Surat ul Jasiya

Surah: 45

Verse: 31

سورة الجاثية

وَ اَمَّا الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ۟ اَفَلَمۡ تَکُنۡ اٰیٰتِیۡ تُتۡلٰی عَلَیۡکُمۡ فَاسۡتَکۡبَرۡتُمۡ وَ کُنۡتُمۡ قَوۡمًا مُّجۡرِمِیۡنَ ﴿۳۱﴾

But as for those who disbelieved, [it will be said], "Were not Our verses recited to you, but you were arrogant and became a people of criminals?

لیکن جن لوگوں نے کفر کیا تو ( میں ان سے کہوں گا ) کیا میری آیتیں تمہیں سنائی نہیں جاتی تھیں ؟ پھر بھی تم تکبر کرتے رہے اور تم تھے ہی گناہ گار لوگ ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا أَفَلَمْ تَكُنْ ايَاتِي تُتْلَى عَلَيْكُمْ فَاسْتَكْبَرْتُمْ ... But as for those who disbelieved (it will be said to them): "Were not Our Ayat recited to you? But you were proud..." They will be admonished and criticized with this statement, that means, `have not the Ayat of Ar-Rahman been recited to you? But you did not follow them out of pride and turned away upon hearing them,' ... وَكُنتُمْ قَوْمًا مُّجْرِمِينَ and you were a people who were criminals. `by your actions, as well as, the denial that your hearts contained.'

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

31۔ 1 یہ بطور توبیخ کے ان سے کہا جائے گا، کیونکہ رسول ان کے پاس آئے تھے، انہوں نے اللہ کے احکام انہیں سنائے تھے، لیکن انہوں نے پروا ہی نہیں کی تھی۔ 31۔ 2 یعنی حق کے قبول کرنے سے تم نے تکبر کیا اور ایمان نہیں لائے، بلکہ تم تھے ہی گناہ گار۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٤] یعنی کبرونخوت تم میں اس قدر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا کہ اللہ کی آیات سننا بھی تم اپنی شان سے فروتر سمجھتے تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) واما الذین کفروا افلم تکن ایتی تتلی علیکم :” واما الذین کفروا “ کے بعد کچھ الفاظ محذوف ہیں۔ کیونکہ ” اما الذین کفروا “ جملہ خبر یہ کا ایک حصہ ہے اور ” افلم تکن ایتی تتلی علیکم “ افلم تکن…‘ ذ سے سمجھ میں آرہے ہیں، جو اس طرح کے ہوسکتے ہیں : ” واما الذین کفروا قیدخلھم فی عذابہ و یقول افلم تکن ایاتی تتلی علیکم “” یعنی رہے کافر تو وہ انھیں اپنے عذاب میں داخل کرے گا اور فرمائے گا، تو کیا میری آیات تمہارے سامنے پڑھی نہ جاتی تھی ؟ “ (واللہ اعلم) مطلب یہ ہے کہ جہنم کے عذاب کے ساتھ وہ اللہ تعالیٰ کا اعتاب اور اس کی ڈانٹ بھی سنیں گے جو اپنی جگہ بہت بڑا عذاب ہے۔ (٢) فاستکبر تم وکنتم قوما مجرمین : قرآن میں ” مجرم “ کا لفظ ” مسلم “ کے مقابلے میں آیا ہے، جیسا کہ فرمایا :(افنجعل المسلمین کالمجرمین مالکم کیف تحکمون) (القلم :36, 35)” تو کیا ہم فرماں برداروں کو جرم کرنے والوں کی طرح کردیں گے ؟ کیا ہ تمہیں، تم کیسے فیصلے کرتے ہو ؟ “ یعنی تم نے میری آیات سننے کے باوجود اپنے آپ کو میرا تابع فرمان بنانے سے بڑا اور اونچا سمجھا اور مسلم بننے کے بجائے مجرم بننے پر اڑے رہے، جب کہ یہ بات مجھے کسی طرح گواران ہیں۔ مزید دیکھیے سورة جاثیہ (٧ تا ١١) اور سورة اعراف (٣٦، ٤٠) کی تفسیر۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قال اللہ تعالیٰ الکبریاء ردائی والعظمۃ ازاری فمن نازعنی واحد منھما قذفنہ فی النار) (ابوداؤد، اللیاس، باب ماجاء فی الکبر :3090 وقال الالبانی صحیح)” اللہ تعالیٰ نے فرمایا : کبریائی میری اوپر کی چادر ہے اور عظمت میری ازار ہے تو جو کوئی ان میں سے ایک بھی مجھ سے چھیننے کی کوشش کرے گا میں اسے آگ میں پھینکوں گا۔ “ اور عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(لایدخل الجنۃ من کان فی قلبہ مثقال حبۃ من خردل من کبر، ولا یدل النار من کان فی قلبہ مثقال حبۃ من خردل من ایمان) (ابن ماجہ، المقدمۃ، باب فی الایمان :59، قال الالبانی صحیح)” وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانا کے برابر ایمان ہوگا۔ “ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبر کی وضاحت خود فرمائی کہ وہ خوبصورت کپڑے یا خوبصورت جوتے پہننے کا نام نہیں، بلکہ فرمایا :(الکبر بطر الحق وعمط الناس کا (مسلم، الایمان، باب تحریم الکبرو بیانہ : ٩١)” تکبر حق سے انکار کردینے اور لوگوں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاَمَّا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ۝ ٠ ۣ اَفَلَمْ تَكُنْ اٰيٰـتِيْ تُتْلٰى عَلَيْكُمْ فَاسْتَكْبَرْتُمْ وَكُنْتُمْ قَوْمًا مُّجْرِمِيْنَ۝ ٣١ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ الاسْتِكْبارُ والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة . والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين : أحدهما : أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود . والثاني : أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] . ( ک ب ر ) کبیر اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔ الاستکبار ( استتعال ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔ ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا ) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مذموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] جرم أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة : ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] ، ( ج ر م ) الجرم ( ض) اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور کافروں سے کہا جائے گا کیا تمہیں دنیا میں اوامرو نواہی کے بارے میں میری آیات پڑھ کر نہیں سنائی جاتی تھیں مگر تم نے ان پر ایمان لانے سے تکبر کیا تھا اور تم مشرک تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣١ { وَاَمَّا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا } ” اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا تھا “ { اَفَلَمْ تَکُنْ اٰیٰتِیْ تُتْلٰی عَلَیْکُمْ } ” (ان سے اللہ پوچھے گا کہ) کیا تمہیں میری آیات پڑھ کر نہیں سنائی جاتی تھیں ؟ “ اس آیت میں اگرچہ کفار کا ذکر ہے ‘ لیکن اس مفہوم کی آیات کے حوالے سے یہ اہم نکتہ مدنظر رہے کہ ہم بھی جب قرآن سنتے ہیں تو اپنے اور پڑھ کر سنانے والے کے بارے میں اس جملے کا مفہوم ضرور یاد رکھنا چاہیے۔ اسی طرح ان سطور کو پڑھنے والے ہر قاری کے ذہن میں بھی یہ تصور ضرور ہونا چاہیے کہ قرآن کا پیغام اس تک پہنچ گیا ہے اور وہ اس کے بارے میں ضرور مسئول ہوگا۔ { فَاسْتَکْبَرْتُمْ وَکُنْتُمْ قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ } ” تو تم نے استکبار کیا اور تم مجرم لوگ تھے۔ “ ہماری آیات کے آگے سر جھکانے اور ہمارے احکام کو تسلیم کرنے کے بجائے تم نے استکبار کا رویہ اپنا یا ‘ اس لحاظ سے واقعی تم بہت بڑے مجرم تھے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

