Surat ul Jasiya

Surah: 45

Verse: 21

سورة الجاثية

اَمۡ حَسِبَ الَّذِیۡنَ اجۡتَرَحُوا السَّیِّاٰتِ اَنۡ نَّجۡعَلَہُمۡ کَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۙ سَوَآءً مَّحۡیَاہُمۡ وَ مَمَاتُہُمۡ ؕ سَآءَ مَا یَحۡکُمُوۡنَ ﴿٪۲۱﴾  18

Or do those who commit evils think We will make them like those who have believed and done righteous deeds - [make them] equal in their life and their death? Evil is that which they judge.

کیا ان لوگوں کا جو برے کام کرتے ہیں یہ گمان ہے کہ ہم انہیں ان لوگوں جیسا کر دیں گے جو ایمان لائے اور نیک کام کئے کہ ان کا مرنا جینا یکساں ہو جائے برا ہے وہ فیصلہ جو وہ کر رہے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Life and the Death of the Believers and the Disbelievers are not Equal Allah the Exalted states here that the believers and the disbelievers are never equal. Allah said in another Ayah, لااَ يَسْتَوِى أَصْحَـبُ النَّارِ وَأَصْحَـبُ الْجَنَّةِ أَصْحَـبُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَأيِزُونَ Not equal are the dwellers of the Fire and the dwellers of the Paradise. It is the dwellers of Paradise that will be successful. (59:20) Allah said here, أًمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّيَاتِ ... Or do those who earn evil deeds think, those who commit and practice evil, ... أّن نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِينَ امَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاء مَّحْيَاهُم وَمَمَاتُهُمْ ... that We shall hold them equal with those who believe and do righteous good deeds, in their life and their death, i.e. treat them equally in the present life of the world and in the Hereafter ... سَاء مَا يَحْكُمُونَ Worst is the judgement that they make. `worst is the thought that they have about Us and about Our justice, thinking that We will ever make the pious and the wicked equal in the Hereafter or this life.' At-Tabarani recorded that Shubah said that Amr bin Murrah narrated that Abu Ad-Duha said that Masruq said that; Tamim Ad-Dari once stood in voluntary prayer through the night until the morning only reciting this Ayah, أًمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّيَاتِ أّن نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِينَ امَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ... Or do those who earn evil deeds think that We shall hold them equal with those who believe and do righteous good deeds... Allah said in reply: سَاء مَا يَحْكُمُونَ (Worst is the judgement that they make.) Allah said,

اصل دین چار چیزیں ہیں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ مومن و کافر برابر نہیں جیسے اور آیت میں ہے کہ دوزخی اور جنتی برابر نہیں جنتی کامیاب ہیں یہاں بھی فرماتا ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ کفر و برائی والے اور ایمان و اچھائی والے موت و زیست میں دنیا و آخرت میں برابر ہو جائیں ۔ یہ تو ہماری ذات اور ہماری صفت عدل کے ساتھ پرلے درجے کی بدگمانی ہے ۔ مسند ابو یعلی میں ہے حضرت ابو ذر فرماتے ہیں چار چیزوں پر اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی بنا رکھی ہے جو ان سے ہٹ جائے اور ان پر عامل نہ بنے وہ اللہ سے فاسق ہو کر ملاقات کرے گا پوچھا گیا کہ وہ چاروں چیزیں کیا ہیں ؟ فرمایا یہ کہ کامل عقیدہ رکھے کہ حلال حرام حکم اور ممانعت یہ چاروں صرف اللہ کی اختیار میں ہیں اس کے حلال کو حلال اس کے حرام بتائے ہوئے کو حرام ماننا ، اس کے حکموں کو قابل تعمیل اور لائق تسلیم جاننا ، اس کے منع کئے ہوئے کاموں سے باز آجانا اور حلال حرام امر و نہی کا مالک صرف اسی کو جاننا بس یہ دین کی اصل ہے ۔ حضرت ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس طرح ببول کے درخت سے انگور پیدا نہیں ہو سکتے اسی طرح بدکار لوگ نیک کاروں کا درجہ حاصل نہیں کر سکتے یہ حدیث غریب ہے ۔ سیرۃ محمد بن اسحاق میں ہے کہ کعبتہ اللہ کی نیو میں سے ایک پتھر نکلا تھا جس پر لکھا ہوا تھا کہ تم برائیاں کرتے ہوئے نیکیوں کی امید رکھتے ہو یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی خاردار درخت میں سے انگور چننا چاہتا ہو ۔ طبرانی میں ہے کہ حضرت تمیم داری رات بھر تہجد میں اسی آیت کو بار بار پڑھتے رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو عدل کے ساتھ پیدا کیا ہے وہ ہر ایک شخص کو اس کے کئے کا بدلہ دے گا اور کسی پر اس کی طرف سے ذرا سا بھی ظلم نہ کیا جائے گا پھر اللہ تعالیٰ جل و علا فرماتا ہے کہ تم نے انہیں بھی دیکھا جو اپنی خواہشوں کو اللہ بنائے ہوئے ہیں ۔ جس کام کی طرف طبیعت جھکی کر ڈالا جس سے دل رکا چھوڑ دیا ۔ یہ آیت معتزلہ کے اس اصول کو رد کرتی ہے کہ اچھائی برائی عقلی ہے ۔ حضرت امام مالک اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں اس کے دل میں جس کی عبادت کا خیال گذرتا ہے اسی کو پوجنے لگتا ہے اس کے بعد کے جملے کے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کی بناء پر اسے مستحق گمراہی جان کر گمراہ کر دیا دوسرا معنی یہ کہ اس کے پاس علم و حجت دلیل و سند آگئی پھر اسے گمراہ کیا ۔ یہ دوسری بات پہلی کو بھی مستلزم ہے اور پہلی دوسری کو مستلزم نہیں ۔ اس کے کانوں پر مہر ہے نفع دینے والی شرعی بات سنتا ہی نہیں ۔ اس کے دل پر مہر ہے ہدایت کی بات دل میں اترتی ہی نہیں اس کی آنکھوں پر پردہ ہے کوئی دلیل اسے دکھتی ہی نہیں بھلا اب اللہ کے بعد اسے کون راہ دکھائے ؟ کیا تم عبرت حاصل نہیں کرتے؟ جیسے فرمایا آیت ( مَنْ يُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَا هَادِيَ لَهٗ ۭ وَيَذَرُهُمْ فِيْ طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُوْنَ ١٨٦؁ ) 7- الاعراف:186 ) جسے اللہ گمراہ کر دے اس کا ہادی کوئی نہیں وہ انہیں چھوڑ دیتا ہے کہ اپنی سرکشی میں بہکتے رہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

