Surat ul Ehkaaf

The Dunes

Surah: 46

Verses: 35

Ruku: 4

Listen to Surah Recitation
Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة الْاَحْقَاف نام : آیت نمبر 21 کے فقرے اِذْ اَنْذَرَ قَوْمَہ بِالْاَحْقَافِ سے ماخوذ ہے ۔ زمانۂ نزول : ایک تاریخی واقعہ سے متعین ہو جاتا ہے جس کا ذکر آیت 29 ۔ 32 میں آ یا ہے ۔ ان آیات میں جِنوں کے آنے اور قرآن سن کر واپس جانے کا جو واقعہ بیان ہوا ہے وہ حدیث وسیرت کی متفق علیہ روایت کی رو سے اس...  وقت پیش آیا تھا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم طائف سے مکہ معظمہ کی طرف پلٹتے ہوئے نَخْلہ کے مقام پر ٹھہرے تھے ، اور تمام معتبر تاریخی روایت کے مطابق آپ کے طائف تشریف لے جانے کا واقعہ ہجرت سے تین سال پہلے کا ہے ، لہٰذا یہ متعین ہو جاتا ہے کہ یہ سورۃ 10نبوی کے آخر ، یا 11نبوی میں نازل ہوئی ۔ تاریخی منظر : 10 نبوی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں انتہائی سختی کا سال تھا ۔ تین برس سے قریش کے تمام قبیلوں نے مل کر بنی ہاشم اور مسلمانوں کا مکمل مقاطعہ کر رکھا تھا اور حضور اپنے خاندان اور اپنے اصحاب کے ساتھ شعب ابی طالب ( شعب ابی طالب مکہ معظمہ کے ایک محلے کا نام تھا جس میں بنی ہاشم رہا کرتے تھے ۔ شعب عربی زبان میں گھاٹی کو کہتے ہیں ۔ چونکہ یہ محلہ کوہ ابو قبیس کی گھاٹیوں میں سے ایک گھاٹی میں واقع تھا ، اور ابو طالب بنی ہاشم کے سردار تھے ، اس لیے اسے شعب ابی طالب کہا جاتا تھا ۔ مکہ معظمہ میں جو مکان آج مقامی روایات کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام پیدائش کی حیثیت سے معروف ہے ، اسی کے قریب یہ گھاٹی واقع تھی ۔ اب اسے شعب علی یا شعب بنی ہاشم کہتے ہیں ۔ ) میں محصور تھے ۔ قریش کے لوگوں نے ہر طرف سے اس محلے کی ناکہ بندی کر رکھی تھی جس سے گزر کر کسی قسم کی رسد اندر نہ پہنچ سکتی تھی ۔ صرف حج کے زمانے میں یہ محصورین نکل کر کچھ خریداری کر سکتے تھے ۔ مگر ابو لہب جب بھی ان میں سے کسی کو بازار کی طرف ، یا کسی تجارتی قافلے کی طرف جاتے دیکھتا ، پکار کر تاجروں سے کہہ دیتا کہ جو چیز یہ خریدنا چاہیں اس کی قیمت اتنی زیادہ بتاؤ کہ یہ نہ خرید سکیں ، پھر وہ چیز میں تم سے خرید لوں گا اور تمہارا نقصان نہ ہونے دوں گا ، متواتر تین سال کے اس مقاطعہ نے مسلمانوں اور بنی ہاشم کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی اور ان پر ایسے ایسے سخت وقت گزر گئے تھے جن میں بسا اوقات گھاس اور پتے کھانے کی نوبت آجاتی تھی ۔ خدا خدا کر کے یہ محاصرہ اس سال ٹوٹا ہی تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب ، جو دس سال سے آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لیے ڈھال بنے ہوئے تھے ، وفات پا گئے ، اور اس سانحے پر بمشکل ایک مہینہ گزرا تھا کہ آپ کی رفیقہ حیات حضرت خدیجہ بھی انتقال فرما گئیں جن کی ذات آغاز نبوت سے لے کر اس وقت تک آپ کے لیے وجہ سکون و تسلی بنی رہی تھی ۔ ان پے درپے صدموں اور تکلیفوں کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس سال کو عام الحزن ( رنج و غم کا سال ) فرمایا کرتے تھے ۔ حضرت خدیجہ اور ابوطالب کی وفات کے بعد کفار مکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں اور زیادہ دلیر ہو گئے ۔ پہلے سے زیادہ آپ کو تنگ کرنے لگے ۔ حتیٰ کہ آپ کا گھر سے باہر نکلنا بھی مشکل ہو گیا ۔ اسی زمانہ کا یہ واقعہ ابن ہشام نے بیان کیا ہے کہ ایک روز قریش کے اوباشوں میں سے ایک شخص نے سر بازار آپ کے سر پر مٹی پھینک دی ۔ آخر کار آپ اس ارادے سے طائف تشریف لے گئے کہ بنی ثَقیف کو اسلام کی طرف دعوت دیں اور اگر وہ اسلام نہ قبول کریں تو انہیں کم از کم اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ آپ کو اپنے ہاں چین سے بیٹھ کر کام کرنے کا موقع دے دیں ۔ آپ کو اس وقت کوئی سواری تک میسر نہ تھی ۔ مکہ سے طائف تک کا سارا سفر آپ نے پیدل طے کیا ۔ بعض روایات کی رو سے آپ تنہا تشریف لے گئے تھے ، اور بعض روایات کے مطابق آپ کے ساتھ صرف حضرت زید بن حارثہ تھے ۔ وہاں پہنچ کر چند روز آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے قیام کیا اور ثقیف کے سرداروں اور معززین میں سے ایک ایک کے پاس جا کر بات کی ۔ مگر انہوں نے نہ صرف یہ کہ آپ کی کوئی بات نہ مانی ، بلکہ آپ کو صاف صاف نوٹس دے دیا کہ ان کے شہر سے نکل جائیں ، کیونکہ ان کو اندیشہ ہو گیا تھا کہ کہیں آپ کی تبلیغ ان کے نوجوانوں کو بگاڑ نہ دے ۔ مجبوراً آپ کو طائف چھوڑ دینا پڑا ۔ جب آپ وہاں سے نکلنے لگے تو ثقیف کے سرداروں نے اپنے ہاں کے لفنگوں کو آپ کے پیچھے لگا دیا ۔ وہ راستے کے دونوں طرف دور تک آپ پر آوازے کستے ، گالیاں دیتے اور پتھر مارتے چلے گئے ، یہاں تک کہ آپ زخموں سے چور ہو گئے اور آپ کی جوتیاں خون سے بھر گئیں ۔ اس حالت میں آپ طائف کے باہر ایک باغ کی دیوار کے سائے میں بیٹھ گئے اور اپنے رب سے عرض کیا: خداوندا ، میں تیرے ہی حضور اپنی بے بسی و بے چارگی اور لوگوں کی نگاہ میں اپنی بے قدری کا شکوہ کرتا ہوں ۔ اے ارحم الراحمین ، تو سارے ہی کمزوروں کا رب ہے اور میرا رب بھی تو ہی ہے ۔ مجھے کس کے حوالے کر رہا ہے؟ کیا کسی بیگانے کے حوالے جو مجھ سے درشتی کے ساتھ پیش آئے؟ یا کسی دشمن کے حوالے جو مجھ پر قابو پالے؟ اگر تو مجھ سے ناراض نہیں ہے تو مجھے کسی مصیبت کی پروا نہیں ، مگر تیری طرف سے عافیت مجھے نصیب ہو جائے تو اس میں میرے لیے زیادہ کشادگی ہے ۔ میں پناہ مانگتا ہوں تیری ذات کے اس نور کی جو اندھیرے میں اجالا اور دنیا اور آخرت کے معاملات کو درست کرتا ہے ، مجھے اس سے بچا لے کہ تیرا غضب مجھ پر نازل ہو یا میں تیرے عتاب کا مستحق ہو جاؤں ۔ تیری مرضی پر راضی ہوں یہاں تک کہ تو مجھ سے راضی ہو جائے ۔ کوئی زور اور طاقت تیرے بغیر نہیں ( ابن ہشام ، ج 2 ، ص 62 ) دل شکستہ و غمگین پلٹ کر جب آپ قرن المنازل کے قریب پہنچے تو محسوس ہوا کہ آسمان پر ایک بادل سا چھایا ہوا ہے ۔ نظر اٹھا کر دیکھا تو جبریل علیہ السلام سامنے تھے ۔ انہوں نے پکار کر کہا آپ کی قوم نے جو کچھ آپ کو جواب دیا ہے اللہ نے اسے سن لیا ۔ اب یہ پہاڑوں کا منتظم فرشتہ اللہ نے بھیجا ہے ، آپ جو حکم دینا چاہیں اسے دے سکتے ہیں ۔ پھر پہاڑوں کے فرشتے نے آپ کو سلام کر کے عرض کیا آپ فرمائیں تو دونوں طرف کے پہاڑ ان لوگوں پر الٹ دوں؟ آپ نے جواب دیا ، نہیں ، بلکہ میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ ان کی نسل سے وہ لوگ پیدا کرے گا جو اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی کریں گے ۔ ( بخاری ، بدء الخلق ، ذکر الملائکہ ۔ ۔ مسلم ، کتاب المغازی ۔ نسائی ، البعوث ) اس کے بعد آپ چند روز نخلہ کے مقام پر جا کر ٹھہر گئے ۔ پریشان تھے کہ اب کیسے مکہ واپس جاؤں ۔ طائف میں جو کچھ گزری ہے اس کی خبریں وہاں پہنچ چکی ہوں گی ۔ اس کے بعد تو کفار پہلے سے بھی زیادہ دلیر ہو جائیں گے ۔ ان ہی ایام میں ایک روز رات کو آپ نماز میں قرآن مجید کی تلاوت فرما رہے تھے کہ جِنوں کے ایک گروہ کا ادھر سے گزر ہوا ، انہوں نے قرآن سنا ، ایمان لائے ، واپس جا کر اپنی قوم میں اسلام کی تبلیغ شروع کر دی ، اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو یہ خوشخبری سنائی انسان چاہے آپ کی دعوت سے بھاگ رہے ہوں ، مگر بہت سے جن اس کے گرویدہ ہو گئے ہیں اور وہ اسے اپنی جنس میں پھیلا رہے ہیں ۔ موضوع اور مباحث : یہ حالات تھے جن میں یہ سورت نازل ہوئی ۔ جو شخص بھی ایک طرف ان حالات نزول کو دیکھے گا اور دوسری طرف اس سورۃ کو بغور پڑھے گا اسے اس امر میں کوئی شبہ نہ رہے گا کہ فی الواقع یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام نہیں ہے بلکہ اس کا نزول اللہ زبردست اور دانا کی طرف سے ہے ۔ اس لیے کہ اول سے آخر تک پوری سورۃ میں کہیں ان انسانی جذبات و تأثرات کا ایک ادنیٰ شائبہ تک نہیں پایا جاتا جو ان حالات سے گزرنے والے انسان کے اندر فطری طور پر پیدا ہوتے ہیں ۔ اگر یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام ہوتا ، جنہیں پے در پے صدمات اور مصائب کے بے پناہ ہجوم اور طائف کے تازہ ترین چرکے نے خستہ حالی کی انتہا کو پہنچا دیا تھا ، تو اس سورے میں کہیں تو ان کیفیات کا عکس نظر آتا جو اس وقت آپ کے دل پر گزر رہی تھیں ۔ اوپر ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا نقل کی ہے ، اسے دیکھیے ۔ وہ آپ کا اپنا کلام ہے ۔ اس کا لفظ لفظ ان کیفیات سے لبریز ہے ۔ مگر یہ سورۃ جو اسی زمانے اور ان ہی حالات میں آپ ہی کی زبان مبارک سے ادا ہوئی ہے ان کے ہر اثر سے قطعی خالی ہے ۔ سورۃ کا موضوع کفار کو ان گمراہیوں کے نتائج سے خبردار کرنا ہے جن میں وہ نہ صرف مبتلا تھے ، بلکہ بڑے اصرار اور غرور و استکبار کے ساتھ ان پر جمے ہوئے تھے اور الٹا اس شخص کو ہدف ملامت بنا رہے تھے جو انہیں ان گمراہیوں سے نکالنے کے لیے کوشاں تھا ۔ ان کے نزدیک دنیا کی حیثیت محض ایک بے مقصد کھلونے کی تھی اور اس کے اندر اپنے آپ کو وہ غیر جواب دہ مخلوق سمجھ رہے تھے ۔ توحید کی دعوت ان کے خیال میں باطل تھی اور انہیں اصرار تھا کہ ان کے معبود واقعی خدا کے شریک ہیں ۔ وہ قرآن کے متعلق یہ ماننے کو تیار نہ تھے کہ یہ خداوند عالم کا کلام ہے ۔ رسالت کا ایک عجیب جاہلانہ تصور ان کے ذہن میں تھا اور اس کی بنا پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوائے رسالت کو جانچنے کے لیے وہ طرح طرح کے نرالے معیار تجویز کر رہے تھے ۔ ان کے نزدیک اسلام کے بر حق نہ ہونے کا ایک بڑا ثبوت یہ تھا کہ ان کے شیوخ اور بڑے بڑے قبائلی سردار اور ان کی قوم کے بوجھ بجھکڑا سے نہیں مان رہے ہیں ، اور صرف چند نوجوان ، چند غریب لوگ اور چند غلام ہی اس پر ایمان لائے ہیں ۔ وہ قیامت ، اور زندگی بعد موت ، اور جزا و سزا کی باتوں کو ایک من گھڑت افسانہ سمجھتے تھے ، اور ان کا خیال یہ تھا کہ ان چیزوں کا وقوع خارج از امکان ہے ۔ اس سورۃ میں بالاختصار ان ہی گمراہیوں میں سے ایک ایک کی مدلل تردید کی گئی ہے اور کفار کو خبردار کیا گیا ہے کہ تم اگر عقل و دلیل سے حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرنے کے بجائے تعصب اور ہٹ دھرمی سے کام لے کر قرآن کی دعوت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو رد کر دو گے تو آپ اپنا ہی انجام خراب کرو گے ۔  Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

تعارف سورۃ الاحقاف اس سورت کی آیت نمبر ٢٩ اور ٣٠ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اس وقت نازل ہوئی تھی جب جنات کی ایک جماعت نے حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قرآن کریم سنا تھا، معتبر روایات کے مطابق یہ واقعہ ہجرت سے پہلے اس وقت پیش آیا تھا جب حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طائف سے واپس تشریف...  لارہے تھے اور نخلہ کے مقام پر فجر کی نماز میں قرآن کریم کی تلاوت فرمارہے تھے، دوسری مکی سورتوں کی طرح اس سورت میں بھی اسلام کے بنیادی عقائد یعنی توحید، رسالت اور آخرت کو دلائل کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے، اسی زمانہ میں اس قسم کے واقعات پیش آرہے تھے کہ ایک ہی گھر انے میں والدین مسلمان ہوگئے اور اولاد مسلمان نہیں ہوئی، اور اس نے اپنے والدین کو ملامت شروع کردی کہ وہ کیوں اسلام لائے، اس کے برعکس بعض گھرانوں میں اولاد مسلمان ہوگئی اور والدین مسلمان نہیں ہوئے، اور انہوں نے اولاد پر تشدد شروع کردیا، اس سورت کی آیات ١٦ و ١٧ میں اسی قسم کی صورت حال کا تذکرہ کیا گیا ہے، اور اسی پس منظر میں اولاد پر ماں باپ کے حقوق بیان فرمائے گئے ہیں، اس کے علاوہ ماضی میں جن قوموں نے کفر اور نافرمانی کی روش اختیار کی ان کے برے انجام کا حوالہ دیا گیا ہے، اور قوم عاد کا خاص طور پر ذکر فرمایا گیا ہے، جس جگہ یہ قوم آباد تھی وہاں بہت سے ریت کے ٹیلے تھے جنہیں عربی زبان میں احقاف کہا جاتا ہے، اسی مناسبت سے اس سورت کا نام احقاف ہے۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

