Surat ul Ehkaaf

Surah: 46

Verse: 26

سورة الأحقاف

وَ لَقَدۡ مَکَّنّٰہُمۡ فِیۡمَاۤ اِنۡ مَّکَّنّٰکُمۡ فِیۡہِ وَ جَعَلۡنَا لَہُمۡ سَمۡعًا وَّ اَبۡصَارًا وَّ اَفۡئِدَۃً ۫ ۖفَمَاۤ اَغۡنٰی عَنۡہُمۡ سَمۡعُہُمۡ وَ لَاۤ اَبۡصَارُہُمۡ وَ لَاۤ اَفۡئِدَتُہُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ اِذۡ کَانُوۡا یَجۡحَدُوۡنَ ۙ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ حَاقَ بِہِمۡ مَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ ﴿۲۶﴾٪  3

And We had certainly established them in such as We have not established you, and We made for them hearing and vision and hearts. But their hearing and vision and hearts availed them not from anything [of the punishment] when they were [continually] rejecting the signs of Allah ; and they were enveloped by what they used to ridicule.

اور بالیقین ہم نے ( قوم عاد ) کو وہ مقدور دیئے تھے جو تمہیں تو دیئے بھی نہیں اور ہم نے انہیں کان آنکھیں اور دل بھی دے رکھے تھے ۔ لیکن ان کے کانوں اور آنکھوں اور دلوں نے انہیں کچھ بھی نفع نہ پہنچایا جبکہ وہ اللہ تعالٰی کی آیتوں کا انکار کرنے لگے اور جس چیز کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے وہی ان پر الٹ پڑی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah says, وَلَقَدْ مَكَّنَّاهُمْ فِيمَا إِن مَّكَّنَّاكُمْ فِيهِ ... And indeed We had firmly established them with that wherewith We have not established you! means, `We have granted the earlier nations wealth and offspring in the worldly life. That which We granted them, we did not give you anything similar or close to it.' Furthermore, ... وَجَعَلْنَا لَهُمْ سَمْعًا وَأَبْص... َارًا وَأَفْيِدَةً فَمَا أَغْنَى عَنْهُمْ سَمْعُهُمْ وَلاَ أَبْصَارُهُمْ وَلاَ أَفْيِدَتُهُم مِّن شَيْءٍ إِذْ كَانُوا يَجْحَدُونَ بِأيَاتِ اللَّهِ وَحَاقَ بِهِم مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِوُون We also gave them hearing, vision, and hearts. But their hearing, vision, and hearts availed them nothing when they used to deny Allah's signs, and they were completely encircled by that which they used to ridicule! meaning, they were encircled by the torment and exemplary punishment that they denied and whose occurrence they doubted. This means, you listeners must beware of being like them lest a punishment similar to theirs strikes you in this life and the Hereafter. Allah then says,   Show more

مغضوب شدہ قوموں کی نشاندہی ارشاد ہوتا ہے کہ اگلی امتوں کو جو اسباب دنیوی مال و اولاد وغیرہ ہماری طرف سے دئیے گئے تھے ویسے تو تمہیں اب تک مہیا بھی نہیں ان کے بھی کان آنکھیں اور دل تھے لیکن جس وقت انہوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا اور ہمارے عذابوں کا مذاق اڑایا تو بالاخر ان کے ظاہری اسباب انہیں کچھ ک... ام نہ آئے اور وہ سزائیں ان پر برس پڑیں جن کی یہ ہمیشہ ہنسی کرتے رہے تھے ۔ پس تمہیں انکی طرح نہ ہونا چاہیے ایسا نہ ہو کہ انکے سے عذاب تم پر بھی آجائیں اور تم بھی ان کی طرح جڑ سے کاٹ دئیے جاؤ ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے اے اہل مکہ تم اپنے آس پاس ہی ایک نظر ڈالو اور دیکھو کہ کس قدر قومیں نیست و نابود کر دی گئی ہیں اور کس طرح انہوں نے اپنے کرتوت بدلے پائے ہیں احقاف جو یمن کے پاس ہے حضر موت کے علاقہ میں ہے یہاں کے بسنے والے عادیوں کے انجام پر نظر ڈالو تمہارے اور شام کے درمیان ثمودیوں کا جو حشر ہوا اسے دیکھو اہل یمن اور اہل مدین کی قوم سبا کے نتیجہ پر غور کرو تم تو اکثر غزوات اور تجارت وغیرہ کے لئے وہاں سے آتے جاتے رہتے ہو ، بحیرہ قوم لوط سے عبرت حاصل کرو وہ بھی تمہارے راستے میں ہی پڑتا ہے پھر فرماتا ہے ہم نے اپنی نشانیوں اور آیتوں سے خوب واضح کر دیا ہے تاکہ لوگ برائیوں سے بھلائیوں کی طرف لوٹ آئیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا جن جن معبودان باطل کی پرستش شروع کر رکھی تھی گو اس میں ان کا اپنا خیال تھا کہ اس کی وجہ سے ہم قرب الہٰی حاصل کریں گے ، لیکن کیا ہمارے عذابوں کے وقت جبکہ ان کو ان کی مدد کی پوری ضرورت تھی انہوں نے ان کی کسی طرح مدد کی ؟ ہرگز نہیں بلکہ ان کی احتیاج اور مصیبت کے وقت وہ گم ہوگئے ان سے بھاگ گئے ان کا پتہ بھی نہ چلا الغرض ان کا پوجنا صریح غلطی تھی غرض جھوٹ تھا اور صاف افتراء اور فضول بہتان تھا کہ یہ انہیں معبود سمجھ رہے تھے پس ان کی عبادت کرنے میں اور ان پر اعتماد کرنے میں یہ دھوکے میں اور نقصان میں ہی رہے ، واللہ اعلم ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2 6 ۔ 1 یہ اہل مکہ کو خطاب کر کے کہا جا رہا ہے کہ تم کیا چیز ہو تم سے پہلی قومیں جنہیں ہم نے ہلاک کیا قوت وشوکت میں تم سے کہیں زیادہ تھیں لیکن جب انہوں نے اللہ کی دی ہوئی صلاحیتوں آنکھ کان اور دل کو حق کے سننے دیکھنے اور اسے سمجھنے کے لیے استعمال نہیں کیا تو بالآخر ہم نے انہیں تباہ کردیا اور ی... ہ چیزیں ان کے کچھ کام نہ آسکیں۔ 26۔ یعنی جس عذاب کو وہ انہونا سمجھ کر بطور مذاق کہا کرتے تھے کہ لے آ اپنا عذاب ! جس سے تو ہمیں ڈراتا رہتا ہے، وہ عذاب آیا اور اس نے انہیں ایسا گھیرا کہ پھر اس سے نکل نہ سکے۔   Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٩] یعنی سننے کے لیے کان، دیکھنے کے لیے آنکھیں اور سوچ بچار کے لیے دل دیئے تھے۔ مگر وہ ان سے اتنا ہی کام لیتے تھے جو ایک جانور لیتا ہے۔ یعنی اتنا ہی جو دنیا کے مال و متاع کے حصول کے لیے مفید ہو۔ دنیا کے کام میں عقلمند تھے لیکن وہ عقل نہ آئی جس سے آخرت درست ہو، آیات الٰہی سنتے وقت ان کے کان بہرے ہو... جاتے تھے اور آیات الٰہی دیکھنے کے لیے ان کی آنکھیں بند ہی رہتی تھیں۔ پھر جب ان پر عذاب الٰہی آیا تو ان کی عقلمندی ان کے کسی کام نہ آسکی۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ولقد مکنھم فیمآ ان مکنکم فیہ :” مکن یمکن تمکینا “ کسی چیز پر قدرت دینا۔ ” ان رہی ہے کہ جسمانی ڈیل ڈول، مال، اولاد، قوت، سلطن ، غرض وہ دنیوی اسباب جن پر ہم نے قوم عاد کو قدرت عطا کی تھی حسین ان پر قدرت عطا نہیں کی، جب اللہ کے عذاب کے سامنے ان کی تمام تر قوت و شوکت تنکوں کی طرح اڑ گئی تو تمہاری کی... ا بساط ہے ؟ یہ بات اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر فرمائی ہے، دیکھیے سورة روم (٩) اور سورة مومن (٢١) ۔ (٢) وجعلنا لھم سمعاً وابصاراً و افدۃ…: دوسری جگہ ان کے متعلق فرمایا :(وکانوا مستبصرین) (العنکبوت : 38)” حالانکہ وہ بہت سمجھ دار تھے۔ “ یعنی ہم نے انہیں سننے کے لئے کان، دیکھنے کے لئے آنکھیں اور سوچ بچار کے لئے دل دیے تھے، مگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی آیات کو سننے، اس کی نشانیوں کو عبرت کے لئے دیکھنے اور آخرت کی زندگی کے متعلق غور و فکر کے بجائے اسے اتنا ہی کام لیا جو دنیا کے مال و متاع کے حصول کیلئے مفید ہو۔ دنیا کے کام میں عقل مند تھے، لیکن وہ عقل نہ ائٓی جس سے آخرت درست ہو، آیات الٰہی سنتے وقت ان کے کان بہرے ہوجاتے تھے اور آیات الٰہی دیکھنے کیلئے ان کی آنکھیں ب ند ہی رہتی تھیں۔ پھر جب ان پر اللہ کا عذاب آیا تو ان کی عقل مندی ان کے کسی کام نہ آکسی ، کیونکہ وہ اللہ کی آیات تسلیم کرنے سے صاف انکار کیا کرتے تھے۔ (٣) وحاق بھم ما کانوا بہ یستھزون : یعنی وہ عذاب جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ جس عذاب سے ہمیں ڈراتے ہو وہ کب آرہا ہے، اسی عذاب نے انہیں گھیر لیا اور ایسا گھیرا کہ پھر اس سے نکل نہ سکے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ مَكَّنّٰہُمْ فِيْمَآ اِنْ مَّكَّنّٰكُمْ فِيْہِ وَجَعَلْنَا لَہُمْ سَمْعًا وَّاَبْصَارًا وَّاَفْـــِٕدَۃً۝ ٠ ۡ ۖ فَمَآ اَغْنٰى عَنْہُمْ سَمْعُہُمْ وَلَآ اَبْصَارُہُمْ وَلَآ اَفْــِٕدَتُہُمْ مِّنْ شَيْءٍ اِذْ كَانُوْا يَجْـحَدُوْنَ۝ ٠ ۙ بِاٰيٰتِ اللہِ وَحَاقَ بِہِمْ مَّا كَانُوْا بِہٖ يَسْتَہ... ْزِءُوْنَ۝ ٢٦ ۧ ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک : ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ مكن المَكَان عند أهل اللّغة : الموضع الحاوي للشیء، قال : وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ [ الأعراف/ 10] ( م ک ن ) المکان اہل لغت کے نزدیک مکان اس جگہ کو کہتے ہیں جو کسی جسم پر حاوی ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ [ الأعراف/ 10] اور ہم نے زمین میں تمہارا ٹھکانا بنایا ۔ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ بصر البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل/ 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] ( ب ص ر) البصر کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔ وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ فأد الْفُؤَادُ کالقلب لکن يقال له : فُؤَادٌ إذا اعتبر فيه معنی التَّفَؤُّدِ ، أي : التّوقّد، يقال : فَأَدْتُ اللّحمَ : شَوَيْتُهُ ، ولحم فَئِيدٌ: مشويٌّ. قال تعالی: ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى [ النجم/ 11] ، إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤادَ [ الإسراء/ 36] ، وجمع الفؤاد : أَفْئِدَةٌ. ( ف ء د ) الفواد کے معنی قلب یعنی دل کے ہیں مگر قلب کے فواد کہنا معنی تفود یعنی روشن ہونے کے لحاظ سے ہے محاورہ ہے فادت الحم گوشت گو آگ پر بھون لینا لحم فئید آگ میں بھنا ہوا گوشت ۔ قرآن میں ہے : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى [ النجم/ 11] جو کچھ انہوں نے دیکھا ان کے دل نے اس کو جھوٹ نہ جانا ۔ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤادَ [ الإسراء/ 36] کہ کان اور آنکھ اور دل فواد کی جمع افئدۃ ہے قرآن میں ہے فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ [إبراهيم/ 37] لوگوں کے دلوں کو ایسا کردے کہ ان کی طرف جھکے رہیں ۔ جحد الجُحُود : نفي ما في القلب إثباته، وإثبات ما في القلب نفيه، يقال : جَحَدَ جُحُوداً وجَحْداً قال عزّ وجل : وَجَحَدُوا بِها وَاسْتَيْقَنَتْها أَنْفُسُهُمْ [ النمل/ 14] ، وقال عزّ وجل : بِآياتِنا يَجْحَدُونَ [ الأعراف/ 51] . وتَجَحَّدَ تَخَصَّصَ بفعل ذلك، يقال : رجل جَحِدٌ: شحیح قلیل الخیر يظهر الفقر، وأرض جَحْدَة : قلیلة النبت، يقال : جَحَداً له ونَكَداً ، وأَجْحَدَ : صار ذا جحد . ( ج ح د ) حجد ( ف ) جحد وجحودا ( رجان بوجھ کر انکار کردینا ) معنی دل میں جس چیز کا اقرار ہو اس کا انکار اور جس کا انکار ہو اس کا اقرار کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَحَدُوا بِها وَاسْتَيْقَنَتْها أَنْفُسُهُمْ [ النمل/ 14] اور ان سے انکار کیا کہ انکے دل انکو مان چکے تھے بِآياتِنا يَجْحَدُونَ [ الأعراف/ 51] اور ہماری آیتوں سے منکر ہورہے تھے ۔ کہا جاتا ہے : ۔ رجل جحد یعنی کنجوس اور قلیل الخیر آدمی جو فقر کو ظاہر کرے ۔ ارض جحدۃ خشک زمین جس میں روئید گی نہ ہو ۔ محاورہ ہے : ۔ اسے خبر حاصل نہ ہو ۔ اجحد ۔ ( افعال ، انکار کرنا ۔ منکر ہونا ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ حاق قوله تعالی: وَحاقَ بِهِمْ ما کانوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [هود/ 8] . قال عزّ وجلّ : وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر/ 43] ، أي : لا ينزل ولا يصيب، قيل : وأصله حقّ فقلب، نحو : زلّ وزال، وقد قرئ : فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطانُ [ البقرة/ 36] ، وأزالهما «2» وعلی هذا : ذمّه وذامه . ( ح ی ق ) ( الحیوق والحیقان) ( ض ) کے معنی کسی چیز کو گھیر نے اور اس پر نازل ہونے کے ہیں ۔ اور یہ باء کے ساتھ متعدی ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ : وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر/ 43] اور بری چال کا وبال اسکے چلنے والے پر ہی پڑتا ہے وحاق بِهِمْ ما کانوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [هود/ 8] اور جس چیز سے استہزاء کیا کرتے تھے اس نے ان کو آگھیرا ۔ اسْتِهْزَاءُ : ارتیاد الْهُزُؤِ وإن کان قد يعبّر به عن تعاطي الهزؤ، کالاستجابة في كونها ارتیادا للإجابة، وإن کان قد يجري مجری الإجابة . قال تعالی: قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة/ 65] ، وَحاقَ بِهِمْ ما کانوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [هود/ 8] ، ما يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كانُوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [ الحجر/ 11] ، إِذا سَمِعْتُمْ آياتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِها وَيُسْتَهْزَأُ بِها[ النساء/ 140] ، وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ [ الأنعام/ 10] والِاسْتِهْزَاءُ من اللہ في الحقیقة لا يصحّ ، كما لا يصحّ من اللہ اللهو واللّعب، تعالیٰ اللہ عنه . وقوله : اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة/ 15] أي : يجازيهم جزاء الهزؤ . ومعناه : أنه أمهلهم مدّة ثمّ أخذهم مغافصة «1» ، فسمّى إمهاله إيّاهم استهزاء من حيث إنهم اغترّوا به اغترارهم بالهزؤ، فيكون ذلک کالاستدراج من حيث لا يعلمون، أو لأنهم استهزء وا فعرف ذلک منهم، فصار كأنه يهزأ بهم كما قيل : من خدعک وفطنت له ولم تعرّفه فاحترزت منه فقد خدعته . وقد روي : [أنّ الْمُسْتَهْزِئِينَ في الدّنيا يفتح لهم باب من الجنّة فيسرعون نحوه فإذا انتهوا إليه سدّ عليهم فذلک قوله : فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آمَنُوا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 34] «2» وعلی هذه الوجوه قوله عزّ وجلّ : سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ [ التوبة/ 79] . الا ستھزاء اصل میں طلب ھزع کو کہتے ہیں اگر چہ کبھی اس کے معنی مزاق اڑانا بھی آجاتے ہیں جیسے استجا بۃ کے اصل منعی طلب جواب کے ہیں اور یہ اجابۃ جواب دینا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة/ 65] کہو کیا تم خدا اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنسی کرتے تھے ۔ وَحاقَ بِهِمْ ما کانوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [هود/ 8] اور جس چیز کے ساتھ یہ استہزاء کیا کرتے ۔ تھے وہ ان کو گھر لے گی ۔ ما يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كانُوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [ الحجر/ 11] اور ان کے پاس کوئی پیغمبر نہیں آتا تھا مگر اس کے ساتھ مذاق کرتے تھے ۔إِذا سَمِعْتُمْ آياتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِها وَيُسْتَهْزَأُ بِها[ النساء/ 140] کہ جب تم ( کہیں ) سنو کہ خدا کی آیتوں سے انکار ہوراہا ہے ا اور ان کی ہنسی ارائی جاتی ہے ۔ وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ [ الأنعام/ 10] اور تم سے پہلے بھی پیغمبروں کے ساتھ تمسخر ہوتے ہے ۔ حقیقی معنی کے لحاظ سے استزاء کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف صحیح نہیں ہے جیسا کہ لہو ولعب کا استعمال باری تعالیٰ کے حق میں جائز نہیں ہے لہذا آیت : ۔ اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة/ 15]( ان ) منافقوں سے ) خدا ہنسی کرتا ہے اور انہیں مہلت دیئے جاتا ہے کہ شرارت وسر کشی میں پڑے بہک رہے ہیں ۔ میں یستھزئ کے معنی یا تو استھزاء کی سزا تک مہلت دی اور پھر انہیں دفعتہ پکڑ لیا یہاں انہوں نے ھزء کی طرح دھوکا کھا یا پس یا اس مارج کے ہم معنی ہے جیسے فرمایا : ۔ ان کو بتریج اس طرح سے پکڑیں گے کہ ان کو معلوم ہی نہ ہوگا ۔ اور آہت کے معنی یہ ہیں کہ جس قدر وہ استہزار اڑا رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کے استہزار سے باخبر ہے تو گو یا اللہ تعالیٰ بھی ان کا مذاق اڑارہا ہے ۔ مثلا ایک شخص کسی کو دھوکہ دے ۔ اور وہ اس کے دھوکے سے باخبر ہوکر اسے اطلاع دیئے بغیر اسے سے احتراز کرے تو کہا جاتا ہے ۔ خدعنہ یعنی وہ اس کے دھوکے سے باخبر ہے ۔ ایک حدیث میں ہے ۔ ان للستھزبین فی الدنیا الفتح لھم باب من الجنتہ فیسر عون نحوہ فاذا انتھرا الیہ سد علیھم ۔ کہ جو لوگ دنیا میں دین الہٰی کا مذاق اڑاتے ہیں قیامت کے دن ان کے لئے جنت کا دروازہ کھولا جائیگا جب یہ لوگ اس میں داخل ہونے کے لئے سرپ دوڑ کر وہاں پہنچیں گے تو وہ دروازہ بند کردیا جائیگا چناچہ آیت : ۔ فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آمَنُوا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 34] تو آج مومن کافروں سے ہنسی کریں گے ۔ میں بعض کے نزدیک ضحک سے یہی معنی مراد ہیں اور آیت سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ [ التوبة/ 79] خدا ان پر ہنستا ہے اور ان کے لئے تکلیف دینے والا عذاب تیار ہے ۔ میں بھی اسی قسم کی تاویل ہوسکتی ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور ہم نے ان کو اس قدر مال و طاقت اور کاموں کا حوصلہ دیا تھا کہ اے مکہ والو تمہیں اس قدر مال نہیں دیا اور نہ اتنی قوت دی ہے اور ہم نے انہیں سننے کے لیے کان اور دیکھنے کے لیے آنکھیں اور سوچنے و سمجھنے کے لیے دل دیے تھے مگر کیونکہ وہ حق تعالیٰ کے وعدوں اور اس کی کتاب کا انکار کیا کرتے تھے تو اس لیے عذ... اب الہی کے سامنے ان کی آنکھوں وغیرہ میں سے کوئی چیز بھی ان کے کام نہ آئی اور وہ جس عذاب کا مذاق اڑایا کرتے تھے وہی عذاب نازل ہوگیا۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦ { وَلَقَدْ مَکَّنّٰہُمْ فِیْمَآ اِنْ مَّکَّنّٰکُمْ فِیْہِ } ” اور ہم نے جو تمکن انہیں دیا تھا ایسا تمکن ّہم نے تمہیں نہیں دیا ہے “ قریش مکہ کو مخاطب کر کے بتایا جا رہا ہے کہ جو طاقت اور شان و شوکت قوم عاد کو عطا ہوئی تھی اور جو وسائل انہیں میسر تھے تم لوگوں کے پاس تو اس کے مقابلے میں کچھ بھ... ی نہیں ہے۔ قبل ازیں سورة الاعراف کی آیت ٦٩ کے ضمن میں بھی ذکر ہوچکا ہے کہ تہذیب و تمدن کے اعتبار سے قوم عاد اپنے زمانے کی بہت ترقی یافتہ قوم تھی۔ شداد اسی قوم کا بادشاہ تھا جس نے خصوصی طور پر ایک شہر بسا کر اسے جنت ِارضی کا نام دیا تھا۔ قوم عاد کا علاقہ اب لق ودق صحرا کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ اس صحرا میں شداد کے مذکورہ شہر کی باقیات زیر زمین سیٹلائیٹ کے ذریعے سے دریافت ہوچکی ہیں۔ حتیٰ کہ شہر کی فصیل پر بنے ہوئے ٣٠ کے قریب ستون بھی گن لیے گئے ہیں۔ اسی طرح وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ تمام نشانیاں ایک ایک کر کے دنیا کے سامنے آتی چلی جائیں گی جن کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔ { وَجَعَلْنَا لَہُمْ سَمْعًا وَّاَبْصَارًا وَّاَفْئِدَۃً } ” اور ہم نے انہیں کان ‘ آنکھیں اور دل ( یاعقلیں) عطا کیے تھے۔ “ { فَمَآ اَغْنٰی عَنْہُمْ سَمْعُہُمْ وَلَآ اَبْصَارُہُمْ وَلَآ اَفْئِدَتُہُمْ مِّنْ شَیْئٍ } ” تو ان کے کچھ بھی کام نہ آئے ان کے کان ‘ نہ ان کی آنکھیں اور نہ ہی ان کے دل ( عقلیں) “ { اِذْ کَانُوْا یَجْحَدُوْنَ لا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَحَاقَ بِہِمْ مَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَہْزِئُ وْنَ } ” جبکہ وہ انکار ہی کرتے رہے اللہ کی آیات کا اور ان کو گھیر لیا اسی چیز نے جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے۔ “  Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

30 That is, "You are no match for them as far as wealth, power, authority and other things are concerned: your sphere of authority is restricted to the bounds of the city of Makkah, but they had dominated a large part of the earth. " 31 An important truth has been stated in this brief sentence. It is only the Revelations of Allah which give the right knowledge and understanding of the truth and r... eality to man. If man has this understanding and knowledge he sees the right thing with his eyes, hears the right thing with his ears, thinks the right thing with his mind and intellect and takes the right decisions. But when he refuses to believe in the Revelations of Allah, he fails to see the truth in spite of the eyes, becomes deaf to every word of admonition in spite of the ears, and misuses the blessings of the mind and intellect that God has granted him, and goes on drawing wrong conclusions one after the other; so much so that he starts «sing aII his capabilities for his own destruction.  Show more

سورة الْاَحْقَاف حاشیہ نمبر :30 یعنی مال ، دولت ، طاقت ، اقتدار ، کسی چیز میں بھی تمہارا اور ان کا کوئی مقابلہ نہیں ہے ۔ تمہارا دائرہ اقتدار تو شہر مکہ کے حدود سے باہر کہیں بھی نہیں اور وہ زمین کے ایک بڑے حصے پر چھائے ہوئے تھے ۔ سورة الْاَحْقَاف حاشیہ نمبر :31 اس مختصر سے فقرے میں ایک اہم...  حقیقت بیان کی گئی ہے ۔ خدا کی آیات ہی وہ چیز ہیں جو انسان کو حقیقت کا فہم و ادراک بخشتی ہیں ۔ یہ فہم و ادراک انسان کو حاصل ہو تو وہ آنکھوں سے ٹھیک دیکھتا ہے ، کانوں سے ٹھیک سنتا ہے ، اور دل و دماغ سے ٹھیک سوچتا اور صحیح فیصلے کرتا ہے لیکن جب وہ آیات الٰہی کو ماننے سے انکار کر دیتا ہے تو آنکھیں رکھتے ہوئے بھی اسے نگاہ حق شناس نصیب نہیں ہوتی ، کان رکھتے ہوئے بھی وہ ہر کلمہ نصیحت کے لیے بہرہ ہوتا اور دل و دماغ کی جو نعمتیں خدا نے اسے دی ہیں ان سے الٹی سوچتا اور ایک سے ایک غلط نتیجہ اخذ کرتا چلا جاتا ہے ، یہاں تک کہ اس کی ساری قوتیں خود اس کی اپنی ہی تباہی میں صرف ہونے لگتی ہیں ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٦۔ ٢٨۔ قوم عاد کے لوگ جیسے شہ زور تھے ایسے ہی مالدار اور صاحب مقدور بھی تھے کیونکہ اطراف یمن میں ان کی بستیاں خوب شاداب تھیں زراعت کی کثرت تھی مکہ اے اطراف کی زمین کی طرح ناقابل زراعت زمین نہیں تھی اس مالداری کے سبب سے ان لوگوں کو عمارتیں بنانے کا شوق بھی بہت تھا چناچہ اس کا ذکر سورة الشعرا میں گزر...  چکا ہے ان آیتوں میں یہی بات اللہ تعالیٰ نے قریش کو سمجھائی ہے کہ قوم عاد کو اللہ تعالیٰ نے جیسا صاحب مقدور کیا تھا وہ بات تم لوگوں کو حاصل نہیں ہے پھر تم کس بھروسہ پر غریب مسلمانوں سے مسخرا پن کرتے ہو اور کلام الٰہی کو جھٹلاتے ہو کیا تم کو معلوم نہیں کہ تم سے زیادہ صاحب مقدور قوم کو ان ہی باتوں کے خمیازہ کے طور پر ایک دم میں اللہ تعالیٰ نے ہلاک کردیا ‘ پھر فرمایا نصیحت کی باتیں سننے کے لئے کان ‘ قدرت کی نشانیوں کے دیکھنے کے لئے آنکھیں ‘ اچھے کاموں کی طرف خیال دوڑانے کے لئے دل یہ سب کچھ ان کو دیا گیا تھا مگر ان چیزوں سے ان لوگوں نے اللہ کی ناراضی کے کام کئے اس کے عذاب میں پکڑے گئے ‘ پھر فرمایا کچھ قوم عاد کے قصہ پر ہی عبرت منحصر نہیں ہے مکہ کے آس پاس ملک شام کے راستہ میں قوم ثمود قوم لوط کی اجڑی ہوئی بستیاں بھی ان کو نظر آتی ہوں گی اور فرعون کا قصہ بھی انہوں نے سنا ہوگا اور یہ بھی سنا ہوگا کہ ان سب کو مہلتیں دے کر طرح طرح سے سمجھایا گیا کہ برے وقت پر تمہارے یہ بت کچھ کام نہ آئیں گے ان بتوں کی پوجا سے بارگاہ الٰہی میں قربت کا ڈھونڈنا بالکل گھڑی ہوئی ایک بات ہے جس کا آسمان و زمین میں کہیں پتہ و ٹھکانہ نہیں لیکن جب مہلت کے زمانہ میں وہ لوگ اپنی باتوں سے باز نہ آئے تو اچانک عذاب میں پکڑے گئے اور ان پتھر کی مورتوں کو خبر تک نہیں ہوئی کہ ان کی پوجا کرنے والوں پر کیا گزری۔ صحیح بخاری ١ ؎ و مسلم کے حوالہ سے ابو موسیٰ اشعری کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ نافرمان لوگوں کو اللہ تعالیٰ پہلے مہلت دیتا ہے اور مہلت کے زمانہ میں جب وہ لوگ اپنی نافرمانی سے باز نہیں آتے تو ان کو کسی عذاب میں پکڑ لیتا ہے جس سے وہ بالکل ہلاک ہوجاتے ہیں یہ وصرفنا الایت لعلھم یرجعون کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ پچھلی جتنی قومیں طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک ہوئیں ان سب کو اللہ تعالیٰ نے ایک زمانہ تک مہلت دی اور مہلت کے زمانہ میں رسولوں کی معرفت طرح طرح سے ان کو سمجھایا تاکہ وہ اپنی عادتوں سے باز آئیں لیکن مہلت کے زمانہ میں جب وہ لوگ سمجھانے سے نہ سمجھے تو طرح طرح کے عذابوں سے ان کو ہلاک کردیا یہی حال قریش کا ہوا کہ بارہ تیرہ برس تک ان کو مہلت دی گئی اور اس مہلت کے زمانہ میں گھڑی گھڑی پچھلی قوموں کے مہلت اور ہلاکت کے قصے سنا کر ان کو ہوشیار کیا گیا لیکن ان میں کے بڑے بڑے لوگ اپنی سرکشی سے باز نہ آئے تو بدر کی لڑائی کے وقت ان پر وہ آفت آئی جس کا ذکر صحیح بخاری و مسلم کی انس (رض) بن مالک کی روایت کے حوالہ سے کئی جگہ گزر چکا ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(46:26) ولقد، وائو عاطفہ لام تاکید کا ۔ قد ماضی پر آئے تو تحقیق کے معنی دیتا ہے ۔ اور بیشک : مکنہم : ماضی جمع متکلم تمکین (تفعیل) مصدر۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب (قوم عاد) ہم نے ان کو جمائو عطا کیا۔ ہم نے ان کو اقتدار دیا۔ مکنۃ بمعنی آشیانہ۔ مکنات جمع مکن مکانۃ (باب کرم) اس نے حاکم کے پاس عزت پائ... ی۔ مرتبہ حاصل کیا۔ امکان (افعال) با اقتدار ہونا۔ قابو پانا۔ کسی جگہ قدرت حاصل کرنا۔ تمکین (تفعیل) جمائو عطا کرنا۔ توانا وبا اقتدار بنادینا۔ فیما۔ میں ما موصولہ ہے اور فیہ میں ضمیر واحد مذکر غائب اس اسم موصول کی طرف راجع ہے ان نافیہ ہے اور ہم نے ان کو ان باتوں میں قدرت دے رکھی تھی کہ تم کو ان باتوں میں قدرت نہیں۔ ما اغنی عنہم۔۔ من شیء وہ ان کے ذرا کام نہ آسکے۔ اذ : ظرف زمان ہے یہاں تعلیل کے لئے استعمال ہوا ہے بمعنی کیونکہ۔ کانوا یجحدون۔ ماضی استمراری جمع مذکر غائب جحد وجحود باب فتح، مصدر، بمعنی انکار کرنا۔ (کیونکہ وہ انکار کیا کرتے تھے) ۔ حاق۔ ماضی واحد مذکر غائب (حیق (باب ضرب) مصدر۔ بمعنی گھیر لینا۔ نازل ہونا۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب، حاق بہم اس (عذاب) نے ان کو گھیرے میں لے لیا۔ ما۔ ما موصولہ ہے : کانوا یستھزء ون۔ ماضی استمراری جمع مذکر غائب بہ میں ضمیر ہ واحد مذکر غائب ما کی طرف راجع ہے جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے، جس کا وہ استہزا کیا کرتے تھے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی مال و دولت، طاقت و اقتدار اور جسمانی صلاحیتوں، غرض ہر چیز میں وہ تم سے زیادہ تھے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی نہ ان کے حواس ان کو عذاب سے بچا سکے اور نہ ان کی تدبیر جس کا ادراک قلب سے ہوتا ہے اور نہ ان کی قوت، پس تمہاری تو کیا حقیقت ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قوم عاد کے انجام کا ذکر کرنے کے بعد اہل مکہ کو ان کے انجام سے ڈرایا گیا ہے۔ قوم عاد جسمانی اعتبار سے اس قدر کڑیل جوان تھے کہ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ہم نے ان جیسے لوگ پیدا نہیں کیے۔ (الفجر : ٨) اللہ تعالیٰ نے عاد کو قوم نوح کے بعد زمین پر اقتدار اور اختیار بخش... ا۔ “ (الاعراف : ٦٩) ” انھیں افرادی قوت اور مویشیوں سے نوازا گیا۔ “ (الشعراء : ١٣٣) یہ بڑے بڑے محلات میں رہتے تھے۔ کھیتی باڑی اور باغات میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ “ (الشعراء : ١٢٩ تا ١٣٣) اللہ تعالیٰ نے انہیں کان، آنکھیں اور دل عطا کیے لیکن انہوں نے اپنے کانوں، اپنی آنکھوں اور اپنے دلوں کو حقیقت کو پانے کے لیے استعمال نہ کیا۔ بلکہ اپنے عقیدے پر تکرار اور اصرار کرتے ہوئے ” اللہ “ کی آیات کا مذاق کرتے رہے۔ قوم عاد کا حوالہ دے کر اہل مکہ کو ارشاد فرمایا کہ اے مکہ والو ! اللہ تعالیٰ نے نہ تمہیں ان جیسی جسمانی طاقت دی ہے اور نہ ہی ان سے بڑھ کر وسائل دیئے ہیں۔ سوچو اور غور کرو کہ قوم عاد ” اللہ “ کے عذاب کے سامنے نہ ٹھہر سکی تو تم کس طرح اس کے عذاب کے سامنے ٹھہر سکتے ہو ؟ جس روّیے کی بنا پر انہیں نیست و نابود کیا گیا وہی روّیہ تمہارا ہے کہ تم نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں پر مظالم ڈھاتے ہو اور اللہ تعالیٰ کے ارشادات سے مذاق کرتے ہو۔ قوم عاد کو اللہ تعالیٰ نے کان، آنکھیں اور دل عطا فرمائے مگر انہوں نے ان سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا یہی تمہاری حالت ہے کہ تم بھی اپنے کانوں، آنکھوں اور دلوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو سننے کے لیے کان، دیکھنے کے لیے آنکھیں اور سوچنے کے لیے دل عطا فرمایا ہے تاکہ انسان حق بات کو سنے، بصیرت کی آنکھوں سے دیکھے اور اپنے دل سے فیصلہ کرے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے ؟ حق تک پہنچنے کے یہی وہ بنیادی ذرائع ہیں۔ اگر یہ ذرائع مفلوج ہوجائیں تو انسان کا ہدایت پانا نہ ممکن ہوجاتا ہے۔ ” ان کے دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں یہ لوگ چوپاؤں جیسے ہیں بلکہ یہ زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں یہی ہیں جو بالکل غافل ہیں۔ “ (الاعراف : ١٧٩) (عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا أَخْطَأَ خَطِیْءَۃً نُکِتَتْ فِيْ قَلْبِہٖ نُکْتَۃٌ سَوْدَآءُ فَإِذَا ھُوَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ وَتَابَ سُقِلَ قَلْبُہٗ وَإِنْ عَادَ زِیْدَ فِیْھَا حَتّٰی تَعْلُوَ قَلْبَہٗ وَھُوَ الرَّانُ الَّذِيْ ذَکَرَ اللّٰہُ ( کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مَّاکَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ) ) (رواہ الترمذی : کتاب تفسیر القرآن ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جب بندہ کوئی غلطی کرتا ہے تو اس کے دل پر سیاہ نکتہ پڑجاتا ہے جب وہ گناہ چھوڑ دے اور توبہ و استغفار کرے تو اس کا دل پالش ہوجاتا ہے۔ اگر وہ دوبارہ گناہ کی طرف پلٹے تو سیاہی اس کے دل پر چڑھ جاتی ہے یہی وہ زنگ ہے جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کیا ہے کہ (ہرگز نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے گناہوں کی وجہ سے زنگ چڑھ چکا ہے۔ ) “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کو جو کچھ دیا تھا وہ اہل مکہ کو حاصل نہیں تھا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو کان، آنکھیں اور دل دیئے ہیں مگر وہ ان سے حقیقی فائدہ نہیں اٹھاتے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ تکرار اور استہزا کرنے والوں کا انجام : ١۔ استہزا کرنے والوں کو رسوا کن عذاب ہوگا۔ ( الجاثیہ : ٩) ٢۔ اللہ کی آیات اور انبیاء سے مذاق کی سزا جہنم ہے۔ ( الکہف : ١٠٦) ٣۔ وہ چیز ان کو گھیرلے گی جس کا یہ مذاق کرتے تھے۔ (ہود : ٨) ٤۔ یہ لوگ مذاق کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مذاق کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (التوبہ : ٧٩)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قوم عاد کی ہلاکت کا تذکرہ کرنے کے بعد اہل مکہ کو توجہ دلائی ﴿ وَ لَقَدْ مَكَّنّٰهُمْ ﴾ (الآیۃ) اور ہم نے قوم عاد کو ان چیزوں کی قوت دی تھی جن کی قوت وقدرت تمہیں نہیں دی، ان کے پاس جو مالی و جسمانی قوتیں تھیں وہ تم سے کہیں زیادہ تھیں، جب وہ کفر پر جمے رہنے کی وجہ سے ہلاک کردئیے گئے تو تمہاری کیا حیثی... ت ہے… ؟ وہ لوگ نہ بہرے تھے نہ اندھے تھے نہ باولے بیوقوف تھے ہم نے انہیں کان بھی دئیے تھے اور آنکھیں بھی اور دل بھی لیکن جب ان پر عذاب آیا ان میں سے کوئی چیز بھی ان کے کام نہ آئی نہ ان کے حواس ظاہرہ بچا سکے اور نہ کسی تدبیر سے عذاب سے محفوظ ہوسکے جس کا دل اور دماغ سے ادراک ہوتا ہے یہ عذاب کا ابتلاء اور عدم اغناء الجوارح والا معاملہ اس لیے ہوا کہ وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے کوئی دنیاوی مصیبت عام حالات میں آجائے تو کچھ حواس ظاہرہ سے اور کچھ عقل و فہم کے ذریعہ سوچ بچار کرکے اور کوئی تدبیر نکال کر بھی کبھی کبھار مصیبت سے نکلنے کا کچھ راستہ نکل آتا ہے لیکن جب اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کرنے کی وجہ سے عذاب آتا ہے تو آنکھ کان سوچ سمجھ کچھ چیز فائدہ نہیں دیتی۔ ﴿وَ حَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ۠ (رح) ٠٠٢٦ ﴾ (اور ان پر وہ عذاب نازل ہوگیا جس کا مذاق بناتے تھے) یعنی اللہ کے نبی حضرت ہود (علیہ السلام) سے جو ٹھٹھہ کرتے تھے اور کہتے تھے کیا عذاب، عذاب کی رٹ لگاتے ہو عذاب آنا ہے تو لے آؤ اپنی اس بات کا انہوں نے نتیجہ دیکھ لیا، عذاب میں مبتلا ہوئے اور بالکل برباد ہوگئے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

22:۔ ” ولقد مکنا ھم۔ الایۃ “ یہ اہل مکہ کی طرف التفات ہے۔ ان نافیہ ہے۔ اے اہل مکہ ! قوم ہود کو ہم نے جو دنیوی قوت و دولت اور شان و شوکت دی تھی وہ تمہیں نہیں دی، وہ تم سے زیادہ طاقتور اور دولت مند تھے، ان کو ہم نے سننے کے لیے کان، دیکھنے کے لیے آنکھیں اور سوچنے کے لیے دل دئیے۔ لیکن ان نعمتوں سے انہٰں...  کوئی فائدہ نہیں ہوا کیونکہ کانوں سے انہوں نے حق بات کو نہ سنا اور آنکھوں سے خدا کی قدرت ووحدانیت کے تکوینی دلائل کو بغور نہ دیکھا اور دلوں کو معرفت خداوندی کی تحصیل میں استعمال نہ کیا، اس لیے ان ساری قوتوں کے باوجود وہ دولت ایمان سے محروم رہے اور اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے رہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جس عذاب کا وہ مذاق اڑاتے تھے آخر اس کی لپیٹ میں آکر اور ہلاک ہو کر رہے۔ مکہ والو ! تم بھی قوم عاد کی ڈگر پر چل رہے ہو، یاد رکھو تمہارا بھی وہی حشر ہوگا۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(26) اور بلا شبہ ہم نے ان لوگوں کو ان باتوں کی قدرت اور مقدور دیا تھا جن باتوں کی قدرت اور مقدور تم کو نہیں دیا اور ہم نے ان کو کان اور آنکھیں اور دل دیئے تھے لیکن وہ لوگ چونکہ اللہ تعالیٰ کے آیتوں کا انکار کیا کرتے تھے اس لئے نہ ان کے کان ہی ان کے کچھ کام آئے اور نہ ان کی آنکھیں اور نہ ان کے دل اور...  جس عذاب کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے اسی نے ان کو آگھیرا اور وہی چیزان پر الٹ پڑی۔ مطلب یہ ہے کہ جو قوت اور طاقت اور طول قامت اور درازی عمر اور مال کی کثرت ہم نے ان کو دے رکھی تھی وہ تو تم کو دی بھی ہیں جب ان کو عذاب سے یہ سب چیزیں نہ بچاسکیں تو تمہارے پاس تو یہ چیزیں ہیں بھی نہیں پھر تم عذاب الٰہی سے کیوں بےخوف ہو پھر فرمایا ان کو کان اور آنکھیں اور دل دیئے تھے یعنی سوجھ بوجھ اور ہوشیاری اور سمجھ داری بھی وہی تھی جیسا کہ سورة عنکبوت میں گزرا ہے۔ وکانوا مستبصرین پھر چونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار کیا کرتے تھے اس لئے کوئی چیز بھی ان کے کام نہ آئی اور جن باتوں کا وہ استہزاء اور ٹھٹھا کیا کرتے تھے انہی چیزوں نے ان کو آگھیرا اور اس مذاق اور ہنسی نے عذاب کی صورت اختیار کرلی اور ہلاک کردیئے گئے۔  Show more