک کو اس کے خصائص دیتا ہے اور قوت وصلاحیت دیتا ہے۔ اس طرح حیوانات کے تمام انواع و اقسام کی آبادی کے اندر ایک توازن قائم رہتا ہے۔ گدھ اور باز جارح اور مضر پرندے ہیں اور ان کی عمر بھی لمبی ہے لیکن ان کی آبادی بہت کم ہے اور بہت کم انڈے دیتے ہیں ۔ اگر گدھ اور باز چڑیوں کی طرح ہوتے تو ذرا سوچ لیں کہ اس دنیا میں شاید چھوٹے بڑے کسی پرندے کی نسل نہ ہوتی۔ حیوانات میں سے شیر درندہ جانور ہیں ، اگر ان کی نسل ہر نوں اور بھیڑ بکریوں کی طرح زیادہ ہوتی تو وہ جنگلات میں کوئی حیوانی مواد نہ چھوڑتا۔ لیکن یہ قدرت ہے جس نے اس کی نسل کو محدود رکھا ہے اور وہ مطلوبہ تعداد ہی میں ہوتے ہیں جبکہ ہرن اور بھیڑ اور بکریاں زیادہ ہوتی ہیں کیونکہ قدرت کو معلوم ہے کہ ان کی زیادہ ضرورت ہے۔ ایک مکھی ایک ہی زندگی میں لاکھوں انڈے دیتی ہے لیکن اس کی زندگی زیادہ سے زیادہ دو ہفتے ہوتی ہے۔ اگر ایک مکھی کی عمر طبیعی کئی ماہ یا سال ہوتی تو تمام انسانی جسموں کو ڈھانپ دیتیں ، آنکھوں کو کھا جاتیں لیکن دست قدرت نے ان پر ایک قدرتی بند بھی رکھا ہے اور اس کی عمر کو محدود کردیا ہے۔ یونہی ، ہر چیز اور ہر نوع کی یہ حالت ہے ۔ اللہ کی تدبیر اور تقدیر انسانوں اور حیوانات میں اپنا کام کرتی ہے اور ہر چیز کے اندر ایک قسم کی نشانی ہے۔ اور یہ نشانی پکار پکار کہتی ہے کہ اللہ کی آیات میں غورو و تدبر کرو اور یہ آیات لقوم یوقنون (٤٥ : ٤) “ ان لوگوں کے لئے جو یقین لانے والے ہیں ”۔ یقین ایسی حالت ہے جو دلوں کو تیار اور مائل اور متاثر کرنے والی حالت ہے ، تا کہ وہ احساس کریں ، متاثر ہوں اور اللہ کی طرف مائل ہوں۔ ایمان و یقین دلوں کو ثابت ، برقرار اور مطمئن کردیتا ہے ۔ ایسے دل بڑے ٹھہراؤ سے اس کائنات پر غور کرتے ہیں اور اس سے حقائق اخذ کرتے ہیں۔ ان میں سے بےچینی ، پریشانی ، بےثباتی ختم ہوجاتی ہے۔ ایسے دلوں کو اگر اس دنیا میں کم کچھ ملے تب بھی وہ اس سے بڑے نتائج اور آثار حاصل کرتے ہیں۔ اس کے بعد اپنی ذات اور اپنے اردگرد کے حیوانات سے انہیں اس پوری کائنات کے مظاہر کی طرف لے جایا جاتا ہے۔ اس کائنات سے ان کے لئے اور دوسرے زندوں کے لئے جو اسباب حیات پیدا کئے جاتے ہیں اور فراہم کئے گئے ہیں ذرا ان پر بھی غور کرو۔ واختلاف الیل ۔۔۔۔۔ لقوم یعقلون (٤٥ : ٥) “ اور شب و روز کے فرق و اختلاف میں اور اس رزق میں جسے اللہ آسمانوں سے نازل فرماتا ہے۔ پھر اس کے ذریعہ سے مردہ زمین کو جلا اٹھاتا ہے ، ہواؤں کی گردش میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل سے کام لیتے ہیں ”۔ گردش لیل و نہار وہ منظر ہے جس کے باربار کی تکرار کی وجہ سے اس کی جدت انسانوں کے ذہن سے محو ہوجاتی ہے۔ اگر کوئی پہلی مرتبہ ان کو دیکھے یا پہلی مرتبہ رات کو دیکھے تو یہ ایک عجیب منظر ہے جو دل شاعرانہ احساس رکھتے ہیں وہ اس جدت کو سمجھتے ہیں اور گردش لیل ونہار کو اس کائنات کا ایک حیران کن نظام سمجھتے ہیں۔ انسانوں کے علم میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور اس کائنات کے بعض مظاہر کے بارے میں تو اب انسانوں نے وسیع معلومات حاصل کرلی ہیں۔ اب انسان جانتے ہیں کہ گردش لیل و نہار دراصل زمین کی گردش محوری سے پیدا ہوتی ہے جو یہ سورج کے سامنے کرتی ہے اور یہ گردش چوبیس گھنٹوں میں مکمل ہوتی ہے لیکن اس علم کے مطابق بھی یہ انوکھا منظر اور عجوبہ ابھی ختم نہیں ہے کیونکہ یہ کرۂ زمین ہوا کے اندر معلق ہے اور ایک خاص رفتار کے ساتھ چل رہا ہے اور وہ کسی چیز کا سہارا نہیں لے رہا ہے۔ اللہ نے اسے تھام رکھا ہے اور وہ ایک سیکنڈ بھی اپنی رفتار کم نہیں کرتا ۔ اور یہ رفتار ایسی ہے کہ تمام زندہ مخلوقات اس کے اوپر بڑے آرام سے رہ رہی ہے اور یہ مخلوق اس فضا میں معلق گولے کے اوپر ٹکی ہوئی ہے جو فضا میں گردش پر ہے۔ اب انسان کا علم قدرے اور وسعت اختیار کرتا ہے کہ اس گردش محوری کے اثرات اس زمین کے اوپر اور تمام زندہ مخلوقات پر کیا ہیں۔ انسان نے معلوم کیا کہ ان اوقات کو اس طرح رات اور دن میں تقسیم کرنے ہی سے اس کرۂ ارض پر زندگی ممکن بنائی گئی ہے۔ اگر گردش لیل و نہار نہ ہوتے یا اس اندازے اور اس نظام اور رفتار سے نہ ہوتے تو اس زمین کی سطح پر موجود ہر چیز بدل جاتی اور خصوصاً انسانی زندگی ختم ہوجاتی۔ چناچہ یوں اس علم کے بعد معلوم ہوا کہ گردش لیل و نہار اللہ کی نشانیوں میں سے اہم نشانی ہے۔ وما انزل اللہ ۔۔۔۔۔۔ بعد موتھا (٤٥ : ٥) “ اور اس رزق میں جسے اللہ آسمانوں سے نازل فرماتا ہے۔ پھر اس کے ذریعہ سے مردہ زمینوں کو جلا اٹھاتا ہے ”۔ رزق سے بھی تو پانی مراد ہوتا ہے جو آسمانوں سے آتا ہے جس طرح قدیم مفسرین نے اس سے یہی سمجھا ہے لیکن آسمانوں سے آنے والا صرف پانی بہت وسیع ہے۔ آسمانوں سے جو شعاعیں نکلتی ہیں وہ زمین کو زندہ کرنے میں پانی سے کوئی کم موثر نہیں ہیں بلکہ ان شعاعوں ہی کے اثر سے حکم الٰہی سے پانی پیدا ہوتا ہے۔ سورج کی حرارت ہی پانی کو بخارات میں بدلتی ہے۔ اور یہ بخارات کثیف ہو کر بارش کی شکل اختیار کرتے ہیں اور نہریں اور چشمے بہتے ہیں۔ اور اس سے زمین مردہ ہونے کے بعد زندہ ہوجاتی ہے ، پانی سے بھی اور حرارت سے بھی۔ وتصریف الریح (٤٥ : ٥) “ اور ہواؤں کی گردش میں ”۔ یہ ہوائیں شمالاً و جنوباً چلتی ہیں ، شرقاً اور غرباً چلتی ہیں ، سیدھی اور ٹیٹرھی چلتی ہیں ، گرم اور سرد چلتی ہیں۔ اس نہایت ہی پیچیدہ نظام کے مطابق جو دست قدرت نے اس کائنات کی تخلیق کے اندر رکھ دیا ہے اور اس کی ہر چیز کو حساب و مقدار سے رکھا ہے اور اس میں کوئی چیز اتفاق اور مصارفت پر نہیں چھوڑا ، پھر ہواؤں کے چلنے کا زمین کی گردش محوری سے گہرا تعلق ہے۔ اور ان کا تعلق گردش لیل و نہار سے بھی ہے اور اس رزق سے بھی ہے جو آسمانوں سے نازل ہوتا ہے۔ غرض حرارت ، ہوا وار رات اور دن کا نظام سب مل کر یہاں کام کرتے ہیں اور ان میں آیات و نشانات ہیں۔ لقوم یعقلون (٤٥ : ٥) “ ان لوگوں کے لئے جو عقل رکھتے ہیں ”۔ کیونکہ اس میدان میں عقل ہی کام کرسکتی ہے۔ ٭٭٭ یہ تو ہیں اس کائنات کی بعض نشانیاں جن کی طرف اشارہ کیا گیا ، ان لوگوں کے لئے جو ایمان لاتے ہیں۔ پھر ان لوگوں کے لئے جو یقین کرتے ہیں اور پھر ان لوگوں کے لئے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ یہ آیات ان کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ یہ اشارات دلوں کو چھوتے ہیں ، ان کو جگاتے ہیں اور یہ آیات الٰہیہ انسانی فطرت سے براہ راست مخاطب ہوتی ہیں کیونکہ فطرت انسانی اور اس کائنات کے درمیان براہ راست فطری رابطہ ہے۔ اور اس رابطے کو قرآن کا طرز استدلال ہی زندہ اور تازہ کرسکتا ہے۔ جو لوگ ان آیات فطرت کو تسلیم نہیں کرتے۔ ان سے کوئی توقع نہیں ہے کہ وہ کسی اور چیز کو تسلیم کریں گے جن لوگوں کو قرآن کریم کے یہ اشارات اور آیات نہیں جگا سکتیں ، ان کو کوئی اور آواز نہیں جگا سکتی خواہ وہ جس قدر تیز آواز ہو۔ ذرا سنئے :