43 That is, "You thought it was below your dignity to believe in Allah's Revelations and submit to them, and considered yourselves to be above subjection and servitude."

سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :43 یعنی اپنے گھمنڈ میں تم نے یہ سمجھا کہ اللہ کی آیات کو مان کر مطیع فرمان بن جانا تمہاری شان سے فروتر ہے ، اور تمہارا مقام بندگی کے مقام سے بہت اونچا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(45:31) واما الذین کفروا : میں واؤ عاطفہ ہے۔ اما حرف شرط اور جو لوگ کفر کرتے رہے۔ جملہ شرط ہے۔ اس کے بعد جواب اما محذوف ہے۔ ای فیقال لہم۔ افلم تکن ایتی تتلی علیکم : میں ہمزہ استفہامیہ ہے فاء حرف عطف ہے اس سے قبل معطوف علیہ محذوف ہے : ای اکم یاتکم رسلی فلم تکن ایتی تتلی علیکم : کیا میرے پیغمبر تمہارے پاس نہیں آئے تھے۔ اور پھر کیا میری آیتیں تمہارے سامنے تلاوت نہیں کی جاتی تھیں۔ افلم تکن ایتی تتلی علیکم : میں استفہام انکاری ہے یعنی انکار نفی ہے جو مفید اثبات ہے۔ انکار کی نفی اثبات ہے۔ فاستکبرتم : پھر تم (سن کو) تکبر کیا کرتے تھے۔ مضارع کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ استکبار (استفعال) مصدر۔ مطلب یہ کہ ۔ سن کر بھی تم نے ان کو ماننے اور ان پر یقین کرنے میں تکبر سے کام لیا۔ وکنتم قوما مجرمین : قوما مجرمین موصوف و صفت۔ منصوب بوجہ خبر کان۔ گنہگار لوگ۔ مجرم لوگ۔ جرم کرنے والے لوگ : ای کنتم قوما عادتہم الاجرام۔ تم تھے ہی ایسی قوم جن کی عادت ہی کفر و جرم کرنے کی تھی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٣١ تا ٣٢ اب ذرا دیکھو ، کیا حال ہے ؟ اور تمہیں کس قدر یقین آرہا ہے۔ قدرے وقفے کے بعد اب ان کی ذہنی دنیا کے حالات کہ اب ان پر چودہ طبق روشن ہیں :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر کافرین کی سزا کا تذکرہ فرمایا ﴿ وَ اَمَّا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ﴾ (الآیات) جن لوگوں نے کفر کیا قیامت کے دن عذاب میں داخل ہوں گے جب مصیبت میں گرفتار ہوں گے تو چھٹکارہ کے لیے معذرت کریں گے اس وقت ان سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے سوال کیا جائے گا ﴿اَفَلَمْ تَكُنْ اٰيٰتِيْ تُتْلٰى عَلَيْكُمْ ﴾ کیا تمہارے اوپر میری آیات تلاوت نہیں کی جاتی تھیں ؟ جب یہ آیات تمہارے پاس پہنچیں تو تم نے تکبر کیا اور حق قبول کرنے کو اپنی شان کے خلاف سمجھا، کفر پر قائم رہنے ہی میں تم اپنی بڑائی سمجھتے رہے، ﴿وَ كُنْتُمْ قَوْمًا مُّجْرِمِيْنَ ٠٠٣١﴾ (اور تم جرم کرنے والے لوگ تھے) تم نے تکبر کیا حق کو ٹھکرایا مجرمانہ زندگی اختیار کی آج تمہارے لیے اسی جرم کی سزا کا فیصلہ کیا گیا ہے ان سے مزید خطاب ہوگا کہ دنیا میں تمہارا یہ حال تھا کہ جب تم سے یہ کہا جاتا تھا کہ اللہ کا وعدہ حق ہے قیامت ضرور آئے گی اس میں شک نہیں ہے تو جواب یوں دے دیتے تھے : ﴿مَّا نَدْرِيْ مَا السَّاعَةُ ﴾ (ہم نہیں جانتے قیامت کیا چیز ہے) ﴿ اِنْ نَّظُنُّ اِلَّا ظَنًّا ﴾ (ہم خیال نہیں کرتے مگر تھوڑا سا) مطلب یہ تھا کہ ہماری سمجھ میں تو نہیں آیا کہ قیامت قائم ہوگی لوگوں کے کہنے سے یوں ہی چلتا ہوا خیال دل میں آجاتا ہے ﴿ وَّ مَا نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِيْنَ ٠٠٣٢﴾ (اور ہم یقین کرنے والے نہیں ہیں۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