21۔ 1 یعنی دنیا اور آخرت میں دونوں کے درمیان کوئی فرق نہ کریں۔ اس طرح ہرگز نہیں ہوسکتا یا یہ مطلب ہے کہ جس دنیا میں وہ برابر تھے، آخرت میں بھی برابر رہیں گے کہ مر کر یہ بھی ناپید اور وہ بھی ناپید ؟ نہ بدکار کو سزا، نہ ایمان و عمل صالح کرنے والے کو انعام، ایسا نہیں ہوگا اس لئے آگے فرمایا ان کا یہ فیصلہ برا ہے جو وہ کر رہے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٩] آخرت پر عدل کے تقاضا سے دلیل :۔ یہ ان لوگوں کا حال ہے جو روز آخرت پر یقین نہیں رکھتے۔ روز آخرت پر یقین نہ رکھنے کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی اخلاقی پابندی کا پابند نہیں رہ سکتا۔ وہ بےلگام ہو کر اور بلاخوف و خطر دوسروں کے حقوق پامال کرنے لگتا ہے اور صرف اپنے ہی مفادات سوچنے کے درپے ہوجاتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں سے یہ سوال کیا جارہا ہے کہ تمہارا کیا خیال ہے کہ بدکرداروں اور نیک عمل کرنے والوں کا انجام ایک ہی جیسا ہونا چاہئے کہ سب مر کر مٹی میں مل کر مٹی بن جائیں اور کسی سے اس کے اعمال کی بازپرس نہ ہو نہ ہی انہیں ان کے اعمال کا اچھا یا برا بدلہ دیا جائے ؟ کیا تم پروردگار عالم سے یہی توقع رکھتے ہو کہ وہ ایسی بےانصافی کو گوارا کرے گا ؟ اگر فی الواقع تمہارا یہی گمان ہے تو اللہ کے متعلق تمہارا یہ گمان بہت برا ہے۔ [٣٠] بدکردار اور نیکوکار کی، دنیوی زندگی کا تقابل :۔ ان کا جینا کبھی ایک جیسا نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ کے فرمانبرداروں کو حیات طیبہ نصیب ہوتی ہے۔ لوگ ان کی عزت کرتے اور ان کی راستبازی پر اعتماد کرتے ہیں۔ انہیں دنیا کی زندگی میں سکھ اور چین نصیب ہوتا ہے۔ دل مطمئن رہتا ہے۔ اس کے برعکس فریب کاروں، چوروں، ڈاکوؤں، زانیوں اور شراب خوروں کو کبھی حقیقی مسرت حاصل نہیں ہوتی۔ لوگوں میں بدنام ہوتے ہیں، ضمیر ملامت کرتا ہے۔ کوئی شخص دل سے کبھی ان کی عزت نہیں کرتا۔ مقدمات اور حکومت کا ڈر الگ رہتا ہے۔ غرض کہ بدکاروں کی دنیوی زندگی بھی تلخیوں اور بےچینیوں میں گزرتی ہے۔ موت کا وقت مقرر ہے اس سے پہلے کیسے مرجاتے ہیں۔ پھر ان دونوں کی زندگی ایک جیسی کیسے ہوئی ؟ [٣١] اگر ان کی زندگی ایک جیسی نہیں تو یقین جانو کہ مرنا بھی ایک جیسا نہیں ہوسکتا۔ دنیوی مقدمات کا نتیجہ نکل کے رہے گا۔ یہ ناممکن ہے کہ دونوں طرح کے انسان مر کر مٹی میں مل کر مٹی بن جائیں۔ کسی سے کوئی باز پرس نہ ہو۔ نہ نیک لوگوں کو ان کے اچھے اعمال کا بدلہ دیا جائے نہ بدکاروں کو سزا دی جائے اور یہ معاد پر پہلی عقلی دلیل ہے جو اللہ کی صفت عدل کے تقاضا کے مطابق ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ام حسب الذین اجترحوا السیات…: توحید کی دعوت کے بعد یہاں سے آخرت پر کلام شروع وہ رہا ہے اور یہ آیت آخرت کے حق ہونے کے دلیل ہے۔ تفسیر کے لئے دیکھیے سورة ص (٢٨) اور سورة قلم (٣٤ تا ٣٨) ۔ (٢) سوآء محیاھم ومملتھم …: یعنی کفار زندگی میں اپنی مرضی کرتے رہے اور بےلگام ہو کر پانی خواہشات پوری کرتے رہے، جس کے نتیجے میں انہوں نے زمین میں فساد برپا کئے رکھا اور لوگوں پر اور اپنی جانوں پر بےحساب ظلم کرتے رہے، جب کہ مومن اپنی خواہشات کو روک کر رب تعالیٰ کے احکام کے پابند رہے۔ اب اگر مرنے کے بعد بھی کفار کو ان کے جرائم کی سزا اور ایمان والوں کو ان کے اعمال صالحہ کی جزا نہ ملے تو یہ اللہ تعالیٰ کی صفت عدل اور صفت حکمت دونوں کے خلاف ہے۔ جو لوگ آخرت کا انکار کرتے ہیں وہ ایمان و کفر ، نیکی و بدی اور ظلم و عدل کو برابر قرار دے رہے ہیں جو ان کا بہت بڑا فیصلہ ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The Hereafter: Divine Requital is Rationally Necessary Of the two verses mentioned, the first one argues rationally that Divine reward and punishment are necessary. Every person is a witness to the fact that no one receives his full measure of reward or punishment for the good or bad deeds he does in this world. Generally, the unbelievers and evil-doers wallow in wealth and lead a life of luxury. The obedient servants of Allah, on the other hand, live in poverty, hardship and misery. In the first place, the crimes of the wicked criminals are often not detected. Even if they are detected, more often than not, they are not apprehended. If they are apprehended, they swear oaths - lawfully or unlawfully, truthfully or falsely - and try to find loopholes to escape punishment. In this way, one in a million might be punished and that too not fully. As a result, the rebels, who follow their selfish and base desires, move about in high spirits and without any hindrance, enjoying full powers in this world. The believers, on the other hand, who follow the Shari&ah strictly, do not touch many kinds of wealth and give up many pleasures because they treat them as unlawful. They only adopt the lawful ways of gaining anything in order to avoid calamities and afflictions. Thus they are deprived of many a comfort and pleasure in this world. Since this is the state of affairs where people are not rewarded or punished in this world in commensurate with their actions, it follows necessarily that there must be another world - the Hereafter and life after death - where people will be recompensed fully for their deeds. Otherwise, it would be absurd to refer to stealing, robbery, adultery, fornication, murder and so on as crimes, in this world. These people often lead a very successful life in this world. A thief or a robber acquires so much of wealth in a night that a university graduate might not be able to acquire it in years of employment and hard work. If there is no such world as the Hereafter and accountability, then the thief or the robber would be thought to be better than the respectable university graduate. No reasonable person would ever accept this position. If it be pointed out that every government in the world has legislated severe punishments for criminals, then we would respond that experience shows that only the foolish criminals get caught. The clever habitual criminals always find loopholes, and ways and means of escaping punishment. For instance, the escape-door of bribery is always open for them and that is sufficient for them. In short, the need for the Day of Requital may be denied only when it is conceded that there is no such thing as good and bad; or that whatever one acquires, by fair means or foul, it is absolutely rewardable. But no one accepts this position. Similarly it is absurd to believe that there is distinction between good and evil, but the consequences are equal, rather the criminal should have a more comfortable life than the righteous and innocent ones. There could be no greater degree of wrong than this. It is to this absurd judgment that the Qur&an refers in سَوَاءً مَّحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ...so as their life and death becomes equal? Evil is what they judge... 45:21) |". It is a very unreasonable and unjustifiable position that evil-doers should be placed on the same pedestal as the righteous persons. Since the reward and punishment in this world are not given in full measure, then it necessarily follows that there should be life after death in the Hereafter where reward and punishment will be paid in full measure. Thus the second verse in the set complements the same subject –وَلِتُجْزَىٰ كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ...and so that everybody is recompensed for what he (or she) earned. And they will not be wronged. - 45:22). In other words, the Day of Requital is necessary in order to wipe out wrong and injustice. As for the question, why the people are not requited or recompensed for the good or bad deeds in this world, we would respond that this is not in keeping with the Divine wisdom of creation: He made this world the ` domain of deeds and test-n-trial&, not the ` domain of requital&. Allah knows best!

خلاصہ تفسیر یہ (قیامت کا انکار کرنے والے) لوگ جو برے برے کام (کفر و شرک و ظلم و معصیت) کرتے (رہتے) ہیں، کیا یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم ان کو ان لوگوں کے برابر رکھیں گے جنہوں نے ایمان اور عمل صالح اختیار کیا کہ ان سب کا جینا اور مرنا یکساں ہوجائے (یعنی مومنین کا مرنا جینا بایں معنی یکساں ہوجائے کہ جس طرح زندگی میں لذتوں سے بہرہ اندوز نہ ہوئے اسی طرح موت کے بعد بھی محروم رہیں اور اسی طرح کافروں کا مرنا جینا بھی بایں معنی یکساں ہوجائے کہ جیسے اس زندگی میں عذاب اور تکلیفوں سے بچے رہے اسی طرح مرنے کے بعد بھی عذاب سے مامون رہیں۔ مطلب یہ کہ انکار معاد سے یہ لازم آتا ہے کہ اطاعت شعار بندوں کو کہیں اطاعت کا پھل نہ ملے اور مخالفین پر کبھی مخالفت کا وبال نہ پڑے) یہ برا حکم لگاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کو حکمت کے ساتھ پیدا کیا (ایک حکمت تو یہ ہے کہ ان عظیم الشان مخلوقات کی تخلیق پر قدرت مشاہدہ میں آجانے سے ہر ذی عقل یہ بھی سمجھ لے گا کہ جو پہلی مرتبہ ان چیزوں کو پیدا کرسکتا ہے وہ ان کو فنا کر کے دوبارہ بھی اسی طرح طرح موجود کرسکتا ہے جس سے قیامت و آخرت کا وجود ثابت ہوتا ہے) اور (دوسری حکمت یہ ہے کہ) تاکہ ہر شخص کو اس کے کئے کا بدلہ دیا جائے ( اور یہ سب جانتے ہیں کہ دنیا میں پورا بدلہ ہے نہیں اس لئے آخرت کا ہونا ضروری ہوگیا) اور (اس بدلہ میں) ان پر ظلم نہ کیا جاوے گا۔ معارف و مسائل عالم آخرت اور اس میں جزا و سزا عقلاً ضروری ہے مذکورہ دو آیتوں میں سے پہلی آیت کا حاصل ایک عقلی استدلال ہے روز جزا کے ضروری ہونے پر وہ یہ ہے کہ یہ بات تو ہر شخص کے مشاہدہ میں ہے کسی کو اس سے انکار کی گنجائش نہیں کہ دنیا میں اچھے برے اعمال کا بدلہ پورا نہیں ملتا، بلکہ عام طور سے کفار، فجار، دولت دنیا اور عیش و عشرت میں زندگی گزارتے ہیں اور اللہ کے اطاعت شعار بندے فقر و فاقہ اور مصائب و آفات میں مبتلا رہتے ہیں۔ اول تو دنیا میں بدکردار مجرموں کے جرم کا علم ہی اکثر نہیں ہوتا، علم بھی ہوگیا تو اکثر پکڑے نہیں جاتے کبھی پکڑے بھی گئے تو حلال حرام جھوٹ سچ کی پروا کئے بغیر سزا سے بچنے کے راستے ڈھونڈ لیتے ہیں اور سینکڑوں میں کسی ایک کو سزا ہو بھی گئی تو وہ بھی اس کے عمل کی پوری سزا نہیں ہوتی۔ اس طرح خدا تعالیٰ کے باغی اپنی خواہشات کے پیرو اس دنیا کی زندگی میں دندناتے پھرتے رہتے ہیں اور بیچارے مومن پابند شریعت بہت سی دولت اور لذتوں کو تو حرام سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں اور مصائب و آفات سے بچنے کے لئے بھی صرف جائز طریقے اختیار کرتے ہیں اس لئے دنیا میں ان کا بڑی راحتوں اور لذتوں سے محروم رہنا ظاہر ہے اور جب یہ معلوم ہوگیا کہ اس دنیا میں اعمال کی پوری جزا نہیں ملتی تو اب اگر اس دنیا کے بعد دوسرا عالم آخرت اور اس میں دوبارہ زندگی اور جزا و سزا کا نفاذ نہ ہو تو پھر دنیا میں کسی چوری، ڈاکے، زنا، قتل وغیرہ کو جرم کہنا حماقت کے سوا کیا ہے۔ یہ لوگ تو اکثر دنیا میں بڑی کامیاب زندگی گزارتے ہیں۔ ایک چور ڈاکو رات بھر میں اتنی دولت حاصل کرلیتا ہے جو ایک گریجویٹ سالوں کی ملازمت اور محنت سے حاصل نہیں کرسکتا تو اگر آخرت اور اس کا حساب کتاب کچھ نہ ہو تو اس چور ڈاکو کو اس شریف گریجویٹ سے بہتر اور افضل کہنا پڑے گا جو کوئی ذی عقل گوارا نہیں کرسکتا۔ رہا یہ کہنا کہ ان لوگوں پر دنیا میں سخت سزائیں ہر حکومت میں مقرر ہیں مگر آج کل کا تجربہ یہ بتلارہا ہے کہ مجرم صرف وہ پکڑا جاتا ہے جو بیوقوف ہو، ہوشیار عادی مجرم کے لئے سزا سے بچنے کے راستے کھلے ہوئے ہیں۔ ایک رشوت ہی کا چور دروازہ ان کے فرار کے لئے کافی ہے خلاصہ یہ ہے کہ یا تو یہ تسلیم کیا جائے کہ دنیا میں کوئی بھلائی برائی، نیکی بدی کوئی چیز نہیں، اپنا مطلب جس طرح حاصل ہو وہ عین ثواب ہے مگر اس کا دنیا میں کوئی قائل نہیں اور جب نیکی بدی کا امتیاز تسلیم کیا جائے تو پھر دونوں کا انجام برابر رہے بلکہ بد اور مجرم نیک سے زیادہ آرام میں رہے، اس کی برابر کوئی ظلم نہیں ہو سکتا۔ اسی کو قرآن کریم کی آیت مذکورہ میں فرمایا کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ مجرم اور غیر مجرم دونوں کو دنیا و آخرت میں برابر کردیا جائے (آیت) سَوَاۗءً مَّحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ یہ نہایت احمقانہ فیصلہ ہے جبکہ دنیا میں نیکی بدی کی جزا سزا پوری نہیں ملتی آخرت کی دوسری زندگی اور اس میں جزا سزا ہونا لازمی ہے۔ دوسری آیت میں بھی اسی مضمون کی تکمیل کے لئے فرمایا گیا (آیت) وَلِتُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍۢ بِمَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ ، یعنی ظلم و جور کے مٹانے اور انصاف قائم کرنے کے لئے روز جزاء ہونا ضروری ہے۔ رہا یہ شبہ کہ دنیا ہی میں ہر عمل کا بدلہ ا چھا یا برا کیوں نہ نمٹا دیا گیا یہ اس حکمت تکوینی کے خلاف ہے کہ اس عالم کو حق تعالیٰ نے دارالعمل اور دارالامتحان بنایا ہے دارالجزا نہیں بنایا۔ واللہ اعلم

