Surat ul Jasiya

Surah: 45

Verse: 20

سورة الجاثية

ہٰذَا بَصَآئِرُ لِلنَّاسِ وَ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃٌ لِّقَوۡمٍ یُّوۡقِنُوۡنَ ﴿۲۰﴾

This [Qur'an] is enlightenment for mankind and guidance and mercy for a people who are certain [in faith].

یہ ( قرآن ) ان لوگوں کے لئے بصیرت کی باتیں اور ہدایت و رحمت ہے اس قوم کے لئے جو یقین رکھتی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

هَذَا بَصَايِرُ لِلنَّاسِ ... This is a clear insight and evidence for mankind, in reference to the Qur'an, ... وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّقَوْمِ يُوقِنُونَ and a guidance and a mercy for people who have faith with certainty.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

20۔ 1 یعنی ان کے دلائل کا مجموعہ ہے جو احکام دین سے متعلق ہیں اور جن سے انسانی ضروریات و حاجات وابستہ ہیں۔ 20۔ 2 یعنی دنیا میں ہدایت کا راستہ بتلانے والا اور آخرت میں رحمت الٰہی کا موجب ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٨] قرآن سب لوگوں کے لئے رحمت کیسے ہے ؟ یعنی اس قرآن میں بصیرت افروز دلائل تو سب لوگوں کے لیے موجود ہیں۔ لیکن ان دلائل سے فائدہ صرف وہ لوگ اٹھا سکتے ہیں جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ یہ قرآن اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ پھر جو لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں انہیں یہ کتاب دنیا میں زندگی گزارنے کے طریقہ کی مکمل رہنمائی کرتی ہے۔ اس طریقہ زندگی پر عمل کرنے سے انسان کی آخرت بھی سنور جاتی ہے۔ یہ تو اللہ کی رحمت کا ایک پہلو ہوا کہ اس نے اس دنیا میں ہی اخروی زندگی کی فلاح و نجات کا طریقہ بتادیا۔ اور اللہ کی رحمت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ قرآن زندگی گزارنے اور اس دنیا میں پرامن رہنے کے لیے سب انسانوں کے لیے ایسے متناسب اور متوازن اصول پیش کرتا ہے۔ جن سے سب لوگوں کے حقوق کی ٹھیک تعیین ہوجاتی ہے اور کسی کی حق تلفی نہیں ہوتی۔ انسان کی عقل اگر ہزاروں سال بھی تجربے کرتی اور ٹھوکریں کھاتی پھرتی تب بھی ایسے متوازن اور متناسب اصول دریافت نہ کرسکتی تھی۔ اللہ کی لوگوں پر خاص رحمت ہے کہ اس نے اس قرآن کے ذریعہ لوگوں کو ایسی ہدایات مفت میں دے دی ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ھذا بصآئر للناس :” بصآئر “ ” بصیرۃ “ کی جمع ہے۔ سمجھ میں آنے والی بات۔” للناس “ کا لفظ عام ہے جس میں مسلم و کافر سب شامل ہیں۔ یعنی قرآ کریم کی باتیں ایسی ہیں جو سب لوگوں کی سمجھ میں آنے والی ہیں اور انھیں ان کے نفع و نقصان سے آگاہ کرنے والی ہیں، خواہ وہ انھیں مانیں یا نہ مانیں۔ (٢) وھدی و رحمۃ لقوم یوقنون : یعنی اگرچہ قرآن کی باتیں ایسی ہیں جو سب لوگوں کی سمجھ میں آنے والی ہیں مگر اس سے فائدہ وہی اٹھاتے ہیں جو اس پر یقین رکھتے ہوں اور انھی کے لئے یہ ہدایت و رحمت ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(ونزل من القرآن ماھو شفآء ورحمۃ للمومنین ولا یزید الظلمین الا خساراً ) (بنی اسرائیل : ٨٢) ’ اور ہم قرآن میں سے تھوڑا تھوڑا نازل کرتے ہیں جو ایمان والوں کے لئے سراسر شفا اور رحمت ہے اور وہ ظالموں کو خسارے کے سوا کسی چیز میں زیادہ نہیں کرتا۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ھٰذَا بَصَاۗىِٕرُ لِلنَّاسِ وَہُدًى وَّرَحْمَۃٌ لِّقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَ۝ ٢٠ هذا ( ذَاكَ ذلك) وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام/ 131] ، إلى غير ذلك . ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔ وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ مِنْ بَعْدِ ما أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ الْأُولی بَصائِرَ لِلنَّاسِ [ القصص/ 43] أي : جعلناها عبرة لهم نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] يقن اليَقِينُ من صفة العلم فوق المعرفة والدّراية وأخواتها، يقال : علم يَقِينٍ ، ولا يقال : معرفة يَقِينٍ ، وهو سکون الفهم مع ثبات الحکم، وقال : عِلْمَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 5] «2» ، وعَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 7] «3» وحَقُّ الْيَقِينِ [ الواقعة/ 95] وبینها فروق مذکورة في غير هذا الکتاب، يقال : اسْتَيْقَنَ وأَيْقَنَ ، قال تعالی: إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية/ 32] ، وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات/ 20] ، لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة/ 118] وقوله عزّ وجلّ : وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء/ 157] أي : ما قتلوه قتلا تَيَقَّنُوهُ ، بل إنما حکموا تخمینا ووهما . ( ی ق ن ) الیقین کے معنی کسی امر کو پوری طرح سمجھ لینے کے ساتھ اس کے پایہ ثبوت تک پہنچ جانے کے ہیں اسی لئے یہ صفات علم سے ہے اور معرفت اور وغیرہ سے اس کا در جہ اوپر ہے یہی وجہ ہے کہ کا محاورہ تو استعمال ہوات ہے لیکن معرفۃ الیقین نہیں بولتے اور قدر معنوی فرق پایا جاتا ہے جسے ہم اس کتاب کے بعد بیان کریں گے استیتن والقن یقین کرنا قرآن میں ہے : ۔ إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية/ 32] ہم اس کو محض ظن ہی خیال کرتے ہیں اور ہمیں یقین نہیں آتا ۔ وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات/ 20] اور یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة/ 118] یقین کرنے والوں کیلئے اور آیت کریمہ : ۔ وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء/ 157] اور انہوں نے عیسیٰ کو یقینا نہیں کیا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ انہیں ان کے قتل ہوجانے کا یقین نہیں ہے بلکہ ظن وتخمین سے ان کے قتل ہوجانے کا حکم لگاتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

