Surat ul Ehkaaf

Surah: 46

Verse: 27

سورة الأحقاف

وَ لَقَدۡ اَہۡلَکۡنَا مَا حَوۡلَکُمۡ مِّنَ الۡقُرٰی وَ صَرَّفۡنَا الۡاٰیٰتِ لَعَلَّہُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ ﴿۲۷﴾

And We have already destroyed what surrounds you of [those] cities, and We have diversified the signs [or verses] that perhaps they might return [from disbelief].

اور یقیناً ہم نے تمہارے آس پاس کی بستیاں تباہ کر دیں اور طرح طرح کی ہم نے اپنی نشانیاں بیان کر دیں تاکہ وہ رجوع کرلیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا مَا حَوْلَكُم مِّنَ الْقُرَى ... And indeed We have destroyed towns round about you, This is addressed to the people of Makkah. Allah destroyed the nations who disbelieved in the Messengers who lived around Makkah, such as `Ad who were at Al-Ahqaf in Hadramawt near Yemen, Thamud whose dwellings were between Makkah and Ash-Sham (Greater Syria), Saba' who were in Yemen, the people of Madyan who were on the route and passage to Ghazzah (Western Palestine), and the people of Lut who dwelt by the lake (the Dead Sea) which they used to pass by (on the way to Jordan) as well. Allah then says, ... وَصَرَّفْنَا الاْيَاتِ ... and We have shown (them) the signs in various ways, meaning, `We explained and clarified them.' ... لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

27۔ 1 آس پاس سے عاد، ثمود اور لوط کی وہ بستیاں مراد ہیں جو حجاز کے قریب ہی تھیں، یمن اور شام و فلسطین کی طرف آتے جاتے ان سے ان کا گزر ہوتا تھا۔ 27۔ 2 یعنی ہم نے مختلف انداز سے اور مختلف انوواع کے دلائل ان کے سامنے پیش کئے کہ شاید وہ توبہ کرلیں۔ لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ولقد اھلکنا ماحولکم من القریٰ : انسان کی فطرت ہے کہ وہ دوسروں کو دیکھ کر عبرت حاصل کرنا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ کو مخطاب کر کے فرمایا کہ تم اپنے اردگرد کی بستیوں پر نظر ڈالو اور دیکھو کس قدر قومیں نیست و نابود کردی گئیں اور کس طرح انہوں نے اپنے کرتوتوں کے بدلے پائے ہیں۔ اردگرد سے مراد احقاف ہے جو یمن کے حضر موت کے علاقے میں ہے، واں کے بسنے والے عادیوں کے انجام پر نظر ڈالو۔ تمہارے اور شام کے درمیان مقام حجر میں ثمود کا جو حشر ہوا اسے دیکھو، یمن کی قوم سبا کے انجام پر غور کرو، مدین جو تمہارے اور غزہ کے درمیان ہے، تم وہاں آتے جاتے رہتے ہو اور قوم لوط کی بستیاں بھی تمہارے راستے میں پڑتی ہیں، ان سب کے واقعات عرب میں مشہور و معروف تھے۔ (ابن کثیر) (٢) وصرفنا الایت لعلھم یرجعون : اس کی تفسیر دو طرح سے ہوسکتی ہے، ایک یہ کہ ہم نے ان بستیوں کے رہنے والوں کے لئے آیات کو پھیر پھیر کر اور کئی طرح سے کھول کر بیان کیا، تاکہ وہ پلٹ آئیں۔ دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ کفار مکہ کے متعلق فرما رہے ہیں کہ ہم نے ان کے لئے آیات کو پھیر پھیر کر بیان کیا، تاکہ وہ کفر و شرک سے پلٹ آئیں۔ اس صورت میں کلام میں التفا ہے کہ پچھلے جملے ” ولقد اھلکنا ماحولکم من القریٰ “ میں کفار مکہ کو مخاطب فرمایا، پھر ” وصرفنا الیت لعلم یرجعون “ میں ناراضی کے اظہار کے لئے ان کا ذکر غائب کے صیغے کے ساتھ فرمایا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر ربط آیات : اوپر قوم عاد کا قصہ تفصیلاً مذکور تھا، آگے دوسری ایسی ہی قوموں کا ذکر ہے جن پر کفر اور مخالفت انبیاء کی وجہ سے عذاب آئے اور ہلاک ہوئے ان کی اجڑی ہوئی بستیاں بھی اہل مکہ کے سفروں کے وقت راستے میں آتی تھیں ان سے عبرت حاصل کرنے کے لئے ان کا اجمالی حال آیات مذکورہ میں آیا ہے۔ اور ہم نے تمہارے آس پاس کی اور بستیاں بھی (اس کفر و شرک کے سبب) غارت کی ہیں (جیسے ثمود و قوم لوط کہ ملک شام کو جاتے ہوئے ان بستیوں سے گزرتے تھے اور چونکہ مکہ سے ایک طرف یمن ہے دوسری جہت میں شامل ہے اس لئے ما حولکم فرما دیا) اور ہم نے (ہلاک کرنے سے پہلے ان کی فرمائش کے لئے) بار بار اپنی نشانیاں (ان کو) بتلا دی تھیں تاکہ وہ (کفر و شرک سے ( باز آئیں (مگر باز نہ آئے اور ہلاک ہوئے) سو خدا کے سوا جن جن چیزوں کو انہوں نے خدا تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کے لئے اپنا معبود بنا رکھا تھا (کہ یہ مصیبت میں ہمارے کام آویں گے ہلاکت و عذاب کے وقت) انہوں نے ان کی مدد کیوں نہ کی بلکہ وہ سب ان سے غائب ہوگئے اور وہ (معبود اور شفیع سمجھنا) محض ان کی تراشی ہوئی اور گھڑی ہوئی بات ہے ( اور کہیں واقع میں وہ شفیع یا معبود تھوڑا ہی تھے۔ )

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ اَہْلَكْنَا مَا حَوْلَكُمْ مِّنَ الْقُرٰى وَصَرَّفْنَا الْاٰيٰتِ لَعَلَّہُمْ يَرْجِعُوْنَ۝ ٢٧ ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک : ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ هلك الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه : افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله : وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] ويقال : هَلَكَ الطعام . والثالث : الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار : وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية/ 24] . ( ھ ل ک ) الھلاک یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ایک یہ کہ کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔ دوسرے یہ کہ کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ موت کے معنی میں جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔ حول أصل الحَوْل تغيّر الشیء وانفصاله عن غيره، وباعتبار التّغيّر قيل : حَالَ الشیء يَحُولُ حُؤُولًا، واستحال : تهيّأ لأن يحول، وباعتبار الانفصال قيل : حَالَ بيني وبینک کذا، وقوله تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال/ 24] ( ح ول ) & الحوال ( ن ) دراصل اس کے معنی کسی چیز کے متغیر ہونے اور دوسری چیزوں سے الگ ہونا کے ہیں ۔ معنی تغییر کے اعتبار سے حال الشئی یحول حوولا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کی شے کے متغیر ہونیکے ہیں ۔ اور استحال کے معنی تغیر پذیر ہونے کے لئے مستعد ہونے کے اور معنی انفصال کے اعتبار سے حال بینی وبینک کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی میرے اور اس کے درمیان فلاں چیز حائل ہوگئی ۔ اور آیت کریمہ :۔ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال/ 24] اور جان رکھو کہ خدا آدمی اسکے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے ۔ قرية الْقَرْيَةُ : اسم للموضع الذي يجتمع فيه الناس، وللناس جمیعا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف/ 82] قال کثير من المفسّرين معناه : أهل القرية . ( ق ر ی ) القریۃ وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہوجائیں تو بحیثیت مجموعی ان دونوں کو قریہ کہتے ہیں اور جمع ہونے والے لوگوں اور جگہ انفراد بھی قریہ بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف/ 82] بستی سے دریافت کرلیجئے ۔ میں اکثر مفسرین نے اہل کا لفظ محزوف مان کر قریہ سے وہاں کے با شندے مرے لئے ہیں صرف الصَّرْفُ : ردّ الشیء من حالة إلى حالة، أو إبداله بغیره، يقال : صَرَفْتُهُ فَانْصَرَفَ. قال تعالی: ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران/ 152] ( ص ر ف ) الصرف کے معنی ہیں کسی چیز کو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پھیر دینا یا کسی اور چیز سے بدل دینا ۔ محاور ہ ہے ۔ صرفتہ فانصرف میں نے اسے پھیر دیا چناچہ وہ پھر گیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران/ 152] پھر خدا نے تم کو ان کے مقابلے سے پھیر کر بھگادیا ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ لعل لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] ( لعل ) لعل ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔ رجع الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، ( ر ج ع ) الرجوع اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور مکہ والو ہم نے تمہارے آس پاس کی اور بستیاں بھی ہلاک کیں اور ہم نے ان ہلاک ہونے والوں کے سامنے اوامرو نواہی کی نشانیاں بیان کردی تھیں تاکہ یہ اپنے کفر سے رجوع کرکے توبہ کرلیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٧ { وَلَقَدْ اَہْلَکْنَا مَا حَوْلَکُمْ مِّنَ الْقُرٰی } ” اور ہم نے ہلاک کیا ہے بہت سی ایسی بستیوں کو جو تمہارے اردگرد آباد تھیں “ وہ تمام اقوام جن کے انجام کا ذکر قرآن میں تکرار کے ساتھ آیا ہے جزیرہ نمائے عرب کے اردگرد کے علاقوں میں آباد تھیں۔ احقاف یعنی قوم عاد کا علاقہ مکہ سے جنوب مشرق میں واقع تھا۔ قوم ثمود کا علاقہ ( مدائن صالح) مکہ سے شمال میں تھا اور شمال ہی کے رخ میں حضرت شعیب ( علیہ السلام) کی قوم کا علاقہ مدین تھا۔ جبکہ بحیرئہ مردار (Dead Sea) کے ساحل پر حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم آباد تھی۔ اس قوم کے شہروں کے کھنڈرات بھی بحیرہ مردار کے اندر سے دریافت ہوچکے ہیں۔ { وَصَرَّفْنَا الْاٰیٰتِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ } ” اور ہم نے پھیر پھیر کر ان کو اپنی آیات سنائیں تاکہ وہ رجوع کریں۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

14: اس سے مراد قوم ثمود اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم بستیاں ہیں جو شام جاتے ہوئے اہل عرب کے راستے میں پڑتی تھیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(46:27) ولقد اوپر آیت 26 ملاحظہ ہو۔ ما حولکم : ما موصولہ ہے حولکم مضاف مضاف الیہ، تمہارے اردگرد : تمہارے آس پاس۔ خطاب اہل مکہ سے ہے یعنی اے اہل مکہ تمہارے آس پاس کی کئی بستیاں ہم نے تباہ کردیں۔ مثلاً قوم ثمود کی بستی حجر۔ قوم لوم کی بستی سدوم وغیرہ۔ بستیوں کو ہلاک کرنے سے مراد ہے بستی کے بسنے والے۔ من القری میں من تبعیضیہ ہے تمہارے آس پاس کی بعض بستیاں۔ صرفنا الایت۔ صرفنا ماضی کا صیغہ جمع متکلم تصریف (تفعیل ) مصدر، پھیر پھیر کر سمجھانا۔ تصریف الکلام۔ بات کو پھیر پھیر کر بیان کرنا۔ طرح طرح سے گفتگو کا بیان کرنا۔ الایت۔ نشانیاں۔ باتیں۔ ہم نے پھیر پھیر کر باتیں سمجھائیں۔ یعنی بار بار دلائل دے کر اسی تصریف الریاح ہے۔ ہوائوں کا ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف لوٹانا۔ اور اسی معنی میں کلام باری تعالیٰ ہے وصرفنا فیہ من الوعید (20:113) اور اس میں (قرآن مجید میں) ہم نے طرح طرح کے ڈراوے بیان کر دئیے ہیں۔ لعلہم یرجعون۔ تاکہ وہ باز آجائیں۔ لعل تعلیل کے لئے۔ یعنی اس لئے کہ ۔۔ ای لکی یرجعوا عما ہم فیہ من الکفر والمعاصی الی الایمان والطاعۃ یعنی کفرو معاصی سے ہٹ کر ایمان و اطاعت کی طرف آجاویں۔ ضمیر فاعل جمع مذکر غائب ان لوگوں کے لئے ہے جن کی بستیوں کو کفرو معاصی سے باز نہ آنے پر تباہ کردیا گیا تھا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 جیسے قوم ثمود اور قوم لوط کی بستیاں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٢٧ تا ٣٥۔ اسرار ومعارف۔ اور یہ تو انسان ہیں آپ کی جنس سے ہیں پھر انسانی شعور اور صاف کمال ظاہر کے لیے بھی اور کمال باطن کے لیے بھی رکھتے ہیں جبکہ آپ کیع طا کا حال یہ ہے کہ ہم نے جنوں کے ایک گروہ کو آپ تک پہنچنے کے اسباب پیدا فرمادیے کہ جب آپ تلاوت فرما رہے تھے تو انہوں نے قرآن کوسنا اور ایک دوسرے سے کہاخاموش ہوجاؤ سنو کیا ارشاد ہورہا ہے اور جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام کیا تو ایمان لے آئے بلکہ مبلغ بن کر اپنی قوم کے پاس لوٹے تو ان کو بدرجہ اتم قبول کر چاہیے کہ جنات میں چونکہ نبوت نہیں اسلیے وہ مان کر عمل تو کرسکتے ہیں کیفیات باطنی اور روحانی کمالات حاصل کرنے کی استعداد نہیں رکھتے جبکہ انسان ایمان لاکر اور اتباع کرکے برکات نبوی سے بیشمار روحانی کمالات ودرجات حاصل کرسکتا ہے۔ جنات کا واقعہ۔ اکثر روایات میں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سوق عکاظ کو تشریف لے جا رہے تھے شہر سے باہر بطن وادی میں فجر ادا کرنے کو کھڑے ہوئے توجنات آپہنچے کہ بعثت سے قبل جنات آسمان دنیا پر چلے جاتے تھے اور فرشتوں کی باتیں سن آتے تھے مگر آپ کی بعثت پہ ان کا جانابند ہوگا اور شہاب پڑتے تھے تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ زمین پر پھیل کردیافت کیا جائے کہ کون سا ایسانیاواقعہ پیش آیا ہے جس کے باعث ہمیں آسمان پر روک دیا گیا ہے اس جستجو میں ایک جماعت آپ ک پاس پہنچی تو قرآن سنا اور ایمان لائے درحقیقت جنات کی حاضری کے متعدد واقعات ہوئے جن میں سے ایک یہ بھی تھا پھر وہ اپنی قوم یعنی جنات کے پاس واپس گئے اور انہیں بتایا کہ اے قوم ہم نے ایک ایساکلام سنا ہے وہ ایسی کتاب ہے کہ جو موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد اسی طرح نازل ہوئی اور اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے توحید و رسالت اور آخرت وغیرہاعقائد میں ان کی تائید کرتی ہے اور حق کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور بالکل سیدھے راستے کی طرف لے جاتی ہے اے قوم اسے قبول کرلو ایمان لے آؤ اللہ کے رسول پر جو اللہ کی طرف دعوت دے رہا ہے اس طرح تمہاری خطائیں معاف ہوجائیں گی اور تم عذاب سے بچ جاؤ گے۔ جنات کے لیے جنت کی بشارت۔ قرآن حکیم میں کہیں بھی جنات کے لیے جنت کی بشارت نہیں ملتی کہ ان میں معرفت الٰہی کو حاصل کرنے کا انسانی درجہ کا کمال نہیں اور نہ ہی ان کی ارواح انسانی ارواح کی طرح ہیں لہذا عذاب تو ہوگا یاپھرنجات ہوجائے گی اور نجات پاکر فنا ہوجائیں گے یا عذاب پورا ہونے کے بعد سوائے ان کے جنہیں اللہ ہمیشہ دوزخ میں رکھنا چاہے علماء کے ایک طبقہ کے مطابق جنات جنت میں جائیں گے مگر اس پر قوی دلائل نہیں ہیں (واللہ اعلم باالصواب) ۔ اور جس نے رسول اللہ کی مخالفت کی وہ زمین کی وسعتوں میں بھاگ کر بھی اللہ کے عذاب سے نہ بچ سکے گا اور نہ ہی اللہ کے علاوہ کوئی اس کا مددگار ہوگا ایسے کرنے والے یقینا ایک واضح گمراہی میں پڑگئے بھلا افراد کی گرفت کیا معنی رکھتی ہے کیا یہ دیکھتے نہیں کہ اللہ کریم نے کتنی بڑی کائنات تخلیق فرمائی آسمانوں کو سجایا اور زمین کو پیدا فرمایا ایک وسیع نظام پیدا فرمایا جس کی حدود انسان کی عقل سے بالاتر ہیں۔ اس سارے کام میں اس ذات کریم کو کوئی مشکل پیش نہیں آئی نہ تھکاوٹ ہوئی وہ یقینا مردوں کو بھی زندہ کرنے پر قادر ہے اور وہ ہر شے پر قادر ہے بلکہ ایک روز کفار کو آگ اور جہنم کے روبرو پیش کرکے پوچھاجائے گا کہ اب بات کرو کیا یہ واقعی ہے یا نہیں تو کہیں گے ہاں واقعی ہمارے رب کی قسم یعنی ہمارے رب کی ربوبیت اس پہ شاہد ہے کہ اعمال پر ان کا پھل آنا چاہیے۔ تو ارشاد ہوگا اب اس میں عذاب بھگتو کہ جب ماننے کا وقات تھا اس وقت تم نے انکار کردیا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبر کیجئے اور راہ حق میں یہ سب مشکلات برداشت کیجئے جس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے اولوالعزم اور صاحب ہمت رسولوں نے برداشت کیں اور ان کے بارے جلدی نہ کیجئے اگر انہیں چندے مہلت نصیب ہے تو کیا ہوا کہ جس روز یہ عذاب کو سامنے دیکھیں گے تو انہیں یوں لگے گا جیسے دنیا کا عرصہ تو محض چند لمحے تھا اور فورا ہی عذاب نے آلیا اپ کامنصب اللہ کا پیغام پہنچانا ہے آپ نے پہنچادیا جو لوگ نافرمانی کریں گے وہی ہلاک بھی ہوں گے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ جیسے ثمود و قوم لوط کہ شام کو جاتے ہوئے ان کے مساکن سے گزرتے تھے اور چونکہ مکہ سے ایک طرف میں ہے، دوسری جہت میں شام، اس لئے ماحولکم فرمایا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قوم عاد کا انجام بیان کرنے کے بعد اہل مکہ کو ایک دفعہ پھر انتباہ کیا گیا۔ رب ذوالجلال کا فرمان ہے۔ اے مکہ والو ! ہم نے تمہارے آس پاس کی بستیوں کو تباہ کیا اور ان کے سامنے بار بار اپنی آیات پڑھیں تاکہ وہ اپنے رب کی طرف پلٹ آئیں۔ جب وہ اپنے رب کی طرف نہ پلٹے تو اس نے انہیں نیست و نابود کردیا۔ جب اللہ تعالیٰ نے انہیں نیست و نابود کیا تو جنہیں وہ ” اللہ “ کے سوا مشکل کشا سمجھتے تھے اور ان کو اللہ کے قرب کا ذریعہ بناتے تھے وہ ان کی مدد نہ کرسکے۔ قوم عادجب ” اللہ “ کے عذاب میں مبتلا ہوئی تو انہیں اپنے معبود یاد نہ رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے معبودوں کو اپنے قرب کا ذریعہ نہیں بنایا تھا۔ مشرک اپنے معبودوں کے بارے میں جو کچھ سمجھتے اور کہتے ہیں وہ جھوٹ ہے اور ان کا خود ساختہ عقیدہ باطل ہے جو عذاب کے وقت قوم عاد کے لیے فائدہ مند ثابت نہ ہوا۔ اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کا انجام اور ان کا اپنے معبودوں کے بارے میں روّیہ بیان کیا ہے۔ قوم ثمودہو یا اہل مکہ یا کوئی بھی ہو مشکل کے وقت ان کے کوئی کام نہیں آسکتا۔ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم پر عذاب نازل کرتا ہے تو وہ اپنے معبودوں کو بھول جاتی ہے۔ یہی مشرک کی عادت اور فطرت ہے کہ وہ آسانی کے وقت اپنے رب کو بھول جاتا ہے اور انتہائی مشکل کے وقت اپنے معبودوں کو فراموش کردیتا ہے۔ قرآن مجید میں جن قوموں کی تباہی کا ذکر ہوا ہے وہ اہل مکہ سے دور نہیں تھیں۔ اس لیے ارشاد فرمایا کہ ہم نے ان کے آس پاس کی کئی اقوام کو ہلاک ہے۔ (عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لأَبِی یَا حُصَیْنُ کَمْ تَعْبُدُ الْیَوْمَ إِلَہًاقَالَ أَبِی سَبْعَۃً سِتًّا فِی الأَرْضِ وَوَاحِدًا فِی السَّمَاءِ قَالَ فَأَیُّہُمْ تَعُدُّ لِرَغْبَتِکَ وَرَہْبَتِکَ قَالَ الَّذِی فِی السَّمَاءِ قَالَ یَا حُصَیْنُ أَمَا إِنَّکَ لَوْ أَسْلَمْتَ عَلَّمْتُکَ کَلِمَتَیْنِ تَنْفَعَانِکَ قَالَ فَلَمَّا أَسْلَمَ حُصَیْنٌ قَالَ یَا رَسُول اللَّہِ عَلِّمْنِی الْکَلِمَتَیْنِ اللَّتَیْنِ وَعَدْتَنِی فَقَالَ قُلِ اللّٰہُمَّ أَلْہِمْنِی رُشْدِی وَأَعِذْنِی مِنْ شَرِّ نَفْسِی) (رواہ الترمذی : باب جامِعِ الدَّعَوَاتِ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” حضرت عمران بن حصین (رض) بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے باپ کو فرمایا : اے حصین آپ کتنے معبودوں کی عبادت کرتے ہیں میرے باپ نے کہا سات کی جس میں چھ زمین میں اور ایک آسمان میں ہے۔ آپ نے فرمایا : خوف اور امید کے وقت کس کو پکارتا تھا اس نے کہا جو آسمانوں میں ہے۔ آپ نے فرمایا : اے حصین اگر تو اسلام لے آئے تو میں تجھے دو کلمات ایسے سکھلاؤں گا جو تیرے لیے انتہائی مفید ہوں گے جب حصین اسلام لے آئے تو انہوں نے عرض کی اللہ کے رسول مجھے وہ کلمات سکھلادیں جن کا آپ نے وعدہ فرمایا تھا آپ نے کہا کہہ اے اللہ مجھے ہدایت عطا فرما اور مجھے میرے نفس کے شر سے محفوظ فرما۔ “ مسائل ١۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت سے پہلے مکہ کے گرد و پیش کی کئی بستیوں کو تباہ کردیا گیا۔ ٢۔ مشرک جن معبودوں کو اللہ کے قرب کا ذریعہ سمجھتے ہیں مشکل کے وقت انہیں بھول جاتے ہیں۔ ٤۔ مشرکانہ عقیدہ سراسر جھوٹ اور اپنی طرف سے بنایا ہوا ہے۔ تفسیر بالقرآن انتہائی مشکل میں مشرک کا اپنے معبودوں کے بارے میں وطیرہ : ١۔ جب دریا میں تمہیں تکلیف پہنچتی ہے تو تم اللہ کے سواسب کو بھول جاتے ہو۔ (بنی اسرائیل : ٦٧) ٢۔ انہوں نے خیال کیا کہ وہ گھیرے میں آگئے ہیں تو خالصتًا اللہ کو پکارتے ہیں۔ (یونس : ٢٢) ٣۔ جب وہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو خالصتًا اللہ کو پکارتے ہیں۔ (العنکبوت : ٦٥) ٤۔ جب انہیں موجیں سائبان کی طرح ڈھانپ لیتی ہیں تو خالص اللہ کو پکارتے ہیں۔ (لقمان : ٣٢) ٥۔ مشرک اپنے معبودوں کے دشمن بن جائیں گے۔ (الاحقاف : ٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد اہل مکہ سے مزید خطاب کرتے ہوئے فرمایا ﴿ وَ لَقَدْ اَهْلَكْنَا مَا حَوْلَكُمْ مِّنَ الْقُرٰى ﴾ (ہم نے تمہارے چاروں طرف کی بستیاں ہلاک کردیں) اس سے یمن اور شام کی بستیاں مراد ہیں یمن کی بستیاں تو وہی قوم عاد والی بستیاں تھیں، اور جب اہل مکہ تجارت کے لیے ملک شام جاتے تھے تو قوم ثمود کی بستیوں پر اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی بستیوں کو دیکھا کرتے تھے ان کی تباہی و بربادی سے عبرت حاصل کرنا ضروری تھا لیکن عبرت نہیں لیتے تھے۔ ﴿ وَ صَرَّفْنَا الْاٰيٰتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ ٠٠٢٧﴾ (اور ہم نے انہیں بار بار نشانیاں بتادی تھیں تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں) لیکن وہ باز نہ آئے بالآخر وہ ہلاک ہوگئے یہ ہلاک ہونے والے مشرک تھے اللہ کے سوا انہوں نے معبود بنا رکھے تھے اور ان کے تقرب کو اپنی مشکلات دور ہونے کا ذریعہ سمجھتے تھے جب عذاب آیا تو انہوں نے ذرا بھی مدد نہ کی بلکہ ان سے غائب ہوگئے ان لوگوں کی یہ بات کہ یہ معبود ہیں ان سے ہمیں فائدہ پہنچے گا جھوٹ تھی اپنی تراشی ہوئی تھی، جھوٹ سے کچھ فائدہ نہ پہنچا اسی کو فرمایا ﴿فَلَوْ لَا نَصَرَهُمُ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ قُرْبَانًا اٰلِهَةً ١ؕ ﴾ سو اللہ کے سوا جن جن چیزوں کو انہوں نے تقرب حاصل کرنے کے لیے اپنا معبود بنا رکھا تھا انہوں نے ان کی کیوں مدد نہ کی ﴿ بَلْ ضَلُّوْا عَنْهُمْ ١ۚ وَ ذٰلِكَ اِفْكُهُمْ وَ مَا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ ٠٠٢٨﴾ (بلکہ وہ سب ان سے غائب ہوگئے اور وہ محض ان کی تراشی ہوئی اور گھڑی ہوئی بات تھی۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

23:۔ ” ولقد اھلکنا “ تخویف دنیوی۔ یہ بھی مکہ والوں ہی سے خطاب ہے گرد و نواح سے قوم ہود، قوم ثمود اور اصحاب حجر وغیرہ کی بستیاں مراد ہیں۔ ہم نے ان کے پاس اپنے پیغمبر بھیجے اور گوناگوں طریقوں سے ان کو سمجھایا۔ مگر وہ شرک و کفر سے باز نہ آئے اور آخر ہم نے ان کو ہلاک کردیا۔ ” فلولا نصرھم۔ الایۃ “ یہ سورت کا مقصودی مضمون ہے۔ اس میں مشرکین کی اس بات کا جواب ہے کہ ہم نے مان لیا کہ ہمارے معبود سنتے نہیں اور ان کو پکارنا جائز نہیں، لیکن ان کے پکارنے میں تاثیر اور برکت ضرور ہے، کیونکہ ان کو پکارنے سے کاموں میں برکت ہوجاتی ہے تو جواب دیا گیا کہ جن لوگوں نے معبودانِ جائز نہیں، لیکن ان کے پکارنے میں تاثیر اور برکت ضرور ہے، کیونکہ ان کو پکارنے سے کاموں میں برکت ہوجاتی ہے تو جواب دیا گیا کہ جن لوگوں نے معبودانِ باطلہ کو قرب کداوندی کا وسیلہ اور ذریعہ بنا رکھا تھا اور مصائب و حاجات میں ان کو پکارتے تھے۔ جب ہم نے ان کو پکڑا تو انہوں نے ان کی کوئی مدد نہ کی اور نہ ان کی پکار سے ان پر کوئی تاثیر و برکت ہی ظاہر ہوئی، بلکہ دور دور تک ان کے خود ساختہ کارسازوں کا نام و نشان تک نہ ملا یہ ایک محض جھوٹ تھا اور خود ساختہ بات تھی کہ وہ کارساز ہیں اور ان کی پکار میں برکت ہے۔ ھلا نصرھم الہتہم التی تقربوابھا بزعہم الی اللہ لتشفع لہم حیث قالوا ھؤلاء شفعاءنا عند اللہ، ومعتہم من الہلاک الواقع بہم (قرطبی ج 16 ص 209) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(27) اور بلا شبہ ہم نے تمہارے ماحول اور آس پاس کی بستیوں کو بھی تباہ و برباد اور ہلاک کیا ہے اور ہم نے طرح طرح سے ان کے سامنے دلائل عبرت پیش کئے اور اپنی باتیں ان کو مختلف عنوان سنائیں اور بتائیں تاکہ وہ باز آجائیں۔ آس پاس کی بستیاں یعنی قوم ثمود اور قوم لوط وغیرہ عرب کے ایک جانب یمن اور دوسری جانب شام تھا اہل مکہ عام طور سے ان علاقوں میں تجارت کے لئے سفر کیا کرتے تھے اور ان بستیوں کو اجڑا ہوا دیکھتے تھے اکثر و بیشتر یہ بستیاں شارع عام پر پڑتی تھیں اور آتے جاتے دکھائی دیتی تھیں جیسا کہ ہم سورة سبا میں اور دوسری جگہ بیان کر آئے ہیں مختلف انداز اور مختلف عنوان سے ان کو سمجھاتے رہے لیکن وہ نہ مانے تو بالآخر ہم نے ان کو ہلاک و برباد کردیا۔