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَمْ حَسِبَ الَّذِيْنَ اجْتَرَحُوا السَّيِّاٰتِ اَنْ نَّجْعَلَہُمْ كَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ۝ ٠ ۙ سَوَاۗءً مَّحْيَاہُمْ وَمَمَاتُہُمْ۝ ٠ ۭ سَاۗءَ مَا يَحْكُمُوْنَ۝ ٢١ ۧ أَمْ»حرف إذا قوبل به ألف الاستفهام فمعناه : أي نحو : أزيد أم عمرو، أي : أيّهما، وإذا جرّد عن ذلک يقتضي معنی ألف الاستفهام مع بل، نحو : أَمْ زاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصارُ [ ص/ 63] أي : بل زاغت . ( ا م حرف ) ام ۔ جب یہ ہمزہ استفہام کے بالمقابل استعمال ہو تو بمعنی اور ہوتا ہے جیسے ازید فی الدار ام عمرو ۔ یعنی ان دونوں میں سے کون ہے ؟ اور اگر ہمزہ استفہام کے بعد نہ آئے تو بمعنیٰ بل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ { أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ } ( سورة ص 63) ( یا) ہماری آنکھیں ان ( کی طرف ) سے پھر گئی ہیں ۔ حسب ( گمان) والحِسبةُ : فعل ما يحتسب به عند اللہ تعالی. الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت/ 1- 2] ، أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ [ العنکبوت/ 4] ، وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم/ 42] ، فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم/ 47] ، أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة/ 214] ( ح س ب ) الحساب اور الحسبة جس کا معنی ہے گمان یا خیال کرنا اور آیات : ۔ الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت/ 1- 2] کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں ۔ کیا وہ لوگ جو بڑے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں : وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم/ 42] اور ( مومنو ) مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کررہے ہیں خدا ان سے بیخبر ہے ۔ فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم/ 47] تو ایسا خیال نہ کرنا کہ خدا نے جو اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے اس کے خلاف کرے گا : أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة/ 214] کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ( یوں ہی ) جنت میں داخل ہوجاؤ گے ۔ جرح الجرح : أثر دام في الجلد، يقال : جَرَحَه جَرْحاً ، فهو جَرِيح ومجروح . قال تعالی: وَالْجُرُوحَ قِصاصٌ [ المائدة/ 45] ، وسمي القدح في الشاهد جرحا تشبيها به، وتسمی الصائدة من الکلاب والفهود والطیور جَارِحَة، وجمعها جَوَارِح، إمّا لأنها تجرح، وإمّا لأنها تکسب . قال عزّ وجلّ : وَما عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوارِحِ مُكَلِّبِينَ [ المائدة/ 4] ، وسمیت الأعضاء الکاسبة جوارح تشبيها بها لأحد هذين، والاجتراح : اکتساب الإثم، وأصله من الجِرَاحة، كما أنّ الاقتراف من : قرف القرحة قال تعالی: أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئاتِ [ الجاثية/ 21] . ( ج ر ح ) جرحہ ( جرجا زخمی کرنا صفت مفعول جریج ومجروح ( جرح ( آم ) ج جروح قرآن میں ہے : ۔ الْجُرُوحَ قِصاصٌ [ المائدة/ 45] اور سب زخموں کا اسی طرح بدلہ ہے اور زخم کے ساتھ تشبیہ دے کر گواہ پر بحث کرنے کو بھی جرح کہا جاتا ہے اور کتے چیتے اور پرند سے شکاری جانور کو جارحۃ کہا جاتا ہے اس کی جمع جوارح ہے اور شکاری جانوروں کو جوارح یا تو اس لئے کہا جاتا کہ وہ شکار کو زخمی کرتے ہیں اور یا اس لئے کہ وہ کما کر لاتے ہیں ان ہر دو وجوہ میں سے کسی ایک کی بنا پر اعضا کا سبہ یعنی ہاتھ پاؤں کو جوارح کہا جاتا ہے قرآن میں ہے ۔ وَما عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوارِحِ مُكَلِّبِينَ [ المائدة/ 4] اور وہ شکار بھی حلال ہے ) جو تمہارے شکاری جانوروں نے پکڑا ہو جن کو تم نے سدھا رکھا ہے : ۔ الارجتراح ( جرائم کا ارتکاب کرنا ) اصل میں جراحۃ سے ہے جیسا کہ اقتراف کا لفظ قرن القرحۃ سے مشتق ہے جس کے معنی زخم کو چھیلنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئاتِ [ الجاثية/ 21] جو لوگ برے کام کرتے ہیں کیا وہ یہ خیال کرتے ہیں ۔ سَّيِّئَةُ : الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] سَّيِّئَةُ : اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :، ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] جو برے کام کرے جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ سواء ومکان سُوىً ، وسَوَاءٌ: وسط . ويقال : سَوَاءٌ ، وسِوىً ، وسُوىً أي : يستوي طرفاه، ويستعمل ذلک وصفا وظرفا، وأصل ذلک مصدر، وقال : فِي سَواءِ الْجَحِيمِ [ الصافات/ 55] ، وسَواءَ السَّبِيلِ [ القصص/ 22] ، فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال/ 58] ، أي : عدل من الحکم، وکذا قوله : إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمْ [ آل عمران/ 64] ، وقوله : سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ [ البقرة/ 6] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ [ المنافقون/ 6] ، ( س و ی ) المسا واۃ مکان سوی وسواء کے معنی وسط کے ہیں اور سواء وسوی وسوی اسے کہا جاتا ہے جس کی نسبت دونوں طرف مساوی ہوں اور یہ یعنی سواء وصف بن کر بھی استعمال ہوتا ہے اور ظرف بھی لیکن اصل میں یہ مصدر ہے قرآن میں ہے ۔ فِي سَواءِ الْجَحِيمِ [ الصافات/ 55] تو اس کو ) وسط دوزخ میں ۔ وسَواءَ السَّبِيلِ [ القصص/ 22] تو وہ ) سیدھے راستے سے ۔ فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال/ 58] تو ان کا عہد ) انہیں کی طرف پھینک دو اور برابر کا جواب دو ۔ تو یہاں علی سواء سے عاولا نہ حکم مراد ہے جیسے فرمایا : ۔ إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمْ [ آل عمران/ 64] اے اہل کتاب ) جو بات ہمارے اور تمہارے دونوں کے درمیان یکساں ( تسلیم کی گئی ) ہے اس کی طرف آؤ ۔ اور آیات : ۔ سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ [ البقرة/ 6] انہیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ۔ سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ [ المنافقون/ 6] تم ان کے لئے مغفرت مانگو یا نہ مانگوں ان کے حق میں برابر ہے ۔ حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے ساء ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] ، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء/ 123] ، أي : قبیحا، وکذا قوله : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة/ 37] ، عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح/ 6] ، أي : ما يسوء هم في العاقبة، وکذا قوله : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء/ 97] ، وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66] ، وأما قوله تعالی: فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] ، وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة/ 66] ، ساءَ مَثَلًا[ الأعراف/ 177] ، فساء هاهنا تجري مجری بئس، وقال : وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ [ الممتحنة/ 2] ، وقوله : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، نسب ذلک إلى الوجه من حيث إنه يبدو في الوجه أثر السّرور والغمّ ، وقال : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] : حلّ بهم ما يسوء هم، وقال : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد/ 21] ، وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] ، وكنّي عن الْفَرْجِ بِالسَّوْأَةِ «1» . قال : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] ، فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] ، يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف/ 22] ، لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما [ الأعراف/ 20] . ساء اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ اور آیت :، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء/ 123] جو شخص برے عمل کرے گا اسے اسی ( طرح ) کا بدلہ دیا جائیگا ۔ میں سوء سے اعمال قبیحہ مراد ہیں ۔ اسی طرح آیت : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة/ 37] ان کے برے اعمال ان کو بھلے دکھائی دیتے ہیں ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہیں اور آیت : عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح/ 6] انہیں پر بری مصیبت ( واقع ) ہو ۔ میں دائرۃ السوء سے مراد ہر وہ چیز ہوسکتی ہے ۔ جو انجام کا رغم کا موجب ہو اور آیت : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء/ 97] اور وہ بری جگہ ہے ۔ وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66]( دوزخ ) ٹھہرنے کی بری جگہ ہے ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہے ۔ اور کبھی ساء بئس کے قائم مقام ہوتا ہے ۔ یعنی معنی ذم کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] مگر جب وہ ان کے مکان میں اتریگا تو جن کو ڈرسنایا گیا تھا ان کے لئے برادن ہوگا ۔ وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة/ 66] ان کے عمل برے ہیں ۔ ساءَ مَثَلًا[ الأعراف/ 177] مثال بری ہے ۔ اور آیت :۔ سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ( تو) کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ میں سیئت کی نسبت وجوہ کی طرف کی گئی ہے کیونکہ حزن و سرور کا اثر ہمیشہ چہرے پر ظاہر ہوتا ہے اور آیت : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] تو وہ ( ان کے آنے سے ) غم ناک اور تنگدل ہوئے ۔ یعنی ان مہمانوں کو وہ حالات پیش آئے جن کی وجہ سے اسے صدمہ لاحق ہوا ۔ اور فرمایا : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد/ 21] ایسے لوگوں کا حساب بھی برا ہوگا ۔ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] اور ان کیلئے گھر بھی برا ہے ۔ اور کنایہ کے طور پر سوء کا لفظ عورت یا مرد کی شرمگاہ پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] اپنے بھائی کی لاش کو کیونکہ چھپائے ۔ فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا ۔ يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] کہ تمہار ستر ڈھانکے ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف/ 22] تو ان کے ستر کی چیزیں کھل گئیں ۔ لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما[ الأعراف/ 20] تاکہ ان کے ستر کی چیزیں جو ان سے پوشیدہ تھیں ۔ کھول دے ۔ حكم والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] ( ح ک م ) حکم الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

کیا یہ لوگ جنہوں نے بڑے بڑے شرکیہ کام کیے یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم آخرت میں ثواب اور درجات کے اعتبار سے انہیں ان لوگوں کے برابر رکھیں گے جو کہ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے جیسا کہ حضرت علی اور ان کے دونوں ساتھی۔ بدر کے دن جب کفار میں سے عتبہ شیبہ اور ولید بن عتبہ میدان جنگ میں نکلے اور ان کے مقابلے کے لیے حضرت علی، حضرت حمزہ اور حضرت عبیدہ تشریف لائے تو کفار نے کہا کہ محمد جو آخرت کے بارے میں ثواب کا ذکر فرماتے ہیں اگر وہ بات صحیح ہے تو ہمیں ان مسلمانوں پر آخرت میں بھی فوقیت ہوگی جیسا کہ اس دنیا میں ہے اللہ تعالیٰ نے اس کی تردید فرمائی ہے کہ ان کا یہ خیال غلط ہے۔ ایسا ممکن نہیں کہ دونوں گروہ برابر ہوجائیں کیونکہ مسلمانوں کی موت وحیات ایمان پر ہے اور کفار کا مرنا جینا دونوں چیزیں کفر پر ہیں۔ یا یہ کہ مسلمانوں کی موت وحیات اور ایمان اطاعت اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی پر برابر سرابر ہے اور کافر کا مرنا جینا کفر و معصیت اور اللہ تعالیٰ کے غصے اور اس کی ناراضگی پر برابر سرابر ہے، یہ لوگ اپنے لیے برا فیصلہ کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢١ { اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ اجْتَرَحُوا السَّیِّاٰتِ اَنْ نَّجْعَلَہُمْ کَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ } ” جو لوگ ُ بری باتوں کا ارتکاب کر رہے ہیں کیا انہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم انہیں ان لوگوں کی طرح کردیں گے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے ؟ “ { سَوَآئً مَّحْیَاہُمْ وَمَمَاتُہُمْ سَآئَ مَا یَحْکُمُوْنَ } ” کہ ان کی زندگی اور موت ایک جیسی ہوجائے ؟ بہت برا فیصلہ ہے جو یہ لوگ کر رہے ہیں ! “ قیامت کے حساب اور آخرت کی زندگی کے بارے میں عقلی اور منطقی سطح پر یہ ایک مضبوط دلیل ہے۔ اگر دنیا کے نیکو کاروں کو کوئی اجر و انعام نہ ملے ‘ مجرموں کو اپنے جرائم کی سزا نہ بھگتنی پڑے اور نیک و بد سب برابر ہوجائیں تو اس سے بڑا ظلم بھلا اور کیا ہوگا ؟ دنیا میں کچھ لوگ تو وہ ہیں جو حرام و حلال کی تمیز ختم کر کے اور جائز و ناجائز کی پابندیوں سے بےنیاز ہو کر عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ دوسری طرف اللہ کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں جو زندگی کے ہر معاملے میں ہمیشہ پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں۔ وہ اپنے فائدے کے لیے کسی کا حق نہیں مارتے۔ وہ فاقوں سے رہنا برداشت کرلیتے ہیں مگر حرام نہیں کھاتے۔ اب فرض کریں کہ اگر دنیا کی زندگی ہی آخری زندگی ہو ‘ نہ آخرت ہو اور نہ ہی مرنے کے بعد بےلاگ حساب و کتاب کا کوئی مرحلہ درپیش ہو ‘ نہ نیک اور دیانت دار لوگوں کے لیے کوئی جزا ہو اور نہ برے لوگوں کے لیے کوئی سزا ‘ تو ایسی صورت میں قاتلوں ‘ لٹیروں اور ظالموں کے تو گویا وارے نیارے ہوگئے ‘ جبکہ نیک ‘ شریف اور دیانتدار قسم کے لوگ سرا سر گھاٹے میں رہ گئے۔ اس لیے اگر قیامت قائم نہیں ہوتی ‘ نیکوکاروں کو ان کے نیک اعمال کی جزا نہیں ملتی اور بدکاروں کو ان کے کرتوتوں کا خمیازہ نہیں بھگتنا پڑتا تو یہ بنی نوع انسان کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہوگا۔ چناچہ جو آخرت کو نہیں مانتا وہ دراصل اللہ تعالیٰ کی صفت ِعدل کا ہی منکر ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