تعارف سورة الاحقاف والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتے ہوئے فرمایا گیا کہ والدین فر نبر دار اللہ کا اور ان کیل یے دعائیں کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ الہٰی ! ہم ہر ایک نعمت کا شکر یہ ادا کرتے ہیں آپ سے ایسے اعمال صالحہ کی درخواست کرتے ہیں کہ جن سے آپ راضٰ ہوجائیں ۔ ہم سے کوتاہیاں ہوگئی ہیں ان کو معاف ... کر دیجئے ۔ فرمایا کہ ایسے لوگ بڑے خوش نصیب ہیں اور ان کی دعاؤں کو قبول کیا جاتا ہے لیکن جو لوگ والدین کی اور اللہ کی نافرمانی کرتے ہیں ان پر جہنم کی آگ کو مسلط کیا جائے گا۔ ٭اس کتاب (قرآن مجید ) کو اس اللہ نے نازل فرمایا ہے جو زبر دست اور حکمت والا ہے ۔ اس نے زمین اور آسمانوں کو برحق اور ایک مقرر مدت تک کے لئے پیدا کیا ہے اور جو لوگ کافر ہیں وہ اس چیز کی طرف توجہ نہیں کرتے جس سے ڈرایا گیا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے پوچھے کہ ان میں سے کس کس چیز کو تمہارے ان معبودوں نے بنایا ہے جنہیں تم اللہ کے مقابلے میں پوجتے ہو اور کیا اللہ نے انہیں اپنا شریک بنا رکھا ہے ۔ اگر تم راستے سے بھٹک گئے ہیں اور ایسی چیزوں کو پکارتے ہیں جن کی پکار کو نہ یہ سنتے ہیں اور قیامت کے دن تو وہ بالکل صاف انکار کریں گے اور کہیں گے کہ الہٰی ! ان کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ کفار کو جواب دینے سے عاجز آکر کہتے ہیں کہ اصل میں اس قرآن کو انہوں نے خودگھر لیا ہے یا کوئی کھلا ہوا ہے جادو ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فر مادیجئے کہ اگ میں نے اس قرآن کو خود گھڑلیا ہے تو اس جرم پر مجھے اللہ سے کون بچائے گا اور میں تم سے نہیں کہوں گا کہ مجھے بچا لو۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجئے کہ میں اللہ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں اور میں کوئی ایسا انوکھا اور نا ہوں ۔ جو مجھے حکم دیا جاتا ہے میں اس کی تعمیل کرتا ہوں ۔ ذرا تم سو چو کہ اگر یہ کلام اللہ کی طرف سے ہے ( اور یقینا ہے) اور تم نے اس کو نہیں مانا تو تمہارا انجا کیا ہوگا ؟ کیا تم سزا سے بچ جائو گے ؟ اپنی ہٹ دھرمی اور ضد چھوڑ دو ۔ دیکھو تم بنی اسرائیل کو بڑا عالم و فاضل سمجھتے ہو اگر وہ ایمان لے آئے اور تم ایمان نہ لائے اور تم اپنی جگہ تکبر ہی کرتے رہ گئے تو تم ان ظالموں میں شمار ہوگے جنہیں اللہ کی ہدایت نہیں دیا کرتا۔ فر مایا گیا کہ جنات نے قرآن کریم کو سنا تو خود بھی ایمان لے آئے اور اپنی قوم کو بھی اس پر آمادہ کیا کہ وہ اللہ کے کلام پر ایمان لے آئیں لیکن انسان کیسا بدنصیب ہے کہ وہ جنات جو انسانوں کی جنس سے بھی نہیں ہیں وہ تو ایمان کی دولت سے مالا مال ہورہے ہیں اور خاص طور پر جن انسانوں کے لیے قرآن بھیجا گیا تھا وہ اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اس سعادت سے محروم ہیں۔ ٭وہ کہتے ہیں کہ اگر ہماری کتاب کے مقابلے میں قرآن کوئی اچھی چیز ہوتا تو دوسروں کے مقابلے میں ہم سب سے پہلے اس کو مانتے اور اہمارے بڑے اور ذہین لوگ اس طرف توجہ کرتے چونکہ انہوں نے بھی اس کو قبول نہین کیا لہذا ایسا لگتا ہے کہ اس میں یقینا کوئی خرابی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس قرآن سے پہلے اللہ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر اس زمانے کے لوگوں کی ہدایت کے لیے توریت کو نازل کیا اسی طرح اللہ نے عربی زبان میں اس قرآن کو نازل کیا ہے جو ظا لموں کو ان کے برے انجام سے ڈراتا ہے ۔ تمہاری کتاب کی تصدیق کرتا ہے اس میں نیک عمل کرنے والوں کو قدم قدم پر خوش خبریاں دی گئی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہما را رب اللہ ہے ۔ وہ اسی بات پر زندگی بھر رجمے رہتے ہیں تو ایسے لوگوں کے لیے آخرت میں کوئی رنج و غم نہ ہوگا۔ وہ ہمیشہ کی جنتوں میں رہیں گے۔ ٭ فرمایا والدین کے ساتھ بہترین سلوک کرو۔ ان کی فرمانبرداری کا یہ حال ہے کہ جب وہ اپنی جوانی کو پہنچ جاتے ہیں اور چالیس سال ہی کی عمر کے باوقار ، سنجیدہ اور اعتدال پسند ہوتے ہیں تو وہ اس طرح دعا کرتے ہیں الہٰی ! میں ان تمام نعمتوں پر شکر ادا کرتا ہوں جو آپ نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کی ہیں ۔ مجھے ایسے اعمال صالحہ کی توفیق عطا فرما دیجئے جس سے آپ راضی ہوجائیں ۔ اور میری اولاد کو بھی بھلائی کی صلاحیت اور توفیق عطا فرما دیجئے۔ اور مجھ سے جو کو تاہیاں سرزد ہوگئی ہیں ان کو معاف کردیجئے ۔ فرمایا کہ ایسے لوگوں کو خوش خبری ہے کہ اللہ ان کے اعمال کو قبول کرلے گا۔ ان کی خطاؤں سے درگزر کرے گا اور ان کو جنت میں داخل کیا جائے گا۔ لیکن وہ لوگ جو والدین کے ساتھ گستاخی کا اندازہ اختیار کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم حشر نشر اور جزا سزا کو نہیں مانتے یہ سب بےاصل اور بےبنیاد باتیں ہیں ۔ فرمایا کہ قیامت کے دن جب ایسے لوگوں کے سامنے جہنم کو لا یا جائیگا اور اللہ عذاب کا وعدہ پورا کرے گا تو یہ لوگ سرا سر نقصان اور گھاٹے میں رہیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ تم دنیا میں بہت مزر اڑا چکے ہو اب اس کی سزا بھگتوں اور اس طرح ان کو ذلت کا عذاب دیا جائے گا۔ ٭ قوم عاد جن کی اصلاح کے لیے حضرت ہود (علیہ السلام) کو بھیجا گیا تھا جب انہوں نے اپنی قوم کو کفر و شرک سے منع کیا تو انہوں نے حضرت ہود (علیہ السلام) کا مذاق اڑایا۔ جب ان سے کہا گیا کہ اگر تم نے اپنے کفر و شرک سے توبہ نہ کی تو تمہارے اوپر اللہ کا عذاب آسکتا ہے ۔ تو پوری قوم نے بڑی ڈھٹائی سے کہا ا ہے ہود (علیہ السلام) ! اگر تم سچے ہو تو اس عذاب کو لے آئو جس سے تم ہمیں ڈراتے رہتے ہو۔ جب وہ اپنی ضد پر جمے رہے تو اللہ نے ان پر ہوا کا زبر دست طوفان بھیجا جس نے انکی بستیوں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ۔ ہوا کی تیزی کا یہ حال تھا کہ وہ قوم عاد کو زمین اور پتھروں پر پٹک پٹک کر ماررہی تھی۔ اہل مکہ سے کہا گیا کہ قوم عاد تم سے کہیں زیادہ طاقت ور قوم تھی لیکن جب انہوں نے اللہ کے رسول اور دین کا مذاق اڑایا تو ان کی طاقت و قوت ان کے کسی کام نہ آسکی جب کہ تم کو ان کے مقابلے میں کوئی خاص طاقت نہیں رکھتے ہو۔ عبرت دلانے کے لیے فرما یا کہ آج تم ان ہی قوموں کے کھنڈرات کے پاس گزرتے ہو جنہین جس طرح سمجھایا گیا تھا جب انہوں نے اللہ و رسول کے احکامات کو ماننے سے انکار کیا تو ان کو بچانے کی بھی نہ آسکا۔ اہل مکہ کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لیے جنات کے متعلق بتایا گیا کہ جنات تو قرآن کو سن کر ایمانے لے آئے لیکن تم انسان ہو کر بھی ایمان کی لذت سے محروم ہو۔ ٭ فرمایا کہ جنات نے جب قرآن کریم کو سنا تو انہوں نے نہایت خاموشی سے سنا اور خود بھی ایمان لے آئے اور انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ایک ایسا عجیب و غریب کلام سنا ہے جو سیدھا راستہ بتا تا ہے ۔ اگر تم اللہ کے اس کلام پر ایمان لے آئے تو تمہاری خطائیں معاف کردی جائیں گی لیکن اگر تم نے اس کا انکار کیا تو اللہ کے عذاب سے تمہیں کوئی بھی بچا نہ سکے گا اور تمہاری مدد کے لیے کوئی نہ آسکے گا۔ ٭ مکہ والوں نے فرمایا کہ تم بھی جنات کی طرح ایمان لے آئو اور جہنم کی آگ سے بچ جائو۔ وہ اللہ ایسا ہے جس کی ہر چیز پر قدرت ہے۔ وہی مردوں کو زندہ کرتا ہے۔ فرمایا کہ جب قیامت میں ان منکرین سے پوچھا جائے گا کہ بتائو کیا قیامت ایک حقیقت نہیں ہے ؟ اس وقت ان کو اپنی غلطی کا احساس ہوگا اور وہ کہیں گے کہ واقعہ ہم غلطی پر تھے تو اللہ ان سے فر مائیں گے کہ اب عذاب جہنم کا مزہ چکھو۔ ٭ آخری میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان کفار و مشرکین کی حرکتوں پر صبر کیجئے۔ جب یہ لوگ اپنے سامنے جہنم کو دیکھیں گے تو ان پر ایسی دہشت طاری ہوگی کہ ان کی اتنی مدت بھی ایسی لگے گی جیسے وہ دن کی ایک کھڑی دنیا میں ٹھہر کر آئے ہیں اور پھر ان پر جہنم کو مسلط کردیا جائے گا۔   Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

سورة الاحقاف کا تعارف اس سورت کا نام اس کی آیت ٢١ میں موجود ہے۔ یہ سورت ٤ رکوع اور ٣٥ آیات پر مشتمل ہے اور مکہ میں نازل ہوئی اکثر مفسرین کا خیال ہے کہ یہ سورت ہجرت سے تقریباً تین سال پہلے اس وقت نازل ہوئی جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طائف تشریف لے گئے اور طائف والاوں نے آپ کے ساتھ بد ترین سلوک...  کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے رویے سے مایوس ہو کر مکہ واپس آ رہے تھے کہ راستے میں 3 کی ایک جماعت نے آپ سے ملاقات کی اور آپ نے انہیں توحید کی دعوت دی۔ جنات نے جب آپ کی دعوت کو سنا تو انہوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ اس قرآن کو نہایت خاموشی کے ساتھ سنو کیونکہ یہ ایسی کتاب ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد نازل کی گئی ہے اور تورات کی تصدیق کرنے والی ہے۔ یہ کتاب حق بات اور صراط مستقیم کی راہنمائی کرتی ہے۔ 3 نے اپنے ساتھیوں سے یہ بھی کہا کہ اے ہماری قوم کے لوگو ! تمہیں اس داعی کی دعوت کو ضرورقبول کرنا لینا چاہیے۔ اس سے اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ معاف کریں گے اور تمہیں عذاب علیم سے نجات دیں گے۔ اس سورت کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ کیا تم غور نہیں کرتے کہ جن کو تم اللہ تعالیٰ کے سواہ پکارتے ہو انہوں نے زمین میں کون سی چیز پیدا کی ہے ؟ یا وہ آسمانوں کی تخلیق میں اللہ تعالیٰ کے معاون تھے ؟ اگر تمہارے پاس اس بات کا عقلی یانقلی ثبوت ہے تو پیش کرو۔ یاد رکھو اس شخص سے بڑھ کر کوئی گمراہ نہیں ہوسکتا۔ جو اللہ تعالیٰ کے سواہ دوسروں سے مانگتا ہے اور انھیں مشکل کے وقت پکارتا ہے ان کی حالت یہ ہے کہ وہ قیامت تک مانگنے والوں کی دعاؤں اور صداؤں سے غافل ہیں۔ قیامت کے دن انہیں ایک دوسرے کے سامنے اکٹھا کیا جائے گا تو وہ اپنے پکارنے والوں کی پکار سے انکار کریں گے اس کے بعد یہ ارشاد ہوا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے فرمائیں کہ میں کوئی نیا اور انوکھا رسول نہیں ہوں اور نہ ہی میں کوئی انوکھی تعلیم دیتا ہوں میں وہی دعوت دے رہا ہوں جو پہلے انبیاء کرام کی دعوت ہے۔ میں اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا رسول ہوں میں نہیں جانتا کہ میرے اور تمہارے ساتھ کیا معاملہ ہونے والا ہے بیشک جو لوگ اللہ کی توحید پر استقامت اختیار کریں گے انہیں کوئی خوف و خطر نہیں ہوگا توحید اور نبی کی رسالت بیان کرنے کے بعد والدین کے ساتھ احسان کرنے کا حکم دیا اور بتلایا کہ اولاد افکار اور کردار کے لخاظ سے دو قسم کی ہوتی ہے ایک اولاد وہ ہے جو اپنے رب کا حکم مان کر اپنے والدین کے ساتھ نہ صرف حسن سلوک کرتی ہے بلکہ ان کے لیے دعا گو رہتی ہے، دوسری اولاد وہ ہے جو اپنے ماں باپ کی نافرمان اور قیامت کا انکار کرتی ہے اور قیامت کے عقیدہ کو پہلے لوگوں کی کہانیاں سمجھتی ہے اس سورت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کا شرکیہ عقیدہ بیان کرنے کے بعد انکے انجام کا ذکر کیا اور اہل مکہ کو سمجھایا ہے کہ جب قوم عاد پر برا وقت آیا تھا تو انکے خداؤں نے ان کی کوئی مدد نہیں کی تھی جب تم پر برا وقت آئے گا تو تمہاری مدد کرنے والا بھی کوئی نہیں ہوگا۔ سورة الاحقاف کا اختتام اس بات پر کیا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہلے انبیاء کی طرح صبرو حوصلہ سے کام لو اور جلد بازی سے اجتناب کرو جو لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو ٹھکراتے ہیں۔ وقت آئے گا کہ قیامت کے خوف کی وجہ سے وہ کہیں گے کہ ہم دنیا میں تھوڑی ہی مدت رہے تھے۔ نافرمانوں کے لیے اس دن ہلاکت کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔   Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

سورة احقاف ایک نظر میں یہ سورت مکی ہے اور اس کا موضوع اسلامی عقیدہ ہے۔ یعنی اللہ کی وحدانیت اور ربوبیت پر ایمان لانا کہ وہ واحد ہے اور پروردگار ہے۔ وہ اس پوری کائنات اور اس میں پائے جانے والی مخلوقات کا رب ہے اور یہ کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رسول ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم... ) سے پہلے بھی کئی رسول گزرے ہیں ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ قرآن نازل ہوا ہے اور یہ ان کتابوں کی تصدیق کرتا ہے جو پہلے نازل ہوئیں۔ اور یہ کہ مرنے کے بعد اٹھایا جائے گا اور پھر حساب و کتاب ہوگا اور یہ حساب و کتاب ان اعمال کی بنیاد پر ہوگا جو لوگوں نے اس دنیا میں کئے ، اچھے یا برے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi