Surat Muahammad

Surah: 47

Verse: 8

سورة محمد

وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فَتَعۡسًا لَّہُمۡ وَ اَضَلَّ اَعۡمَالَہُمۡ ﴿۸﴾

But those who disbelieve - for them is misery, and He will waste their deeds.

اور جو لوگ کافر ہوئے انہیں ہلاکی ہو اللہ ان کے اعمال غارت کر دے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَالَّذِينَ كَفَرُوا فَتَعْسًا لَّهُمْ ... But as for those who disbelieve -- misery awaits them, This misery is the opposite of making firm the footholds of the believers who support the cause of Allah and His Messenger. It has been confirmed in a Hadith that Allah's Messenger said, تَعِسَ عَبْدُالدِّينَارِ تَعِسَ عَبْدُالدِّرْهَمِ تَعِسَ عَبْدُالْقَطِيفَةِ تَعِسَ وَانْتَكَسَ وَإِذَا شِيكَ فَلَ انْتَقَش Misery awaits the servant of the Dinar; misery awaits the servant of the Dirham; misery awaits the servant of velvet. Misery awaits him, and degeneracy; and if he is pricked by a thorn, may he not find anyone to pull it for him. This means may Allah not cure him. Then Allah says, ... وَأَضَلَّ أَعْمَالَهُمْ and (Allah) will make their deeds vain. meaning, He will nullify them and make them fruitless. Thus, Allah says,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠] تعسا کا لغوی مفہوم :۔ تعسًا کے معنی ٹھوکر کھا کر گرنا اور پھر اٹھ نہ سکنا ہے یا کسی گڑھے میں گر کر ہلاک ہوجانا ہے (مفردات) گویا اللہ کے دین کی مدد کرنے والوں کے تو اللہ تعالیٰ پاؤں جما دیتا ہے اس کے برعکس منکروں کو منہ کے بل گرا کر ہلاک کردیا جاتا ہے اور مومنوں کی تو مدد کی جاتی ہے جبکہ کافروں کے سب کئے کرائے پر پانی پھیر دیا جاتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) والذین کفروا فتعسا لھم واصل اعمالھم :” تعسا “ کا معنی ٹھوکر کھا کر گرنا اور پھر اٹھ نہ سکنا ہے ، یا کسی گڑھے میں گر کر ہلاک ہوجانا ہے۔ (مفردات) گویا اللہ کے دین کی مدد کرنے والوں کے تو اللہ تعالیٰ پاؤں جما دیتا ہے۔ اس کے برعکس منکروں کو منہ کے بل گرا کر ہلاک کر دیاج اتا ہے اور مومنوں کی تو مدد کی جاتی ہے جب کہ کافروں کے تمام اعمال برباد اور ان کے کئے کرائے پر پانی پھیر دیا جاتا ہے۔ (کیلانی) (٢) ” تعسا “ کا فعل ” منع “ اور ” سمع “ دونوں سے آتا ہے۔ ” تعسا “ مصدر مفعول مطلق ہے جس کا فعل حذف ہونا واجب ہے :” ای تعسوا تعساً “ پھر ” تعسوا “ کو حذف کر کے ” تعساً “ مصدر کو اس کے قائم مقام کردیا اور فعل کے فاعل جمع مذکر غائب کی ضمیر کو ظاہر کردیا۔ ابن ہشام نے فرمایا کہ ” لھم “ میں لام تبین کا ہے جو ” تعسا “ کے فاعل کے بیان کے لئے ہے۔ معنی یہی ہے کہ وہ ہلاک ہوئے، بری طرح ہلاک ہونا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَتَعْسًا لَّہُمْ وَاَضَلَّ اَعْمَالَہُمْ۝ ٨ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ تعس التَّعْس : أن لا ينتعش من العثرة وأن ينكسر في سفال، وتَعِسَ تَعْساً وتَعْسَةً. قال تعالی: فَتَعْساً لَهُمْ [ محمد/ 8] . ( ت ع س ) التعس ۔ اصل تعس کے معنی ہیں لغزس کھاکر کرنا اور پھر اٹھ نہ سکنا پستی میں گر کر کسی چیز کا ٹوٹ جا تا اور یہ تعس ( س ) تعسا وتعسۃ کا مصدر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَتَعْساً لَهُمْ [ محمد/ 8] . ان کے لئے ہلاکت ہے ۔ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور جو کفار بدر کے دن مقابلہ کے لیے آئے ان کے لیے تباہی اور بربادی ہے اور حق تعالیٰ ان کی تمام کوششوں اور اعمال کو کالعدم کردے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨ { وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَتَعْسًا لَّہُمْ وَاَضَلَّ اَعْمَالَہُمْ } ” اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا تو ان کے لیے نا کامی ہے اور وہ ان کے تمام اعمال کو برباد کر دے گا۔ “ تَعْسکا معنی ٹھوکر کھا کر منہ کے بل گرنا ہے ‘ گویا ناکام و نامراد اور ذلیل و رسوا ہونا۔ اور اس سے مراد ہلاکت بھی ہے۔ یعنی جن لوگوں نے کفر کی روش اختیار کی وہ دنیا کی زندگی میں بھی خائب و خاسر اور ذلیل و رسوا ہوں گے ‘ ٹھوکریں کھا کر منہ کے بل گرنا ان کا مقدر ہوگا۔ قیامت کے دن ایسے لوگ راندئہ درگاہ کردیے جائیں گے اور حصول دنیا کے لیے کی جانے والی ان کی تمام جدوجہد ان کے کسی کام نہیں آسکے گی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