26 After the invitation to Tauhid, the discourse now turns to the theme of the Hereafter. 27 This is the moral reasoning for the truth of the Hereafter. The difference of good and evil in morals and of goodness and wickedness in deeds necessarily demands that the good and the evil people should not meet with one and the same end, but the good should be rewarded for their good and the wicked punished for their evil deeds. Otherwise, if the good and the evil end up similarly, the distinction of virtue and vice in morals becomes meaningless and God becomes unjust. The people who follow evil ways in the world do want that there should be no accountability and no rewards and punishments, for this concept goes against their enjoyment of life, but it is against the justice and wisdom of the Lord of the worlds that He should treat the good and the evil alike, and should not care to see how the righteous believer has lived his life in the world and how the sinful unbeliever has been enjoying it. One of them kept himself subjected to moral restrictions aII his life, rendered the rights of those to whorl they were due, restrained himself from the unlawful benefits and pleasures, and continued to incur losses for the sake of the truth; the other fulfilled his desires in every possible wary: neither recognized the rights of God nor hesitated froth violating the rights of the people, but watt un collecting benefits and good things of life in every possible way. Can it be expected of God that He would overlook the difference between the lives of the two kinds of men? If the end of both be the same, no greater injustice could be conceived. (For further explanation, sec Yunus: 4, Hud: 106 An-Nahl: 38 39, AI-Hajj: E N. 9, An-Naml: E,N. 86, Ar-Rum: 7-8, Suad: 28 and E.N. 30 on it).

سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :26 توحید کی دعوت کے بعد اب یہاں سے آخرت پر کلام شروع ہو رہا ہے ۔ سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :27 یہ آخرت کے بر حق ہونے پر اخلاقی استدلال ہے ۔ اخلاق میں خیر و شر اور اعمال میں نیکی و بدی کے فرق کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اچھے اور برے لوگوں کا انجام یکساں نہ ہو ، بلکہ اچھوں کو ان کی اچھائی کا اچھا بدلہ ملے اور برے اپنی برائی کا برا بدلہ پائیں ۔ یہ بات اگر نہ ہو ، اور نیکی و بدی کا نتیجہ ایک ہی جیسا ہو تو سرے سے اخلاق میں خوبی و زشتی کی تمیز ہی بے معنی ہو جاتی ہے اور خدا پر بے انصافی کا الزام عائد ہوتا ہے ۔ جو لوگ دنیا میں بدی کی راہ چلتے ہیں وہ تو ضرور یہ چاہتے ہیں کہ کوئی جزا و سزا نہ ہو ، کیونکہ یہ تصور ہی ان کے عیش کو منغّص کر دینے والا ہے ۔ لیکن خداوند عالم کی حکمت اور اس کے عدل سے یہ بات بالکل بعید ہے کہ وہ نیک و بد سے ایک جیسا معاملہ کرے اور کچھ نہ دیکھے کہ مومن صالح نے دنیا میں کس طرح زندگی بسر کی ہے اور کافر و فاسق یہاں کیا گل کھلاتا رہا ہے ۔ ایک شخص عمر بھر اپنے اوپر اخلاق کی پابندیاں لگائے رہا ۔ حق والوں کے حق ادا کرتا رہا ۔ ناجائز فائدوں اور لذتوں سے اپنے آپ کو محروم کیے رہا ۔ اور حق و صداقت کی خاطر طرح طرح کے نقصانات برداشت کرتا رہا ۔ دوسرے شخص نے اپنی خواہشات ہر ممکن طریقے سے پوری کیں ، نہ خدا کا حق پہچانا اور نہ بندوں کے حقوق پر دست درازی کرنے سے باز آیا ۔ جس طرح سے بھی اپنے لیے فائدے اور لذتیں سمیٹ سکتا تھا ، سمیٹتا چلا گیا ۔ کیا خدا سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ ان دونوں قسم کے آدمیوں کی زندگی کے اس فرق کو وہ نظر انداز کر دے گا ؟ مرتے دم تک جن کا جینا یکساں نہیں رہا ہے ، موت کے بعد اگر ان کا انجام یکساں ہو تو خدا کی خدائی میں اس سے بڑھ کر اور کیا بے انصافی ہو سکتی ہے؟ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، یونس ، حواشی ۹ ۔ ۱۰ ، النمل ، حاشیہ ۳۵ ، جلد سوم ، الحج ، حاشیہ۹ ، النمل ، حاشیہ ۸٦ ، الروم ، حواشی ٦ تا ۸ ۔ جلد چہارم ، تفسیر سورہ ، صٓ ، آیت 28 ۔ حاشیہ نمبر 30 )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

