Surat ul Jasiya

Surah: 45

Verse: 10

سورة الجاثية

مِنۡ وَّرَآئِہِمۡ جَہَنَّمُ ۚ وَ لَا یُغۡنِیۡ عَنۡہُمۡ مَّا کَسَبُوۡا شَیۡئًا وَّ لَا مَا اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اَوۡلِیَآءَ ۚ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ﴿ؕ۱۰﴾

Before them is Hell, and what they had earned will not avail them at all nor what they had taken besides Allah as allies. And they will have a great punishment.

ان کے پیچھے دوزخ ہے جو کچھ انہوں نے حاصل کیا تھا وہ انہیں کچھ بھی نفع نہ دے گا اور نہ وہ ( کچھ کام آئیں گے ) جن کو انہوں نے اللہ کے سوا کارساز بنا رکھا تھا ان کے لئے تو بہت بڑا عذاب ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

مِن وَرَايِهِمْ جَهَنَّمُ ... In front of them there is Hell. meaning, all those who have these evil characteristics will end up in Hellfire on the Day of Resurrection, ... وَلاَ يُغْنِي عَنْهُم مَّا كَسَبُوا شَيْيًا ... And that which they have earned will be of no profit to them, i.e. their wealth and children will not avail them, ... وَلاَ مَا اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّهِ أَوْلِيَاء ... nor those whom they have taken as protecting friends besides Allah. i.e. nor will the false gods that they worshipped besides Allah benefit them in the least, ... وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ And theirs will be a great torment. Allah the Exalted said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

10۔ 1 یعنی ایسے کردار کے لوگوں کے لئے قیامت میں جہنم ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١] وراء کا لغوی مفہوم :۔ ورآء کا معنی آگے بھی اور پیچھے بھی، ادھر بھی اور ادھر بھی۔ اس لحاظ سے اس کے دو مطلب ہوئے۔ ایک یہ کہ ایسے لوگوں کو دنیا میں ذلت کا عذاب ہوگا پھر اس کے بعد ان کے لیے عذاب جہنم بھی تیار ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ انہیں یہ معلوم ہی نہیں کہ اس ذلت کے عذاب کے بعد جہنم بھی ان کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ [١٢] یعنی مال و دولت کام آئے گی اور نہ آل اولاد اور نہ ان کے اچھے اعمال۔ کیونکہ دنیا میں اگر انہوں نے کچھ اچھے عمل کئے بھی ہوں گے وہ برباد ہوجائیں گے اور ان کے کسی کام نہ آئیں گے۔ وجہ یہ ہے کہ انہوں نے وہ کام اس نیت سے کئے ہی نہ تھے کہ وہ آخرت میں ان کے کام آئیں گے بلکہ ان کا آخرت پر یقین ہی نہیں تھا۔ [١٣] کارسازوں کی اقسام :۔ یہ اولیاء بھی دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ ہستیاں جن کی سفارش پر اعتماد کرکے لوگ بےدھڑک گناہ کے کام کرتے رہتے ہیں اور سمجھتے یہ ہیں کہ ہم فلاں حضرت کی بیعت ہیں وہ ہمیں سفارش کرکے اللہ کی گرفت اور عذاب سے بچا لیں گے۔ دوسرے وہ چودھری قسم کے لوگ یا حکمران یا سیاسی لیڈر جن کی اللہ کے احکام کے مقابلہ میں اس لیے اطاعت کی جاتی ہے کہ اطاعت کرنے والوں کے دنیوی مفادات ان سے وابستہ ہوتے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی کارساز وہاں کام نہ آئے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) من ورآئھم جھنم :” ورائ “ کا معنی ” پیچھے “ بھی ہے اور ” آگے “ بھی۔ دیکھیے کہف : ٧٩) کیونکہ یہ لفظ اس چیز کے لئے استعمال ہوتا ہے جو نگاہ سے اوجھل ہو۔ یعنی جہنم ان کے تعاقب میں ہے، یا جہنم ان کے آگے تیار ہے۔ دونوں معنی درست ہیں۔ (٢) ولا یغنی عنھم ما کسبوا شیئاً : یعنی نہ ان کا مال ان کے کام آئے گا، نہ ان کی آل اولاد (دیکھیے آل عمران : ١٠) اور نہ ان کے اچھے اعمال، کیونکہ انہوں نے دنیا میں اگر کچھ اچھے اعمال کئے بھی ہوں گے تو صرف دنیا کی نیت سے کئے جانے کی وجہ سے آخرت میں کام نہیں آسکیں گے، بلکہ برباد ہوجائیں گے۔ مزید دیکھیے سورة فرقان (٢٣) اور سورة کہف (١٠٣ تا ١٠٦) ۔ (٣) ولا مااتخذوا من دون اللہ اولیآء …: یعنی ان کے وہ داتا و دستگیر جنہیں وہ قیامت کے دن عذاب سے بچانے کی امید پر پکارتے رہے اور ان کی پجا کرتے رہے، وہ ان کے کسی کام نہیں آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک ظلم عظیم ہے، فرمایا : (ان الشرک لظلم عظیم) (لقمان : ١٣)” بیشک شرک یقیناً بہت بڑا ظلم ہے۔ “ اسی مناسبت سے ان کے لئے عذاب عظیم سنایا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