یہ قرآن حکیم دانش مندیوں کا سبب اور گمراہی سے ہدایت پر آنے کا ذریعہ ہے اور ان لوگوں کے لیے جو کہ رسول اکرم اور قرآن کی تصدیق کرتے ہیں عذاب کے مقابلہ میں بڑی رحمت ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠ { ہٰذَا بَصَآئِرُ لِلنَّاسِ وَہُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ } ” یہ ہیں آنکھیں کھولنے والی باتیں لوگوں کے لیے اور ہدایت اور رحمت ان لوگوں کے لیے جو ان پر یقین کریں۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

25 That is, "This Book and this Shari`ah present such a light for all the people of the world, which distinguishes the truth from falsehood, but only such people receive any guidance from it who believe in its truth; for them only it is a mercy. "

سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :25 مطلب یہ ہے کہ یہ کتاب اور یہ شریعت دنیا کے تمام انسانوں کے لیے وہ روشنی پیش کرتی ہے جو حق اور باطل کا فرق نمایاں کرنے والی ہے ۔ مگر اس سے ہدایت وہی لوگ پاتے ہیں جو اس کی صداقت پر یقین لائیں ، اور انہی کے حق میں یہ رحمت ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(45:20) ھذا : ای القران اتباع شریعت۔ بصائر : بصیرۃ کی جمع۔ کھلی دلیلیں۔ ظاہر نصیحتیں۔ دانش و بصیرت) قرآن مجید میں بصائر پانچ دفعہ استعمال ہوا ہے مثلا :۔ (1) قدجاء کم بصائر من ربکم فمن ابصر فلنفسہ (6:105) تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے روشن دلیلیں پہنچ چکی ہیں تو جس نے (ان کو آنکھ کھول کر دیکھا اس نے اپنا بھلا کیا۔ (2) ھذا بصائر من ربکم وھدی ورحمۃ لقوم یؤمنون (7:203) یہ (قرآن) تمہارے پروردگار کی طرف سے دانش و بصیرت اور مومنوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے۔ (3) قال لقد علمت ما انزل ھؤلاء الا رب السموت والارض بصائر (17:102) انہوں نے کہا کہ تم یہ جانتے ہو کہ آسمانوں اور زمین کے پروردگار کے سوا اس کو کسی نے نازل نہیں کیا۔ اور وہ بھی تم لوگوں کے سمجھانے کو۔ (4) ولقد اتینا موسیٰ الکتب من بعد ما اہلکنا القرون الاولی بصائر للناس وھدی ورحمۃ لعلہم یتذکرون (28:43) اور ہم نے پہلی امتوں کے ہلاک کرنے کے بعد موسیٰ کو کتاب دی۔ جو لوگوں کے بصیرت اور ہدایت اور رحمت ہے تاکہ وہ نصیحت پکڑیں۔ (5) ھذا بصائر للناس وھدی ورحمۃ لقوم یوقنون (45:20) یہ قرآن لوگوں کے لئے دانائی کی باتیں ہیں اور جو یقین رکھتے ہیں ان کے لئے ہدایت اور رحمت ہے۔ (آیت زیر نظر) ترجمہ۔ مولنا فتح محمد جالندھری۔ متذکرہ بالا آیات میں بصائر روشن دلیلوں ، ظاہر نصیحتوں، دانائی اور بصیرت کی باتوں کے لئے مستعمل ہے۔ البصر کے معنی آنکھ کے ہیں۔ قوت بینائی کو بھی بصر کہہ لیتے ہیں۔ دل کی بینائی پر بصر اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں۔ بصر کی جمع ابصار اور بصیرۃ کی جمع ابصار آتی ہے جب حاسئہ بصر کے ساتھ روئیت قلبی بھی شامل ہو تو بصیرت ہی استعمال ہوتا ہے۔ اور اس بصیرت کو ہی دانائی ۔ آگہی بھی کہا جاتا ہے ۔ یا دل کی آنکھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ لسان العرب میں ہے کہ جب حضرت معاویہ (رض) نے حضرت عباس (رض) سے کہا یا بنی ہاشم تصابون فی ابصارکم کہ اے بنی ہاشم تمہاری آنکھوں میں نقص ہے تو انہوں نے جواب دیا وانتم یا بنی امیۃ تصابون فی بصائرکم کہ اے بنی امیہ اور تمہارے دل کی آنکھوں میں نقص ہے۔ ھذا بصائر للناس۔ یہ قرآن لوگوں کے لئے روشن دلیلیں یا عقل و دانش کی باتیں ہیں وھدی ورحمۃ لقوم یوقنون۔ اور یقین رکھنے والے لوگوں کے لئے باعث ہدایت و رحمت ہے۔ یوقنون : مضارع کا صیغہ جمع مذکر غائب ایقان (افعال) مصدر، وہ یقین رکھتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 کیونکہ اسی کی بدولت وہ دوزخ سے بچ کر جنت کے مستحق ہوسکتے ہیں، اسے چھوڑ کر نہ دنیا میں فلاح پاسکتے ہیں اور نہ آخرت میں

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

تیسری آیت میں قرآن مجید کے بارے میں فرمایا کہ یہ لوگوں کے لیے دانشمندیوں کا ذریعہ ہے اس میں غور کریں تو بصیرت کی باتیں پائیں گے۔ مزید فرمایا کہ قرآن ہدایت بھی ہے اور رحمت بھی ہے ان لوگوں کے لیے جو یقین رکھتے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(20) یہ قرآن عام لوگوں کے لئے ایک بصیرت افروز دلائل کا مجموعہ اور ہدایت کا ذریعہ ہے اور ان لوگوں کے لئے جو یقین رکھتے ہیں یہ قرآن بڑی رحمت ہے۔ یعنی یہ قرآن دلائل واضحہ اور روشن دلیلوں سے لبریز ہے اور عام لوگوں کے لئے سوجھ بوجھ کی باتیں ہیں اور گمراہی کے مقابلے میں ہدایت اور راہ دکھانے والی ہے اور جو لوگ یقین رکھتے ہیں ان کے لئے بڑی مہر اور اللہ تعالیٰ کی بڑی رحمت ہے۔