6: یہ آخرت کی زندگی کی ضرورت بتائی جا رہی ہے کہ اگر آخرت کی جزا و سزا نہ ہو تو اچھے برے سب لوگ برابر ہوجائیں، اور جن نیک لوگوں نے دنیا میں شریعت کے احکام پر عمل کر کے محنت اٹھائی، یا مخالفین کی طرف سے تکلیفیں برداشت کیں، ان کو مرنے کے بعد بھی اس قربانی کا کوئی انعام نہ ملے، اور ان کا مرنا جینا بالکل برابر ہوجائے۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ نا انصافی نہیں کرسکتا۔ چنانچہ اگلی آیت میں فرمایا گیا ہے کہ ہم نے یہ کائنات اسی برحق مقصد کے لیے پیدا کی ہے کہ ہر ایک کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جائے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢١۔ یہ منکرین حشر کے اس قول کا جواب ہے جس کا آگے کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے یہ ذکر فرمایا ہے وقالوا ماھی الا حیاتنا الدین تموت ونحی ومابھلکنا الا الدھر۔ حاصل ان دہریوں کے قول کا یہ ہے کہ دنیا میں پیڑے کے پودوں کی طرح انسان کا بچہ پیدا ہوتا ہے اور پیڑ کا پودا جس طرح دن بدن بڑھتا جاتا ہے اسی طرح انسان کا بچہ دن بدن بڑھتا جاتا ہے پھر جس طرح پرانا ہوجانے کے سبب پیڑ سوکھ کر اکھڑ جاتا ہے اور گر پڑتا ہے اسی طرح انسان کی عمر کا زمانہ گزر جانے کے سبب سے ایک دن انسان مرجاتا ہے پیڑ کے سوکھ جانے کے بعد اس کی لکڑی جل کر یا گل کر آخر کو خاک ہوجاتی ہے یہیں تک انسان کی پیدائش اور موت کا سلسلہ ختم ہوگیا اس سلسلہ کے بعد پھر دوبارہ انسان کا جینا اور نیک اور بد کو جزا و سزا کا دیا جانا کچھ سمجھ میں نہیں آتا اس کا جواب جو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ ان لوگوں کو کچھ علم و عقل نہیں محض اٹکل سے ایسی باتیں یہ لوگ کرتے ہیں کیا دنیا میں دنیا کے حاکموں کے نافرمان لوگوں سے جیل خانے بھرے ہوئے ان لوگوں نے نہیں دیکھے اور کیا دنیا کے حاکموں کے فرمانبردار لوگ جاگیر تنخواہ ہیں اور انعام کھاتے ہوئے ان کی نظر سے نہیں گزرے آخر یہ دنیا کے حاکم کس نے پیدا کئے خدا ہی نے تو پیدا کئے ہیں کیا ان کم عقل لوگوں نے خدا کے دربار کے انصاف کو خدا کی پیدا کی ہوئی مخلوق کے انصاف سے بھی گھٹا دیا کہ خدا نیکوں کی جزا اور بدوں کی سزا کے لئے ایک دن دنیا کی عمر ختم ہونے کے بعد نہ ٹھہرائے گا اور یونہی کھیل کی طرح دنیا میں نیک و بد کو پیدا کرکے ایک دن دونوں کو خاک کرکے پھر خبر نہ لے گا نیک نے نیکی جو کی تھی اس نے اس کا کیا پھل پایا اور بد نے بدی جو کی تھی اس نے اس کا کیا خمیازہ بھگتا اسی واسطے فرمایا کہ ان لوگوں نے اپنی اٹکل سے اللہ تعالیٰ کے انصاف کو جو بٹا لگایا ہے وہ ان کی بہت ہی بری اٹکل ہے رہی یہ بات کہ یہ جزا و سزا دنیا کی دنیا میں ہی کیوں نہیں پوری ہوجاتی اس کا جواب سورة الم سجدہ کی آیت ولنذیقنہم من العذاب الا دنیٰ دون العذاب الاکبر لعلھم یرجعون۔ میں اوپر گزر چکا ہے کہ دنیا پوری جزا و سزا کی جگہ نہیں ہے کثرت گناہوں کے وقت کبھی تھوڑی سی سزا اس لئے دنیا میں ہوجاتی ہے کہ لوگ گناہوں سے باز آئیں اور آخر عمر تک کچھ کرلیں اور آخر عمر تک جبکہ اللہ تعالیٰ نے نیکی کا موقع انسان کو دیا ہے تو جزا اور سزا تمام دنیا کے لوگوں کے مرنے کے بعد ہی چاہئے اسی کا نام حشر اور قیامت ہے اب کوئی بات ان دہریوں کی مرضی کے مخالف ہوجائے مثلاً کسی عزیز یا دوست کا جوانی کی حالت میں مرجانا یا کسی مال کا تلف ہوجانا تو یہ دہرئے لوگ زمانہ کو برا کہا کرتے ہیں چناچہ جاہلیت کے زمانہ کے شعروں میں اب تک وہ مضمون موجود ہیں جن میں زمانہ کی گردش کی مذمت ہے اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے اس حدیث قدسی میں دیا ہے جو صحیحین ١ ؎ میں حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت ہے حاصل اس روایت کا یہ ہے کہ یہ کم عقل لوگ زمانہ کو کیوں برا کہتے ہیں تمام دنیا کا انتظام تو خدا کے ہاتھ میں ہے انتظام دنیا کو برا کہنا خود خدا کو نام رکھنا اس حدیث قدوسی میں انا الدھر کا جو لفظ ہے اس لفظ کے سبب سے اب حزم وغیرہ نے دہر اللہ کا نام ٹھہرایا ہے مگر حافظ ابن کثیر ٢ ؎ اور علما نے اس پر اعتراض کیا ہے اور کہا ہے کہ دہر اللہ کا نام نہیں ہے بلکہ معنی حدیث کے یہ ہیں کہ تمام زمانہ کا انتظام جس کو دہر کہتے ہیں اللہ کے ہاتھ ہے اس زمانہ میں بھی فارسی اردو کے شاعروں میں سے جو شاعر زمانہ کی مذمت کے مضمون باندھتے ہیں یا نثر کے قصوں کی کتابوں میں اس مضمون کو لکھتے ہیں وہ اس حدیث کے حکم میں داخل ہیں۔ (١ ؎ صحیح بخاری تفسیر سورة جاثیۃ ص ٧١٥ ج ٢۔ ) (٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ١٥٠ ج ٤۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(45:21) ام : ام منقطعہ ہے بل کے معنی میں آیا ہے اس کا کوئی خاص مدلول نہیں محض ایک بیان سے دوسرے بیان کی طرف انتقال کے لئے ذکر کیا گیا ہے۔ یا استفہام انکاری کے لئے ہے (یعنی ان کا یہ خیال درست نہیں ہے) ۔ حسب کا فاعل الذین ہے قاعدہ کے مطابق حسب کے دو مفعول ہونے چاہئیں یہاں صرف ایک مفعول ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان تجعلہم اگرچہ بظاہر ایک مفعول ہے لیکن دو کے قائم مقام ہے نجعل کا معنی نصیر ہے ہم اس کا مفعول اول ہے اور کالذین امنوا مفعول ثانی ہے۔ سواء بدل ہے اور کاف مبدل منہ ہے جو یہاں مثل کے معنی میں مستعمل ہوا ہے۔ سواء مصدر ہے اور مستو کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ محیاہم ومماتھم اس کا فاعل ہیں۔ صاحب ضیاء القرآن فرماتے ہیں :۔ اگر چہ اور بھی اقوال ہیں لیکن زیادہ صحیح اور صاف یہی ترکیب ہے۔ حسب ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب حسبان باب حسب یحسب مصدر ماضی و مضارع ہر دو میں عین کلمہ پر کسرہ۔ جس کے معنی گمان کرنے اور سمجھ لینے کے ہیں۔ حسب یحسب ماضی و مضارع ہر دو پر فتح) سے مصدر حسبان آتا ہے جس کے معنی حساب و شمار (حساب کے مطابق سزا) ہیں۔ یہاں آیۃ ہذا میں اول الذکر تحریر ہے ۔ کیا یہ لوگ سمجھ بیٹھے ہیں۔ الذین اسم موصول اجترحوا السیئات، صلہ۔ صلہ اور موصول مل کر فاعل اپنے فعل حسب کے ساتھ مل کر۔ اجترحوا۔ ماضی جمع مذکر غائب۔ انہوں نے گناہ کمایا۔ انہوں نے گناہ کا ارتکاب کیا اجتراح (افتعال) مصدر۔ گناہ کمانا۔ السیئات۔ برے کام، گناہ۔ سیئۃ کی جمع۔ ان تجعلہم : ان مصدریہ یجعلہم : نجعل مضارع منصوب بوجہ عمل ان جمع متکلم۔ جعل باب فتح مصدر۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب ہم ان کو بنادیں۔ ہم ان کو کردیں ۔ کالذین۔ کاف تشبیہ کا بمعنی مثل۔ الذین امنوا بہ تحلیل صرفی مفعول ثانی فعل حسب کا نیز معطوف علیہ جملہ وعملوا الصلحت کا۔ سوائ۔ اسم مصدر بمعنی مستوا (برابر) محیاہم مضاف مضاف الیہ۔ ان کا جینا۔ محیا۔ مصدر میمی حیوۃ سے۔ مماتھم مضاف مضاف الیہ۔ ان کا مرنا۔ ان کی موت۔ موت سے مصدر میمی۔ اس جملہ کا عطف جملہ سابقہ پر ہے۔ ترجمہ ہوگا :۔ کیا خیال کر رکھا ہے ان لوگوں نے جو ارتکاب کرتے ہیں برائیوں کا۔ کہ ہم بنادیں گے انہیں ان لوگوں کو مانند جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے کہ یکساں ہوجائے ان کا جینا ان کا مرنا (مطلب یہ کہ ان کا یہ خیال بالکل غلط ہے) ۔ سائ۔ فعل ذم ہے۔ یعنی برا ہے۔ ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب۔ سوء (باب نصر) مصدر سے۔ ما یحکمون : ما موصولہ۔ یحکمون مضارع جمع مذکر غائب حکم باب نصر مصدر۔ بڑا غلط فیصلہ ہے جو وہ کرتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 یعنی دنیا میں ان کی زندگی اور آخرت میں ان کا انجام ایک جیسا ہو۔ 9 یعنی اگر وہ ایسا سمجھتے ہیں تو بالکل غلط سمجھتے ہیں اس سے تو نیکی اور بدی میں امتیاز ہی ختم ہوجاتا ہے۔ طبرانی میں روایت ہے کہ حضرت تمیم داری اس آیت کو رات بھر پڑھتے رہے اور روتے ہے یہاں تک کہ صبح ہوگی۔ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ مطلب یہ کہ ان کا معاد سے یہ لازم آتا ہے کہ مطیعین کو کہیں ثمرہ اطاعت کا نہ ملے، اور مخالفین پر کبھی وبال مخالفت کا نہ پڑے، پس وجود آخرت کی یہ حکمت ہوئی کہ ہر ایک کو اس کے اعمال کے ثمرات مل جاویں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے انسان کی راہنمائی کے لیے شریعت نازل فرمائی ہے لیکن اس کے باوجود لوگ اپنی ضد اور جہالت پر قائم رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ حقیقت کھول کر بیان فرمائی ہے کہ نیک اور برے لوگ کسی اعتبار سے برابر نہیں ہوسکتے۔ مگر اس کے باوجود ظالم لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہر قسم کی فراوانی اس لیے دے رکھی ہے کہ وہ ہمیں پسند کرتا ہے اور ہمارے مقابلے میں نیک لوگوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ ایسے لوگوں میں یہ غلط فہمی بھی پائی جاتی ہے کہ ہم آخرت میں بھی ایمانداروں سے بہتر ہوں گے۔ ایسے لوگوں کو انتباہ کے انداز میں سمجھایا گیا ہے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایماندار اور صالح کردار لوگوں کی زندگی اور موت کو مجرم لوگوں کی زندگی اور موت جیسی کردے۔ مجرم جو کچھ سوچتے اور کہتے ہیں وہ ہر اعتبار سے ان کے لیے برا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زندگی اور موت کے حوالے سے بتلایا ہے کہ مومن اور ظالم برابر نہیں ہوسکتے۔ جہاں تک دنیا کی زندگی کا معاملہ ہے بظاہر دنیا دار لوگ مومنوں سے برتر ہوتے ہیں۔ لیکن گہرائی سے دیکھا اور سوچا جائے تو دنیا میں بھی ایک مومن اور ظالم کی زندگی میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ بیشک مومن غریب ہو مگر اس کا دل مطمئن ہوتا ہے۔ جس وجہ سے وسائل کی کمی کے باوجود وہ پرسکون زندگی گزارتا ہے۔ مومن کے مقابلے میں فاسق شخص وسائل کی فراوانی کے باوجود پریشانی اور بےسکونی کا شکار رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگ اپنے آپ کو پرسکون رکھنے کے لیے ہر قسم کی برائی اور بےحیائی کرتے ہیں۔ کئی لوگ سکون نہ پانے کی وجہ سے خودکشی کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ جہاں تک موت کا تعلق ہے بیشک مرنے والا موت کی کیفیت سے دوسروں کو آگاہ نہیں کرسکتا۔ لیکن ایک مومن اور فاسق کی موت میں اتنا فرق ہوتا ہے کہ جس کا ہم تصور نہیں کرسکتے۔ اسی لیے قرآن مجید نے دوسرے مقام پریوں ارشاد فرمایا ہے۔ (اَفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًا کَمَنْ کَانَ فَاسِقًا لَا یَسْتَوٗنَ اَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَھُمْ جَنّٰتُ الْمَاْوٰی نُزُلًا بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ وَ اَمَّا الَّذِیْنَ فَسَقُوْا فَمَاْوٰیھُمُ النَّارُ کُلَّمَآ اَرَادُوْٓا اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنْھَآ اُعِیْدُوْا فِیْھَا وَ قِیْلَ لَھُمْ ذُوْقُوْا عَذَاب النَّارِ الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تُکَذِّبُوْنَ ) [ السجدۃ : ١٨ تا ٢٥] ” بھلا یہ ہوسکتا ہے کہ جو شخص مومن ہے وہ اس شخص کی طرح ہوجائے جو فاسق ہے یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے ان کے اعمال کے بدلے۔ ان کی ضیافت کے لیے جنتوں کی قیام گاہیں ہیں اور جنہوں نے نافرمانی اختیار کی ہے ان کا ٹھکانا آگ ہے، جب اس سے نکلنا چاہیں گے اسی میں دھکیل دیے جائیں گے، اور ان سے کہا جائے گا کہ اب آگ کے عذاب کا مزا چکھو جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔ “ اس فرق کو یہ کہہ کر واضح کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمانوں کو بامقصد پیدا کیا ہے۔ تاکہ ہر شخص اپنے اعمال کے مطابق بدلہ پائے اور کسی پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ اس فرمان میں استعارے کی زبان سے بتلایا گیا ہے کہ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ مرنے کے بعد برے اعمال کی ہمیں کوئی باز پرس نہیں ہوگی کہ وہ شعوری اور غیر شعوری طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کا نظام یوں ہی بنادیا ہے۔ انسان کی زندگی لیل ونہار کی گردش سے منسلک ہے۔ اس لیے زمین و آسمان کا نام لے کر بتلایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بامقصد پیدا کیا ہے۔ یعنی انسان کی زندگی کا ایک مقصد ہے جس وجہ سے ہر کسی کو اپنے اعمال کا بدلہ پانا ہے۔ ” حضرت براء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب کافر کا دنیا سے رخصت ہونے اور موت کا وقت آتا ہے تو آسمان سے کالے چہروں والے فرشتے اترتے ہیں۔ ان کے پاس کھردرا لباس ہوتا ہے۔ وہ فوت ہونے والے کافر سے حد نگاہ تک دور بیٹھ جاتے ہیں۔ ملک الموت اس کے سرہانے آکر کہتا ہے۔ اے خبیث جان ! اللہ کی ناراضگی اور غضب کا سامنا کر پھر روح اس کے جسم سے الگ ہوجاتی ہے۔ اسے اس طرح کھینچتے ہیں جیسے گرم سلاخ کو روئی سے کھینچا جاتا ہے۔ اس روح کو فرشتے پکڑتے ہیں اور کوئی فرشتہ اسے اپنے ہاتھ میں آنکھ جھپکنے سے زیادہ اپنے ہاتھ میں نہیں رہنے دیتا اور اسے بدبودار ٹاٹ میں لپیٹ دیتے ہیں۔ اس سے مردار جیسی گندی بدبو نکلتی ہے جس طرح کی بدبو تم زمین پر مردار کی طرح محسوس کرتے ہو۔ وہ اسے لیکر آسمانوں کی طرف جاتے ہیں ان کا گذر جس فرشتے کے پاس ہوتا تو وہ کہتا ہے یہ کس کی خبیث روح ہے لیکن وہ جواب دیتے ہیں وہ فلاں ابن فلاں ہے اس کے برے برے نام لیتے ہیں جن کے ساتھ اسے دنیا میں پکارا جاتا تھا حتیٰ کہ اسے آسمان دنیا کی طرف لے جایا جاتا ہے۔ اس کے لیے دروازہ کھولنے کے لیے کہا جاتا ہے لیکن دروازہ نہیں کھولا جاتا، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی ( ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے اور نہ ہی وہ جنت میں داخل ہو سکیں گے حتی کہ اونٹ کو سوئی کے سوراخ میں داخل کردیں) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کا اعمال نامہ سجین میں لکھ دو جو زمین کی سب سے نچلی وادی ہے اس کی روح کو پھینکا جائے گا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت کی (اور جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے گویا کہ وہ آسمان سے گرگیا پرندے اسے اچک رہے ہیں یا ہوا نے اس کو دور جگہ پھینک دیا) “ [ رواہ احمد : مسند براء بن عازب ] مسائل ١۔ برے لوگ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مومن اور فاسق کو برابر رکھے گا ایسے لوگوں کی سوچ اور دعویٰ غلط ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے مومن اور فاسق کی موت اور زندگی میں نمایاں فرق رکھا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو بامقصدپیدا کیا ہے۔ ٤۔ ہر انسان کو اپنے عمل کا بدلہ دیا جائے گا۔ ٥۔ قیامت کے دن کسی پر کوئی زیادتی نہیں ہوگی۔ تفسیر بالقرآن مومن اور کافر کی موت کا فرق اور انجام : ١۔ فرشتے مومن کی روح قبض کرتے وقت سلام کہتے ہیں۔ (النحل : ٣٢) ٢۔ کفار کی روح قبض کرتے وقت فرشتے ان کے چہروں اور پیٹھوں پر مارتے ہیں۔ (الانفال : ٥٠) ٣۔ کافر ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ (البقرۃ : ٣٩) ٤۔ ایمان لانے والے اور نیک عمل کرنے والے جنت میں جائیں گے۔ (البقرۃ : ٨٢) ٥۔ موت کے وقت فرشتے فاسق کو کہتے ہیں کہ آج تجھے عذاب دیا جائے گا۔ (الانعام : ٩٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٢١ تا ٢٢ ہو سکتا ہے کہ یہاں بدکاروں سے مراد اہل کتاب ہوں جنہوں نے اپنی کتاب سے روگردانی کی اور برائیوں کا ارتکاب کیا۔ اور سمجھتے یہی رہے کہ وہ حقیقی مومن ہیں بلکہ وہ اپنے آپ کو اہل ایمان کے برابر سمجھتے ہیں جبکہ وہ برائیوں کا ارتکاب کرتے ہیں اور مومنین نیکیوں کے کام کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ دونوں گروہ اللہ کے ہاں برابر ہو سکتے ہیں ، خواہ اس دنیا کا معاملہ ہو یا آخرت کا موازنہ ہو ؟ اور اس سے مراد عام اصول بیان کرنا بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ کے پیمانوں کے مطابق نیک کام کرنے والے برے کام کرنے والے آپس میں برابر نہیں ہو سکتے ، نہ اس دنیا میں نہ آخرت کے حساب و کتاب میں۔ مومنین کا پلڑا یہاں بھی بھاری ہوگا اور آخرت میں بھی بھاری ہوگا۔ اور یہ اصول اللہ کی اس کائنات کے نقشے میں ریڑھ کی ہڈی کا مقام رکھتا ہے۔ اس پوری کائنات کی تخلیق حق پر ہوتی ہے۔ شریعت کی تشکیل بھی حق پر ہوتی ہے۔ جس چیز کے ساتھ یہ کائنات قائم ہے ، وہ توازن اور اعتدال ہے اور اسی اصول پر انسانی زندگی بھی قائم ہے یعنی عدل و انصاف جس کا اظہار اچھے کام کرنے والوں اور برے کام کرنے والوں کے درمیان فرق کر کے کیا گیا ہے۔ اور ہر شخص کو اس کے کئے کی جزاء و سزادی گئی اگر وہ نیک ہوا یا گمراہ ہوا ۔ تا کہ تمام لوگوں کے ساتھ انصاف کیا جاسکے۔ وھم لا یظلمون (٤٥ : ٢٢) “ اور لوگوں پر ہرگز ظلم نہ کیا جائے گا ”۔ یہ مفہوم کہ اس کائنات کی تخلیق کے اصل نقشے میں حق بنیادی چیز ہے۔ اور یہ کہ جس طرح کائنات کے اندر حق ہے ، اسی طرح شریعت کے اندر حق ہے اور یہ کہ یوم الحساب میں اسی حق پر حساب و کتاب ہوگا۔ یہ مفہوم اور مضمون قرآن میں بار بار آتا ہے کیونکہ یہ اسلامی تصور حیات کے بنیادی اصولوں میں سے ہے۔ تمام شاخیں اس اصول پر مبنی ہیں۔ انسانی نفس ، آفاق کائنات اور اسلامی شریعت سب اس سچائی پر مبنی ہیں۔ یہی ہے “ کائنات ، حیات اور انسان اور انسان اسلام کی نظر میں ” میری الگ کتاب کا موضوع۔ یہ انشاء اللہ جلد پیش ہوگی۔ ٭٭٭٭ اب اس عظیم اصول کے بالمقابل اور شریعت کے بالمقابل لوگوں کی خواہشات ہوتی ہیں جو بدلتی رہتی ہیں۔ ان خواہشات کو لوگ اپنا لیتے ہیں ، ایسے لوگ گمراہی میں اس قدر دور چلے جاتے ہیں کہ ان کی ہدایت کے تمام راستے بند ہوجاتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