مِّن وَرَ‌ائِهِمْ جَهَنَّمُ |"In front of them, there is Jahannam...45:10|" The word وَرَ‌اءِ war& in Arabic is mostly used in the sense of |"behind|" and occasionally used in the sense of |"front|". Most commentators have taken the word in this context to mean ` front& and we have translated it accordingly. However, some of the commentators have taken it in this context to mean ` back/behind& and interpreted it to mean that those who are living in haughtiness and arrogance, the fire of Hell is trailing behind/after them. (Qurtubi).

(آیت) مِنْ وَّرَاۗىِٕهِمْ جَهَنَّمُ ، ” ورائ “ کا لفظ عربی میں ” پیچھے “ کے لئے زیادہ اور ” سامنے “ کیلئے کم استعمال ہوتا ہے لیکن اکثر مفسرین نے یہاں ” سامنے “ کے معنی قرار دیئے ہیں۔ چناچہ خلاصہ تفسیر میں ترجمہ اسی کے مطابق کیا گیا ہے البتہ بعض مفسرین نے ’ پیچھے ‘ کے معنی لئے ہیں اور مطلب یہ قرار دیا ہے کہ دنیا میں وہ جس نخوت وتکبر کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں اس کے پیچھے یعنی بعد میں جہنم آنیوالی ہے (قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مِنْ وَّرَاۗىِٕہِمْ جَہَنَّمُ۝ ٠ ۚ وَلَا يُغْنِيْ عَنْہُمْ مَّا كَسَبُوْا شَيْـــــًٔا وَّلَا مَا اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ اَوْلِيَاۗءَ۝ ٠ ۚ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ۝ ١٠ ۭ وراء ( وَرَاءُ ) إذا قيل : وَرَاءُ زيدٍ كذا، فإنه يقال لمن خلفه . نحو قوله تعالی: وَمِنْ وَراءِ إِسْحاقَ يَعْقُوبَ [هود/ 71] ، ( و ر ی ) واریت الورآء کے معنی خلف یعنی پچھلی جانب کے ہیں مثلا جو زہد کے پیچھے یا بعد میں آئے اس کے متعلق ورآء زید کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ وَراءِ إِسْحاقَ يَعْقُوبَ [هود/ 71] اور اسحاق کے بعد یعقوب کی خوش خبری دی ۔ جهنم جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام ( ج ھ ن م ) جھنم ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ غنی( فایدة) أَغْنَانِي كذا، وأغْنَى عنه كذا : إذا کفاه . قال تعالی: ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة/ 28] ، ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد/ 2] ، لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران/ 10] ، ( غ ن ی ) الغنیٰ اور اغنانی کذا اور اغنی کذا عنہ کذا کسی چیز کا کا فی ہونا اور فائدہ بخشنا ۔ قر آں میں ہے : ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة/ 28] میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد/ 2] تو اس کا مال ہی اس کے کچھ کام آیا ۔۔۔۔ لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران/ 10] نہ تو ان کا مال ہی خدا کے عذاب سے انہیں بچا سکے گا اور نہ ان کی اولاد ہی کچھ کام آئیگی ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» . الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ كسب ( عمل رزق) الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی: أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] ، وقوله : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] ( ک س ب ) الکسب ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔ أخذ ( افتعال، مفاعله) والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔ دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔ ولي والوَلَايَةُ : تَوَلِّي الأمرِ ، وقیل : الوِلَايَةُ والوَلَايَةُ نحو : الدِّلَالة والدَّلَالة، وحقیقته : تَوَلِّي الأمرِ. والوَلِيُّ والمَوْلَى يستعملان في ذلك كلُّ واحدٍ منهما يقال في معنی الفاعل . أي : المُوَالِي، وفي معنی المفعول . أي : المُوَالَى، يقال للمؤمن : هو وَلِيُّ اللهِ عزّ وجلّ ولم يرد مَوْلَاهُ ، وقد يقال : اللهُ تعالیٰ وَلِيُّ المؤمنین ومَوْلَاهُمْ ، فمِنَ الأوَّل قال اللہ تعالی: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة/ 257] ( و ل ی ) الولاء والتوالی الوالایتہ ( بکسر الواؤ ) کے معنی نصرت اور والایتہ ( بفتح الواؤ ) کے معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دلالتہ ودلالتہ کی طرح ہے یعنی اس میں دولغت ہیں ۔ اور اس کے اصل معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ الوالی ولمولی ۔ یہ دونوں کبھی اسم فاعل یعنی موال کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اسم مفعول یعنی موالی کے معنی میں آتے ہیں اور مومن کو ولی اللہ تو کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مولی اللہ کہنا ثابت نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰٰ کے متعلق ولی المومنین ومولاھم دونوں طرح بول سکتے ہیں ۔ چناچہ معنی اول یعنی اسم فاعل کے متعلق فرمایا : ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة/ 257] جو لوگ ایمان لائے ان کا دوست خدا ہے عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا عظیم وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] ، ( ع ظ م ) العظم عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا معنو ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

