Surat ul Jasiya

Surah: 45

Verse: 7

سورة الجاثية

وَیۡلٌ لِّکُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیۡمٍ ۙ﴿۷﴾

Woe to every sinful liar

ویل‘‘اور افسوس ہے ہر ایک جھوٹے گنہگار پر ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Woe to every sinful liar. who lies in his speech, often swears, who is worthless, commits and utters sinful acts and statements, and disbelieves in Allah's Ayat,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 بہت گنہگار، وَیْل بمعنی ہلاکت یا جہنم کی ایک وادی کا نام۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ویل لکل افالیہ اثیم : آیات سن کر ان کا اثر قبول کرنے کے لحاظ سے لوگوں کی دو قسمیں ہیں۔ اس سے پہلے ان لوگوں کا ذکر تھا جو ایمان و یقین اور عقل سے بہرہ ور ہوتے ہیں، اب ان لوگوں کا ذکر ہے جو تکبر کی وجہ سے اللہ کی آیات کے انکار پر اصرار کرنے والے ہیں۔ (٢) ” ویل “ کے لئے دیکھیے سورة بقرہ کی آیت (٧٩) ” افک “ بدترین جھوٹ، بہتان،” افاک “ مبالغے کا صیغہ ہے سخت جھوٹا۔ ” اثیم “ سخت گناہگار۔ یعنی ہر ایسے انسان کے لئے بہت بڑی ہلاکت اور بربادی ہے جو قول میں سخت جھوٹا اور فعل میں سخت گناہگار ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَيْلٌ لِّكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ (|"Woe to every sinful liar... 45:7) |" There are several views related to the background of revelation of this verse. Some Traditions relate that the verse was revealed in connection with Nadr Ibn Harith. Others report that it was revealed in connection with Harith Ibn Kaldah, and yet others feel it is about Abu Jahl and his comrades. (Qurtubi). There is no need to refer to a particular person in order to determine the meaning of a Qur&anic verse. The word کُل kull [ every ] refers to every person who bears the characteristics of the three persons who might have been in the background of the revelation of the verse.

(آیت) وَيْلٌ لِّكُلِّ اَفَّاكٍ اَثِيْمٍ ، (بڑی خرابی ہوگی اس شخص کے لئے جو جھوٹا اور نافرمان ہو) اس آیت کے شان نزول میں متعدد روایات ہیں۔ بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نضر بن حارث کے بارے میں نازل ہوئی، بعض میں ہے کہ حارث بن کلدہ کے بارے میں اور بعض کا کہنا ہے کہ اس سے مراد ابوجہل اور اس کے اصحاب ہیں (قرطبی) اور درحقیقت قرآنی مفہوم کی تشریح کے لئے کسی ایک شخص کو متعین کرنے کی ضرورت نہیں ” کل “ کا لفظ بتارہا ہے کہ خواہ نزول آیت کے پس منظر میں یہ تینوں افراد ہوں لیکن مراد ہر وہ شخص ہے جو ان جیسی صفات کا حامل ہو۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيْلٌ لِّكُلِّ اَفَّاكٍ اَثِيْمٍ۝ ٧ ۙ ويل قال الأصمعيّ : وَيْلٌ قُبْحٌ ، وقد يستعمل علی التَّحَسُّر . ووَيْسَ استصغارٌ. ووَيْحَ ترحُّمٌ. ومن قال : وَيْلٌ وادٍ في جهنّم، قال عز وجل : فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ [ البقرة/ 79] ، وَوَيْلٌ لِلْكافِرِينَ [إبراهيم/ 2] وَيْلٌ لِكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الجاثية/ 7] ، فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ كَفَرُوا [ مریم/ 37] ، فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا [ الزخرف/ 65] ، وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین/ 1] ، وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ [ الهمزة/ 1] ، يا وَيْلَنا مَنْ بَعَثَنا[يس/ 52] ، يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا ظالِمِينَ [ الأنبیاء/ 46] ، يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا طاغِينَ [ القلم/ 31] . ( و ی ل ) الویل اصمعی نے کہا ہے کہ ویل برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور حسرت کے موقع پر ویل اور تحقیر کے لئے ویس اور ترحم کے ویل کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ اور جن لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ ویل جہنم میں ایک وادی کا نام ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ [ البقرة/ 79] ان پر افسوس ہے اس لئے کہ بےاصل باتیں اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں اور پھر ان پر افسوس ہے اس لئے کہ ایسے کام کرتے ہیں وَوَيْلٌ لِلْكافِرِينَ [إبراهيم/ 2] اور کافروں کے لئے سخت عذاب کی جگہ خرابی ہے ۔ ۔ فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا [ الزخرف/ 65] سو لوگ ظالم ہیں ان کی خرابی ہے ۔ وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین/ 1] ناپ تول میں کمی کر نیوالا کے لئے کر ابی ہے ۔ وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ [ الهمزة/ 1] ہر طعن آمیز اشارتیں کرنے والے چغلخور کی خرابی ہے ۔ يا وَيْلَنا مَنْ بَعَثَنا[يس/ 52]( اے ہے) ہماری خواب گا ہوں سے کسی نے ( جگا ) اٹھایا ۔ يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا ظالِمِينَ [ الأنبیاء/ 46] ہائے شامت بیشک ہم ظالم تھے ۔ يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا طاغِينَ [ القلم/ 31] ہائے شامت ہم ہی حد سے گبڑھ گئے تھے ۔ أفك الإفك : كل مصروف عن وجهه الذي يحق أن يكون عليه، ومنه قيل للریاح العادلة عن المهابّ : مُؤْتَفِكَة . قال تعالی: وَالْمُؤْتَفِكاتُ بِالْخاطِئَةِ [ الحاقة/ 9] ، وقال تعالی: وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم/ 53] ، وقوله تعالی: قاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ [ التوبة/ 30] أي : يصرفون عن الحق في الاعتقاد إلى الباطل، ومن الصدق في المقال إلى الکذب، ومن الجمیل في الفعل إلى القبیح، ومنه قوله تعالی: يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ [ الذاریات/ 9] ، فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ [ الأنعام/ 95] ، وقوله تعالی: أَجِئْتَنا لِتَأْفِكَنا عَنْ آلِهَتِنا [ الأحقاف/ 22] ، فاستعملوا الإفک في ذلک لمّا اعتقدوا أنّ ذلک صرف من الحق إلى الباطل، فاستعمل ذلک في الکذب لما قلنا، وقال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ جاؤُ بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ [ النور/ 11] ، وقال : لِكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الجاثية/ 7] ، وقوله : أَإِفْكاً آلِهَةً دُونَ اللَّهِ تُرِيدُونَ [ الصافات/ 86] فيصح أن يجعل تقدیره : أتریدون آلهة من الإفك «2» ، ويصح أن يجعل «إفكا» مفعول «تریدون» ، ويجعل آلهة بدل منه، ويكون قد سمّاهم إفكا . ورجل مَأْفُوك : مصروف عن الحق إلى الباطل، قال الشاعر : 20- فإن تک عن أحسن المروءة مأفو ... کا ففي آخرین قد أفكوا «1» وأُفِكَ يُؤْفَكُ : صرف عقله، ورجل مَأْفُوكُ العقل . ( ا ف ک ) الافک ۔ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنے صحیح رخ سے پھیردی گئی ہو ۔ اسی بناء پر ان ہواؤں کو جو اپنا اصلی رخ چھوڑ دیں مؤلفکۃ کہا جاتا ہے اور آیات کریمہ : ۔ { وَالْمُؤْتَفِكَاتُ بِالْخَاطِئَةِ } ( سورة الحاقة 9) اور وہ الٹنے والی بستیوں نے گناہ کے کام کئے تھے ۔ { وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوَى } ( سورة النجم 53) اور الٹی ہوئی بستیوں کو دے پٹکا ۔ ( میں موتفکات سے مراد وہ بستیاں جن کو اللہ تعالیٰ نے مع ان کے بسنے والوں کے الٹ دیا تھا ) { قَاتَلَهُمُ اللهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ } ( سورة التوبة 30) خدا ان کو ہلاک کرے ۔ یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں ۔ یعنی اعتقاد و حق باطل کی طرف اور سچائی سے جھوٹ کی طرف اور اچھے کاموں سے برے افعال کی طرف پھر رہے ہیں ۔ اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ { يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ } ( سورة الذاریات 9) اس سے وہی پھرتا ہے جو ( خدا کی طرف سے ) پھیرا جائے ۔ { فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ } ( سورة الأَنعام 95) پھر تم کہاں بہکے پھرتے ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ { أَجِئْتَنَا لِتَأْفِكَنَا عَنْ آلِهَتِنَا } ( سورة الأَحقاف 22) کیا تم ہمارے پاس اسلئے آئے ہو کہ ہمارے معبودوں سے پھیردو ۔ میں افک کا استعمال ان کے اعتقاد کے مطابق ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ اپنے اعتقاد میں الہتہ کی عبادت ترک کرنے کو حق سے برعمشتگی سمجھتے تھے ۔ جھوٹ بھی چونکہ اصلیت اور حقیقت سے پھرا ہوتا ہے اس لئے اس پر بھی افک کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : { إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ } ( سورة النور 11) جن لوگوں نے بہتان باندھا ہے تمہیں لوگوں میں سے ایک جماعت ہے ۔ { وَيْلٌ لِكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ } ( سورة الجاثية 7) ہر جھوٹے گنہگار کے لئے تباہی ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ { أَئِفْكًا آلِهَةً دُونَ اللهِ تُرِيدُونَ } ( سورة الصافات 86) کیوں جھوٹ ( بناکر ) خدا کے سوا اور معبودوں کے طالب ہو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ افکا مفعول لہ ہو ای الھۃ من الافک اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ افکا تریدون کا مفعول ہو اور الھۃ اس سے بدل ۔۔ ،۔ اور باطل معبودوں کو ( مبالغہ کے طور پر ) افکا کہدیا ہو ۔ اور جو شخص حق سے برگشتہ ہو اسے مافوک کہا جاتا ہے شاعر نے کہا ہے ع ( منسرح) (20) فان تک عن احسن المووءۃ مافوکا ففی اخرین قد افکوا اگر تو حسن مروت کے راستہ سے پھر گیا ہے تو تم ان لوگوں میں ہو جو برگشتہ آچکے ہیں ۔ افک الرجل یوفک کے معنی دیوانہ اور باؤلا ہونے کے ہیں اور باؤلے آدمی کو مافوک العقل کہا جاتا ہے ۔ إثم الإثم والأثام : اسم للأفعال المبطئة عن الثواب «5» ، وجمعه آثام، ولتضمنه لمعنی البطء قال الشاعرجماليّةٍ تغتلي بالرّادفإذا کذّب الآثمات الهجير «6» وقوله تعالی: فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ [ البقرة/ 219] أي : في تناولهما إبطاء عن الخیرات . وقد أَثِمَ إثماً وأثاماً فهو آثِمٌ وأَثِمٌ وأَثِيمٌ. وتأثَّم : خرج من إثمه، کقولهم : تحوّب وتحرّج : خرج من حوبه وحرجه، أي : ضيقه . وتسمية الکذب إثماً لکون الکذب من جملة الإثم، وذلک کتسمية الإنسان حيواناً لکونه من جملته . وقوله تعالی: أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ [ البقرة/ 206] أي : حملته عزته علی فعل ما يؤثمه، وَمَنْ يَفْعَلْ ذلِكَ يَلْقَ أَثاماً [ الفرقان/ 68] أي : عذاباً ، فسمّاه أثاماً لما کان منه، وذلک کتسمية النبات والشحم ندیً لما کانا منه في قول الشاعر : 7- تعلّى الندی في متنه وتحدّرا«7» وقیل : معنی: «يلق أثاماً» أي : يحمله ذلک علی ارتکاب آثام، وذلک لاستدعاء الأمور الصغیرة إلى الكبيرة، وعلی الوجهين حمل قوله تعالی: فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا [ مریم/ 59] . والآثم : المتحمّل الإثم، قال تعالی: آثِمٌ قَلْبُهُ [ البقرة/ 283] . وقوبل الإثم بالبرّ ، فقال صلّى اللہ عليه وسلم : «البرّ ما اطمأنّت إليه النفس، والإثم ما حاک في صدرک» «1» وهذا القول منه حکم البرّ والإثم لا تفسیر هما . وقوله تعالی: مُعْتَدٍ أَثِيمٍ [ القلم/ 12] أي : آثم، وقوله : يُسارِعُونَ فِي الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ [ المائدة/ 62] . قيل : أشار بالإثم إلى نحو قوله : وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولئِكَ هُمُ الْكافِرُونَ [ المائدة/ 44] ، وبالعدوان إلى قوله : وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ [ المائدة/ 45] ، فالإثم أعمّ من العدوان . ( ا ث م ) الاثم والاثام ۔ وہ اعمال وافعال جو ثواب سے روکتے اور پیچھے رکھنے والے ہوں اس کی جمع آثام آتی ہے چونکہ اس لفظ میں تاخیر اور بطء ( دیرلگانا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے شاعر نے اونٹنی کے متعلق کہا ہے ۔ ( المتقارب ) (6) جمالیۃ تغتلی بالرادف اذا کذب الآثمات الھجیرا وہ اونٹ کی طرح مضبوط ہے جب سست رفتار اونٹنیاں دوپہر کے وقت چلنے سے عاجز ہوجاتی ہیں تو یہ ردیف کو لے کر تیز رفتاری کے ساتھ چلتی ہے اور آیت کریمہ { فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ } ( سورة البقرة 219) میں خمر اور میسر میں اثم کبیر کے یہ معنی ہیں کہ ان کا تناول ( اور ارتکاب ) انسان کو ہر قسم کے افعال خیر سے روک لیتا ہے ۔ اثم ( ص) اثما واثاما فھو آثم و اثم واثیم ( گناہ کا ارتکاب کرنا ) اور تاثم ( تفعل ) کے معنی گناہ سے نکلنا ( یعنی رک جانا اور توبہ کرنا ) کے ہیں جیسے تحوب کے معنی حوب ( گناہ ) اور تحرج کے معنی حرج یعنی تنگی سے نکلنا کے آجاتے ہیں اور الکذب ( جھوٹ ) کو اثم کہنا اس وجہ سے ہے کہ یہ بھی ایک قسم کا گناہ ہے اور یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ انسان کو حیوان کا ایک فرد ہونے کی وجہ سے حیوان کہہ دیا جاتا ہے اور آیت کریمہ : { أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ } [ البقرة : 206] کے معنی یہ ہیں کہ اس کی عزت نفس ( اور ہٹ دھرمی ) اسے گناہ پر اکساتی ہے اور آیت : { وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا } [ الفرقان : 68] میں آثام سے ( مجازا ) عذاب مراد ہے اور عذاب کو اثام اس لئے کہا گیا ہے کہ ایسے گناہ ( یعنی قتل وزنا ) عذاب کا سبب بنتے ہیں جیسا کہ نبات اور شحم ( چربی ) کو ندی ( نمی ) کہہ دیا جاتا ہے کیونکہ نمی سے نباتات اور ( اس سے ) چربی پیدا ہوتی ہے چناچہ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (7) |" تعلی الندی فی متنہ وتحدار ، اس کی پیٹھ پر تہ برتہ چربی چڑھی ہوئی ہے اور نیچے تک پھیلی ہوئی ہے ۔ بعض نے آیت کریمہ : میں یلق آثاما کے یہ معنی بھی کئے ہیں مذکورہ افعال اسے دوسری گناہوں پر برانگیختہ کرینگے کیونکہ ( عموما) صغائر گناہ کبائر کے ارتکاب کا موجب بن جاتے ہیں اور آیت کریمہ : { فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا } [ مریم : 59] کی تفسیر بھی ان دو وجہ سے بیان کی گئی ہے ۔ لآثم ۔ گناہ کا ارتکاب کرنے والا ۔ قرآں میں ہے : { آثِمٌ قَلْبُهُ } [ البقرة : 283] وہ دل کا گنہگار ہے ۔ اور اثم کا لفظ بر ( نیکی ) کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا : (6) (6) البرما اطمانت الیہ النفس والاثم ما حاک فی صدرک کہ نیکی وہ ہے جس پر طبیعت مطمئن ہو اور گناہ وہ ہے جس کے متعلق دل میں تردد ہو ۔ یاد رہے کہ اس حدیث میں آنحضرت نے البرو الاثم کی تفسیر نہیں بیان کی ہے بلکہ ان کے احکام بیان فرمائے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : { مُعْتَدٍ أَثِيمٍ } [ القلم : 12] میں اثیم بمعنی آثم ہے اور آیت : { يُسَارِعُونَ فِي الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ } [ المائدة : 62] ( کہ وہ گناہ اور ظلم میں جلدی کر رہے ہیں ) کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ آثم سے آیت : { وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ } [ المائدة : 44] کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ( یعنی عدم الحکم بما انزل اللہ کفرا اور عدوان سے آیت کریمہ : { وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ } [ المائدة : 45] کے مفہوم کی طرف اشارہ ( یعنی عدم الحکم بما انزل اللہ ظلم ) اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ لفظ اثم عدوان سے عام ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