کیا گنہگار یہ سمجھتے ہیں کہ ہم انہیں اہل ایمان اور اعمال صالحہ والوں کے برابر کردیں گے یہ دو آیات کا ترجمہ ہے پہلی آیت میں اہل باطل کے اس گمان کی تردید فرمائی کہ جن لوگوں نے اسلام قبول کیا ہم سے بڑھ کر درجہ والے نہیں ہیں اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہمیں مال دیا ہے آخرت میں بھی ہمیں نعمتیں دی جائیں گی جیسا کہ سورة حم سجدہ میں بعض لوگوں کا قول نقل کیا ہے ﴿ وَّ لَىِٕنْ رُّجِعْتُ اِلٰى رَبِّيْۤ اِنَّ لِيْ عِنْدَهٗ لَلْحُسْنٰى ﴾ (اور اگر میں اپنے رب کی طرف واپس کردیا گیا تو بلاشبہ میرے لیے اچھی حالت ہوگی۔ ) اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ مجرمین کفار و مشرکین یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم میں اور ان لوگوں میں کوئی فرق نہیں جو ایمان لائے اور اعمال صالحہ کیے ان کا یہ خیال غلط ہے یہ بات نہیں ہے کہ ہم دونوں فریق کی زندگی اور موت کو برابر کردیں گے دنیا میں مومنین کی زندگی اور ہے اور وہ فرمانبردار ہیں اور موحد ہیں اللہ کے دین پر ہیں اگرچہ مال نہ ہو اور کافر منکر ہیں اپنے خالق کے باغی اور نافرمان ہیں پھر موت کے بعد مومن کو نعمتیں ملیں گی جنت میں داخل ہوں گے اور کافر عذاب میں مبتلا ہوں گے، دوزخ میں جائیں گے لہٰذا نہ دونوں کی زندگی برابر ہے اور نہ دونوں کی موت برابر۔ مومن دنیا میں بھی کافر سے بہتر ہے اور آخرت میں بھی کافر سے بہتر ہوگا کافروں کا یہ خیال کرنا کہ موت کے بعد ہم مومنین سے اچھی حالت میں رہیں گے یہ ان کی جہالت کی بات ہے جھوٹا اور غلط خیال ہے اسی کو فرمایا ﴿ سَآءَ مَا يَحْكُمُوْنَ (رح) ٠٠٢١﴾ (برا ہے وہ فیصلہ جو وہ کرتے ہیں) قال صاحب الروح : قولہ عزوجل سَوَآءً بدل من الکاف بناء علی انھا بمعنی مثل وقولہ تعالیٰ مَّحْيَاهُمْ وَ مَمَاتُهُمْ فاعل سَوَآءً اجری مجری مستوکما قالو مررت برجل سواء ھو والعدم۔ ١ ھ (صاحب روح المعانی فرماتے ہیں سَوَآءً بدل ہے کاف سے اس بنیاد پر کہ کاف مثل کے معنی میں ہے۔ اور مَّحْيَاهُمْ وَ مَمَاتُهُمْ سَوَآءً کا فاعل ہے جو کہ مستو کا قائم مقام ہے جیسا کہ کہتے ہیں : مررت برجل سواء ھو والعدم میں ایسے آدمی کے پاس سے گذرا کہ اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