22:۔ ” واما الذین کفروا۔ تا۔ ولاھم یستعتبون “ یہ تخویف اخروی ہے جس میں کچھ تفصیلات بھی مذکور ہیں۔ ” افلم تکن “ سے پہلے ” فیقال لہم “ محذوف ہے۔ قیامت کے دن اللہ کی طرف سے کفار و مشرکین سرزنش اور توبیخ کے طور پر کہا جائیگا : کیا دنیا میں تمہیں میری آیتیں نہیں سنائی جاتی تھیں، لیکن غروروتکبر سے انکا اناکر کی طرف سے کفار و مشرکین سے سرزنش اور توبیخ کے طور پر کہا جائیگا :۔ کیا دنیا میں تمہیں میری آیتیں نہیں سنائی جاتی تھیں، لیکن غرور وتکبر سے انکا انکار کرتے تھے اور تم عادی مجرم اور مشرک تھے، میرے پیغمبروں کی تبلیغ اور ان کے وعظ و نصیحت کے باوجود تم شرک اور دوسرے جرائم سے باز نہیں آتے تھے۔ مجرمین ای مشرکین تکسبون المعاصی (قرطبی ج 16 ص 176) ۔ ” واذا قیل۔ الایۃ “ اور جب تم سے کہا جاتا تھا کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور وہ ضرور بالضرور تمہیں دوبارہ زندہ کرے گا اور قیامت لا محالہ آئیگی، اس میں کوئی شک نہیں، تو تم انتہائی سرکشی سے کہا کرتے تھے کہ ہم نہیں جانتے قیامت کیا ہوتی ہے، تمہارے بار بار کہنے سے ہمارے دلوں میں ایک معمولی اور کمزور سا خیال تو کبھی آجاتا ہے لیکن اس کا یقین ہمیں کبھی نہیں آیا ان نظن الا ظنا ضعیفا (روح، بحر) ۔ یا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے بارے میں ہمارے دلوں میں سوائے شک اور تردد کے اور کوئی چیز نہیں اور اس میں ہمیں ایسا تردد ہے کہ ایسا تردد کسی اور چیز میں نہیں (روح) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(31) اور جو لوگ کفروانکار کرتے رہے ان سے کا جائے گا کیا تم کو میری آیتیں پڑھ پڑھ کر نہیں سنائی جاتی تھیں پھر تم نے ان کے قبول کرنے سے غرور اور تکبر کیا اور تم بڑے ہی گناہ گار لوگ تھے۔ یعنی جنہوں نے کفر کا شیوہ اختیار کررکھا تھا ان سے کہا جائے گا کیا یہ نہیں ہوا کہ میری آیتیں تم کو سنائی گئیں سو تم نے ان کے قبول کرنے سے تکبر کیا اور یہ تمہارابہت بڑا جرم تھا اور اس وجہ سے تم مجرم اور جرائم پیشہ لوگ تھے۔