Surat ul Jasiya

Surah: 45

Verse: 16

سورة الجاثية

وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ الۡکِتٰبَ وَ الۡحُکۡمَ وَ النُّبُوَّۃَ وَ رَزَقۡنٰہُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلۡنٰہُمۡ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿ۚ۱۶﴾

And We did certainly give the Children of Israel the Scripture and judgement and prophethood, and We provided them with good things and preferred them over the worlds.

یقیناً ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب ، حکومت اور نبوت دی تھی اور ہم نے انہیں پاکیزہ ( اور نفیس ) روزیاں دی تھیں اور انہیں دنیا والوں پر فضیلت دی تھی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Preference of Allah to the Children of Israel and their dispute thereafter Allah the Exalted mentions the favors He granted the Children of Israel, such as revealing the Divine Books to them, sending the Messengers to them and granting them kingship. Allah said, وَلَقَدْ اتَيْنَا بَنِي إِسْرَايِيلَ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ ... And indeed We gave the Children of Israel the Scripture, and the understanding of the Scripture and its laws, and the Prophethood; and provided them with good things, such as foods and drinks, ... وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ and preferred them above the nations. (of their time),

بنی اسرائیل اللہ تعالیٰ کے خصوصی انعامات کا تذکرہ بنی اسرائیل پر جو نعمتیں رحیم و کریم اللہ نے انعام فرمائی تھیں ان کا ذکر فرما رہا ہے کہ کتابیں ان پر اتاریں رسول ان میں بھیجے حکومت انہیں دی ۔ بہترین غذائیں اور ستھری صاف چیزیں انہیں عطا فرمائیں اور اس زمانے کے اور لوگوں پر انہیں برتری دی اور انہیں امر دین کی عمدہ اور کھلی ہوئی دلیلیں پہنچا دیں اور ان پر حجت اللہ قائم ہو گئی ۔ پھر ان لوگوں نے پھوٹ ڈالی اور مختلف گروہ بن گئے اور اس کا باعث بجز نفسانیت اور خودی کے اور کچھ نہ تھا اے نبی تیرا رب ان کے ان اختلافات کا فیصلہ قیامت کے دن خود ہی کر دے گا اس میں اس امت کو چوکنا کیا گیا ہے کہ خبردار تم ان جیسے نہ ہونا ان کی چال نہ چلنا اسی لئے اللہ جل و علا نے فرمایا کہ تو اپنے رب کی وحی کا تابعدار بنا رہ مشرکوں سے کوئی مطلب نہ رکھ بےعلموں کی ریس نہ کر یہ تجھے اللہ کے ہاں کیا کام آئیں گے ؟ ان کی دوستیاں تو ان میں آپس میں ہی ہیں یہ تو اپنے ملنے والوں کو نقصان ہی پہنچایا کرتے ہیں ۔ پرہیز گاروں کا ولی و ناصر رفیق و کار ساز پروردگار عالم ہے جو انہیں اندھیروں سے ہٹا کر نور کی طرف لے جاتا ہے اور کافروں کے دوست شیاطین ہیں جو انہیں روشنی سے ہٹا کر اندھیریوں میں جھونکتے ہیں یہ قرآن ان لوگوں کے لئے جو یقین رکھتے ہیں دلائل کے ساتھ ہی ہدایت و رحمت ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

16۔ 1 کتاب سے مراد تورات، حکم سے حکومت و بادشاہت یا فہم و قضا کی وہ صلاحیت ہے جو فضل خصوصیات اور لوگوں کے درمیان فیصلے کرنے کے لئے ضروری ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢١] حکم کے مختلف مفہوم :۔ حَکَم کا ایک معنی تو حکومت ہے جیسا کہ ترجمہ سے ظاہر ہے، اس کا دوسرا معنی حکمت ہے۔ اور حکمت کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ جس سے دینی معاملات اور احکام کی سمجھ اور فہم بھی شامل ہے۔ احکام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے علمی ذرائع بھی اور عملی تدابیر اور طریق کار کا علم بھی۔ اور حکم کا تیسرا معنی فیصلہ اور قوت فیصلہ ہے۔ یعنی فریقین مقدمہ کا بیان لینے کے بعد ان کے درمیان صحیح اور مبنی بر عدل فیصلہ کرنے کا ملکہ۔ خ بنی اسرائیل پر اللہ کے احسانات :۔ یعنی ہم نے بنی اسرائیل کو تمام دینی اور دنیوی نعمتوں سے نوازا تھا۔ ان میں ہزاروں کی تعداد میں پیغمبر مبعوث کئے گئے۔ ان میں سے کئی بادشاہ بھی تھے۔ انہیں بنی نوع انسان کی ہدایت کے لیے کتاب تورات بھی دی تھی۔ اور کھانے پینے کو بہت وافر اور پاکیزہ رزق عطا کیا تھا۔ گویا اپنے دور میں بنی اسرائیل کو بقایا تمام اقوام پر ترجیح دے کر انہیں ہم ہی نے اپنے خصوصی انعامات سے نوازا تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ولقد اتینا بنی اسرآئیل الکتب …: پچھلی آیات ” اللہ الذی سخرلکم البحر “ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی چند نعمتوں کا ذکر فرمایا جو اس نے تمام انسانوں پر فرمائی ہیں، تاکہ وہ اس کا شکر ادا کریں اور کفر و شرک سے اجتناب کریں اور اس آیت میں ان نعمتوں کا ذکر فرمایا جو اس نے خصوصاً بنی اسرائیل پر کیں۔” الکتب “ سے مراد کوئی ایک کتاب نہیں بلکہ جنس کتاب ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل میں بہت سے صاحب کتاب انبیاء مبعوث فرمائے ۔ تو رات، انجیل اور زبور تو عام معروف ہیں، ان کے علاوہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اس نے انھیں کتنی کتابیں عطا فرمائیں۔ (٢) والحکم :” الحکم “ کا معنی فیصلہ اور قوت فیصلہ ہے۔ یہاں مراد یہ ہے ک ہم نے بنی اسرائیل کو آزادی اور حکومت بخشی، جس میں وہ اپنے فیصلے خود کرسکتے تھے، کیونکہ اپنی حکومت کے بغیر اسلام پر پوری طرح عمل ہو نہیں سکتا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون سے نجات اور آزادی ملنے پر بنی اسرائیل کو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں بادشاہ بنادیا، کیونکہ آزادق کم کا ہر فرد ہی بادشاہ ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا :(واذ قال موسیٰ لقومہ یقوم اذکروا نعمۃ اللہ علیکم اذ جعل فیکم انبیآء وجعلکم ملواک ، واتکم مالم یوت احداً من العلمین) (المائدہ : ٢٠)” اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم ! اپنے اوپر اللہ کی نعمت یاد کرو، جب اس نے تم میں انبیاء بنائے اور تمہیں بادشاہ بنادیا اور تمہیں وہ کچھ دیا جو جہانوں میں سے کسی کو نہیں دیا۔ “ بعد میں داؤد (علیہ السلام) سلیمان (علیہ السلام) اور دوسرے اسرائیلی حکمرانوں کی حکومتیں بھی انھیں اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ اس ” الحکم “ میں شامل ہیں۔ (٢) ” والنبوۃ : بنی اسرائیل میں جتنے نبی مبعوث ہوئے کسی اور قوم میں اتنے زیادہ نبیوں کے آنے کا کہیں ذکر نہیں۔ (٤) ورزقنھم من الطیبت : ان طیبات میں صحرا کے اندر کھانے کے لئے من وسلویٰ ، پینے کیلئے بارہ چشمے اور بادلوں کا سایہ بھی شامل ہے اور بعد میں شام و مصر کی زرخیز و بابرکت زمین کی حکومت اور وہاں سے حاصل ہونے والی بیشمار نعمتیں بھی شامل ہیں۔ (٥) وفضلنھم علی العلمین : اس کیو ضاحت کے لئے دیکھیے سورة بقرہ (٤٧) اور سورة دخان (٣٢) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر اور (نبوت کوئی انوکھی چیز نہیں جو اس کا انکار کیا جائے، چناچہ اس کے قبل) ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب (آسمانی) اور حکمت (یعنی علم احکام) اور نبوت دی تھی (یعنی ان میں انبیاء پیدا کئے تھے) اور ہم نے ان کو نفیس نفیس چیزیں کھانے کو دی تھیں (اس طرح کہ میدان تیہ میں من وسلویٰ نازل کیا اور ان کو ملک شام کا مالک بنایا جو برکات ارضیہ کا معدن ہے) اور ہم نے (بعض امور میں مثلاً سمندر کو چیر دینا، ابر کا سایہ کرنا وغیرہ) ان کو دنیا جہان والوں پر فوقیت دی اور ہم نے ان کو دین کے بارے میں کھلی کھلی دلیلیں دیں (یعنی ان کو بڑے صریح معجزات دکھلائے، غرض حسی معنوی، علمی ہر طرح کی نعمتیں دیں) سو (چاہئے تو یہ تھا کہ خوب اطاعت کرتے مگر) انہوں نے علم ہی کے آنے کے بعد باہم اختلاف کیا بوجہ آپس کی ضدا ضدی کے (جس کا بیان پارہ دوم رکوع (آیت) سل بنی اسرائیل الخ میں ہوچکا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو علم اختلافات ختم کرنے کا سبب ہونا چاہئے تھا انہوں نے نفسا نفسی ان امور میں (عملی) فصلہ کر دے گا جن میں یہ باہم اختلاف کیا کرتے تھے، پھر (بنی اسرائیل میں دور نبوت ختم ہونے کے بعد) ہم نے آپ کو (نبوت دی اور آپ کو) دین کے ایک خاص طریقے پر کردیا، سو آپ اسی طریقے پر چلے جائیے (یعنی عمل میں بھی اور تبلیغ میں بھی) اور ان جہلاء کی خواہشوں پر نہ چلئے (یعنی ان کی خواہش تو یہ ہے کہ آپ تبلیغ ترک کردیں اور اسی لئے یہ طرح طرح سے پریشان کرتے ہیں تاکہ آپ تنگ ہو کر تبلیغ چھوڑ دیں۔ سو آپ سے گو یہ احتمال نہیں مگر امر تبلیغ کے اہتمام کے لئے آپ کو پھر اس کا حکم ہوتا ہے۔ آگے اسی طرز پر اس حکم کی علت فرماتے ہیں کہ) یہ لوگ خدا کے مقابلے میں آپ کے ذرا کام نہیں آسکتے (پس ان کا اتباع نہ ہونے پائے) اور ظالم لوگ ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں (اور ایک دوسرے کا کہنا مانتے ہیں) اور اللہ دوست ہے اہل تقویٰ کا (اور اہل تقویٰ اس کا کہنا مانا کرتے ہیں۔ سو جب آپ ظالم نہیں ہیں بلکہ سردار متقین ہیں تو آپ کو ان کی اتباع سے کیا نسبت ؟ البتہ احکام الٰہی کی اتباع سے خاص نسبت ہے، غرض آپ صاحب نبوت و شریعت حقہ ہیں اور) یہ قرآن (جو آپ کو ملا ہے یہ) عام لوگوں کے لئے دانشمندیوں کا سبب اور ہدایت کا ذریعہ ہے اور یقین (یعنی ایمان) لانے والوں کے لئے بڑی رحمت (کا سبب) ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ الْكِتٰبَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّۃَ وَرَزَقْنٰہُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰہُمْ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ۝ ١٦ ۚ ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک : ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ آتینا وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة/ 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء/ 54] . [ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] . وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف/ 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني . { وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا } [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ { فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا } [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ { مُلْكًا عَظِيمًا } [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ { آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ } [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔ كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو حکمت ( نبوۃ) قال اللہ تعالی: وَآتَيْناهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا [ مریم/ 12] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «الصمت حکم وقلیل فاعله» أي : حكمة، وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ آل عمران/ 164] ، وقال تعالی: وَاذْكُرْنَ ما يُتْلى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب/ 34] ، قيل : تفسیر القرآن، ويعني ما نبّه عليه القرآن من ذلک : إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ ما يُرِيدُ [ المائدة/ 1] ، أي : ما يريده يجعله حكمة، وذلک حثّ للعباد علی الرضی بما يقضيه . قال ابن عباس رضي اللہ عنه في قوله : مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب/ 34] ، هي علم القرآن، ناسخه، مُحْكَمه ومتشابهه . قرآن میں ہے : ۔ وَآتَيْناهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا [ مریم/ 12] اور ہم نے ان کو لڑکپن میں ہی دانائی عطا فرمائی تھی ۔ اور آنحضرت نے فرمایا کہ خاموشی بھی حکمت ہے ۔ لیکن بہت تھوڑے لوگ اسے اختیار کر ٹے ہیں ۔ یہاں ( آیت اور حدیث میں ) حکم کے معنی حکمت کہ میں قرآن میں ہے : ۔ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ آل عمران/ 164] اور ان ( لوگوں ) کو کتاب اور دانائی سکھایا کرے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرْنَ ما يُتْلى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب/ 34] اور تمہارے گھروں میں جو خدا کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور حکمت کی باتیں سنائی جاتی ہیں ان کو یاد رکھو ۔ میں حکمت سے مراد تفسیر قرآن ہے یعنی جس پر کہ قرآن نے آیت إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ ما يُرِيدُ [ المائدة/ 1] میں تنبیہ کی ہے کہ اللہ جس چیز کو چاہتا ہے حکمت بنادیتا ہے تو اس میں ترغیب ہے کہ لوگوں کو اللہ کے فیصلے پر راضی رہنا چاہیئے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں ۔ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب/ 34] میں حکمت سے ناسخ منسوخ محکم اور متشابہات کا علم مراد ہے ۔ نبأ خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] ، ( ن ب ء ) النبا ء کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے رزق الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، ( ر ز ق) الرزق وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو طيب يقال : طَابَ الشیءُ يَطِيبُ طَيْباً ، فهو طَيِّبٌ. قال تعالی: فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء/ 3] ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء/ 4] ، وأصل الطَّيِّبِ : ما تستلذّه الحواسّ ، وما تستلذّه النّفس، والطّعامُ الطَّيِّبُ في الشّرع : ما کان متناولا من حيث ما يجوز، ومن المکان الّذي يجوز فإنّه متی کان کذلک کان طَيِّباً عاجلا وآجلا لا يستوخم، وإلّا فإنّه۔ وإن کان طَيِّباً عاجلا۔ لم يَطِبْ آجلا، وعلی ذلک قوله : كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 172] ( ط ی ب ) طاب ( ض ) الشئی یطیب طیبا فھم طیب ( کے معنی کسی چیز کے پاکیزہ اور حلال ہونے کے ہیں ) قرآن میں ہے : : فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء/ 3] تو ان کے سوا عورتیں تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو ۔ ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء/ 4] ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تم کو چھوڑدیں ۔ اصل میں طیب اسے کہا جاتا ہے جس سے انسان کے حواس بھی لذت یاب ہوں اور نفس بھی اور شریعت کی رو سے الطعام الطیب اس کھانے کو کہا جائے گا جو جائز طریق سے حاصل کیا جائے اور جائز جگہ سے جائز انداز کے مطابق لیا جائے کیونکہ جو غذا اس طرح حاصل کی جائے وہ دنیا اور آخرت دونوں میں خوشگوار ثابت ہوگی ورنہ دنیا کی خوشگوار چیزیں آخرت میں نقصان وہ ثابت ہونگی اسی بنا پر قرآن طیب چیزوں کے کھانے کا حکم دیتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 172] جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں عطا فرمائی ہیں اور ان کو کھاؤ ۔ فضل الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر فعلی ثلاثة أضرب : فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات . وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله : وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] ، يعني : المال وما يکتسب، ( ف ض ل ) الفضل کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ عالَمُ والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، وقیل : إنما جمع هذا الجمع لأنه عني به أصناف الخلائق من الملائكة والجنّ والإنس دون غيرها . وقد روي هذا عن ابن عبّاس «2» . وقال جعفر بن محمد : عني به النّاس وجعل کلّ واحد منهم عالما «3» ، وقال «4» : العَالَمُ عالمان الکبير وهو الفلک بما فيه، والصّغير وهو الإنسان لأنه مخلوق علی هيئة العالم، وقد أوجد اللہ تعالیٰ فيه كلّ ما هو موجود في العالم الکبير، قال تعالی: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة/ 1] ، وقوله تعالی: وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة/ 47] ، قيل : أراد عالمي زمانهم . وقیل : أراد فضلاء زمانهم الذین يجري كلّ واحد منهم مجری كلّ عالم لما أعطاهم ومكّنهم منه، وتسمیتهم بذلک کتسمية إبراهيم عليه السلام بأمّة في قوله : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل/ 120] ، وقوله : أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر/ 70] . العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ چونکہ لفظ عالم سے خلائق کی خاص قسم یعنی فرشتے جن اور انسان ہی مراد ہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے ۔ اس لئے اس کی جمع واؤنون کے ساتھ لائی گئی ہے امام جعفر بن محمد کا قول ہے کہ عالیمین سے صرف انسان مراد ہیں اور ہر فرد بشر کو ایک عالم قرار دے کر اسے جمع لایا گیا ہے ۔ نیز انہوں نے کہا ہے کہ عالم دو قسم پر ہے ( 1 ) العالم الکبیر بمعنی فلک دمافیہ ( 2 ) العالم اصغیر یعنی انسان کیونکہ انسان کی تخلیق بھی ایک مستقل عالم کی حیثیت سے کی گئی ہے اور اس کے اندر قدرت کے وہ دلائل موجود ہیں جا عالم کبیر میں پائے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر/ 70] کیا ہم نے تم کو سارے جہاں ( کی حمایت وطر فداری سے ) منع نہیں کیا الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة/ 1] سب تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جو تمام مخلوقات کو پروردگار ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة/ 47] کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ تم یعنی بنی اسرائیل کو ان کی ہمعصراز قوام پر فضیلت دی اور بعض نے اس دور کے فضلا مراد لئے ہیں جن میں سے ہر ایک نواز شات الہٰی کی بدولت بمنزلہ ایک عالم کے تھا اور ان کو عالم سے موسم کرنا ایسے ہی ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل/ 120] بیشک حضرت ابراہیم ایک امہ تھے میں حضرت ابراہیم کو امۃ کہا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور ہم نے بنی اسرائیل کو علم و فہم عطا کیا تھا اور ان میں انبیاء کرام اور کتابیں بھی بھیجی تھیں اور من وسلوی یا یہ کہ غنیمتیں ان کو عطا کی تھیں اور ان کے زمانہ کے علماء پر ان کو کتاب و رسول کے ذریعے فضیلت دی تھی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٦ { وَلَقَدْ اٰتَیْنَا بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ الْکِتٰبَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّۃَ } ” اور ہم نے بنی اسرائیل کو عطا کی کتاب ‘ حکومت اور نبوت “ { وَرَزَقْنٰہُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰہُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ } ” اور ہم نے انہیں عطا کیں بہت سی پاکیزہ چیزیں ‘ اور انہیں ہم نے تمام جہان کی قوموں پر فضیلت دی۔ “ ان لوگوں کا نسبی تعلق اگرچہ حضرت ابراہیم سے ہے ‘ لیکن جس قوم کا نام بنی اسرائیل ہے وہ حضرت یعقوب کی اولاد ہے۔ حضرت یعقوب ( علیہ السلام) کا لقب ” اسرائیل “ (اللہ کا بندہ) تھا اور آپ ( علیہ السلام) کے بارہ بیٹوں کی اولاد سے بارہ قبیلے وجود میں آئے جو بنی اسرائیل کہلائے۔ قرآن حکیم میں بنی اسرائیل کو فضیلت سے نوازے جانے کا ذکر تکرار سے آیا ہے۔ اس فضیلت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ان کے ہاں نبوت کا وہ سلسلہ جو دو پیغمبروں (حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ) سے شروع ہوا ‘ چودہ سو برس تک بغیر کسی وقفے اور انقطاع کے جاری رہا۔ اس دوران ان کے ہاں پے در پے نبی آئے اور نبوت کی کڑی کے ساتھ کڑی یوں ملتی گئی کہ ایک مسلسل زنجیر بن گئی۔ پھر جس طرح اس زنجیر کا آغاز دو پیغمبروں سے ہوا تھا اسی طرح اس کا اختتام بھی دو پیغمبروں یعنی حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہوا۔ بہر حال جتنے انبیاء بنی اسرائیل کی طرف آئے ‘ دنیا میں کسی اور قوم کی طرف اتنے انبیاء نہیں آئے۔ اقوامِ عالم پر بنی اسرائیل کی یہ فضیلت آج بھی قائم ہے۔ بنی اسرائیل کے حوالے سے ہمارے لیے اصل سمجھنے کی بات یہ ہے کہ وہ لوگ جب دین کی طرف پیٹھ پھر کر ‘ دنیا میں منہمک ہوگئے ‘ عیاشیوں میں پڑگئے اور آخرت کو بھول گئے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے فضیلت کی حامل اس قوم پر ذلت اور مسکنت تھوپ دی گئی : { وَضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ } اور اس فیصلے کا اعلان قرآن میں دو مرتبہ ( البقرۃ : ٦١ اور آلِ عمران : ١١٢) کیا گیا۔ چناچہ بنی اسرائیل تاریخ میں آج ہمارے لیے عبرت کا سامان ہے۔ ہم پر بھی اللہ تعالیٰ نے اپنا خصوصی فضل اور احسان فرمایا کہ ہمیں اس نے اپنے آخری رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت بنایا اور اپنی آخری کتاب سے نوازا۔ مگر ہم نے بھی جب دین کی طرف سے پیٹھ پھیرلی اور آخرت کو بھول کر دنیا ہی کو اپنا اوڑھنا ‘ بچھونا بنا لیا تو ہمارے حصے میں بھی ویسی ہی ذلت و مسکنت آئی۔ چناچہ آج دنیا میں ڈیڑھ سو کروڑ مسلمان ہیں مگر اقوامِ عالم کے درمیان ان کی حیثیت یہ ہے کہ ع ” کس نمی پر سد کہ بھیا کیستی ؟ “ آج بین الاقوامی معاملات کے بارے میں کسی بھی فورم پر مسلمان ممالک کی رائے پوچھنے کی زحمت تک نہیں کی جاتی۔ بلکہ اب تو مسلمانوں کے اپنے معاملات کی باگ ڈور بھی غیروں کے ہاتھوں میں ہے۔ اس موضوع پر مزید معلومات کے لیے میری انگریزی تقریر Turmoil in Muslim Ummah سے استفادہ کیا جاسکتا ہے ‘ جبکہ اردو میں تو اس موضوع پر میری بہت سی تقاریر دستیاب ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

20 Hukm (judgement) implies three things: (1) Knowledge and understanding of the Book and Religion; (2) wisdom to act according to the intention of the Book; and (3) capability to give right decisions in disputes. 21 It does not mean that they were given preference over all the people of the world for ever, rather it means: Allah had chosen the children of Israel from among all the contemporary nations of the world for the service that they should hold fast to the Divine Book and should rise as the standard-bearers of God-worship in the world.

سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :20 حکم سے مراد تین چیزیں ہیں ۔ ایک ، کتاب کا علم و فہم اور دین کی سمجھ ۔ دوسرے ، کتاب کے منشا کے مطابق کام کرنے کی حکمت ۔ تیسرے ، معاملات میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت ۔ سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :21 یہ مطلب نہیں ہے کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے انہیں تمام دنیا والوں پر فضیلت عطا کر دی ، بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ اس زمانے میں دنیا کی تمام قوموں میں سے بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے اس خدمت کے لیے چن لیا تھا کہ وہ کتاب اللہ کے حامل ہوں اور خدا پرستی کے علمبردار بن کر اٹھیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٦۔ ٢٠۔ صحیح بخاری ١ ؎ میں خباب (رض) بن الارت سے روایت ہے کہ جس کا حاصل یہ ہے خباب نے مشرکین مکہ کی سختیوں سے تنگ آ کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا گھبراؤ نہیں اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ ضرور پورا کرے گا اس حدیث کو آیتوں کے ساتھ ملانے سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے کہ جس زمانہ میں یہ مکی آیتیں نازل ہوئی ہیں اس زمانہ میں اہل اسلام مشرکوں کے ہاتھ سے ایسے تنگ تھے جیسے کسی زمانہ میں فرعون اور اس کی قوم کے ہاتھ سے بنی اسرائیل تنگ آگئے تھے اسی واسطے ان آیتوں میں بنی اسرائیل کی راحت کی باتوں کا ذکر فرما کر مسلمانوں کو یہ تسلی دی گئی ہے کہ جس طرح بنی اسرائیل کا تکلیف کا زمانہ راحت کے زمانہ سے اللہ تعالیٰ نے بدل دیا رفتہ رفتہ یہی حالت مسلمانوں کو بھی پیش آنے والی ہے لیکن راحت کے زمانہ میں انسان کا دین پر پورا قائم رہنا بہت مشکل ہے یہود کا حال دیکھنے کے قابل ہے کہ انہوں نے راحت کے زمانہ میں کیا کیا آپس میں پھوٹ ڈال کر ایک توراۃ کی کئی توراتیں بنا ڈالیں توراۃ کے قائم رکھنے والے انبیا سے بدسلوکی کے ساتھ پیش آئے مسلمانوں کو راحت کے زمانہ میں ایسی باتوں سیب چنا چاہئے اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں جو نصیحت مسلمانوں کو مختصر طور پر فرمائی تھی اللہ کے رسول نے وہی نصیحت کھلے لفظوں میں فرمائی ہے چناچہ صحیح بخاری ٢ ؎ و مسلم کے حوالہ سے عمرو (رض) بن عوف انصاری کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھ کو اپنی امت کی تنگ حالی کے زمانہ کا کچھ اندیشہ نہیں ہے اندیشہ تو اس زمانہ کا کہ پہلی امتوں کی طرح ان میں خوشحالی آجائے اور وہ خوشحالی ان کو پہلی امتوں کی طرح خرابی میں ڈال دے جب تک راحت کے زمانہ میں اللہ اور اللہ کے رسول کی اس نصیحت کو مسلمانوں نے پیش نظر رکھا اچھے رہے پھر حضرت عثمان کی خلافت کے زمانہ سے جو مسلمانوں میں آپس کی پھوٹ شروع ہوئی تو اس کا اثر آج تک باقی ہے ‘ یہ عثمان کی شہادت کا واقعہ ٣٥ ہجری میں ہوا ‘ ان آیتوں میں جو کچھ ارشاد ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ اے رسول اللہ کے اللہ نے بنی اسرائیل کو توراۃ نبوت اور توراۃ کے موافق فیصلے کرنے کے لئے بادشاہت اور حکومت دی لیکن ان میں سے توراۃ کے عالم آپس کی ضد سے جاہل بن گئے اور آپس کی پھوٹ کے سبب سے انہوں نے اس طرح ایک توراۃ کی کئی توراتیں بنا ڈالیں کہ ان میں کا ایک فرقہ دوسرے فرقے کی توراۃ کو نہیں مانتا۔ پھر فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کی اس بےجا پھوٹ کا پورا فیصلہ کر دے گا ‘ پھر فرمایا جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ نے توراۃ نازل فرمائی اسی طرح اسے رسول اللہ کے اللہ تعالیٰ نے تم پر قرآن نازل فرمایا ہے مشرکین مکہ تم کو اور مسلمانوں کو بڑے بوڑھوں کے طریقے کے چھوڑ دینے کا طعنہ جو دیتے ہیں یہ ان کی نادانی ہے ان کے اصل تو ابراہیم (علیہ السلام) ہیں جو بچپنے میں بھی شرک سے بیزار تھے اس لئے تم کو اور مسلمانوں کو قرآن کی نصیحت پر چلنا چاہئے عمرو بن لحی کے زمانہ سے جو ان مشرکوں کے گمراہ بڑے بوڑھے پیدا ہوئے وہ اپنے کسی چھوٹے کو اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکتے اس واسطے ان مشرکوں کی تراشی ہوئی باتیں سننے کے قابل نہیں ہیں ‘ اگر ان کے بڑے ان مشرکوں کے رفیق ہیں تو قرآن کی نصیحت پر عمل کرنے والوں کا اللہ رفیق ہے پھر فرمایا قرآن میں اگرچہ سراپا ہدایت کی باتیں ہیں جن باتوں پر عمل کرنے سے آدمی اللہ کی رحمت کے قابل ہوجاتا ہے لیکن قرآن کی نصیحت سے وہی لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو اللہ کے علم غیب میں نیک ٹھہر چکے جس سے ان کے دل میں ایک دن اللہ کے رو برو کھڑے ہونے اور حساب و کتاب کا پورا یقین ہے جو لوگ اللہ کے علم غیب میں بد قرار پا چکے ہیں ان کو مرتے دم تک قرآن کی نصیحت سے کچھ فائدہ نہیں ہوسکتا۔ صحیح بخاری ١ ؎ و مسلم کے حوالہ سے ابو موسیٰ اشعری کی حدیث اوپر گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کی نصیحت کی مثال مینہ کے پانی کی اور اچھے برے لوگوں کی مثال اچھی بری زمین کی بیان فرمائی ہے۔ یہ حدیث آخری آیت کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کے علم غیب میں نیک ٹھہر چکے ہیں ان کو قرآن کی نصیحت سے ویسا ہی فائدہ ہوتا ہے جس طرح اچھی زمین کو مینہ کے پانی سے فائدہ پہنچتا ہے اور جو لوگ اللہ کے علم غیب میں بد قرار پا چکے ہیں ان کے حق میں قرآن کی نصیحت ایسی رائیگاں ہے جس طرح بری زمین میں مینہ کا پانی رائیگاں جاتا ہے یہ جو فرمایا کہ بنی اسرائیل کو ستھری چیزیں کھانے کو دیں اس میں من سلویٰ مصر کے فرعون کے باغ وہاں کی کھیتی اور ملک شام کی کھیتی سب چیزیں داخل ہیں توراۃ کا علم نبوت بادشاہت کا دبدبہ جو بنی اسرائیل میں تھا اس وقت کی کسی قوم میں یہ باتیں نہیں تھیں اسی واسطے فرمایا اس وقت جو لوگ جہان میں تھے ان سب پر بنی اسرائیل کو فضیلت حاصل تھی یہ جو فرمایا کہ بنی اسرائیل کو دین کی کھلی کھلی باتیں دی گئی تھیں اس کا مطلب یہی ہے کہ توراۃ میں دین کی کھلی کھلی باتیں تھیں اور توراۃ کے بڑے بڑے عالم بنی اسرائیل میں تھے۔ (١ ؎ بخاری شریف باب مابقی النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واحصابہ من المشرکین ص ٥٤٣ ج ١۔ ) (٢ ؎ صحیح بخاری باب کتاب الرقاق باب مایحذر من زھرۃ الدنیا الخ ) (١ ؎ تفسیر ہذا جلد ہذا ص ٢٠٠۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(45:16) الکتب : ای التورۃ۔ الحکم : حکم یحکم کا مصدر ہے کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنا۔ یہاں بمعنی اللہ کے احکام کا علم۔ فضلنھم : فضلنا ماضی جمع متکلم۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب۔ تفضیل (تفعیل) مصدر۔ ہم نے ان کو فضیلت عطا کی۔ علی العلمین : عالمین جمع عالم کی۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا سب مخلوقات کو عالم کہتے ہیں ایسی مخلوق کے تعدد کی بنا پر جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ ای علی عالمی زمانھم۔ ان کے زمانے کے عالمین پر۔ الطیب لذیز حلال کھانے کی چیزیں۔ جیسے من وسلوی وغیرہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 حکمت سے مراد کتاب کا علم و فہم اور دین کی سمجھ ہے اور حکومت سے مراد لوگوں کے درمیان کتاب کے مطابق عدل و انصاف سے فیصلے کرنے کی صلاحیت …دینے سے مراد ان کے درمیان بہت سے پیغمبر بھیجتا۔ (فتح) 2 ” اپنے زمانے میں “ کی شرط اس لئے ضروری ہے کہ مطلق طور پر سب سے زیادہ فضیلت (بزرگی) والی امت امت مسلمہ ہے۔ جیسا کہ فرمایا :” کنتم خیر امۃ اخرجت للناس “ تم سب سے بہتر امت ہو جو لوگوں کی ہدایت کے لئے پیدا کی گئی ہو (آل عمران 110)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 16 تا 21 : شریعۃ (راستہ ، طریقہ) بصائر ( سمجھ کی باتیں) یوقنون (وہ یقین رکھتے ہیں) اجتر حوا ( انہوں نے کمایا) تشریح : آیت نمبر 16 تا 21 : فرمایا کہ ہم نے بنی اسرائیل کو بیشمار نعمتوں سے نوازا تھا مگر انہوں نے آپس کی ضد بندی ، اختلافات اور نا شکری کا ایسا انداز اختیار کیا کہ انکی ساری عظمتوں کو چھین کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام کے حوالے کردیا گیا ۔ فرمایا کہ بنی اسرائیل کو توریت جیسی روشن ومنور کتاب ، سیکڑوں سال تک حکومت و اقتدار ، ہزاروں نبی اور رسول ، مال و دولت ، زندگی گزارنے کے بیشمار وسائل اور ذرائع اور بہترین طریقے سکھائے گئے تھے جن کے ذریعہ اگر وہ چاہتے تو اپنی دنیا اور آخرت سنوار لیتے ، خود بھی راہ حق پر چلتے اور دوسروں کو بھی اس سچائی کے راستے پر ڈال سکتے تھے لیکن مال و دولت اور دنیا کی محبت نے انہیں دنیا داری کے دھندوں میں پھنسا دیا تھا۔ علم و فہم رکھنے کے باوجود فرقہ پرستی ، ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کی آرزو اور ضد بندی نے انہیں مختلف گروہوں میں تقسیم کردیا تھا جس سے انہوں نے اپنی دنیا اور آخرت دونوں کو اپنے ہاتھوں برباد کر ڈالا ۔ باہمی اختلافات کی وجہ سے اس وقت کی معلوم دنیا میں ہر طرف فساد اور ابتری کو پھلا دیا جس سے ہر شخص امن و سکون کی دولت سے محروم ہو کر رہ گیا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بیشک ان کے باہمی اختلافات کا فیصلہ تو قیامت کے دن کردیا جائے گا جو ان سے دور نہیں ہے لیکن اہل ایمان کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ وہ آپس کے اختلافات کو ہوا نہ دیں کہ جس سے بھی گروہ بندیوں اور لڑائی جھگڑوں میں پھنس کر بنی اسرائیل جیسے انجام سے دو چار ہوجائیں ۔ نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا جا رہے کہ بنی اسرائیل تو دین کے سچے راستے کو بھول کر خواہشوں کے غلام ہوچکے ہیں ۔ ہم نے آپ کو ایک صاف شفاف دین اور آپ کی امت کو خیر امت بنا کر ساری انسانیت کی رہبری و رہنمائی کی ذمہ داری سپرد کردی ہے اب آپ کا اور آپ کی امت کا یہ فرض ہے کہ بھٹکی ہوئی انسانیت کو دین کے صاف شفاف راستے پر لے کر چلیں ۔ جو لوگ اس راستے کو اختیار کریں گے ان کو دنیا کی عظمتیں اور آخرت کی ابدی راحتیں عطاء کی جائیں گی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ لوگ اپنی غلط فہمیوں کو دور کرلیں جن کا یہ خیال ہے کہ وہ جس طرح دنیا میں عیش و آرام کی زندگی گزار رہے ہیں اسی طرح وہ اپنی بد عملیوں اور نا فرمانیوں کے باوجود آخرت کی تمام نعمتوں میں بھی عیش کریں گے۔ فرمایا کہ اللہ کے عدل و انصاف کے قانون کے خلاف ہے کہ وہ اچھے اور برے ، فرماں بردار اور نافرمان ، نیک اور گناہ گار دونوں کے ساتھ یکساں اور ایک جیسا معاملہ فرمائیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نیک ، پرہیز گار اور فرماں برداروں کو جنت کی ابدی راحتیں عطاء فرمائیں گے اور جو لوگ بد کردار فاسق اور فاجر اور اللہ کے نافرمان ہیں ان کو جہنم کی ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی میں ان پر عذاب مسلط فرمائیں گے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم نے آپ کو دین کے بہترین راستے پر قائم کیا ہے۔ آپ اسی کی اتباع کیجئے۔ اور ان لوگوں کی کوئی بات نہ مانئے جو نادان ہیں کیونکہ وہ اللہ کے مقابلے میں آپ کے کسی کام نہ آسکیں گے ۔ فرمایا کہ ظالم آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں لیکن اللہ ان کا دوست ہے جو تقویٰ کی زندگی اختیار کرتے ہیں ۔ فرمایا کہ یہ قرآن کریم ان لوگوں کے لئے روشنی و ہدایت اور رحمت ہے جو یقین کی دولت سے مالا مال ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جن لوگوں نے ایام اللہ کی پرواہ نہ کی ان میں بنی اسرائیل بھی شامل ہیں۔ قرآن مجید نے جن اقوام کے حالات اور واقعات سب سے زیادہ بیان کئے گئے ہیں ان میں سرفہرست بنی اسرائیل ہیں۔ بنی اسرائیل پر فرعون نے مظالم کی انتہا کر رکھی تھی۔ فرعون ان کے مردوں کو قتل کرتا اور ان کی بہوبیٹیوں کو باقی رہنے دیتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو فرعون کے عذاب اور اس کی غلامی سے نکالنے کے لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کو رسول منتخب کیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے عظیم اور طویل جدوجہد کی جس کے نتیجہ میں فرعون اور اس کے ساتھی غرق ہوئے اور بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے نجات عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد کئی صدیوں تک بنی اسرائیل کو کتاب، حکومت، نبوت اور رز قِ حلال کی فراوانی سے سرفراز فرمایا اور بنی اسرائیل کو طویل عرصہ تک پوری دنیا میں عزت و عظمت کے ساتھ ہمکنار کیا۔ انہیں راہ راست پر لانے اور اس پر قائم رکھنے کے لیے بڑے بڑے معجزات دکھلائے اور ٹھوس دلائل کے ساتھ ان کی راہنمائی فرمائی۔ مگر یہ قوم بغاوت اور سرکشی ہی اختیار کرتی رہی۔ جس کا بنیادی سبب ان کا مفاد اور آپس میں حسد وعناد تھا۔ آپ کا رب قیامت کے دن یقیناً ان کے اختلافات کا فیصلہ کرے گا۔ کسی قوم کی راہنمائی اور سربلندی کے لیے چار چیزیں ناگزیر ہوتی ہیں۔ اگر قوم اخلاص نیت اور پوری ہمت کے ساتھ ان باتوں کا خیال رکھے تو وہ صدیوں تک لوگوں پر اپنی عظمت اور سطوت کا سکہ جما سکتی ہے۔ 1 ۔ قوم کی راہنمائی کے لیے آسمانی کتاب کا اصلی حالت میں موجود ہونا۔ 2 اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کی صورت میں قیادت کا پایا جانا۔ 3 اقتدار اور اختیار کا حاصل ہونا۔ 4 رزق حلال اور جائز وسائل کی فراوانی ہونا۔ جس قوم کے پاس یہ چار چیزیں موجود ہوں وہ دنیا میں ضرور عزت کی مالک ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو صدیوں تک یہ نعمتیں عطا فرمائیں۔ مگر انہوں نے ہر دور میں اپنے انبیاء کا مذاق اڑایا اور حق بات کے ساتھ اختلاف کیا اور حسد وبغض کا شکار ہوئے۔ جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے انہیں ہمیشہ کے لیے مغضوب قرار دیا اور حضرت داود (علیہ السلام) اور عیسیٰ ( علیہ السلام) کی زبان سے ان پر لعنت برسائی۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو الکتاب، حکومت، نبوت اور وا فرمقدار میں رزق حلال عطا فرمایا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ہزاروں سال لوگوں پر عزت و عظمت عطا فرمائی۔ ٣۔ بڑے بڑے معجزات دیکھنے اور واضح دلائل پانے کے باوجود بنی اسرائیل حسد وبغض کا شکار ہوئے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن انبیاء اور حق کے ساتھ اختلاف کرنے کی وجہ سے بنی اسرائیل کا انجام : ١۔ اللہ تعالیٰ کے گستاخ ہوئے۔ (آل عمران : ١٨١) ٢۔ انبیاء کے قاتل اور گستاخ ٹھہرے۔ (آل عمران : ٢١) ٣۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کے انکاری ہیں۔ (البقرۃ : ٦١) ٤۔ شرک کی وجہ سے ذلیل ورسوا ہوئے۔ (المائدۃ : ١٨) ٥۔ اللہ تعالیٰ کی حکم عدولی کی وجہ سے رسوا ہوئے۔ (البقرۃ : ٨٣ تا ٨٥) ٦۔ کتاب اللہ میں تحریف کرنے کی وجہ سے خوار ہوئے۔ (النساء : ٤٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ١٦ تا ٢٠ اسلام سے قبل تحریک اسلامی کی قیادت بنی اسرائیل کے پاس تھی۔ آسمانی ہدایت اور عقیدہ کے حامل یہی تھے۔ اور اللہ نے اس دور کے لئے یہ مشن ان کے سپرد کردیا تھا ۔ کیونکہ انسانیت کے لئے ہر دور میں آسمانی رہنمائی کی ضرورت رہی ہے۔ اس لیے کہ زمین کے اندر جو بھی قائدین رہے ہیں وہ خواہشات نفسانیہ کے پیروکار ، جاہل اور تقصیرات سے پر رہے ہیں اس لیے وہ انسانوں کے لئے جو قانون اور شریعت بناتے رہے ہیں۔ وہ ایسی ہی تقصیر رہی۔ اللہ تعالیٰ نے چونکہ انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ اس لیے اللہ کی شریعت ہی ایسی ہو سکتی ہے جو جہل ، ذاتی خواہشات اور تقصیرات سے پاک ہو سکتی ہے۔ اس لئے کہ سب لوگ اللہ کے بندے ہیں۔ اللہ کسی کا حامی اور کسی کا مخالف نہیں ہے۔ اور اللہ جہل قصور اور خواہشات سے پاک ہے۔ وہ زیادہ جانتا ہے اور لطیف وخبیر ہے۔ ولقد اتینا ۔۔۔۔۔۔ والنبوۃ (٤٥ : ١٦) “ اس سے پہلے بنی اسرائیل کو ہم نے کتاب ، حکم اور نبوت عطا کی تھی ”۔ تورات ان کو دی گئی جس میں اللہ کی شریعت تھی۔ اور اس میں یہ احکام تھے کہ شریعت کو قائم کرو اور موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد بھی نبوت اور حکومت ان میں جاری رہی کہ شریعت کو قائم کرو اور ان کے اندر دوسری اقوام کے مقابلے میں بیشمار نبی بھیجے گئے۔ ورزقنھم من الطیبت (٤٥ : ١٦) “ ان کو ہم نے عمدہ سامان زیست سے نوازا ”۔ ان کی حکومتیں اور ان کی نبوتیں ارض مقدس تک محدود رہیں۔ یہ سر زمین فرات اور نیل کے درمیان ایک پاک سرزمین تھی۔ وفضلنھم علی العلمین (٤٥ : ١٦) “ اور دنیا بھر کے لوگوں پر ان کو ہم نے فضیلت عطا کی ”۔ اس مرکزی مقام پر ربانی ہدایت کے حامل ہونے کے ناتے اس وقت یہ تمام عالم پر برتر قوم تھے اور ان کی افضیلت کی بڑی دلیل یہ تھی کہ وہ حاملین شریعت تھے اور ان کو حکومت اور نبوت دی گئی تھی۔ واتینھم بیت من الارمر (٤٥ : ١٧) “ اور دین کے معاملے میں انہیں واضح ہدایات دے دیں ”۔ جو شریعت انہیں دی گئی وہ دو ٹوک اور حق و باطل کے درمیان فیصلہ کرنے والی تھی۔ اس میں کوئی بات ناقابل فہم ، پیچیدہ ، ٹیٹرھی اور صحیح راہ سے منحرف نہ تھی۔ اس لیے انہوں نے اس شریعت کو جو اختلافات کئے اور فرقے بنے اس کا کوئی جواز نہ تھا۔ انہوں نے جو تفرقہ کیا اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ وہ شریعت اور دین سمجھے نہ تھے یا یہ کہ وہ جاہل تھے اور انہیں صحیح بات اور حق معلوم نہ تھا۔ فما اختلفوا الا من بعد ما جاءھم العلم (٤٥ : ١٧) “ پھر جو اختلافات ان کے درمیان واقع ہوئے وہ جانتے ہوئے کئے گئے۔ ان کے درمیان حد درجہ حسد اور بغض پیدا ہوگیا تھا۔ اور باہم نزاع اور ایک دوسرے پر مظالم ڈھاتے ہوئے یہ اختلافات کئے گئے ، باوجود اس بات کے کہ وہ صحیح بات جانتے تھے ”۔ بغیابینھم (٤٥ : ١٧) “ اس بنا پر ہوا کہ آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنا چاہتے تھے ”۔ یوں زمین پر ان کی قیادت ختم ہوگئی اور اللہ نے ان کو جو خلافت ارضی عطا کی تھی ان سے چھین لی گئی اور اختلافات کا آخری فیصلہ تو اللہ کرے گا۔ ان ربک یقضی۔۔۔۔۔ فیہ یختلفون (٤٥ : ١٧) “ اللہ قیامت کے روز ان معاملات کا فیصلہ فرمائے گا جن میں وہ اختلافات کرتے رہے ہیں ”۔ اس کے بعد اللہ نے رسالت جدیدہ کو خلافت ارضی کا مقام عطا فرمایا ، جو قوم کو اللہ کی شریعت کی طرف لوٹائے گی اور تمام معاملات میں اللہ کی قیادت اور برتری قائم کرے گی۔ اور دنیا میں اللہ کی شریعت کے مطابق نظام قائم کرے گی ، بندوں کی خواہشات کے مطابق نہیں۔ ثم جعلنک علی ۔۔۔۔۔ لا یعلمون (٤٥ : ١٨) “ اس کے بعد اب اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، ہم نے تم دین کے معاملہ میں ایک صاف شاہراہ پر قائم کیا لہٰذا تم اسی پر چلو اور ان لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو ، جو علم نہیں رکھتے ”۔ یوں یہ معاملہ بالکل صاف ہوجاتا ہے یا تو اللہ کی شریعت ہوگی یا ان لوگوں کی خواہشات ہوں گی جو نہیں جانتے۔ تیسری کوئی صورت نہیں ہے۔ یا تو سیدھی اور مستقیم شریعت اور شاہراہ ہے اور یا پھر لوگوں کی بدلتی ہوئی خواہشات ہیں۔ اور ان کے درمیان تیسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔ جو قوم شریعت کو چھوڑتی ہے ، وہ اپنی خواہشات کی پوجا کرتی ہے کیونکہ شریعت کے سوا جو بھی ہے وہ ان لوگوں کی ہوا وہوس ہے جو نہیں مانتے۔ اللہ تعالیٰ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس بات سے ڈراتا ہے کہ آپ ان لوگوں کی خواہشات کی اطاعت نہ کریں جو نہیں جانتے۔ اگر آپ نے یہ کام کیا تو یہ لوگ اللہ کے مقابلے میں آپ کو کوئی فائدہ نہ دے سکیں گے۔ یہ لوگ تو ایک دوسرے کے ساتھ دوستی کرتے ہیں۔ اگر اللہ کے دین اور شریعت کو نہ ماننے والے یہ لوگ ایک دوسرے کے جگری دوست بھی بن جائیں اور ایکا بھی کرلیں تو بھی یہ آپ کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتے۔ کیونکہ اے پیغمبر آپ کے مولیٰ تو اللہ ہے۔ انھم لن یغنوا ۔۔۔۔۔۔۔ ولی المتقین (٤٥ : ١٩) “ اس کے بعد اے نبی ہم نے تم دین کے معاملہ میں ایک صاف شاہراہ (شریعت) پر قائم کیا ہے۔ لہٰذا تم اس پر چلو اور ان لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو جو علم نہیں رکھتے۔ اللہ کے مقابلے میں وہ تمہارے کچھ بھی کام نہیں آسکتے ۔ ظالم لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ہیں اور متقیوں کا ساتھی اللہ ہے ”۔ یعنی ایک طرف شریعت ہے جو علم و حکمت پر مبنی ہے اور دوسری جانب خواہشات نفسانیہ ہیں جو جہالت پر مبنی ہیں اور جاہلیت ہیں۔ ایک داعی کو چاہئے کہ وہ شریعت کا اتباع کرے اور ساری ذاتی خواہشات کو چھوڑ دے۔ داعی کا فرض ہے کہ وہ شریعت سے ادھر ادھر نہ ہو کیونکہ ذاتی خواہشات رکھنے والے لوگ اللہ کے مقابلے میں کوئی مدد نہیں دے سکتے۔ وہ تو داعی کے مخالف ہوتے ہیں اور سب مل کر مخالفت کرتے ہیں اور وہ شریعت کی مخالفت میں ایک دوسرے کے ممدو معاون ہوتے ہیں ، لہٰذا داعی کو ظالموں اور جاہلوں سے کوئی توقع نہیں رکھنی چاہئے۔ پھر یہ کہ یہ ظالم کسی داعی کی مدد بھی نہیں کرسکتے کیونکہ یہ تو ان کی خواہشات کے خلاف ہے لیکن وہ اس قدر کمزور ہوتے ہیں کہ وہ سچے داعی کو نقصان بھی نہیں پہنچا سکتے۔ کیونکہ داعی کا والی وارث اللہ ہوتا ہے اور جس کا والی وارث اللہ ہو ، اس کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا۔ اور انسان ضعیف کمزور ہوتے ہیں ، جن کی کوئی قوت نہیں ہوتی جبکہ اللہ کے دوست مسلمان ہوتے ہیں اور وہ قوی ہوتے ہیں۔ اس فیصلہ کن بیان پر مزید تبصرہ یہ ہے کہ قرآن دو ٹوک اور فیصلہ کن باتیں کرتا ہے اور قرآن کی ان دوٹوک باتوں سے یقین نصیب ہوتا ہے جو انسان کو بصیرت اور ہدایت دیتا ہے۔ ھذا بصائر ۔۔۔۔۔ لقوم یوقنون (٤٥ : ٢٠) “ یہ بصیرت کی روشنیاں ہیں سب لوگوں کے لئے اور ہدایت اور رحمت ان لوگوں کے لئے جو یقین لائیں ”۔ قرآن کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ یہ لوگوں کے لئے بصیرت ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ قرآن کے اندر گہری بصیرت ہے اور روشنی ہے۔ قرآن بذات خود بصیرت اور رونی ہے جس طرح بصیرت اور روشنی انسانوں کے لئے دیکھنے اور سمجھنے کا ذریعہ ہوتے ہیں تو قرآن بذات خود بصیرت وہدایت ہے اور یہ بذات خود رحمت ہے ، لیکن قرآن کے اندر یہ صفات تب نظر آئیں گی اور اس سے یہ فوائد تب حاصل ہوں گے جب کسی کے اندر ذوق یقین پیدا ہو۔ انسان کے اندر اس قدر یقین ہوجائے جس کے اندر شک کا شبہ ہی نہ ہو۔ اس کے اندر کوئی بےچینی نہ ہو ، اور دل میں کوئی خلش نہ ہو۔ جب قلب کو یقین حاصل ہوجائے اور اسے پورا وثوق حاصل ہوجائے تو ان کے اندر پھر کوئی تزلزل نہیں ہوتا۔ وہ پھر شف شف نہیں کرتا۔ ادھر ادھر نہیں ڈولتا ، اس کی راہ پھر واضح ہوجاتی ہے۔ اسے اپنی منزل دور افق پر بلند نظر آتی ہے ۔ اس کا مقصد متعین ہوجاتا ہے۔ طریق کار متعین اور استوار ہوجاتا ہے۔ اب پھر قرآن اس کے لئے نور بصیرت بن جاتا ہے ، ہدایت بن جاتا ہے اور رحمت بن جاتا ہے بشرطیکہ یقین محکم ہو۔ اس بیان کے بعد کہ ظالم ایک دوسرے کے دوست ہیں اور اللہ متقین کے ولی ہیں۔ اور یہ کہ قرآن مجید کے لئے نور بصیرت ہے اور یقین کرنے والوں کے لئے ہدایت و رحمت ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ جو لوگ برائیوں کا ارتکاب کرتے ہیں اور جو لوگ نیک کام کرتے ہیں ، یعنی مومن ان کے درمیان بنیادی فرق ہے اور اللہ کے ہاں دونوں کا ایک مقام نہیں ہو سکتا۔ نہ دونوں کا ایک جیسا فیصلہ ہو سکتا ہے ۔ اللہ کے ترازو میں دونوں کے درمیان فرق ہے۔ اللہ نے آسمانوں اور زمین کے اس نظام کو حق اور عدل پر قائم کر رکھا ہے۔ اور اس کائنات کے نقشے میں سچائی بنیادی اور اساسی عنصر ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

بنی اسرائیل پر طرح طرح کے انعامات، کتاب حکم اور نبوت سے سرفراز فرمانا، طیبات کا عطیہ، اور جہانوں پر فضیلت یہ دو آیات کا ترجمہ ہے پہلی آیت میں ارشاد فرمایا کہ ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب دی اور حکم دیا۔ بعض حضرات نے حکم کا ترجمہ فقھہ فی الدین کیا ہے اور بعض حضرات نے اس سے حکمتیں مراد لی ہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں نبوت بھی دی یعنی ان میں کثرت سے نبی بھیجے سورة مائدہ میں فرمایا ﴿ وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ يٰقَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ جَعَلَ فِيْكُمْ اَنْۢبِيَآءَ وَ جَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا ١ۖۗ وَّ اٰتٰىكُمْ مَّا لَمْ يُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ ٠٠٢٠﴾ (اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اے میری قوم ! تم اللہ کے انعام کو جو تم پر ہوا ہے یاد کرو جبکہ اللہ تعالیٰ نے تم میں سے بہت سے پیغمبر بنائے اور تم کو صاحب ملک بنایا اور تم کو وہ چیزیں دیں جو دنیا جہان والوں میں سے کسی کو نہیں دیں۔ ) ﴿وَ رَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ ﴾ (اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزیں دیں) یعنی عمدہ اور حلال اور لذت والی چیزیں عطا فرمائیں ﴿ وَ فَضَّلْنٰهُمْ عَلَى الْعٰلَمِيْنَۚ٠٠١٦﴾ (اور ہم نے انہیں جہانوں پر فضیلت دی ان کے زمانہ میں جو لوگ تھے بنی اسرائیل کو ان پر فضیلت عطا فرمائی۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

11:۔ ” ولقد اتینا “ تا ” یختلفون “ یہ توحید پر دلیل نقلی ہے۔ ہم نے بنی اسرائیل کو ایک عظیم الشان کتاب (تورات) عطا فرمائی اور ان میں بادشاہ پیدا کیے جو لوگوں پر حکم چلاتے اور ان کے امور و معاملات کے فیصلے کرتے تھے اور ہم نے ان میں بہت سے انبیاء (علیہم السلام) مبعوث کیے جو تورات ہی کے مطابق اپنی امتوں کو تبیغ کرتے اور دین کی تعلیم دیتے تھے تورات جو تمام انبیاء بنی اسرائیل کے لیے دستور العمل تھی اس میں ہم نے یہی حکم دیا تھا کہ میرے سوا کسی کو کارساز نہ بنانا۔ ” واتینا موسیٰ الکتب وجعلنہ ھدی لبنی اسرائیل ان لا تتخذوا من دونی وکیلا “ (بنی اسرائیل رکوع 1) ۔ 12:۔ ” ورزقناھم “ بنی اسرائیل پر ہم نے پایاں احسانات کیے۔ انواع و اقسام کی حلال اور حوشگوار روزی عطاء کی جیسا کہ من وسلوی وغیرہ اور اس وقت کی تمام اقوام عالم پر ان کو روحانی اور مادی لحاظ سے فوقیت دی۔ ” واتینہم بینت من الامر “ اور دین کے معاملے میں ہم نے ان کو واضح دلائل وبراہین دے کر امور دین کو خوب روشن کردیا۔ لیکن دین کے واضح علم کے باوجود بعد میں دنیا پرست علماء نے محض حسد وعناد کی وجہ سے تورات کی اصل تعلیم (توحید) کو بدل ڈالا اور بنی اسرائیل میں توحید کے بارے میں اختلاف کی ایک وسیع خلیج پیدا کردی اور ہر فریق اپنے باطل نظریات کو برحق قرار دینے لگا۔ اس اختلاف کا آخری فیصلہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان باطل پرستوں کو جہنم میں ڈال کر فرمائے گا۔ یعنی ان کا آخری فیصلہ عذاب جہنم ہوگا اب بھی آخری کتاب قرآن مجید نازل ہوچکا ہے جس میں مسئلہ توحید دلائل عقل و نقل اور وحی سے مدلل، واضح اور روشن ہوچکا ہے اس لیے اب جو لوگ اس مسئلہ میں اختلاف کریں گے وہ بھی محض حسد و ضد اور عناد و مکابرہ کی وجہ سے کریں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(16) اور بلاشبہ ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب اور دانش مندی اور نبوت عطا فرمائی تھی اور ہم نے ان کو عمدہ عمدہ چیزیں کھانے کو دی تھیں اور ہم نے ان کو اقوام عالم پر برتری اور فضیلت عطا فرمائی تھی۔ حکم کے بہت سے معنی کئے گئے ہیں حکمت فقر اور صحیح سمجھ فیصلہ خصومات۔ حکومت ہم نے ترجمہ اور تیسیر میں سب کی رعایت رکھی ہے فیصلہ خصومات میں بادشاہت بھی آجاتی ہے۔ چھٹے پارے میں فرمایا اذجعل فیکمانبیاء وجعلکم ملوکا۔ انبیا کا سلسلہ بھی ان میں بکثرت رہا اور بادشاہ بھی بہت ہوئے عمدہ اور نفیس روزی سے شاید من اور سلویٰ کی طرف اشارہ ہو یا ملک شام کے میوے اور وہاں کی برکات ہوں۔ اقوام عالم سے مراد اسی زمانے کی اقوام ہوسکتی ہے بہرحال نبوت کوئی تعجب کی چیز نہیں اب اگر محمد کو رسول بنا کر بھیجا ہے تو اس پر کیوں تعجب کرتے ہو۔