15:۔ ” ام حسب الذین۔ ا لایۃ “ یہ زجر و شکوی ہے استفہام انکار ہے۔ ” اجترحوا، اکتسبوا سواء، کاف بمعنی مثل سے بدل ہے اور محیاھم ومماتھم، سواء بمعنی مستو کا فاعل ہے (بحر، روح، مدارک) ۔ جو لوگ دین حق سے اعراض کر کے ہمہ تن عصیات و طغیان میں مصروف ہیں کیا ان کا خیال یہ ہے کہ ہم ان کو ان کے ایمان والوں کے برابر کردیں گے جو ہر وقت اللہ کا طاعت میں منہمک ہیں یعنی ہم ان کی دنیوی اور اخروی زندگی ایک جیسی بنا دیں گے۔ ان کا یہ فیصلہ نہایت برا اور ان کا یہ خیال غلط ہے اور انہیں یہ خیال کبھی بھی اپنے دل میں نہیں لانا چاہئے۔ مومن و کافر اور مطیع و عاصی برابر نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ مومن دنیا وآخرت دونوں جہانوں میں اللہ کی رحمت کا مورد ہے لیکن مشرک، دنیا میں اگرچہ اللہ کی رحمت سے حصہ پاتا ہے مگر آخرت میں رحمت الٰہیہ سے بالکلیہ محروم ہوگا۔ نیز دنیا میں بھی دونوں کی زندگیاں یکساں نہیں۔ ایک کی زندگی اللہ تعالیٰ کی محبت و اطاعت میں گذرتی ہے اور دوسرا اپنی ساری زندگی اللہ کی نافرمانی اور ناشکری میں گذار دیتا ہے۔ والمعنی انکار ان یستوی المسیئون والمحسنون محیا وان یستو وا مماتا لافتراق احوالہم احیاء حیث عاش ھؤلاء علی القیام بالطاعات واولئک علی اقتراف السیئات، ومماتا حیث مات ھؤلاء علی البشری بالرحمۃ والکرامۃ واولئک علی الیاس من الرحمۃ والندامۃ (مدارک ج 4 ص 104) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(21) کیا وہ لوگ جنہوں نے برائیاں کمائی ہیں یہ سمجھتے ہیں اور یہ خیال رکھتے ہیں کہ ہم ان کو اور ان لوگوں کو جو ایمان لاتے ہیں اور نیک اعمال کرتے ہیں اسی طرح برابر کردیں گے کہ ان کا اور ان کا مرنا جینا یکساں ہوجائے وہ بہت ہی برا حکم ہے جو یہ لگاتے ہیں۔ یعنی ایسا خیال کرنا ان کی حماقت ہے اور یہ فیصلہ بہت برا ہے دونوں کا مرنا جینا یکساں ہوجائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گناہ گار جس طرح دنیا میں عیش کرتا رہا اسی طرح آخرت میں مرنے کے بعد بھی عیش کرے اور مسلمان جس طرح یہاں تکلیف اور تنگی اٹھاتا رہا اسی طرح آخرت میں بھی وہ تنگی اٹھائے یا یہ کہ مرتے وقت مسلمان کو جو بشارت دی جاتی ہے وہ بشارت برائی کرنے والوں کو بھی دی جائے یہ جو فرشتے کافروں کا مرتے وقت استقبال کرتے ہیں وہ معاذ اللہ مومنوں کی بھی جان قبض کرتے وقت آئیں یہ بھی ہوسکتا ہے جیسا کہ بعض نے کہا ہے کہ اس آیت کا تعلق دوبارہ زندہ ہونے سے ہے یعنی ظالموں گناہگاروں اور معصیت پیشہ لوگوں نے یہ لوگوں نے یہ مسجھ رککھا ہے کہ اہل ایمان اور عمل صالح کے پابند اور ظالم وگناہگار سب کو ہم برابر کردیں گے زندگی میں بھی کوئی مواخذہ نہیں اور مرنے کے بعد بھی کوئی سزا اور جزا نہ ہوگی۔ یہ کس طرح ہوسکتا ہے بلکہ ایک دن ایسا ہونا چاہیے جس دن نیکوں کا صلہ دیا جائے گا اور بروں کو سزا دیجائے اور اسی دن کو قیامت کہتے ہیں اور اس کا آنا ضروری ہے۔ بعض حضرات کا قول ہے کہ یہ کافروں کا اس قول کا جواب ہے جو وہ کہا کرتے تھے کہ اگر قیامت آئی بھی تو ہم کو وہاں بھی فائدہ ہوگا اور ہم کو عیش ملے گا۔ یہ اس خیال کا رد فرمایا کہ ایسا نہیں ہوگا کہ بدکردار اور نکوکار یکساں کردیئے جائیں اور ان کی موت اور دوسری زندگی میں کوئی فرق نہ ہو ایسا فیصلہ اور ایسا دعویٰ کرنا بہت برا ہے۔ مفسرین نے اور بھی کئی طرح اس آیت کے معنی کئے ہیں ہم نے آسان اور عام فہم تفسیر اختیار کی ہے۔