مرنے کے بعد ان کے آگے جہنم ہے عذاب الہی کے مقابلہ میں ان کا جمع کردہ مال اور ان کی برائیاں کچھ کام نہ آئیں گے اور نہ وہ جھوٹے معبود باطل جن کی انہوں نے پوجا پاٹ کی ہے اور اس کے لیے بہت بڑا عذاب ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠ { مِنْ وَّرَآئِہِمْ جَہَنَّمُ } ” ان کے پیچھے جہنم ہے۔ “ یعنی جہنم ان کی منتظر ہے ۔ - ۔ - ۔ - ۔ - وَرَاء کا لفظ ہر اس چیز کے لیے بولا جاتا ہے جو آدمی کی نظر سے اوجھل ہو خواہ آگے ہو یا پیچھے ہو۔ لہٰذا ان الفاظ کا دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” ان کے آگے جہنم ہے “ جس میں وہ گرنے والے ہیں۔ { وَلَا یُغْنِیْ عَنْہُمْ مَّا کَسَبُوْا شَیْئًا } ” اور جو کچھ انہوں نے کمایا ہے وہ ان کے ذرا بھی کام نہیں آسکے گا “ دُنیا میں انہوں نے جو کچھ کمایا ہے اور مال و دولت جمع کیا ہے ‘ یہ سب کچھ انہیں جہنم سے نہ بچا سکے گا۔ { وَّلَا مَا اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَوْلِیَآئَج وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ } ” اور نہ وہ جن کو انہوں نے اللہ کے سوا مدد گار بنا رکھا ہے ‘ اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہوگا۔ “ اللہ کے سوا انہوں نے جو جھوٹے معبود بنا رکھے ہیں اور ان کی سفارش اور شفاعت کا انہیں زعم بھی ہے ‘ وہ بھی اس دن انہیں جہنم کے عذاب سے نہیں بچا سکیں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

11 The word wara' is used for every such thing as is hidden from man, whether it is before. him or behind him. Therefore, another translation can be: "They have Hell behind them." In the first case, the meaning would be: "They are unconsciously running on this way and have no idea that there is Hell in front of them in which they would fall ; " in the second case, it would mean: "They are engaged in this mischief of theirs, thoughtless of the Hereafter, and they have no idea that Hell is in pursuit of them." 12 Here, the word wali (guardian) has been used in two meanings; (1) For those gods and goddesses and living and dead guides about whom the polytheists thought that anybody who was devoted to them, would escape Allah's punishment, whatever he might have done in the world, for their intercession will save them from Allah's wrath; and (2) for those chiefs and leaders and rulers whom the people took as their guides and patrons independent of God and followed them blindly and tried to please them even if they had to displease God. This verse warns all such people that when they will face Hell in consequence of this way of lift, neither of the two kinds of the guardians will come forward to save them from it. (For further explanation, see E. N . 6 of Surah Ash- Shura).

سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :11 اصل الفاظ ہیں مِنْ وَّرَآئِھِمْ جَھَنَّمُ ۔ وراء کا لفظ عربی زبان میں ہر اس چیز کے لیے بولا جاتا ہے جو آدمی کی نظر سے اوجھل ہو ، خواہ وہ آگے ہو یا پیچھے ۔ اس لیے دوسرا ترجمہ ان الفاظ کا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کے پیچھے جہنم ہے ۔ اگر پہلے معنی لیے جائیں تو مطلب یہ ہو گا کہ وہ بے خبر منہ اٹھائے اس راہ پر دوڑے جا رہے ہیں اور انہیں احساس نہیں ہے کہ آگے جہنم ہے جس میں وہ جا کر گرنے والے ہیں ۔ دوسرے معنی لینے کی صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ وہ آخرت سے بے فکر ہو کر اپنی اس شرارت میں مشغول ہیں اور انہیں پتہ نہیں ہے کہ جہنم ان کے پیچھے لگی ہوئی ہے ۔ سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :12 یہاں ولی کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔ ایک وہ دیویاں اور دیوتا اور زندہ یا مردہ پیشوا جن کے متعلق مشرکین نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ جو شخص اس کا متوسل ہو وہ خواہ دنیا میں کچھ ہی کرتا ہے ، خدا کے ہاں اس کی پکڑ نہ ہو سکے گی ، کیونکہ ان کی مداخلت اسے خدا کے غضب سے بچا لے گی ۔ دوسرے ، وہ سردار اور لیڈر اور امراء و حکام جنہیں خدا سے بے نیاز ہو کر لوگ اپنا رہنما اور مطاع بناتے ہیں ، اور آنکھیں بند کر کے ان کی پیروی کرتے ہیں ، اور انہیں خوش کر نے کے لیے خدا کو ناخوش کرنے میں تامل نہیں کرتے یہ آیت ایسے لوگوں کو خبردار کرتی ہے کہ جب اس روش کے نتیجے میں جہنم سے ان کو سابقہ پیش آئے گا تو ان دونوں قسم کے سرپرستوں میں سے کوئی بھی انہیں بچانے کے لیے آگے نہ بڑھے گا ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم تفسیر سورہ الشوریٰ ، حاشیہ نمبر 6 )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(45:10) من ورائھم جھنم : ان کے آگے جہنم ہے (یعنی قیامت کے روز) ۔ ورائہم مضاف مضاف الیہ۔ ورآء اسم ہے جہت کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ صاحب اضواء البیان نے بڑے وثوق سے لکھا ہے کہ اس کے معنی آگے کے ہیں ملاحظہ ہو اضواء البیان جلد 7 تفسیر آیۃ ہذا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید میں اس کا استعمال تقریبا ہر جہت کے لئے ہوا ہے۔ مثلا (1) بمعنی پیچھے۔ پس پشت۔ واما من اوتی کتبہ ورآء ظھرہ (84:10) اور جس کا اعمال نامہ اس کی پیٹھ کے پیچھے سے دیا جائے گا۔ (2) بمعنی آگے :۔ من ورا آئھم۔ (آیۃ ہذا) (3) آگے، پیچھے، ہر طرف سے : واللّٰہ من ورآئہم محیط (85:20) اور خدا ان کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔ صاحب تفسیر مظہری رقم طراز ہیں :۔ ورآء کا ترجمہ :۔ درے بھی ہے پرے بھی ہے۔ آگے بھی ہے اور پیچھے بھی۔ لایغنی۔ مضارع منفی واحد مذکر غائب۔ اغناء (افتعال) مصدر۔ کام نہ آئے گا۔ فائدہ بھی نہیں پہنچائیگا۔ دفع نہیں کریگا۔ ماکسبوا ما موصولہ۔ کسبوا ماضی جمع مذکر غائب ۔ کسب باب ضرب انہوں نے کمایا۔ ای ما کسبوا فی الدنیا۔ یعنی جو انہوں نے کمایا تھا دنیا میں۔ یعنی مال و اولاد وہ ان کے کسی کام نہیں آئے گا۔ ولا ما اتخذوا من دون اللّٰہ اولیائ۔ واؤ عاطفہ۔ اور نہ ہی کام آئیں گے وہ جن کو انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنا کارساز بنا رکھا تھا۔ ما موصولہ۔ اولیاء من دون اللّٰہ۔ اللہ کو چھوڑ کر جن کو انہوں نے اپنا کارساز بنا رکھا تھا اس میں وہ بت بھی شامل ہیں جن کی وہ پوجا کرتے تھے۔ اور وہ پیر و پیشوا جن کی وہ پیروی کیا کرتے تھے۔ شیئا۔ کچھ بھی۔ ذرہ برابر بھی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(10) ان کے آگے جہنم ہے اور جو کچھ انہوں نے کمایا تھا نہ تو وہ کمائی ان کو کچھ نفع دے گی اور نہ وہ معبود اور رفیق ان کے کچھ کام آئیں گے جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا معبود اور رفیق اور کارساز بنارکھا تھا اور ان لوگوں کو بڑا عذاب ہوگا۔ یعنی نضر بن حارث اور اس کے ہم مشربوں کا یہ حال ہوگا کہ آگے ان کے دوزخ ہے پھر وہاں نہ تو ان کے اعمال ان کے کچھ کام آئیں گے اور نہ وہ ان کے معبود اور کارساز ہی کچھ ان کے کام آسکیں گے جن کو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے علاوہ اپنا کار ساز اور معبود بنارکھا تھا اور ان کو بڑا سخت عذاب ہوگا۔