تو بڑی خرابی ہوگی یا یہ کہ دوزخ میں خون اور پیپ کی وادی ہوگی ہر ایسے شخص کے لیے جو کہ جھوٹا اور نافرمان ہو یعنی نضر بن حارث۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧ { وَیْلٌ لِّکُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیْمٍ } ” بربادی ہے ہر جھوٹ گھڑنے والے گنہگار کے لیے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(45:7) ویل اسم مرفوع۔ ہلاکت، عذاب، دوزخ کی ایک وادی، عذاب کی شدت، ویل اصل میں کلمہ عذاب و ہلاکت ہے۔ یہ مصدر ہے اور اس سے فعل کا کوئی صیغہ نہیں آتا۔ (اضواء البیان) افاک۔ جھوٹا۔ افک سے مبالغہ کا صیغہ ہے بروزن فعال۔ الافک ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنے صحیح رخ سے پھیر دی گئی ہو۔ اسی بناء پر ان ہواؤں کو جو اپنا اصلی رخ چھوڑ دیں مؤتفکۃ کہا جاتا ہے۔ اور آیت شریفہ ولمؤتفکۃ اھوی (53:53) اور الٹی ہوئی بستیوں کو دے پٹکا۔ میں مؤتفکۃ سے مراد بستیاں ہیں۔ جن کو اللہ تعالیٰ نے مع ان کے بسنے والوں کے لاٹ دیا تھا۔ اور جھوٹے کو افاک اس لئے کہتے ہیں کہ وہ اعتقاد حق سے باطل کی طرف سچائی سے جھوٹ کی طرف اور اچھے کاموں سے برے کاموں کی طرف پھرتا ہے۔ اثیم بھی اثم سے فعیل کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ بمعنی کثیر الاثم بڑا گنہگار ہے۔ اثم سے قبل حرف عطف محذوف ہے۔ مکذبین کے لئے ویل سورة مرسلات میں بھی مذکور ہے ویل یؤمئذ للمکذبین (77:15) بڑی خرابی ہے اس روز جھٹلانے والوں کے لئے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی عظیم نشانیاں دیکھنے اور اس کی نعمتوں سے مستفید ہونے کے باوجود جھوٹا اور متکبر آدمی اپنے رب کو اس کے حکم کے مطابق ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ ایسے شخص کا انجام بدترین ہوگا۔ جو آدمی توحید و رسالت کو جھٹلانے اور تکبر کا راستہ اختیار کرلیتا ہے اس کی حالت یہ ہوتی ہے کہ جب بھی اسے اللہ کی توحید کی آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ انہیں سننے کے باوجود ایسا رویہ اختیار کرتا ہے گویا کہ اس نے اپنے رب کی آیات کو سنا ہی نہیں۔ اگر کسی وقت توجہ سے سن لیتا ہے تو ایمان لانے کی بجائے انہیں مذاق کرتا ہے۔ اس کے بارے میں ارشاد ہوا کہ اس کو اذیت ناک عذاب کی خوشخبری سنائیں۔ جو اذیّت ناک ہونے کے ساتھ اپنے آپ میں ہر قسم کی ذلت بھی لیے ہوئے ہوگا۔ قرآن مجید ان لوگوں کے لیے ہدایت ہے جو ہدایت قبول کرنے کے لیے سنتے ہیں۔ جو قرآن مجید کو ہدایت کے لیے نہیں بلکہ اس کا مقابلہ کرنے یا اس کا جواب دینے کے لیے سنتا ہے اسے سخت ترین عذاب دیا جائے گا۔ تکبر کے بارے میں پہلے بھی عرض کیا جاچکا ہے کہ اس کا معنٰی ہے لوگوں سے منہ پھیرنا اور حق بات کا انکار کرنا۔ ظاہر بات ہے کہ جس میں یہ عیب پائے جائیں گے اس کا صراط مستقیم کی طرف آنا ناممکن ہوگا۔ جہاں تک اللہ تعالیٰ کی آیات کو مذاق کا نشانہ بنانے کا تعلق ہے اس کی کئی صورتیں ہیں۔ جو لوگ کسی حد تک خوف خدا رکھتے ہیں۔ وہ براہ راست آیات ربانی کو مذاق کرنے کی بجائے علماءِ حق کو مذاق کا نشانہ بناتے ہیں۔ جن لوگوں کے دلوں سے اللہ کا خوف اٹھ جاتا ہے وہ اللہ کی آیات بالخصوص اسلامی قوانین کو ناقابل عمل قرار دیتے ہیں۔ کچھ اتنے بےخوف ہوتے ہیں کہ وہ حدود اللہ کو وحشیانہ سزائیں قرار دیتے ہیں۔ درحقیقت یہ مذاق اور انکار کرنے کی مختلف صورتیں ہیں جن کے انداز اور الفاظ حالات کے مطابق بدلے جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی دنیا میں کوئی نہ کوئی حمایت کرنے والا ہوتا ہے لیکن آخرت میں ان کی کوئی بھی مدد نہیں کر پائے گا۔ جنہوں نے اپنے رب کی ہدایت کا انکار کیا ان کو ذلت ناک عذاب دیا جائے گا۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِیَّاکُمْ وَالظَّنَّ ، فَإِنَّ الظَّنَّ أَکْذَبُ الْحَدِیثِ ، وَلاَ تَحَسَّسُوا، وَلاَ تَجَسَّسُوا، وَلاَ تَحَاسَدُوا، وَلاَ تَدَابَرُوا، وَلاَ تَبَاغَضُوا، وَکُونُوا عِبَاد اللَّہِ إِخْوَانًا ) [ رواہ البخاری : باب مَا یُنْہَی عَنِ التَّحَاسُدِ وَالتَّدَابُرِ ] حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا بد گمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی بہت بڑا جھوٹ ہے۔ کسی کی عیب جوئی، جاسوسی اور حسد نہ کرو، نہ پیٹھ پیچھے باتیں کرو ‘ نہ ہی دشمنی کرو۔ اللہ کے بندو ! بھائی بھائی بن کر رہو۔ “ (عَنْ أُمِ مَعْبَدٍ (رض) قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ اَللّٰہُمَّ طَہِّرْ قَلْبِیْ مِنَ النِّفَاِقِ وَعمَلِیْ مِنَ الرِّیَاءِ وَلِسَانِیْ مِنَ الْکَذِبِ وَعَیْنِیْ مِنَ الْخِیَانَۃَ فَإِنَّکَ تَعْلَمْ خَاءِنَۃَ الْأَعَیْنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرِ )[ رواہ البیہقی فی الدعوات الکبیر ] ” حضرت ام معبد (رض) بیان کرتی ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دعا کرتے ہوئے سنا آپ دعا کیا کرتے تھے۔ اے اللہ ! میرے دل کو نفاق سے، میرے عمل کو ریاء کاری سے، میری زبان کو جھوٹ سے اور میری آنکھوں کو خیانت سے محفوظ فرما۔ یقیناً آپ خیانت کرنے والی آنکھ اور دلوں کے خیالات سے واقف ہیں۔ “ (عَنْ أبِی أمَامَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَطْبَعُ الْمُؤمِنُ عَلٰی الْخِلَالِ کُلِّہَا اِلَّا الْخِیَانَۃَ وَالْکِذْبَ ) [ رواہ أحمد : مسند ابی امامۃ ] ” حضرت ابو امامہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مومن میں ہر قسم کی کمزوری پائی جاسکتی ہے مگر خیانت اور جھوٹ نہیں پائے جاسکتے۔ “ مسائل ١۔ جھوٹے او گناہ گار کے لیے جہنّم ہوگی۔ ٢۔ قیامت کے دن مجرموں کی کوئی خیرخواہی نہیں کرسکے گا۔ ٣۔ جو شحص اللہ کی آیات کو سنی اَن سنی کرتا ہے اسے اذیت ناک عذاب ہوگا۔ ٤۔ جو شخص اللہ کی آیات کو استہزاء کا نشانہ بناتا ہے اسے ذلیل کردینے والا عذاب دیا جائے گا۔ ٥۔ قرآن مجید ہدایت بن کر آیا ہے لیکن جو لوگ اس کے فرامین کا انکار کرتے ہیں ان کے لیے درد ناک عذاب ہوگا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن مجرموں کی کوئی بھی مدد نہیں کرسکے گا : ١۔ اللہ کے مقابلہ میں ان کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔ (ہود : ٢٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ کے سوا تمہارا کوئی ولی اور مددگار نہیں۔ (العنکبوت : ٢٢) ٣۔ تمہارے لیے اللہ کے سوا کوئی دوست اور مددگار نہیں ہے۔ (البقرۃ : ١٠٧) ٤۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ایسا نہیں جو تمہاری مدد کرسکے۔ (البقرۃ : ١٢٠) ٥۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ولی اور بچانے والا نہیں ہے۔ (الرعد : ٣٧) ٦۔ اللہ تعالیٰ کے سوا تمہارا کوئی دوست اور مددگار نہیں ہے۔ (الشوریٰ : ٣١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٧ تا ١٠ جیسا کہ ہم نے اس سورت کے مقدمے میں بھی وضاحت کی کہ مکہ میں مشرکین نے جس طرح دعوت اسلامی کا استقبال کیا ، اس کی تصویر کشی ان آیات میں کی گئی ہے۔ انہوں نے اپنے باطل موقف پر اصرار کیا۔ ایسی سچی دعوت کا ایک لفظ بھی سننے سے انکار کیا جو حق پر مبنی تھی اور جو اپنی ذات میں واضح تھی۔ آفتاب آمد دلیل آفتاب تھی۔ انہوں نے اس حقیقت کے ماننے میں اس قدر ہٹ دھرمی سے کام لیا کہ یوں نظر آتا تھا کہ گویا یہ دعوت ان کے ہاں اذہان تک پہنچی ہی نہیں ہے بلکہ الٹا وہ اللہ کے معاملے میں گستاخ ہوگئے۔ اور قرآن کی جو آیات ان تک پہنچی ان سے منہ موڑنے لگے قرآن کریم نے ان کے اس رویے کی نہایت شدید مذمت کی ہے۔ اور سخت دھمکی دی ہے ان کے لئے سخت بربادی ہے اور ان کو شدید توہین آمیز اور دردناک عذاب سے دوچار ہونا ہوگا۔ ویل لکل افاک اثیم (٤٥ : ٧) “ تباہی ہے ہر اس جھوٹے بد اعمال شخص کے لئے ”۔ ویل ، یعنی ہلاک ہے۔ افاک ، بہت بڑا جھوٹا جو جھوٹ باندھنے میں مہارت رکھتا ہو۔ بہت زیادہ گناہ کاریاں اور بدکاریاں سمیٹنے والا۔ یہ دھمکی ہر اس شخص کے لئے ہے جس میں یہ صفات موجود ہیں۔ یہ اللہ قہار و جبار کی دھمکی ہے جو ہلاک کرنے اور برباد کرنے پر قدرت رکھتا ہے جس کی دھمکی اور ڈراوا اور تہدید بالکل سچی ہوتی ہے۔ اس لیے اس فقرے میں جو دھمکی دی گئی ، وہ بہت ہی خوفناک ہے۔ ایسے افاک جھوٹے اور بداعمال اور بدکار کی صفت و علامت کیا ہے ؟ یہ کہ وہ باطل پر اصرار کرتا ہے ، سچائی کے مقابلے میں جھکنے کی بجائے اور اکڑتا ہے ، اللہ کی نشانیوں کو تسلیم کرنے کی بجائے منہ موڑتا ہے اور شریفانہ رویہ اختیار نہیں کرتا بلکہ گستاخی کرتا ہے۔ یسمع ایت اللہ ۔۔۔۔۔ لم یسمعھا (٤٥ : ٨) “ جس کے سامنے اللہ کی آیات بڑھی جاتی ہیں اور وہ ان کو سنتا ہے پھر پورے غرور کے ساتھ اپنے کفر پر اڑا رہتا ہے کہ گویا اس نے ان کو سنا ہی نہیں ”۔ یہ نہایت ہی قابل نفرت تصویر ہے۔ اگرچہ یہ مشرکین مکہ کے ایک گروہ کی تصویر ہے جو اس وقت ایسا تھا ، مگر ہر نظام جاہلیت میں یہ تصویر اسی طرح دہرائی جاتی ہے۔ آج بھی ہے اور کل بھی ہوگی۔ اس زمین پر کتنے ہی ایسے لوگ ہیں اور نام نہاد مسلمانوں میں سے کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جن پر اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں اور وہ ان کو سنتے ہیں مگر اپنے موقف پر اڑ جاتے ہیں اور غرور میں منہ موڑ لیتے ہیں کیونکہ وہ ان کی خواہشات کے موافق اور ان کے مالوفات سے ہم آہنگ نہیں ہوتیں اور یہ آیات باطل پر تعاون کرنے کے لئے تیار نہیں اور یہ اس شر کی تائید نہیں کرتیں جس پر وہ مصر ہوتے ہیں اور یہ آیات اس سمت پر نہ خود چلتی ہیں اور نہ لوگوں کو چلاتی ہیں جس سمت پر وہ جارہے ہیں۔ فبشرہ بعذاب الیم (٤٥ : ٨) “ ایسے شخص کو دردناک عذاب کا مژدہ سنا دو ”۔ خوشخبری تو کسی اچھے کام پر ہوتی ہے۔ یہاں ان کے لئے بطور استہزاء خوشخبری کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اگر کوئی ڈرانے والے اور متنبہ کرنے والے کی بات نہیں مانتا تو پھر اگر ہلاکت آتی ہے تو آنے دو ، وہ خود ہلاکت طلب کرتا ہے۔ واذا علم من ایتنا شیئا اتخذھا ھزوا (٤٥ : ٩) “ ہماری آیات میں سے جب کوئی چیز اس کے علم میں آتی ہے ، تو وہ ان کا مذاق بنا لیتا ہے ”۔ یہ جانتے ہوئے کہ یہ اللہ کی آیات اور ان کا سرچشمہ ذات باری ہے۔ یہ رویہ اس کی جانب سے شدید جسارت ہے۔ یہ تصویر بھی جس طرح جاہلیت اولیٰ میں تھی اسی طرح آج بھی موجود ہے۔ اور بیشمار لوگ جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں ، ان میں سے بھی ایسے لوگ ہیں جو آیات الٰہیہ کے ساتھ مذاق کرتے ہیں اور وہ ان آیات اور ان پر ایمان لانے والوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اور ان لوگوں کو بھی جو عوام الناس کی زندگیوں کو ان آیات کے مطابق ڈھالتے ہیں۔ اولئک لھم عذاب مھین (٤٥ : ٩) “ ان سب لوگوں کے لئے ذلت کا عذاب ہے ”۔ اہانت ان کے لئے موزوں سزا ہے کیونکہ یہ بھی تو اللہ کی آیات کا مذاق اڑاتے ہیں حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ آیات الٰہیہ ہیں۔ یہ قیامت کا توہین آمیز عذاب حاضر ہے ، اگرچہ قیامت کا برپا ہونا قدرے بعد میں ہے۔ من ورائھم جھنم (٤٥ : ١٠) “ ان کے پیچھے جہنم ہے ”۔ لفظ “ ان کے پیچھے جہنم ہے ” کا ایک خاص مقصد ہے یعنی یہ اسے دیکھ نہیں سکتے کہ انہوں نے قیامت کو پس پشت ڈال دیا ہے اور اس سے ڈرتے اور بچتے اس لیے نہیں کہ یہ غافل ہیں اور اس لیے وہ اس کے اندر گرنے والے ہیں۔ ولا یغنی عنھم ۔۔۔۔۔۔ اولیاء (٤٥ : ١٠) “ جو کچھ انہوں نے دنیا میں کمایا ہے اس میں سے کوئی چیز ان کے کسی کام نہ آئے گی ، نہ ان کے وہ سرپرست ہی ان کے لئے کچھ کرسکیں گے جنہیں اللہ کو چھوڑ کر انہوں نے اپنا ولی بنا رکھا ہے ”۔ یعنی دنیا میں انہوں نے جو کام کئے یا جو ان کی ملکیت تھی ، وہ انہیں کوئی فائدہ نہ دے سکے گی۔ ان کے اعمال اگرچہ اچھے ہوں وہ تو اکارت جائیں گے۔ کیونکہ ایمان کے بغیر عمل مقبول ہی نہیں۔ اور قیامت میں ان کی ملکیت زائل ہوجائے گی کوئی نہ ان کے پاس ہوگی اور نہ فائدہ دے گی۔ اور ان کے دوست اور یار یا معبود ، جو اللہ کے سوا انہوں نے بنا رکھے تھے ، وہ وہاں ان کے لئے نہ نقصان پہنچا سکیں گے اور نہ نفع۔ نہ کسی کو سفارش کی اجازت ہوگی۔ ولھم عذاب عظیم (٤٥ : ١٠) “ ان کے لئے بڑا عذاب ہے ”۔ یہ عذاب توہین آمیز بھی ہوگا جیسا کہ پہلے کہا گیا اور عظیم بھی ہوگا۔ توہین آمیز اس لیے کہ یہ آیات کا مذاق اڑاتے تھے ، اور عظیم اس لیے کہ جرم بڑا ہے۔ یہ پیراگراف یہاں ختم ہوتا ہے جس میں آیات الٰہیہ ساتھ مذاق کرنے کی مذمت وارد ہے۔ ان کے مقابلے میں استکبار کرنے کا ذکر ، ان آیات سے لوگوں کو روکنے کا ذکر ہے۔ خاتمہ پر ان آیات کی حقیقت بیان کی جاتی ہے اور ان کے منکرین کی سزا کا دوبارہ ذکر کردیا جاتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ہر جھوٹے، گنہگار اور متکبر اور منکر کے لیے عذاب الیم ہے قریش مکہ میں جو لوگ ایمان نہیں لائے ان میں بعض لوگ کفر و شرک کے سرغنہ ہوئے تھے۔ جو اسلام قبول نہیں کرتے تھے اور دوسروں کو بھی قبول نہیں کرنے دیتے تھے ان میں سے ابو جہل بھی تھا اور نضر بن حارث بھی، معالم التنزیل میں لکھا ہے کہ آیت کریمہ ﴿ وَيْلٌ لِّكُلِّ اَفَّاكٍ اَثِيْمٍۙ٠٠٧﴾ نضر بن حارث کے بارے میں نازل ہوئی یہ عجمیوں کی باتیں (قصے کہانیاں) خرید کر لاتا تھا اور لوگوں کو سناتا تھا اس کا مقصد یہ تھا کہ لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس نہ جائیں اور قرآن شریف نہ سنیں۔ جس کا کچھ بیان سورة لقمان کے پہلے رکوع میں آیت کریمہ ﴿ وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِيْ لَهْوَ الْحَدِيْثِ ﴾ کے ذیل میں گزر چکا ہے۔ صاحب روح المعانی فرماتے ہیں کہ شان نزول خواہ کسی ایک شخص کے بارے میں ہو، لیکن الفاظ کا عموم ہر اس شخص کو شامل ہے جو اپنے عمل اور کردار سے آیت کے مفہوم کے مصداق ہو ارشاد فرمایا کہ ہر اَفَّاكٍ یعنی خوب جھوٹ بولنے والے اور ہر اَثِيْمٍ یعنی بڑے گنہگار کے لیے ویل ہے یعنی خرابی اور بربادی اور ہلاکت ہے (جس شخص کے بارے میں آیت نازل ہوئی وہ چونکہ بہت جھوٹا اور بہت بڑا گنہگار تھا اس لیے یہ دونوں لفظ لائے گئے اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ تھوڑا جھوٹ اور تھوڑے گناہ جائز ہیں۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

6:۔ ” ویل لکل افاک “ یہ زجر ہے مع تخویف اخروی۔ اس بہت بڑے جھوٹے اور مجرم کے لیے ویل (ہلاکت یا جہنم کی ایک وادی) ہے جو اللہ کی آیتوں کو سنتا ہے لیکن غرور و استکبار سے ان کی پرواہ نہیں کرتا اور اپنے کفر وعناد پر قائم رہتا ہے اور آیات الٰہیہ سے اس طرح اعراض کرتا ہے گویا اس نے ان کو سنا ہی نہیں ایسے معاندین و مستکبرین کو دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دیجئے یہ عذاب اس کے غرور و استکبار، کفر پر اصرار اور آیات الٰہیہ سے اعراض کی سزا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(7) ہر اس جھوٹے دروغ کو گنہگار کے لئے بڑی خرابی اور تباہی ہے۔