13 Literally, to 's is to stumble and fall down on the face.

سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :13 اصل الفاظ ہیں فَتَعْساًلَّھُمْ ۔ تعس ٹھوکر کھا کر منہ کے بل گرنے کو کہتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(47:8) والذین کفروا۔ وائو عاطفہ الذین اسم موصول جمع مذکر ۔ کفروا ماضی جمع مذکر غائب صلہ اپنے موصول کا۔ اور جنہوں نے کفر کیا۔ اور جو کافر ہیں۔ جملہ شرط ہے۔ فتعسالہم ف جواب شرط کے لئے تعسا مصدر (باب فتح ضرب) سے آتا ہے لغات القرآن۔ باب سمع سے آتا ہے۔ (المفردات) بمعنی ہلاکت، خواری، گرپڑنا ۔ ٹھوکر لگنا۔ اصل میں اس کے معنی ٹھوکر کھا کر اوندھے منہ گرنا اور پھر اٹھ نہ سکنا کے ہیں۔ فتعسالہم۔ سو ان کے لئے ہلاکت ہے۔ مختلف علماء کے اس کے متعلق مختلف اقوال ہیں :۔ (1) حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا :۔ ان کے لئے اللہ کی رحمت سے دوری ہے۔ (2) ابوالعالیہ نے ترجمہ کیا ہے سقوط۔ یعنی مغلوبیت، گراوٹ۔ (3) ضحاک نے کہا۔ ناکامی۔ (4) ابن زید نے کہا پراگندگی۔ (5) فراء نے کہا تعسا مصدر ہے اور یہ جملہ دعائیہ ہے۔ (6) بعض علماء نے کہا کہ اس کا معنی ہے ۔ دنیا میں ٹھوکر کھانا آخرت میں دوزخ میں گرنا ۔ واضل اعمالہم۔ اور وہ ان کے اعمال برباد کر دے گا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 ان کے وہ اعمال جن کو وہ نیک خیال کرتے ہیں کیونکہ ایمان کے بغیر کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں قبل نہیں ہوسکتا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

9۔ غرض کفار دارین میں خاسر رہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

والذین کفروا فتعسالھم واضل اعمالھم (٤٧ : ٨) “ وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ہے ، تو ان کے لئے ہلاکت ہے ، اور اللہ نے ان کے اعمال کو بھٹکا دیا ہے ”۔ یہ نصرت اور ثابت قدمی کے بالکل متضاد حالت ہے۔ اللہ کی طرف سے بدبختی کی دعا دراصل ہلاکت ہے ، اور ناکامی اور نامرادی کا اعلان ہے اور اعمال کے ضائع ہونے کا مطلب ہے ، ان کے اعمال ضائع ہوجائیں گے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مومنین کا انعام بیان کرنے کے بعد کافروں کی بدحالی بیان فرمائی ﴿ وَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَتَعْسًا لَّهُمْ وَ اَضَلَّ اَعْمَالَهُمْ ٠٠٨ ﴾ (اور جن لوگوں نے کفر کیا ہلاکت ہے ان کے لیے اور اللہ نے ان کے اعمال ضائع كردئیے) دنیا میں مومنین کے ہاتھوں ان کی تباہی ہے اور آخرت میں بھی ان کے لیے ہلاکت یعنی عذاب شدید اور دائمی ہے ﴿ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَرِهُوْا مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاَحْبَطَ اَعْمَالَهُمْ ٠٠٩﴾ (اب لوگوں کی یہ ہلاکت اور اعمال کا حبط ہونا اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے اس کو ناپسند کیا جو کچھ اللہ نے نازل کیا لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال حبط فرما دئیے۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

8:۔ ” والذین کفروا۔ الایۃ “ بیان حال کفار، مومنین کے مقابلے میں کفار کے لیے دنیا میں قتل وہلاکت اور آخرت میں رسوا کن عذاب ہے اور ان کے اعمال بیکار و رائیگاں ہیں۔ ” ذلک بانہم الخ “ یہ مشرکین کے انجام کا سبب ہے۔ ان کا یہ انجام اس وجہ سے ہوا کہ انہوں نے توحید اور دیگر احکام پر مشتمل اللہ کی کتاب کو نفرت و کراہیت کی نگاہوں سے دیکھا اس لیے ان کے تمام اعمال ضائع کردئیے اگر ان کے اعمال کے ساتھ ایمان کی دولت بھی ہوتی، تو ان پر اجر وثواب ملتا۔ ” ما انزل اللہ من القران لما فیہ من التوحید وسائر الاحکام المخالفۃ لما الفوہ واشتہیتہ انفسہم الامارۃ (روح ج 26 ص 45) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(8) اور جو لوگ منکر ہیں ان کے لئے تباہی اور ہلاکت ہے اور کھو دیئے ان کے کئے اور ان کے اعمال کالعدم کردیئے۔ یعنی مقابلے کے وقت دنیا میں ہلاکت اور آخرت میں اعمال کا نیست ونابود ہوجانا غرض دارین میں زیاں و خسران آگے سبب اس نقصان کا ذکر فرمایا۔